امام جعفر صادق علیہ السلام كی فرمائشات
( سایٹ صادقین )
مظفرحسین بٹ
بنی نوع انسان، انسان كی سعادت اور نیك بختی كے فقط قرآن اور اہل بیت ہی ضامن ہیں اور ان دوگرانقدرچیزوں كے بغیرانسان كی كامیابی اور كامرانی محال ہے۔ اگرانسان دیناوآخرت كاخواہاں ہے تواس كوچاہئے كہ ان دوسے متمسك ركھے۔
عظیم مفكر، عارف اور فیلسوف صدرالمتالہین فرماتے ہیں كہ معارف الہی اور سعادت عظمی اور رسول اكرم اور ان كے اہل بیت كی تعالیم كے علاوہ جوكہ حجج الہی، معدن رحمت اور محال بركات خدائے متعال ہیں اور كہیں نہیں مل سكتی اور نہ ہی ملنے كاامكان ہے 1
الحمدللہ كہ ہمارے مكتب میں معارف الہی كے ذخائربہت زیادہ ہیں اور كسی بھی قسم كی كمی قابل تصورنہیں ہے، لیكن ہم نے ان معارف الہی كوكس حدتك مور استفادہ قراردیاہے اور كس قدراس كوبرؤے كارلائے ہیں شہیدمطہری اس كے بارے میں اپنی گرانقدركتاب ”سیری در نہج البلاغہ“ میں فرماتے ہیں كہ ہم شیعوں كواس بات كااعتراف ہونا چاہئے كہ ہم جن كی پیروی كادم بھرتے ہیں ان پردوسروں سے زیادہ ظلم یاكم ازكم كوتاہی ہم نے توضروركی ہے، بنیادی طور پرہماری كوتاہیاں ہی ظلم ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام كوہم نے یاتوپہچاناہی نہیں یاپہچاننے كی كوشش نہیں كی۔ ہماری زیادہ تركوششیں حضرت علی علیہ السلام كے بارے میں نبی اكرم (ص) كے اقوال كی تحقیق یاپھرجن لوگوں نے ان كے اقوال سے چشم پوشی كی ہے، پرسب وستم اور برابھلاكہنے میں صرف ہوتی ہے۔ خودحضرت كی واقعی اور عینی شخصیت كے بارے میں ہم نے كوئی كام نہیں كیاہے اور اسی طرح باقی آئمہ معصومین كی شخصیات كواور ان كی تعلیمات كواب تك نہیں پہچاناہے كب تك ہم خواب غفلت میں رہیں گے؟ كب ہم بیدارہوجائیں گے؟ كیاہماری كامیابی اسی میں ہے كہ جس طرح ہم ہیں؟ ہرگزنہیں كیوں كہ ہم تعلیمات اسلامی سے بہت دورہیں۔
جمال الدین افغانی فرماتے ہیں ”اگرہم مغرب كواسلام سے آشنا كرواناچاہتے ہیں توہم ان كوبتادیں كہ ہم صحیح معنوں میں مسلمان نہیں ہیں، ہم جغرافیائی مسلمان ہیں تاكہ وہ لوگ ہمارے گھروں اور شہروں میںآكریہ ظلم وستم ناانصافیاں، فحشاء اور منكرات دیكھ كراسلام سے متنفر نہ ہوجائیں“ اگرہمیں حقیقی زندگی گزارنی ہے توہم پریہ فرض عائدہوتاہے كہ ہم اسلامی تعلیمات اور اہل بیت كی فرمائشات پرعمل پیراہوجائیں اور اسی میں ہماری نیك بختی اور سعادت پوشیدہ ہے حقیقتا آئمہ معصومین كی تعلیمات اور فرمائشات میں حیات ہے۔ اس حیات كاحصول اسی وقت ممكن ہے جب ہم فرمائشات معصومین كو قولا و فعلا اپنائیں گے ان ہی كے ذریعہ سے ہم صراط مستقیم پرگامزن ہوسكتے ہیں۔
ہمارے رئیس مذہب امام جعفر صادق علیہ السلام كی فرمائشات بہت زیادہ ہیں لیكن میںصرف چندفرمائشوں پراكتفاكروں گااور روایت میں لكھنے جارہاہوں اس كے ہرجملے میں دریائے بیكراں سمویاہواہے، اس روایت كازیادہ تعلق ان افرادكے ساتھ ہے جودرحال حاضرعلوم دین اور معارف اہل بیت كے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں كیونكہ وہ ایسے ہدف كے متلاشی ہیں جس كے حصول میں زیادہ ذمہ داریاں ہیں اگرچہ روایت ایك خاص شخص كے بارے میں ہے لیكن امام صادق علیہ السلام كے فرامین اور احكام كسی خاص شخص كے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلكہ یہ احكام وفرامین سب كے لئے ہیں جن پرعمل پیراہوناسب پرواجب ہے خاص كرطلاب علوم دینی پرجومعارف الہی كے حصول میں مشغول ہیں۔
عنوان بصری جومالك بن انس كے پاس آتاجاتاتھاكہتاہے كہ جب امام صادق علیہ السلام ہمائے شہرمیںآئے تومیں آپ كی خدمت میں حاضرہواكرتاتھا كیونكہ میں دوست ركھتاتھا كہ كسب فیص كروں، ایك دن آپ نے مجھ سے فرمایا كہ میں ایساشخص ہوں جس كے پاس لوگوں كی آمدورفت زیادہ ہوتی ہے لیكن اس كے باوجودمیں دن رات میں خاص ورداور اذكاربجالاتاہوں تم میرے اس كام میں ركاوٹ بنتے ہو، تم پہلے كی طرح مالك بن انس كے پاس جایاكرو، میں آپ كی اس طرح كی گفتگوسے افسردہ اور غمگین ہوااور آپ كے یہاں سے چلاگیااور اپنے دل میں كہاكہ اگرامام مجھ میں كوئی خیردیكھتے تومجھے اپنے پاس بلاتے اور اپنے آپ سے محروم نہ كرتے۔ میں رسول كی مسجدمیں گیا، اور آپ پرسلام كہا، دوسرے دن بھی رسول كے روضے پرگیادوركعت نماز پڑھی اور دعاكے لئے ہاتھ اٹھائے اور كہاكہ ائے میرے خدا، میرے لئے امام صادق علیہ السلام كادل نرم كرے اور اس كے علم سے مجھے وہ عطاكركہ جس كے ذریعہ میں صراط مستقیم كی طرف ہدایت پاؤں۔ اس كے بعداس غمگین اور اندوہ ناك حالت میں گھرلوٹ آیا اور مالك بن انس كے یہاں نہیں گیاكیونكہ میرے دل میں امام صادق علیہ السلام كی محبت پیداہوچكی تھی بہت مدت سوائے نمازكے میں اپنے گھرسے باہرنہیں نكلتاتھا یہاں تك كہ میراصبرختم ہوچكااور ایك دن امام صادق علیہ السلام كے دروازے پرگیااور اندرجانے كی اجازت طلب كی، آپ كاخادم باہر آیا اور پوچھاكہ تجھے كیاكام ہے؟ میں نے كہاكہ میں امام كی خدمت میں حاضرہوناچاہتاہوں اور سلام كرناچاہتاہوں، خادم نے جواب دیاكہ آقامحراب عبادت میں نمازمیںمشغول ہیں اور وہ واپس گھركے اندر چلاگیااور میں آپ كے گھركے دروازے پربیٹھ گیا۔ زیادہ دیرنہیں ہوئی تھی كہ وہ خادم دوبارہ لوٹ آیااور كہاكہ اندرآجاؤ، میں گھرمیں داخل ہوااور آنحضرت پرسلام كیااور آپ نے میرے سلام كاجواب دیااور فرمایاكہ بیٹھ جاؤ، خداتجھے موردمغفرت قراردے، میں آپ كی خدمت میں بیٹھ گیا، آپ نے اپناسرمبارك جھكایا اور بہت دیركے بعداپناسربلندیكا اور فرمایا: تمہاری كنیت كیاہے؟ میں نے عرض كی ابوعبداللہ، آپ نے فرمایا: خداتجھے اس كنیت پرثابت ركھے اور توفیق عنایت كرے۔ تم كیاچاہتے ہو؟ میں نے اپنے كہاكہ اگراس ملاقات میں سوائے اس دعاكے جوآپ نے فرمائی ہے اور كچھ فائدہ بھی حاصل نہ ہوتویہ بھی میرے لئے بہت قیمتی اور ارزش مندہے میں نے عرض كی كہ میں نے خداسے طلب كیاہے كہ خداآپ كے دل كومیرے لئے مہربان كردے اور میں آپ كے علم سے فائدہ حاصل كروں كہ خداوندنے میری یہ دعاقبول كرلی ہوگی۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : ”اے ابوعبداللہ ! علم پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتاہے بلكہ علم ایك نورہے جس كے دل میں چاہتاہے ڈال دیتاہے، پھرفرمایاپس اگرتم علم حاصل كرناچاہوتوپہلے اپنے اندرحقیقت بندگی طلب كرواور علم كواس لئے سكیھوں كہ اس سے كام لواور اللہ سے سمجھ كی دعاكروتاكہ وہ حقائق كوتم پرظاہركرے۔ حقیقت عبودیت كی تفسیرمیں تین صورتوں كے تصوركوامكان میں لایاجاسكتاہے:
۱۔ ممكن ہے كہ جملے كامفہوم یہ ہوكہ علم كی فكرسے پہلے بندگی كی فكرمیں رہو۔
۲۔ عبودیت كی حقیقت كواپنے اندرتلاش كرویہ مفہوم بہت غور طلب، اور امیرالمومنین سے منسوب شعركی طرف توجہ دلاتاہے جس میں آپ فرماتے ہیں ”دواؤك فیك و ما تشعر و دائك منك وما تبصر“۔
بہرحال بنی نوع انسان فطرتاكمال كادلدادہ ہے اور اسے محبوب كی تلاش رہتی ہے عبودیت كاخمیرانسان كے وجودمیں مخفی ومستورہے حضرت سیدالساجدین علیہ السلام ”صحیفہ سجادیہ“ كی پہلی دعامیں ارشادفرماتے ہیں ”خداوندنے بندوں كواپنی محبت عطاكی ہے“ یعنی بندے فطری طورپرخدادوست ہیںجہاں تك ہوسكے ہوی وہوس كودورركھو، نفس امارہ كی مخالفت كروتاكہ گوہرمخفی (حب الہی) فعلیت میں آئے اور تمہارے اندرتشنگی میں حقیقت ظہورپیداہو۔
عنوان بصری كہتاہے كہ اے شریف! توآپ نے فرمایا: اے ابوعبداللہ، كہو، میں نے كہا: ماالحقیقة العبودیة؟ بندگی كی حقیقت كیاہے ؟ آپ نے فرمایا بندگی كی حقیقت تین چیزوں میں ہے۔
۱۔ بندہ اس چیزكو كہ جوخداوندعالم نے اسے دیاہے اپنی ملكیت نہ سمجھے كیونكہ بندہ كسی چیزكامالك نہیں ہواكرتابلكہ مال كواللہ تعالی كامال سمجھے اور اسی راستے میں كہ جس كاخدانے حكم دیاہے خرچ كرے۔
۲۔ اپنے اموركی تدبیرمیں اپنے آپ كوناتوان اور ضعیف سمجھے۔
۳۔ اپنے آپ كواللہ تعالی كے اوامربجالانے میں مشغول ركھے اگربندہ اپنے آپ كومال كامالك نہ سمجھے توپھراس كے لئے اپنے مال كو اللہ تعالی كے راستے میں خرچ كرناآسان ہوجائے گااور اپنے كاموں اور اموركی تدبیرونگہداری خداكے سپردكردے تواس كے لئے مصائب كاتحمل كرناآسان ہوجائے گااور اگربندہ خداكے احكام كی بجااور ی میں مشغول رہے تواپنے قیمتی اور گرانقدروقت كوفخرومباہات اور یاكاری میںخرچ نہیں كرے گااگرخدااپنے بندوں كوان تین چیزوں سے نوازدے تواس كے لئے دینااور شیطان اور مخلوق آسان ہوجائے گی اور وہ اس صورت میں مال كوزیادہ كرنے اور فخرومباہات كے لئے طلب نہیں كرے گااور چیزلوگوں كے نزدیك عزت اور برترشمارہوتی ہے اسے طلب نہیں كرے گااور یہ تقوی كاپہلادرجہ ہے، میں نے عرض كیاكہ اے امام مجھے كوئی وظیفہ اور دستورعنایت فرمائیں توآپنے فرمایا”میںتجھے نوچیزوں كی وصیت كرتاہوں اور یہ میری وصیت اور دستورالعمل ہراس شخص كے لئے ہے جوحق كاراستہ طے كرناچاہتاہے اور میں خداسے سوال كرتاہوں كہ خداتجھے ان پرعمل كرنے كی توفیق دے۔ تین چیزیں نفس كی ریاضت كے لئے ہیں اور تین دستورالعمل بردباری كے لئے اور تین دستورالعمل علم كے بارے میں ہیں۔ تم انہیں حفظ كرلواور خبرداران كے بارے میں سستی نہ كرو“ عنوان بصری كہتاہے كہ میری تمام توجہ آپ كی فرمایشات كی طرف تھی آپ نے فرمایا: ”وہ تین چیزیں جونفس كی ریاضت كے لئے ہیں:
۱۔ خبرداررہوكہ جس چیزكی طلب اور اشتہانہ ہواسے مت كھاؤ۔
۲۔ جب تك بھوك نہ لگے كھانانہ كھاؤ۔
۳۔ جب كھاناكھاؤ تو حلال وكھاناكھاؤ اور كھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھو۔ آپ نے اس كے بعدرسول اللہ كی حدیث نقل كی اور فرمایا كہ انسان برتن كوپرنہیں كرتامگرشكم پركرنااس سے بدترہوتاہے اور اگركھانے كی ضرورت ہوتوكاایك حصہ كھانے كے لئے اور ایك حصہ پانی كے لئے اور ایك حصہ سانس لینے كے لئے قراردے۔
1. وہ تین دستورالعمل جوحلم كے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں
۱۔ جوشخص تجھ سے كہے كہ اگرتونے ایك كلمہ مجھے سے كہاتومیں تیرے جواب میں دس كلمے كہوں گاتواس كے جواب میں اگرتونے دس كلمے مجھے كہے تواس كے جواب میں مجھ سے ایك كلمہ نہیں سنے گا۔۲۔ جوشخص تجھے برابھلاكہے تواس كے جواب میں كہہ دے، كہ اگرتم سچ كہت ہوتوخدامجھے معاف كردے اور اگرجھوٹ بول رہے توخداتجھے معاف كردے۔
جوشخص گالیاں دینے كی دھمكی دے توتم اسے نصیحت اور دعاكاوعدہ كرے۔
2. وہ تین دستورالعمل جوعلم كے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں
الف) جوكچھ نہیں جانتے ہواس كاعلماء سے سوال كرولیكن توجہ رہے كہ تیراسوال كرناامتحان اور اذیت دینے كے لئے نہیں ہوناچاہئے۔
ب) اپنی رائے پرعمل كرنے سے پرہیزكرواور جتناكرسكتاہے احتیاط كواپنے ہاتھ سے نہ جانے دو۔
ج)۔ اپنی رائے سے (بغیركسی مدرك شرعی كے) فتوی دینے سے پرہیزكرواور اسے سے اس طرح بچ كہ جیسے پھاڑدینے والے شیرسے بچتاہے اپنی گردن كولوگوں كے لئے پل قرارنہ دے اس كے بعدآپ نے فرمایا كہ اب اٹھ كرچلے جاؤ، بہت مقدارمیں، میں نے تجھے نصیحت كی ہے اور میرے ذكركے بجالانے میں زیادہ مزاحم اور ركاوٹ نہ بنوكیونكہ میں اپنی جان كی قیمت كاقائل ہوں اور سلام ہواس پرجوہدایت كی پیروی كرتاہے 2
علامہ وعارف كامل قاضی طباطبائی فرماتے ہیں كہ حدیث عنوان بصری كولكھے اور اس پرعمل كریں اور ہمیشہ اس كوساتھ ركھیں اور ہفتہ میںایك دوباراس كامطالعہ كریں۔
-------
1. شرح اصول كافی درمقدمہ
2. بحارالانوار، علامہ مجلسی ج۱ ص۲۲۴۔۲۲۶
( سایٹ صادقین )
مظفرحسین بٹ
بنی نوع انسان، انسان كی سعادت اور نیك بختی كے فقط قرآن اور اہل بیت ہی ضامن ہیں اور ان دوگرانقدرچیزوں كے بغیرانسان كی كامیابی اور كامرانی محال ہے۔ اگرانسان دیناوآخرت كاخواہاں ہے تواس كوچاہئے كہ ان دوسے متمسك ركھے۔
عظیم مفكر، عارف اور فیلسوف صدرالمتالہین فرماتے ہیں كہ معارف الہی اور سعادت عظمی اور رسول اكرم اور ان كے اہل بیت كی تعالیم كے علاوہ جوكہ حجج الہی، معدن رحمت اور محال بركات خدائے متعال ہیں اور كہیں نہیں مل سكتی اور نہ ہی ملنے كاامكان ہے 1
الحمدللہ كہ ہمارے مكتب میں معارف الہی كے ذخائربہت زیادہ ہیں اور كسی بھی قسم كی كمی قابل تصورنہیں ہے، لیكن ہم نے ان معارف الہی كوكس حدتك مور استفادہ قراردیاہے اور كس قدراس كوبرؤے كارلائے ہیں شہیدمطہری اس كے بارے میں اپنی گرانقدركتاب ”سیری در نہج البلاغہ“ میں فرماتے ہیں كہ ہم شیعوں كواس بات كااعتراف ہونا چاہئے كہ ہم جن كی پیروی كادم بھرتے ہیں ان پردوسروں سے زیادہ ظلم یاكم ازكم كوتاہی ہم نے توضروركی ہے، بنیادی طور پرہماری كوتاہیاں ہی ظلم ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام كوہم نے یاتوپہچاناہی نہیں یاپہچاننے كی كوشش نہیں كی۔ ہماری زیادہ تركوششیں حضرت علی علیہ السلام كے بارے میں نبی اكرم (ص) كے اقوال كی تحقیق یاپھرجن لوگوں نے ان كے اقوال سے چشم پوشی كی ہے، پرسب وستم اور برابھلاكہنے میں صرف ہوتی ہے۔ خودحضرت كی واقعی اور عینی شخصیت كے بارے میں ہم نے كوئی كام نہیں كیاہے اور اسی طرح باقی آئمہ معصومین كی شخصیات كواور ان كی تعلیمات كواب تك نہیں پہچاناہے كب تك ہم خواب غفلت میں رہیں گے؟ كب ہم بیدارہوجائیں گے؟ كیاہماری كامیابی اسی میں ہے كہ جس طرح ہم ہیں؟ ہرگزنہیں كیوں كہ ہم تعلیمات اسلامی سے بہت دورہیں۔
جمال الدین افغانی فرماتے ہیں ”اگرہم مغرب كواسلام سے آشنا كرواناچاہتے ہیں توہم ان كوبتادیں كہ ہم صحیح معنوں میں مسلمان نہیں ہیں، ہم جغرافیائی مسلمان ہیں تاكہ وہ لوگ ہمارے گھروں اور شہروں میںآكریہ ظلم وستم ناانصافیاں، فحشاء اور منكرات دیكھ كراسلام سے متنفر نہ ہوجائیں“ اگرہمیں حقیقی زندگی گزارنی ہے توہم پریہ فرض عائدہوتاہے كہ ہم اسلامی تعلیمات اور اہل بیت كی فرمائشات پرعمل پیراہوجائیں اور اسی میں ہماری نیك بختی اور سعادت پوشیدہ ہے حقیقتا آئمہ معصومین كی تعلیمات اور فرمائشات میں حیات ہے۔ اس حیات كاحصول اسی وقت ممكن ہے جب ہم فرمائشات معصومین كو قولا و فعلا اپنائیں گے ان ہی كے ذریعہ سے ہم صراط مستقیم پرگامزن ہوسكتے ہیں۔
ہمارے رئیس مذہب امام جعفر صادق علیہ السلام كی فرمائشات بہت زیادہ ہیں لیكن میںصرف چندفرمائشوں پراكتفاكروں گااور روایت میں لكھنے جارہاہوں اس كے ہرجملے میں دریائے بیكراں سمویاہواہے، اس روایت كازیادہ تعلق ان افرادكے ساتھ ہے جودرحال حاضرعلوم دین اور معارف اہل بیت كے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں كیونكہ وہ ایسے ہدف كے متلاشی ہیں جس كے حصول میں زیادہ ذمہ داریاں ہیں اگرچہ روایت ایك خاص شخص كے بارے میں ہے لیكن امام صادق علیہ السلام كے فرامین اور احكام كسی خاص شخص كے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلكہ یہ احكام وفرامین سب كے لئے ہیں جن پرعمل پیراہوناسب پرواجب ہے خاص كرطلاب علوم دینی پرجومعارف الہی كے حصول میں مشغول ہیں۔
عنوان بصری جومالك بن انس كے پاس آتاجاتاتھاكہتاہے كہ جب امام صادق علیہ السلام ہمائے شہرمیںآئے تومیں آپ كی خدمت میں حاضرہواكرتاتھا كیونكہ میں دوست ركھتاتھا كہ كسب فیص كروں، ایك دن آپ نے مجھ سے فرمایا كہ میں ایساشخص ہوں جس كے پاس لوگوں كی آمدورفت زیادہ ہوتی ہے لیكن اس كے باوجودمیں دن رات میں خاص ورداور اذكاربجالاتاہوں تم میرے اس كام میں ركاوٹ بنتے ہو، تم پہلے كی طرح مالك بن انس كے پاس جایاكرو، میں آپ كی اس طرح كی گفتگوسے افسردہ اور غمگین ہوااور آپ كے یہاں سے چلاگیااور اپنے دل میں كہاكہ اگرامام مجھ میں كوئی خیردیكھتے تومجھے اپنے پاس بلاتے اور اپنے آپ سے محروم نہ كرتے۔ میں رسول كی مسجدمیں گیا، اور آپ پرسلام كہا، دوسرے دن بھی رسول كے روضے پرگیادوركعت نماز پڑھی اور دعاكے لئے ہاتھ اٹھائے اور كہاكہ ائے میرے خدا، میرے لئے امام صادق علیہ السلام كادل نرم كرے اور اس كے علم سے مجھے وہ عطاكركہ جس كے ذریعہ میں صراط مستقیم كی طرف ہدایت پاؤں۔ اس كے بعداس غمگین اور اندوہ ناك حالت میں گھرلوٹ آیا اور مالك بن انس كے یہاں نہیں گیاكیونكہ میرے دل میں امام صادق علیہ السلام كی محبت پیداہوچكی تھی بہت مدت سوائے نمازكے میں اپنے گھرسے باہرنہیں نكلتاتھا یہاں تك كہ میراصبرختم ہوچكااور ایك دن امام صادق علیہ السلام كے دروازے پرگیااور اندرجانے كی اجازت طلب كی، آپ كاخادم باہر آیا اور پوچھاكہ تجھے كیاكام ہے؟ میں نے كہاكہ میں امام كی خدمت میں حاضرہوناچاہتاہوں اور سلام كرناچاہتاہوں، خادم نے جواب دیاكہ آقامحراب عبادت میں نمازمیںمشغول ہیں اور وہ واپس گھركے اندر چلاگیااور میں آپ كے گھركے دروازے پربیٹھ گیا۔ زیادہ دیرنہیں ہوئی تھی كہ وہ خادم دوبارہ لوٹ آیااور كہاكہ اندرآجاؤ، میں گھرمیں داخل ہوااور آنحضرت پرسلام كیااور آپ نے میرے سلام كاجواب دیااور فرمایاكہ بیٹھ جاؤ، خداتجھے موردمغفرت قراردے، میں آپ كی خدمت میں بیٹھ گیا، آپ نے اپناسرمبارك جھكایا اور بہت دیركے بعداپناسربلندیكا اور فرمایا: تمہاری كنیت كیاہے؟ میں نے عرض كی ابوعبداللہ، آپ نے فرمایا: خداتجھے اس كنیت پرثابت ركھے اور توفیق عنایت كرے۔ تم كیاچاہتے ہو؟ میں نے اپنے كہاكہ اگراس ملاقات میں سوائے اس دعاكے جوآپ نے فرمائی ہے اور كچھ فائدہ بھی حاصل نہ ہوتویہ بھی میرے لئے بہت قیمتی اور ارزش مندہے میں نے عرض كی كہ میں نے خداسے طلب كیاہے كہ خداآپ كے دل كومیرے لئے مہربان كردے اور میں آپ كے علم سے فائدہ حاصل كروں كہ خداوندنے میری یہ دعاقبول كرلی ہوگی۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : ”اے ابوعبداللہ ! علم پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتاہے بلكہ علم ایك نورہے جس كے دل میں چاہتاہے ڈال دیتاہے، پھرفرمایاپس اگرتم علم حاصل كرناچاہوتوپہلے اپنے اندرحقیقت بندگی طلب كرواور علم كواس لئے سكیھوں كہ اس سے كام لواور اللہ سے سمجھ كی دعاكروتاكہ وہ حقائق كوتم پرظاہركرے۔ حقیقت عبودیت كی تفسیرمیں تین صورتوں كے تصوركوامكان میں لایاجاسكتاہے:
۱۔ ممكن ہے كہ جملے كامفہوم یہ ہوكہ علم كی فكرسے پہلے بندگی كی فكرمیں رہو۔
۲۔ عبودیت كی حقیقت كواپنے اندرتلاش كرویہ مفہوم بہت غور طلب، اور امیرالمومنین سے منسوب شعركی طرف توجہ دلاتاہے جس میں آپ فرماتے ہیں ”دواؤك فیك و ما تشعر و دائك منك وما تبصر“۔
بہرحال بنی نوع انسان فطرتاكمال كادلدادہ ہے اور اسے محبوب كی تلاش رہتی ہے عبودیت كاخمیرانسان كے وجودمیں مخفی ومستورہے حضرت سیدالساجدین علیہ السلام ”صحیفہ سجادیہ“ كی پہلی دعامیں ارشادفرماتے ہیں ”خداوندنے بندوں كواپنی محبت عطاكی ہے“ یعنی بندے فطری طورپرخدادوست ہیںجہاں تك ہوسكے ہوی وہوس كودورركھو، نفس امارہ كی مخالفت كروتاكہ گوہرمخفی (حب الہی) فعلیت میں آئے اور تمہارے اندرتشنگی میں حقیقت ظہورپیداہو۔
عنوان بصری كہتاہے كہ اے شریف! توآپ نے فرمایا: اے ابوعبداللہ، كہو، میں نے كہا: ماالحقیقة العبودیة؟ بندگی كی حقیقت كیاہے ؟ آپ نے فرمایا بندگی كی حقیقت تین چیزوں میں ہے۔
۱۔ بندہ اس چیزكو كہ جوخداوندعالم نے اسے دیاہے اپنی ملكیت نہ سمجھے كیونكہ بندہ كسی چیزكامالك نہیں ہواكرتابلكہ مال كواللہ تعالی كامال سمجھے اور اسی راستے میں كہ جس كاخدانے حكم دیاہے خرچ كرے۔
۲۔ اپنے اموركی تدبیرمیں اپنے آپ كوناتوان اور ضعیف سمجھے۔
۳۔ اپنے آپ كواللہ تعالی كے اوامربجالانے میں مشغول ركھے اگربندہ اپنے آپ كومال كامالك نہ سمجھے توپھراس كے لئے اپنے مال كو اللہ تعالی كے راستے میں خرچ كرناآسان ہوجائے گااور اپنے كاموں اور اموركی تدبیرونگہداری خداكے سپردكردے تواس كے لئے مصائب كاتحمل كرناآسان ہوجائے گااور اگربندہ خداكے احكام كی بجااور ی میں مشغول رہے تواپنے قیمتی اور گرانقدروقت كوفخرومباہات اور یاكاری میںخرچ نہیں كرے گااگرخدااپنے بندوں كوان تین چیزوں سے نوازدے تواس كے لئے دینااور شیطان اور مخلوق آسان ہوجائے گی اور وہ اس صورت میں مال كوزیادہ كرنے اور فخرومباہات كے لئے طلب نہیں كرے گااور چیزلوگوں كے نزدیك عزت اور برترشمارہوتی ہے اسے طلب نہیں كرے گااور یہ تقوی كاپہلادرجہ ہے، میں نے عرض كیاكہ اے امام مجھے كوئی وظیفہ اور دستورعنایت فرمائیں توآپنے فرمایا”میںتجھے نوچیزوں كی وصیت كرتاہوں اور یہ میری وصیت اور دستورالعمل ہراس شخص كے لئے ہے جوحق كاراستہ طے كرناچاہتاہے اور میں خداسے سوال كرتاہوں كہ خداتجھے ان پرعمل كرنے كی توفیق دے۔ تین چیزیں نفس كی ریاضت كے لئے ہیں اور تین دستورالعمل بردباری كے لئے اور تین دستورالعمل علم كے بارے میں ہیں۔ تم انہیں حفظ كرلواور خبرداران كے بارے میں سستی نہ كرو“ عنوان بصری كہتاہے كہ میری تمام توجہ آپ كی فرمایشات كی طرف تھی آپ نے فرمایا: ”وہ تین چیزیں جونفس كی ریاضت كے لئے ہیں:
۱۔ خبرداررہوكہ جس چیزكی طلب اور اشتہانہ ہواسے مت كھاؤ۔
۲۔ جب تك بھوك نہ لگے كھانانہ كھاؤ۔
۳۔ جب كھاناكھاؤ تو حلال وكھاناكھاؤ اور كھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھو۔ آپ نے اس كے بعدرسول اللہ كی حدیث نقل كی اور فرمایا كہ انسان برتن كوپرنہیں كرتامگرشكم پركرنااس سے بدترہوتاہے اور اگركھانے كی ضرورت ہوتوكاایك حصہ كھانے كے لئے اور ایك حصہ پانی كے لئے اور ایك حصہ سانس لینے كے لئے قراردے۔
1. وہ تین دستورالعمل جوحلم كے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں
۱۔ جوشخص تجھ سے كہے كہ اگرتونے ایك كلمہ مجھے سے كہاتومیں تیرے جواب میں دس كلمے كہوں گاتواس كے جواب میں اگرتونے دس كلمے مجھے كہے تواس كے جواب میں مجھ سے ایك كلمہ نہیں سنے گا۔۲۔ جوشخص تجھے برابھلاكہے تواس كے جواب میں كہہ دے، كہ اگرتم سچ كہت ہوتوخدامجھے معاف كردے اور اگرجھوٹ بول رہے توخداتجھے معاف كردے۔
جوشخص گالیاں دینے كی دھمكی دے توتم اسے نصیحت اور دعاكاوعدہ كرے۔
2. وہ تین دستورالعمل جوعلم كے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں
الف) جوكچھ نہیں جانتے ہواس كاعلماء سے سوال كرولیكن توجہ رہے كہ تیراسوال كرناامتحان اور اذیت دینے كے لئے نہیں ہوناچاہئے۔
ب) اپنی رائے پرعمل كرنے سے پرہیزكرواور جتناكرسكتاہے احتیاط كواپنے ہاتھ سے نہ جانے دو۔
ج)۔ اپنی رائے سے (بغیركسی مدرك شرعی كے) فتوی دینے سے پرہیزكرواور اسے سے اس طرح بچ كہ جیسے پھاڑدینے والے شیرسے بچتاہے اپنی گردن كولوگوں كے لئے پل قرارنہ دے اس كے بعدآپ نے فرمایا كہ اب اٹھ كرچلے جاؤ، بہت مقدارمیں، میں نے تجھے نصیحت كی ہے اور میرے ذكركے بجالانے میں زیادہ مزاحم اور ركاوٹ نہ بنوكیونكہ میں اپنی جان كی قیمت كاقائل ہوں اور سلام ہواس پرجوہدایت كی پیروی كرتاہے 2
علامہ وعارف كامل قاضی طباطبائی فرماتے ہیں كہ حدیث عنوان بصری كولكھے اور اس پرعمل كریں اور ہمیشہ اس كوساتھ ركھیں اور ہفتہ میںایك دوباراس كامطالعہ كریں۔
-------
1. شرح اصول كافی درمقدمہ
2. بحارالانوار، علامہ مجلسی ج۱ ص۲۲۴۔۲۲۶
No comments:
Post a Comment