حضرت علی علیہ السلام کے ممتاز اخلاق کے چند نمونے
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کا واسطہ بننا
ایک دفعہ حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کھجوروں کی دکان سے گزرے ، اچانک ایک کنیز کو روتے ھوئے دیکھا تو اس سے سوال کیا: تو کیوں روتی ھے؟ اس نے کہا: میرے آقا نے مجھے ایک درھم دیکر کھجور خریدنے کے لئے بھیجا تھا، میں نے اس شخص سےکھجورر خریدے اور اپنے آقا کی خدمت میں لے گئی، لیکن اس کو پسند نھیں آئے اور اس نے مجھے واپس کرنے کے لئے بھیجا ھے لیکن یہ شخص واپس نھیں کرتا ھے۔
امام علیہ السلام نے دکان والے سے کہا: اے بندہٴ خدا! یہ ایک خادمہھے اور اس کا کوئی اختیار نھیں ھے، اس کا درھم واپس کردے اورکھجورواپس لے لے، (یہ سن کر) کھجور بیچنے والا اپنی جگہ کھڑا ھوا اور اس نے آپ کو گھونسا مارا۔
(یہ دیکھ کر وہاں موجود) لوگوں نے کہا: (یہ تو نے کیا کیا) یہ امیر الموٴمنین علیہ السلام ھیں؟ یہ سن کر وہ دکان والا لمبے لمبے سانس لینے لگا اور اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑگیا، اور اس نے کنیز سےکھجور واپس لئے اور اس کو درھم لوٹا دیااس کے بعد اس نے کہا: یا امیر الموٴمنین ! (مجھے معاف کردیں) اور مجھ سے راضی ھوجائیں، حضرت امیر الموٴمنین علیہ ا لسلام نے فرمایا: اس سے زیادہ اور کون سی چیز مجھے راضی کرسکتی ھے کہ تو نے اپنی اصلاح کرلی ھے؟
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ:
”میں اس صورت میں تجھ سے راضی ھوتا ھوں کہ تو تمام لوگوں کے حقوق کو مکمل طور پر ادا کردے“۔[1]
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے لبید بن عطارد تمیمی (کچھ باتوں کے کہنے کی وجہ سے)گرفتار کرنے کے لئے اپنے کارندوں کو بھیجا، کارندے بنی اسد (کی گلی) سے گزر رھے تھے کہ نعیم بن دجاجہ اسدی اٹھا اور لبید کو کارندوں کے ہاتھوں سے چھڑا دیا ( اور وہ بھاگ نکلا)
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے نعیم بن دجاجہ کی گرفتاری کے لئے کچھ کارندوں کو بھیجا ، جب وہ لایا گیا تو امام علیہ السلام نے اس کی تنبیہ کا حکم دیا، اس موقع پر نعیم کہتا ھے: جی ہاں، خدا کی قسم آپ کے ساتھ رہنا خواری اور ذلت ھے اور آپ سے دوری اختیار کرنا کفر ھے!
امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کردیا، اور خداوندعالم فرماتا ھے:
”اور آپ بُرائی کو اچھائی کے ذریعہ رفع کیجئے۔“[2]
لیکن تیرا یہ کہنا کہ ”آپ کے ساتھ رہنا ذلت ھے“، یہ ایک بُرا کام ھے جس کو تو نے انجام دیا، لیکن تیرا یہ کہنا کہ ”آپ سے جدائی کفر ھے“، ایک نیکی ھے جس کو تو نے انجام دیا ھے، پس یہ اس کے بدلے میں۔[3]
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام اپنے کچھ کاموں کی وجہ سے مکہ معظمہ میں داخل ھوئے، وہاں ایک اعرابی کو دیکھا جو خانہ کعبہ کے پردے میں لٹکا ھوا کہہ رہا ھے: اے گھر کے مالک!گھر تیرا گھر ھے، اور مھمان تیرا مھمان ھے، میزبان اپنے مھمان کی خاطر داری کے لئے کچھ سامان مھیا کرتا ھے، آج میری مھمانداری میں میرے گناھوں کی بخششفرمادے!
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا: کیا تم اس اعرابی کی باتوں کو نھیں سن رھے ھو؟ انھوں نے کہا: کیوں نھیں، خداوندعالم اس سے زیادہ کریم ھے کہ اس کا مھمان اس کی بارگاہ سے خالی ہاتھ واپس لوٹ جائے!
جب دوسری رات ھوئی اس کو اسی رکن میں لٹکا ھوا دیکھا جو کہہ رہا تھا: اے عزیز، اپنی عزت میں! تجھ سے زیادہ عزیز تیری عزت میں نھیں ھے، تجھے تیری عزت کا واسطہ ! مجھے اپنی عزت کے ذریعہ عزیز قرار دے، جس کو کوئی نھیں جانتا کہ وہ عزت کیا ھے! میں تیری بارگاہ میں حاضر ھوں اور تجھ سے توسل کرتا ھوں بحق محمد و آل محمد، مجھے وہ چیز عطا کردے کہ تیرے علاوہ کوئی بھی وہ چیز عطا نھیں کرسکتا، اور مجھ سے اس چیز کو دور کردے کہ تیرے علاوہ کوئی دور نھیں کرسکتا۔
راوی کہتا ھے: حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا: خدا کی قسم! یہ جملے خدا کے عظیم نام ھیں جو سریانی زبان میں ھیں۔
میرے حبیب رسول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) نے مجھے خبر دی ھے کہ اس رات اس عرب نے خدا سے بہشت کی درخواست کی، اور خدا نے اس کو عطا کردی، اور آتش دوزخ سے نجات چاھی اور اس کو آتش جہنم سے نجات مل گئی ھے!
جب تیسری رات ھوئی تو اس کو اسی رکن میں لٹکا ھوا دیکھا جو کہہ رہا ھے: اے خدا جس کو کوئی جگہ احاطہ نھیں کرسکتی اور کوئی بھی جگہ اس سے خالی نھیں ھے اور وہ کیفیت نھیں رکھتا، اس عرب کو چار ہزار روزی عطا فرما۔
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام آگے بڑھے اور فرمایا: اے عرب! تو نے خداوندعالم کی مھمان نوازی چاھی، تیری مھمان نوازی کردی، جنت کی درخواست کی، تجھے عطا کردی، آتش جہنم سے نجات چاھی تجھے نجات مل گئی، آج اس سے چار ہزار کی درخواست کرتا ھے؟
اس عرب نے کہا: آپ کون ھیں؟ فرمایا: میں علی بن ابی طالب ھوں، عرب نے کہا: خدا کی قسم! آپ ھی میرے مطلوب و مقصود ھیں آپ کے ہاتھوں میری حاجت روائی ھوگی، امام علیہ السلام نے فرمایا: اے اعرابی! سوال کر، اس عرب نے کہا: ایک ہزار درھم، مہر کے لئے چاہتا ھوں، ایک ہزار درھم اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے، ایک ہزار درھم، مکان خریدنے کے لئے اور ایک ہزار درھم اپنے زندگی کے خرچ کے لئے، امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اے عرب! تو نے اپنی درخواست میں انصاف سے کام لیا ھے، جب مکہ سے روانہ ھو تو مدینہ رسول میں آنا اور وہاں ھمارا مکان معلوم کرکے آجانا۔
عرب ایک ہفتہ تک مکہ میں رہا اور پھر حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کی تلاش میں مدینہ منورہ آیا، اور لوگوں سے سوال کیا: کون ھے جو مجھے حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کے مکان کا راستہ بتائے، بچوں کے درمیان حضرت حسین بن علی علیہ السلام نے جواب دیا: میں تجھے امیر الموٴمنین علیہ السلام کے مکان پر لے جاتا ھوں، میں ان کا فرزند حسین بن علی ھوں، عرب نے کہا: بہت اچھا، آپ کے والد گرامی کون ھیں؟ آپ نے فرمایا:امیر الموٴمنین علی بن ابی طالب، اس نے سوال کیا: آپ کی والدہ گرامی کون ھیں؟ آپ نے فرمایا: فاطمہ زہرا سیدة نساء العالمین، اس نے کہا؟ آپ کے جدّکون ھیں؟ آپ نے فرمایا: محمد بن عبد الله بن عبد المطلب، اس نے کہا: آپ کی جدّہ کون ھیں؟ آپ نے فرمایا: خدیجہ بن خویلد، اس نے کہا: تمہارے بھائی کون ھیں؟ آپ نے فرمایا: ابومحمد حسن بن علی، اس عرب نے کہا: تم نے پوری دنیا کو حاصل کرلیا ھے!جاؤ حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کے پاس جاؤ اور ان سے کھو: جس اعرابی کی آپ نے مکہ میں حاجت پوری کرنے کی ضمانت دی تھی وہ آپ کے دروازہ پر کھڑا ھے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام بیت الشرف میں داخل ھوئے اور فرمایا: والد گرامی! وہ اعرابی جس کو آپ نے مکہ میں وعدہ کیا تھا وہ دروازہ پر کھڑا ھے۔
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے جناب فاطمہ زہرا سلام الله علیہا سے فرمایا: کیا کچھ کھانا موجود ھے جو اس اعرابی کو کھلا دیا جائے؟ جناب فاطمہ زہرا سلام الله علیہا نے فرمایا: نھیں، (کچھ بھی نھیں ھے) علی علیہ السلام نے اپنا لباس زیب تن کیا اور بیت الشرف سے باہر آئے اور فرمایا: ابوعبد الله سلمان فارسی کو بلاؤ۔
چنانچہ جب سلمان آگئے تو ان سے فرمایا: اے ابو عبد الله! پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے ھمارے لئے جو باغ لگایا ھے اس کو فروخت کر ڈالو۔
چنانچہ جناب سلمان بازار گئے اور اس باغ کو بارہ ہزار درھم میں فروخت کردیا، حضرت امیرالموٴمنین علیہ السلام نے اعرابی کو دینے کے لئے پیسہ تیار کیا، اور چار ہزار درھم اس کی ضرورت کے برطرف کرنے کے لئے اور چالیس درھم اس کے خرچ کے لئے ادا کئے۔
حضرت علی علیہ السلام کی عطا و بخشش کی خبر مدینہ کے غریبوں تک (بھی) پہنچی، وہ بھی حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کے پاس جمع ھوگئے۔
انصار کا ایک شخص حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کے بیت الشرف گیا اور اس نے آپ کو خبر دی، بی بی نے فرمایا: خداوندعالم! تجھے راستہ چلنے کا ثواب عطا کرے۔
حضرت علی علیہ السلام بیٹھے ھوئے تھے اور درھموں کو اپنے سامنے رکھا ھوا تھا، یہاں تک کہ آپ کے اصحاب بھی جمع ھوگئے اور ایک ایک مٹھی بھر کر غریبوں کو دیتے رھے یہاں تک کہ ایک درھم بھی باقی نھیں بچا۔۔۔[4]!
جنگ جمل کے خاتمہ کے بعد طلحہ کے بیٹے (موسیٰ بن طلحہ) کو حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کی خدمت میں لایا گیا، امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: تین بار کھو: ”اٴستغفر الله و اٴتوب إلیہ“ ، اور پھر اس کو آزاد کردیا اور فرمایا: جہاں جانا چاھو چلے جاؤ، اور لشکر گاہ میں اسلحہ، سواری اور جو چیزیں تمھیں مل جائیں ان کو لے لو، اور اپنی مستقبل کی زندگی میں خدا کا پاس و لحاظ رکھو اور گھر میں رھو۔[5]
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کا وجود مبارک حالانکہ ملک اور عوام کے حالات سے باخبر تھا مخصوصاً یتیموں، بیواؤں، غریبوں اور محتاجوں سے پل بھر کے لئے بھی غافل نھیں ھوتے تھے، لیکن کبھی اپنی حکومت کے کارندوں اور امت اسلامیہ کو سبق دینے کے لئے ایک عام انسان کی طرح کام کیا کرتے تھے۔
ایک روز آپ نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے شانوں پر پانی کی مشک رکھے جا رھی ھے، آپ نے اس سے مشک لی اور اس عورت کی منزل تک پہنچا دی، اور پھر اس عورت کے حالات دریافت کئے، اس عورت نے کہا: علی بن ابی طالب نے میرے شوہر کو کسی سرحد پر بھیجا جو وہاں قتل ھوگیا، اب میرے یتیم بچے ھیں اور ان کے خرچ کے لئے بھی میرے پاس کوئی چیز نھیں ھے، اسی وجہ سے ضرورت کی ماری خود ھی کام کرنے پر مجبور ھوں۔
امیر الموٴمنین علیہ السلام اپنے بیت الشرف پلٹ آئے اور پوری رات پریشانی اور بے چینی کے عالم میں گزاری، جب صبح نمودار ھوئی ، آپ نے کھانے پینے کا کچھ سامان لیا اور اس کے گھر کی طرف روانہ ھوئے، آپ کے بعض اصحاب نے کہا: لائےے یہ بوجھ ھمیں دیدیجئے تاکہ ھم اس کے گھر تک پہنچا دیں، تو امیر الموٴمنین علیہ السلام نے فرمایا: قیامت کے دن میرا بوجھ کون اٹھائے گا؟
چنانچہ اس عورت کے گھر کے دروازے پر پہنچے، اور دق الباب کیا، اس عورت نے سوال کیا: کون ھے جو دروازہ کھٹکھٹاتا ھے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: میں وھی بندہ ھوں جس نے کل تمہاری پانی کی مشک تمہارے گھر تک پہنچائی تھی، دروازہ کھولو کہ میں بچوں کے لئے کھانے پینے کا سامان لایا ھوں، تو اس عورت نے کہا: خدا تم سے خوش رھے، اور میرے اور علی کے درمیان فیصلہ کرے!
امیر الموٴمنین علیہ السلام اس کے مکان میں وارد ھوئے اور فرمایا: میں تمہاری مدد کرکے ثواب الٰھی حاصل کرنا چاہتا ھوں ، میںروٹی بنانے اور بچوں کو بھلانے میں سے ایک کام میرے حوالہ کردو، اس عورت نے کہا: روٹیاں بنانے کی میری عادت ھے اور اچھی روٹیاں بنا سکتی ھوں، لہٰذا آپ بچوں کو بھلائیں، تاکہ میں آرام سے روٹیاں بنا سکوں۔
وہ عورت کہتی ھے: میں نے آٹے کی روٹی بنانا شروع کی اور علی (علیہ السلام) نے گوشت بنانا شروع کیا، اور گوشت اور خرما بچوں کو کھلانے لگے، جب بھی بچے لقمہ کھاتے تھے حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام بچوں سے فرماتے تھے: میرے بیٹو! علی کی وجہ سے تم پر جو مصیبت پڑی ھے، ان کو معاف کردینا!
جب آٹا گندھ گیا تو اس عورت نے کہا: اے بندہ خدا! تنور روشن کرو، حضرت علی علیہ السلام تنور کی طرف گئے اور اس کو روشن کیا، اور جب تنور سے شعلہ نکلنے لگے تو اپنے چہرے کو اس کے نزدیک لے گئے تاکہ اس کی حرارت آپ کے چہرے تک پہنچے، اور فرماتے جاتے تھے: اے علی! بیواؤں اور یتیم بچوں کے حق سے غافل ھونے (کااحتمال دینے والے کی جزا) آگ کی حرارت ھے۔
ناگہاں (پڑوس کی) ایک عورت آئی اور اس نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھ کر پہچان لیا اور ان بچوں کی ماں سے کہا: وائے ھو تجھ پر! یہ تو امیر الموٴمنین علیہ السلام ھیں، یہ سن کر وہ عورت آپ کی طرف دوڑی اور وہ مسلسل کہتی جاتی تھی: یا امیر الموٴمنین ! میں آپ سے بہت شرمندہ ھوں! حضرت امیرالموٴمنین علیہ السلام نے فرمایا: اے کنیز خدا! میں تجھ سے زیادہ شرمندہ ھوں کہ تیرے حق میں کوتاھی کی ھے۔[6]
اپنے (سامان کا) بوجھ خود اٹھانا
حضرت علی علیہ السلام نے شہر کوفہ کے بازار سے کھجور خریدے اور ان کو عبا کے دامن میں رکھ کر گھر کی طرف روانہ ھوئے، اصحاب نے اس بھاری بوجھ کو آپ سے لینا چاہا اور کہا: یا امیر الموٴمنین ! یہ بوجھ ھم اٹھاتے ھیں، امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے اھل و عیال کا بوجھ اٹھانے کے لئے خود گھر کا مالک زیادہ مناسب ھے۔[7]
زید بن علی کہتے ھیں: حضرت علی علیہ السلام ھمیشہ پانچ موقع پر پابرہنہ چلتے تھے اور اپنی نعلین مبارک کو بائیں ہاتھ میں رکھتے تھے، روز عید فطر، روز عید قربان، روز جمعہ، بیمار کی عیادت کے لئے اور جنازہ کے ساتھ چلتے وقت، اور آپ فرماتے تھے: یہ پانچ مقام خدا کے ھیں میں چاہتا ھوں کہ ان مقامات پر پابرہنہ رھوں۔[8]
بازار میں حضرت علی علیہ السلام کا اخلاق
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام ھمیشہ بازار میں اکیلے جاتے تھے اورسرگرداںافرادکوان کی منزل کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے اور کمزوروں کی مدد کیا کرتے تھے اور جب دکان والوں اور بقالوں کی طرف سے گزرتے تھے تو قرآن پڑھتے تھے اور اس آیت کی تلاوت کیا کرتے تھے:[9]
< تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِینَ لاَیُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ>[10]
”وہ دار آخرت ھے جسے ھم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ھیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نھیں ھوتے ھیں اور عاقبت تو صرف صاحبان تقویٰ کے لئے ھے۔“
پیدل چلنے والے سواری پر چلنے والے کے ساتھ نہ چلیں
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام ایک سواری پر سوار اپنے اصحاب کے درمیان پہنچے، اور جب وہاں سے روانہ ھونے لگے تو اصحاب آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگے، امام علیہ السلام نے ان کی طرف رخ کرکے فرمایا: کیا کوئی حاجت ھے؟ انھوں نے جواب دیا: نھیں، یا امیر الموٴمنین! ھم تو آپ کے ساتھ چلنے کے مشتاق ھیں، آپ نے فرمایا: سوارکے ساتھ پیدل چلنا، سوار کے فساد اور پیدل چلنے والوں کی ذلت و خواری کا سبب ھوتا ھے۔[11]
جب امام علی علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ تھا اور قضاوت کا منصب شُریح کے پاس تھا، امام علیہ السلام ایک یھودی کے ساتھ عدالت میں آئے تاکہ شُریح آپ کے اور اس یھودی کے درمیان فیصلہ کرے، آپ نے عدالت میں آنے کے بعد یھودی سے فرمایا: یہ زرہ جو تیرے ہاتھ میں ھے، میری ھے، میں نے نہ اس کو فروخت کیا ھے اور نہ بخشا ھے، یھودی نے کہا: زرہ میری ملکیت میں اور میرے اختیار میں ھے۔
شریح نے حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام سے شاہد اور گواہ طلب کئے، حضرت نے فرمایا: یہ قنبر اور حسین (علیہ السلام) گواھی دیتے ھیں کہ زرہ میری ھے، شریح نے کہا: بیٹے کی گواھی باپ کے حق میں قبول نھیں ھے اور غلام کی گواھی آقا کے حق میں مقبول نھیں ھے، کیونکہ یہ دونوں آپ کے فائدہ کی بات کریں گے!
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے فر مایا: اے شُریح! وائے ھو تجھ پر! تو نے چند لحاظ سے خطا کی ھے، تیری پھلی خطا یہ ھے کہ میں تیرا امام ھوں، تو میرے حکم کی اطاعت کرتے ھوئے خدا کی اطاعت کرتا ھے اور تو جانتا ھے کہ میں کبھی حق کے علاوہ کچھ نھیں کہتا، لیکن پھر بھی تو نے میری بات کو ردّ کردی اور میرے دعوے کو جھٹلادیا! تیری دوسری غلطی یہ ھے کہ تونے قنبر اور حسین (علیہ السلام) کے خلاف یہ دعویٰ کیا کہ یہ تو آپ کے فائدے میں گواھی دیں گے! تو نے جو میرے و قنبراور حسین (علیہ السلام) کے دعوے کو جھٹلایا اس کی کوئی سزا نھیں دیتا مگر یہ کہ تین دن تک یھودیوں کے درمیان فیصلہ کرو۔اور پھر شریح کو یھودی علاقہ میں بھیج دیا اور اس نے تین دن تک یھودی بستی میں فیصلے کئے اور پھر اپنے اصلی مقام کی طرف پلٹ آیا۔
جب اس یھودی نے اس واقعہ کو سنا کہ حضرت علی علیہ السلام نے گواھوں کے باوجود بھی اپنی قدرت سے ناجائز فائدہ نھیں اٹھایا اور قاضی نے آپ کے خلاف فیصلہ سنا دیا، تو اس یھودی نے کہا: تعجب ھے کہ یہ امیر الموٴمنین (علیہ السلام) ھیں جو قاضی کے پاس گئے اور قاضی نے ان کے خلاف فیصلہ کردیا! تو وہ یھودی مسلمان ھوگیا، اور پھر اس نے کہا: یہ زرہ امیر الموٴمنین (علیہ السلام) کی ھے جو جنگ صفین میں آپ کے سیاہ و سفید گھوڑے سے زمین پر گر گئی تھی جس کو میں نے اٹھا لیا تھا۔[12]
[1] مناقب، ج۲، ص۱۱۲؛ بحار الانوار، ج۴۱، ص۴۸، باب۱۰۴، حدیث۱۔
[2] <ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ اٴَحْسَنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔>،سورہٴ مومنون (۲۳)، آیت۹۶۔
[3] اصول کافی، ج۷، ص۲۶۸، باب النوادر، حدیث۴۰؛ مناقب، ج۲، ص۱۱۳؛ بحار الانوار، ج۴۱، ص۴۹، باب۱۰۴، حدیث۱؛ امالی، صدوق، مجلس نمبر۵۸، حدیث۶۔
[4] امالی، صدوق، ص۴۶۷، مجلس ۷۱، حدیث۱۰؛ روضة الواعظین، ج۱، ص۱۲۴؛ بحار الانوار، ج۴۱، ص۴۴، باب۱۰۳، حدیث۱۔
[5] مناقب، ج۲، ص۱۱۴؛ بحار الانوار، ج۴۱، ص۵۰، باب ۱۰۴، حدیث۲۔
[6] مناقب، ج۲، ص۱۱۵؛ بحار الانوار، ج۴۱، ص۵۱، باب ۱۰۴، حدیث۲۔
[7] بحار الانوار، ج۴۱، ص۵۴، باب۱۰۵، حدیث۱۔
[8] مناقب، ج۲، ص۱۰۴؛ بحار الانوار، ج۴۱، ص۵۴، حدیث۱۔
[9] مناقب، ج۲، ص۱۰۴؛ بحار الانوار، ج۴۱، ص۵۴، باب۱۰۵، حدیث۱۔
[10] سورہٴ قصص (۲۸)، آیت۸۳۔
[11] المحاسن، ج۲، ص۶۲۹، باب۱۲، حدیث۱۰۴؛ بحار الانوار، ج۴۱، ص۵۵، باب۱۰۵، حدیث۲۔
[12] حلیة الاولیاء، ج۴، ص۱۳۹؛ مناقب، ج۲، ص۱۰۵۔
No comments:
Post a Comment