امام کی شناخت کا فلسفہ
مسلمانوں کا اتحاد و یکجھتی ایک ایسی واضح چیز ھے جس کی ضرورت سے کسی بھی عقلمند کو انکار نھیں ھے،کیونکہ جو لوگ ایک کتاب کی پیروی کرتے ھیں اور اساسی و اصولی مسائل پراتفاق رائے رکھتے ھیں وہ مختلف فرقوں ،گروھوں دشمن جماعتوں کی شکل میں کیوں رھیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ھوں؟اگر ماضی میں لوگوں کے اکثر طبقوں کو اس اتحاد کی ضرورت کا احساس نھیں تھا تو آج جب کہ استعماری طاقتیں اسلامی ممالک کے قلب پرحملہ آور ھیں اور ھر روز آگے بڑھتی نظر آتی ھیں ایسے میں ھر عاقل و ھوشیار شخص کو اتحاد کی ضرورت کا بھر پور احساس ھے۔
کون غیرت مند مسلمان ھوگا جو فلسطین،بوسنیہ ،کشمیر ،چچنیہ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی ناقابل بیان حالت کو دیکھے اور خون کے آنسو نہ روئے اور اس بے حسی اور پراکندگی پر گریہ نہ کرے؟
مسلمان ، دنیا کی ایک چوتھائی جمعیت کو تشکیل دیتے ھیں۔اورانسانی طاقت ،زمینی ذخائر اور اصیل اسلامی ثقافت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ غنی جمعیت ھیں ۔ ایسی مادی اور معنوی طاقتوں سے سرشار مسلمان سیاست کے میدان میں سب سے زیادہ باوزن ھوسکتے ھیں اور دنیا کی سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی قیادت و رھبری اپنے ھاتھ میں لے سکتے ھیں اور استعمار نیز اسلامی اتحاد کے مخالفوں کی بنائی ھوئی بھت سی جغرافیائی حدوں کو نادیدہ قرار دے کر مسلمانوں کی باھمی ضرورتیں پوری کرسکتے ھیں نیز اقتصادی و ثقافتی مبادلات کے ذریعہ اپنے حالات بھتر بنا سکتے ھیں ۔اس طرح اپنی سیادت و سرداری دوبارہ حاصل کر سکتے ھیں لیکن اتحاد کی اس اھمیت کو مد نظر رکھنے کے با وجود امام کی شناخت و معرفت کے موضوع کو اسلامی اتحاد کی راہ کا کا نٹا نھیں سمجھنا چاھئے اور اسے اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نھیں سمجھنا چاھئے ،جس کی ضرورت کو سبھی محسوس کرتے ھیں ۔
اکثر دیکھا گیا ھے کہ بعض سادہ لوح یا فریب خوردہ جوان اسلامی اتحاد کو حضرت عثمان کا کرتھ بنا کر طالبان حقیقت پر سخت تنقید کرتے ھوئے کھتے ھیں:
ابوبکر و علی(ع) کی خلافت کی بحث اور یہ کہ صحیح جانشین کون ھے ایک غیر مفید اور بے ثمر بحث ھے۔اس لئے کہ زمانہ کا پھیا اب پیچھے نھیں گھومے گا اور ھم پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حقیقی جانشین کو زندہ نھیں کر پائیں گے کہ اسے اس کا حق دلائیں اور مسند خلافت پر بٹھائیں اور مخالف کی تنبیہ اور اس کا مواخذہ کریں پس بھتر ھے کہ یہ فائل ھمیشہ کے لئے بند کر دی جائے اور اس کے بجائے کوئی دوسری گفتگو کی جائے!
اس خیال کے حامل افراد اس بحث کے درخشان نتائج سے غافل ھیں لھٰذا انھوں نے اسے غیر اھم ،بے فائدہ اور اسلامی اتحاد کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا ھے ، لیکن ھمارے خیال سے یہ فکر امام شناسی کے فلسفہ سے غفلت اور لا علمی کے علاوہ اور کچہ نھیں ھے کیوں کہ اگر اس بحث کا مقصد جھوٹے دعویداروں کے درمیان صرف پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حقیقی جانشین کا پھچاننا ھو تو اس صورت میں ممکن ھے کہ اس طرح کی بحثوں کو غیر مفید و بے ثمر کھیں اور افراطیوں کی طرح جو ھر طرح کی علمی ومنطقی بحث کو اسلامی اتحاد کے خلاف سمجھتے ھیں ھم بھی اسے اتحاد کی راہ کا کانٹا سمجھیں ۔اس لئے کہ اب کیا فائدہ ھے کہ چودہ صدیوں کے بعد حق کو ناحق سے تشخیص دینے کی کوشش کی جائے اور غاصب کے خلاف ایک غائبانہ حکم صادر کیا جائے جس کی کوئی عملی ضمانت نھیں ھے۔
لیکن یہ اعتراض اس وقت بیجا ھے جب ھم علمائے اھل سنت کی طرح اسلامی امامت و خلافت کو ایک طرح کا عرفی منصب جانیں جس کا فریضہ اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنا،دفاعی طاقتوں کو مظبوط کرنا، عدل و انصاف کو رواج دنیا، حدود الٰھی کو قائم کرنا اور مظلوموں کو ان کا حق دلانا وغیرہ ھو ،کیونکہ اس صورت میں اس قسم کی بحثوں کی نوعیت یہ ھو گی کہ ھم بیٹہ کر یہ بحث کریں کہ پندرھویں صدی عیسوی میں برطانیہ پر کس شخص کی حکومت تھی یا لوئی پنجم کے بعد تخت حکومت پر بیٹھنے کا حق کس کو تھا؟!
لیکن شیعی نقطہ نظر سے جو امامت کو رسالت کا سلسلہ اورنبوت کے فیض معنوی کا تتمہ سمجھتے ھیں، اس طرح کی بحث لازمی وضروری ھے کیونکہ اس صورت میں امام کے فرائض صرف مذکورہ بالا امور میں ھی خلاصہ نھیں ھوتے ھیں۔بلکہ ان تمام امور کے علاوہ امام ،حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد احکام الٰھی کو بیان کرنے والا،قرآن کی مشکل آیات کا مفسر اور حرام و حلال کو بتانے والا بھی ھے ۔اس صور ت میں یہ سوال پیش آتا ھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کو احکام الٰھی کی تعلیم دینے اور حرام و حلال بتانے والا کو ن ھے تا کہ پیش آنے والے نئے مسائل میں قرآن کی نص اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی کوئی معتبر حدیث موجود نہ ھونے کی صورت میں مسلمان اس کی طرف رجوع کریں اور اس کا قول ان موارد میں حجت قرار پائے۔ (1)
اصولا اسلامی امت قرآن کے مشکلات اور اختلافی مسائل میں کہ جن کی تعداد محدود بھی نھیں ھے آخر کس صاحب منصب کی طرف رجوع کریں اور کس کے قول و عمل کو اپنی زندگی کے لئے حجت اور چراغ راہ قرار دیں؟ (2)
یھی وہ منزل ھے جھاں ھم رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے علمی جانشین کے بارے میں بحث کی ضرورت محسوس کرتے ھیں اور یھاں یہ مسئلہ مکمل طور سے زندہ صورت اختیار کرلیتا ھے کیونکہ اس نظریہ کی روشنی میں امام ،الٰھی معارف اور اصول و احکام میں امت کا رھنما ھوتا ھے اور جب تک یہ منصب قطعی دلائل کے ذریعہ پھچانا نہ جائے صحیح نتیجہ تک نھیں پھنچاجاسکتا ۔
اگر مسلمان تمام اصو ل و فروع میںاتفاق و اتحاد رکھتے تو امامت کے سلسلہ میں بحث اس قدرضروری نہ ھوتی ،لیکن افسوس کہ ان کے یھاں کم ھی مسائل میں اتحاد پایاجاتا ھے ۔اب ھم جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے چودہ سو سال بعد وجود میں آئے ھیں،ھمارا وظیفہ کیا ھے ؟آیا اس زمانہ میں پیدا ھونے والے مسائل ، مشکلاتِ قرآن اور اختلافی مسائل میں کسی نہ کسی صحابی کی رائے منجملہ (ابوحنیفہ یا شافعی) کی طرف رجوع کریں یا حضرت علی ں اوران کی گرانقدراولاد کی طرف رجوع کریں جن کے لئے شیعوںکا دعویٰ ھے کہ ان کی فضیلت ،عصمت،طھارت، وسیع و عمیق علم اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانب سے ان کے منصب امامت پر فائز کئے جانے کے سلسلہ میں عقلی و نقلی دلیلیں موجود ھیں؟
اس سوال کا جواب اسی ”امام شناسی“ کے موضوع اور ولایت کی بحث میں ملے گا جس میں تحقیق ،انسان کو مذکورہ بالا مشکلات میں حیرت و سرگردانی سے نجات دے دیگی۔حتی اگر ھم مسئلہ خلافت کو بھی چھوڑ دیں اور پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد مسلمانوں کی سرپرستی و حاکمیت جو حقیقت میںایک معصوم کا حصہ ھے، سے چشم پوشی کرلیں تو صرف اسی مسئلہ کی تحقیق کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کا دینی و علمی مرجع و راھنما کون ھے،بھت سی جھات سے بڑی اھمیت رکھتا ھے اور مسلمانوںکی مکمل سعادت و خوشبختی بھی اس سے وابستہ ھے اس لئے ضروری ھے کہ جو باتیں ھم بعد میں وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے یھاں بھت اختصار کے ساتھ ذکر کردیں:
اگر ھم اس وقت خلافت و حاکمیت کے مسئلہ سے صرف نظر کردیں تو پورے اطمینان کے ساتھ کھہ سکتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مکرر تصریحات و تاکیدات کی روشنی میں آپ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے پاس قرآن کے علاوہ صرف ایک دینی و علمی مرجع و ملجاھے اور وہ پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت علیھم السلام ھیں،کیونکہ آنحضرت نے مختلف موقعوں پر کتاب و عترت کے اٹوٹ رشتہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیاھے :
”یا اٴیھا الناس انی یوشک ان ادعی فاجیب و انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی کتاب اللہ حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اھل بیتی و ان اللطیف اخبرنی انھما لن یفترقا“
”اے لوگو!میں عنقریب خدا کی دعوت پر لبیک کھنے والا ھوں۔میں تمھارے درمیان دو گرانقدر اور سنگین امانتیں چھوڑے جارھاھوں ۔ ایک اللہ کی کتا ب اور دوسری میری عترت ھے ۔اللہ کی کتاب وحی الٰھی اور ریسمان نجات ھے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ھوئی ھے اور میری عترت اور اھل بیت(ۡع)۔ خدائے لطیف نے مجھے خبر دی ھے کہ یہ دونوں ھرگز جدا نھیں ھوںگے “
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان دونوںحجتوں کی باھم ملاذمت کو دینے آخری حج کے روز عرفہ یا غدیر کے دن منبر سے یا اپنی بیماری کے دوران بستر پر لیٹے ھوئے جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ھوا تھا صراحت سے بیان کیا اور آخر میں فرمایا ھے کھ:
”ھذا علی مع القرآن و القرآن مع علی لایفترقان“ (3)
یہ علی(ۡع)ھمیشہ قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی(ۡع) کے ھمراہ ھے۔یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے۔
حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے ایک دو نھیں ھیں جن کو یھاں ذکر کردیا جائے ۔اس حدیث کے مدارک علامہ میر حامد حسین ھندی نے اپنی گرانقدر کتاب ”عبقات الانوار“ کی بارھویں جلد میں بیان کئے ھیں اور یہ کتا ب ھندوستان میں چھپ چکی ھے اور چند سال پھلے چہ جلدوں میں اصفھان میں بھی دوبارہ چھپی ھے،اور دار التقریب مصر سے بھی اس سلسلہ میں ایک کتاب چھپ چکی ھے جس کی بنیاد پر جامعہ الازھر کے سر براہ شیخ شلتوت نے چار مذاھب کی پیروی کے انحصار کو توڑا اور فتوا دیا کہ فقہ امامیہ کی پیروی بھی صحیح اور مجزی ھے۔شیخ شلتوت سے پوچھا گیا کہ بعض لوگوں کا اعتقاد ھے کہ ھر مسلمان پر لازم ھے کہ اپنی عبادات اور معاملات صحیح کرنے کے لئے چار مشھور مذاھب (حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی) کی تقلید کرے کہ شیعہ اثنا عشری اور زیدی مذھب ان میں سے نھیں ھیں،کیا جناب عالی بھی اس کلی نظریہ سے اتفاق رکھتے ھیں اور اثنا عشری مذھب کی تقلید و پیروی کو منع فرماتے ھیں ؟ تو انھوں نے جواب میں کھا:
1۔ اسلام نے اپنے کسی پیروکار پر یہ واجب نھیں کیا ھے کہ (فرعی احکام میں) کسی معین مذھب کی پیروی کرے۔ھم کھتے ھیں کہ ھر مسلمان کو یہ حق ھے کہ ھر اس مذھب کی پیروی کرے جو صحیح مدارک کے مطابق ھم تک نقل ھواھے اور اس کے احکام کو مخصوص کتابوں میں تدوین کیا گیاھے ۔اسی طرح جن لوگوں نے کسی ایک مذھب کی پیروی کی ھے --- چاھے وہ جوبھی مذھب ھو --- وہ دوسرے مذھب کی طرف رجوع کرسکتے ھیں اور اس میں کوئی حرج نھیں ھے۔
2۔جعفری مذھب ،مشھور اثنا عشری امامیہ مذھب ھے اور ان مذھبوں میں سے ھے کہ اھل سنت کے تمام مذھبوں کی طرح اس کی بھی تقلید کی جاسکتی ھے ۔
لھذا بھتر ھے کہ تمام مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ھوں اور کسی خاص مذھب سے تعصب کرنے سے پرھیز کریں کیونکہ اللہ کا دین اور اس کا قانون کسی خاص مذھب کے تابع اور کسی معین و مخصوص مذھب میں منحصر نھیںھے۔(اسلامی مذاھب کے پیشوا) سب مجتھدین اور خداوند عالم کے نزدیک مقبول ھیں اور جو لوگ اھل نظر اور صاحب اجتھادنھیں ھیں ان کے لئے جائز ھے کہ ان حضرات کی تقلید کریں اور جو کچہ انھوں نے فقہ میں مقرر کیا ھے اس پر عمل کریں۔اس سلسلہ میں عبادات و معاملات میں کوئی فرق نھیں ھے ۔ (4)
________________
(1)چونکہ شیعہ علماء اھل سنت کے نظریہ کے برخلاف ،امامت کو ایک الٰھی منصب سمجھتے ھیں لھذا وہ امامت کی یوں تعریف کرتے ھیں ”الامامة رئاسة عامة الٰھیة فی امور الدین و الدنیا و خلافة عن النبی “امامت لوگوں کے دینی و دنیاوی امور میں ایک عام الٰھی سرپرستی اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشینی ھے۔
(2)مائدہ /3 ۔ یعنی آج میں نے تمھارا دین مکمل کردیا․
(3)اسلام کے فروعی احکام سے متعلق امت کے حکام اور خلفاء کی لاعلمی کی ان رودادوں کی وضاحت کی ھمیں ضرورت نھیں ھے ان قضیوں کی تشریح تاریخ حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں موجود ھے۔علامہ امینی ۺنے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ کی چھٹی،ساتویں،اور آٹھویں جلد میں خلفاء کی عملی لیاقت کے سلسلہ میں تفصیل سے گفتگو کی ھے۔شائقین مزید معلومات کے لئے اس کتاب کی طرف رجوع کریں۔
(4)۔تاریخ طبری ،ج/2، ص/172
امامت کے سلسلہ میں دو نظر یئے
خلافت ،علمائے اھل سنت کی نظر میں ،ایک ایسا اجتماعی و سماجی عھدہ و منصب ھے جس کے لئے اس سے مخصوص مقاصد کی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کوئی اور شرط نھیںھے۔جب کہ شیعی نقطہ ٴ نظر سے امامت ایک الٰھی منصب ھے جس کا تعین خدا کی طرف سے ضروری ھے اور وہ بھت سے حالات اور ذمہ داریوںمیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر و یکساں ھے۔
لھٰذا امامت کی حقیقت کے سلسلے میں علماء کے یھاں دو نظر یئے پائے جاتے ھیں ایک نظریہ اھل سنت کے علماء کا ھے اور دوسرا شیعہ علماء کا نظریہ ھے :
الف۔ علمائے اھل سنت کا نظریہ -:
علمائے اھل سنت کی عقائد و کلام کی کتابیں اس بات کی حکایت کرتی ھیں کہ امامت ان کی نظرمیں وسیع پیمانہ پر مسلمانوں کے دینی و دنیوی امور کی سر پرستی ھے اور خود ”امام “اور ان کی اصطلاح میں ”خلیفھ“ وہ شخص ھے جو پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اس منصب کا ذمہ دار ھے اور مسلمانوں کے دینی و دنیاوی امور سے مربوط ھر گرہ اسی کے ذریعہ کھلتی ھے۔
یہ علماء ،امامت کی یوں تعریف کرتے ھیں :
”الامامة رئاسة عامة فی امور الدین و الدنیا خلافة عن النبی(ص)“ (1)
اھل سنت کے نظر یہ کے مطابق یہ عظیم دینی و اجتماعی عھدہ و منصب ایک سماجی بخشش ھے جو لوگوں کی طرف سے خلیفہ کو عطا ھوئی ھے اور خلیفہ انتخاب کے ذریعہ اس مرتبہ پر فائز ھوا ھے ۔ خلیفہ کی ذمہ داریوںکا دائرہ بھی مذکورہ تعریف میں پورے طور سے مشخص کر دیا گیا ھے۔
الف:۔دینی امور کی سرپرستی : اس سے مراد یہ ھے کہ لوگوں کے دینی مشکلات خلیفہ کے ھاتھوں حل ھوتے ھیں مثلا پوری دنیا میں جھاد کے ذریعہ اسلام کی توسیع ایک دینی امر ھے جس کا عھدہ دار امام کو ھونا چاھئے ۔
ب: ۔ دنیاوی امور کی سرپرستی : امام و خلیفہ کو چاھئے کہ طاقت کے ذریعہ عمومی امن و امان قائم کرے اور لوگوں کے اموال ان کی ناموس اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔
اس تعریف اورخلیفہ کے سپرد کی گئی ذمہ داریوں پر غور کرنے سے ایک حقیقت سامنے آتی ھے اور وہ یہ کہ امام یا خلیفہ ان کے نقطہ نظر سے ایک فرعی اور ایک سماجی حاکم ھے جو ملکی قوانین کا اجراء کرنے عمومی امن و امان قائم کرنے اور سماجی عدل وانصاف برقرار کرنے کے لئے منتخب ھوا ھے اور اس طرح کی حاکمیت کے لئے لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی اور چیز کی شرط نھیں ھے (نہ اسلامی احکام کے کلی و وسیع علم کی ضرورت ھے اور نہ سھو وخطا سے معصوم ھونے کی ضرورت ھے)
دوسرے لفظوں میں کوئی بھی معاشرہ چاھے جتنا بھی گناہ اور فسادسے پاک ھو پھر بھی برائی پورے طور سے اس سے دور نھیں ھوتی اور کھیں نہ کھیں گوشہ و کنار میں ایسے شر یر افراد ضرور نظر آتے ھیں جو جوا وشراب کی طرف ھاتھ بڑھاتے نظر آتے ھیں یا لوگوں کے عمومی اموال و جائداد پر زبردستی ڈاکاڈالتے ھیں اور ان پر قابض ھو جاتے ھیں یا لوگوں کی عزت و ناموس پر حملے کی فکر میں رھتے ھیں۔
اس لئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد ایک ایسے شائستہ و لائق شخص کی ضرورت ھے جو گناہ گاروں اور فسادیوں کی الٰھی قانون کی روشنی میں تنبیہ کرکے اس طرح کی برائیوں اور آلودگیوں کو روکے ۔یہ اور اسی طرح کے امور وہ ھیں جو انسان کی دنیا سے مربوط ھیں، جن کی سرپرستی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امام کے حوالے کی گئی ھے۔
مذکورہ امور کے مقابل کچہ دوسرے امور بھی ھیں جو دنیا میں اسلام کی ترقی اور پھیلاؤ سے مربوط ھیں اور جن کا تعلق انسان کے دین سے ھے ۔ مثلاً امام کا ایک فریضہ یہ ھے کہ اسلحوں سے لیس ایک منظم اور مضبوط فوج تیار کرے جو نہ صرف اسلامی سرحدوں کو ھر طرح کے باھری حملوں سے محفوظ رکھے بلکہ اگر ممکن ھو تو جھاد کے ذریعہ توحید کا پیغام پوری دنیا میں پھیلاسکے۔
اب یھاں آپ یہ کھیں گے کہ پھر لوگ اپنے حرام و حلال اور دینی و علمی مسائل کس سے دریافت کریں گے، اور اس عھدہ کا ذمہ دار کون ھوگا ؟ تو اس کے جواب میں علمائے اھل سنت کھیں گے کہ اصحاب پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جنھوں نے آنحضرت سے حرام و حلال کے احکام سیکھے ھیں اس طرح کے مسائل میں امت کے مرجع ھیں ۔
اگر امام کی ذمہ داری ان ھی امور کی دیکہ بھال میں منحصر ھو ،جنھیں ھم نے اھل سنت کی زبانی نقل کیاھے ، تو ظاھر ھے کہ ایسے امام کے لئے صرف تھوڑی سی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی بھی اخلاقی فضیلت اور انسانی کمال کی ضرورت نھیں ھے ، چہ جائیکہ اس کے بارے میں وسیع علم اور خطا و گناہ سے بچانے والی عصمت کی شرط رکھی جائے۔
افسوس کہ امام کا معنوی و روحانی مرتبہ و منصب اھل سنت کی نظر میں رفتھ رفتھ اس قدر گر گیا کہ قاضی باقلانی جیسا شخص پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتاھے کہ خلیفہ و امام پست ترین اخلاقی خصلتوں کی غلاظت اور اپنے کالے سیاسی کارناموں کے باوجود امت کی قیادت و رھبری کے منصب پر باقی رہ سکتا ھے !وہ کھتا ھے :
”لا یخلع الامام بفسقہ و ظلمہ بغصب الاموال و تناول النفوس المحترمة و تضییع الحقوق و تعطیل الحدود“ ( 2)
یعنی امام اپنے فسق وفجور اور ظلم کے ذریعہ ،لوگوں کے اموال غصب کرکے ، محترم افراد کو قتل کرکے ،حقوق کو ضائع کرکے اور الٰھی حدود و قوانین کو معطل کرکے بھی اپنے منصب سے معزول نھیں ھوتا بلکہ یہ امت پر ھے کہ اس کی برائیوں کو درست کریں اور اس کی و ھدایت کریں!
اور ھمیں مزید تعجب نہ ھوگا اگر ھم محقق تفتازانی جیسے عالم کو خلیفہ ٴ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بارہ میں ایسے خیالات کا اظھار کرتے ھوئے دیکھیں،وہ لکھتے ھیں:
یہ ھرگز ضروری نھیں کہ امام لغزش اور گناہ سے پاک ھو یاامت کی سب سے اعلیٰ فرد شمار ھو۔ امام کی نافرمانی اور الٰھی احکام سے اس کی جھالت منصب خلافت سے اس کی معزولی کا سبب ھرگز نھیں ھوسکتی․ (3)
خلیفہ ٴاسلام کے بارے میں اس طرح کے فیصلوں اور نظریوں کی بنیاد یہ ھے کہ ان لوگوں نے امام کو ایک عرفی اور انتخابی حاکم سمجہ لیا ھے ۔کیونکہ ایک عرفی حاکم کے لئے بنیادی شرط یہ ھے کہ وہ نظام کو چلانے اور معاشرہ میں آرام و سکون برقرار کرنے کی لازمی صلاحیت رکھتا ھو اور فسادیوں کو کنٹرول کرسکے ۔خود اس کا گناہ سے آلودہ ھونا یا اس کی غلطیاںاس منصب کی راہ میں رکاوٹ نھیں بنتیں جس کے لئے وہ منتخب ھواھے ۔
ب۔ شیعہ علماء کا نظریہ :
مذکورہ بالا نظریہ کے مقابل ایک دوسرا نظریہ بھی ھے جس پر شیعہ علماء تکیہ کرتے ھیں ۔یہ نظریہ کھتاھے کہ :امامت ایک طرح کی الٰھی ولایت ھے جو خداوند عالم کی جانب سے بندہ کو دی جاتی ھے۔ واضح الفاظ میں یوں کھیں کہ : امامت ،نبوت کی طرح ایک انتصابی منصب ھے اور اس کا عھدہ دار خود خدا کی طرف سے ،معین و منصوب ھوتا ھے ۔
اس بنیاد پر امام رسالت ھی کا سلسلہ ھے فرق یہ ھے کہ پیغمبر شریعت کی بنیاد رکھنے والا اورآسمانی پیام لانے والاھے اور امام شریعت کو بیان کرنے والا اور اس کا محافظ و نگھبان ھے ۔امام ، نزول وحی کے علاوہ تمام مراتب میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر اور قدم بقدم ھے اور وہ تمام شرائط جوپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے ضروری و لازم قرار دیے گئے ھیں (مثلاً اسلام کے معارف،اس کے اصول و فروع اور احکام کا علم اور ھر طرح کی خطاو گناہ سے اس کا محفوظ ھونا) بعینہ امام کے لئے بھی لازم و ضروری ھیں۔
یہ نظریہ رکھنے والے معتقد ھیں کھ: صحیح ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)لوگوں کے لئے مکمل دستور حیات لائے اور انھوں نے اسلامی تعلیمات اور دین حق کے تمام کلیات لوگوں کے حوالے کردئیے لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات کے بعد کوئی تو ایسا شخص ھونا چاھئے جو ان کلیات سے جزئی احکام کو استنباط کرے اورنکالے اور یہ کام علم (اور وہ بھی وسیع اور خدا داد علم )کے بغیر ممکن نھیں ھے۔
صحیح ھے کہ اسلام کے تمام احکام کی تشریح پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانہ میں ھوئی ھے اور یہ احکام وحی الٰھی کے ذریعہ انھیں بتائے گئے ھیں۔لیکن مساعدحالات نہ ھونے یا روزانہ پیش آنے والے نئے مسائل کے حل کے لئے احکام کا بیان امام کے ذمہ بھی کیا گیا ھے ،اور اس منصب کا سنبھالنا اللہ سے وابستہ اور مستند علم کے بغیر ممکن نھیں ھے۔اسی لئے شیعوں کا اعتقاد ھے کہ امام کو شریعت کے تمام امور سے واقف و آگاہ ھونا چاھئے۔ (4)
لیکن امام معصوم کیوںھو؟تو جواب یہ ھے کہ شیعہ امام کو امت کا معلم و مربی جانتے ھیں اور تربیت سب سے زیادہ عملی پھلو رکھتی ھے اور مربی کے عمل کے ذریعہ انجام پانی چاھئے۔اگر مربی خود قانون توڑنے والا اور حدود کو پھچاننے والا نہ ھوتو لوگوںپر مثبت اثر کیسے ڈال سکے گا؟لھٰذا یہ نظریہ کھتا ھے کہ امت کے لئے ایسے شخص کی شناخت وسیع و خداداد علم اور ھمہ جھت عصمت کے ذریعہ ھی ممکن ھے اور امام کو خدا کی جانب سے منصوب ھونا چاھئے۔
یہ دو نظریے ھیں جو ان دونوں گروھوں کے علماء کے ذریعہ بیان ھوئے ھیں۔اب ھم دیکھیں کہ ان میں سے کون سا نظریہ صحیح و استوا ر نیز قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی معتبر حدیث سے سازگار ھے ۔
______________
(1)تاریخ کامل، ج/2،ص/63
(2)۔تاریخ طبری ج/2،ص/62۔63․ تاریخ کامل ج/2،ص/40۔41․ مسند احمد ،ج/1،ص/111 ۔اور دیگرمآخذ
(3) سورہ احقاف/15
(4) سورہ بقرہ /232
شیعہ نظریہ کی صحت کی دلیلیں
عقلی اور نقلی دلائل گواھی دیتے ھیں کہ امامت کا منصب نبوت کے مانند ایک الٰھی منصب ھے اور امام کو خدا کی جانب سے معین ھونا چاھئے اور جو شرائط پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لئے (وحی اور بانی ٴ شریعت ھونے کے علاوہ ) معتبر ھیں وہ امام میں ھونے چاھئے۔
اب ھم دلائل کا جائزہ لیتے ھیں:
پیش آنے والے نئے مسائل :
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی حیات طیبہ میں اسلام کے اصول و فروع کے تمام کلیات بیان کردئیے تھے اور اسلام اسی طریقہ سے خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ھاتھوں تکمیل پایا۔لیکن کیا یہ اصول و کلیات امت کی علمی ضرورتوں کو پورا کرنے والی کسی مرکزی علمی شخصیت کے بغیر کافی ھیں؟یہ طے شدہ بات ھے کہ کافی نھیں ھیں۔بلکہ آنحضرت کے بعد ایسے معصوم پیشواوٴں کی ضرورت ھے جو اپنے وسیع و بے پایان عظیم علم کے ذریعہ کلیات قرآن و اصول اورسنت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی روشنی میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں امت کی علمی ضرورت کی تکمیل کریں۔خصوصاً ایسے مسائل میں جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نھیں آئے تھے اور نہ حضرت کے زمانہ میں اس کی کوئی مثال ملتی ھے۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی بعثت کے بعد رسالت کے تیرہ سال مکہ میں بت برستوں کے خلاف جدو جھد میںبسر کئے۔اور اس عرصہ میں حالات اور ماحول سازگار نہ ھونے کی وجہ سے آپ الٰھی شریعت کے احکام بیان کرتے ھیں کامیاب نہ ھوئے بلکہ آپ نے اپنی پوری توجہ اسلامی اصول و مبدا اور معاد یعنی توحید و قیامت کے سلسلہ میں لوگوں کا ذھن ھموار کرنے میں صرف کی،اور چونکہ حرام و حلال اور الٰھی فرائض و سنن بیان کرنے کے حالات نھیںتھے،لھٰذا آپ نے احکام کے اس حصہ کو بعد کے لئے اٹھار کھا۔
جب آنحضرت مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے سامنے مسائل ومشکلات کا ایک لشکر تھا۔ مدینہ میں آپ کی زندگی دس سال سے زیادہ نہ رھی لیکن آپ نے اسی مدت میں ستائیس مرتبہ خود بت پرستوں نیز مدینہ اور خیبر کے یھودیوں کے خلاف جنگوں میں شرکت فرمائی ۔دوسری طرف منافقوں کی ساز شوں نیز اھل کتاب سے مناظرہ و مجادلہ میں بھی آپ کا بڑا قیمتی وقت صرف ھوا۔ یہ حادثات و واقعات سبب بنے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کے دوران زیادہ تر اسلام کے فروع و احکام کے کلیات بیان کریں اور ان کلیات سے دوسرے احکام کے استنباط و استخراج کا کام دوسرے شخص کے حوالے کیا جائے۔
اگر قرآن یہ فرماتا ھے کہ ”الیوم اکملت لکم دینکم“ (1) تو اس سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور اسلام کی اس وقت کی حالت و کیفیت کو دیکھتے ھوئے آیت کے نزول یعنی دس ھجری کے وقت مراد یہ ھے کہ توحید و قیامت سے متعلق معارف و عقائد اور فروع و احکام کے تمام اصول و کلیات آیت کے نزول کے وقت خو د پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ھاتھوں تکمیل ھوگئے اور اس اعتبار سے دین کے ارکان میں کوئی نقص باقی نھیں رھا اور یھی کلیات صبح قیامت تک امت کوپیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنے میں بنیاد و اساس کا کام کریں گے۔
اب یہ دیکھنا چاھئے کہ کون سا شخص ان اصول و کلیات کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی تمام ضرورتوں اور مسائل کا جواب دے سکتا ھے۔احکام سے متعلق قرآن میں ذکر شدہ آیات اور پیغمبر اکرم کی محدود احادیث کے ذریعہ صبح قیامت تک پیش آنے والے بے شمار مسائل کا حل اور احکام کا استنباط کرنا بھت ھی دشوار اور پیچیدہ کام ھے جو عام افراد کے بس کا نھیں ھے ۔کیونکہ قرآن مجید میں فقھی و شرعی احکام سے متعلق آیات کی تعداد تین سو سے زیادہ نھیں ھے۔اسی طرح سے حلال و حرام اور فرائض سے متعلق آنحضرت کی احادیث کی تعداد چارسو سے زیادہ نھیں ھے اور ایک عام انسان اپنے محدود علم کے ذریعہ ان محدود مدارک سے مسلمانوں کے روز افزوں مسائل و مشکلات کا حل نکال نھیں سکتا ۔بلکہ اس کے لئے ایک ایسے لائق اور شائستہ شخص کی ضرورت ھے جو اپنے الٰھی اور غیبی علم کے ذریعہ ان محدود دلائل سے الٰھی احکام نکال کر امت کے حوالے کرسکتا ھو۔
ساتھ ھی ساتھ ایساشخص اپنے اس وسیع و لا محدو دعلم کی وجہ سے گناہ و خطا سے محفوظ بھی ھونا چاھئے تاکہ لوگ اس پر اعتماد کرسکیں اور ایسے شخص کو خدا کے علاوہ کوئی اور نھیں جانتا لھٰذا وھی اسے معین بھی فرمائے گا۔
تکمیل دین کی دوسری نوعیت
یھاں ایک دوسری بات بھی کھی جاسکتی ھے ،اور وہ یہ ھے کہ آیت اکمال جو اسلام کی تکمیل سے متعلق ھے اسلام کی بقا دوام کو بیان کررھی ھے ۔کیونکہ یہ آیت کریمہ اسلامی محدثین کی متعدد و متواتر روایات کے مطابق غدیر کے دن حضرت علی ںکی ولایت و خلافت کے اعلان کے بعد نازل ھوئی ھے ۔اب رھی فرائض و محرمات اور دوسرے احکام سے متعلق تکمیل دین کی بات تو یہ اس آیت کے مقصد سے باھر کی چیز ھے ۔اس حصہ میں اسلام کے مسلمات کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ کھا جانا چاھئے کہ اس میں کوئی کلام نھیں ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد وحی الٰھی کا سلسلہ منقطع ھو گیا اور اب کوئی امین وحی کسی اسلامی حکم کو لےکر نھیں آئے گا ،بلکہ انسان کو صبح قیامت تک جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ سب جبرئیل امین رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس لا چکے ۔دوسری طرف ھم دیکھتے ھیںکہ دنیا کے تمام ھونے تک اسلامی معاشرہ کو پیش آنے والے مسائل کا حکم بیان کرنے کے لئے فقھی دلائل ھمارے پاس کافی نھیں ھیں بلکہ بھت سے احکام قرآن و حدیث میں بیان ھی نھیں کئے گئے ھیں۔
ان دو باتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے ھم یہ کھنے پر مجبور ھیں کہ تمام الٰھی احکام خود پیغمبر اکرم کے زمانہ میں آچکے تھے اور آپ کو ان کی تعلیم دی جا چکی تھی ۔اب چوں کہ رسالت کی مدت بھت ھی مختصر تھی،ساتھ ھی ھر روز کے مسائل اور دشواریاں ،نتیجہ میں آپ ان تمام احکام کی تبلیغ کرنے میں کامیاب نھیں ھوئے لھٰذا آپ نے وہ تمام تعلیمات الٰھی اور جو کچہ بھی آپ نے وحی کے ذریعہ الٰھی احکام اور اسلامی اصول و فروع کی شکل میں حاصل کیا تھا سب کچہ اپنے اس وصی و جانشین کے حوالے کردیا اور اسے سکھا دیا ،جو خود آنحضرت کی طرح خطا و غلطی سے بری اور محفوظ تھا ۔تاکہ وہ آپ کے بعد یہ تعلیمات اور احکام رفتھ رفتھ امت کو بتائے ۔ظاھر ھے کہ ایسے شخص کی شناخت جو اس قدر وسیع علم رکھتا ھو اور ھر طرح کی خطا و لغزش سے پاک ھو صرف پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے تعارف اور اللہ کی جانب سے نصب و تعیین کے ذریعہ ھی ممکن ھے ۔امت انتخابات کے ذریعہ ایسے کسی شخص کو نھیں پھچان سکتی۔
یہ بھی عرض کردوں کہ ھم جو یہ کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو کچہ امت سے بیان نہ کرسکے وہ انھوں نے اپنے وصی و جانشین کو تعلیم دے دیا تو اس سے مراد وہ معمولی تعلیم نھیں ھے جو ایک شاگرد اپنے استاد سے چند پرسوں میں حاصل کرتا ھے کیوں کہ اگر ایسا ھوتا تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ایک شخص کو اس طرح کی تربیت دینے کے بجائے ایک گروہ یا بھت سے لوگوں کی تعلیم و تربیت فرماتے ۔جب کہ یہ تعلیم ایک غیر معمولی تعلیم تھی جس میں آنحضرت نے اپنے وصی کی روح و قلب پر تصرف فرما کر تھوڑی ھی دیر میں اسلام کے تمام حقائق و تعلیمات سے انھیں آگاہ کر دیا اور کوئی چیز پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین سے مخفی و پوشیدہ نھیں رہ گئی ۔
آخر میں یہ یاد دھانی بھی کرادوں کہ جب اسلام دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلا تو مسلمان نئے نئے حالات سے دو چار ھوئے جن سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے عھد میں سابقہ نھیں پڑا تھا اور آنحضرت نے ان نئے حالات اور حادثات کے سلسلہ میں کوئی بات نھیں بتائی تھی۔
قرآن وحدیث کے اصول وکلیات سے اس طرح کے نئے حالات و مسائل کا حکم کشف کرنا اور نکالنا بھت ھی پیچیدہ اور اختلاف انگیز ھے ۔اس سلسلہ میں تکمیل شریعت کا تقاضا یہ ھے کہ خاندان وحی سے وابستہ کوئی فرد ان نئے مسائل کا حکم قرآن و حدیث سے استنباط کرے یا ان کا حکم اس وھبی علم کے ذریعہ بیان کرے جو آنحضرت نے اس کے حوالے کیا ھے۔
اھل سنت معاشرہ کی ایک مشکل یہ بھی ھے کہ احکام سے متعلق قرآن کریم کی محدود آیات اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی چار سو حدیثوں سے ھی اسلام کے تمام احکام کا استنباط و استخراج کرنا چاھتے ھیں لیکن جونکہ بھت سے مواقع پر ناتوانی کا احساس کرتے ھیں اور مذکورہ بالا دلیلوں کو کافی نھیں پاتے لھٰذا قیاس و استحسان جن کی کوئی محکم اساس و بنیاد نھیں ھے ،کا سھارا لے کر امت کی ضرورتوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ھیں ۔ وہ خود جانتے ھیں کہ ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس یا فقھی استحسان کے ذریعہ کسی مسئلہ کا حکم بیان کرنا کوئی صحیح بنیاد نھیں رکھتا ۔لیکن اگر امت میں کوئی ایسا شائستہ ولائق شخص ھو جو اپنے وسیع علم کے ساتھ اس قسم کے مسائل کا حکم ایک خاص طریقہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے حاصل کرکے امت کے حوالے کرے اور گمان و شک پر عمل کی اس بے سرو سامانی کا خاتمہ کردے تو یہ روش شریعت کی تکمیل اور لوگوں کے حقیقت تک پھچنے کی راہ میں زیادہ موٴثر ثابت ھوگی ۔
پھر بھی گنتی کے چند نادر موارد میں قیاس و استحسان کی ضرورت پیش آئی تو ھم یہ کھہ سکتے ھیں کہ ان جزئی موارد میں اسلام نے آسانی کے لئے ان پر عمل کرنے کی اجازت دے دی ھے ۔ لیکن اگر شریعت کے پورے پیکر کو ظن و گمان پر استوار کریں اور ایسے قوانین دنیا کے حوالے کریں جن کی بنیاد حدس و گمان اور استحسان اور ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس ھو تو ایسی صورت میں ھم نے ایسے اسلامی احکام اور اسلام کا ایسا حقوقی و جزائی مکتب فکر اور اخلاقی نظام دنیا کے سامنے پیش کیا ھے جس کی اساس و بنیاد ھی ناھموار اور پھس پھسی ھے کیا ایسی صورت میں ھم یہ توقع رکہ سکتے ھیں کہ دنیا کے لوگ ایسے اسلام کے حقوقی و جزائی احکام پر عمل کریں گے جس کے بیشتر احکام وحی الھٰی سے دور کا بھی واسطہ نھیں رکھتے۔
خلفاء امت کی لا علمی
تاریخ اسلامی امت کے حکام و خلفاء کی اسلامی اصول و فروع سے لا علمی کے بھت سے واقعات اپنے دامن میںلئے ھوئے ھے۔علمی محاسبات یہ تقاضا کرتے ھیں کہ امت کے درمیان ایک عالم وآگاہ امام و پیشوا کا وجود ضروری ھے جو اسلامی احکام کا محافظ اور ان کا خزانہ دار ھو اور مستقل الٰھی تعلیمات کولوگوں تک پھنچاتارھے۔ھم یھاں پر خلفا کی لاعلمی اور اسلام کے بنیادی احکام سے ان کی جھالت کے چند نمونے پیش کرتے ھیں:
1۔حضرت عمر نے اصحاب کے مجمع میںایک شوھر دار حاملہ عورت کو جو زنا کی مرتکب ھوئی تھی سنگسار کرنے کا حکم دیا لیکن آخر کار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی راھنمائی کے ذریعہ یہ حکم تبدیل کیا گیا۔کیونکہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ماں نے گناہ کیا ھے تو وہ قصور وار ھے لیکن بچہ نے کیا قصور کیا ھے جو ابھی اس کے رحم میں ھے؟
2۔خلیفہ نے ایک ایسے شادی شدہ شوھرکو جس کی بیوی دوسرے شھر میں رھتی تھی زنا کے جرم میں سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔جبکہ ایسے شخص کے لئے جس کی بیوی اس سے دور ھو اللہ کا حکم سو تازیانہ (کوڑے) کی سزاھے ،سنگسار نھیں ھے ۔چنانچہ یہ حکم بھی حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تبدیل کیا گیا۔
3۔پانچ بدکار مردوں کو خلیفہ کے پاس لایا گیا اور گواھی دی گئی کہ یہ لوگ زنا کے مرتکب ھوئے ھیں ۔خلیفہ نے حکم دیا کے سب کو ایک طرف سے سو سو کوڑے لگائے جائیں۔امام علی علیہ السلام اس جگہ موجود تھے آپ نے فرمایا:ان میں سے ھر ایک کی سزا جدا جدا ھے۔ایک کافر ذمی ھے،اس نے اپنے شرائط پر عمل نھیں کیاھے۔وہ قتل کیاجائے گا۔دوسرا شادی شدہ مرد ھے جسے سنگسار کیا جائے گا ۔ تیسرا جوان آزاد ھے اور غیر شادی شدہ ھے، اسے سو کوڑے لگائے جائیںگے ۔ چوتھا غیر شادی شدہ غلام ھے ،اسے آزادکی آدھی سزا یعنی پچاس کوڑے لگائے جائیں گے، اور پانچواںشخص دیوانہ ھے، اسے چھوڑ دیا جائے گا۔
4۔حضرت ابوبکر کے زمانہ میں ایک مسلمان نے شراب پی لی تھی لیکن اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ایسے لوگوں میں زندگی بسر کرتا رھا ھے جو سب کے سب شراب پیتے تھے اور وہ نھیں جانتا تھا کہ اسلام میں شراب پینا حرام ھے ۔ خلیفہ اور ان کے وزیر حضرت عمر نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور اس مشکل کو حل کرنے میں ناکام رھے آخرکار مجبور ھوکر انھوںنے حضرت علی علیہ السلام سے رجوع کیا۔ آپ(ۡع)نے فرمایا: اس شخص کو مھاجرین و انصار کے مجمع میں پھراوٴاگر ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی یہ کھہ دیا کہ اس نے تحریم شراب کی آیت اسے سنائی ھے تو اس پر حجت تمام ھے اور اس پر حد جاری ھوگی ورنہ اسے معذور سمجہ کر چھوڑ دیا جائے گا۔
5۔ایک شادی شدہ عورت کو زنا کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور اسے سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔امام علی علیہ السلام نے فرمایا:اس عورت سے مزید تحقیق کی جائے،شاید اس کے پاس اس جرم کا کوئی عذر موجود ھو۔عورت کو دوبارہ عدالت میںپیش کیا گیا۔اس نے اس جرم کے ارتکاب کی وجہ یوں بیان کی کہ میں اپنے شوھر کے اونٹوں کو چرا نے صحرا لے گئی تھی ۔ اس بیابان میں مجہ پر پیاس کا غلبہ ھوا میں نے وھاں موجود شخص سے بھت منت سماجت کی اور اس سے پانی مانگا لیکن وہ ھر بار یہ کھتا تھا کہ تم میرے آگے تسلیم ھوجاوٴتو میں تمھیں پانی دوںگا۔جب میں نے محسوس کیا کہ پیاس سے مرجاوٴںگی تو میں مجبوراًاس کی شیطانی ھوس کے آگے تسلیم ھوگئی۔
اس وقت حضرت علی ںنے تکبیر بلند کی اور فرمایا:”اللہ اکبر فمن الضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ “یعنی اگر کوئی اضطرار اور مجبوری کی حالت میں کوئی غلط کام کرے تو اس پر کوئی گناہ نھیں ھے۔
اس طرح کے واقعات خلفاء کی تاریخ میں اس قدر زیادہ ھیں کہ ان پر ایک مستقل کتاب لکھی جاسکتی ھے ۔ ان تمام حوادث کا حکم بیان کرنے کا ذمہ دار کون ھے ۔اس طرح کے حوادث
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نھیںآئے تھے کہ امت ان کاحکم مرکز وحی یعنی خود آنحضرت سے حاصل کرلیتی۔ پھر آنحضرت کی رحلت کے بعد اس قسم کے احکام بیان کرنے والا اور الٰھی احکام کا محافظ و خزانہ دار کسے ھونا چاھئے ۔کیا یہ کھنا درست ھوگا کہ خداوند عالم نے ایسے حالات میں امت کو خود اس کے حال پر چھوڑ دیا ھے اور اپنے معنوی فیضان کو امت سے دورکرلیا ھے ۔چاھے امت کی نادانی و جھالت کی وجہ سے لوگوں کی ناموس خطرے میں پڑجائے اور احکام حق کی جگہ باطل احکام لے لیں۔(2)
____________________
(1)۔ حضرت امیر المومنین علی اس قسم کی آیات کے بارے میں فرماتے ھیں :”کتاب اللہ تبصرون بہ ،وتسمعون بہ و ینطق بعضہ ببعض و یشھد بعضہ علی بعض“
(2) اصول کافی ،ج/1ص/170
پیغمبر امامت کو الٰھی منصب سمجھتے ھیں
اس میں کوئی کلام نھیں ھے کہ امت کی رھبری کا مسئلہ مسلمان معاشرہ کے لئے اساسی اور حیاتی حیثیت رکھتا ھے۔چنانچہ اسی مسئلہ پر اختلاف پیدا ھوا اور اس نے امت کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان گھرا اختلاف پیدا کردیا ۔
اب یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے تمام چیزوں کے بارے میں واجب، مستحب ،حرام و مکروہ سے متعلق تو ساری باتیں بیان فرمائیں لیکن امت کی قیادت و رھبری اور حاکم کے خصوصیات سے متعلق کوئی بات کیوں بیان نھیں کی؟ کیا انسان یہ سوچ سکتا ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اتنے اھم موضوع پر کوئی توجہ نہ دی ھوگی بلکہ خاموشی اختیار کی ھوگی اور امت کو بیدار نہ کیا ھوگا؟!
علمائے اھل سنت فرماتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے قیادت وامامت کے طریقہ کے سلسلہ میں نفیاًو اثباتاً کوئی بات نھیں بیان کی اور یہ واضح نھیں کیا کہ قیادت و رھبری کا مسئلہ انتخابی ھے یا تعیینی ھے۔
سچ مچ کیا عقل باور کرتی ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اس انتھائی اھم اور حیاتی مسئلہ پر خاموشی اختیار کی ھوگی اور قضیہ کے ان دونوں پھلوں سے متعلق کوئی اشارہ نہ کیا ھوگا؟
عقل کے فیصلہ سے آگے بڑہ کر تاریخ اسلام کا جائزہ بھی اس نظریہ کے خلاف گواھی دیتا ھے ۔اور یہ بات صاف ظاھر ھوتی ھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مختلف موقعوں پر یہ یاد دھانی کی ھے کہ میرے بعد امت کی قیادت و رھبری کا مسئلہ خدا سے مربوط ھے اور وہ اس سلسلہ میں کوئی اختیار نھیں رکھتے ۔یھاں ھم تاریخ اسلام سے چند نمونے پیش کرتے ھیں :
جب مشرکوں کے ایک قبیلہ کے سردار ”اخنس“ نے اس شرط پر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حمایت کا اظھارکیا کہ اپنے کے بعد امت کی قیادت و سرپرستی آپ ھمارے حوالے کر جائیں گے تو پیغمبر اسلام نے اسے جواب دیا کھ” الا مر الیٰ اللہ یضعہ حیث یشاء “یعنی امت کی قیادت کا مسئلہ خدا سے مربوط ھے وہ جسے بھتر سمجھے اس امر کے لئے منتخب کرے گا ۔قبیلہ کا سردار یہ بات سن کر مایوس ھو گیا اور اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جواب میں کھلایا کہ یہ بات بالکل درست نھیں ھے کہ رنج و زحمت میں اٹھاؤں اور قیادت و رھبری کسی اور کو ملے!
تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بھی ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ”یمامھ“ کے حاکم کو خط لکہ کر اسے اسلام کی دعوت دی اس نے بھی ”اخنس “ کے مانند آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے آپ کی جانشینی کا تقاضا کیا تو آنحضرت نے اسے انکار میں جواب دیتے ھوئے فرمایا:”لا ولاکرامة“ یعنی یہ کام عزت نفس اور روح کی بلندی سے بعید ھے۔
امت کی قیادت و رھبری کا مسئلہ اتنا اھم ھے کہ اس کی اھمیت کو صرف ھم ھی نے محسوس نھیں کیا ھے بلکہ صدر اسلام میں بھی یہ مسئلہ بھت سے لوگوں کی نظر میں بڑی اھمیت رکھتا تھا ۔ مثلا جس وقت خلیفہ دوم ،ابو لوٴ لوٴ کی ضرب سے زخمی ھوئے اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے اپنے باپ کو مرتے ھوئے دیکھا تو اپنے باپ سے کھا جتنی جلدی ھو سکے اپنا ایک جانشین معین کیجئے اور امت محمدی کو بے حاکم وبے سر پرست نہ چھوڑئے ۔
بالکل یھی پیغام ام الموٴمنین عائشہ نے بھی خلیفہ دوم کو کھلایا اور ان سے درخواست کی کہ امت محمدی کے لئے ایک محافظ و نگھبان معین کر جائیں۔اب کیا یہ کھنا صحیح ھوگا کہ ان دو شخصیتوں نے امت کی قیادت و رھبری کے مسئلہ کی اھمیت کو تو اچھی طرح محسوس کر لیا تھا لیکن رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان دو افراد کے بقدر بھی اس مسئلہ کی اھمیت کو سمجہ نھیں پائے تھے ؟!
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مدینہ کی دس سالہ زندگی کا ایک ھلکا سا جائزہ لینے کے ساتھ ھی یہ بات پوری طرح ثابت ھو جاتی ھے کہ آنحضرت جب بھی کھیں جانے کے لئے مدینہ سے نکلتے تھے کسی نہ کسی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کر جاتے تھے ،تاکہ اس مختصر سی مدت میں بھی جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مدینہ میں تشریف نھیں رکھتے لوگ بے سر پرست اور بے پناہ نہ رھیں ۔ کیا یہ بھتر ھے کہ جو جانشین معین کرنے کی اھمیت سے آگاہ ھو اور یہ جانتا ھو کہ حتّٰی مختصر مدت کے لئے بھی جانشین معین کئے بغیر مدینہ کو ترک نھیں کرنا چاھئے ۔وہ دنیا کو ترک کرے اور اپنا کوئی جانشین معین نہ کرے یا کم از کم قیادت و رھبری کی شکل ونوعیت اور حاکمیت کے طریقہ ٴ کار کے بارے میںکچہ نہ کھے ؟!
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب کسی علاقہ کو فتح بھی کرتے تھے تو اسے ترک کرنے سے پھلے وھاں ایک حاکم معین فرماتے تھے پھر ان حالات میں یہ کیسے کھا جاسکتا ھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنا جانشین معین کرنے میں غفلت سے کام لیا ھوگا اور اس کے لئے میں کوئی فکر نہ کی ھوگی ،جو ان کے بعد امت کی قیادت و رھبری اپنے ھاتھ میں لے سکے اور اسلام کے نو پا درخت کی نگھبانی و سرپرستی کر سکے؟!
نبوت و امامت باھم ھیں
متواتراحادیث اور اسلام کی قطعی تاریخ صاف گواھی دیتی ھیں کہ نبوت اور امامت دونوں کا اعلان ایک ھی دن ھوا اور جس روز پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خدا کی طرف سے اپنے خاندان والوں کے درمیان اپنی رسالت کا اعلان کرنے پر مامور ھوئے تھے اسی روز آپ نے اپنا خلیفہ و جانشین بھی معین فرمادیاتھا۔
اسلام کے گرانقدر مفسرین و محدثین لکھتے ھیں کہ جب آیت”و انذر عشیرتک الاقربین“ (شعراء /214) نازل ھوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو خاندان والوں کے لئے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا جنھیں آنحضرت نے مھمان بلایا تھا۔حضرت علی علیہ السلام نے بھی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے کھانا تیار کیا اور بنی ھاشم کی پینتالیس شخصیتیں اس مجلس میں اکٹھا ھوئیں۔پھلے روز ابو لھب کی بیھودہ باتوں کی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کا پیغام سنانے میں کامیاب نھیں ھوئے۔دوسرے روز پھر یہ دعوت کی گئی اور مھمانوں کے کھانا کھالینے کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی جگہ کھڑے ھوئے اور خداوند عالم کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا:
میں تم لوگوں اور دنیا کے تمام انسانوں کے لئے خدا کا پیغامبر ھوں اور تم لوگوں کے لئے دنیا وآخرت کی بھلائی لایا ھوں۔خدانے مجھے حکم دیا ھے کہ میں تم لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دوں تم میں سے جو شخص اس کام میں میری ا مدد کرے گا وہ میرا وصی اور جانشین ھوگا۔
اس وقت حضرت علی بن ابیطالب ںکے علاوہ کسی نے بھی اٹہ کر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی نصرت و مدد کا اعلان نھیں کیا۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو بیٹہ جانے کا حکم دیا اور دوبارہ اور تیسری بار بھی اپنا جملہ دھرایا اور ھر بار حضرت علی ںکے علاوہ کسی نے آپ کی حمایت اور اس راہ میں آپ کی نصرت و فدا کاری کا اظھار نھیں کیا۔اس وقت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنے خاندان والوں کی طرف رخ کرکے فرمایا: ”ان ھذااٴخی و وصی و خلیفتی فیکم فاسمعوا و اطیعوا“ یعنی علی(ۡع)میرا بھائی اور تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ھے،پس تم پر لازم ھے کہ اس کا فرمان سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ (1)
تاریخ کا یہ واقعہ اس قدر مسلّم ھے کہ ابن تیمیہ جس کا خاندان اھل بیت(ۡع)سے عناد سب پر ظاھر ھے ،کے علاوہ کسی نے بھی اس کی صحت سے انکار نھیں کیا ھے۔یہ حدیث حضرت علی ںکی امامت کی دلیل ھونے کے علاوہ اس بات کی سب سے اھم گواہ ھے کہ امامت کا مسئلہ امت کے اختیار میں نھیں ھے۔اس سے یہ بھی ظاھر ھوتا ھے کہ جانشین کا اعلان اس قدر اھم تھا کہ نبوت و امامت دونوں منصبوں کے مالک افراد کا اعلان ایک ھی دن پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے خاندان والوں کے سامنے کیا گیا ۔
یہ واقعہ تین بعثت کو پیش آیا اور اس وقت تک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی دعوت مخصوص افراد کے ذریعہ لوگوں تک پھنچائی جاتی تھی اور تقریباً 50پچاس افراد اس وقت تک مسلمان ھوئے تھے۔
__________________
(1) اصول کافی ،ج/1ص/172
اسلامی قوانین اور کتاب خدامعصوم کی تفسیر سے بے نیاز نھیں
اسلامی قوانین چاھے جتنے بھی روشن و واضح ھوں پھر بھی ان کی توضیح و تفسیر ضروری ھے بالکل یوں ھی جیسے آج ملکوں کے قوانین چاھے جس قدر روز مرہ کی زبان میں تنظیم کئے جائیں پھر بھی ان کی وضاحت کے لئے زبر دست قسم کے ماھروں کی ضرورت ھوتی ھے جو ان کے اھم پھلوؤں کو واضح کر سکیں ۔ اور اسلامی قوانین بھی حتیٰ وہ بھی جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی زبان سے نقل ھوئے ھیں توضیح و تفسیر سے مستثنٰی اور بے نیاز نھیں ھیں ۔اس کے گواہ مسلمانوں کے درمیان وہ سیکڑوں اختلافات ھیں جو قرآنی آیات اور اسلامی احادیث کے سلسلہ میں نظر آتے ھیں۔
کیا اسلام کے ابدی و جاودانی قوانین کو ایسے کسی پیشوا کی ضرورت نھیںھے جوپیغمبر اکرم کے علوم کا وارث ھو اور اختلاف کے موارد میں سب کے لئے حجت ھو ؟اور کیا اختلافات دور کرنے فاصلوں کو کم کرنے اور اسلامی اتحاد بر قرار کرنے کے لئے ایسے جانشین کا تعین لازم و ضروری نھیں تھا؟
حضرت عمر کی خلافت کے دوران ایک شخص نے اسلامی عدالت میں شکایت کی کہ میری بیوی کے یھاں چہ ھی مھینہ میں بچہ پیدا ھو گیا ھے ۔ قاضی نے حکم دے دیا کہ لے جاؤ اس عورت کو سنگسار کر دو ۔راستہ میں اس عورت کی نگاہ حضرت علی علیہ السلام پر پڑی اس نے چیخ کر کھا :اے ابو الحسن میری فریاد کو پھنچئے ۔ میں ایک پاک دامن عورت ھوں اور میں نے اپنے شوھر کے علاوہ کسی سے قربت نھیں کی ھے ۔ حضرت علی علیہ السلام جب واقعہ سے آگاہ ھوئے تو انھیں یہ سمجھنے میں دیر نھیں لگی کہ قاضی نے فیصلہ کرنے میں غلطی کی ھے ۔ آپ(ۡع) نے ماموروں سے مسجد واپس چلنے کو کھا اور مسجد میں جا کر خلیفہ سے پوچھا کہ تم نے یہ کیسا فیصلہ کیا ھے ؟خلیفہ نے کھا کہ شوھر سے اس عورت کی قربت کو صرف چہ ماہ گزرے ھیں ۔ کیا کھیں چہ مھینے میں بچہ پیدا ھوتا ھے ؟ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نھیں پڑھا جس میں آیا ھے ” وحملہ و فصالہ ثلاثون شھرا“یعنی اس کا حمل اور دودہ پلانے کا زمانہ تیس ماہ ھے۔خلیفہ نے جواب دیا درست ھے ۔ پھر حضرت علی ںنے فرمایا: کیا قرآن نے دودہ پلانے کا زمانہ دو سال نھیں معین کیا ھے کہ ارشاد ھوتا ھے: ” والولدات یرضعن اولادھن حولین کاملین“یعنی مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودہ پلائیں ۔خلیفہ نے جواب دیا :سچ فرمایا: اس پر حضرت علی ںنے فرمایا : کہ اگر دودہ پلانے کے چوبیس مھینوں کو تیس مھینوں سے کم کرو توچہ ھی ماہ باقی رھتے ھیں ۔ اس سے معلوم ھوتا ھے کہ حاملگی کی کم سے کم مدت چہ ماہ ھے اور عورت اس مدت میں سالم بچہ پیدا کر سکتی ھے۔
حضرت امیر الموٴمنین علی ںنے دو آیتوں کو باھم ضمیمہ کرکے ایسا قرآنی حکم استنباط کیا جس سے اصحاب واقف نھیں تھے اب کیا یہ کھا جا سکتا ھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس الٰھی کتاب قرآن مجید کی وضاحت کے لئے جو ایک جاوید رھنما اور ابدی قانون کی حیثیت رکھتی ھے اپنے بعد کوئی اقدام نھیں فرمایا ھے؟
ممکن ھے یہ کھا جائے کہ ایسے نادر مسئلہ میں اختلاف سے جو انسانی زندگی میں بھت کم پیش آتا ھے پورے اسلامی معاشرہ کے اتحاد کو خطرہ لاحق نھیں ھو سکتا ،تو اس کے جواب میں یہ کھا جائے گا کہ اختلاف اس طرح کے نادر مسائل سے مخصوص نھیں ھے بلکہ یہ اختلاف مسلمانوں کے روز مرہ اور بنیادی فرائض و وظائف سے بھی تعلق رکھتا ھے اور ظاھر ھے کہ ھر روز کے مسائل میں مسلمانوں کے اختلاف و تفرقہ سے آنکھیں بند نھیں کی جا سکتیں اور یہ تصور نھیں کیا جا سکتا کہ اتنے سارے مسائل میں اختلافات سے مسلمانوں کے اتحاد و یکجھتی پر کوئی ضرب نھیں پڑتی ھے۔
قرآن مجید نے اپنے سورہ مائدہ آیت /6 میں وضو کرنے کی کیفیت مسلمانوں سے بیان کی ھے اور صدر اسلام میں مسلمان ھر روز اپنی آنکھوں سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو وضو کرتے ھوئے دیکھتے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قرآن مجید دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلا اور علماء کے اوپر قرآنی آیات میں اجتھاد و تفکر کا دروازہ کھلا اور فقھی احکام سے متعلق آیات پر رفتھ رفتھ بحث و تحقیق ھوئی لیکن سر انجام کیفیت وضو سے متعلق آیت کو سمجھنے میں اختلاف پیدا ھوگیا اور آج یہ اختلاف باقی اور رائج ھے کیوں کہ شیعہ علماء اپنے ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ھیں اور پیروں کا مسح کرتے ھیں لیکن علمائے اھل سنت ان کے بالکل بر خلاف عمل کرتے ھیں۔
اگر امت کے درمیان ایک ایسا معصوم اور تمام اصول و فروع سے آگاہ رھبر موجود ھو کہ سب کے سب اس کی بات تسلیم اور اس کی پیروی کرتے ھوں تو ھر گز ایسا اختلاف جو مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دے پیش نھیں آئے گا اور پورا اسلامی معاشرہ اپنے روز مرہ کے فرائض کی انجام دھی میں یک رنگ و یک شکل ھوگا۔
قرآن کی تفسیر میں اختلاف
اسلام کے جزا و سزا کے قوانین میں ایک چور کے ھاتھ کاٹنے کا قانون ھے جو اپنے شرائط و خصوصیات کے ساتھ فقھی کتابوں میں درج ھے ابھی ابھی دو تین صدی پھلے تک جبکہ اسلام ایک طاقت کی شکل میں حاکم تھا اسلامی حکومتیں اپنے قوانین قرآن سے حاصل کرتی تھیں اور جبکہ مغربی قوانین ابھی اسلامی سرزمینوں تک نھیں پھنچے تھے چور کی تنھا سزا اس کاھاتھ کاٹنا تھی ۔لیکن افسوس کہ یہ ایک چھوٹا سا اور تقریبا روز مرہ کا مورد بھی ان موارد میں سے ھے کہ اسلام کی چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی حد معین کرنے کے سلسلہ میں ایک نقطہ پر متحد نھیں ھو سکے
معتصم عباسی کے زمانہ میں جبکہ ھجرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دو سو سال سے زیادہ گزر چکے تھے ،علماء نے اسلام کے درمیان ھاتھ کاٹنے سے متعلق آیت کی تفسیرمیں اختلاف پیدا ھوگیا ۔وہ لوگ یہ طے نھیں کر پارھے تھے کہ چور کا ھاتھ کھاں سے کاٹنا چاھئے ۔ایک کھتا تھا :ھاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا۔ دوسرا کھتا تھا : ھاتھ کھنی سے کاٹا جائے گا ۔تیسرا کھتا تھا : ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ آخر کار خلیفہ ٴ وقت نے شیعوں کے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے بھی دریافت کیا۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: چور کے ھاتھ کی صرف چار انگلیاں کاٹی جائیں گی ۔ جب آپ(ع) سے پوچھا گیا کہ اس کی دلیل کیا ھے تو آپ(ۡع)نے فرمایاکہ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ھے:” و ان المساجد اللہ “ سجدہ کی جگھیں خدا کے لئے ھیں اور اس سے متعلق ھیں ۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: ان میں سے ایک ھتھیلی بھی ھے جسے سجدہ کے وقت زمین پر ٹکانا ضروری ھے اور جو چیز خدا سے متعلق ھو اسے کاٹا نھیں جا سکتا ۔
اگر امت کے درمیان ایک ایسا قرآن شناس موجود ھو جو قرآن کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاھی رکھتا ھو اور فکری اعتبار سے مسلمانوں کا ملجاو مرکز قرار پائے اور تمام مسلمان اس کی طرف رجوع کریں تو ظاھر ھے کہ بھت سے اختلافات آسانی سے دور ھو جائیں گے اور امت ایک ھی سمت میں ایک ھی مقصد کے ساتھ قدم بڑھائے گی۔نہ مسلمانوں کاقیمتی وقت ضائع ھوگا اور نہ ان میں خطرناک اور خونریزاختلاف ٹکراؤ پایاجائے گا۔
قرآن مجید ھر طرح کے استنباط اور صحیح اسلام کو سمجھنے کے لئے اساسی و بنیادی ماخذ ھے اور کوئی چیز اس عظیم کتاب کی برابری نھیں کر سکتی ۔اگر دوسرے ماٴخذ میں باھم اختلاف نظر آئے مثلا اگر پیغمبر اکرم کی دو حدیثیں باھم ٹکراو ٴرکھتی ھوں تو ھم اس حدیث کو اپنائیں گے جو قرآن کے مطابق ھوگی۔
لیکن کیا دلالت اور بیان کے اعتبار سے قرآن کی تمام آئتیں ایک جیسی ھیں اور کیا قرآن میں سرے سے کوئی ایسی آیت ھے ھی نھیں جس کے لئے کسی معصوم مفسر کی ضرورت ھو ؟ یہ دعویٰ وھی کر سکتا ھے جو قرآن سے زیادہ لگاؤ نھیں رکھتا اور اس کی روح و فکر قرآن سے ھم آھنگ نھیں ھے ۔صحیح ھے کہ قرآن کی بھت سی آیتیں دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح ھیں اور اس کی محکم آیات میں شمار ھوتی ھیںاور وہ قرآنی آیات بھی جومبھم ھیں دوسری آیتوں کے ذریعہ روشن و واضح ھو جاتی ھیں ۔ اس کے باوجود قرآن میں ایسی آیتیں موجود ھیں جو یا نزول کے وقت سے ھی مبھم ھیں یا زمانہٴ وحی سے دوری کی وجہ سے مبھم ھوگئی ھیں۔ اس قسم کی آیات چاھے ان کی تعداد کم ھی کیوں نہ ھو کیسے حل کی جا سکتی ھیں؟
کیا امت کے درمیان کوئی ایسی مرکز ی شخصیت موجود نھیں ھونی چاھئے جو اس قسم کی آیات کا ابھام دور کرکے ان کی صحیح تفسیر کر سکے جن میں سے بعض کے نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ھیں؟
حضرت علی علیہ السلام نے جب ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کے لئے روانہ کیا تو انھیں یہ حکم دیا تھا کہ :”لاتخا صمھم بالقرآن فان القرآن حمال ذو وجوہ تقول و یقولون“ یعنی ان سے ھرگز قرآن سے بحث و مباحثہ نہ کرنا ،کیوں کہ قرآن کی آیاتیں کئی احتمالات اور کئی معانی رکھتی ھیں ۔تم ان سے بعض آیات سے استدلال کروگے اور وہ تمھیں بعض دوسری آیات سے جواب دیں گے۔
یہ مسلم ھے کہ امام کی یہ گفتگو قرآن کی تمام آیات سے متعلق نھیں تھی بلکہ آپ کی گفتگو ان آیات سے متعلق تھی جو دو پھلووالی ھیں ،بظاھرروشن و واضح نھیں ھیں اور ان کا مفھوم و مفاد قطعی نھیں ھے۔
اس اعتبار سے امت کے درمیان ایک امام معصوم کا وجود جو اسلام کے اصول و فروع سے پوری طرح آگاہ ھو ،قرآن کریم کے علوم پر کامل تسلط رکھتا ھو اور امت کے درمیان ایک علمی و فکری پناھگاہ ھو۔ اختلافات دور کرے اور اس کی بات فیصلہ کن ھو، لازم و ضروری ھے ورنہ دوسری صورت میں اختلافات بڑھتے جائیں گے بلکہ بعض احکام اور قرآنی آیات کی تفسیرغلط کی جائے گی جو مسلمانوں کے قرآنی حقائق سے دور ھو جانے کا باعث ھوگی۔
ھشام ابن حکم
ھشام ،امام جعفر صادقںکے زبردست شاگرد اور دوسری صدی ھجری میں علم مناظرہ اور علم کلام کے استاد تھے انھوں نے امت کے درمیان اختلاف دور کرنے اور صحیح فیصلہ کے لئے امام کے وجود کی ضرورت پر روشنی ڈالی ھے کہ آپ نے ایک روز فرقہ معتزلہ کے سردار اور بصرہ کے پیشوا عمر وبن عبید سے امت کے درمیان امام معصوم کے وجود کی ضرورت پر بحث کی شروع اور اس سے درخواست کی کہ میرے سوالوں کے جواب دو ۔ عمر و بن عبید نے بھی قبول کیا۔ ھشام نے پوچھا:
تمھارے آنکھ ھے ؟
ھاں
اس سے کیا کام لیتے ھو ؟
اس سے لوگوں اور چیزوں کو دیکھتاھوں اور رنگوں کی تشخیص دیتا ھوں۔
تمھارے کان ھے؟
ھاں؟
اس سے کیا کام لیتے ھو؟
اس سے آواز سنتا ھوں ۔
تمھارے ناک ھے ؟
ھاں۔
اس سے کیا کام لیتے ھو؟
اس سے بو سونگھتا ھوں۔
اس کے بعد ھشام نے دوسرے حواس یعنی قوت ذائقہ و لامسہ اور بدن کے دوسرے اعضاء مثلا انسان کے جسم میں ھاتھ اور پاؤں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا اور عمر وبن عبید نے ان سب کا صحیح جواب دیا۔ پھر ھشام نے پوچھا : تمھارے دل ھے ؟ ھاں ۔انسان کے بدن میں اس کا کیا کام ھے ؟ عمرو نے جواب دیا کہ جو کچہ بدن کے تمام اعضاء و جوارح انجام دیتے ھیں قلب کے ذریعہ انھیں تشخیص دیتا ھوں ۔ اور جب بھی انسانی حواس میں سے کوئی خطا کرتا ھے یا بدن کا کوئی حصہ شک میں مبتلا ھوتا ھے تو قلب و دل کی طرف رجوع کرتا ھے اور اپنے شک کو دور کردیتا ھے۔
اس وقت ھشام نے اس بحث سے نتیجہ حاصل کرتے ھوئے کھا کہ جس خدا نے جسم کے حواس اور اعضا ء کی شک و تردید دور کرنے کے لئے بدن میں ایک ایسی پناھگاہ اور مرکزی چیز پیدا کی ھے کیا یہ ممکن ھے کہ انسانی معاشرہ کو یوں ھی اس کے حال پر جھوڑ دے اور اس کے لئے کوئی پیشوا و رھبر معین نہ کرے کہ انسانی معاشرہ اپنے شک ،حیرانی اور خطا کو اس کے ذریعہ دور کرے اور صحیح راہ اختیار کر سکے !
امام جعفر صادق(ع)،جانشین پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کو یوں بیان فرماتے ھیں: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ایسے امام کا وجود لازم و ضروری ھے جو الٰھی احکام کو ھر طرح کی گزند اور کمی و زیادتی سے محفوظ رکھے اور ان کی حفاظت کرے ۔ ھشام ابن حکم نے ایک روز حضرت امام جعفر صادق ںکی موجودگی میں شام کے ایک عالم سے مناظرہ کیا اور اس تفصیلی مناظرہ کے دوران اس سے پوچھا کہ کیا خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان ھر طرح کے اختلافات دور کرنے کے لئے کوئی دلیل و حجت ان کے حوالے کی ھے ؟ اس نے کھا: ھاں اور وہ دلیل و حجت قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت یعنی ان کی احادیث ھیں ۔ ھشام نے پوچھا : کیا قرآن و احادیث اختلافات دور کرنے کے لئے کافی ھیں ۔اس نے جواب دیا ھاں ۔تو ھشام نے کھا اگر کافی ھیں تو پھر ھم دونوں جو ایک مذھب رکھتے ھیں اور ایک ھی درخت کی شاخیں ھیں آپس میں اختلاف کیوں رکھتے ھیں؟ اور ھم میں سے ھر ایک نے ایسی راہ کیوں اختیار کر رکھی ھے جو دوسرے کے خلاف ھے ؟! اس پر اس شامی عالم کو خاموشی اختیار کرنے اور حقانیت کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ (1)
_____________________
(1) اصول کافی ،ج/1ص/17۸
خطرناک مثلث اسلام کے تین دشمن
جس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے دنیا سے رحلت فرمائی تو اسلام کے اس نوجوان وجود کو باھر اور اندر سے تین طرح کے دشمن گھیر ے ھوئے تھے اور ھر لمحہ اس کو خطرہ تھا کہ یہ تینوں طاقتیں باھم ایک ھو کرایک مثلث بنائیں اور اسلام پر حملہ آور ھوں ۔
پھلا دشمن :
داخلی دشمن یعنی مدینہ اور اس کے آس پاس کے منافقین تھے جنھوں نے کئی بار پیغمبر اکرم کی جان لینے کی کوشش کی تھیں اور جنگ تبوک سے واپسی کے وقت ایک خاص منصوبہ کے تحت جو پورے طورسے تاریخ میںذکرھوھے،پیغمبرکرم کے اونٹ کو بھڑکاکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان لینا چاھتے تھے۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان لوگوں کی سازش سے آگاہ ھو کر وہ تدبیر اپنائی کہ ان کا منصوبہ نا کام ھو گیا ۔ ساتھ ھی اسلام کی عمومی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے آنحضرت نے اپنی زندگی میں ھی ان کے نام بعض خاص افراد مثلا ”حذیفہ یمانی“ کو بتا دیئے تھے۔
اسلام کے یہ دشمن جو بظاھر مسلمانوں کے لباس میں چھپے ھوئے تھے،آنحضرت کی موت کا انتظار کر رھے تھے اور در حقیقت اس آیت کو اپنے دل میں دھرا رھے تھے جسے قرآن پیغمبرکی حیات میں کافروں کی زبانی نقل کرتاھے:”انما نتربص بہ ریب المنون“ (1) یعنی ھم اس کی موت کا انتظار کر رھے ھیں کہ وہ فوت ھوجائے اور اس کی شھرت ختم ھوجائے۔
یہ لوگ یہ سوچ رھے تھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے ساتھ ھی اسلام کی رونق ختم ھوجائے گی،اس کا پھیلاوٴ رک جائے گا۔ کچہ لوگ یہ بھی سوچتے تھے کہ اسلام آنحضرت کے بعد کمزور پڑجائے گا اور وہ دوبارہ زمانہ ٴجاھلیت کے عقائد کی طرف پلٹ جائےں گے۔
آنحضرت کی رحلت کے بعد ”ابوسفیان “ نے چاھا کہ قریش اور بنی ھاشم کے درمیان اختلاف پیدا کردے اور جنگ بھڑکاکر اسلامی اتحاد کے اوپر کاری ضرب لگائے اس مقصد کے پیش نظر وہ بڑے ھمدردانہ انداز میں حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں داخل ھوا اور ان سے بولا :اپنا ھاتھ بڑھایئے کہ میں آپ کی بیعت کروں تاکہ تمیم اور عدی قبیلوںکے لوگ آپ کی مخالفت کی جراٴت نہ کریں․ امام نے پوری ھوشیاری کے ساتھ صف اسلام میںاختلاف پیدا کرنے اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے کی اس کی شازش کو سمجہ لیا لھٰذا فورا ًٹکا سا جواب دیا اور خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تجھیز و تکفین میں مشغول ھو گئے۔ (2)
مسجد ضرار جو نویں ھجری میں بنائی گئی تھی اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے عمار یاسر کے ھاتھوں منھدم کی گئی تھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیات کے آخر ی دنوں میں منافقوں کی خفیہ سازشوں کا ایک نمونہ تھی اور دشمن خدا (ابن عامر) سے ان کے تعلقات کو ظاھر کرتی تھی ابن عامر وہ شخص ھے جو فتح مکہ کے بعد روم بھاگ گیا اور وھاں سے اپنے گروہ کی ھدایت و رھنمائی کیا کرتا تھا۔ ھجرت کے نویں سال جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جنگ تبوک پر جانے کے لئے مدینہ سے نکلے تو داخلی سطح پر منافقوں کے ممکنہ فساد و سازش کے خطرہ سے بھت زیادہ پریشان تھے ۔اسی لئے آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور آپ کے لئے وہ تاریخی جملہ فرمایا تھا ” انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ “ (3) یعنی اے علی(ۡع)تم کو مجہ سے وھی نسبت ھے جو ھارون کو موسیٰ(ۡع)سے تھی۔اس کے بعد آپ نے ان سے تاکید کی کہ داخلی سطح پر مدینہ میں سکون و آرام برقرار رکھنے اور فتنہ و فسد کی روک تھام کے لئے مدینہ میں ھی رھو ۔
منافقوں اور ان کی خطرناک سازشوں سے متعلق بھت سی آیتیں قرآن کریم کے مختلف سوروں میں موجود ھیں اور سب کی سب اسلام سے ان کی دیرینہ عداوت کو بیان کرتی ھیں ۔ اور ابھی یہ فسادی مدینہ میں موجود ھی تھے کہ آنحضرت نے دنیا سے رحلت فرمائی۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قبائل عرب میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو آپ کے بعد کفر و شرک کی طرف پلٹ گئے اور ماموران زکوٰة کو باھر نکال کر انھوں نے اسلام کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا ۔یہ لوگ اگرچہ منافق نھیں تھے ،لیکن ایمان کے اعتبار سے اتنے کمزور تھے جو پت جھڑ کے پتوں کی طرح ھر رخ کی ھوا پر ادھرادھر ھی اڑنے لگتے تھے ۔اگر انھیں کفر و شرک کا ماحول مناسب لگتا تو اسلام کو چھوڑ کر کفر کی راہ اختیار کر لیتے تھے۔
ایسے خونخوار دشمنوں کے ھوتے ھوئے جو اسلام کی کمین میں بیٹھے تھے اور اسلام کے خلاف سازش و شورش میں مشغول تھے کیا یہ ممکن تھا کہ ایسے عاقل ،سمجھدار اور دور اندیش پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان ناگوار حوادث کی روک تھام کے لئے اپنا کوئی جانشین مقرر نہ کریں اور امت واسلام کو دشمنوں کے درمیان اس طرح حیران و سر گردان چھوڑ جائیں کہ ھر گروہ یہ کھتا نظر آئے کہ ”منا امیر منا امیر“ یعنی یہ کھے کہ امیر ھم میں سے ھونا چاھئے اور وہ کھے کہ امیر ھم میں سے ھونا چاھئے ؟!
باقی دو دشمن
اس مثلث کے بقیہ دو دشمن اس وقت کی ایران و روم کی دو بڑی طاقتیں تھیں ۔ روم کی فوج سے اسلام کی پھلی جنگ ھجرت کے آٹھویں سال فلسطین میں ھوئی جو لشکر اسلام کے بڑے بڑے سردار وں ”جعفر طیار“ ، ”زید بن حارث“اور ”عبداللہ بن رواحہ “ کے قتل اور لشکر اسلام کی انتھائی سخت شکست پر تمام ھوئی اور لشکر اسلام خالد بن ولید کی سرداری میں مدینہ واپس آیا ۔کفر کی فوج سے لشکر اسلام کی اتنی سخت شکست سے قیصر روم کے حوصلے بلند تھے اور ھر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ کھیں وہ لوگ مرکز اسلام پر حملہ نہ کریںاسی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ھجرت کے نویں سال ایک بڑا لشکر جس کی تعداد تیس ھزار تھی لیکر شام کی طرف روانہ ھوئے تاکہ فوجی مشق کے علاوہ دشمن کے ممکنہ حملہ کو روک سکیں اور راہ کے بعض قبائل سے تعاون یا غیر جانبداری کا عھد و پیمان لے سکیں ۔ اس سفر میں جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو مسلسل رنج و زحمت اٹھانا پڑی آپ رومیوں سے لڑے بغیر مدینہ واپس آگئے۔
اس کامیابی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو مطمئن نھیں کیا آپ لشکر اسلام کی شکست کے جبران کی کوشش میں لگے رھے ۔اس کے لئے آپ نے اپنی بیماری سے چند روز پھلے ”اسامہ بن زید “ کو لشکر اسلام کا علم دے کر اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اسامہ کی سرداری میں شام کی طرف روانہ ھوں اور اس سے پھلے کہ دشمن ان پر حملہ کرے وہ جنگ کے لئے تیار رھیں۔
یہ تمام واقعات اس بات کی حکایت کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)شمال یعنی روم کی طرف سے بھت نگراں تھے اور کھا کرتے تھے کہ ممکن ھے قیصر روم کی طرف سے اسلام کو سخت حملہ کا سامنا کرنا پڑے ۔
تیسرا دشمن ایران کی ساسانی شھنشاھی تھی ۔یھاں تک کہ خسرو پرویز نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا خط پھاڑ ڈالا تھا ،سفیر کو قتل کر دیا تھا اور یمن کے گونر کو لکھا تھا کہ (معاذ اللہ ) پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو قتل کرکے ان کا سر میرے پاس مدائن روانہ کرے ۔
حجازاور یمن عرصہ سے حکومت ایران کا حصہ شمار ھوتے تھے لیکن اسلام کے آنے کے بعد حجاج نہ صرف آزاد ھو گیا تھا بلکہ خود مختار ھو گیا تھا اور یہ امکانات بھی پیدا ھو گئے تھے کہ یہ محروم اور کچلی ھوئی قوم اسلام کے سایہ میں پورے ایران پر مسلط ھو جائے۔
اگر چہ خسرو پرویز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات میں گزر گیا تھا لیکن ساسانیوں کی حکومت سے یمن اور حجازکا جدا ھو جانا ان لوگوں کے لئے اتنا بڑا دھکا تھا جو خسرو کے جانشینوں کے ذھن سے دور نھیں ھو ا تھا ۔ساتھ ھی یہ بڑھتی ھوئی نئی طاقت جو ایمان و اخلاص اور فداکاری سے آراستہ تھی ان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔
ایسے طاقتور دشمنوں کے ھوتے ھوئے کیا یہ درست تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس دنیا سے چلے جائیں اور امت اسلام کے لئے اپنا کوئی فکری و سیاسی جانشین معین نہ کریں؟ ظاھر ھے کہ عقل ، ضمیر اور سماجی محاسبات ھرگز اس کی اجازت نھیں دیتے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اس طرح کی بھول ھوئی ھوگی ۔ اور انھوں نے ان تمام حادثات و مسائل کو نادیدہ قرار دیتے ھوئے اسلام کے گرد کوئی دفاعی حصار نہ بنایا ھوگا اور اپنے بعد کے لئے ایک آگاہ ،مدیر و مدبر اور جھاندیدہ رھبر معین نہ کیا ھوگا۔
(1)۔سورہ طور/30
(2) الدرجات الرفیعہ ص/77 حضرت علی ںنے اس موقع پر ابو سفیان سے اپنا وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ” ما زلت علی و الاسلام و اھلہ “ تو ھمیشہ اسلام اور اھل اسلام کا دشمن رھا ھے ۔ الاستیعاب ،ج/2ص/690
(3) یہ حدیث شیعہ و سنی دونوں ماخذ میں تواتر کے ساتھ آئی ھے․
روحی و معنوی کمال معصوم امام کے سایہ میں
اس دنیا میں ھر وجود ایک مقصد کے تحت خلق ھو اھے اور اس وجود کی غرض خلقت اور کمال اسی وقت حاصل ھوتا ھے جب اس تخلیق کا مقصد پورا ھوجائے ۔ قدرت بھی موجودات
کو کمال تک پھنچانے کے لئے ھر وہ وسیلہ اس کے حوالے کرتی ھے جو اسے کمال تک پھنچانے میں
موٴثر ھوتا ھے ۔ اس راہ میں وہ صرف ضروری وسائل پر اکتفا نھیں کرتی بلکہ ھر جزئی اور غیر
ضروری وسائل بھی اسے عطا کرتی ھے ۔ خوش قسمتی سے اس بارہ میں عالم طبیعت سے متعلق علوم
(NATURAL SCIENCES) نے ھمارے زمانہ میں اپنی وسعت کے پیش نظر ھمیں ھر طرح کی مثال اور وضاحت سے بے نیاز کر دیا ھے۔
اگرھم صرف انسانی جسم میں سننے اور دیکھنے کے حیرت انگیز وسائل پر غور کریں تو ان میں سے ھر ایک یہ پکار پکار کر کھتا نظر آئے گا کہ نظام خلقت نے ھر وجود کو اس کے کمال ---جس کے لئے وہ خلق کیا گیا ھے ---تک پھنچانے پر خاص توجہ دے رکھی ھے۔
اب ذرا ھم جسم کے دوسرے حصوں کے بارے میں غور کریں جن کی طرف سے زیادہ تر غفلت برتی گئی ھے اور اھمیت کے اعتبار سے اسے دوسروں پر ثانوی حیثیت دی گئی ھے ۔ !مثال کے طور پر ھم انسان کے تلوؤں کی ساخت اور ان کے خاص انداز کے گڑھوں پر غور کریں ۔ان کو خدا نے اس غرض سے بنایا ھے کہ انسان کو چلنے میں آسانی ھو۔ حتٰی جن کے پاؤں کے تلوے پیدائشی طور سے بالکل ھموار ھو ں وہ آپریشن کے ذریعہ تلوؤںمیں گڑھے بنواتے ھیں تاکہ آسانی سے چل سکیں۔
ھماری انگلیاں لمبائی اور موٹائی کے لحاظ سے باھم فرق رکھتی ھیں کیوں کہ اگر وہ سب یکساں ھوتیں تو انسان ان سے جو بھت سے مختلف کام کرتا ھے نھیں کر پاتا ۔ انگلیوں کے اس اختلاف ھی کی وجہ سے انسان ظریف اور باریک صنعتوں اور بھترین ھنر اور فنون کا خالق بنا ھے ۔اس کی ھتھیلیوں اور انگلیوں میں ایسے خطوط اور لائینیں ھیں جو ھر چھوٹی اور بڑی چیز کے اٹھانے یاپکڑنے میں اس کی مدد کرتی ھیں ،اور چوں کہ ھر انسان کی انگلیوں کے خطوط ایک دوسرے سے جدا ھیں لھٰذا ھر فرد کی شناخت کے لئے اس کی انگلیوں کے نشانات لئے جاتے ھیں۔
یہ اور ان جیسی دوسری مثالوں سے ھم یہ نتیجہ لیتے ھیں کہ دست قدرت نے ھر طرح کے وسیلہ کو خواہ اس کے لئے ضروری ھو یا غیر ضروری جو بھی اس کے کمال کے لئے موٴثر ھے اس کے اختیار میں دیا ھے اور اس راہ میں اس کے لئے انتھائی سخاوت مندی کا مظاھرہ کیا ھے۔
اب یہ سوال پیش آتا ھے کہ جو خدا اس حد تک انسان کی سعادت و کمال کا خواھاں ھے ،آخر یہ کیسے ممکن ھے وہ اس کے معنوی و روحانی کمال سے چشم پوشی کر لے؟!
یہ بیان جس طرح خدا وند عالم کی جانب سے انبیاء و مرسلین کی بعثت کی ضرورت کو ثابت کرتا ھے ،اسی طرح تمام معارف و احکام کے اسرار سے آگاہ امام معصوم کے تعین کو بھی لازمی قرار دیتا ھے۔ کیونکہ وحی الٰھی کی جانب سے ایک ایسے امام کا تعین اسلامی معاشرہ میں بھت سی کشمکشوں،جنگوں ، نفاق اور معاشرہ کی پسماندگی کے خاتمہ کا سبب بنتا ھے اور مسلمانوں کو ایک جماعت اور ایک گروہ کی مشکل میں تبدیل کردیتا ھے اور ھر طرح کے اختلاف و تفرقہ سے جو رھبر و خلیفہ کے انتخاب کا لا زمہ ھے نجات دے دیتاھے ۔ نتیجہ میں مسلمانوں کو ”سقیفہ بنی ساعدہ “ اور دوسری پر اسرار شوراوٴں کا سامنا نھیں کرنا پڑتا۔
مسلمان پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد الٰھی نص (خدا کی طرف سے کی جانے والی تعیین ) سے چشم پوشی کرکے یا(جیسا کہ علمائے اھل سنت تصور کرتے ھیں) اللہ کی جانب سے نص نہ ھونے کی صورت میں۔ اس قدر اختلا ف وتفرقہ کا شکار ھوئے کہ اس کے منحوس آثار چودہ صدیوں کے بعد بھی دور نھیں ھوئے۔اور آج بھی استعماری طاقتیں جو مسلمانوں کو متحد دیکھنا نھیں چاھتیں مسلمانوں میں اختلاف برقرار رکھنے کے لئے آگ میں تیل ڈالنے کا کام کرتی رھتی ھیں۔
لیکن اگر مسلمان معاشرہ کا رھبر خدا کی جانب سے معین ھو اور مسلمان اپنے نا پختھ اور خام خیالات کو الٰھی نص و ھدایت پر مقدم نہ کریں تو مسلّم طور سے مسلمانوں کی حالت ھر زمانہ میں اس سے کھیں بھتر ھو۔اس کے علاوہ ھر طرح کے گناہ ،خطا اور اشتباہ سے محفوظ اور شریعت کے معارف و احکام کے اسرار سے آگاہ امام معصوم کا وجو د انسانی معاشرہ اور افراد کی روحانی ترقی اور کمال کی راہ میں ایک بڑا قدم ھے۔ پھر کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ ایسے رھبر کا وجود کیا انگلیوں اور ھتھلیوں کی لائینوں ، پیروں کے تلووٴں کی گھرائیوں اور آنکھوں کے اوپر ابرو کے جتنا بھی اھمیت نھیںرکھتا ھے؟!
اس صورت میں کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ خداوند عالم نے انسان کے جسمانی کمال کے لئے تو ھر طرح کے وسائل اس کے اختیار میں دے دئیے لیکن معنوی کمال کے وسائل سے،جو اس کی روح کی ترقی میں موثر کردار ادا کرتے ھیں ،اسے محروم کردیا ھے۔
شیخ الرئیس ابن سینا نے کتاب ”شفا“ کی نبوت کی بحث میں مذکورہ بالا بیان سے انبیاء کی بعثت کی ضروت کو ثابت کیا ھے۔(1) لیکن جیسا کہ ھم عرض کرچکے ھیں یہ بیان جس طرح انبیاء و
مرسلین کی بعثت کی ضرورت کو ثابت کرتا ھے اسی طرح ایک معصوم اور شریعت کے اسرار سے آگاہ امام کی تعیین کو بھی پوری طرح ثابت کرتا ھے ، جو انسانوں کے روحی کمال کا ذریعہ ھے۔
________________
(1)شفاء،الالھیات، فصل یکم از مقالہ دھم ص/4۸۸،تحقیق آیة ا․․․حسن زادہ آملی
کیا شیعوں کا نظریہٴ امامت آزادی کے خلاف ھے
حریت و آزادی کا لفظ انسانوں کے کانوں میں پڑنے والا اب تک کا سب سے لطیف اور پرجوش لفظ ھے ۔ اس لفظ کا سننا ھی لوگوں کے اندر کیف و نشاط ،وجد و خوشی کی لھر پیدا کر دیتا ھے ۔ ایک صحیح فکر رکھنے والے انسان کی سب سے بڑی آرزو اور تمنا قید و بند سے نجات ،استعمار سے جھاد اور آزادی کی بلند بام چوٹی کو فتح کرنا ھے ۔ آزادی سے متعلق انسان کا لگاؤ اتنازیادہ ھے کہ اس نے اس راہ میں بھت سی قربانیاں دی ھیں اور حد سے زیادہ فداکاریاں کی ھیں۔
یہ درست ھے کہ انسان نے یہ بخوبی محسوس کر لیا ھے کہ اجتماعی زندگی ایک ایسے حاکم کے بغیر ممکن نھیں ھے جس کی رائے نافذ اور جس کا فیصلہ قطعی۔ لیکن ساتھ ھی وہ اس پر بھی ھرگز آمادہ نھیں ھے کہ اپنے مقدرات کسی ایسے شخص کے ھاتھ میں دے دے جس کے انتخاب کااختیار اس کے ھاتھ میں نہ ھو ۔یھی وجہ ھے کہ خاص طور سے عصر حاضر میں معاشرہ کے حاکم و ذمہ دار کے تعین کے طریقوں میں وہ صرف اسی روش کو صحیح جانتا ھے ،جس میں وہ اپنے رھبر کے انتخاب میں خود مختار اور آزادھو۔ جو حاکم ایک قوم کی سرنوشت کو اپنے ھاتھ میں لیتا ھے وہ خود عوام سے ابھرے اور عوام نے اسے منتخب کیا ھو ۔ ورنہ دوسری صورت میں وہ ایک فرد کی حکومت کو اصول آزاد کے خلاف اور جبر کی حاکمیت سمجھتا ھے۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ امامت کے سلسلہ میں پائے جانے والے دو نظریوں میں کون سا نظریہ ڈیموکریسی کے اصول سے زیادہ سازگار ھے ،یہ کہ منصب امامت ایک انتخابی منصب ھے یعنی امام کو ”عام لوگوں کے ذریعہ یا اسلام کی اعلیٰ کمیٹی “ کے ھوتھوں چنا جانا چاھئے ۔یا یہ کہ رھبر اور جانشین پیغمبر کا انتخاب عوام کے ھاتھ میں نہ ھو بلکہ وہ سو فیصد ی خدا کی جانب سے منصوب ھو یعنی امام کوخدا اور پیغمبر کی جانب سے معین ھونا چاھئے ؟
بعض لوگوں کا خیال ھے کہ پھلا نظریہ آزادی کے اصول سے زیادہ ھم آھنگ ھے ۔ اگر ھم رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانشینی کے منصب کو انتخابی سمجھیں تو اس صورت میں ھمیں یہ فخر کرنا چاھئے کہ لیبرلیزم اور آزادی مغرب میں پروان چڑھنے سے پھلے مشرق میں اور ایک ھزار چار سو سال پھلے قابل عمل تھی ۔ لیکن اس راہ سے ھم اس جگہ پھنچتے ھیں جھاں پھلے نظریہ پر عمل ھی نھیں ھوا ۔
آج اھل سنت معاشرہ کے بعض اھل قلم شیعہ نظریہ یعنی امامت کے انتصابی ھونے کے موضوع پر تنقیدکرتے ھیں اور کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانشینی کا نصبی ھونا آج کے سماجی نظریات اور آزادی کی روح سے کسی بھی طرح سازگار نھیں ھے۔
جواب : شاید جو سب سے اھم اور دلچسپ منطق امام کے انتخابی ھونے کے سلسلہ میں پیش کی جا سکتی ھے اور جسے آج کے انسانی معاشرہ کے خیالات سے قریب قرار دیا جاسکتا ھے، وھی منطق ھے جسے ھم اوپر بیان کر چکے ھیں اور جو کم و بیش بعض علمائے اھل سنت کے قلم سے بھی ظاھر ھو چکی ھے ۔اس طرز استدلال کا تفصیلی جواب اس پر منحصر ھے کہ موجودہ بحث کے تین اساسی نکتے پوری طرح واضح ھوں:
1۔ منصب امامت کانصبی یا منصوبی ھونا ”استبداد “ اور جبر سے بالکل جدا ھے۔
2۔ مغرب کی جمھوری حکومتیں جو اقلیت پر اکثریت کی حکومت کی اساس پر استوار ھیں ۔ وہ ان غیر عادلانہ سیاسی نظاموں میں سے ھیں جنھیں آج کے انسانوں نے مجبور ا ًقبول کیا ھے۔
3۔ اگر یہ فرض کر لیں کہ حاکم کے انتخاب کے لئے یھی روش صحیح ودرست ھے تو کیا صدر اسلام میں خلفاء کے انتخاب میں اس روش پر عمل ھو اھے؟
ان تین نکتوں خاص طور سے دوسرے اور تیسرے نکتہ پر مفصل بحث کی ضرورت ھے کہ ھم اختصار کے ساتھ ان میں سے ھر ایک پر روشنی ڈالتے ھیں۔
الف) ۔امام کا منصوب کیا جانا استبداد نھیں
استبدادی حکومتیںوہ انتھائی ظالمانہ طریقہٴ حکومت ھے جن سے انسان دو چار رھا ھے ۔ استبدادی نظام جبر و تشدد کا وہ جانکاہ نظام ھے جنھیں انسانی معاشرہ زمانہ ٴ قدیم سے جھیلتا آرھا ھے اور انسان کی معاشرتی زندگی میں اس کی مختلف شکلیں (گاؤں کا زمیندار ،تعلقدار،قبیلہ کا سردار ،یا مطلق العنان حاکم جو زمین کے وسیع علاقہ پر خود سرانہ حکومت کرتا ھے) نظر آتی رھی ھیں۔
استبداد کی بڑی شکل یہ کہ ایک شخص داخلی سطح پر بغاوت کے ذریعہ حاکم کو معزول کرکے خود حاکم ھو جاتا ھے یا غلبہ اور دوسرے ملک کی فوجی طاقت کے ذریعہ حاکم ھو جاتا ھے اور ایسی حکومت کی بنیاد ڈالتا ھے جس میں صرف حاکم کی بات یا اس کا حکم ھی نافذ ھوتا ھے اور اپنے بعد کے حاکم کے لئے بھی اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ھوتا ھے۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جانشینی کے سلسلہ میں شیعوں کا نظریہ اس طرح کی حکومتوں سے میلوں کا فاصلہ رکھتا ھے ۔امام کے منصوبی ھونے سے شیعوں کا مقصد یہ ھے کہ امام خدا کی جانب سے---جو سب کا خالق ھونے کے اعتبار سے تمام انسانوں پر اولویت اور حاکمیت کا حق رکھتا ھے -- ایک سب سے زیادہ شائستہ فرد کی حیثیت سے جو ھر طرح کی جسمی و روحی آلودگی ،برائی اور لغزش سے پاک ھے اور صرف اللہ کے حکم پر عمل کرتا ھے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعدمسلمانوں کا رھبر و پیشوا معین کیا جائے۔
یہ کھنے کی ضرورت نھیں ھے کہ ایسا شخص اپنے منصب پر فائز ھونے کے بعد ھر طرح کی خودسری وخود رائی سے دور ھوگا اور صرف پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لائے ھوئے قوانین کی بنیاد پر انسانی معاشرہ کو چلائے گا۔
چونکہ خدا وند عالم خالق ھونے کی بنا پر فطری طور سے سب پر حکومت کا حق رکھتا ھے اورتمام قوموں نے اس کے قوانین کو جان و دل سے تسلیم کیا ھے لھٰذا امام بھی ان ھی قوانین کی بنیاد پر حاکم ھوا ھے اور معصوم ھونے کی بنا پر ھر طرح کے عمدی سھوی ظلم و ستم سے محفوظ ھے ،ایسی حکومت معقول ترین حکومت ھے ۔اس طرح کی حکومت میں اقلیت و اکثریت (یعنی اکثریت کی ڈکٹیٹر شپ) کا تصور ھی نھیں ھے ۔اس میں صرف خدا کی رضااور مخلوق کی مصلحت ھی پیش نظر ھوتی ھے (کوئی شخصی مرضی نھیں تھوپی جاتی اور نہ ان افراد کی خوشی مدنظر ھوتی ھے جنھوں نے اسے حاکم بنایا ھے)۔
یہ الٰھی و آسمانی حکومت جس میں کسی بھی طرح کی خود سری اور خود خواھی نھیں ھے بھلا اس کا ان ظالم و استبدادی حکومتوں سے کیا تقابل ۔یہ دونوں طرز حکومت ایک دوسرے سے اس قدر فاصلہ رکھتی ھیں کہ ان میں کسی بھی مشترک پھلو کاتصور کیا ھی نھیں جا سکتا ۔
(ب )۔ جمھوری حکومتوں کی کمزوریاں
آج کی جمھوری حکومتوں کی کمزوریاں ایک دو نھیں ھیں کہ یھاں ان پر تفصیل سے بحث کی جائے لیکن ھم یھاں نمونہ کے طور پر ان ھیں سے دو اھم کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔
1۔ اس طریقہٴ حکومت میں جو حاکم کسی پارٹی یا عوام کی ھاتھوں منتخب ھوتا ھے وہ ان کی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے کی فکر میں رھتا ھے ۔ ان کی ھدایت و رھبری کی فکر میں نھیں رھتا ۔ کسی پارٹی یا گروہ کے سیاستداں کے لئے یہ اھم نھیں ھے کہ وہ حق کا ساتھ دے ،اھم یہ ھے عوام کی حمایت سے اسے ھاتھ نہ دھونا پڑے ۔ اس کام میںکبھی اس کے لئے لازم و ضروری ھو جاتا ھے کہ اپنے ذاتی اعتقادات اور حقائق سے بھی آنکھیں بند کر لے ۔یہ وہ حقیقت ھے جس کا اظھار و اقرار دنیا کے ان عظیم سیاستدانوں نے بھی کیا جو عرصہ تک پوری دنیا کی سیاست سے کھیلتے رھے ھیں امریکہ کا ایک گزشتھ صدر جان۔ایف کنیڈی اپنی کتاب میں لکھتا ھے:
کبھی سینیٹر مجبور ھوتا ھے کہ کسی اھم موضوع کے سلسلہ میں عام جلسہ میں فوراً ھی اپنی رائے اور نظریہ کا اظھار کرے ۔ اس میں شک نھیں ھے کہ وہ بھی غور وفکر کرنے کے لئے وقت چاھتاھے تاکہ چند جملوں میں یا مختصر اصلاح کے ذریعہ شبھہ واختلاف کو بقدر امکان دور کرے ،لیکن نہ اسے غور کرنے کا موقع ملتا ھے نہ وہ خود کو لوگوں سے چھپا سکتا ھے اور نہ ھی اپنی رائے کے اظھار سے گریز کرسکتاھے ۔بالکل ایسا لگتاھے جیسے تمام موکل جنھوں نے اسے سنیٹر بناےاھے اس کی طرف آنکھیں گاڑے ھوئے اس بات کے منتظر ھیں کہ اس شخص کے رائے ،جس سے اس کی سیاست کا مستقبل وابستہ ھے ،کیا ھوگی۔
ان تمام باتوں کے علاوہ اس بات کی فکر کہ سنیٹر کی مراعات اس سے سلب نہ کر لی جائےں اور کھیں وہ اس چرب و نرم مشغلہ سے محروم نہ کر دیا جائے بڑے سے بڑے سیاستداں کی نیندیں حرام کئے رکھتی ھے۔
یھی وجہ ھے کہ بعض سنیٹر اس نکتھ کی طرف متوجہ ھوئے بغیر آسان اور کم خطرہ راہ اختیار کرتے ھیں ۔ یعنی جب بھی ان کے ضمیر اور ان کے فیصلوں کے درمیان ٹکراوٴ ھوتا ھے تو اپنی خود ساختھ منطق کے ذریعہ ضمیر کو مطمئن کر دیتے ھیں اور خود کو اپنے ووٹروں کے خیالات سے ھم آھنگ کر دیتے ھیں ایسے لوگوں کو ڈرپوک نھیں کھا جاسکتا بلکہ یہ کھنا چاھئے کہ یہ وہ لوگ ھیں جنھیں رفتھ رفتھ عام لوگوں کے رجحان و خیالات کی پیروی کرنے کی عادت پڑگئی ھے اور اپنی بھلائی اسی میں دیکھتے ھیں کہ بھتی گنگا میں ھاتھ دھوئیں ۔ لیکن ان میں کچہ ایسے لوگ بھی ھیں جو اپنے ضمیر کو کچل ڈالتے ھیں اور اپنے عمل کی توجیہ یوں کرتے ھیں ۔ لوگوں میں نفوذ کرنے کے لئے پوری سچائی کے ساتھ اپنے ضمیر کی آواز سے کانوں کو بند کر لیتے ھیں۔ ”فرینک کینٹ “ کے بقول سیاست کو خلاف اخلاق مشغلہ نھیں کھا جا سکتا بلکہ یہ کھنا چاھئے کہ ”سیاست اخلاقی مشغلہ نھیں ھے“ (1)
سیاسی رائٹر” فرنیک کنیٹ“لکھتا ھے” کہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا مسئلہ بھت ھی اھم اور سنجیدہ ھے ۔اس کے حصول کی راہ میں بلاوجہ کے مسائل مثلا ”اخلاق“ یا ”حق و باطل“ پر کوئی توجہ نھیں کرنا چاھئے ۔ “
اس سلسلہ میں ”مارک اشکال “ نے اپنے ایک ساتھی کو 1920ئع کے امریکہ کے انتخابات میں بھترین نصیحت کی اور وہ یہ کہ ”تم عوام کو فریب دینا نھیں چاھتے ۔یعنی تم نمائندہ بننے کی راہ میں اپنے ضمیر کو کچل نھیں رھے ھو ،بلکہ تم یہ بات سیکھو کہ ایک سیاسی آدمی کے لئے ایسے حالات پیش آتے ھیں جن میں وہ اپنے ضمیر سے چشم پوشی کرنے پر مجبور ھے۔“ (2)
یہ آج کی دنیا کے جمھوری لوگوں کی زبان میں سب سے زیادہ منصفانہ باتیں ھیں ۔اب آپ اس اجمال سے تفصیل کا اندازہ کرلیں ۔یہ آزاد ملکوں کی حکومتوں کی حقیقت ھے ۔کیا عقل و منطق اس کی اجازت دیتی ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کوجسے بھت سی جھات میں ان ھی کی طرح ھونا چاھئے ،اس جمھوری طریقہ پر یعنی عوام کے خیالات کے ذریعہ یا ارباب حل وعقد کی بیعت یا مھاجرین و انصار کی بیعت کے ذریعہ منتخب ھونا چاھئے ؟ ھرگز نھیں۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کہ اس طریقہ سے منتخب ھونے والا شخص فکری طور سے مستقل مزاج نھیں ھوتا بلکہ اپنے ووٹروں کے افکار و خیالات کا ترجمان ھوتا ھے ۔ایسے افراد بھت ھی کم اور نادر ھیں جو اپنی شھرت کو ٹھوکر مارنے پر آمادہ ھو جائیں اور عمومی خیالات و رجحان کے طوفان سے نہ ڈریں اور جو بات امت کی بھلائی کے لئے ھو اسی پر عمل کریں۔
ممکن ھے یہ خیال کیا جائے کہ ووٹروں کی رضا مندی کا لحاظ اسی وقت لازم ھے جب حکومت کی مدت چند سال میں محدود ھو ،لیکن چونکہ امام کی رھبری دائمی ھے اور دائمی حاکم کی حیثیت رکھتی ھے جیسا کہ آج بھی بعض ملکوں میں عملی طور پر رائج ھے لھٰذا ضروری نھیں کہ خلافت کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد امام و خلیفہ عوام کی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے کی فکر میں ھو۔
تو جواب یہ ھے کہ یہ خیال بھت ھی خام اور بیجا ھے ،کیوں کہ:
اول تو:خود اس دائمی حاکمیت میں بھی عام انتخاب کرنے والوں کے خیالات و رجحان کو نادیدہ نھیں کیا جاسکتا،کیونکہ بے توجھی کی صورت میں حاکم کو انقلاب ،شورش اور بغاوت کا سا منا کرنا پڑے گا۔
دوسرے یہ کہ: کئی امید واروںکی موجودگی میں کسی ایک شخص کا ایک گروہ کی طرف سے منتخب کھاجانا کسی تعاون وھم خیالی کے وعدہ کے بغیر عملی نھیں ھے ۔ اور اس بات کو دیکھتے ھوئے اگر وہ اپنے کئے ھوئے وعدہ سے چشم پوشی کرلے تو یہ خود ایک بھت بڑی خرابی ھے کیونکہ اس صورت میں معاشرہ کے مربی نے عملا وعدہ خلافی کی ھے اور دوسروں کو بھی اس راہ پر چلنا سکھا یا ھے۔
عمر نے اپنی موت کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے لئے جو چہ نفری کمیٹی بنائی تھی اس میں” عبد الرحمن بن عوف“ نے جس کا جھکاوٴکمیٹی کے دوگروھوں کے درمیان فیصلہ کن تھا،
حضرت علی ں سے کھا: میں آپ کی بیعت کرتا ھوں لیکن اسی شرط پر کہ آپ اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت اور شیخین کی سیرت پر عمل کریں گے،حضرت علی ںنے فرمایا: میں صرف خدا کی کتاب ،رسول کی سنت اور اپنی عقل و فکر کی بنیاد پر عمل کروںگا۔اس موقع پر عبد الرحمان بن عوف نے عثمان سے بھی اسی جملہ کا اقرار لیا اور عثمان نے عبدالرحمان کی شرط پر اپنی وفاداری کا اعلان کیا اور خلیفہ منتخب ھوگئے(اور بعد میںسب نے دیکھا کہ انھوں نے اپنی مرضی سے بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط کردیا۔)
مختصر یہ کہ اکثر لوگوں کا انتخاب کرنے والے ایسی شرطیں رکھتے ھیں جس کا ماننا ایک با ایمان اور با ضمیر شخص کے لئے بڑا ھی سخت اور ناگوار ھوتا ھے۔ظاھر ھے کہ حق شناس ان افرادشرطوں کو تسلیم نھیں کرتے لھٰذا منتخب بھی نھیں ھوتے اور ان کی جگہ غیر صالح افراد ھر طرح کی شرط قبول کرلیتے ھیں اورمنتخب ھوجاتے ھیں۔
امریکہ کے صدر کے انتخاب میں آزاد سے آزاد شخص بھی عالمی صھیونزم کی مدد کو اپنے دستور العمل میں اولویت دینے پر مجبور ھوتا ھے اور ووٹ بنانے والی کمیٹیوں سے یہ وعدہ کرتا ھے کہ اگر منتخب ھوگیا تو اسرائیل کی مدد کرے گا۔چاھے وہ یہ جانتا ھو کہ اس کا یہ عمل عدالت اور انسانیت کے اصول کے سراسر خلاف ھے۔
2۔مغرب کی جمھوری حکومتوں پر دوسرا اعتراض یہ ھے کہ اس جمھوریت کی بازگشت ایک طرح کے ظلم و ڈکٹیٹر شپ ” تعداد کی ڈکٹیٹر شپ“اور ”اکثریت کا اقلیت پر استبداد و ظلم ) ھے۔ کیونکہ اگر یہ فرض بھی کرلیں کہ انتخابات بالکل صحیح اور کسی چالبازی کے بغیر انجام پائے ھیں اس کے باوجود اکثریت جو صرف ایک ووٹ سے جیتی ھے اس اقلیت پر حکومت کرے گی جو صرف ایک ووٹ سے نھیں جیتی جب کہ ممکن ھے کہ بھت سے موارد میں حق اقلیت کے ساتھ ھو اس کا مطلب یہ ھے صرف ایک ووٹ کے ذریعہ ایک ملک اور قوم کے منافع و مصلحتیں ضائع ھوجائیں! اسی وجہ سے کھا جاتا ھے کہ 49پر51 افراد کی حکومت ایک طرح کی ظالمانہ حکومت ھے جسے انسان نے مجبوری کی بناپر اور اس سے بھتر طریقہ نہ ھونے کی صورت میں یا کسی اور راہ کی طرف توجہ دئیے بغیر، جس کی طرف اسلام نے رھنمائی کی ھے، اپنا پاھے۔
لیکن خدا کی جانب سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کے انتخاب میں جیسا کہ اوپر بیان ھوچکا ھے ان تمام نا انصافیوں کا سد باب کردیا گیاھے۔ امام کو وہ منتخب کرتا ھے جس کے حق حاکمیت پر سب راسخ ایمان رکھتے ھیںاور امام ان قوانین کے مطابق حکومت کرتا ھے جسے تمام لوگ قبول کرتے۔ یھاں پر اقلیت و اکثریت کا مسئلہ ھی پیش نھیں آتا ۔
ان سب باتوں کے علاوہ جمھوری نظاموں میں اکثر یت کی خواھشات اور آرزوئیں قانون کی شکل اختیار کر لیتی ھیں اور ان کے ارادے قطعی فیصلوں اور محکم حکم کی صورت میں تمام لوگوں پر لاددئیے جاتے ھیں ،لیکن اسلامی قوانین کی روح ،جس میں ھمیشہ انسانی معاشرہ کی مصلحتوں کو ھی شریعت کا رنگ ملتا ھے ،ایسے پست نظر یہ کی تائید نھیں کر سکتی۔
قرآن مجید جس نے ھمیشہ لوگوں کے افکار و خیالات کو خطا و غلطی سے آلودہ بتایا ھے اور اکثریت کے بارہ میں فرماتا ھے (واکثرھم لایعقلون ) اور (واکثرھم لایشعرون)پھر وہ دین کے سب سے اھم موضوع یعنی امت کی امامت یا قیادت کے انتخاب کے سلسلہ میں معاشرہ کی اکثریت کے رجحان کو کیسے موٴثرو نافذ سمجہ سکتا ھے ؟ کیا قرآن کریم نے یہ نھیں فرمایا: (وعسٰی ان تکرھو ا شیئا وھو خیرلکم و عسٰی ان تحبوا شیئا و ھو شرّلکم) (3) یعنی بعض اوقات تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ھو جب کہ وہ تمھارے لئے مفید و نفع بخش ھوتی ھے اور بعض اوقات کسی چیز کو تم پسند کرتے ھو جب کہ وہ تمھارے لئے مضر و نقصان دہ ھے ۔ یہ وہ قانون ھے جو معاشرہ کی اکثریت کی نفسانی خواھشات کو صراحت کے ساتھ خطا شمار کرتا اور فرماتا ھے اکثر لوگوں کے خواھشات ایسی چیز کاتقاضا کرتے ھیں جو خطرناک اور نقصان دہ ھوتی ھے اور کبھی ایسی چیز سے نفرت کا اظھار کرتے ھیں جو سو فی صد ی ان کے لئے مفید ھوتی ھے ۔اس روشنی میں امام کے انتخاب یا تعیین کو جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد سب سے اعلیٰ دینی منصب ھے ،ناقابل اعتبار اکثریت کے حوالے نھیں کیا جاسکتا ۔
(ج)۔ کیا صدر اسلام میں خلیفہ کا انتخاب اکثریت نے کیا؟
بعض توجیھیں واقعہ کے گزر جانے کے بعد اسباب تراشی کرتی ھیںاکثر ایسا ھوتا ھے کہ ایک معاشرتی واقعہ بعض حالات و شرائط کے تحت وجود میں آتا ھے ۔ بعد میں آنے والے اس واقعہ کو وجود میں لانے والوں کے فیصلوں کی بنیاد اپنے حدس و گمان پر رکھتے ھیں اور اس واقعہ کے لئے بے جھت خوش بینی کی بنا پر ایسے اخلاقی ،فکری اور سماجی اسباب و علل تراشتے ھیں کہ واقعہ کو وجود میں لانے والوں کی روح کوان کی بھی خبر نھیں ھوتی۔
اتفاق سے خلفا کی حکومت کے لئے جمھوری نوعیت اور عوام پر عوام کی حکومت یا اقلیت پراکثریت کی حکومت کی توجیہ اس کا روشن و واضح مصداق ھے در اصل صدر اسلام کے خلفاء کے انتخاب میں جو چیز وجود میں نھیں آئی وہ عوام کے ذریعہ خلفاء کا انتخاب تھا ۔کیوں کہ نہ اھل سنت کے محقق علماء خلیفہ کے انتخاب میں اس اصل کے معتقد ھیں اورنہ خلفاء کا انتخاب اس طریقہ سے انجام پایا ۔اس کے با وجود عصر حاضر کے بعض اھل قلم ان خلفاء کی خلافت کو صحیح و درست بتانے کے لئے ھمارے زمانہ کی چیز یعنی جمھوریت اور مغربی لیبرلیزم کا سھارالیتے ھیں اور عوام پر عوام کی حکومت یا اقلیت پر اکثریت کی حکومت کی مثال پیش کرتے ھیں جب کہ اس طرح کی توجیھات واقعہ کے وجود میں آنے کے بعد عالم تخیل میں اس کی اسباب تراشی ھے اور خلافت کا ھر گز اس سے کوئی ربط نھیںرھا ھے۔
اب ھم مزید اطمینان کے لئے اس سلسلہ میں بعض قدیم علماء کے اقوال نقل کرتے ھیں: قاضی ایجی اپنی مشھور کتاب شرح مواقف میں لکھتے ھیں : امام کے انتخاب کے لئے کسی فرد کے خلافت پر اجماع یا امت کے اتفاق کی ضرورت نھیں ھے بلکہ اصحاب پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں سے ایک یا دو شخص کی بیعت یا پیمان سے ھی اس شخص کی خلافت قانونی صورت اختیار کرلیتی ھے اور اس کی دلیل یہ ھے کہ اصحاب پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے دینی امور میں کمال ایمان کی وجہ سے صرف حضرت ابوبکر کی رائے کو کافی سمجھا جنھوں نے عمر کو اپنے بعد خلافت کے لئے معین کیا اور نہ صرف تمام مسلمانوں کے اتفاق رائے کو شرط نھیں جانا بلکہ خود مدینہ میں رھنے والے صحابہ کے اتفاق رائے کو بھی ضرورینھیں سمجھا ۔ (4)
”احکام السلطانیہ“کے موٴلف لکھتے ھیں :بعض لوگ یہ تصور کرتے ھیں خلیفہ کا انتخاب اسلامی شھروں میں رھنے والی بزرگ اسلامی شخصیتوں کی تصویب سے انجام پاتاھے،جبکہ ابو بکر سقیفہ بنی ساعدہ میں صرف پانچ افراد کی رائے سے خلیفہ ھوئے ،عمر ،ابو عبیدہ ،اسید بن حضیر ،بشر بن سعد اور سالم مولیٰ ابو حذیفھ۔ (5)
اسلامی خلافت کی تاریخ گواہ ھے کہ عمرنے کی خلافت صرف حضرت ابوبکر کی تعیین کے ذریعہ قانونی ھو گئی اور حضرت عمر نے بھی خلافت کے لئے کسی شخص کے انتخاب کا اختیار چہ نفری کمیٹی کے حوالے کر دیا اور بقیہ تمام مسلمانوں کو انتخاب ھونے اور انتخاب کرنے سے محروم کر دیا ۔
قاضی باقلانی لکھتے ھیں : ابوبکر کا انتخاب حضرت عمر کی کوشش اور دوسرے چار افراد کے ذریعہ انجام پایا؟۔ (6)حضرت امیر الموٴمنین علی ںکی شھادت کے بعد خلافت بنی امیہ اور بنی عباس کے خاندانوں میں موروثی سلطنت کی شکل اختیار کر گئی ،جس کی کھانی بھت ھی دردناک ھے اور یھاں اس کے بیان کی گنجائش بھی نھیں ھے۔
__________________
(1) سیمائے شجاعان ،ص/33و34
(2) سیمائے شجاعان ،ص/34
(3) سورہ بقرہ /216
(4) شرح مواقف ،ج/3ص/265
(5) الاحکام السلطانیہ ،ص/4
(6)التمھید ، ص 17۸۔
No comments:
Post a Comment