Monday, August 30, 2010

راویان حدیث

راویان حدیث

سلیم بن قیس ھلالی

شیخ ابو صادق سلیم ‘قیس کوفی کے بیٹے اور امام علی‘ امام حسن‘ امام حسین اور امام زین العابدین علیھم السلام کے اصحاب میں سے تھے‘ آپ جوانی میں حضرت عمر کی حکومت کے دوران مدینہ میں داخل ہوئے اور نبی کریم کے اصحاب و انصار سے آشنائی کے بعد حضرت علی کا ساتھ دینے کو انتخاب کیا۔ آپ کا سلمان‘ ابوذر اور مقداد کے ساتھ انتہائی گہرا اور دوستانہ رابطہ تھا۔ آپ نبی کرم کی سیرت اور آپ کی وفات کے بعد کے حالات کے بارے میں لوگوں سے پوچھتے اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو بھی یاد رکھتے۔
حضرت عمر اور عثمان کے زمانہ میں حدیث پر پابندی کے باوجود اپنی احادیث کو چھپائے رکھتے یہاں تک کہ حضرت علی کی حکومت کے دوران ان حقائق لکھنے کی فرصت آپ کو میسر آئی سلیم جنگ جمل‘ صفین اور نہروان میں امام علی کے ساتھ شریک ہوئے اور امام حسن و حسین علیھم السلام کے زمانہ میں آپ کا ساتھ دینے کو ہی ترجیح دی اور واقعہ کربلا کے دوران احتمالاً آپ قید تھے امام حسین اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد امام زین العابدین کا ساتھ دیا اور 75ھ میں حجاج بن یوسف کے ظلم و ستم سے تنگ آ کرایران چلے گئے اور فارس کے ایک شہر نوبندجان میں مقیم ہو گئے۔
اس شہر میں ابان بن ابی عباس نامی نوجوان سے واقفیت ہوئی اور دینی مسائل کو سیکھنے کا شوق باعث بنا کہ سلیم بن قیس نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں امام علی اور آپ کے بیٹوں اور دیگر اصحاب رسول کے فرامین کو ایک کتاب کی صورت میں تدوین کیا۔
76ھ میں سلیم بن قیس کی وفات کے بعد ابان مدینہ گئے اور امام زین العابدین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلیم کی کتاب کو آپ کے سامنے پیش کیا ۔ امام کے دو صحابیوں ابوطفیل کنانی اور عمر ابی سلمہ نے تین دن کتاب کے مطالب کو امام کو پڑھ کر سنایا تو امام سجاد نے فرمایا سلیم نے سچ کہا ہے خدا اس کی مغفرت کرے یہ سب ہمارا کلام ہے کہ جس سے ہم آگاہ ہیں۔
امام نے اس فرمان کے ساتھ شیعہ کی پہلی تدوین شدہ کتاب کی تائید کی۔ سلیم کا نام معتبر شیعہ اصول لکھنے والے ایک مئولف کی حیثیت سے درج ہے۔ ایک کتاب کہ جو کتاب سلیم بن قیس کے نام سے مشہور ہے علماء کرام کی توجہ کا باعث بنی ہے اور ان کا نظریہ ہے کہ گزشتہ زمان کے باوجود اس کے کتاب کے مطالب تحریف سے محفوظ رہے ہیں۔
ابان بن ابی عیاش ‘ ابراہیم بن عثمان اور ابراہیم بن عمر یمانی سلیم کے شاگردوں میں سے ہیں۔

محمد بن مسلم
آپ کی کنیت ابو جعفر اور آپ اہل طائف اور کوفہ میں رہائش پذیر اور اعورد طحان کے نام سے مشہور ہیں۔
محمد ‘ مسلم کے بیٹے‘ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھا السلام کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے آپ کوفہ کے عالم ترین اور متقی الدین افراد میں سے تھے‘ اور 150ہجری میں سترسال کی عمر میں وفات پائی ۔
محمد بن مسلم اصحاب اجماع میں سے ہیں۔ آپ سے نقل شدہ ہر روایت علماء کے نزدیک صحیح ہے علم رجال کے ماہر نجاشی آپ کو شیعہ کی عزت اور متقی ترین فقیہ سمجھتے تھے۔ شیخ مفید بھی آپ کو ان فقہا میں سے جانتے ہیں کہ جن پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔
آپ نے چار سال تک مدینہ میں رہتے ہوئے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھا السلام سے احکام دین اور معارف اسلامی سیکھے اور اپنی بابرکت عمر کے دوران امام محمد باقر سے 30ہزار اور امام جعفر صادق سے 16ہزار احادیث کو نقل کیا۔
آپ کی علمی شخصیت کے بارے میں اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جلیل القدر راوی ابن ابی یعفور‘ امام جعفر صادق سے وہ سوال کہ جو نہیں جانتا اور امام تک اس کی دسترس بھی نہیں پوچھتا ہے تو امام محمد بن مسلم کو پتہ بتاتے ہیں اہل سنت کے علماء میں بھی آپ کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔
ابو حنیفہ بھی اپنے مسائل کو ایک واسطہ کے ذریعہ آپ سے دریافت کرتا ہے۔
محمد بن مسلم ایک دولتمند شخص تھے۔ تو اس وقت امام باقر نے فرمایا کہ تواضع کرو آپ نے ایک ٹوکرے میں کھجوریں اور ترازو اٹھا کر مسجد کے سامنے بیچنا شروع کر دیا۔ آپ کے رشتہ داروں نے اس کام سے آپ کو منع کیا تو آپ نے فرمایا‘ میرے مولا نے مجھے اس چیز کا حکم دیا ہے میں اپنے مولاکی مخالفت نہیں کر سکتا۔
آپ کے رشتہ داروں نے کہا اگر آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو ایک آٹا پیسنے والی چکی لگا لیں تو آپ نے ان کی اس تجویز سے اتفاق کیا اور چکی لگا لی اسی لئے آپ کو طحان یا آٹا بیچنے والا بھی کہتے ہیں۔
امام باقر آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ ایک سفر کے بعد جب محمد بن مسلم مدینہ میں داخل ہوئے اور مرض کی شدت کی وجہ سے امام کی خدمت میں شرف یاف نہ ہو سکے تو امام نے اپنے ایک غلام کے ذریعہ ایک شربت محمد بن مسلم کے لئے بھیجا کہ جس کو پینے کے فوراً بعد آپ کی صحت ٹھیک ہو گئی تو آپ فوراً امام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
محمد بن مسلم نے ابو حمزہ ثمالی‘ حمران‘ ابوالصباح اور دوسروں سے روایت کو نقل کیا ہے اور ابن رئاب‘ صفوان بن یحییٰ ‘ یونس بن عبدالرحمن جیسے بزرگوں نے آپ سے روایت نقل کی ہیں۔

اسماء بنت عمیس
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ علیھم السلام کے اصحاب میں علم دوست اور بامعرفت خواتین بھی تھیں۔کہ جنہوں نے روایات کو بیان کر کے اپنی قابلیت کو دکھایا ۔علم رجال کے ایک حصہ میں ان عورتوں کو متعارف کرایا گیا ہے
اسماء کہ جو عمیس کی بیٹی اور ہمسر رسول خدا ہیں۔ آپ نے پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب سے شادی کی اور آپ کے ساتھ ہی حبشہ ہجرت کی 8ئہجری میں حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکر سے آپ کی شادی ہوئی اور حضرت محمد بن ابی بکر اس شادی کا ہی ثمر تھے۔
حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد آپ نے امام علی علیہ السلام سے نکاح کیا۔ اورآپ 40ئھ میں فوت ہوئیں۔ اسماء اسلام میں سبقت لانے والوں میں سے تھیں اور ہمیشہ خاندان پیغمبر سے محبت کرنے والی اور وفادار رہیں۔ اورجب سے مدینہ آئیں حضرت فاطمہ زہرا کے لئے مہربان ماں کی طرح اور اسرار کی محرم رہیں۔
آپ نے حضرت زہرا کی خواہش کے مطابق ایک تابوت بنوایا تاکہ آپ کا بدن مبارک ظاہر نہ ہو۔ حضرت فاطمہ زہراء کی وصیت کے مطابق اسماء نے امام علی کو آپ کے پاک بدن کو غسل دینے میں مدد دی۔
اسماء قضیہ فدک کے گواہ اور حدیث نحن معاشر الانبیاء لا نورث ماتر کناہ صدقہ کی تکذیب کرنے والی تھیں لیکن حضرت ابو بکر نے آپ کی گواہی کو قبول نہ کیا۔
امام محمد باقر ایک روایت میں سات جنتی بہنوں کے نام بیان کرتے ہیں اور ان کے لئے خدا کی رحمت کے طلبگار تھے۔ ابتداء میں اسماء بنت عمیس کا نام تھا۔
پیغمبر اکرم کی ایک حدیث میں مومن بہنوں میں اسماء کا نام آیا ہے۔
شیخ طوسی آپ کو اصحاب رسول خدا سے مانتے ہیں۔
اسماء پیغمبر اکرم اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے روایت بیان کرتی ہیں۔
عبداللہ بن جعفر‘ قاسم بن محمد بن ابی بکر‘ فاطمہ بنت علی اور عبداللہ بن عباس اور دوسروں نے آپ سے حدیث کو سنا۔

زرارة بن اعین
آل اعین ‘ کوفہ میں شیعہ مذہب خاندان تھا۔ یہ خاندان امام سجاد سے غیبت کبریٰ تک اہل بیت کے ساتھ تھے۔ اعین کا معنی کھلی آنکھ والا ہے۔ زرارہ بن اعین کے والد ایک رومی غلام تھے کہ جنہیں قبیلہ بنی شیبان نے شہر حلب سے خریدا اور قرآن کریم پڑھانے اور تعلیمات دین سکھانے کے بعد آزاد کر دیا۔ اعین کے بیٹے بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں۔ زرارہ کا نام اعین کے دیگر بیٹوں سے زیادہ روشن تر ہے۔
زرارة 80ئھ میں پیدا ہوئے اور 150ئھ میں امام صادق کی شہادت کے دو ماہ سے کم عرصہ بعد میں فوت ہوئے آپ امام محمد باقر و امام جعفر صادق کے مخلص ترین اور قابل اعتماد ترین راویوں میں سے تھے۔ آپ نے فقہ‘ حدیث ‘ کلام ‘ ادب اور شعر کو سیکھا لیکن فقہ میں آپ کی مہارت زیادہ ہے فقہ کا کوئی باب ایسا نہیں کہ جس میں زرارہ کی حدیث موجود نہ ہو۔ شیعہ حدیثی آثار میں زرارہ سے دو ہزار حدیث منقول ہے۔
زرارہ ان لائق اور با معرفت ترین افراد میں شامل ہے کہ جسے وہ مقدس کتاب دیکھنا نصیب ہوئی جو پیغمبر اکرم نے حضرت علی کو املا کی صورت احکام شریعت لکھائے تھے۔
امام باقر نے زرارہ کو جنت کی بشارت دی اور فرمایا۔ خد ا پر یہ حق ہے کہ آپ کو جنت میں جگہ دے۔ امام صادق نے بھی آپ سے جنت کا وعدہ کیا۔
علماء رجال نے بھی آپ کی تعریف کی ہے۔ معروف شیعہ رجال کے عالم نجاشی کہتے ہیں۔ زرارہ ہمارے بزرگ اساتذہ‘ فقیہ‘ متکلم‘ شاعر‘ ادیب‘ علم قرائت کے استاد تھے۔ تمام ذاتی و دینی خصوصیات آپ میں جمع تھیں۔
آپ سچے‘ قابل اعتماد‘ اپنے زمانے کے تمام اصحاب میں سے مقدم تھے۔ زرارہ کی بہت سی تالیفات ہیں۔ لیکن صرف الاستطاعة و الجبر والعھود کتاب ہی آپ کے نام سے لکھی گئی۔ ہشام بن سالم‘ عمر بن اذینہ‘ بن دواج آپ کے اساتذہ اور بکیر بن اعین‘ حمران بن اعین وغیرہ نے آپ سے حدیث کو نقل کیا ہے۔

صفوان بن یحییٰ
صفوان ‘ یحییٰ کے بیٹے‘ آپ کی کنیت ابو محمد بجلی کوفی ہے۔ آپ قیمتی ترین کپڑا سابری کے نام سے فروخت کرتے تھے اسی لئے آپ کو سابری بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد امام صادق کے اصحاب میں سے تھے۔ آپ خود امام کاظم‘ امام رضا ‘ امام نقی کے ساتھیوں اور راویوں اور امام رضا کے وکیل تھے آپ 210ئھ میں فوت ہوئے۔
امام تقی علیہ السلام کو آپ سے خاص محبت تھی ۔ امام نے آپ کی وفات پر اپنی طرف سے کفن اور حنوط بھیجا اور امام کاظم کے بیٹے اسماعیل کو حکم دیا کہ آپ کی نماز جنازہ پڑھائے اورایک روایت کے مطابق صفوان سے اپنی رضایت کو بیان کیا۔
صفوان تجارت میں عبداللہ بن جندب اور علی بن نعمان کے شریک تھے۔ ایک دن انہوں نے بیت اللہ الحرام میں عہد کیا کہ جو کوئی پہلے فوت ہوا جو زندہ رہے وہ دوسرے کے لئے نماز‘ روز‘ زکوٰة دے گا۔ وہ دونوں پہلے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ صفوان دن میں 150رکعت نماز پڑھتے سال میں تین مہینے روزے رکھتے۔ ہر سال تین مرتبہ زکوٰة دیتے۔ جو مستحب کام بھی بجا لاتے ان دونوں کے لئے بھی انجام دیتے۔
صفوان اصحاب اجماع میں سے ہیں شیعہ علماء بالاتفاق آپ کی روایات کے صحیح ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ نجاشی آپ کو ثقہ‘ عین ثقہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ شیخ طوسی صفوان کو علماء حدیث کے نزدیک موثق ترین افراد میں سے سمجھتے ہیں۔ آپ اپنے زمانے کے عبادت گزار ترین افراد میں سے تھے۔
صفوان نے 30کتابیں تصنیف کیں اور آپ کا نام سلسلہ سند میں 1100سے زیادہ مرتبہ آیا ہے۔ صفوان نے ابن ابی عمیر‘ ابن بکیر ‘حماد بن عثمان‘ عبداللہ بن سنان اور دوسروں سے روایت کو سنا ہے اور احمد بن محمد بن ابی البزنطی‘ محمد بن خالد البرقی‘ فضل بن شاذان نیشاپوری وغیرہ نے آپ کی حدیث کو نقل کیا ہے۔

یونس بن عبدالرحمن
یونس‘ عبدالرحمن کے بیٹے تقریباً 125ئھ میں پیدا اور 208ئھ میں مدینہ میں فوت ہوئے۔ آپ اصحاب آئمہ علیھم السلام اور بلند مقام و منزلت کے حامل تھے۔ حج کے زمانے میں امام صادق کی زیارت کی لیکن آپ سے حدیث نقل نہیں کی۔ آپ نے روایات کو امام کاظم اور امام رضا سے سنا۔
یونس کی مدح و تعریف میں بہت سی احادیث آئی ہیں۔ امام رضا علم و فتویٰ کے لئے لوگوں میں آپ کی شناخت کراتے۔ امام کاظم کی شہادت کے بعد آپ کے بعض نمائندے منحرف ہو گئے کہ جو واقفیہ کہلائے انہوں نے یونس کے لئے بہت دولت و ثروت بھیجی تاکہ آپ کو حق کے راستہ سے ہٹائیں لیکن یونس نے ان کی کسی پیش کش کو قبول نہ کیا اور حق پر ثابت قدم رہے۔
بعض علماء کا نظریہ ہے کہ صفوان کا یہی رویہ باعث بنا کہ واقفیہ آپ کے دوستوں میں آپ کے روشن چہرہ کو ضرب لگائیں اور آپ کے خلا ف بدگوئی کریں۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ بصرہ کے کچھ لوگ امام رضا کی خدمت میں شرفیاب ہوئے امام یونس سے فرماتے ہیں کہ پردہ کے پیچھے چھپ جائیں۔ وہ گروہ امام کے حضور یونس کی بدگوئی کرنے کے بعد چلے گئے یونس پردہ کے پیچھے سے روتے ہوئے باہر آئے اور امام سے فرمایا میں آپ پر قربان ہو جاؤں آپ کی حمایت کرتا ہوں اور دوسروں کے نزدیک میری یہ حالت ہے۔
امام نے اس سے فرمایا۔ اے یونس ان کے کہنے سے تجھے کیا نقصان پہنچا ہے۔ جب کہ تیرا امام تجھ سے راضی ہے۔ یونس اگر تیری دائیں ہاتھ میں موتی ہو اور لوگ کہیں فضلہ ہے تو تجھے کیا نقصان پہنچے گا۔ اگر تمہارے ہاتھ میں فضلہ ہو اور لوگ کہیں موتی ہے تو کیا نفع تجھے حاصل ہو گا۔ یونس نے جواب دیا کچھ بھی نہیں۔
امام نے فرمایا تیرا حال بھی یہی ہے۔ اگر نیک ہو اور امام تجھ سے راضی ہے تو لوگ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
امام حسن عسکری جب آپ کی کتاب یوم ولیلة کو دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں۔ خداوند ہر حرف کے بدلے قیامت کے دن اسے ایک نور عطا کرے گا۔ ہشام بن سالم بن حکم‘ ابان بن عثمان آپ کے اساتذہ اور ابن ابی عمیر‘ ابو عبداللہ البرقی‘ محمد بن عیسیٰ نے آپ سے روایت کو سنا ہے۔

حسن بن محبوب
حسن‘ محبوب کے بیٹے‘ زراد یا سراد کوفی کے نام سے مشہور ہیں اور 224ئھ میں پیدا اور 75سال کی عمر میں فوت ہوئے۔
حسن بن محبوب امام کاظم اور امام رضا کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ آپ امام صادق کے 60شاگردوں سے حدیث کو نقل کرتے ہیں۔
حسن بن محبوب کو اصحاب اجماع سے سمجھا گیا ہے۔ آپ ایک جلیل القدر ‘ ثقہ اور اپنے زمانے کے چار بزرگ افراد میں سے ایک تھے۔ بقیہ تین افراد۔ یونس بن عبدالرحمن‘ صفوان بن یحییٰ‘ احمد بن محمد بن ابی نصیر بزنطی کے جوار کان اربعہ کے نام سے مشہور ہیں۔
سراد یا زرار کے نام یک شہرت کا سبب آپ کے تیسرے جد وھب ہیں کہ جوزرہ بنانے والے اور جریر بن عبداللہ بجلی کوفی کے غلام تھے۔ وھب امام سے درخواست کرتے ہیں کہ جریر سے اس کو خرید لیں اور جریر کہ جو معاویہ کا معتقد تھا ۔ وھب کو آزاد کرتا ہے تاکہ ولایت کے حق کو ضائع نہ کرے لیکن وھب امام علی کے معتقد تھا اور آپکا خادم ہو جاتا ہے۔
حسن اپنے باپ کے شوق سے روایت کولکھتا ہے اور ہر روایت کو لکھنے کے بدلے میں علی بن رئاب سے ایک درہم لیتا ہے۔
امام رضا نے اسے لکھا خداوند نے تمہاری زبان پر حکمت کو جاری کیا ہے اور تائید فرمائی کہ خدا نے تجھے سیدھے راستہ پر ہدایت کی ہے۔ اور تیری آخرت کو تجھ پر آسان کرے اور اپنی اطاعت میں تجھے کامیاب کرے۔
شیخ طوسی علم رجال کے عظیم عالم آپ کو قابل اطمینان سمجھتے ہیں۔ ابن داؤد حلی بھی آپ کے بارے میں فرماتے ہیں فقہا آپ سے جو روایت کرتے ہیں صحیح جانتے ہیں۔
المسیخة ابن محبوب کی پہلی تالیف ہے کہ جوعلم رجال کے موضوع پر لکھی گئی لیکن متاسفانہ اصحاب آئمہ کی دیگر کتب کی طرح ہمارے ہاتھوں تک نہیں پہنچی۔
الحدود‘ النوارد‘ النکاح و کتاب تفیسر جیسی کتابوں کو حسن بن محبوب کی تالیف سمجھا جاتا ہے۔ ابن ابی عمیر ‘ علی بن رئاب‘ ابن سنان‘ حماد بن عیسیٰ آپ کے سایتہ اور احمد بن ابی عبداللہ البرقی علی بن مھز یار اور عبداللہ بن صلت آپ کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔

احمد بن محمدبن ابی نصر البزنطی
احمد بن محمد کہ جو بزنطی کے نام سے مشہور ہیں امام رضا اور امام تقی کے محترم ترین اصحابمیں سے ہیں آپ 221ئھ میں فوت ہوئے بزنطی کے نام سے مشہور ہونے کی وجہ آپ کا پیشہ ہے کہ آپ بزنطی نامی کپڑا فروخت کرتے تھے یا سیتے تھے آپ اہل کوفہ میں سے ہیں۔ بزنطی اصحاب اجماع میں سے ہیں علماء جب روایت میں آپ کے نام تک پہنچتے ہیں اس سند سے معصوم تک اعتماد کرتے ہیں‘ شیخ طوسی فرماتے ہیں کہ ابتداء میں وہ واقفی مذہب تھے چونکہ آپ نے امام رضا کی امامت کے معجزات کو دیکھنے کے بعد حق کو قبول کرلیا اور پھر آپ کے بیٹے کی امامت کے قائل ہو گئے اور امام رضا کی خاص عنایت بھی آپ کے حصہ میں آئی۔
امام رضا کی بزنطی پر خاص توجہ کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک رات جب بزنطی آپ کی خدمت میں تھے اور جب جانا چاہا حضرت نے اپنی کنیز سے کہا کہ امام کے مخصوص بستر کو بزنطی کے لئے بچھاؤ وہ خود سوچتے تھے کہ کس کو میری طرح یہ اعزاز حاصل ہے۔ کہ ولی خدا کے گھر اس کے بستر پر سوئے اور جب یہ سوچ آپ کے دماغ میں آئی امام نے اس سے کہا احمد یاد رکھو امیرالمومنین صعصعہ بن صوحان کی عیادت کے لئے گئے اور واپسی پر فرمایا صعصعة یہ کہ تیری عیادت کی اپنے دینی بھائیوں پر گھمنڈ نہ کرنا۔ خدا سے ڈرو۔ متواضع رہو تاکہ خدا تجھے بلند مقام عطا کرے۔
شیخ طوسی اور نجاشی اور ثقہ امام رضا اور امام جواد کے عظیم المنزلت اصحاب میں سے سمجھتے ہیں۔ بزنطی کا نام سلسلہ سند میں سات سو مرتبہ آیا ہے۔ دو اماموں کے علاوہ ابن ابی یعفور ابن بکیر ‘ صفوان بن یحییٰ وغیرہ سے روایت کرتے ہیں۔ ابو عبداللہ البرقی‘ الحسین بن سعید‘ علی بن مھزیار آپ کے شاگرد وں اور راویان حدیث میں سے ہیں۔

عبداللہ بن جعفر الحمیری
ابو العباس عبداللہ بن جعفر حمیری قم کے بزرگ علماء اور شیعہ کے درخشندہ ستارے ہیں آپ امام علی نقی اور امام حسن عسکری کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ 290ئھ کو کوفہ میں داخل ہوئے کوفہ کے لوگ آپ کے بیانات سے استفادہ کرتے۔ آپ نے وہاں پر اپنے شاگردوں کی تربیت کرنا شروع کی۔ آپ یمنی الاصل سمجھے جاتے ۔
علماء علم رجال آپ کو ثقہ اور قابل اطمینان سمجھتے ہیں اور آپ کے بہت سے قلمی آثار کو بیان کرتے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
الامامة ‘ الدلائل‘ العظمة والتوحید‘ الغیبة والغیبة والحیرہ‘ الطب‘ المسائل و التوقیعات آپ کا ایک اور قیمتی اثر کہ جو باقی رہ گیا ہے قرب الاسناد ہے۔ قرب الاسناد وہ کتا ب ہے کہ جو قدیم محدثین میں رائج تھی۔ اس میں عالی السند احادیث اور امام تک کم واسطہ تک پہنچنے والی روایات کو جمع کیا گیا ہے۔ علی بن ابراہیم ‘ محمد بن عیسیٰ‘ یقطینی اور علی بن بابویہ بھی قرب الاسناد رکھتے ہیں لیکن صرف قرب الاسناد حمیری ہی اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
کہ جس میں نزدیک ترین سند امام صادق اور امام کاظم اور امام رضا تک پہنچنے والی روایات کو جمع کیا گیا ہے۔
ابراہیم بن شھریار‘ احمد بن حمزہ‘ محمد بن عیسیٰ آپ کے اساتذہ اور احمد بن محمد‘ سعد بن عبداللہ ‘ محمد بن سعید آزربائیجانی کو آپ کے شاگردوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
محمد بن عبداللہ آپ کے بیٹے نے بھی آپ کے علم سے فائدہ اٹھایا بعض قرب الاسناد کو آپ کے ساتھ نسبت دیتے ہیں۔

علی بن ابراہیم قمی
علی بن ابراہیم قم کے بزرگ مصنفین ‘ محدثین اور حدیث کے برجستہ ترین اساتذہ میں سے ہیں۔ شیعہ علماء رجال آپ کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں اور ثقہ فی الحدیث جیسی تعابیر استعمال کرتے ہیں
آپ کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ گویا آپ امام حسن عسکری کے زمانے میں شیعہ روات میں سے تھے اور 307ئھ تک زندہ رے آپ کی وفات کی صحیح تاریخ لکھی نہیں گئی۔
علی بن ابراہیم نے بہت سی روایات کو سنا اور بہت سی کتابوں کو تالیف کیا آپ وسط عمر میں نابینا ہو گئے۔ آپ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں یہی کافی ہے کہ ثقة الاسلام کلینی نے اپنی کتاب کافی میں آپ کی بہت سی احادیث کو بیان کیا ہے۔ دعاؤں کی سند‘ مسجد سہلہ کے اعمال کہ جو سب کے نزدیک قابل قبول ہیں کی سند آپ تک ہی پہنچتی ہے۔
آپ کے والد ابراہیم بن ہاشم امام رضا کے اصحاب میں سے اور یونس بن عبدالرحمن کے شاگرد تھے کہ جو کوفہ سے قم آئے آپ ان پہلے افراد میں سے ہیں کہ جنہوں نے اہل کوفہ کی احادیث کو قم میں نشر کیا۔ علماء قم میں ان روایات کا منتشر ہونا ان کی قبولیت کی دلیل ہے۔ آپ کے بیٹے علی نے بھی بہت سی روایات کو اپنے والد سے سنا۔
علی بن ابراہیم کا نام سات ہزار روایات میں موجود ہے اور تفسیر قمی کہ جو اس وقت بھی علماء و محقیقین کے لئے قابل استفادہ ہے آپ کی تالیفات میں سے ہے۔ الناسخ والمنسوخ‘ المغازی الشرائع اور قرب الاسناد آپ کی دیگر کتابوں میں سے ہیں۔
آپ نے احمد بن ابی عبداللہ ‘ اسحاق بن ابراہیم‘ عبداللہ بن الصلت‘ محمد بن عیسیٰ اور بہت سے دوسروں سے روایت کو سنا ہے اور شیخ کلینی ‘ حسن بن حمزہ علوی نے آپ سے روایت کو نقل کیا۔

حسین بن سیدا ھوازی
بزرگ شیعہ فقیہ‘ محدث حسین بن سعید اھوازی اورآپ کے بھائی حسن دونوں اصحاب امام رضا ‘ امام تقی ‘ امام نقی میں سے ہیں۔ آپ کے دادا حماد بن سعید امام زین العابدین کے دوستوں میں سے ہیں۔ یہ دونوں بھائی اہل کوفہ میں سے تھے۔ لیکن بعد میں اھواز منتقل ہو گئے اور حسین قم آئے اور حسن بن ابان کے گھر قیام کیا اور تقریباً 300ء ھ میں فوت ہوئے۔
شیعہ علماء نے ان دونوں بھائیوں پر اعتماد کیا ہے اور ثقہ اور جلیل القدر جیسے الفاظ سے تعریف کی ہے۔ دونوں بھائیوں نے شیعہ مذہب کی ترویج و اشاعت کے لئے بہت کوششیں کی ہیں۔ حسن بن سعید علی بن مھزیار اور اسحاق بن ابراہیم اور علی بن ریان کی ہدایت کا سبب بنے اور انہیں امام رضا کی خدمت میں پہنچایا۔ ان دونوں بزرگوں کی خصوصیات میں دونوں کا ملکر تالیفاتی کام انجام دینا ہے۔ علم رجال کے منابع میں 30آثار ان بھائیوں کے نام سے درج ہیں۔ حسین بن سعید کی کتاب الزھد خاص شہرت رکھتی ہے اور اس وقت بھی محققین اس سے بھرہ مند ہو رہے ہیں۔ ابن ندیم ان دونوں کی توصیف میں لکھتے ہیں ہر کسی سے فقہ ‘ آثار‘ مناقب اور علوم شیعہ میں دانا ترہیں۔
شیخ صدوق بھی حسین بن سعید کی کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ حسین بن سعید کا نام سلسلہ سند میں تقریبا ً پانچ ہزار مرتبہ آیا ہے۔ ابن ابی عمر‘ حسن بن محبوب‘ احمد بن محمد بن ابی نصر‘ عثمان بن عیسیٰ‘ حماد بن عیسیٰ آپ کے اساتذہ اور سعد بن عبداللہ‘ احمد بن محمد بن خالد‘ علی بن مھزیار اور ابراہیم بن ہاشم آپ کے شاگردوں اور روایت نقل کرنے والوں میں سے ہیں۔

احمد بن محمد بن خالد برقی
احمد بن محمد برقی کے نام سے مشہور امام جواد اور امام ھادی علیہا السلام کے اصحاب میں سے ہیں آپ کی کنیت ابو جعفر ہے۔ یوسف بن عمر آپ کے تیسرے دادا کو جیل میں بند کر دیا ہے اور زید بن علی کی شہادت کے بعد انہیں قتل کر دیا ہے۔ اس وقت خالد اپنے والد کے ساتھ قم ہجرت کی اور برقہ نامی دیہات میں رہائش پذیر ہو جاتے ہیں اسی لئے آپ کو برقی کہا جاتا ہے۔ احمد بزرگ شیعہ علماء اور مئولفین میں سے ہیں آپ 274ء یا 280ئھ میں فوت ہوئے۔
بہت سے علماء رجال نے آپ کو ثقہ اور قابل اطمینان جانا ہے۔ لیکن اس اعتبار سے کہ ضعیف افراد سے حدیث کو نقل کیا ہے۔ قمی علماء نے مذمت کی ہے۔ اس اعتبار سے احمد بن محمد بن محمد عیسیٰ کہ جو اس زمانہ میں علماء قم کے رئیس تھے انہیں قم سے دربدر کر دیا۔ لیکن کچھ مدت کے بعد آپ کو واپس بلا لیا اور آپ کے جنازہ میں ننگے سر و پاؤں شرکت کی تاکہ آپ سے کی گئی توہین کا کچھ ازالہ کرسکیں۔
نجاشی کہ جو شیعہ علم رجال کی مشہور شخصیت ہیں فرماتے ہیں۔ آپ خود مورد اطمینان تھے۔ اورضعیف افراد سے بھی روایت بیان کرتے ہیں اور مرسل و بغیر سند حدیث پر بھی اعتماد کرتے ہیں شیخ الطائفة اور علامہ حلی بھی آپ کو قابل اطمینان سمجھتے ہیں۔ برقی کے بہت سے قلمی آثار ہیں۔ مشہور کتاب المحاسن کہ جو سو کتابوں پر مشتمل مختلف فقہی موضوعات‘ احکام‘ آداب‘ علل الشرائع وغیرہ کو جمع کیا ہے۔ اب ان کتابوں میں سے صرف گیارہ کتابیں ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ کہ فقط دو جلدیں چھپ سکی ہیں۔
علامہ مجلسی برقی کی کتاب محاسن کو معتبر شیعہ اصول میں سے سمجھتے ہیں۔ شیخ صدوق اور کلینی بھی محاسن پر اعتماد کرتے ہیں اور بہت سی روایات کو اس سے نقل کرتے ہیں۔
برقی دو سو آدمیوں سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ جن میں سے بعض یہ ہیں۔ احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی‘ حسن بن محبوب‘ حماد بن عیسیٰ اسی طرح محمد بن الحسن الصفار‘ علی بن ابراہیم ‘ محمد بن الحسن بن الولید نے آپ سے روایات کو سنا ہے۔

محمد بن ابی عمیر
محمد‘ زیاد کے بیٹے‘ آپ کی کنیت ابو احمد ازدی ہے۔ آپ کو اکثر اپنے والد کی کنیت سے ہی مشہور ہیں۔ آپ امام موسیٰ کاظم ‘ امام علی رضا ‘امام محمد تقی کے اصحاب میں سے ہیں اور 217ئھ میں فوت ہوئے۔ شیعہ و سنی علماء نے آپ پر اطمینان کیا ہے۔
آپ اصحاب اجماع اور اصول اربعماة میں سے ایک اصول کے مئولف بھی ہیں۔ آپ اپنے زمانے کے عابد ترین اور پرہیز گار ترین افراد میں سے تھے۔
حافظ ‘ مشہور سنی عالم دین‘ قحطان کے لوگوں کی عدنان پر برتری میں ابن ابی عمیر کا نام لیتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے۔
محمد بن ابی عمیر حدیث کو بیان کرنے میں نہایت دقت سے کام لیتے تھے۔ باوجود اس کے کہ آپ نے اہل سنت علماء سے بھی بہت کچھ سنا تھا لیکن کہیں بھی ان سے نقل نہیں کیا۔ تاکہ آئمہ کا کلام ان کے کلام سے مل نہ جائے۔ ہارون الرشید نے آپ کو مجبور کیا کہ امام کاظم کے کچھ شیعوں کے نام بتائے یا کسی شہر کے قاضی کے منصب کو قبول کرے لیکن آپ نے اس کی ان تجاویز سے ہرگز اتفاق نہ کیا۔ اسی لئے اس نے آپ کو قید میں بند کر دیا اور تازیانے مارے گئے۔ اسی دوران آپ کی بہن نے آپ کی 94جلد کتابوں کو زمین میں چھپایا کہ جو بعد میں ضائع ہو گئیں۔ آپ انتہائی عبادت گزار تھے بعض اوقات صبح کی نماز کے بعد سجدے میں سر رکھتے اور ظہر کے وقت اٹھاتے۔
ابن ابی عمیر بھی ایک تاجر اور دولتمند شخص تھے جب چار سال کے بعد جیل سے نکلے تو آپ کی تمام جمع شدہ ثروت ختم ہو چکی تھی۔ اس وقت ایک شخص کہ آپ کا مقروض تھا اس نے اپنے گھر کو بیچا اور ایک ہزاردرہم آپ کے لئے لایا لیکن آپ نے وہ رقم لینے سے انکار کر دیا اور کہا بے شک مجھے ایک درہم کی بھی ضرورت ہے لیکن امام صادق نے فرمایا‘ مقروض شخص کو قرض کی وجہ سے اپنے گھر سے نہیں نکالنا چاہئے۔
آپ کی بعض کتب میں الاحتجاج فی الامامة‘ الکفروالایمان‘ اختلاف الحدیث وغیرہ شامل ہیں ابوبصیر‘ ابان بن عثمان اور جمیل دراج‘ جیسی بزرگ شخصیات آپ کے اساتذہ میں سے ہیں اور ابوعبداللہ برقی‘ ابراہیم بن ہاشم اور محمد بن عیسیٰ وغیرہ جیسوں نے آپ سے روایت کو سنا ہے۔

شیخ طوسی
ابو جعفر محمد کہ جو شیخ طوسی کے نام سے مشہور ہیں398ئھ رمضان المبارک کے مہینہ میں طوس کے مقام پر پیدا ہوئے۔ 1408ئھ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعداس وقت کے دارالحکومت بغداد چلے گئے۔ اور وہاں پر جا کر شیخ مفید کی سربراہی میں دینی تعلیم کے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ اس وقت آپ کی عمر 23 تھی شیخ مفید کے درس میں شرکت کی وجہ سے جلد ہی آپ اپنے استاد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔
آپ نے شیخ مفید سے پانچ سال تک کسب فیض کیا اور اسی دوران اپنے استاد کی کتاب المقنعہ کہ جو شیعہ فقہ کی مختصر کتا ب کی شرح لکھی اور شیخ مفید کی وفات تک کتاب طہارت کو مکمل کیا اسی طرح شیعہ کی چار معتبر کتابوں میں سے ایک کتاب تہذیب الاحکام آپ کی جوانی کی یادگار ہے۔
شیخ طوسی نے شیخ مفید کی وفات کے بعد 23سال تک سید مرتضی سے علمِ کلام و فقہ اور اصول کے دروس سے استفادہ کیا اور426ئہجری سید مرتضی کی وفات کے بعد شیعہ حوزہ علمیہ کے رئیس بن گئے جبکہ اس وقت شیخ مفید کے نسبت سے لائق شاگرد جیسے کرا چکی اور نجاشی زندہ تھے۔
شیخ طوسی 447ئھ میں بغداد کے شیعوں کے قتل عام کے وقت بغداد سے نجف اشرف کہ جو ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ رہائش پذیر ہو گئے۔ آپ کے دروس کی وجہ سے نجف ایک بہت بڑے شیعہ حوزہ علمیہ کی شکل اختیار کر گیا۔ کہ جہاں سے نامور شیعہ علماء پیدا ہوئے آپ نے 22محرم 460ئھ میں وفات پائی۔
شیخ طوسی کو شیخ الطائفة کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس وقت کے بہت سے نامور علماء آپ کے شاگرد تھے اور اکثر حدیث کے اجازے آپ پر منتھی ہوتے آپ نے حدیث‘ فقہ ‘ رجال میں بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں شیعہ حدیث کی چار اہم کتابوں میں سے دو آپ کی تالیف کردہ ہیں۔

آپ کے بعض قلمی آثار درج ذیل ہیں۔
”تھذیب الاحکام‘ الاستبصار‘ النھایة ،فہرست‘ الخلاف ،التبیان‘ المبسوط‘ رجال اور مصباح المتھجد“300مجتہدین آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔
آپ کے بیٹے ابو علی کہ جو مفید ثانی کے نام سے مشہور ہیں‘ شہر آشوب مازندرانی قاضی بن براج‘ فتال نیشیاپوری آپ کے نامور شاگردوں میں سے ہیں۔

ابو بصیر
ابو بصیر‘ اصحاب امام باقر و امام صادق علیھا السلام کہ جو یحییٰ بن ابی القاسم اسدی اور میت بن بختر مرادی کے ناموں سے مشہور ہیں۔
بہت سی روایات میں ابو بصیر کا نام بغیر کسی قید کے سند میں ذکر کیا گیا ہے کہ دیگر قرائن کی مدد سے ہی راوی کی شخصیت کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ بہت سے علماء علم رجال نے آپ کو ثقہ اور مورد اطمینان قرار دیاہے۔
ابو بصیر یحییٰ‘ ابو القاسم اسدی کے بیٹے‘ شیعہ علماء میں سے تھے آپ 150ئھ میں فوت ہوئے‘ آپ کی کنیت ابو محمد ہے ممکن ہے کہ آپ کو ابو بصیرا س لئے کہا جاتا ہے چونکہ آپ بینائی سے محروم تھے۔ ابو بصیر اسدی‘ امام باقر ‘ صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے اور بہت سی فقہی‘ اعتقادی روایات آپ نے نقل کی ہیں۔ آپ کا شمار شیعہ رہبری کے ایک قطب کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ آپ نے فکری و اعتقادی لحاظ سے مختاریہ اور زیدیہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
ابو بصیر اسدی نے زندگی کے آخری دو سال امام کاظم کی امامت کو شروع ہوئے دو سال گزرے اور امام کاظم کا ساتھ دیتے ہوئے فطحیہ کا مقابلہ کیا۔ اور امام کاظم کے ممتا ز اصحاب میں سے آپ کا شمار ہوتا تھا۔ ابو بصیر اصحاب اجماع میں سے ہیں تمام شیعہ علماء نے آپ کی تعریف کی ہے۔
ابو بصیر حدیث کو نقل کرتے ہیں کہ جو لوح حدیث کے نام سے مشہور ہے اور بارہ اماموں پر اعتقاد کو مطرح کیا گیا ہے۔
آپ نے ابو حمزہ ثمالی‘ صالح بن میثم اور دوسروں سے روایت نقل کی ہے اور ابان بن عثمان ‘ عاصم بن حمید‘ عبداللہ بن حماد انصاری جیسوں نے آپ سے روایت کو نقل کیا ہے۔

ابو حمزہ ثمانی
ثابت بن دینار‘ پرہیز گار ترین علماء میں سے ہیں۔ کہ جنہوں نے اہل بیت کی عصمت و طہارت سے تربیت حاصل کی اور تشیع و ولایت کے مرکز کوفہ میں نشوونما پائی آپ نامور علمی شخصیت اور تشیع کے اہم ستونوں میں سے تھے۔ آپ کی کنیت ابو حمزہ مشہور ہے اسی لئے اکثر آپ کو ابو حمزہ ثمالی کہا جاتا ہے ثمالی کی وجہ شہرت اس لئے ہے کہ آپ کی قوم دودھ کہتھیلی پر رکھ کر پیتے تھے۔ یا اس لئے کہ آپ کے سوا آپ کے خاندان کے تمام افراد قتل ہو گئے۔
ابو حمزہ ثمالی ‘ امام زین العابدین ‘ امام محمد باقر ‘ امام صادق کے اصحاب میں سے تھے اور 150ئھ میں ستر سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ آئمہ معصومین نے ابوحمزہ کی شخصیت کی تعریف و تمجید کی ہے۔
امام صادق آپ کے بارے میں فرماتے ہیں ابو حمزہ اپنے زمانے میں سلمان کی طرح ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب میں ابو حمزہ کو دیکھتا ہوں تو سکون محسوس کرتا ہوں۔ امام موسیٰ کاظم ابو حمزہ کو ان مومنوں میں سے سمجھتے ہیں کہ خداوند نے جن کے دلوں کو نورانی کیا اور صحیح علم و دانش عطا کی۔
علماء رجال نے ثقہ‘ عادل کے الفاظ سے تعریف کی ہے اور آپ کو امام سجاد کے قریب ترین افراد میں سے فقہ‘ کلام‘ تفسیر اور عرفان میں ابو حمزہ نے بہت سی روایات بیان کی ہیں ان کے علاوہ رمضان المبارک میں دعائے سحر کو ابو حمزہ ‘ امام زین العابدین سے نقل کرتے ہیں رسالة الحقوق‘ کتاب الزھد و النور آپ کی تالیفات میں سے ہیں۔
زید بن علی بن الحسین‘ جابر بن عبداللہ الانصاری‘ عبداللہ بن الحسن اور اصبغ بن نباتہ آپ کے اساتذہ میں سے ہیں حسن بنا محبوب‘ امان بن عثمان‘ ہشام بن سالم‘ محمد بن مسلم کے علاوہ 100سے زائد علماء آپ کے شاگردوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

عمار بن یاسر
حضرت عمار، یاسر کے بیٹے اور آپ کی کنیت ابو یقظان ہے۔ وہ اپنے زمانے کے ان چار بڑے آدمیوں میں سے تھے جنہیں اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی باقی تین افراد درجہ ذیل ہیں۔
ابو ذر‘ مقداد اور سلمان
عمار کے والدین نے اسلام اور پیغمبر اکرم کی حمایت کی وجہ سے سخت تکالیف اٹھایں اور انہیں تکالیف کے نتیجہ میں شہید ہوئے۔
جب بھی پیغمبر اکرم عمار کے خاندان کو قریش کی طرف سے پہنچائی جانے والی تکالیف کو دیکھتے تو انہیں جنت کی بشارت دیتے ہوئے فرماتے صبرا یا آل یاسر فان موعدکم الجنة
عمار نے بھی سخت تکالف اٹھانے کے بعد قریش کے کہنے کے مطابق کہا جبکہ آپ کو یہ سب کچھ کہنے کو ہرگز پسند نہ کرتے تھے اور قریش کے ظلم و ستم سے جان بچانے میں کامیاب ہو گئے اور تقیہ کی آیت شاید آپ کی شان میں ہی نازل ہوئی‘ الدمن اکرہ و قبلہ مطمئن بالرعان
عمار یاسر حبشہ کے مہاجرین اور دو قبلہ کی جانب نماز پڑھنے والوں بدر اور دیگر جنگوں میں شریک ہونے والوں میں سے ہیں اور بیعت رضوان بھی نبی اکرم کے ساتھ تھے اور یہ ان تمام خواص میں سے ہر ایک آپ کی فضیلت اور برتری کے لئے کافی ہے۔ پیغمبر نے بھی کئی مرتبہ آپ کی تعریف و تمجید کی ہے اور آپ کے بارے میں فرمایا عمار کا پورا بدن پاؤں سے چوٹی تک آپ کے گوشت‘ پوست میں ایمان بھرا ہوا ہے۔
اسی طرح پیغمبر نے امام علی سے کہا جنت آپ ‘عمار‘ سلمان اور ابوذر کی منتظر ہے اور آپ کی شخصیت کے بارے میں فرمایا عمار حق کے ساتھ ہے اور حق عمار کے ساتھ ہے جب عمار اورخالد بن ولید کے درمیان جھگڑا ہوا تو پیغمبر اکرم نے فرمایا ۔
کہ جو کوئی بھی عمار کے ساتھ دشمنی کرے گا اس نے خدا کے ساتھ دشمنی کی اور جس نے بھی عمار کو ناراض کیا اس نے خدا کو ناراض کیا اورجس نے بھی عمار کو گالی دی اس نے خدا کو گالی دی۔
عمار امام علی کے ساتھیوں میں سے تھے۔ نبی اکرم کی رحلت کے بعد جناب فاطمہ زہرا کے جنازے میں شرکت کی اور جنگ جمل اور صفین میں امام علی کے سپہ سالاروں میں سے تھے اور امام علی کی حکومت کے ایک اہم ستون تھے۔
عمار 37ئھ کو جنگ صفین میں شہید ہوئے۔ نبی کریم کا عمارکے بارے میں مشہور جملہ کہ عمار کو ایک باغی و سرکش گروہ قتل کرے گا“ نے معاویہ اور اس کے ساتھیوں کی حقیقت کو ان کے لئے ظاہر کر دیا کہ جو شک و تردید کا شکار تھے اور عمار کی شہادت کے بعد بہت لوگ کہ جو جنگ میں شریک نہیں تھے شریک ہوئے اور جام شہادت نوش کیا۔
علماء رجال نے عمار کی شان و منزلت بیان کرتے ہوئے ان کی روایت کو تواتر کی حد تک جانا ہے۔ عمار روایات کو نبی اکرم اور امام علی اور حذیفہ بن یمان سے نقل کرتے ہیں اور جابر بن عبداللہ ‘ عبداللہ بن جعفر اور عبداللہ بن عباس وغیرہ نے بھی عمار یاسر سے روایات نقل کی ہیں۔
عبداللہ بن عباس
عبداللہ بن عباس رسول خدا کے چچا زاد بھائی اور نامور مفسرین قرآن میں سے ہیں۔
ابن عباس نے پیغمبر ‘ امام علی‘ امام حسن و حسین علیھم السلام سے روایات کو نقل کیا ہے۔ آپ بعثت کے گیارھویں سال پیدا ہوئے اور 69 ئہجری 71سال کی عمر میں فوت ہوئے محمد بن حنفیہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔
ابن عباس عمر کے آخری حصہ میں نابینا ہو گئے۔ بعض نے آپ کی نابینائی کی علت کو امام علی و امام حسن و حسین علیھم السلام پر بہت زیادہ گریہ کرنا کو بیان کیا ہے اور بعض نے امام حسنین کی مدد نہ کرنے کو بیان کیا ہے۔
امام علی کی حکومت میں آنحضرت کے ساتھیوں میں سے تھے اور خوارج کے ساتھ بحث و گفتگو کے لئے آپ کے نمائندہ مقرر ہوئے اور جنگ جمل میں آپ کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت عائشہ کے پاس گئے اور ایک مدلل گفتگو کے بعدآپ کو مدینہ جانے کے لئے کہا۔
امام علی نے حکمیت کے مسئلہ میں پہلے عبداللہ بن عباس کو ہی مقرر کیا اورآ پ کی توصیف میں فرمایا ”فان عمراً لا یعقد عقدة حلھا عبداللّٰہ ولا یحل عقدة الا عقدھا و لا یلبرم امرا الانقضہ و لا نیقض امرا الاابرمہ“ لیکن خوارج نے آپ کی مخالفت کی اور مجبوراً ابو موسیٰ اشعری کو مقرر کیا۔ ابن عباس ایک متین اور زبان رسا شخص تھے اور علم فقہ‘ تفسیر‘ تاویل ‘ انساب اور شعر میں اپنی مثال نہ رکھتے تھے۔ آپ کا شمار حضرت امام علی کے لائق شاگردوں میں سے ہوتا تھا۔ آنحضرت نے آپ کے حق میں دعا فرمائی تھی کہ اے پروردگار اسے دین کی آگاہی دے۔
علامہ حلی آپ کی توصیف میں فرماتے ہیں وہ امام علی کے ساتھی اور شاگرد تھے اور امام علی کے ساتھ آپ کا اخلاص اور وفاداری کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ ابن داؤد حلی رضی اللّٰہ عنہ کے الفاظ سے آپ کو یاد کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ آپ کی مذمت کے بارے میں بھی کچھ ارشادات ہیں۔ بصرہ کے بیت المال کے انچارج کی حیثیت سے آپ کی برطرفی اور امام علی کا عتاب انگیز خط بھی علماء رجال کی توجہ کا باعث بنا ہے بعض علماء نے اس حدیث کو مردو جانا ہے۔ امام علی کے ساتھ آپ کی محبت کی وجہ سے اس جیسی جھوٹی احادیث گھڑی گئیں۔
بعض دیگر علماء بھی اس قسم کی روایات کی نفی نہیں کرتے بلکہ معتقد ہیں کہ آپ معصوم نہ تھے اور امام علی حکومتی امور میں کسی کا لحاظ نہ کرتے تھے ان سب کے باوجود معروف شیعہ علماء آپ کو جلیل القدر‘ بلند مرتبہ‘ ثقہ‘ امام علی اور امام حسنین کا دفاع کرنے والے سمجھتے ہیں۔ عبداللہ بن عباس سے سعد بن عبادہ یاسر‘ ابوزرغفاری‘ ام سلمہ نے روایات کو سنا ہے اور ابو سعید خدری‘ عبداللہ بن جعفر‘ سعید بن جبیہ‘ عکرمة اور دوسروں نے آپ سے روایات نقل کی ہیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام كی فرمائشات

امام جعفر صادق علیہ السلام كی فرمائشات

( سایٹ صادقین )
مظفرحسین بٹ
بنی نوع انسان، انسان كی سعادت اور نیك بختی كے فقط قرآن اور اہل بیت ہی ضامن ہیں اور ان دوگرانقدرچیزوں كے بغیرانسان كی كامیابی اور كامرانی محال ہے۔ اگرانسان دیناوآخرت كاخواہاں ہے تواس كوچاہئے كہ ان دوسے متمسك ركھے۔
عظیم مفكر، عارف اور فیلسوف صدرالمتالہین فرماتے ہیں كہ معارف الہی اور سعادت عظمی اور رسول اكرم اور ان كے اہل بیت كی تعالیم كے علاوہ جوكہ حجج الہی، معدن رحمت اور محال بركات خدائے متعال ہیں اور كہیں نہیں مل سكتی اور نہ ہی ملنے كاامكان ہے 1
الحمدللہ كہ ہمارے مكتب میں معارف الہی كے ذخائربہت زیادہ ہیں اور كسی بھی قسم كی كمی قابل تصورنہیں ہے، لیكن ہم نے ان معارف الہی كوكس حدتك مور استفادہ قراردیاہے اور كس قدراس كوبرؤے كارلائے ہیں شہیدمطہری اس كے بارے میں اپنی گرانقدركتاب ”سیری در نہج البلاغہ“ میں فرماتے ہیں كہ ہم شیعوں كواس بات كااعتراف ہونا چاہئے كہ ہم جن كی پیروی كادم بھرتے ہیں ان پردوسروں سے زیادہ ظلم یاكم ازكم كوتاہی ہم نے توضروركی ہے، بنیادی طور پرہماری كوتاہیاں ہی ظلم ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام كوہم نے یاتوپہچاناہی نہیں یاپہچاننے كی كوشش نہیں كی۔ ہماری زیادہ تركوششیں حضرت علی علیہ السلام كے بارے میں نبی اكرم (ص) كے اقوال كی تحقیق یاپھرجن لوگوں نے ان كے اقوال سے چشم پوشی كی ہے، پرسب وستم اور برابھلاكہنے میں صرف ہوتی ہے۔ خودحضرت كی واقعی اور عینی شخصیت كے بارے میں ہم نے كوئی كام نہیں كیاہے اور اسی طرح باقی آئمہ معصومین كی شخصیات كواور ان كی تعلیمات كواب تك نہیں پہچاناہے كب تك ہم خواب غفلت میں رہیں گے؟ كب ہم بیدارہوجائیں گے؟ كیاہماری كامیابی اسی میں ہے كہ جس طرح ہم ہیں؟ ہرگزنہیں كیوں كہ ہم تعلیمات اسلامی سے بہت دورہیں۔
جمال الدین افغانی فرماتے ہیں ”اگرہم مغرب كواسلام سے آشنا كرواناچاہتے ہیں توہم ان كوبتادیں كہ ہم صحیح معنوں میں مسلمان نہیں ہیں، ہم جغرافیائی مسلمان ہیں تاكہ وہ لوگ ہمارے گھروں اور شہروں میںآكریہ ظلم وستم ناانصافیاں، فحشاء اور منكرات دیكھ كراسلام سے متنفر نہ ہوجائیں“ اگرہمیں حقیقی زندگی گزارنی ہے توہم پریہ فرض عائدہوتاہے كہ ہم اسلامی تعلیمات اور اہل بیت كی فرمائشات پرعمل پیراہوجائیں اور اسی میں ہماری نیك بختی اور سعادت پوشیدہ ہے حقیقتا آئمہ معصومین كی تعلیمات اور فرمائشات میں حیات ہے۔ اس حیات كاحصول اسی وقت ممكن ہے جب ہم فرمائشات معصومین كو قولا و فعلا اپنائیں گے ان ہی كے ذریعہ سے ہم صراط مستقیم پرگامزن ہوسكتے ہیں۔
ہمارے رئیس مذہب امام جعفر صادق علیہ السلام كی فرمائشات بہت زیادہ ہیں لیكن میںصرف چندفرمائشوں پراكتفاكروں گااور روایت میں لكھنے جارہاہوں اس كے ہرجملے میں دریائے بیكراں سمویاہواہے، اس روایت كازیادہ تعلق ان افرادكے ساتھ ہے جودرحال حاضرعلوم دین اور معارف اہل بیت كے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں كیونكہ وہ ایسے ہدف كے متلاشی ہیں جس كے حصول میں زیادہ ذمہ داریاں ہیں اگرچہ روایت ایك خاص شخص كے بارے میں ہے لیكن امام صادق علیہ السلام كے فرامین اور احكام كسی خاص شخص كے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلكہ یہ احكام وفرامین سب كے لئے ہیں جن پرعمل پیراہوناسب پرواجب ہے خاص كرطلاب علوم دینی پرجومعارف الہی كے حصول میں مشغول ہیں۔
عنوان بصری جومالك بن انس كے پاس آتاجاتاتھاكہتاہے كہ جب امام صادق علیہ السلام ہمائے شہرمیںآئے تومیں آپ كی خدمت میں حاضرہواكرتاتھا كیونكہ میں دوست ركھتاتھا كہ كسب فیص كروں، ایك دن آپ نے مجھ سے فرمایا كہ میں ایساشخص ہوں جس كے پاس لوگوں كی آمدورفت زیادہ ہوتی ہے لیكن اس كے باوجودمیں دن رات میں خاص ورداور اذكاربجالاتاہوں تم میرے اس كام میں ركاوٹ بنتے ہو، تم پہلے كی طرح مالك بن انس كے پاس جایاكرو، میں آپ كی اس طرح كی گفتگوسے افسردہ اور غمگین ہوااور آپ كے یہاں سے چلاگیااور اپنے دل میں كہاكہ اگرامام مجھ میں كوئی خیردیكھتے تومجھے اپنے پاس بلاتے اور اپنے آپ سے محروم نہ كرتے۔ میں رسول كی مسجدمیں گیا، اور آپ پرسلام كہا، دوسرے دن بھی رسول كے روضے پرگیادوركعت نماز پڑھی اور دعاكے لئے ہاتھ اٹھائے اور كہاكہ ائے میرے خدا، میرے لئے امام صادق علیہ السلام كادل نرم كرے اور اس كے علم سے مجھے وہ عطاكركہ جس كے ذریعہ میں صراط مستقیم كی طرف ہدایت پاؤں۔ اس كے بعداس غمگین اور اندوہ ناك حالت میں گھرلوٹ آیا اور مالك بن انس كے یہاں نہیں گیاكیونكہ میرے دل میں امام صادق علیہ السلام كی محبت پیداہوچكی تھی بہت مدت سوائے نمازكے میں اپنے گھرسے باہرنہیں نكلتاتھا یہاں تك كہ میراصبرختم ہوچكااور ایك دن امام صادق علیہ السلام كے دروازے پرگیااور اندرجانے كی اجازت طلب كی، آپ كاخادم باہر آیا اور پوچھاكہ تجھے كیاكام ہے؟ میں نے كہاكہ میں امام كی خدمت میں حاضرہوناچاہتاہوں اور سلام كرناچاہتاہوں، خادم نے جواب دیاكہ آقامحراب عبادت میں نمازمیںمشغول ہیں اور وہ واپس گھركے اندر چلاگیااور میں آپ كے گھركے دروازے پربیٹھ گیا۔ زیادہ دیرنہیں ہوئی تھی كہ وہ خادم دوبارہ لوٹ آیااور كہاكہ اندرآجاؤ، میں گھرمیں داخل ہوااور آنحضرت پرسلام كیااور آپ نے میرے سلام كاجواب دیااور فرمایاكہ بیٹھ جاؤ، خداتجھے موردمغفرت قراردے، میں آپ كی خدمت میں بیٹھ گیا، آپ نے اپناسرمبارك جھكایا اور بہت دیركے بعداپناسربلندیكا اور فرمایا: تمہاری كنیت كیاہے؟ میں نے عرض كی ابوعبداللہ، آپ نے فرمایا: خداتجھے اس كنیت پرثابت ركھے اور توفیق عنایت كرے۔ تم كیاچاہتے ہو؟ میں نے اپنے كہاكہ اگراس ملاقات میں سوائے اس دعاكے جوآپ نے فرمائی ہے اور كچھ فائدہ بھی حاصل نہ ہوتویہ بھی میرے لئے بہت قیمتی اور ارزش مندہے میں نے عرض كی كہ میں نے خداسے طلب كیاہے كہ خداآپ كے دل كومیرے لئے مہربان كردے اور میں آپ كے علم سے فائدہ حاصل كروں كہ خداوندنے میری یہ دعاقبول كرلی ہوگی۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : ”اے ابوعبداللہ ! علم پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتاہے بلكہ علم ایك نورہے جس كے دل میں چاہتاہے ڈال دیتاہے، پھرفرمایاپس اگرتم علم حاصل كرناچاہوتوپہلے اپنے اندرحقیقت بندگی طلب كرواور علم كواس لئے سكیھوں كہ اس سے كام لواور اللہ سے سمجھ كی دعاكروتاكہ وہ حقائق كوتم پرظاہركرے۔ حقیقت عبودیت كی تفسیرمیں تین صورتوں كے تصوركوامكان میں لایاجاسكتاہے:

۱۔ ممكن ہے كہ جملے كامفہوم یہ ہوكہ علم كی فكرسے پہلے بندگی كی فكرمیں رہو۔
۲۔ عبودیت كی حقیقت كواپنے اندرتلاش كرویہ مفہوم بہت غور طلب، اور امیرالمومنین سے منسوب شعركی طرف توجہ دلاتاہے جس میں آپ فرماتے ہیں ”دواؤك فیك و ما تشعر و دائك منك وما تبصر“۔
بہرحال بنی نوع انسان فطرتاكمال كادلدادہ ہے اور اسے محبوب كی تلاش رہتی ہے عبودیت كاخمیرانسان كے وجودمیں مخفی ومستورہے حضرت سیدالساجدین علیہ السلام ”صحیفہ سجادیہ“ كی پہلی دعامیں ارشادفرماتے ہیں ”خداوندنے بندوں كواپنی محبت عطاكی ہے“ یعنی بندے فطری طورپرخدادوست ہیںجہاں تك ہوسكے ہوی وہوس كودورركھو، نفس امارہ كی مخالفت كروتاكہ گوہرمخفی (حب الہی) فعلیت میں آئے اور تمہارے اندرتشنگی میں حقیقت ظہورپیداہو۔
عنوان بصری كہتاہے كہ اے شریف! توآپ نے فرمایا: اے ابوعبداللہ، كہو، میں نے كہا: ماالحقیقة العبودیة؟ بندگی كی حقیقت كیاہے ؟ آپ نے فرمایا بندگی كی حقیقت تین چیزوں میں ہے۔
۱۔ بندہ اس چیزكو كہ جوخداوندعالم نے اسے دیاہے اپنی ملكیت نہ سمجھے كیونكہ بندہ كسی چیزكامالك نہیں ہواكرتابلكہ مال كواللہ تعالی كامال سمجھے اور اسی راستے میں كہ جس كاخدانے حكم دیاہے خرچ كرے۔

۲۔ اپنے اموركی تدبیرمیں اپنے آپ كوناتوان اور ضعیف سمجھے۔
۳۔ اپنے آپ كواللہ تعالی كے اوامربجالانے میں مشغول ركھے اگربندہ اپنے آپ كومال كامالك نہ سمجھے توپھراس كے لئے اپنے مال كو اللہ تعالی كے راستے میں خرچ كرناآسان ہوجائے گااور اپنے كاموں اور اموركی تدبیرونگہداری خداكے سپردكردے تواس كے لئے مصائب كاتحمل كرناآسان ہوجائے گااور اگربندہ خداكے احكام كی بجااور ی میں مشغول رہے تواپنے قیمتی اور گرانقدروقت كوفخرومباہات اور یاكاری میںخرچ نہیں كرے گااگرخدااپنے بندوں كوان تین چیزوں سے نوازدے تواس كے لئے دینااور شیطان اور مخلوق آسان ہوجائے گی اور وہ اس صورت میں مال كوزیادہ كرنے اور فخرومباہات كے لئے طلب نہیں كرے گااور چیزلوگوں كے نزدیك عزت اور برترشمارہوتی ہے اسے طلب نہیں كرے گااور یہ تقوی كاپہلادرجہ ہے، میں نے عرض كیاكہ اے امام مجھے كوئی وظیفہ اور دستورعنایت فرمائیں توآپنے فرمایا”میںتجھے نوچیزوں كی وصیت كرتاہوں اور یہ میری وصیت اور دستورالعمل ہراس شخص كے لئے ہے جوحق كاراستہ طے كرناچاہتاہے اور میں خداسے سوال كرتاہوں كہ خداتجھے ان پرعمل كرنے كی توفیق دے۔ تین چیزیں نفس كی ریاضت كے لئے ہیں اور تین دستورالعمل بردباری كے لئے اور تین دستورالعمل علم كے بارے میں ہیں۔ تم انہیں حفظ كرلواور خبرداران كے بارے میں سستی نہ كرو“ عنوان بصری كہتاہے كہ میری تمام توجہ آپ كی فرمایشات كی طرف تھی آپ نے فرمایا: ”وہ تین چیزیں جونفس كی ریاضت كے لئے ہیں:

۱۔ خبرداررہوكہ جس چیزكی طلب اور اشتہانہ ہواسے مت كھاؤ۔

۲۔ جب تك بھوك نہ لگے كھانانہ كھاؤ۔
۳۔ جب كھاناكھاؤ تو حلال وكھاناكھاؤ اور كھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھو۔ آپ نے اس كے بعدرسول اللہ كی حدیث نقل كی اور فرمایا كہ انسان برتن كوپرنہیں كرتامگرشكم پركرنااس سے بدترہوتاہے اور اگركھانے كی ضرورت ہوتوكاایك حصہ كھانے كے لئے اور ایك حصہ پانی كے لئے اور ایك حصہ سانس لینے كے لئے قراردے۔

1. وہ تین دستورالعمل جوحلم كے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں
۱۔ جوشخص تجھ سے كہے كہ اگرتونے ایك كلمہ مجھے سے كہاتومیں تیرے جواب میں دس كلمے كہوں گاتواس كے جواب میں اگرتونے دس كلمے مجھے كہے تواس كے جواب میں مجھ سے ایك كلمہ نہیں سنے گا۔۲۔ جوشخص تجھے برابھلاكہے تواس كے جواب میں كہہ دے، كہ اگرتم سچ كہت ہوتوخدامجھے معاف كردے اور اگرجھوٹ بول رہے توخداتجھے معاف كردے۔
جوشخص گالیاں دینے كی دھمكی دے توتم اسے نصیحت اور دعاكاوعدہ كرے۔

2. وہ تین دستورالعمل جوعلم كے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں
الف) جوكچھ نہیں جانتے ہواس كاعلماء سے سوال كرولیكن توجہ رہے كہ تیراسوال كرناامتحان اور اذیت دینے كے لئے نہیں ہوناچاہئے۔
ب) اپنی رائے پرعمل كرنے سے پرہیزكرواور جتناكرسكتاہے احتیاط كواپنے ہاتھ سے نہ جانے دو۔
ج)۔ اپنی رائے سے (بغیركسی مدرك شرعی كے) فتوی دینے سے پرہیزكرواور اسے سے اس طرح بچ كہ جیسے پھاڑدینے والے شیرسے بچتاہے اپنی گردن كولوگوں كے لئے پل قرارنہ دے اس كے بعدآپ نے فرمایا كہ اب اٹھ كرچلے جاؤ، بہت مقدارمیں، میں نے تجھے نصیحت كی ہے اور میرے ذكركے بجالانے میں زیادہ مزاحم اور ركاوٹ نہ بنوكیونكہ میں اپنی جان كی قیمت كاقائل ہوں اور سلام ہواس پرجوہدایت كی پیروی كرتاہے 2
علامہ وعارف كامل قاضی طباطبائی فرماتے ہیں كہ حدیث عنوان بصری كولكھے اور اس پرعمل كریں اور ہمیشہ اس كوساتھ ركھیں اور ہفتہ میںایك دوباراس كامطالعہ كریں۔
-------
1. شرح اصول كافی درمقدمہ
2. بحارالانوار، علامہ مجلسی ج۱ ص۲۲۴۔۲۲۶

ہر چیز کے سرچشمہ کو تلاش کرنا چاہئے

ہر چیز کے سرچشمہ کو تلاش کرنا چاہئے

مقدمہ :
امام ہادی علیہ السلام وہ امام ہیں جنھوں نے بہت زیادہ قید و بند میںزندگی بسر کی ،حضرت کو شیعوں سے جدا کرکے ”عسکر “ نامی ایک فوجی علاقہ میں رکھا گیاتھا جس کی وجہ سے آپ کے بہت سے اقوال ہم تک نہیں پہو نچ سکے ۔
بنی امیہ اور بنی عباس کا ایک بڑا جرم یہ بھی ہے کہ انھوں نے اہل بیت علیہم السلام اور عوام کے درمیان رابطہ کو قطع کردیا تھا ،اگر لوگوں کا رابطہ اہل بیت علیہم السلام سے قطع نہ ہوتا تو آج ہمارے پاس ان عظیم شخصیتوں کے اقوال کی بہت سی کتابیں موجود ہوتیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام باقر علیہ السلام اور اور امام صادق علیہ السلام کے دور میںجو تھوڑی سی مہلت ملی اس میں بہت زیادہ علمی کام ہوا ۔لیکن بعد میں یعنی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے زمانہ سے پھر قید و بند کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔بہرحال امام ہادی علیہ السلام کے کم ہی سہی مگر کچھ کلمات قصار ہم تک پہونچے ہیں ۔ اور مناسبت کی وجہ سے آج آپ کا ایک کلمہ قصار نقل کررہے ہیں۔

متن حدیث :
خیر من الخیر فاعلہ واجمل من جمیل قائلہ وارجح من العلم حاملہ والشر من الشر جالبہ و احول من الحول راکبہ
نیکی کو انجام دینے والا نیکی سے بہتر اور اچھی بات کہنے والا ہے چھے کلام سے بہتر ہے ،علم سے عالم افضل ہے ، شر کو انجام دینے والا شر سے بھی برا ہے اور وحشت پھیلانے والاوحشت سے بھی زیادہ وحشتناک ہے ۔

حدیث کی شرح :
امام علیہ السلام ان پانچ جملوں میں بہت اہم نکات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں ،ان پانچ جملوں کے کیا معنی ہیں ․ ؟ ان میں سے تین جملے نیکی کے بارے میں اور دو جملے شر کے بارے میں ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ امام علیہ السلام ایک بنیادی چیز کی طف اشارہ فرما رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہمیشہ اہر چیز کی اصل علت کو تلاش کر نا چاہئے ۔اگر نیکیاں پھیلانا اور اچھائیوں کو عام کرنا پیش نظر ہے تو پہلے نیکیوںکے سرچشمہ کو تلاش کرو ۔ اور اسی طرح اگر برائیوں کو روکنا چاہتے ہو تو پہلے برائیوں کی جڑ کو تلاش کرو۔نیکی اور بدی سے زیادہ اہم ان دونوں کے انجام دینے والے ہیں ۔سماج میںیہ ہمیشہ مشکل رہی ہے اورآج بھی موجود ہے، کہ جب لوگ کسی برائی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو کچھ افراد صرف معلول کو ہی دیکھتے ہیں اوراس کی علت کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔جس کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو پاتے ۔وہ ایک کو ختم کرتے ہیں دوسرا اس کی جگہ پر آجاتا ہے ۔وہ دوسرے کو ختم کرتے ہیں تیسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے ۔آخر ایسا کیوں؟ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ علت کو چھوڑکر معلول کو تلاش کرتے ہیں ۔میں ایک سادی سی مثال بیان کرتا ہوں کچھ افراد ایسے ہیں جن کے چہروں پر مہاسے نکل آتے ہیں یا پھر کچھ افراد کے بدن کی جلد پر پھنسیاں نکل آتی ہیں ان حالات میں کچھ لوگ مرحم کو تلاش کرتے ہیں تاکہ یہ مہاسے یا پھنسیاںختم ہوجائیں مگر کچھ لوگ اس حالت میں اس بات پر غور کرتے ہیں کہ بدن کی جلد کا تعلق بدن کے اندرونی نظام سے ہے لہٰذا اس انسان کے جگر میں ضرور کوئی خرابی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ مہاسے یاپھنسیاں جلد پر ظاہر ہوئے ہیں ۔بدن کی جلد ایک ایساصفحہ ہے جو انسان کے جگر کے عمل کو ظاہر کرتاہے ۔مرحم وقتی طور پر تو آرام کرتا ہے لیکن اگر اصلی علت ختم نہ ہو تو یہ مہاسے یاپھنسیاں دوبارہ نکل آتے ہیں ۔اسی طرح اگر انسان وقتی طور درد کو ختم کرنے کے لئے کسی مسکن دوا کا استعمال کرے تو صحیح ہے مگر ساتھ ساتھہ اس کی اصل علت کو بھی جانناچاہئے ۔
آج ہمارے سماج کے سامنے دو اہم مشکلیں ہیں جو دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔ان میںسے ایک منشیات اور دوسری جنسی بے راہ روی ہے ۔ منشیات کے استعال کے سلسلے میں سن کی شرح بہت نیچے آگئی ہے، کم عمر بچے بھی منشیات کا استعمال کررہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق ایک سرحدی شہر میں ۱۵۰ / ایسی خواتین کے بارے میں پتہ چلا ہے جو منشیات کا استعمال کرتی ہیں جبکہ عام طور یہ کہا جاتا ہے کہ خواتین منشیات کی لت میں نہیں پڑتی ہیں۔
لیکن کچھ اسباب کی بنا پر منشیات کی لت بچوں ،نوجوانوں،جوانوںاور خواتین میں بھی پھیل گئی ہے ۔اس برائی سے مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم نشہ کرنے والے افرادکو پکڑیں اور منشیات کے اسمگلروںکو پھانسی پر لٹکائیں۔ یہ ایک طریقہ ہے اور اس پر عمل بھی ہونا چاہئے۔ مگر یہ اس مشکل کا اساسی حل نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ منشیات کے استعمال کی اصل وجہ کیا ہے ۔کیا یہ بیکاری ،بے دینی یا سماجی آداب و رسوم کے نہ جاننے کی وجہ سے ہے ، یا پھر اس کے پیچھے ان غیر ملکی طاقتوںکا ہاتھ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے جوان منشیات میں مبتلا ہو جائیں تو اس ملک میںنفوذ پید ا کرنے کی راہ کا ایک اہم مانع ختم ہو جاتا ہے ۔ہمیں تاریخ کونہیں بھولنا چاہئے جب انگریزوں نے چین پر تسلط جمانا چاہا تو انھوں نے پہلے یہ کوشش کی کہ چینیوں کے درمیان تریاک کو رواج دیا جائے ۔چینی اس بات کو سمجھ گئے اور انگریزوںکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے مگر انگریزوں نے فوجی طاقت کے بلبوتے پر چین میں تریاک وارد کردی۔ تاریخ میںیہ واقعہ جنگ تریاک کے نام سے مشہور ہوگیا ۔اور انھوں نے چین میں افیم کو داخل کرکے وہاں کے لوگوںکو افیم کے جال میں پھنسا دیا اور ظاہر ہے کہ جب کسی ملک کے جوان نشے کہ جال میں پھنس جاتے ہیں تو پھر وہ ملک دشمن کا سامنا نہیں کرپاتا ۔اسی وقت سے انگریزوں نے اس افیمی جنگ کی بنیاد ڈالی اور اب بھی مختلف شکلوں میں اس سے کام لیا جارہاہے ۔امریکیوںنے افغانستان پر اپنا تسلط جمایا تو یہ سمجھا جار ہا تھا کہ وہ اپنے نعروں کے مطابق منشیات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گے۔لیکن اب یہ سن نے کو مل رہا ہے کہ منشیات کی کھیتی اور زیادہ بڑھ گئی ہے ۔امریکہ کے حقوق بشر اورفساد و منشیات سے مقابلہ کے تمام نعرے کھوکھلے ہیں ۔وہ تو فقط اپنے نفع اورنفوذ کے پیچھے ہیں اس کے لئے چاہے پوری دنیا ہی کیوں نہ نابود ہو جائے ۔
ہر چیزکے سرچشمہ کو تلاش کرنا چاہئے اور اپنے جوانوں کو دین سے آگاہ کرنا چاہئے۔، دین سب سے اہم عامل ہے ۔ ایک مذہبی بچہ کبھی بھی نشہ نہیں کرے گا ،جب لامذہب ہو جائے گا تو نشہ کرے گا ۔
دوسرا مسئلہ بیکار ہی ہے جب بیکاری پھیلتی ہے تو لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کام میں (منشیات کی خریدو فروش ) اچھی آمدنی ہے ۔ لہذا اس کام کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں، اور اس طرح بیکا آدمی منشیات کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔اگرہم دشمن کے پرچار کی فکر نہ کریں تو پھران سے کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ بس ہمیں چاہئے کہ ہم ان علتوں کو تلاش کریں صرف معلول کو تلاش کرلینا ہی کافی نہیں ہے۔
علت کو سمجھنے کے لئے جلسہ و سیمینار وغیرہ منعقد ہونے چاہئے تاکہ اندیشمندان بیٹھ کر کوئی راہ حل نکال سکیں معمولی اور سادے مسائل کے لئے تو بڑے بڑے سمینار منعقد کئے جاتے ہیں مگر ان اہم مسائل کے حل کے لئے کسی سیمینار کا انعقادنہیں کیاجاتا ۔
دوسری مشکل جو تیزی سے پھیلتی جارہی ہے وہ جنسی بے راہ وی ہے ، اور آج ہما را جوان طبقہ اس جال میں پھنسا ہوا ہے ۔کیا مختلف سڑکوں یا مختلف مقامات پر بسیجی یا غیر بسیجی گروہ، یا پولس وغیرہ کو مامور کرکے لڑکوں اور لڑکیوں کے نامشروع روابط کو روکنے سے یہ مسئلہ ختم ہے جائے گا ؟یا یہ مسلہ پھر کسی دوسری جگہ سے سر اٹھائے گا ؟ ہمیںیہ دیکھنا چاہئے کہ اس کا اصل ریشہ کیا ہے ۔اس کا ایک ریشہ شادیوں کا کم ہونا ہے ،شادیاں چند چیزوں کی وجہ سے مشکل ہو گئیں ہیں ۔
1.
توقعات کا بڑھ جانا : 2.
تکلفات کا بڑھ جانا 3.
مہر کی رقم کا بڑھ جانا 4.
ا خرجات کا زیادہ ہو جانا اور اسی کے ساتھ ساتھ ایک ریشہ تحریک کرنے والے وسائل کا پھیلاو بھی ہے ۔کچھ جوان کہتے ہیں ان حالات میں اپنے اوپر کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے ۔ہم ان سے یہ کہتے ہیں کہ تم یہ چاہتے ہو کہ غیر اخلاقی فلمیں دیکھیں ،لڑکیوں سے آنکھیں لڑائیں ،غیر اخلاقی سی ،ڈی دیکھیں،خراب قسم کے میگزین پڑھیں اور اس کے باوجود یہ کہتے ہوکہ کنٹرول کرنا مشکل ہے ۔تم پہلے تحریک کرنے والے عوامل کو روکو۔جب تک تحریک کرنے والے عوامل سادی شکلوں میں موجود رہیں گے (جیسے :سی،ڈی،کہ اس میں فساد کی ایک پوری دنیا سمائی ہے یاانٹر نیت کہ جس نے فساد کی تمام امواج کو اپنے اندر جمع کرلیا ہے اور دنیا کو اخلاقی و دگر جہتوں سے تباہ کرڈالاہے ) ایک جوان کسی طرح بھی اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔
کبھی کبھی شادیوں کے موقعوں پر ایسے پروگرام کئے جاتے ہیں جو ناپاک ،تحریک کرنے والے اور غیر مشروع ہیں۔سینکڑوںجوانوں کے دامن شادی کے انھیں پروگراموںمیں آلودہ ہو جاتے ہیں۔کیوں کہ مردو زن باہم شریک ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو نمایاں کرتے ہیں اس حالت میں کہ رقص و موسیقی کا غلبہ ہوتا ہے ۔جوان یہ چاہتے ہیں کہ ان پروگراموں میںشرکت کریں اور بعد میںیہ بھی کہتے ہیںکہ ہم سے اپنے آپ پر کنٹرول کیوں نہیں ہوتا ؟تحریک کرنے والے عوامل کو ختم کرنا چاہئے ،شادی کی مشکلات کو آسان کرنا چاہئے ۔بس اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ کسی نیتجہ پر پہونچیں ،تو اصلی ریشہ کے بارے میں فکر کرنی چاہئے

گوش اگر گوش تو ونالہ اگر نالہ
آنچہ البتہ بجای نرسد فریاد است

اور حالت یہ ہے کہ نہ آپ کو ان باتوں کے سننے والے افراد ملیں گے اور نہ ہی یہ باتیں بتانے والے افراد میسر ہوں گے ۔


امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے پابند ہیں

امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے پابند ہیں


قال الصادق علیہ السلام : امتحنوا شیعتنا عند مواقیت الصلاة کیف محافظتہم علیہا و الیٰ اسرارنا کیف حفظہم لہا عند عدونا والیٰ اموالہم کیف مواساتہم لاخوانہم فیہا

ترجمہ :
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمارے شیعوں کا نماز کے وقت امتحان کرو کہ وہ نماز کو کس طرح اہمیت دیتے ہیں اور ہمارے مقامات اور رازوں کے بارے میں ان کی آزمایش کرو کہ وہ ان کو ہما رے دشمن سے کس طرح چھپا تے ہیں اور اسی طرح ان کے مال بارے میں ان کو آزماؤ کہ وہ اس سے اپنے دوسرے بھائیوں کی کس طرح مدد کرتے ہیں ۔

وضاحت :
امتحنوا شیعتنا عند مواقیت الصلاة یعنی نماز کے وقت کو اہمیت دیتے ہیں یا نہیں ؟ نمازکے وقت کام کو ٹالتے ہیں یا نمازکو ؟کچھ لوگوں کاماننا ہے کہ نماز خالی وقت کے لئے ہے۔ اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اول وقت رضوان اللہ و آخر وقت غفران اللہ ۔کچھ اہل سنت کہتے ہیں کہ حقیقی مسلمان تو ہم ہیں ،کیوں کہ نماز کو جو اہمیت ہم دیتے ہیں، تم نہیں دیتے ہو ۔
نماز کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :اجعل افضل اوقاتک للصلاة یعنی اپنا بہترین وقت نماز کے لئے قرار دو۔

” کیف محافظتہم علیہا“ یہاں پر کلمہ ”محافظۃ“ اس معنی میں ہے کہ نماز کے لئے بہت سی آفتیں ہیں جن سے نماز کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ روحانی حضرات کو چاہئے کہ عوام کے لئے نمونہ بنیں ۔میں اس زمانہ کو نہیں بھول سکتا جس وقت میں طالب علم تھا اور امام خمینی(رہ) حوزہ علمیہ قم میں مدرسی کے فریضہ کو انجام دے رہے تھے ،مرحوم آیۃ اللہ سعیدی نے ہماری دعوت کی تھی ، اس موقع پر امام بھی تشریف فرما تھے اور ہم لوگ علمی بحث و مباحثہ میں مشغول تھے جیسے ہی اذان کی صدا بلند ہوئی امام بغیر کسی تاخیر کے بلافاصلہ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ۔قانون یہی ہے کہ ہم کہیں پر بھی ہوں اور کسی کے بھی ساتھ ہوں نماز کو اہمیت دیں ،خاص طور پر صبح کی نماز کو۔آج کل ایک گروہ صبح کی نماز کو استصحاب کے ساتھ پڑھتا ہے یہ طلبہ کے شایان شان نہیں ہے ۔

” والیٰ اسرارنا کیف حفظہم لہا عند عدونا “یہاں پر رازوں کی حفاظت سے ، مقام اہل بیت کی حفاظت مراد ہے ۔یعنی ان کے مقام و منزلت کو ،یقین نہ کرنے والے دشمنوں کے سامنے بیان نہ کرنا جیسے (ولایت تکوینی،معجزات ،علم غیب وغیرہ)کیونکہ یہ سب مقام منزلت اسرار کا جزو ہے ہمارے زمانہ میں ایک گروہ نہ صرف یہ کہ اسرار کو بیان کرتا ہے بلکہ غلو بھی کرتا ہے جیسے کچھ نادان مداح زینب اللہی ہو گئے ہیں۔مداح کا مقام بہت بلند ہے اور ائمہ علیہم السلام نے ان کو اہمیت دی ہے جیسے دعبل خزائی بلندمقام پر فائز تھے ۔لیکن کوشش کرو کہ مجالس کی باگڈور نادان لوگوں کے ہاتھوں میں نہ دو ۔مداحوں کو چاہئے کہ اپنے اشعار کی علماء سے تصحیح کرائیں اور غلو آمیز اشعار سے پرہیز کریں، خاصطور پر اس وقت جب عوام کی نظر میں مقام بنانے کے لئے مداح حضرات میں بازی لگ جائے ، ایسے موقع پر اگر ایک مداح تھوڑا غلو کرتا ہے تو دوسرا اس سے زیادہ اور یہ کام بہت خطرناک ہے ۔

” والیٰ اموالہم کیف مواساتہم لاخوانہم فیہا “مواسات کے لغت کے اعتبار سے دو ریشہ ہو سکتے ہیں ایک ا تو یہ کہ یہ”واسی“ مادہ سے ہے یا پھر اس کامادہ ”آسی “ ہے دونوں سے ہی مواسات ہو تا ہے اور یہ مدد کرنے کے معنی میں ہے ۔شیعہ کا اس کے مال سے امتحان کرنا چاہئے کہ اس کے مال میں دوسرے افراد کتنا حصہ رکھتے ہیں ۔ہمارے زمانہ میں مشکلیں بہت زیادہ ہیں :

1. بیکاری کی مشکل جس کی وجہ سے بہت سے فساد پھیلے ہوئے ہیں جیسے چوری ،منشیات،خودفروشی وغیرہ
2. جوانوں کی شادی کی مشکل
3. مسکن کی مشکل
4. تعلیم کے خرچ کی مشکل ،بہت سے گھر ایسے ہیں جو بچوں کی تعلیم کا خرچ فراہم کرنے میں مشکلات سے دوچار ہیں ۔ہمارا سماج شیعہ سماج ہے ،بیہودہ مسائل میں انگت پیسہ خرچ ہو رہا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی فراہم نہیں ہیں، اس لئے ہمیں چاہئے صفات شیعہ کی طرف بھی توجہ دیں ،نہ یہ کہ صرف شیعوں کے مقام اور ان کے اجر و ثواب کو بیان کر یں۔امید ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں ائمہ کے فرمان پر توجہ دیں گے اور ان پر عمل پیرا ہوں گے ۔

امام علی النقی علیہ السلام كی چالیس حدیثیں

امام علی النقی علیہ السلام كی چالیس حدیثیں
مترجم: نور محمد ثالثی
(گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)

1. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): مَنِ اتَّقىَ اللهَ يُتَّقى، وَمَنْ أطاعَ اللّهَ يُطاعُ، وَ مَنْ أطاعَ الْخالِقَ لَمْ يُبالِ سَخَطَ الْمَخْلُوقينَ، وَمَنْ أسْخَطَ الْخالِقَ فَقَمِنٌ أنْ يَحِلَّ بِهِ سَخَطُ الْمَخْلُوقينَ . 1
1. امام علی النقی (علیہ السلام): جو اللہ سے ڈرے گا لوگ اس سے ڈریں گے اور جو اللہ كی اطاعت كرے گا اس كی اطاعت كی جائے گی، اور جو خالق كی اطاعت كرے گا اسے مخلوقین كی ناراضگی كی كوئی پرواہ نہیں ہوتی اور جو خالق كو ناراض كرے گا وہ مخلوقین كی ناراضگی سے بھی روبرو ہونے كے لائق ہے۔

2. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): مَنْ أنِسَ بِاللّهِ اسْتَوحَشَ مِنَ النّاسِ، وَعَلامَةُ الاُْنْسِ بِاللّهِ الْوَحْشَةُ مِنَ النّاسِ . 2
2. امام علی النقی (علیہ السلام): جسے اللہ سے انس ومحبت ہوجاتی ہے وہ لوگوں سے وحشت كرتا ہے اور اللہ سے انس و محبت كی علامت لوگوں سے وحشت كرنا ہے۔

3. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): السَّهَرُ أُلَذُّ الْمَنامِ، وَ الْجُوعُ يَزيدُ فى طيبِ الطَّعامِ. 3
3. امام علی النقی (علیہ السلام): شب بیداری، نیند كو بے حد لذیذ بنا دیتی ہے اور بھوك غذا كے ذائقہ كو دو چند كر دیتی ہے ۔

4. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): لا تَطْلُبِ الصَّفا مِمَّنْ كَدِرْتَ عَلَيْهِ، وَلاَ النُّصْحَ مِمَّنْ صَرَفْتَ سُوءَ ظَنِّكَ إلَيْهِ، فَإنَّما قَلْبُ غَيْرِكَ كَقَلْبِكَ لَهُ. 4
4 . امام علی النقی (علیہ السلام): جس سے كینہ ركھتے ہو اس سے محبت كی تلاش میں نہ رہو ۔ جس سے بد گمان ہو اس س خیر خواہی كی امید نہ ركھو اس لئے كہ دوسرے كا دل بھی تمہارے دل كے مانند ہے۔

5. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): الْحَسَدُ ماحِقُ الْحَسَناتِ، وَالزَّهْوُ جالِبُ الْمَقْتِ، وَالْعُجْبُ صارِفٌ عَنْ طَلَبِ الْعِلْمِ داع إلَى الْغَمْطِ وَالْجَهْلِ، وَالبُخْلُ أذَمُّ الاْخْلاقِ، وَالطَّمَعُ سَجيَّةٌ سَيِّئَةٌ. 5
5. امام علی النقی (علیہ السلام): حسد نیكیوں كو تباہ كرنے والا ہے، غرور، دشمنی لانے والا ہے، خودبینی، تحصیل علم سے مانع اور پستی و نادانی كی طرف كھینچنے والی ہے اور كنجوسی بڑا مذموم اخلاق ہے، اور لالچ بڑی بری صفت ہے ۔

6. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): الْهَزْلُ فكاهَةُ السُّفَهاءِ، وَ صَناعَةُ الْجُهّالِ. 6
6. امام علی النقی (علیہ السلام): تمسخر، سفیہوں كا شیوہ اور جاہلوں كا پیشہ ہے ۔

7. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): الدُّنْيا سُوقٌ رَبِحَ فيها قَوْمٌ وَ خَسِرَ آخَرُونَ. 7
7. امام علی النقی (علیہ السلام): دنیا ایك بازار ہے جس میں ایك گروہ نے فائدہ تو دوسرے نے نقصان اٹھایا ہے۔

8. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): النّاسُ فِي الدُّنْيا بِالاْمْوالِ وَ فِى الاْخِرَةِ بِالاْعْمالِ.8
8. امام علی النقی (علیہ السلام): لوگوں كی حیثیت دنیا میں مال سے اور آخرت میں اعمال سے ہے ۔

9. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): مُخالَطَةُ الاْشْرارِ تَدُلُّ عَلى شِرارِ مَنْ يُخالِطُهُمْ. 9
9. امام علی النقی (علیہ السلام): بُرے لوگوں كی ہمنشینی ہہمنشیں ہونے والے كی شر پسندی پر دلالت كرتی ہے ۔

10. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): أهْلُ قُمْ وَ أهْلُ آبَةِ مَغْفُورٌ لَهُمْ، لِزيارَتِهِمْ لِجَدّى عَلىّ ابْنِ مُوسَى الرِّضا (عليه السلام) بِطُوس، ألا وَ مَنْ زارَهُ فَأصابَهُ فى طَريقِهِ قَطْرَةٌ مِنَ السَّماءِ حَرَّمَ جَسَدَهُ عَلَى النّار . 10
10. امام علی النقی (علیہ السلام): قم اور آبہ كے لوگوں كی مغفرت ہوچكی ہے كیونكہ وہ لوگ طوس میں میرے جد بزرگوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام كی زیارت كو جاتے ہیں ۔ آگاہ ہو جاؤ كہ جو بھی ان كی زیارت كرے اور راستے میں آسمان سے ایك قطرہ اس پر پڑجائے (كسی مشكل سے دوچار ہوجائے)تواس كا جسم آتش جہنم پر حرام ہو جاتا ہے ۔

11. عَنْ يَعْقُوبِ بْنِ السِّكيتْ، قالَ: سَألْتُ أبَاالْحَسَنِ الْهادي (عليه السلام :(ما بالُ الْقُرْآنِ لا يَزْدادُ عَلَى النَّشْرِ وَالدَّرْسِ إلاّ غَضاضَة؟
قالَ (ع): إنَّ اللّهَ تَعالى لَمْ يَجْعَلْهُ لِزَمان دُونَ زَمان، وَلالِناس دُونَ ناس، فَهُوَ فى كُلِّ زَمان جَديدٌ وَ عِنْدَ كُلِّ قَوْم غَضٌّ إلى يَوْمِ الْقِيامَةِ. 11
11. حضرت امام علی نقی علیہ السلام كے ایك صحابی جناب ابن سكیت كہتے ہیں كہ میں نے امام (ع) سے سوال كیا كہ كیا وجہ ہے كہ قرآن مجید نشر واشاعت درس وبحث سے مزید ترو تازہ ہوجاتا ہے؟ امام(ع) نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے اسے كسی خاص زمانے اور خاص افراد سے مخصو ص نہیں كیا ہے وہ ہر زمانے میں نیا اور قیامت تك ہر قوم و گروہ كے پاس ترو تازہ رہے گا۔

12. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): الْغَضَبُ عَلى مَنْ لا تَمْلِكُ عَجْزٌ، وَ عَلى مَنْ تَمْلِكُ لُؤْمٌ. 12
12. امام علی النقی (علیہ السلام): جس پر تمہارا تسلط نہیں اس پر غصہ ہونا عاجزی ہے اور جس پر تسلط ہے اس پر غصہ ہونا پستی ہے ۔

13. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): يَاْتى عَلماءُ شيعَتِنا الْقَوّامُونَ بِضُعَفاءِ مُحِبّينا وَ أهْلِ وِلايَتِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ، وَالاْنْوارُ تَسْطَعُ مِنْ تيجانِهِمْ. 13
13. امام علی النقی (علیہ السلام): ہمارے شیعہ علماء جو ہمارے كمزور محبوں اور ہماری ولایت كا اقرار كرنے والوں كی سرپرستی كرتے ہیں بروز قیامت اس انداز میں وارد ہوں گے كہ ان كے سر كے تاج سے نور كی شعاعیں نكل رہی ہوں گی۔

14. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): مَنۡ جَمَعَ لَكَ وُدَّہ وَ رَأیَہ فَاجۡمَعۡ لَہ طَاعَتَكَ. 14
14. حضرت امام علی نقی علیہ السلام: جو بھی تم سے دوستی كا دم بھرے اور نیك مشورہ دے تم اپنے پورے وجود كے ساتھ اسكی اطاعت كرو ۔

15. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): التَّسْريحُ بِمِشْطِ الْعاجِ يُنْبُتُ الشَّعْرَ فِى الرَّأسِ، وَ يَطْرُدُ الدُّودَ مِنَ الدِّماغِ، وَ يُطْفِىءُ الْمِرارَ، وَ يَتَّقِى اللِّثةَ وَ الْعَمُورَ. 15
15. امام علی النقی (علیہ السلام): عاجكی كنگھی سے سر میں بال اگتا ہے، دماغ كے كیڑے ختم ہوتے ہیں صفرا، ٹھنڈا پڑجاتا ہے، اورجبڑے كی سلامتی اور اس كی مضبوطی كا باعث ہے ۔

16. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): اُذكُرْ مَصْرَعَكَ بَيْنَ يَدَىْ أهْلِكَ لا طَبيبٌ يَمْنَعُكَ، وَ لا حَبيبٌ يَنْفَعُكَ. 16
16. امام علی النقی (علیہ السلام): اپنے گھر والوں كے سامنے (حالت اختصار میں لاچار) پڑنے رہنے كو یاد كرو كہ نہ طبیب تمہیں (مرنے سے) سے روك سكتا ہے اور نہ حبیب (دوست) تمہیں كوئی فائدہ پہنچا سكتا ہے۔

17. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): إنَّ الْحَرامَ لا يَنْمى، وَإنْ نَمى لا يُبارَكُ فيهِ، وَ ما أَنْفَقَهُ لَمْ يُؤْجَرْ عَلَيْهِ، وَ ما خَلَّفَهُ كانَ زادَهُ إلَى النّارِ. 17
17. امام علی النقی (علیہ السلام): حرام (چیز) رشد ونمو نہیں كرتی اور اگر رشد ونمو كرے بھی تو اس میں بركت نہیں ہوتی، اگر اسے انفاق كردیا جائے تو كوئی اجر وثواب نہیں ملتا اوراگر (ورثہ میں) چھوڑ جائے تو جہنم كی زاد راہ بن جاتی ہے ۔

18. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): اَلْحِكْمَةُ لا تَنْجَعُ فِى الطِّباعِ الْفاسِدَةِ. 18
18. امام علی النقی (علیہ السلام): حكمت فاسد مزاج لوگوں كے اندر میں اثر انداز نہیں ہوتی۔

19. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): مَنْ رَضِىَ عَنْ نَفْسِهِ كَثُرَ السّاخِطُونَ عَلَيْهِ. 19
19. امام علی النقی (علیہ السلام): جو اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہوتا ہے اس پر غصہ كرنے والوں كی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے ۔

20. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): اَلْمُصيبَةُ لِلصّابِرِ واحِدَةٌ وَ لِلْجازِعِ اِثْنَتان. 20
20. امام علی النقی (علیہ السلام): صبر كرنے والے كے لئے ایك مصیبت اور جزع و فزع كرنے والے كے لئے دوہڑی مصیبت ہے۔

21. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): اِنّ لِلّهِ بِقاعاً يُحِبُّ أنْ يُدْعى فيها فَيَسْتَجيبُ لِمَنْ دَعاهُ، وَالْحيرُ مِنْها. 21
21. امام علی النقی (علیہ السلام): خدا كے كچھ (خاص)اماكن ہیں جہاں اسے پكارا جانا پسند ہے لہٰذا جو ان میں خدا كو پكارتا ہے خدا اس كی سن لیتا ہے اور حائر حسینی (ع) ان میں سے ایك ہے ۔

22. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): اِنّ اللّهَ هُوَ الْمُثيبُ وَالْمُعاقِبُ وَالْمُجازى بِالاَْعْمالِ عاجِلاً وَآجِلاً. 22
22. امام علی النقی (علیہ السلام): خدا ہی ثواب وعقاب دینے والا اور اعمال كی جلد یا دیر میں جزا و سزا دینے والا ہے ۔

23. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): مَنْ هانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ فَلا تَأمَنْ شَرَّهُ. 23
23. امام علی النقی (علیہ السلام): جس كانفس پست ہو جائے اس كے شر سے اپنے كو محفوظ سمجھو ۔

24. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): اَلتَّواضُعُ أنْ تُعْطَيَ النّاسَ ما تُحِبُّ أنْ تُعْطاهُ. 24
24. امام علی النقی (علیہ السلام): فروتنی یہ ہے كہ لوگوں كو وہی چیزیں عطا كرو جسے پانا تم خود پسند كرتے ہو ۔

25. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): اُذكُر حَسَراتِ التَّفريطِ بِأخذ تَقديمِ الحَزمِ . 25
25. امام علی النقی (علیہ السلام): كوتاہی كی حسرتوں كو دور اندیشی كرنے كے ذریعہ یاد كرو ۔

26. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): لَمْ يَزَلِ اللّهُ وَحْدَهُ لا شَيْئىٌ مَعَهُ، ثُمَّ خَلَقَ الاَْشْياءَ بَديعاً، وَاخْتارَ لِنَفْسِهِ أحْسَنَ الاْسْماء. 26
26. امام علی النقی (علیہ السلام): خدا وند متعال ازل سے تنہا تھا اور اس كا كوئی شریك نہیں تھا پھر اس نے اشیاء كو خلق كیا اور اپنے لئے بہترین اسماء كو انتخاب كیا۔

27. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): اِذا قامَ الْقائِمُ يَقْضى بَيْنَ النّاسِ بِعِلْمِهِ كَقَضاءِ داوُد (عليه السلام)وَ لا يَسْئَلُ الْبَيِّنَةَ. 27
27. امام علی النقی (علیہ السلام): جب حضرت قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ظہور كریں گے تو اپنے علم كی بنیاد پر لوگوں كے درمیان فیصلہ كریں گے جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام فیصلہ كرتے تھے اور گواہ طلب نہیں كریں گے ۔

28. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): اَلمُؤمِنُ يَحتاجُ إلى تَوفيقٍ مِنَ اللَّهِ و واعِظٍ مِن نَفسِهِ وقَبولٍ مِمَّن يَنصَحُهُ. 28
28. امام علی النقی (علیہ السلام): مومن، خدا كی طرف سے توفیق اور اپنے نفس كی طرف سے نصیحت اور نصیحت كرنے والے كی طرف سے نصیحت قبول كرنے كا محتاج ہے ۔

29. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): اَلْعِلْمُ وِراثَةٌ كَريمَةٌ وَالاْدَبُ حُلَلٌ حِسانٌ، وَالْفِكْرَةُ مِرْآتٌ صافَيةٌ. 29
29. امام علی النقی (علیہ السلام): علم كریم میراث ہے اور ادب خوبصورت زیور ہیں اور فكر صاف وشفاف آئینہ ہے ۔

30. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): الْعُجْبُ صارِفٌ عَنْ طَلَبِ الْعِلْمِ، داع إلىَ الْغَمْطِ وَ الْجَهْلِ. 30
30. امام علی النقی (علیہ السلام): خود بینی علم حاصل كرنے سے مانع ھوتی ھے اور جہالت و نادانی كی دعوت دیتی ھے۔

31. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): لا تُخَيِّبْ راجيكَ فَيَمْقُتَكَ اللّهُ وَ يُعاديكَ. 31
31. امام علی النقی (علیہ السلام): اپنے سے امید ركھنے والے كو نا امید نہ كرو كہ خدا تم سے ناراض ھوكر تم سے دشمنی كرنے لگے ۔

32. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): الْعِتابُ مِفْتاحُ التَّقالى، وَالعِتابُ خَيْرٌ مِنَ الْحِقْدِ. 32
32. امام علی النقی (علیہ السلام): سرزنش، غصہ كی كنجی ہے (لیكن )سرزنش، كینہ ركھنے سے بہتر ہے ۔

33. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): مَا اسْتَراحَ ذُو الْحِرْصِ. 33
33. امام علی النقی (علیہ السلام): لالچی كو كبھی چین نہیں ملتا ۔

34. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): الْغِنى قِلَّةُ تَمَنّيكَ، وَالرّضا بِما يَكْفيكَ، وَ الْفَقْرُ شَرَهُ النّفْسِ وَ شِدَّةُ القُنُوطِ، وَالدِّقَّةُ إتّباعُ الْيَسيرِ وَالنَّظَرُ فِى الْحَقيرِ. 34
34. امام علی النقی (علیہ السلام): بے نیازی، كم آرزؤں كی قلت سے حاصل ہوتی ہے اور محتاجی، نفس كے لالچی پن اور شدت سے مایوسی۔

35. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): الاِْمامُ بَعْدى الْحَسَنِ، وَ بَعْدَهُ ابْنُهُ الْقائِمُ الَّذى يَمْلاَُ الاَْرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلاً كَما مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً. 35
35. امام علی النقی (علیہ السلام): میرے بعد حسن (عسكری)امام ہیں اور ان كے بعد ان كے بیٹے قائمامام ہیں جو زمین كو عدل وانصاف سے اسی طرح بھردیں گے جس طرح وہ ظلم وستم سے بھر چكی ہوگی۔

36. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): إذا كانَ زَمانُ الْعَدْلِ فيهِ أغْلَبُ مِنَ الْجَوْرِ فَحَرامٌ أنْ يُظُنَّ بِأحَد سُوءاً حَتّى يُعْلَمَ ذلِكَ مِنْهُ. 36
36. امام علی النقی (علیہ السلام): جس زمانے میں عدل وانصاف كا غلبہ ظلم و ستم سے زیادہ ہو تو كسی كے بارے میں برائی كا گمان كرنا حرام ہے یہاں تك كہ برائی كا یقین حاصل ہو جائے۔

37. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): إنَّ لِشيعَتِنا بِوِلايَتِنا لَعِصْمَةٌ، لَوْ سَلَكُوا بِها فى لُجَّةِ الْبِحارِ الْغامِرَةِ. 37
37. امام علی النقی (علیہ السلام): ہمارے شیعوں كے لئے ہماری ولایت پناہ گاہ ہے كہ جس كے ذریعہ وہ اتھاہ سمندروں كی موجوں میں بھی چل سكتے ہیں ۔

38. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): يا داوُدُ لَوْ قُلْتَ: إنَّ تارِكَ التَّقيَّةَ كَتارِكِ الصَّلاةِ لَكُنتَ صادِقاً. 38
38. امام علی النقی (علیہ السلام): اے داؤد اگر تم یہ كہو كہ (تقیہ كے موقع پر) تقیہ چھوڑنے والا بے نمازی كے مانند ہے تو تم سچے ہو ۔

39. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): الحلم أنْ تَمْلِكَ نَفْسَكَ وَ تَكْظِمَ غَيْظَكَ، وَ لا يَكُونَ ذلَكَ إلاّ مَعَ الْقُدْرَةِ. 39
39. امام علی النقی (علیہ السلام): حلم یہ ہے كہ اپنے نفس پر قابو ركھو اپنے غصہ كو پی جاؤ یہ قدرت و توانائی كے بغیر ممكن نہیں ھے۔

40. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): اِنّ اللّهَ جَعَلَ الدّنيا دارَ بَلْوى وَالاْخِرَةَ دارَ عُقْبى، وَ جَعَلَ بَلْوى الدّنيا لِثوابِ الاْخِرَةِ سَبَباً وَ ثَوابَ الاْخِرَةِ مِنْ بَلْوَى الدّنيا عِوَضاً . 40
40. امام علی النقی (علیہ السلام): اللہ نے دنیا كو بلاؤں كا گھر اور آخرت كو نتائج كا گھر قرار دیا ہے اور دنیا كی بلاؤں كو آخرت كے ثواب كا سبب اور آخرت كے ثواب كو دنیا كی بلاؤں كا عوض قرار دیا ہے ۔
----------
1. بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی، ج۶۸، ص۱۸۲۔ اعیان الشیعہ سید محسن امین عاملی، ج۲، ص۳۹۔
2. عدة الداعی؛ ابن فہد حلی، ص۲۰۸۔
3. بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی،ج۶۹،ص ۱۷۲۔
4. بحار الانوار: ج۷۵، ص ۳۶۹ ح۴۔ اعلام الدین؛ ابو الحسن دیلمی،ص ۳۱۲س ۱۴۔
5. بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی، ج۶۹، ص۱۹۹ح۲۷۔
6. الدرۃ الباھرۃ ؛ ص۴۲، س۵۔ بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی،ج ۷۵، ص۳۶۹، ح۲۰۔
7. اعیان الشیعۃ؛ سید محسن امین عاملی، ص۲، ص۳۹۔تحف العقول؛ ابن شعبہ حرانی، ص۴۳۸۔
8. اعیان الشیعۃ؛ سید محسن امین عاملی، ج۲، ص۳۹۔ بحار الانوار: ج۱۷۔
9. مستدرك الوسائل؛ میرزا حسین نوری، ج۱۲، ص۳۰۸، ح۱۴۱۶۲۔
10. عیون اخبار الرضا(ع)؛ شیخ صدوق، ج۲، ص۲۶۰، ح۲۲۔
11. الامالی؛ شیخ طوسی، ج ۲، ص۵۸۰، ح۸۔
12. مستدرك الوسائل؛ میرزا حسین نوری، ج۱۲، ص۱۱، ۱۳۳۷۶۔
13. بحار الانوار: ج۲، ص۶، ضمن ح۱۳۔
14. تحف العقول، ص ۸۸۰
15. بحار الانوار: ج۷۳، ص۱۱۴، ح۱۶۔
16. اعلام الدین؛ ابو الحسن دیلمی، ص۳۱۱، س۱۶۔ بحار الانوار: ج ۷۵، ص۳۶۹، ح۴۔
17. الكافی؛ ثقۃ الاسلام كلینی، ج۵، ص۱۲۵، ح۷۔
18. نزهۃالناظر و تنبیہ الخاطر؛ ص۱۴۱، ح۲۳۔ اعلام الدین؛ ابو الحسن دیلمی، ص۳۱۱، س۲۰۔
19. بحار الانوار: ج۶۹، ص۳۱۶، ح۲۴۔
20. اعلام الدین؛ ابو الحسن دیلمی، ص۳۱۱، س۴۔ بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی ،ج۷۵، ص۳۶۹۔
21. تحف العقول؛ ابن شعبہ حرانی، ص۳۵۷۔ بحار الانوار: ج۹۸، ص ۱۳۰، ضمن ح ۳۴۔
22. تحف العقول؛ ابن شعبہ حرانی، ص۳۵۸۔ بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی، ج۵۹، ص۲، ضمن ح۶۔
23. تحف العقول؛ ابن شعبہ حرانی، ص ۳۸۳۔ بحار الانوار: ج۷۵، ص۳۶۵۔
24. المحجۃ البیضاء؛ فیض كاشانی، ج۵، ص۲۲۵۔
25. بحار الأنوار، ج 75، ص 370
26. بحارالانوار: ج 57، ص 83، ح 64.
27. بحار الانوار: ج ۵۰، ص۲۶۴۔ ح۲۴۔
28. تحف العقول، ص 457
29. بحار الانوار: ج۷۱، ص۳۲۴۔
30. بحار الانوار: ج۷۵، ص۳۶۹، س۴۔
31. بحار الانوار: ج۷۵، ص۱۷۳، ح۲۔
32. نزھۃ الناظر؛ ص۱۳۹، ح۱۲ بحار الانوار، ج۷۸، ص۳۶۸، ضمن ح۳۔
33. نزھۃ الناظر وتنبیہ الخاطر؛ ص۱۴۱، ح۲۱۔ مستدرك الوسائل؛ میرزا حسین نوری، ۲، ص۳۳۶، ح۱۱۔
34. الدّرّة الباهرة: ص 14، نزهة الناظر: ص 138، ح 7، بحار: ج 75، ص 109، ح 12.
35. بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی،،ج ۵۰، ص۲۳۹، ح۴۔
36. بحار الانوار: ج۷۳، ۱۹۷، ح۱۷۔ الدرة الباھرة؛ ص۴۲، س۱۰۔
37. بحار الانوار: ج۵۰، ص۲۱۵، ح۱، س۱۸۔
38. وسائل الشیعۃ؛ شیخ حر عاملی، ج۱۶، ص۲۱۱، ح۲۱۳۸۲۔ مستطرفات السرائر ؛ ابن ادریس حلی، ص۶۷، ح۱۰۔
39. نزھۃ الناظر وتنبیہ الخاطر؛ ص۱۳۸، ح۵۔ مستدرك الوسائل؛ میرزا حسین نوری، ج۲، ص۳۰۴، ح۱۷۔
40. تحف العقول؛ ابن شعبہ حرانی، ص۳۵۸۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام كی چالیس حدیثیں

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام كی چالیس حدیثیں
مترجم: نور محمد ثالثی
(گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)
1. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): يَا ابْنَ آدْم! عَفِّ عَنِ مَحارِمِ اللّهِ تَكُنْ عابِداً، وَ ارْضِ بِما قَسَّمَ اللّهُ سُبْحانَهُ لَكَ تَكُنْ غَنِيّاً، وَ أحْسِنْ جَوارَ مَنْ جاوَرَكَ تَكُنْ مُسْلِماً، وَ صاحِبِ النّاسَ بِمِثْلِ ما تُحبُّ أنْ يُصاحِبُوكَ بِهِ تَكُنْ عَدْلاً. 1
1۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: اے بنی آدم! محرمات الٰہی سے باز رہو تو عابد بن جاؤ گے ۔ اللہ كی تقسیم سے راضی رھو تو بے نیاز ہو جاؤ گے ۔ اپنے پڑوسی سے اچھا سلوك كرو تو مسلمان بن جاؤ گے اور لوگوں كے ساتھ ایسے رہو جیسے كہ تم پسند كرتے ہو كہ وہ تمہارے ساتھ رہیں تو عادل بن جاؤ گے ۔
2. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): نَحْنُ رَيْحانَتا رَسُولِ اللّهِ، وَ سَيِّدا شَبابِ أهْلِ الْجَنّةِ، فَلَعَنَ اللّهُ مَنْ يَتَقَدَّمُ، اَوْ يُقَدِّمُ عَلَيْنا اَحَداً. 2
2۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: ہم دونوں (امام حسن(ع) و امام حسین (ع)) رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے دو پھول ہیں اور جوانان جنت كے دو سردار ہیں خدا كی لعنت ہو اس پر جو ہم پر سبقت كرے یا كسی كو ہم پر فوقیت دے ۔

3. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): إنّ حُبَّنا لَيُساقِطُ الذُّنُوبَ مِنْ بَنى آدَم، كَما يُساقِطُ الرّيحُ الْوَرَقَ مِنَ الشَّجَرِ. 3
3۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: بے شك ہماری محبت بنی آدم سے گناہوں كو اسی طرح گرادیتی ہے جس طرح ہوا كا جھونكا درخت سے (سوكھے )پتوں كو گرادیتا ہے ۔

4. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): لَقَدْ فارَقَكُمْ رَجُلٌ بِالاْمْسِ لَمْ يَسبِقْهُ الاْوَّلُونَ، وَ لا يُدْرِكُهُ أَلاْخِرُونَ. 4
4۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: كل تم سے ایك ایسا شخص جدا ہوا ہے جس كے مانند نہ اولین میں كوئی تھا اور نہ آخرین میں سے كوئی اس كے مقام كو پا سكتا ہے ۔

5. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): مَن قَرَءَ الْقُرْآنَ كانَتْ لَهُ دَعْوَةٌ مُجابَةٌ، إمّا مُعَجَّلةٌ وَإمّا مُؤجَلَّةٌ. 5
5۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: جو قرآن كی تلاوت كرتا ہے اس كی ایك دعا مستجاب ہے چاہے جلدی چاہے تاخیر سے ۔

6. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): إنّ هذَا الْقُرْآنَ فيهِ مَصابيحُ النُّورِ وَشِفاءُ الصُّدُورِ. 6
6۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: اس قرآن میں ہدایت كی روشنی كے چراغ اور دلوں كی شفا ہے ۔

7. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): مَنَ صَلّى، فَجَلَسَ فى مُصَلاّه إلى طُلُوعِ الشّمسِ كانَ لَهُ سَتْراً مِنَ النّارِ. 7
7۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: جو نماز پڑھنے كے بعد طلوع آفتاب تك اپنے مصلے پر بیٹھا رہے اس كو جہنم كی آگ سے بچنے كی سپر حاصل ہو جاتی ہے ۔

8. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): إنَّ اللّهَ جَعَلَ شَهْرَ رَمَضانَ مِضْماراً لِخَلْقِهِ، فَيَسْتَبِقُونَ فيهِ بِطاعَتِهِ إِلى مَرْضاتِهِ، فَسَبَقَ قَوْمٌ فَفَازُوا، وَقَصَّرَ آخَرُونَ فَخابُوا. 8
8۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ماہ رمضان كو اپنی مخلوقات كے لئے مسابقہ كا میدان قرار دیا ہے كہ جس میں مخلوقات خدا كی اطاعت كے ذریعہ اس كی مرضی حاصل كرنے پر سبقت لیتے ہیں جہاں ایك گروہ سبقت لے كر كامیاب ہو جاتا ہے اور دوسرا كوتاہی كر كے گھاٹے میں رہ جاتا ہے ۔

9. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): مَنْ أدامَ الاْخْتِلافَ إلَى الْمَسْجِدِ أصابَ إحْدى ثَمان: آيَةً مُحْكَمَةً، أَخاً مُسْتَفاداً، وَعِلْماً مُسْتَطْرَفاً، وَرَحْمَةً مُنْتَظِرَةً، وَكَلِمَةً تَدُلُّهُ عَلَى الْهُدى، اَوْ تَرُدُّهُ عَنْ الرَّدى، وَتَرْكَ الذُّنُوبِ حَياءً اَوْ خَشْيَةً. 9
9۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: جو مسلسل مسجدوں میں آمد و رفت ركھے گا اسے آٹھ میں سے كوئی ایك چیز ضرور حاصل ہو جائے گی آیت محكم، مفید بھائی، جامع معلومات، رحمت عام، ایسی بات جو نیكی كی ہدایت كر دے یا برائی سے باز ركھے، شرم وحیا یا خوف خدا سے گناہوں كو ترك كرنا ۔

10. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): مَنْ أكْثَرَ مُجالِسَة الْعُلَماءِ أطْلَقَ عِقالَ لِسانِهِ، وَ فَتَقَ مَراتِقَ ذِهْنِهِ، وَ سَرَّ ما وَجَدَ مِنَ الزِّيادَةِ فى نَفْسِهِ، وَكانَتْ لَهُ وَلايَةٌ لِما يَعْلَمُ، وَ إفادَةٌ لِما تَعَلَّمَ. 10
10۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: امام حسن مجتبی علیہ السلام: جو علماء كی ہمنشینی میں زیادہ رہے گا اس كی زبان كا بندھن كھل جائے گا اور اس كے ذہن كی گرھیں وا ہو جائیں گی۔اور اپنے نفس میں رشد وارتقاء كا سرور پائے گا، اپنی معلومات كا ولی ہوگا اور اپنی معلومات سے لوگوں كو مستفاد كرے گا۔

11. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، فَإنْ لَمْ تَسْتَطيعُوا حِفْظَهُ فَاكْتُبُوهُ وَوَ ضَعُوهُ فى بُيُوتِكُمْ. 11
11۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: علم حاصل كرو اور اگر اسے حفظ نہ كرپاؤ تو لكھ لو اور اپنے گھروں میں محفوظ ركھو ۔

12. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): مَنْ عَرَفَ اللّهَ أحَبَّهُ، وَ مَنْ عَرَفَ الدُّنْيا زَهِدَ فيها. 12
12۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: جو اللہ كی معرفت ركھے گا وہ اس سے محبت كرے گا، اور جو دنیا كی معرفت ركھے گا وہ اس میں پار سائی اختیار كرے گا ۔

13. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): هَلاكُ الْمَرْءِ فى ثَلاث: اَلْكِبْرُ، وَالْحِرْصُ، وَالْحَسَدُ; فَالْكِبْرُ هَلاكُ الدّينِ،، وَبِهِ لُعِنَ إبْليسُ. وَالْحِرْصُ عَدُوّ النَّفْسِ، وَبِهِ خَرَجَ آدَمُ مِنَ الْجَنَّةِ. وَالْحَسَدُ رائِدُ السُّوءِ، وَمِنْهُ قَتَلَ قابيلُ هابيلَ. 13
13۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: انسان كی ہلاكت تین چیزوں میں ہے ۔ تكبر، لالچ، اور حسد، تكبر سے دین تباہ ہو جاتا ہے اور اسی كے ذریعہ ابلیس ملعون ہوگیا ۔ اور لالچ، نفس كی دشمن ہے اور اس كے ذریعہ آدم كو جنت سے نكلنا پڑا، اور حسد برائی كی راہنمائی كرتا ہے اور اسی كے ذریعہ ہابیل كو قابیل نے قتل كردیا ۔

14. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): بَيْنَ الْحَقِّ وَالْباطِلِ أرْبَعُ أصابِع، ما رَأَيْتَ بَعَيْنِكَ فَهُوَ الْحَقُّ وَقَدْ تَسْمَعُ بِأُذُنَيْكَ باطِلاً كَثيراً. 14
14۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: حق و باطل كے درمیان چار انگشت كا فاصلہ ہے ۔ جسے تم نے اپنی آنكھ سے دیكھا ہے وہ حق ہے اور اكثر و بیشتر تمہاری سنی ہوئی چیز باطل ہوا كرتی ہیں ۔

15. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): ألْعارُ أهْوَنُ مِنَ النّارِ. 15
15۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: ننگ و عار، آتش جہنم سے بہتر ہے ۔

16. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): إذا لَقى أحَدُكُمْ أخاهُ فَلْيُقَبِّلْ مَوْضِعَ النُّورِ مِنْ جَبْهَتِهِ. 16
16۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: جب تم میں سے كوئی اپنے دینی بھائی سے ملاقات كرے تو پیشانی پر نور كی جگہ (سجدہ گاہ)كا بوسہ لے ۔

17. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): إنَّ اللّهَ لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً، وَلَيْسَ بِتارِكِكُمْ سُدًى، كَتَبَ آجالَكُمْ، وَقَسَّمَ بَيْنَكُمْ مَعائِشَكُمْ، لِيَعْرِفَ كُلُّ ذى لُبٍّ مَنْزِلَتَهُ، وأنَّ ماقَدَرَ لَهُ أصابَهُ، وَما صُرِفَ عَنْهُ فَلَنْ يُصيبَهُ. 17
17۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: اللہ نے تمہیں عبث پیدا نہیں كیا ہے اور تمہیں بے غرض بھی نہیں چھوڑے گا ۔ (اس نے)تمہاری موت كا وقت مقرر كر دیا ہے ۔ اور تمہارے معاش كو تمہارے درمیان تقسیم كر دیا ہے تاكہ ہر صاحب عقل اپنی منزلت كو پالے اور جو كچھ اللہ نے اس كے لئے مقدر كیا ہے وہ اسے مل كر رہے گا۔اور جسے اللہ نے اس سے دور كردیا ہے اسے وہ ہرگز نہیں پا سكتا۔

18. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): لا تُواخِ أحَداً حَتّى تَعْرِفَ مَوارِدَهُ وَ مَصادِرَهُ، فَإذَا اسْتَنْبَطْتَ الْخِبْرَةَ، وَ رَضيتَ الْعِشْرَةَ، فَآخِهِ عَلى إقالَةِ الْعَثْرَةِ، وَ الْمُواساةِ فىِ الْعُسْرَةِ . 18
18۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: كسی كو اپنا اس وقت تك دوست نہ بناؤ جب تك كہ اس كے اٹھنے بیٹھنے كی جگہ نہ سمجھ لو ۔ اور جب تمہیں معلومات فراہم ہو گئیں اور اس كی ہمنشینی سے تم راضی ھوگئے تو پھر اسے اپنا دوست اور بھائی بنالو اور اس كی كوتاہیوں سے در گذر كرو اور مشكل وقت میں اس كے كام آؤ ۔

19. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): الْبُخْلِ أنْ يَرىَ الرَّجُلُ ما أنْفَقَهُ تَلَفاً، وَما أمْسَكَهُ شَرَفاً. 19
19۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: بخل یہ ہے كہ انسان جو انفاق كرے اسے تلف سمجھے اور جسے بچالے اسے شرف سمجھے ۔

20. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): تَرْكُ الزِّنا، وَكَنْسُ الْفِناء، وَغَسْلُ الاْناء مَجْلَبَةٌ لِلْغِناء. 20
20۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: زنا نہ كرنا، چوكھٹ كو صاف ركھنا، برتن كو دھلا ہوا ركھنا بے نیازی و ثروت كا باعث ہے ۔

21. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): السِّياسَةُ أنْ تَرْعى حُقُوقَ اللّهِ، وَحُقُوقَ الاْحْياءِ، وَحُقُوقَ الاْمْواتِ. 21
21۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: سیاست یہ ہے كہ حقوق اللہ، زندوں اور مردوں ( تمام انسانوں )كے حقوق كی رعایت كرو ۔

22. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): ما تَشاوَرَ قَوْمٌ إلاّ هُدُوا إلى رُشْدِهِمْ. 22
22۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: كوئی قوم صلاح و مشورہ نہیں كرتی مگر یہ كہ راہ ہدایت كو پالیتی ہے ۔

23. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): اَلْخَيْرُ الَذّى لا شَرَّ فيهِ، ألشُّكْرُ مَعَ النِّعْمَةِ، وَالصّبْرُ عَلَى النّازِلَةِ. 23
23۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: جس نیكی میں (ذرہ برا بر بھی )برائی نہیں پائی جاتی وہ، نعمت پر شكر ادا كرنا، اور مصبیت پر صبر كرنا ہے ۔

42. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): يَابْنَ آدَم! لَمْ تَزَلْ فى هَدْمِ عُمْرِكَ مُنْذُ سَقَطْتَ مِنْ بَطْنِ اُمِّكَ، فَخُذْ مِمّا فى يَدَيْكَ لِما بَيْنَ يَدَيْكَ، فَإنَّ الْمُؤْمِن یَتَزَوَّدُ وَ الْكافِرُ يَتَمَتَّعُ . 24
24۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: اے بنی آدم ! تم جب سے اپنی ماں كے شكم سے باہر آئے ہو مسلسل اپنی زندگی كی عمارت ڈھار ہے ہو لہٰذا جو سامنے آنے والا ہے (قیامت) اس كے لئے موجودہ زندگی سے توشہ فراہم كر لو كہ مومن زاد راہ فراہم كرتا ہے اور كافر لذتوں میں مست رہتا ہے ۔

25. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): إنَّ مَنْ خَوَفَّكَ حَتّى تَبْلُغَ الاْمْنَ، خَيْرٌ مِمَّنْ يُؤْمِنْكَ حَتّى تَلْتَقِى الْخَوْفَ. 25
25۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: جو تمہیں ڈراتا رہے یہاں تك كہ تم اپنی آرزو كو پالو اس شخص سے بہتر ہے جو تمہیں اطمینان دلاتا رہے یہاں تك كہ تمہیں خوف لاحق ہو جائے ۔

26. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): القَريبُ مَنْ قَرَّبَتْهُ الْمَوَدَّةُ وَإنْ بَعُدَ نَسَبُهُ، وَالْبَعيدُ مَنْ باعَدَتْهُ الْمَوَدَّةُ وَإنْ قَرُبُ نَسَبُهُ. 26
26۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: تم سے نزدیك وہ ہے جو مودت و محبت كے ذریعہ تم سے قریب ہو ا ہے چاہے حسب ونسب كے اعتبار سے دور ہی كیوں نہ ہو۔ اور دور وہ ہے جو محبت كے اعتبار سے دور ہے چاہے تمہارا قریبی رشتہ دار ہی كیوں نہ ہو۔

27. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): الْمُرُوَّةِ؛ شُحُّ الرَّجُلِ عَلى دينِهِ، وَإصْلاحُهُ مالَهُ، وَقِيامُهُ بِالْحُقُوقِ . 27
27۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: مردانگی یہ ہے انسان اپنے دین كی خفاظت كرے اپنے مال كی اصلاح كرے اور اپنے اوپر عائد حقوق كو ادا كرے ۔

28. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): عَجِبْتُ لِمَنْ يُفَكِّرُ فى مَأكُولِهِ كَيْفَ لايُفَكِّرُ فى مَعْقُولِهِ، فَيَجْنِبُ بَطْنَهُ ما يُؤْذيهِ، وَيُوَدِّعُ صَدْرَهُ ما يُرْديهِ. 28
28۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو اپنی غذ ا كے سلسلہ میں غور وفكر سے كام لیتا ہے لیكن اپنی عقل كے سلسلہ میں فكر مند نہیں ہے كہ اپنے شكم كو اذیت دینے والی چیزوں سے بچاتا ہے اور اپنے دل ودماغ كو فاسد كر دینے والی چیزوں كو جمع كئے جا رہا ہے ۔

29. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): غَسْلُ الْيَدَيْنِ قَبْلَ الطَّعامِ يُنْفِى الْفَقْرَ، وَبَعْدَهُ يُنْفِى الْهَمَّ . 29
29۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: كھانے سے پہلے ہاتھ دھلنا فقر و تنگدستی كو ختم كرتا ہے اور كھانے كے بعد ھم وغم كو دور كرتا ہے ۔

30. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): حُسْنُ السُّؤالِ نِصْفُ الْعِلْمِ. 30
30۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: اچھا سوال، آدھا علم ہے ۔

31. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): إنّ الْحِلْمَ زينَةٌ، وَالْوَفاءَ مُرُوَّةٌ، وَالْعَجَلةَ سَفَهٌ. 31
31۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: حلم وبردباری زینت ہے، وفاداری مردانگی ہے اور جلد بازی بے وقوفی ہے۔

32. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): مَنِ اسْتَخَفَّ بِإخوانِهِ فَسَدَتْ مُرُوَّتُهُ. 32
32۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: جو اپنے بھائیوں كی آبرو ریزی كرتا ہے اس كی مردانگی تباہ ہوجاتی ہے ۔

33. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): إنّما يُجْزى الْعِبادُ يَوْمَ الْقِيامَةِ عَلى قَدْرِ عُقُولِهِمْ.33
33۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: بندوں كو بروز قیامت ان كی عقلوں كے حساب سے جز ا دی جائے گی ۔

34. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): إنَّ الْقُرْآنَ فيهِ مَصابيحُ النُّورِ، وَ شِفاءُ الصُّدُورِ، فَيَجِلْ جالَ بَصَرُهُ، وَ لْيَلْجَمُ الصِّفّةَ قَلْبِهِ، فَإنَّ التَّفْكيرَ حَياةُ الْقَلْبِ الْبَصيرِ، كَما يَمْشي الْمُسْتَنيرُ فىِ الظُّلُماتِ بِالنُّورِ. 34
34۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: بے شك قرآن میں ہدایت كے روشن چراغ اور دلوں كی شفا ہے لہٰذا اپنی آنكھوں كو اس كے ذریعہ جلا بخشو اور اپنے دل كو اس كے ذریعہ صیقل دو۔ اس لئے كہ غور وفكر كرنا بصیر آدمی كے دل كی زندگی ہے جس طرح تاریكی میں راستہ چلنے والا اپنے ساتھ روشنی لے كر چلتا ہے ۔

35. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): ألْمِزاحُ يَأْكُلُ الْهَيْبَةَ، وَ قَدْ أكْثَرَ مِنَ الْهَيْبَةِ الصّامِت. 35
35۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: مزاح، ہیبت كو كھا جاتی ھے، اور خاموش انسان، زیادہ ہیبت كا مالك ہوتا ہے ۔

36. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): أللُؤْمُ أنْ لا تَشْكُرَ النِّعْمَةَ. 36
36۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: تمہارا شكر نعمت نہ كرنا، تمہاری پستی كی نشانی ہے ۔

37. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): لَقَضاءُ حاجَةِ أخ لى فِى اللّهِ أحَبُّ مِنْ إعْتِكافِ شَهْر. 37
37۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: دینی بھائی كی ضرورت كو پورا كرنا میرے نزدیك ایك ماہ كے اعتكاف سے بہتر ہے ۔

38. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): إنَّ الدُّنْيا فى حَلالِها حِسابٌ، وَ فى حَرامِها عِقابٌ، وَفِى الشُّبَهاتِ عِتابٌ، فَأنْزِلِ الدُّنْيا بِمَنْزَلَةِ الميتَةِ، خُذْمِنْها مايَكْفيكَ. 38
38۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: دنیا كی حلال چیزوں میں حساب اور حرام میں عذاب ہے اور شبہ ناك چیزوں میں سرزنش ہے لٰہذا دنیا كو مردار سمجھو اور اس سے بقدر ضرورت استفادہ كرو۔

39. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): اعْمَلْ لِدُنْياكَ كَأنَّكَ تَعيشُ أبَداً، وَ اعْمَلْ لآخِرَتِكَ كَأنّكَ تَمُوتُ غدَاً. 39
39۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: اپنی دنیا كے لئے اس طرح عمل كرو كہ گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے، اور اپنی آخرت كے لئے ایسے عمل كرو كہ گویا تمہیں كل ہی مر جانا ہے ۔

40. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): أكْيَسُ الْكَيِّسِ التُّقى، وَ أحْمَقُ الْحُمْقِ الْفُجُورَ، الْكَريمُ هُوَ المتَّبَرُّعُ قَبْلَ السُّؤالِ. 40
40۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: سب سے زیادہ ہوشیار متقی آدمی ہے اور سب سے بڑا بے وقوف فسق وفجور كرنے والا ہے ۔ كریم شخص وہ ھے جو ضرورت مند كے سوال سے پہلے اس كی ضرورت پوری كردے۔

41. قالَ الإمامُ الْمُجتبى (عَلَيْهِ السَّلام): مَنْ عَبَدَ اللّهَ، عبَّدَ اللّهُ لَهُ كُلَّ شَىْء. 41
41. امام حسن مجتبی علیہ السلام: جو اللہ كی عبادت و اطاعت كرے گا اللہ تعالیٰ ہر شئے كو اس كا مطیع بنا دے گا۔
---------
1. نزھۃ الناظر وتنبیہ الخواطر؛ص۷۹، ح۳۳، بحار الانوار؛ج۷۸، ص۱۱۲، س۸۔
2. كلمۃ الامام الحسن (علیہ السلام)؛۷، ص۲۱۱۔
3. كلمۃ الامام الحسن (علیہ السلام)؛۷، ص ۲۵، بحار الانوار؛ج۴۴، ص۲۳، ح۷۔
4. احقاق الحق؛ج۱۱، ص۱۸۳، س۲و ص۱۸۵۔
5. دعوات الراوندی؛ص۲۴، ح۱۳، بحار الانوار؛ج۹۸، س۲۰۴، ح۲۱۔
6. بحار الانوار؛ ج۷۵، ص۱۱۱، ضمن ح۶۔
7. وافی؛ ج۴، ص۱۵۵۳، ح۲، تہذیب الاحكام؛ ج۲، ص۳۲۱، ح۲، ۱۶۶۔
8. تحف العقول؛ص۲۳۴، س۱۴، من لایحضرہ الفقیہ؛ ج۱، ص۵۱۱، ح۱۴۷۹۔
9. تحف العقول؛ ص۲۳۵، س ۷، مستدرك الوسائل؛ ج۳، ص۳۵۹، ح۳۷۷۸۔
10. احقاق الحق؛ج۱۱، ص۲۳۸، س۲۔
11. احقاق الحق؛ ج۱۱، ص۲۳۵، س۷۔
12. كلمۃ الامام الحسن (علیہ السلام)؛۷، ص۱۴۰۔
13. اعیان الشیعہ؛ج۱، ص۵۷۷، بحار الانوار؛ ج۷۵، ص۱۱۱، ح۶ ۔
14. تحف العقول؛ ص۲۲۹، س۵، بحار الانوار؛ ج ۷۵، ص۱۱۰، ص۵ ۔
15. كلمۃ الامام الحسن (علیہ السلام)؛۷، ص۱۳۸، تحف العقول؛ ص۲۳۴، س۶، بحار الانوار؛ج۷۵، ص۱۰۵، ح۴۔
16. تحف العقول؛ص۲۳۶، س۳، بحارالانوار؛ ج۷۵، ص۱۰۵، ح۴۔
17. تحف العقول؛ص۲۳۲، س۲، بحار الانوار؛ ج۷۵، ص۱۱۰، ح۵۔
18. تحف العقول؛ ص۱۶۴، س۲۱، بحار الانوار؛ ج۷۵، ص۱۰۵، ح۳۔
19. اعیان الشیعہ؛ ج۱، ص۵۷۷، بحارالانوار؛ج۷۵، ص۱۱۳، ح۷۔
20. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۲۱۲، بحار الانوار؛ ج۷۳، ص۳۱۸، ح۶۔
21. گذشتہ حوالہ؛ ص۵۷۔
22. تحف العقول؛ ص۲۳۳، اعیان الشیعہ؛ ج۱، ص۵۷۷، بحارالانوار؛ج۷۵، ص۱۱۱، ح۶۔
23. تحف العقول؛ ص۲۳۴، س۷،بحارالانوار؛ج۷۵، ص۱۰۵، ح۴۔
24. نزھۃ الناظر وتنبیہ الخاطر؛ ص۷۹، س۱۳، بحارالانوار؛ج۷۵، ص۱۱۱، ح۶۔
25. احقاق الحق؛ج۱۱، ص۲۴۲،س۲۔
26. تحف العقول؛ص۲۳۴، س۳، بحار الانوار؛ج۷۵، ص۱۰۶، ح۴۔
27. تحف العقول؛ ص۲۳۵، س۱۴، بحار الانوار؛ج۷۳، ص۳۱۲، ح۳۔
28. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۳۹، بحار الانوار؛ج۱، ص۲۱۸، ح۴۳۔
29. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۴۶۔
30. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۱۲۹۔
31. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۱۹۸۔
32. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۲۰۹۔
33. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۲۰۹۔
34. نزھۃ الناظر وتنبیہ الخاطر؛ ص۷۳، ص۱۸، بحار الانوار؛ج۷۸، ص۱۱۲، س۱۵۔
35. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۱۳۹، بحار الانوار؛ ج۷۵، ص۱۱۳، ح۷۔
36. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۱۳۹، بحار الانوار؛ ج۷۵، ص۱۰۵، ح۴۔
37. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۱۳۹۔
38. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۳۶، بحار الانوار؛ ج۴۴، ص۱۳۸، ح۶۔
39. كلمۃ الامام الحسن(علیہ السلام؛ ص۳۷، بحار الانوار؛ ج۴۴، ص۱۳۸، ح۶۔
40. احقاق الحق؛ ج۱۱، ص۲۰،س۱، بحار الانوار؛ ج۴۴، ص۳۰۔
41. تنبیہ الخواطر، معروف بہ مجموعہ ورام؛ص۴۲۷، بحار؛ ج۶۸، ص۱۸۴، ح۴۴۔

وہ احادیث جو حضرت معصومہ(س) سے منقول ہیں

وہ احادیث جو حضرت معصومہ(س) سے منقول ہیں
حدثتنی فاطمۃ و زینب و ام کلثوم بنات موسی بن جعفر قلن : ۔۔۔ عن فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و رضی عنہا : قالت : ”انسیتم قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یوم غدیر خم ، من کنت مولاہ فعلی مولاہ و قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی“
اس حدیث کو حضرت فاطمہ معصومہ(س) امام صادق(ع) کی بیٹی سے نقل کرتی ہیں ۔ اس حدیث کی سند کا سلسلہ حضرت زہرا(س) پر اختتام پزیر ہوتا ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا(س) نے فرمایا : کیا تم نے فراموش کردیا رسول خدا(ص) کے اس قول کو جسے آپ نے غدیر کے دن ارشاد فرمایا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع) مولا ہیں ۔
اور کیا تم نے رسول خدا(ص) کے اس قول کو فراموش کردیا کہ آپ(ص) نے علی(ع) کے لئے فرمایا تھا کہ آپ(ع) میرے لئے ایسے ہیں جیسے موسی(ع) کے لئے ہارون(ع) تھے۔(عوالم العلوم، ج/۲۱ ، ص/353)

عن فاطمۃ بنت موسی بن جعفر علیہ السلام :
۔۔۔ عن فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : قالت :
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم :
«اٴلا من مات علی حب آل محمد مات شہیداً »
حضرت فاطمہ معصومہ(س) اسی طرح ایک اور حدیث حضرت امام صادق(س) کی بیٹی سے نقل کرتی ہیں اور اس حدیث کا سلسلہ سند بھی حضرت زہرا(س) پر اختتام پزیر ہوتا ہے ۔
حضرت زہرا(س) نے فرمایا کہ رسول خدا(ص) فرماتے ہیں: آگاہ ہوجاوٴ کہ جو اہل بیت (ع) کی محبت پر اس دنیا سے اٹھتا ہے وہ شہید اٹھتا ہے ۔
مرحوم علامہ مجلسی شیخ صدوق سے حضرت معصومہ(س) کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں روایت نقل فرماتے ہیں :
قال ساٴلت ابا الحسن الرضا علیہ السلام عن فاطمۃ بنت موسی ابن جعفر علیہ السلام قال : ” من زارہا فلہ الجنۃ
راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت فاطمہ معصومہ(س) کے بارے میں امام رضا (ع) سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ جو شخص ان کی قبر اطہر کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوجائے گی

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحت
رهبر انقلاب اسلامی آيةالله خامنئي
پیش نظر اقوال مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گہربار احادیث اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات کا وہ انتخاب ہے جو قائد انقلاب اسلامی نے احادیث کی معتبر کتب سے فقہ کے دروس میں "حسن آغاز" کے عنوان سے مختصر شرح و توضیح کے ساتھ پیش کیا ہے۔

خواہشات کے مرکب پر سوار نہ ہوں؛
من اكل ما يشتهي ولبس ما يشتهي وركب مايشتهي لم ينظر اللّه اليه حتى ينزع او يترك.
تحف العقول صحفه 38

ترجمہ :
اگر کوئي شخص جتنا دل چاہے کھاتا جو کچھ بھی دل چاہے پہنتا اور جس سواری پر دل چاہ گیا سوار ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس پر اس وقت تک نظر کرم نہیں ڈالے گا جب تک وہ ایسا کرنا ترک نہیں کر دیتا۔

شرح:
حدیث میں " رکب ما یشتھی" سے ممکن ہے حقیقی معنی مراد ہوں، یعنی ہر وہ سواری جو ایک شخص کو پسند ہو اور جس پر سوار ہونے کے لئے اس کا دل چاہتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مراد "مرکب الامر " ہو یعنی جس چیز کا بھی دل چاہے وہ کرنے بیٹھ جائے۔ بہرحال خدا وند عالم جو عالم وجود میں تمام انسانی کمالات، تمام خوبیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہے، چاہتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کا تابع اور دل کا اسیر نہ ہو بلکہ اپنی چاہتوں اور خواہشوں پر قابو رکھے خواہشات سے مجبور ہوکر کوئي کام انجام نہ دے۔ اس منزل میں ان افراد کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے جو اپنی ہر خواہش پوری کرنے پر قادر نہیں ہیں کیونکہ یہ ایک بڑی نعمت ہے کہ انسان کو نفسانی خواہشات کی تکمیل کی راہ ہموار نہ دکھائی دے۔ جہاں تک ہو سکے انسان کو خواہشات کا مقابلہ اور زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہئے۔

توکل آنکھوں کی ٹھنڈک؛
الدنيا دُوَل، فما كان لك أتاك على ضعفك وما كان منها عليك لم تدفعه بقوّتك ومن انقطع رجاءه مما فات، استراح بدنه ومن رضي بما قَسَمه اللّه قرّت عينه.
تحف العقول صحفه 40

ترجمہ:
دنیا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چکر کاٹتی رہتی ہے پس جو کچھ تمارا حصہ ہے وہ تمہیں ضرور ملے گا خواہ تم کمزور ہی کیوں نہ ہو اور دنیا کی جو مصیبتیں اور آفتیں تمہارا مقدر ہیں انہیں تم اپنے زور بازو سے برطرف نہیں کر سکتے۔ جو شخص ہاتھ سے نکل جانے والی چیزوں کی حسرت دل سے نکال دیتا ہے اس کو جسمانی سکون مل جاتا ہے اور جو اللہ کے فیصلے پر راضی رہتا ہے اسے آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل رہتی ہے۔


شرح:
حدیث میں "دول" جمع ہے "دولۃ" کی جس سے مراد وہ چیز ہے جو ایک سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ دنیوی سرمائے کا مزاج یہ ہے کہ وہ ایک حالت پر نہیں رہتا، تغیر و تبدل اس کا خاصہ ہوتا ہے۔ کبھی یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ مال و منال، جاہ و حشم، وسائل و امکانات اور صحت و عافیت جو ہمارے پاس ہیں عمر کے آخر تک ہمارا ساتھ دیں گے۔ جی نہیں، بہت ممکن ہے کہ ہم ان سے محروم ہو جائیں۔ یہاں دنیا کی جو بات کی گئي ہے کہ جس نے بھی اپنی امیدیں اس دنیا سے قطع کر لیں اس کے ذہن کو راحت مل گئی۔ اس سے مراد برائي کی دنیا ہے یعنی وہ چیزیں جو انسان اپنی نفسانی خواہشات کےتحت حاصل کرنا چاہتا ہے اور جس کی خاطر وہ اپنے خالق اور قیامت کو بھی فراموش کر دیتا ہے۔ ورنہ وہ دنیا جو کمال و ارتقا اور ان چیزوں کے حصول کا باعث ہو جن کا حصول انسان کا فریضہ ہے، وہ یہاں پر مراد نہیں ہے۔


تین عادتیں کمال ایمان؛
ثلاثٌ من كنّ فيه استكمل خصال الإيمان:الذي إذا رضي، لم يُدْخِله رضاه في باطلٍ وإذا غَضِبَ لم يخرجه الغضب من الحقّ وإذا قدر لم يتعاط ما ليس له.
تحف العقول صفحه 43

ترجمہ:
جس شخص میں یہ تین عادتیں ہوں اس میں ایمانی صفات کامل ہو جائیں گی: جب کسی چیز سے راضی و خوشنود ہو تو یہ خوشی اور پسندیدگی اسے باطل کی حدود میں داخل نہ کر دے، جب غصہ آئے تو وہ دائرہ حق سے خارج نہ ہو جائے، جب قوت و طاقت حاصل ہو تو جو چیز اس کی نہیں ہے اس کی طرف دست درازی نہ کرے۔

شرح:
روایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایمان انہیں تین عادتوں تک محدود ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جس شخص کے یہاں یہ تینوں صفتیں ہوں اس کے یہاں گویا ایمان کی سبھی صفات جمع ہیں۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک صفت، نیک صفات کا گلدستہ ہے اور ایک صفت پیدا ہونے سے صفات حسنہ کے بہت سے پھول کھل جاتے ہیں۔ کسی کی خوشنودی اور محبت اس کو باطل کی طرف نہ کھینچ لے جائے کہ وہ اس کا دفاع کرنے لگے یا اسی طرح کسی سے غصہ و ناراضگی ہے جو غلط روئے کا باعث بنتی ہے۔ جب قوت و اقتدار مل جائے تو انسان ایسا کوئي کام نہ کرے جو اس کو نہیں کرنا چاہئے۔

علم حیا ہے؛
الحياءُ حياءان، حياءُ عقلٍ وحياء حُمْقٍ، وحياء العقل العلم وحياءُ الحُمقِ الجهل. تحف العقول صفحه 45

ترجمہ:
شرم و حیا کی دو قسمیں ہیں، عاقلانہ حیا اور حماقت آمیز حیا، عاقلانہ حیا علم ہے، حماقت آمیز حیا جہالت ہے۔

شرح:
عاقلانہ حیا و شرم یہ ہے کہ انسان عقل و خرد کی بنیاد پر شرم و حیا کا احساس کرے۔ مثلا گناہ کرنے سے شرم کرے اسی طرح ایسے لوگوں کے سامنے حیا کہ جن کا احترام لازم ہے علم کی حیا ہے، یعنی ایسے مواقع پر روش اور انداز عالمانہ ہو۔ جہالت کی حیا یہ ہے کہ انسان کچھ پوچھنے سیکھنے یا عبادت وغیرہ میں شرم کرے، جیسے بعض افراد ماحول سے متاثر ہوکر احساس کمتری کے تحت نماز پڑھنے میں شرم کرتے ہیں یہ جاہلانہ حیا ہےجو صحیح نہیں ہے۔

بہترین اخلاق بہترین انسان؛
خياركم أحسنكم أخلاقاً، الذين يَألفون ويُؤلفون.
تحف العقول صفحه 45

ترجمہ:
آپ میں سب سےاچھے اور نیکوکار وہ ہیں جن کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں سے انس و محبت رکھتے ہیں اور دوسرے افراد ان سے مانوس ہو جاتے ہیں۔

شرح:
آپ کے درمیان بہترین افراد وہ ہیں جن کا عام لوگوں کے ساتھ برتاؤ سب سے اچھا ہو اور چہرا کھلا رہے تاکہ لوگ ملتفت اور ان سے مانوس ہوں۔ روایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئي شخص اپنی شرعی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کرتا اور اس کے چہرے پر بشاشت چھائي رہتی ہے، لوگوں سے ہنس کا ملتا ہے تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو اپنے شرعی فرائض پابندی سے ادا کرتا ہے لیکن چہرا مرجھایا رہتا ہےیا ملنے جلنے والوں میں خشک مزاج واقع ہوا ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ مرد مومن کو اپنے شرعی فرائض پر عمل کے ساتھ اچھے اخلاق کا حامل بھی ہونا چاہئے اور ایک خوش اخلاق نیکوکار مومن کو کسی بد اخلاق مومن پر ترجیح حاصل ہے اگر چہ وہ بھی نیکوکار ہے

کفایت شعاری تواضع کے ساتھ؛
وجاءَهُ رجل بِلَبَن وعسل لِيَشربُهُ، فقال صلى الله عليه وآله وسلّم: شرابان يُكتَفى بأحدهما عن صاحبه لا أَشربُهُ ولا اُحرّمُه ولكنّي أتواضَعُ للّه، فانّه مَن تواضع للّه رفعهُ اللّه ومن تَكبّر وضعَهُ اللّه ومَنِ اقْتصد في معيشته رزقَهُ اللّه ومن بَذّر حرمهُ اللّه ومن أكثر ذِكْر اللّهِ آجرهُ اللّه.
تحف العقول صفحه 46

ترجمہ:
ایک شخص پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں دودھ اور شہد پینے کے لئے لے کر آیا، پیغمبر (صلی) نے فرمایا: یہ دو مشروب ہیں اور ایک کے استعمال سے دوسرے کی ضرورت ختم ہو سکتی ہے، میں اس مشروب کو نہیں پیوں گا اور حرام بھی قرار نہیں دوں گا کیوں کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں متواضع رہنا چاہتا ہوں اور جو شخص اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اس کو رفعت و سرفرازی عطا کرتا ہے، اور جو تکبر کرتا ہے اللہ اسے پست و حقیر کر دیتا ہے، جو شخص کفایت شعاری سے کام لیتا ہے اللہ اس کو روزی دیتاہے اور جو شخص فضول خرچی کرتا ہے اللہ تعالی اسے محروم کر دیتا ہے، جو شخص خدا کی یاد میں ڈوبا رہتا ہے اللہ تعالی اسے اجر عطا کرتا ہے۔

شرح:
چونکہ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہوں کہ معصومین علیھم السلام کا بعض نعمتیں استعمال نہ کرنا اس لئے ہے کہ وہ ان کو حرام سمجھتے ہیں، لہذا مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس بات کی وضاحت فرما دی کہ میں خود اگرچہ نہیں کھاتا لیکن اسے حرام قرار نہیں دے رہا ہوں۔ میں اس لئے نہیں کھاتا کہ تمام نعمتوں سے استفادہ اپنے لئے پسند نہیں کرتا۔ لفظ "رفعت" سے بھی مراد معنوی بلندی ہے البتہ ظاہری بلندی بھی مقصود ہو سکتی ہے مگر جو چیز مسلمہ ہے وہ معنوی بلندی ہے، یعنی اگر کوئي خدا کے لئے تواضع سے کام لے تو خدا اس کی روح اور اخلاق کو بلندی عطا کر دے گا، اس کی توفیق شامل حال ہو جائے گی۔ اسی طرح زوال و پستی کی طرف نزول سے بھی مراد معنوی تنزلی ہے۔ البتہ سماجی مقام و منزلت کا تنزل بھی مراد ہو سکتا ہے۔

غصے سے پرہیز نبی اکرم (ص) کی نصیحت؛
وقال رجلٌ اَوْصِنى، فقال صلى الله عليه وآله وسلّم: لاتَغضَب، ثم أعادَ عليه، فقال: لاتَغضَب، ثمّ قال: ليس الشّديد بِالصّرَعَةِ، انّما الشديدُ الذي يَملكُ نفسه عند الغضبِ
تحف العقول صفحه 47

ترجمہ:
ایک شخص نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیں، پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا؛ غصہ نہ کرو اس نے ایک بار پھر یہی درخواست کی، پیغمبر اسلام نے دوبارہ فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو پھر آپ نے مزید فرمایا کہ طاقتور انسان وہ نہیں ہے جو دوسروں کو زمین پر پٹخ دے۔ طاقتور انسان وہ ہے جو غیظ و غضب کے وقت بے قابو نہ ہو جائے۔

شرح:
حدیث میں " لا تغضب قھرا " سے غیر اختیاری غیظ و غضب مراد نہیں ہے بلکہ ارادہ و اختیار کے ساتھ غصہ ہونا مقصود ہے۔ یعنی غصے کو خود پر مسلط نہ ہونے دو آپے سے باہر نہ ہو جاؤ۔ شجاع و بہادر وہ نہیں ہے جو کشتی میں کسی کو زیر کر دےبلکہ شجاع وہ ہے جو غصہ آنے پر خود کو قابو میں رکھے۔ غصے سے مراد بھی وقتی غصہ نہیں ہے بلکہ وہ نفرت ہے جس کی وجہ سے انسان کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے کے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔

حضرت امام زمانہ عج کے متعلق چالیس منتخب احادیث

حضرت امام زمانہ عج کے متعلق چالیس منتخب احادیث
علامہ سید افتخار حسین نقوی
١۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کادرخشاں چہرہ
حضرت پیغمبراکرم۰ نے فرمایا
اَلْمَہْدِیُّ مِنْ وُلْدی وَجْہُہُ کَالْقَمَرِالدُّرّیَّ
(بحارالانوار،ج٥١،ص٨٥اکشف الغمۃ)
ترجمہ:’’مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف )میری اولادسے ہیں ان کاچہرہ چودہویں رات کے چاندکے مانند(دمکتا،روشن،چمکتا)ہوگا‘‘۔

٢۔ شہرقم اورناصران حضرت امام مہدی(علیہ السلام)
حضرت امام جعفرصادق نے (علیہ السلام)فرمایا
اِنَّمٰاسُمَّیَ قُمْ لِاَنَّ اَھْلَھٰایَجْتَجِعُونَ مَعَ قٰائِمِ آلِ مُحَمَّدٍ۰وَیَقُومُونَ مَعَہُ وَیَسْتَقیمُونَ عَلَیْہِ وَیَنْصُرُونَہُ۔
(سفینۃ البحار،ج٢،ص٣٣٦)
’’شہرقم (لفظی ترجمہ کھڑاہوجا،قیام کر)نام اس لئے رکھاگیاکہ قم میں رہنے والے قائم آل محمد(علیہم السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف )کے گرداکھٹے ہوں گے اوران کے ہمراہ قیام کریں گے اوراس راستہ میں استقامت دیکھائیں گے اور ان کی مددکریں گے‘‘۔

٣۔ ناصران حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اورخواتین
مفضل نے حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)سے نقل کیاہے کہ
آپ ٴ نے فرمایا
یَکُونُ الْقٰائِمِ ٴ ثَلٰاثَ عَشْرَ ۃَ اِمْرَاَ ۃً۔
(اثبات الھداۃ باترجمہ،شیخ حرعاملی،ج٧،ص١٥٠)
’’حضرت قائم(علیہ السلام) کے ہمراہ(آپ کے ظہورکے وقت)تیرہ خواتین ہوں گی‘‘۔
مفضل: مولاسے سوال کرتے ہیں آپٴ ان خواتین سے کیاکام لیں گے؟
یُدٰاوینَ الْجرْحیٰ وَیُقِمْنَ عَلَی الْمَرْضیٰ کَمٰاکٰانَ مَعَ رَسُولِ اللہ ِ
امام ٴ: یہ خواتین زخمیوں کاعلاج کریں گی اوربیماروں کی تیمارداری ان کے ذمہ ہوگی جیساکہ پیغمبراکرم۰ کے ہمراہ ایسی خواتین (جنگوں میں )موجودہوتی ہیں۔

٤۔ خوش قسمت لوگ
پیغمبراکرم۰ نے فرمایا
طُوبیٰ لِمَنْ اَدْرَکَ قٰائِمَ اَھْلِ بَیْتی وَہُوَمُقْتَدٍبِہِ قَبْلَ قیامِہِ،یَتَوَلّیٰ وَلِیَّہُ وَیَتَبَرَّ مِنْ عَدُوَّہِ وَیَتَوَلیَّ الْاَئِمَّۃَ الْہٰادِیَۃَ مِنْ قَبْلِہِ،اُولٰئِکَ رُفَقٰائی وَذَوُووُدّی وَمَوَدَّتی وَاَکْرَمُ اُمَّتی عَلَیَّ۔
(بحارالانور،ج٥٢،ص١٢٩غیبت طوسی)
’’خوش قسمت ہیں وہ لوگ جومیرے اہل بیت ٴ سے قائم(علیہ السلام) کے زمانہ کوپائیں گے اور ان کے قیام سے پہلے وہ لوگ ان کی اقتدائ اورپیروی کرتے ہوں گے اوران کے دوست سے محبت رکھتے ہوں گے ،ان کے دشمن سے دشمنی رکھتے ہوں گے،اوران سے قبل جتنی آئمہ ہدیٰ (علیہ السلام)گزرچکے ہیں ان سب سے ولایت رکھتے ہوں گے وہی لوگ تومیرے رفقائ ہیں ان ہی سے میری مودت ہے اورمیرے محبت بھی ان ہی کے واسطے ہے اور میری امت سے وہی لوگ میرے پاس مکرم وعزت دار ہیں ‘‘۔

٥۔ غیبت امام زمانہ (علیہ السلام)اورہلاکت سے بچنے کانسخہ
حضرت امام حسن عسکری(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
�وَاللہ ِلَیَغیبَنَّ غَیْبَہً لٰایَنْجُوفیہٰامِنْ الْھَلَکَۃِ اِلاّٰ مَنْ ثَبَّتَ اللہ ُعَزَّوَجَلَّ عَلَی الْقَوْلِ بِاِمٰامَتِہ ِ وَوَ فَّقَہُ(فیہٰا)لِلدُّعٰائِ بِتَعْجیلِ فَرَجِہِ
(کمال الدین ج٢،ص٣٨٤)
’’خداکی قسم وہ (بارہویں امام ٴ)ہرصورت میں غیبت اختیارکریں گے اوران کی غیبت کے زمانہ میں ہلاکت اورتباہی سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گامگروہ لوگ بچیں گے
١۔ جنہیں اللہ تعالیٰ ان کی امامت ورہبری پرثابت قدم رکھے گا۔
٢۔ اورخداونداسے یہ توفیق دے کہ وہ ان کی فرج(کشادگی،فتح وکامرانی ،ان کی عالمی عادلانہ الٰہی وقرآنی حکومت)میں جلدی کے لئے دعائ کرنے والے ہوں ‘‘۔

٦۔ حضرت قائم(علیہ السلام) کی خصوصیت
حضرت امام محمدتقی جواد(علیہ السلام) فرماتے ہیں
�اَنَّ الْقٰائِمَ مِنّٰاھُوَ الْمَہْدِیُّ الَّذی یَجِبُ اَنْ یُنْتَظَرَ فی غَیْبَبِہِ وَیُطٰاعَ فی ظُہُورِہِ وَھُوَ الثّٰالِثُ مِنْ وُلْدی
(کمال الدین ج٢،ص٣٧٧)
’’بے شک ہم سے قائم وہی ہیں جومہدی ہیں ،جن کی غیبت کے زمانہ میں انتظارکرنافرض ہے ،اورجب وہ ظہورفرمائیں گے تواس وقت ان کی اطاعت کرنافرض ہے،اوروہ میری اولاد سے تیسرے (یعنی علی النقی(علیہ السلام) کے بعدحسن العسکری(علیہ السلام) اور ان کے بعدتیسرے نمبرپر مہدی(علیہ السلام) )ہوں گے‘‘

٧۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کے اہم کام
حضرت امیر المومنین (علیہ السلام)فرماتے ہیں کہ
یَعْطِف الْھَویٰ عَلَ الْھُدیٰ اِذٰاعَطَفُواالْھُدیٰ عَلَی الْھَویٰ وَیَعْطِفُ الرَّآ یَ عَلَی الْقُرْآنِ اِذٰاعَطَفُواالْقُرْآنَ عَلَی الرَّآیِ،
(بحارالانوار،ج٥١،ص١٣٠نہج البلاغہ)
’’جس وقت حضرت امام مہدی(علیہ السلام) تشریف لائیں گے توآپٴ ہواوہوس پرستی کوخداپرستی میں تبدیل کردیں گے،تمام افکاراورنظریات کوقرآنی سوچ وفکرونظرکے مطابق ڈھال دیں گے جب لوگوں نے قرآن کواپنے افکاراورآرائ کے مطابق قراردے دیا ہوگا‘‘

٨۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کی غیبت اورمومنین
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)فرماتے ہیں
�وَاللہ ِلَیَغیبَنَّ اِمٰامُکُمْ سِنینُ مِنَ الدَّہْرِ�وَلَتَفیضَنَّ عَلَیْہ ِاَعْیُنُ الْمُومِنیٰنَ�
(بحارالانوارج٥١،ص١٤٧غیبت نعمانی )
’’خداکی قسم تمہاراامام ٴ ضروربالضرورغائب ہوں گے اوربہت ہی طولانی سال اورلمبے عرصہ تک وہ غائب رہیں گے اورمومنین کی آنکھیں ان کے دیدارکے لئے ترسیں گی اور اشک بار ہوں گی‘‘۔

٩۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اورآپ کاگھر
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)فرماتے ہیں کہ
اِنَّ لِصٰاحِبِ الْاَمْرِ بَیْتاً یُقٰالُ لَہُ:(بَیْتُ الْحَمْدِ)فیہ ِسِرٰاجُُ یَزْھَرُمُنْذُیَوْمٍ وُلِدَاِلیٰ یَوْمُ بِالسَّیْفِ لٰایُطْفیٰ
(بحارالانوارج٥٢،ص١٥٨غیبت نعمانی )
’’حضرت صاحب الامرکے لئے ایک گھرہے جسے ’’بیت حمد‘‘کہاجاتاہے اور جس دن سے وہ متولدہوئے ہیں اس دن سے لے کرآپٴ کے ظہورکے وقت تک وہ چراغ روشن رہے گااور یہ روشنی آپٴ کے مسلح قیام کے دورتک رہے گی اورکبھی بھی یہ روشنی ختم نہ ہوگی ‘‘۔

١٠۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کازمانہ اورآپٴ کے دورمیں رہنے والے لوگ
حضرت امام سجاد(علیہ السلام)نے فرمایا
�اِنَّ اَھُلَ زَمٰانِ غَیْبَتِہِ الْقٰائِلُونَ بِاِمٰامَتِہِ الْمُنْتَظِرُونَ لِظُہُورِہِ اَفْضَلُ اَھْلِ کُلَّ زَمٰانٍ لِاَنَّ اللہ َتَعٰالیٰ ذِکْرُہُ اَعْطٰاھُمْ مِنَ الْعُقُولِ وَالْافْھٰامِ وَالْمَعْرِ فَۃِ مٰاصٰارَتْ بِہ الْغَیْبَتُ عِنْدَھُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْمُشٰاھَدَۃِ�
(بحارالانوار ج٥٢،ص١٢٢احتجاج )
’’بلاشک آپ(حضرت امام مہدی(علیہ السلام))کے زمانہ میں رہنے والے لوگ جوآپٴ کی امامت کے قائل ہوں گے(آپ کی غیبت میں)آپ کے ظہورکے منتظرہوں گے ایسے لوگ ہرزمانہ کے لوگوں سے افضل اوربرترہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کوایسے بلندعقلیں عطائ کی ہوں گی اوران کے افکاراورسوچیں اتنی بلندہوں گی اوروہ معرفت کے ایسے اعلیٰ معیارپرہوں گے کہ ان کے نزدیک آپٴ کی غیبت ایسے ہوگی جیسے آپٴ حاضر اورموجودہوں ،یعنی ان کااپنے غائب امام ٴ پرایساپختہ عقیدہ ہوگاجس طرح زندہ امام ٴ پریقین ہوتاہے‘‘۔

١١۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) پرسلام بھیجنا
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے ایک شخص نے دریافت کیاکہ حضرت قائم(علیہ السلام) پرسلام کن الفاظ کے ساتھ بھیجیں؟توحضرت ٴنے جواب دیااس طرح کہاکرو
’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابَقِیَّۃَ اللہ ِاے اللہ کے بقیہ آپٴ پرسلام ہو‘‘

١٢۔ حضرت قائم (علیہ السلام)کاقیام اورفکری ارتقائ
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
اَذٰاقٰامَ قٰائِمُنٰاوَضَعَ یَدَہُ عَلیٰ رُؤ ُسِ الْعِبٰادِ فَجَمَعَ بِہِ عُقُولَھُمْوَاَکْمَلَ بِہِ اَخْلٰاقَھُمْ۔
(بحارالانوارج٥٢،ص٣٣٦خرایج راوندی)
’’جس وقت ہمارے قائم(علیہ السلام) قیام کریں گے توآپٴ بندگان کے سروں پراپنافیضان رحمت ہاتھ رکھ دیں گے جس وجہ سے ان کے عقول مجتمع ہوجائیں گے اوران کے اخلاق کامل ہوجائیں گے یعنی فکری اورعملی ارتقائی منازل حضرت ٴ کے بابرکت وجودسے حاصل ہوجائے گا‘‘۔

١٣۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اورپرچم توحید
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)فرماتے ہیں کہ
اِذَقٰامَ الْقٰائِمُ لٰایَبْقیٰ اَرْض اِلّٰانُودِیَ فیہٰا شَہٰادَۃُ اَنْ لٰااِلٰہَ اِلاَّ اللہ ُوَاَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللہ ِ
(بحارالانوارج٥٢،ص٣٤٠تفسیرعیاشی)
’’جس وقت حضرت قائم (علیہ السلام)قیام کریں گے تواس وقت ساری زمین میں کوئی بھی ایسی جگہ نہ بچے گی مگریہ کہ اس حصہ میں لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ۰ کی صداگونجے گی‘‘۔

١٤۔ حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے فرمایا
�فَعِنْدَھٰافَتَوَقَّعُواالْفَرَ جَ صَبٰاحاً وَمَسٰائً�
(اصول کافی،ج١،ص٣٣٣)
’’پس جس وقت (حضرت مہدی(علیہ السلام))کی غیبت کازمانہ ہوتوصبح شام فرج (کشادگی ،فتح ونصرت وآل محمد۰ کی حکومت )کی امیدرکھنااوراس بات کے ہرآن منتظر رہنا‘‘۔

١٥۔ حضرت امام ٴ کی توصیف برزبان پیغمبراکرم۰
پیغمبراکرم ۰ نے فرمایاکہ
اَلْمَہْدِیُّ طٰاوُوسُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ
(بحارالانوار،ج٥١،ص١٠٥طرائف )
’’مہدی (عج)�والوں کے لئے طاؤوس ہیں‘‘۔

١٦۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اورآپ کے شیعوں کی خوشحالی
حضرت امام سجاد(علیہ السلام)نے فرمایاکہ
اِذَاقٰامَ قٰائِمُنٰااَذْھَبَ اللہ ُعَزَّوَجَلَّ عَنْ شیعَتِنَاالْعٰامَۃَ وَجَعَلَ قُلُوبَھُمْ کَزُبُرِالْحَدیدِوَجَعَلَ قُوَّ ۃَ الرَّجُلِ مِنْہُمْ قُوَّۃَ اَرْبَعینَ رَجُلاً وَیَکُونُونَ حُکّٰامَ الْاَرْضِ وَسَنٰامَھٰا۔
(بحارالانوارج٥٢،ص٣١٦خصال)
’’جس وقت ہمارے قائم(علیہ السلام) قیام کریں گے تواللہ تعالیٰ ہمارے شیعوں کی تمام پریشانیاں دورفرما دے گااوران کے دلوں کوفولادی ٹکڑے بنادے گااوران کے ایک مردکی طاقت چالیس مردوں کے برابربنادے گااورہمارے شیعہ پورے زمینوں کے حکمران ہوں گے اور وہی توتمام اقوام وقبائل کے سردارہوں گے‘‘۔

١٧۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اورعلمی انقلاب
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) نے فرمایاکہ
اَلْعِلْمُ سَبْعَۃُوَعِشْرُونَ حَرْفاًفَجََمیعُ مٰاجٰائَتْ بِہِ الرُّسُلُ حَرْفٰانِ فَلَمْ یَعْرِ فِ النّٰاسُ حَتَّی الْیَوْمِ غَیْرَ الْحَرْفَیْنِ فَاِذٰاقٰامَ قٰائِمُنٰااَخْرَجَ الْخَمْسَۃَ وَالْعِشْرینَ حَرْفاًفَیَثَّھٰافِی النَّاسِ وَضَمَّ اِلَیْھَاالْحَرْفَیُنِ حَتّیٰ یَبُثَّہٰاسَبْعَۃَ وَعِشْرینَ حَرْفاً
(بحارالانوارج٥٢،ص٣٣٦خرایج راوندی)
’’علم ستائیس حروف ہے تمام رسول جس مقدارمیں علوم لے کرآئے وہ سب دوحرف ہیں جب سے انسان ہے آج تک اس نے جتنی علمی ترقی کی ہے وہ دوحرفوں ہی کے گردگھومتی ہے اورجس وقت ہمارے قائم(علیہ السلام) قیام کریں گے توآپٴ علم کے بانی پچیس حروف کوبھی منظرعام پرلے آئیں گے اوران سب کولوگوں میں عام کردیں گے دوحروف کے ہمراہ پچیس حرف مل کر ایک بہت بڑاعلمی انقلاب بپاہوجائے گا(جس کاکسی کوتصورتک نہ ہے)‘‘۔

١٨۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اورعدالت کانفاذ
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
اَذَاقٰامَ قٰائِمُ اَھْلِ الْبَیْتِ قَسَّمَ بِالسَّوِیَّۃِ وَعَدَلَ فِی الرَّعِیَّۃِ فَمَنْ اَطٰاعَہُ فَقَدْاَطٰاعَ اللہ َوَمَنْ عَصٰاہُ فَقَدْعَصَی اللہ َوَاِنَّمٰاسُمَّیَ الْمَہْدِیَّ لِانَّہُ یَھْدی اِلیٰ اَمْرٍخَفِیًّ
(بحارالانوارج٥٢،ص٣٥٠غیبت نعمانی)
’’جس وقت اہل البیت (علیہ السلام)کے قائم(علیہ السلام) قیام فرمائیں گے توآپٴ تمام اموال کو برابری کی بنیادپرتقسیم کریں گے اوررعیعت (عوام)میں عدالت کانفاذکریں گے بس جس کسی نے ان کی اطاعت کی تواس نے اللہ کی اطاعت کی اورجس نے ان کی نافرمانی کی تواس نے اللہ کی نافرمانی کی آپٴ کانام مہدی(علیہ السلام) اس لئے رکھاگیاہے کہ آپٴ پوشیدہ امر کی راہنمائی فرمائیں گے‘‘۔

١٩۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) سے محبت کااظہار
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام)فرماتے ہیں کہ
�بِاَبی وَاُمّیِ اَلْمُسَمّیٰ بِاسْمیِ وَالْمُکَنّیِ بِکُنْیَتیِ اَلسّٰابعُ مِنْ بَعْدیِ�
(بحارالانوارج٥٢،ص١٣٩غیبت نعمانی)
’’میرے ماں باپ اس ہستی پرقربان ہوجائیں کہ جس کانام میرے نام کی مانندہے، اور اس کی کنیت بھی میرے والی ہے اور میرے بعدوہ ساتویں نمبرپرہیں ‘‘۔

٢٠۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی ملاقات کاشرف
حضرت پیغمبراکرم ۰ نے فرمایاکہ
طُوبیِ لِمَنْ لَقِیَہُ وَطُوبیٰ لِمَنْ اَحَبَّہُ وَطُوبیٰ لِمَنْ قٰالَ بِہِ
(بحارالانوارج٥٢،ص٣٠٩،عیون اخبارالرضا٧)
’’بہت ہی خوش قسمت ہوگاوہ شخص جواس سے (مہدی(علیہ السلام) سے )ملاقات کرے گا،اور سعادت ہے اس کے واسطے جوان سے محبت کرے گااورخوش قسمت ہے وہ شخص جو ان کی امامت کاقائل ہوگا‘‘۔

٢١۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اور قیامت
حضرت پیغمبراکرم۰ نے فرمایاکہ
لٰاتَقُومُ السّٰاعَۃُ حَتّیٰ یَقُومَ الْقٰائِمْ الْحَقُّ مِنّٰاوَذٰلِکَ حیِنَ یَآذَنُ اللہ ُعَزَّوَجَلَّ لَہُ وَمَنْ تَبِعَہُ نَجیٰ وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْہُ ھَلَکَ
(بحارالانوارج٥١،ص٥٢،عیون اخبارالرضا٧)
’’قیامت نہیں ہوگی مگریہ کہ حق کولے کرآنے والے قائم قیام کریں اور وہ قائم(علیہ السلام) ہم سے ہوں گے اور ان کاقیام اس وقت ہوگاجب اللہ تعالیٰ اسے اذن اوراجازت فرمائے گاجس کسی نے ان کی پیروی کی وہ نجات پاگیااورجوان سے پیچھے رہ گیااوراس نے ان کاساتھ نہ دیا تووہ شخص ہلاک ہوگیا‘‘۔

٢٢۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اور مومنین کے آپس میں تعلقات
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
اِذٰاقٰامَ الْقٰائِمُ جٰائَتِ الْمُزٰامَلَۃُ (الْمُزٰایَلَۃُ)وَیَآتِی الرَّجُلُ اِلیٰ کیٰسِ اَخیہِ فَیَآخُذُحٰاجَتَہُ لٰا یَمْنَعُہُ
(بحارالانوار،ج٥٢،ص٣٧٢،اختصاص)
’’جس وقت حضرت قائم قیام کریں گے تواس وقت حقیقی برادری اور دوستی لوگوں کے درمیان قائم ہوجائے گی اوریہ پیارومحبت کی باہمی فضائ اس قدرہوگی کہ ایک آدمی اپنے بھائی کی جیب میں ہاتھ ڈال کراپنی ضرورت اورحاجت کے لئے رقم نکال لے گااور وہ اسے نہیں روکے گا‘‘۔

٢٣۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اور آسمان وزمین کی برکات
حضرت امیرالمومنین(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ

لَوْ قَدْقٰامَ قٰائَمُنٰالَآَنْزَلَتِ السَّمٰائُ قَطْرَھٰاوَلَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ نَبٰاتَھٰاوَلَذَھَبَتِ الشَّحْنٰائُ مِنْ قُلُوبِ الْعِبٰادِ وَاصْطَلَحَتِ السَّبٰاعُ وَ الْبَھٰائِمُ حَتّیٰ تَمْشِیْ الْمَرْآَۃُ بَیْنَ الْعِرٰاقِ اِلَی الشّٰامِ لٰاتَضَعُ قَدَمَیْہٰااِلَّا عَلَی النَّبٰاتِ وَعَلیٰ رَآْسِھٰا زِبّیلُہٰا (زینَتُہٰا)لٰایُھَیِّجُہٰاسَبُع� وَلَاتَخٰافُہُ
(بحارالانوار،ج٥٢،ص٣١٦خصال)
’’اگرہمارے قائم(علیہ السلام) کاقیام ہوجائے تواس وقت آسمان اپنی بارشیں برسادے گا اور زمین اپنی برکات نکال دے گی خوشحالی ہوگی ،زراعت کثرت سے ہوں گی،خداوندکے بندگان کے دلوں سے نفرتیں اورکینے ختم ہوجائیں گے ،جانوروں اوردرندوں کے درمیان صلح وصفاقائم ہوجائے گی،اس حد تک زمین پرسبزہ اورشادابی ہوگی کہ عراق سے ایک عورت چلے گی شام تک جہاں بھی قدم رکھے گی اس کاہرقدم سبزہ اورآبادزمین پرپڑے گاجب کہ اس کی آرائش کاسامان اس کے ساتھ ہوگااسے نہ توکوئی درندہ خوف زدہ کرے گااورنہ ہی کوئی انسانوں سے اس کی طرف غلط نگاہ ڈالے گاوہ بے خوف وخطریہ سفرکرے گی‘‘۔

٢٤۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اوردستورالٰہی
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
یُوحیٰ اِلَیْہِ فَیَعْمَلُ بِالْوَحْیِ بِآَمْرِاللہ ِ
(بحارالانوار،ج٥٢،ص٣٩٠)
’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی جانب الہام ہوگااورآپٴ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس الہام اورارشادات کے مطابق عمل کریں گے جوانہیں اللہ کی طرف سے ملیں گے یعنی حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اپنامکمل دستوراللہ تعالیٰ سے لیں گے اور اسے عملی جامہ پہنائیں گے‘‘۔

٢٥۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اور زمین پررونقیں
فَاذٰاخَرَجَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُورِرَبَّہٰاوَوَضَعَ میزٰانَ الْعَدْلِ بَیْنَ النّٰاسِ فَلٰایَظْلِمُ اَحَد� اَحَداً
(بحارالانوار،ج٥٢،ص٣٢١،کمال الدین)
’’پس جب زمین اپنے رب کے نور(حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کے وجود)سے چمکے گی جس وقت حضرت امام مہدی (علیہ السلام)خروج کریں گے تواس وقت زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی،اورہرطرف آبادی ہوگی،عوام کے درمیان عدالت کاترازولگائیں گے،کوئی ایک بھی دوسرے پرظلم وزیادتی نہ کرے گا‘‘۔

٢٦۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اورانتظار
حضرت امیرالمومنین(علیہ السلام) نے فرمایاکہ
اِنْتَظِرُواالْفَرَجَ وَلٰاتَیْآَسُوامِنْ رَوْحِ اللہ ِ فَاِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمٰالِ اِلَی اللہ ِعَزَّوَجَلَّ اِنْتِظٰارُالْفَرَجِ۔
(بحارالانوار،ج٥٢،ص١٢٣،خصال)
’’تم سب فرج(آل محمد۰ کی حکومت کے قیام)کی انتظارکرنا،اوراللہ کی رحمت اورکرم کے بارے مایوس نہ ہوجاناکیونکہ اللہ کے ہاں سارے اعمال میں محبوب ترین عمل انتظار فرج (آل محمد۰ کی حکومت کی انتظارکرنا)ہے‘‘۔

٢٧۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اور صبر
اِنْتِظٰارُالْفَرَجِ بِالصَّبْرِ عِبٰادَۃ�
(بحارالانوارج٥٢،ص١٤٥،دعوات راوندی)
’’انتظارفرج(آل محمد۰ کی حکومت کی انتظار)صبراورحوصلہ سے کرناعبادت ہے‘‘۔

٢٨۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اورزکات
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام)نے فرمایاکہ
اِذٰاظَہَرَ الْقٰائِمُ�یُسَوّی بَیْنَ النّٰاسِ حَتّیٰ لٰاتَریٰ مُحْتٰاجاًاِلَی الزَّکٰاۃِ�
(بحارالانوارج٥٢،ص٣٩٠)
’’جس وقت قائم ظہورفرمائیں گے�توآپٴ لوگوں کے درمیان برابری کریں گے،کسی پر زیادتی نہ ہوگی ،سب کے ساتھ ایک جیساسلوک ہوگا(سب کاانکاحق ملے گا)تمہیں اس دور میں ایسامحتاج نہ ملے گاجوزکات لینے کاحقدارہو‘‘۔

٢٩۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اورامام محمدباقر(علیہ السلام)کی آرزو
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام)نے فرمایاکہ
اِنّی لَوْاَدْرَکْتُ ذٰلِکَ لَآَبْقیْتُ نَفْسیِ لِصٰاحِبِ ھٰذَاالْاَمْرِ
(بحارالانوارج٥٢،ص٢٤٣،غیبت نعمانی)
’’اگرمیں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے دورکوپالوں تومیں ان کی خدمت میں رہنے کے لئے خود کوآمادہ رکھوں اوراپنی زندگی کی ان کی خاطرحفاظت کروں ‘‘۔

٣٠۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اورآپ کی حکومت کے لئے تیاری
حضرت پیغمبراکرم۰ نے فرمایاکہ
یَخْرُ جُ اُنٰاس� مِنَ الْمَشْرِقِ فَیُوَطَّئُونَ لِلْمَہْدِیَّ سُلْطٰانَہُ
(بحارالانوار،ج٥١،ص٨٧،کشف الغمۃ)
’’مشرقی سرزمین سے لوگ اٹھیں گے جوحضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے واسطے بننے والی حکومت کے لئے زمین ہموارکریں گے اورآپ کی حکومت کے قیام کے لئے حالات کوسازگاربنائیں گے‘‘۔

٣١۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اور خواتین میں علم وحکمت کی فراوانی
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام)فرماتے ہیں کہ
تُئْوتَوْنَ الْحِکْمَۃَ فی زَمٰانِہِ ھَتّیٰ آَنَّ الْمَرْآَۃَ لَتَقْضی فی بَیْتِہٰابِکِتٰابِ اللہ ِتَعٰالیٰ وَسُنَّۃِ رَسُولِ اللہ ِصَلَّی اللہ ُعَلَیْہِ وَآلِہِ۔
(بحارالانوار،ج٥٢،ص٣٥٢،غیبت نعمانی)
’’تم سب کو(حضرت اما مہدی (علیہ السلام))کے دورمیں حکمت اوردانائی دے دی جائے گی (اس وقت علم ودانش اس قدرعام اوربلندہوگا)کہ ایک عورت اپنے گھرمیں بیٹھ کراللہ کی کتاب اور رسول اللہ۰ کی سنت کے مطابق فیصلے دے گی‘‘۔

٣٢۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اور آپ کی غیبت میں ذمہ داریاں
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) نے فرمایاکہ
اَنَّ لِصٰاحِبِ ھٰذَاالْاَمْرِ غَیْبَۃً فَلْیَتَّقِ اللَّہَ عَبْد� عِنْدَ غَیْبَتِہِ وَلْیَتَمَسَّکْ بِدینِہِ
(بحارالانوار،ج٥٢،ص١٣٥،غیبت نعمانی)
’’حضرت صاحب الامر(علیہ السلام)کے واسطے ایک غیبت ہے ،ہرشخص پرلازم ہے کہ وہ غیبت کے زمانہ میں اللہ کاتقویٰ اختیارکرے اوراپنے دین کومضبوطی سے تھامے رکھے اور اس پر عمل کرے دینی احکام بجالانے میں پابندی کرے ‘‘۔

٣٣۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اورآپ ٴکی معرفت کافائدہ
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) نے فرمایاکہ
اِعْرِفْ اِمٰامَکَ فَاِنَّکَ اِذٰاعَرَفْتَہُ لَمْ یَضُرَّکَ تَقَدَّمَ ھٰذَاالْاَمْرُاَوْتَاَخَّرَ۔
(بحارالانوار،ج٥٢،ص١٤١،غیبت نعمانی )
’’اپنے امام ٴ کی معرفت حاصل کروکیونکہ جب تم اپنے امام ٴ کی معرفت حاصل کرلوگے توپھرآپٴ کے لئے فرق نہیں کرناکہ آپٴ کاظہورجلدی ہویاآپٴ کاظہوردیرسے ہو‘‘۔

٣٤۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اورحضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) کے جذبات
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے جب حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے بارے میں کسی نے سوال کیاتوآپٴ نے جواب میں فرمایاکہ
ٰاَلَاوَلَوْاَدْرَکْتُہُ لَخَدَمْتُہُ اَیَّامَ حَیٰاتی
(بحارالانوار،ج٥١،ص١٤٨،غیبت نعمانی )
’’وہ میں نہیں ہو ں لیکن اگرمیں ان کے زمانہ کوپالوں تومیں اپنی پوری زندگی ان کی خدمت میں گزاردوں ‘‘۔

٣٥۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اور آپ کادیدار
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)نے فرمایاکہ
مَنْ قٰالَ بَعْدَصَلٰوۃِ الْفَجْرِوَبَعْدَصَلٰوۃِ الظُّہْرِ’’اَللَّھُمَّ صَلَّ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَآلِ مُحَمَّدٍوَعَجَّلْ فَرَ جَھُمْ‘‘لَمْ یَمُتْ حَتّیٰ یُدْرِکَ الْقٰائِمَ مِنْ آلِ مُحَمَّدعَلَیْہِمُ السَّلٰامُ۔
(سفینۃ البحار،ج٢،ص٤٩)
’’جوشخص صبح اورظہرکی نمازوں کے بعداس طرح درودپڑھے ’’اللھم صل علی محمد وآل محمد وعجل فرجہم‘‘تووہ شخص اس وقت تک نہ مرے گاجب تک حضرت قائم آل محمد(علیہ السلام) کوپانہ لے گا یعنی اسے حضرت ٴ کاشرف ملاقات ضرورہوگا‘‘۔

٣٦۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اور زمانہ جاہلیت کی موت
حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام)فرماتے ہیں کہ
مَنْ مٰاتَ وَلَمْ یَعْرِفْہُ مٰاتَ مِیْتَۃً جٰاہِلِیَّۃً
(بحارالانوار،ج٥١،ص١٦٠کمال الدین)
’’جوشخص ایسی حالت میں مرجائے کہ وہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کی معرفت نہ رکھتاہوتوگویاوہ جہالت اور کفرکی موت مرا‘‘۔

٣٧۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اور آپ کے ناصران میں خواتین
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام)فرماتے ہیں کہ
وَیَجی ئُ وَاللَّہ ِ ثَلٰاثُ مِائَۃٍ وَبِضْعَۃُ عَشَرَ رَجُلاً فیہِمُ خَمْسُونَ اِمْرَآَۃً یَجْتَمِعُونَ بِمَکَّۃََ
(بحارالانوار،ج٥٢،ص٢٢٣،تفسیرعیاشی)
’’خداکی قسم مکہ میں تیس سوسے کچھ اوپرمردمکہ میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے گرداکھٹے ہوں گے اور ان کے ہمراہ پچاس خواتین بھی ہوں گی‘‘۔

٣٨۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اور مددکی فراہمی
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)فرماتے ہیں کہ
لِیُعِدَّ(نَّ)اَحَدُکُمْ لِخُرُوجِ الْقٰائِمِ وَلَوْسَہْماًفَاِنَّ اللہ َاِذَاعَلِمَ ذٰلِکَ مِنْ نِیَّتہِ رَجَوْتُ لِئلاً یُنْسِی ئَ فی عُمْرِہِ یُدْرِکَہُ وَیَکُونَ مِنْ اَعْوٰانِہِ وَ اَنْصٰارِہِ۔
(بحارالانوار،ج٥٢،ص٣٦٦،غیبت نعمانی )
’’آپ میں سے ہرشخص پرفرض ہے کہ وہ حضرت قائم(علیہ السلام) کے خروج کے وقت ان کی مددکرنے کے لئے اسلحہ حاصل کرے اگرچہ وہ اسلحہ ایک تیرہی کیوں نہ ہوگاکیونکہ جب خداونددیکھے گا کہ ایک شخص �حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی مددکے واسطے اسلحہ تک حاصل کرنے میں لگاہواہے تو خداونداس شخص کی عمرکوطولانی کرے دے گاتاکہ وہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے ظہورکوپالے ،اورحضرت(علیہ السلام) کے ناصران اور مددگاروں سے قرارپائے (ظاہرہے اس قسم کی آرزووہی رکھ سکتاہے جودین پرمکمل عمل کرنے والاہوگا، اور اپنے آئمہ ٴ کی سیرت کواپنانے والاہوگاایک بے عمل شخص سے نہ ایسی توقع کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس کاایساحال حقیقت میں ہوسکتاہے)‘‘۔

٣٩۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اور آپٴ کے اصحاب بننے کی آرزو
مَنْ سَرَّاَنْ یَکُونَ مِنْ اَصْحٰابِ الْقٰائِمِ فَلْیَنْتَظِرْوَلْیَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَمَحٰاسِنِ الْاَخْلٰاقِ وَھُوَمُنْتَظِر�فَاِنْ مٰاتَ وَقٰامَ الْقٰائِمُ بَعْدَہُ کٰانَ لَہُ مِنَ الآَجْرِمِثْلُ اَجْرِ مَنْ اَدْرَکَہُ۔
(بحارالانوار،ج٥٢،ص١٤٠،غیبت نعمانی)
جس شخص کویہ بات پسندہے کہ وہ حضرت قائم(علیہ السلام) کے ناصران سے بن جائے تواس پرلازم ہے کہ وہ
١۔ انتظارکرے (خودکواپنے امام(علیہ السلام) کے واسطے ہروقت آمادہ رکھے)
٢۔ گناہوں کوچھوڑدے ،تقویٰ اختیارکرے،پرہیزگاربنے۔
٣۔ اپنے اخلاقیات وعادات کواچھابنائے ۔
ایساشخص ہی حقیقی منتظرہے اگرایساشخص مرجائے اورحضرت قائم(علیہ السلام) کے ظہورکونہ پاسکے تواسے ایسے اجروثواب ملے گاجیسے اس نے خوداپنے امام ٴ کازمانہ پایاہو‘‘۔

٤٠۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اور آپ کی انتظارکرنے کی فضیلت
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
مَنْ مٰاتَ مِنْکُمْ وَھُوَمُنْتَظِر�لِھٰذَاالْاَمْرِکَمَنْ ھُوَمَعَ الْقٰائِمِ فی فُسْطٰاطِہِ�لٰابَلْ کَمَنْ قٰارَعَ مَعَہُ بِسَیْفِہِ�لٰاوَاللہِ اِلاّٰکَمَنِ اسْتُشْھِدَمَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ۔
(بحارالانوار،ج٥٢،ص١٢٦،محاسن)
’’تم میں سے جوبھی اس حالت میں مرجائے کہ وہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی حکومت کامنتظر تھا تو وہ ایسے ہے جس طرح اس نے حضرت قائم(علیہ السلام) کے اپنے خیام میں وقت گزاردیاہو�نہیں بلکہ وہ ایسے ہے جس طرح اس نے حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے ہمراہ مل کر آپٴ کے دستہ میں جنگ لڑی ہو،نہیں خداکی قسم وہ توایساہے جس طرح وہ خودرسول اللہ۰ کے ہمراہ جنگوں میں لڑاہواورآپ۰ کے سامنے درجہ شہادت پایاہو‘‘۔