Thursday, August 12, 2010

عظمت نهج البلاغه

عظمت نهج البلاغه

حجة الاسلام سید العلماء مولانا سید علی نقی صاحب قبلہ طاب ثراہ

الحمد للہ رب العالمین والصلوة والسلام علی سید الا نبیاء والمرسلین واٰلہ الطیبین الطاہرین

نہج البلاغہامیر المومنین علی ابنابی طالب علیہ الصلوة والسلام کے کلام کا وہ مشہور ترین مجموعہ ہے جسے جناب سید رضی برادر شریف مرتضیٰ علم الہدیٰ نے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں مرتب فرمایا تھا ۔

اس کے بعد پانچویں صدی کے پہلے عشرہ میں آپ کا ا نتقال ہوگیا ہے اور نہج البلاغہ کے انداز تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے طویل جستجو کے ساتھ درمیان میں خالی اوراق چھور کر امیرالمومنین کے کلام کو متفرق مقامات سے یکجا کیا تھا، جس میںایک طویل مدت انہیں صرف ہوئی ہوگی اور اس میں اضافہ کا سلسلہ ان کے آخر عمر تک قائمرہا ہوگا .

یہاں تک کہ بعض کلام جو کتاب کے یکجا ہونے کے بعد ملا ہے ،اس کو تعجیل میںانہوں نے اس مقام کی تلاش کئے بغیر جہاں اسے درج ہونا چاہئے تھا ،کسی اور مقام پرشامل کردیا ہے اور وہاں پریہ لکھ دیا ہے کہ یہ کلام کسی اورروایت کے مطابق اس کےپہلے کہیں پر درج ہوا ہے ۔ یہ انداز جمع وتالیف خود ایک غیر جانبدار شخص کے لئے یہپتہ دینے کے واسطے کافی ہے کہ اس میں خود سید رضی کے ملکہٴ انشا اورقوت تحریر کاکوئی دخل نہیں ہے ،بلکہ انہوں نے صرف مختلف مقامات سے جمع آوری کرکے امیر المومنینکے کلام کو یکجا کردینے پراکتفا کی ہے یہ پاشانی اور پریشانی جیسے بحیثیت تالیف کےکتاب کا ایک نقص سمجھنا چاہئے ۔ مقام اعتبار میں اس پر اعتماد پیدا کرنے والا ایکجوہر ہوگیا ہے ۔ انہوں نے مختلف نسخوں اورمختلف راویوں کی یادداشت کے مطابق نقلالفاظ میں اتنی احتیاط کی ہے کہ بعض وقت دیکھنے والے کے ذوق پر بار ہوجاتا ہے کہ اسعبارت کے نقل کرنے سے فائدہ ہی کیا ہوا جبکہ ابھی ابھی ہم ایسی ہی عبارت پڑھ چکےہیں جیسے ذم اہل بصرہ میں اس شہر کے غرقابی کے تذکرے میں اس کی مسجد کا نقشہکھینچنے میں مختلف عبارات کبھینعامة، جاثمةاورکبھیکجوء جوء طیر فی لجةبحراوراس سے ملتے جلتے ہوئے اور الفاظ ،یہ اسی طرح کا اہتمام صحت نقل میںہے

جیسے موجودہ زمانہ میں اکثر کتابوں کی عکس تصویر شائع کی جاتی ہے جس میںاغلاط کتابت تک کی اصلاح نہیں کی جاتی اور صرف حاشیہ پر لکھ دیا جاتاہے کہ بظاہر یہلفظ غلط ہے صحیح اس طرح ہونا چاہئے۔ دیکھنے والے کا دل تو ایسے مقام پر یہ چاہتا ہےکہ

"اصل عبارت ہی میں غلطی کو کاٹ کر صحیح لفظ لکھ د ی گئی ہوتی "

مگر صحت نقل کے اظہار کے لئے یہ صورت اختیار کی جایا کرتیہے، جیسے قرآن مجید میںبعض جگہ تالیف عثمان کے کاتب نے جو کتابت کی غلطیاں کردی تھیں

جیسےلا ذبحنہمیں" لا"کے بعد ایک الف جویقینا غلط ہے،اس لئے کہ یہلائےنافیہنہیں،جس کے بعداذبحنہفعل آئے ، بلکهلا م تاکیدہے جس سےاذبحنہفعل متصل ہے

مگر اس قسم کے اغلاط کو بھی دور کرنا،بعد کےمسلمانوں نے صحت نقل کے خلاف سمجھا۔ اسی طرح املائے قرآن گویا ایک تعبدی شکل سےمعین ہوگیا۔ بعض جگہ "رحمة"کی "ت"لمبی لکھی جاتی ہے ،

بعض جگہجنّٰتبغیر الف کے لکھا جاتا ہے ۔ بعضجگہیدعوجیسے فعل واحد میں بھی وہ ا لف لکھا ہوا ہے کہجو جمع کے بعد غیر ملفوظی ہونے کے باوجود لکھا جایا کرتاہے۔

ان سب خصوصیات کی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے ، جس سے مقصود و ثاقبِ نقل میںقوت پیدا کرنا ہے ۔ اسی طرحعلامہ سید رضینے جس شکلمیں جو فقرہ دیکھا اس کو د رج کرنا ضروری سمجھا تاکہ کسی قسم کا تصرف کلام میں ہونےنہ پائے۔ یہ ایک ورایتی پہلو ہے جو اس تصور کو بالکل ختم کردیتا ہے کہ یہ کتاب سیدرضی رحمہ اللہ کی تصنیف کی حیثیت رکھتی ہو۔
دوسرا پہلو خطبوں کے درمیان کےومنہا،ومنہہیں، جس میں عموما بعد کا حصہ قبل سے بالکل غیرمرتبط ہوتا ہے بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ قبل کا حصہ قبل بعثت سے متعلق ہے یا اوائلبعثت سے اوربعد کا حصہ بعد وفات رسول سے متعلق ہے ۔ یہ بھی دیکھنے والے کے ذوقپربار ہوجایا کرتا ہے ۔ مگر اس سے بھی اس مقصد کو تقویت حاصل ہوتی ہے ۔

اگریه سید رضی کاکلام ہوتا تو فطری طورپر اس سے تسلسل ہوتا یاا گر انہیں دوموضوعوں پر لکھنا ہوتا تو اسے وہ دو خطبوں میں مستقل طورپر تحریر کرتے،لیکن وہ کیاکرتے جبکہ انہیں کلام امیر المومنین ہی کا انتخاب پیش کرنا تھا۔ اس لئے جہاں خطبہکا پہلا جز اور آخر کا جز دو مختلف موضوعوں سے متعلق ہے اور درمیان کا حصہ کسی وجہسے وہ درج نہیں کررہے ہیں تو نہ وہ اس کو کلام واحد بنا سکتے ہیں نہ مستقل دو خطبےبلکہ انہیں ایک ہی کلام میںو منہاکے فاصلے قائم کر ناپڑتے ہیں ۔

میرا خیال یہ ہے کہ یہ شکل بعض جگہ تو انتخاب کی وجہ سے ہوئی ہے اوربعض جگہیہ بھی وجہ ہوسکتی ہے کہ سابق میں قلمی کتابوں کے سوا کوئی دوسری شکل مواد کے فراہمہونے کی نہ ہوتی تھی اور قلمی کتابوں کے اکثر نسخے منحصر بفرد ہوتے تھے۔ اب اگر انمیں درمیان کا حصہ کرم خوردہ ہوگیا ہے یا اوراق ضائع ہوگئے ہیں یا رطوبت سے روشنائیپھیل جانے کی وجہ سے وہ قبل ناقراٴت ہے تو علامہ سید رضی اس موقع پر درمیان کا حصہنقل کرنے سے قاصر رہے ہیں اور حرص جمع و حفاظت میں انہوں نے اس کے قبل یا بعد یاوسط کے وہ سطور تلاش کئے ہیں جو کسی مستقل مفاد کے حامل ہیں اور اس طرح درمیان کےحصوں میں انہوں نےومنہاکہہ کر اس کے درج کرنے سےعاجزی ظاہری کی ہے یہ بھی ہے کہ اس وقت علم کا ایک بڑاذخیرہ حفاظ و ادباء و محدثینکے سینوں میں ہوتا تھا ۔

فرض کیجئے کسی اپنے استاد اور شیخ حدیث سے علامہ سید رضی نے کسی موقعہ کیمناسبت سے خطبہ کاابتدائی حصہ سن لیا اور انہوں نے اسے فوراً قلم بند کرلیا، پھردوسرے موقعہ پر انہوں نے ان کی زبان سے اسی خطبہ کے کچھ دوسرے فقرات سنے اور انہیںمحفوظ کرلیا اور اتنا موقعہ نہ مل سکا کہ درمیانی اجزاء ان سے دریافت کرکے لکھتے ۔اس طرح انہوں نے اس کی خانہ پریو منہاکے ذریعہ سے کی۔

یہ بھی اس کی دلیل قوی ہے کہ انہوں نے اصل کلام امیر المومنین کے ضبط وحفظہی کی کوشش کی ہے ،قطعاً کوئی تصرف خود نہیں کرنا چاہا۔
تیسرا شاہد اس کا خودجناب رضی کے وہ مختصر تبصرے ہیں جوکہیں کہیں کچھ خطبوں کے بعد انہوں نے اس کلام کےمتلعق ا پنے احساسات و تاثرات کے اظہار پر مشتمل درج کردیئے ہیں یا بعض جگہ کچھالفاظ کی تشریح ضرور سمجھی ہے ۔ ان تبصروں کی عبارت نے ان خطبوں سے متصل ہوکر ہرصاحب ذوق عربی دان کے لئے یہ انداز ہ قطعی طور پر آسان کردیا کہ ان تبصروں کاانشاپرداز وہ ہرگز نہیں ہوسکتا ،جوان خطبوں کا انشاپرداز ہے جس طرح خود علامہ رضی نے اپنے مایہ ٴ ناز تفسیر حقائق تنزیل میں اعجازِقرآن کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہباوجودیه کہ امیر المومنین کا کلام جو فصاحت وبلاغت میں مافوق البشر ہے مگر جب خودحضرت کے کلام میں کوئی قرآن کی آیت آجاتی ہے تو وہ اس طرح چمکتی ہے جس طرح سنگریزوںمیں گوہر شاہوار باکل اسی شکل سے

ا گر چہ علامہ سید رضی اپنے دور کے افصح زمانہ تھے اور ادب عربی میں معراجکمال پر فائز تھے ،مگر نہج البلاغہ میں امیرالمومنین کے کلام کے بعد جب ان کی عبارتآجاتی ہے تو ہردیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ اس کی نگاہ بلندیوںسے گر کر نشیب میںپہنچ چکی ہے، حالانکہ ان عبارتوں میں علامہ سید رضی نے ادبیت صرف کی ہے اور انپی حدبھر اپنی قابلیت دکھائی ہے،مگر سابق کلام کی بندی کو ہر مطالعہ کرنے والے کے لئےایک امر محسوس کی حیثیت سے ظاہر کردیا ۔ یہ بھی ایک بہت بڑا داخلی شاہد ہے، اس تصورکے غلط ہونے کا وہ علامہ سید رضی کا کلام ہو۔


چوتھاامر:

یہ ہے کہ جنا ب سید رضی اپنے دور کے کوئی گمنام شخص نہ تھے وہ دینی ودینویدونوں قسم کے ذمہ دار منصبوں پر فائز تھے یہ دور بھی وہ تھا جومذہب و ملت کے علماءو فضلاء سے بھرا ہوا تھا ۔ بغداد سلطنت عباسیہ کا دارالسلطنت ہونے کی وجہ سے مرکزعلم وادب بھی تھا ۔خود سید رضی کے استاد شیخ مفید بھی نہج البلاغہ کے جمع وتالیف کےدور میں موجود تھے اس لئے کہ جنا ب شیخ مفید خو دسید رضی کی وفات کے بعد تک کوموجودرہے ہیں اورشاگرد کا انتقال استاد کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا او رمعاصرین کو تو ایکشخص کے متعلق الزامات کی تلاش رہتی ہے۔پھر شریف رضی سے تو خود حکومت وقت کو بھیمخاصمت پیدا ہوچکی تھی۔ اس محضر پردستخط نہ کرنے کی وجہ سے جوفاطمیین مصر کے خلافحکومت نے مرتب کیا تھا اور جس پر علامہ رضی کے عواقب و نتائج سے بے نیاز ہوکر اس پردستخط سے انکار کردیا تھا

علاوہ اس کے کہ اس کردار کا شخص جو صداقت کو ایسے قوی ترین محرکات کے خلافمحفوظ رکھے اس طرح کی چھچھوری بات کر ہی نہیں سکتا کہ وہ ایک پوری کتاب خود لکھ کرامیر المومنینعلیه السلامکی جانب منسوب کردے جس کا غلط ہوناعلمائے عصر سے مخفی نہیں رہ سکتا تھااور اگر بالفرض وہ ایسا کرتے اس دور میںان کےخلاف علمائے وقت اورارکان حکومت کی طرف سے اس الزام کوشدت سے اچھالا جاتا اور سختسے سخت نکتہ چینی کی جاتی ۔ حالانکہ ہمارے سامنے خود ان کے عصر کے علما کی کتابیںاور ان کے بعدکے کئی صدی تک کے مصنفین کے تحریرات موجود ہیں ان میں سے کسی میںکمزور سے کمزور طریقہ پربھی ان کے حالات زندگی میں اس قسم کے الزام کا عائدکیا جانایا اس بارے میں ان پر کسی قسم کی نکتہ چینی کا ہونا موجود نہیں ہے ۔ اس سے ظاہرہےکہ یہ صرف نہج البلاغہ کے بعض مندرجات کوا پنے معتقدات کے خلاف پاکر کچھ متعصبافراد کی بعد کی کارستانی ہے جو انہوں نے نہج البلاغہ کوکلام ِ سید رضی قرار دینےکی کوشش کی ہے ۔ ورنہ خود جناب سید رضی علیٰ اللہ مقامہ کے دور میں اس کے مندرجاتکاکلام امیرالمومنینعلیه السلامہونا بالا تفریق فرقہ و مذہب ایک مسلّم چیز تھی اور اسی لئے ان پر اس بارے میں کوئیالزام عائد نہیں کیا جاسکا۔


پانچواںامر:

یہ ہے کہ سید رضی علی اللہ مقامہ کے قبل ایسا نہیں ہےکہ امیرالمومنینعلیه السلامکے خطبوںکاکوئی نام ونشان عالم اسلامی میں نہ پایا جاتا ہو،بلکہ کتب تاریخ وادب کے مطالعہ سےپتہ چلتا ہے کہ ایک مسلم الثبوت ذخیرہ بحیثیت خطب امیرالمومنینعلیهالسلامکے سید رضی کےقبل سے موجود تھا ۔ چنانچہ مورّخ مسعودی نے جو علامہ سید رض سے مقدم طبقہ میں ہیںبلکہ ان کی ولادت کے قبل وفات پاچکے تھے۔ اس لئے علامہ سید رضی کا دور شباب ہی میں۴۰۶ھ میں ا نتقال ہوا ہے اور مسعود کی وفات ۳۴۰ھ میں ہوچکی تھی،جس وقت سید رضی کےاستاد شیخ مفید ہی نہیں بلکہ ان کے بھی استاد شیخ صدوق محمد بن علی ابن بابویہ قمیبھی زندہ تھے ۔ مسعودی نے اپنی تاریج مروج الذہب میں لکھا ہے کہ:
والذی حفظ الناس عنہ من خطبہ فی سائر مقاماتہ اربعمائہ خطبة و نیف وثمانون خطبة یوردہا علی البدیہة تد اول الناس ذالک عنہ قولاً وعملاً۔(مروجالذہب، ج۲، ص۳۳، طبع مصر)

لوگوں نے آپ( حضرت علی ابن ابی طالب -) کی جو خطبے مختلف موقعوںکے محفوظ کرلئے ہیں ، وہ چار سو اسّی سے کچھ زیادہ تعداد میں ہیں ۔ جنہیں آپ نے فی البدیہہارشاد فرمایا تھا،جنہیں لوگوں نے نقل قول کے طور بھی بتواتر نقل کیا ہے اور انپےخطب ومضامین میں ان کے اقتباسات وغیرہ سے بکثرت کام بھی لیتے رہے ہیں۔
ظاہر ہےکہ یہ چارسواسّی سے کچھ اوپر خطبے ا گر تمام و کمال یکجا کئے جائیں تو بلا شبہ نہجالبلاغہ سے بڑی کتا ب مرتّب ہو سکتی ہے ۔جب یہ ا تنا بڑا ذخیرہ سید رضی کی ولاد تسے پہلے سے موجود تھا توپھر علامہ سید رضی کو اس کی ضرورت ہی کیا تھی کہ اس ذخیرہسے کام نہ لیں اورا پنی طرف سے نہج البلاغہ ایسی کتاب کو تحریر کردیں۔ ایسا اس شخصکے لئے کیا جاتا ہے جوگمنام ہو اور جس کا کارنامہ کوئی موجود نہ ہو اور اس کے اخلافیا منتسبین خواہ مخواہ اس کو نمایا بنانے کے لئے اس کی جانب سے کوئی کارنامہ تصنیفکردیں۔ صرف علامہ مسعودی کا یہ قول ہی اس ذخیرہ کے ثبوت کے لئے کافی تھا ، جبکہ اسسے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ ذخیرہ آثار قدیمہ کے طورپر کسی دور و دراز عجائب خانہ یاکسی ایک عالم کے متروکات میں شامل نہیں تھاجس تک رسائی کسی زحمت کی طلبگار ہوتیہو،بلکہ حفظ الناس اور تداول الناس کے الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ وہ عموماً اہل علمکے ہاتھوں میں موجود اورمتداول تھا ۔ اس کے علاوہ دور عباسیہ کے یگانہٴ روزگار کابتعبد الحمید بن یحییٰ متوفیٰ ۱۳۲ھ کا یہ مقولہ علامہ ابن ابی الحدید نے شرح نہجالبلاغہ میں درج کیا ہے کہ:

"حفظت سبعین خطبة من خطب الاصلع ففاضت ثم فاضت"

میں نے ستر خطبے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ازبر کئے ہیں،جن کے فیوضوبرکات میرے یہاں نمایاں ہیں۔

اس کے بعد ابن المقفع متوفیٰ ۱۳۲ ھ کا اعتراف ہےجسے علامہ حسن الندوبی نے اپنے ان حواشی میں ، جو کتاب "البیانوالاتبیین للجاحظ"پرلکھے ہیں ،وہ ابن مقفع کے بارے میں لکھتےہیں:

الظاہرانہ تخرج فی البلاغة علی خطبالامام علی ولذلک کان یقول شربت من الخطب من ریا ولم اضبط لہا رویا ففاضت ثمفاضت۔

غالباً ابن المقفع نے بلاغت میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلامکے خطبوں سے استفادہ کیا تھا اور اسی بناپروہ کہتے تھے کہ میں خطبوں کے چشمہ سےسیراب ہوکر پیا ہے اور اسے کسی ایک طریقہ سے محد ود نہیں رکھا ہے تو اس چشمہ کےبرکات بڑھے اورہمیشہ بڑھتے رہے ۔

اس کے بعد ابن نباتہ متوفیٰ ۳۷۴ھ یہ بھی سیدرضی سے مقدم ہیں اور ان کا یہ قول ہے :

حفظت من الخطابة کنزالا یزیدہ الانفاق الا سعة و کثرة حفظت ماٴتہ فصل من مواعظ علی ابن ابیطالب۔

میں نے خطابت کا ایک خزانہ محفوظ کیا ہے ،جس سے جتنا زیادہ کام لیاجائے، پھر بھی اس میں برکت زیادہ ہی ہوتی رہے گی۔میں نے سو فصلیں علی ابن ابی طالبعلیہ السلامکے مواعظہ میں سے یادکی ہیں۔

ابن نباتہ کے اس قول کا بھی ابن ابی حدید نے تذکرہ کیا ہے ۔

رجال کشیمیں ابو الصباح کنانی کے حالات میں لکھا ہے کہ زید ابن علی ابن الحسینعلیہ السلامکہ جو زید شہید کے نامسے مشہور ہیں اور جن کی شہادت امام جعفر صادقعلیہالسلامکے زمانہٴ امامتمیں ہوئی وہ برابر امیرالمومنینعلیہ السلامکے خطبوں کوسنا کرتے تھے۔

ابو الصباح کہتے ہیں:کان یسمع منی خطب امیر المومنین علیہ السلام۔

یہ دوسری صدی ھجری کا ذکر ہے اور اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ ایک ذخیرہ خطبوںکا اس وقت بھی موجود تھا ۔جو مسلّم طور پر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کیطرف نسبت رکھتا تھا۔

رجال کبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ زید ابن وہب جہنی متوفیٰحدود ۹۰ھ نے جو خود حضرت امیرالمومنینعلیہ السلامکے رواة احادیث میں سے ہیں ۔ آپ کے خطبوں کو جمع کیا تھااوراس کے بعد اورمتعدد افراد ہیں،جنہوں نے سیدرضی کے پہلے حضرت نے خطب و اقوال کوجمع کیا جیسے:

۱۔ہشام ابن محمد ابن سائب کلبیمتوفّیٰ ۱۴۶ھ ان کے جمع و تالیف کا ذکر فہرست ابن ندیم ج،۷، ،ص، ۲۵۱ میں موجودہے۔

۲۔ا براہیم ابن ظہیر فرازی،ان کاذکر فہرست طوسیمیں یوں ہے :

صنّف کتبا منہا کتاب الملاحم وکتاب خطبعلیعلیہ السلام۔

متعدد کتابیں تصنیف میں ۔ منجملہ ان کے کتاب الملاحم اور کتابخطب علی علیہ السلام ہے۔

اوررجال نجاشی میں بھی ان کا تذکرہ ہے۔

۳۔ابو محمد مسعدہ ابن صدقہ عبدی ۔ ان کے متعلّق رجال نجاشی میںہے:

لہ کتب منہا کتاب خطب امیر المومنین علیہ السلام

ان کے متعدد تصنیفات ہیں ،جن میں سے ایک کتاب خطب علی علیہالسلام ہے۔

۴۔ابو القاسم عبد العظیم ابن عبد اللہ حسنی، جنکا مزارتہران کے تھوڑے فاصلہ پر شاہ عبد العظیم کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ امام علینقی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔ ان کے جمع کردہ خطبوں کاذکر رجال نجاشی میںاس طرح ہے۔

لہ کتاب خطب امیر المومنین علیہ السلام

ان کی ایک کتاب خطب علی علیہ السلام ہے۔

۵۔ابو الخیر صالح ابن ابی حماد رازی، یہ بھیامام علی - کے اصحاب میں سے ہیں ۔ نجاشی میں ہے :

لہ کتب منہا کتاب خطب امیر المومنین علیہ السلام

منجملہ آپ کی تالیفات کے خطب امیر المومنین علیہ السلامہے۔

۶۔علی ابن محمد ابن عبد اللہ مدائنی متوفی ۳۳۵ھ۔ انہوں نے حضرت کے خطبوں کو اور ان مکاتیب کوجمع کیا،جو حضرت نے اپنے عمال کوتحریر فرمائے تھے ،اس کا ذکر معجم الادبار یاقوت حموی ج۵،ص ۳۱۳ میں ہے ۔

۷۔ابومحمد عبد العزیز جلودی بصری توفی ۳۳۰ ھ کے تصانیف میںکتاب خطب علیعلیہ السلام،کتاب رسائل ،کتاب مواعظِ علیعلیہ السلامکتاب خطب علی علیہ السلام فی الملاحم ،کتا ب دعائے علیعلیہالسلامموجود ہیں،جن کاتذکرہ شیخ طوسی نے فہرست میں اورنجاشی نے ان کے طویل تصنیفات کے ذیل میں اپنے رجالمیں کیا ہے ۔

۸۔ابو محمدحسن ابن علی ابن شعبہٴ حلبیمتوفیٰ ۳۲۰ ھء نے اپنے مشہور کتاب تحف العقول (ص۱۳، طبع ایران) میں امیر المومنینکے کچھ کلمات امثال اور خطب کودرج کرنے کے بعد لکھا ہے :

اننالو استغرقنا جمیع ما وصل الینا منخطبہ وکلامہ فی التوحید خاصةدون ماسواہ من المعانی لکان مثل جمیع ہذاالکتاب۔

اگر ہم وہ سب لکھنا چاہیں ،جو ہم تک حضرتعلیہ السلامکے خطبے اور آپ کا کلامصرف توحید کے بارے میں پہنچا ہے علاوہ دوسرے موضوعات کے تو وہ پوری اس کتاب (تحفالعقول) کے برابر ہوگا۔

اب مذکورہ بالا تفصیل پر نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہپہلی صدیمیںزید بن وہبجہنینے حضرت کے خطبوں کا ایک مجموعہ تیا ر کیا تھا۔

دوسری صدیمیںعبد الحمیدابن یحییٰ کاتباورابن مقفعکے دور میں وہذخیرہ مسلّم طورپر موجود تھاا ور اس صدی کے وسطی دورمیں وہ خطبے پڑھے اور سنے جاتےتھے ، جیسا کہزید شہیدکے واقعہ سے ظاہر ہوا او رادباءاس کو زبانی حفظ کرتے تھے ، جیسا کہعبد الحمیداورابن مقفّعکے تصریحات سے ظاہر ہوا۔
تیسری صدیمیں متعدد مصنفین نے جو جو خطبے ان تک پہنچےتھے،ان کو مدوّن کیا۔ ایسی صورت میں جناب سید رضی کواس کی ضرورت ہی کیا تھی کہ وہان تمام ذخیروں کونظر انداز کر کے یہ دماغی کاوش و کاہش گوارا کریں کہ وہ از خودکلام امیر المومنینعلیہ السلامکےنام سے کوئی چیز تصنیف کریں۔


چھٹاامر:

یہ ہے کہ ان تمام ذخیروں کے سابق سے موجود ہونے کے بعد ظاہر ہے کہ علامہ سیدرضی کے لئے یہ تو قطعی ممکن نہیں تھا کہ وہ ان تمام ذخائر کو تلّف کرادیتے اور پھراسی کی ترویج کرتے جو انہوں نے کلامِ امیر المومنینعلیہ السلامقرار دیا تھا یہ قطعیناممکن تھا اگر وہ ذخیرہ کسی ایک مصنّف کے پاس کسی ایک دور ودراز جگہ ہوا ،تو امکانبھی تھا ، جیسا کہ مشہور ہے کہ شیخ ابوعلی سینا نے فارابی کے تمام مصنّفات کوکسیشخص سے حاصل کر کے انہیں تلف کردیا اور ان چیزوں کو اپنی طرف منسوب کر لیا۔

یہاں یہ صورت قطعاً ناممکن تھی جبکہ وہ کلام ادباء کے سینوں میں محفوظ تھا۔اطراف و اقطار عالم اسلامی میں منتشر تھا اور بہت سے مصنّفین اس کی تدوین کر چکےتھے۔پھر جبکہ سید رضی کی تصنیف کے ساتھ ان ذخائر کا موجود ہونا لازمی تھا تو اگرسید رضی کا جمع کردہ کلام اس ذخیرہ سے مختلف ہوتا یا اسلوب بیان میں اس سے جدا ہوتاتووہ تمام ادبائے زمانہ، خطبائے رزوگار، علمائے وقت جو اس کالم کود یکھتے ہوئے،پڑھے ہوئے یا یاد کئے ہوئے تھے،صدائے احتجاج بلند کر دیتے، ان میں تلاطم ہوجاتا اورسید رضیّ تمام دنیا میں اس کی وجہ سے بدنام ہوجاتے ۔ کم از کم کوئی ان کے ہم عصرادباء میں سے اس کی تنقید ہی کرتا ہوا ایک کتاب ہی اس موضوع پر لکھ دیتا کہامیرالمومنینعلیہ السلامکاجو کلام اب تک محفوظ رہا یہ سید رضی کے جمع کئے ہوئے ذخیرہ سے مختلف ہے خصوصاً جبوہ وجہ جو بعد میں ایک طبقہ کو اس باب میں انکار یا تشکیک کی موجب ہوئی، جس کیتفصیل کسی حد تک آئندہ درج ہوگی۔ وہ ایک مذہبی بنیاد تھی یعنی یہ کہ نہج البلاغہمیں ان افراد کے بارے میں جنہیں سواد اعظم قابل احترام سمجھتا ہے کچھ تعریفات یاانتقادی کلمات ہیں۔

ظاہر ہے کہ نہج البلاغہ سلطنت عباسیہ کے دار السلطنت میںلکھی گئی جو اہل سنت کاعلمی مر کز تھا اس قوت بڑے بڑے علما،حفاظ،ادبا، خطبا،اہل سیراور محدثین اہل سنت میں موجود تھے اور ان کا جم غفیر خاص بغداد میں موجود تھا اگرامیر المومنینعلیہ السلامکےوہ خطبات جو ابن المقفع ،ابن نباتہ ، عبدالحمید ابن یحییٰ، جاحظ اوردیگر مسلّمالثبوت ادباء کے دور میںموجود تھے ، ان تعریضات سے خالی تھے اور اس قسم کے مضامینان میں نہ تھے ،بلکہ فطری طورپر اس صورت میں اس کے خلاف چیزوں پر انہیں مشتمل ہوناچاہئے تھا،تو اس وقت کے اہل سنت کے علماء اس پر قیامت برپا کردیتے اور اس کے اپنےمذہب کے خلاف ایک عظیم حملہ تصور کر کے پورے طور سے اس کا مقابلہ کرتے اور اس کیدھجیاں اڑادیتے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا،کوئی دھیمی سی آواز بھی اس کے خلاف بلند نہیںہوئی۔ یہ ا س کا قطعی ثبوت ہے کہ سید رضی کے جمع کردہ مجموعہ میں کوئی نئی چیز نہتھی بلکہ وہ وہی تھا جو اس کے پہلے مضبوط و مدون،متداول و محفوظ رہ تھا،علماء قطعااس سے اجنبیت نہ رکھتے تھے بلکہ اس سے مانوس اورا س کے سننے کے اور یاد کرنے کےعادی تھے وہ اس ادبی ذخیرہ کو اس کی ادبی افادیت کے اعتبار سے سر آنکھوں پر رکھتےتھے اور اس تنگ نظری میں مبتلا نہ تھے کہ چونکہ اس میں کچھ چیزیں ہمارے مذہب کےخلاف ہیں ،اس لئے اس کا انکار کیا جائے یا اس سے اجنبیت برتی جائے۔


ساتوںامر :

یہ ہے کہ بہت سی کتابیں علامہ سید رضی کے قبل کی اس وقت بھی ایسی موجودتھی،جن میں امیرالمومنینعلیہ السلامکےاکثر مواقع کے کلامی خطبات کو کسی مناسبت سے ذکر کیا ہے جیسے

جاحظ متوفی ۲۵۵ ھ کی البیان والتبیین،

ابن قتیبہ دنیوری متوفی ۲۷۶ ھ کی عیون الاخبار و غریبالحدیث،

ابن واضح یعقوبی متوفی ۲۷۸ ھ کی مشہور تاریخ،

ابوحنیفہ دینوری متوفی ۲۸۰ ھ کی لاخبار الطوال،

ابوالعباس المبرد متوفی ۲۸۶ ھ کی کتاب المبرد

مشہور مورخ ابن جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ کی مشہور تاریخ کبیر،

ابن ورید متوفی ۳۲۱ھء کی کتاب المجتنیٰ

ابن عبد ربہ متوفی ۳۲۸ ھ کی عقد الفرید ،

ثقة الاسلام کلینی متوفی ۳۲۹ ھ کی مشہور کتاب کافی

مسعودی متوفی ۳۴۶ ھ کی تاریخ مروج الذہب،

ابو الفرج اصفہانی متوفی ۳۵۶ ھ کی کتاب اغانی ،

ابوعلی قالی متوفی ۳۵۶ ھ کی کتاب النوادر،

شیخ صدوق متوفی ۳۸۱ ھ کی کتاب التوحید اور ان کے دوسرے جوامع حدیث،

شیخ مفید رحمہ اللہ، متوفی ۳۱۶ ھ ، اگر چہ تاریخ وفات کے اعتبار سے جناب رضیموخر ہیں مگر ان کے استاد ہونے کی وجہ سے طبقةً مقدم ہیں ،ان کی کتاب الارشاد اورکتاب الجمل ،ان تمام کتابوں میں جو حضرت کے خطبے درج ہیں، ان کا جب مقابلہ علامہسید رضی کے مندرجہ خطب اور اجزاء کلام سے کیا جاتا ہے تو اکثر تووہ بالکل متحد ہوتےہیں اور نہج البلاغہ میں ایسا درج شدہ کلام اگر کوئی ہے جو ان کتابوں میں درج نہیںہے یا ان کتابوںمیں کوئی کلام ایسا ہے جونہج البلاغہ میں مذکور نہیں ہے۔ تو اسلوببیان اورانداز کلام،تسلسل و بلند آہنگی ، جو ش و حقائق نگاری کے لحاظ سے یقیناًمتحدہوتا ہے جس میں کسی واقف عربیت کو شک نہیں ہوسکتا ۔امیر المومنین کے اس کلامکاجونہج البلاغہ میں درج ہے اس تمام کلام سے جو حضرت کی طرف نسبت دے کر اور دوسریکتابوں میں درج ہے متحد الاسلوب ہونا پھر اس پہلو کے ضمیمہ کے ساتھ جس کا پہلےتذکرہ ہوجگا ہے کہ وہ خود سید رضی کے اس کلام سے جونہج البلاغہ میں بطور مقدمہ یایہ تبصرہ موجود ہے ۔ بالکل مختلف ہونا ایک غیر جانب دار شخص کے لئے اس کا کافی ثبوتہے کہ یہ واقعی امیر المومنین ہی کاکلام ہے جسے علامہ سید رضی نے صرف جمع کیاہے۔
آٹھواں امر :

یہ ہے کہ کہ خو د علامہ سید رضی کے معاصرین یا ان سے قریب العہد متعدد لوگوںنے بطور خود بھی کلام امیر المومنینعلیہ السلامجمع کرنے کی کوشش کی ہے اور بعض نے اپنی کتابوں کے ضمن میںدرج کیا ہے جیسے:

ابن مسکویہ متوفی ۴۲۱ ھء نے تجازب الامم میں ،

حافظ ابونعیم اصفہانی متوفی ۴۳۰ ھ نے حلیة الاولیامیں،

شیخ الطائفہ ابوجعفر طوسی متوفی ۴۶۰ ھ نے جو شیخ مفید رحمہ اللہ نے تلمذ کیحیثیت سے علامہ رضی کے ہم طبقہ اور علم الہدیٰ سید مرتضیٰ کے شاگرد ہونے کی حیثیتسے اورنیز سال وفات کے ا عتبار سے ان سے ذرا موخر ہیں ۔ اپنی کتاب ،تہذیب اور کتابالامالی میں ،

نیز عبد الواحد ابن محمد ابن عبد الواحد آمدی جواسی عصر کے تھے اپنی مستقلکتاب غرر الحکم و دررالکلم جوامیر المومنینعلیہ السلامکے مختصر کلمات پرمشتمل ہے او رمصر وصیدا اورہندوستان میں طبع ہوچکی ہے اور اس کا اردومیں ترجمہ بھیہوچکا ہے ۔

نیز ابو سعید منصور ابن حسین آبی وزیر متوفی ۴۲۲ھ اپنی کتاب نزہة الادب ونثر الدرر میں جس کا ذکر کشف الظنون باب النون میں اورقاضی ابو عبد الہ محمد بنسلامہ قطاعی شافعی متوفی ۴۵۳ھ جن کی عظیم الشان کتاب اس موضوع پر دستور معالم الحکمکے نام سے ہے اور وہ مصر میں طبع ہوجگی ہے یہ سب تقریبا سید رضی کے معاصرین ہی ہیں۔ان سب کی کاوشیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ سوائے ابو سعید منصور کی کتاب کے جس کاکشف الظنون میں تذکرہ ہے باقی یہ سب کتابیں مطبوع و متداول ہیں ۔ ان میں جو کلاممندرج ہے وہ بھی علامہ سید رضی کے درج کردہ کلام سے عیناً متحد یا اسلوب میں متفقہی ہے ۔

پھر اگر سید رضی کی نسبت یہ تصور کیا جائے کہ انہوں نے خود اس کلام کو تصنیفکردیا ہے تو ان تمام جامعین اور اپنی کتابوں کے ضمن میں درج کرنے والے دوسرے افرادکو کیا کہا جائے گا ۔ پھر ان کی نسبت بھی یہی تصورکرنا چاہئے، جبکہ ان میں سے سب یازیادہ افراد یقینا جلالت شان اور ورع وتقویٰ وغیرہ میں علامہ سید رضی سے بالاترنہیں معلوم ہوتے ۔

اب اگر ان سب کی نسبت یہی خیال کیا جائے ، تو خیر علامہ سید رضی تو اشعرالطالبین تھے اورکتب سیرانہیں خود ادبیت اور فصاحت و بلاغت میں معراج کمال پر ظاہرکرتے ہیں ۔ مگران میںسے ہر شخص کی نسبت تو یہ تصور قطعی غلط ہے کہ وہ سب علامہ سیدرضی ہی کے ادبی حیثیت سے ہم پایہ تھے پھر ایسے مختلف المرتبہ اشخاص کی ذہنی کا وشوںاور قلمی ثمرات میں اتنا ہی فرق کیوں نہیں ہے ،جو خود ان اشخاص کے مبلغ علمی میںیقینی طورپر پایا جاتا ہے ۔ اشخاص کہ جو کلام کے جمع کرنے والے ہیں ان میں آپس میںزمین و آسمان کافرق اور کلام جو انہوں نے جمع کیا ہے وہ سب ایک ہی مرتبہ ،ایک ہیشان کا اسے دیکھتے ہوئے سوائے ایسے شخص کے جو جان بوجھ کر حقیقت کے انکار کرنےپرتلا ہوا ہواور کسی کو اس میں شک وشبہ بھی باقی نہیں رہ سکتا کہ ان اشخاص کا کارنامہ صرف جمع و تالیف ہی ہے ۔ جس میں ان کے سلیقہ اورذوق کا ااختلاف فقط شان ترتیباور عنوان تالیف میں نمودار ہوتا ہے ، لیکن اصل کلام میں ان کی ذاتی قابلیت ،ذہانتاور مبلغ علمی اورمعیا رادبی کو ذرہ برابر بھی دخل نہیں ہے ۔

نواں امر :

یہ ہے کہ مذکورہ بالا افراد اگر چہ اپنے زمانہٴ حیات کے کچھ حصوں میں علامہسید رضی سے متحدہیں، مگر ان میں سے متعدد افراد کے سال وفات کو دیکھتے ہوئے یہ یقینہے کہ ان کا زمانہ جمع وتالیف نہج البلاغہ سے موخر ہے اور اس کے بعد ایک ایسا طبقہہے جو بالکل علامہ رضی سے موخّر ہی ہے ۔ جیسے ابن ابی الحدید متوفی ۶۵۵ھ ،سبط ابنجوزی متوفی ۶۰۶ھ اوراس کے بعد بہت سے مصنفین ۔ظاہر ہے کہ علامہ رضی کی کتاب نہجالبلاغہ گوشہٴ گمنامی میں اور ان لوگوں سے مخفی نہ تھی۔ ان لوگوں کا محرّک اس جمع وتالیف پر صرف یہ تھا کہ علامہ سید رضی نے انتخاب سے کام لیتے ہوئے یا ماخذوں کی کمیسے یا ان نسخوں کے کرم خوردہ یا ناقص ہونے کی وجہ سے جوان کے پاس تھے، بہت سےاجزائے کلام امیرالمومنینعلیہالسلامکے نقل نہیںبھی کئے تھے۔ اس لئے مصنفین کو مستدرک اور مستدرک درمستدرک کی ضرورت پڑتی رہی، جسکا سلسلہ ماضی قریب میں علامہ شیہ ہادی آل کاشف الغطا تک جاری رہا۔ جنہوںنے مستدرکنہج البلاغہ تحریر فرمایا جونجف اشرف میں طبع ہوچکا ہے ۔

اگر علامہ سید رضی کے قریب العہد یا ان کے بعدکے اہل قلم کو بھی نہج البلاغہکے مندرجہ کلمات و خطب میں یہ خیا ل ہوتا کہ یہ جناب سید رضی نے تصنیف کرکے اس میںشامل کردیئے ہیں تو وہ سب بالخصوص معاصرین جو کسی رعایت کے لئے کبھی تیا رنہیں ہوتے،اپنی کتابوں کی وجہ تالیف میں اس کا تذکرہ ضرور سمجھتے چونکہ اس کے قبل جو کتابامیرالمومنین کے خطبوں پر مشتمل کہہ کر لکھی گئی ہے اس میں آپ کا اصل کلام موجودنہیں ہے ۔ بلکہ وہ ساختہ وپرداختہ اوروضعی ہے ، اس لئے ہمیں ضرورت محسوس ہوئی کہ ہمآپ کا اصلی کلام منظر عام پر لائیں،جبکہ ایسا نہیں ہوا اور یہ بالکل مشاہدہ ہے کہایسا نہیں ہوا تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ان سب کے نزدیک علامہ سید رضی نے جو کلامجمع کیا،وہ بلاشبہ کلام امیر المومنینعلیہ السلامکی حیثیت سےاس کے پہلے سے مدوّن و متداول تھا

ان کی سید رضی سے شکایت صرف بعض خطبوں کو چھوڑدینے یا احاطہ واستقاضہ نہکرنے یا شان ترتیب و عنوان تالیف میں کسی مناسب تر صورت کو اختیار نہ کرنے ہی کیتھی جس کے لئے انہوں نے بھی اس بارے میں کوشش ضروری سمجھی،جس کا سلسلہ ابھی تک جاریہے اورممکن ہے کہ بعض مصنفین اب بھی کسی خاص ترتیب سے نہج البلاغہ کے مندرجہ خطب کودےکھنے کے متمنی ہوں ۔ یہ دوسری چیز ہے اورا صل کلام کے بارے میں کسی شک و شبہ کارکھنا دوسری چیز ہے ۔

دسواںامر:

تلاش کی جاتی ہے کہ نہج البلاغہ کے مندرجہ خطب واقوال کا پتہ اب بھی بعینہالفاظ نہج البلاغہ کے قبل تالیف شدہ کتابوں میں مل جاتا ہے اور جبکہ اکثر حصہ اسکاقبل کی کتابوں میں مندرج موجود ہے تو تھوڑا سا حصہ اگر دستیاب نہ بھی ہو توایکمعتدل ذہن میں اس سے کوئی شک و شبہ پیدا نہیں ہوسکتا ،جبکہ یہ معلوم ہے کہ دنیا میںمختلف حوادث کے ذیل میں کتابوں کے اتنے ذخیرے تلّف ہوئے ہیں جو اگر موجود ہوتے تویقینا موجودہ ذخائر سے بدرجہازیادہ ہوتے خود تاریخ نے کلام امیرالمومنینعلیہ السلامکے جن جمعشدہ ذخیروں کا پتہ علامہ سید رضی کے قبل ہم تک پہنچتا ہے وہی سب اس وقت کہاںموجودہیں؟ اس لئے اگر بعض مندرجات رائج الوقت کتابوں میں نہیں بھی ملتے تو ذہن یہی فیصلہکرتا ہے کہ ان کتابوں میں موجود ہوں گے ،جن تک ہماری اس وقت دسترس نہیں ہے ۔ نہجالبلاغہ کے مندرج کے ان حوالوں کو پہلے علامہ شیخ ہادی کاشف الغطا نے مستدرک نہجالبلاغہ کے اثنائے تالیف ہی میں مدارک نہج البلاغہ کے نام سے مرتّب کیا تھا، جوغالباً مکمل شائع نہیں ہوا ہے اور ایک قابل قدر کوشش رامپور کے ایک سنی فاضل عرشیصاحب نے کی ہے ، جو فاران کراچی میں مقالہ کی صورت میں شائع ہوئی ہے اورمزید تلاشکی جائے تو اس سلسلہ میں مزید کامیابی کا بھی امکان ہے ۔

گیارہواں امر:

محققین علمائے شیعہ کا رویہ دیکھا جائے تووہ ہر اسکتاب مجموعہ کوجو معصومینعلیہم السلاممیں سے کسی کیطرف منسوب ہو بلا چون و چرا صرف اس لئے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوجاتے کہ وہمعصومینعلیہم السلامکی جانب منسوبہے بلکہ وہ پوری فراخ حوصلگی کے ساتھ محققانہ فریضہ کو انجام دیتے ہوئے اگر وہ قابلانکار ہوتا توکھل کر اس کا انکار کردیتے ہیں اوراگر مشکوک ہوتا ہے تو شک وشبہ کااظہار کردیا کرتے ہیں اور اس طرح بہت سے وہ ذخیرے جومعصومینعلیہم السلامکے نام سےموجود ہیں ۔ مقام اعتبار میں مختلف درجے اختیار کر چکے ہیں مثلا دیوانامیرالمومنینعلیہ السلامبھی تو بطورکلام علیعلیہ السلامہی رائج ہےمگر علمائے شیعہ بلا رورعایت اسے غلط سمجھتے ہیں اس سے بالاتردرجہ تفسیر امام حسنعسکری علیہ السلام کا ہے ۔ حالانکہ وہ شہرت میں تقریباً نہج البلاغہ سے کم نہیں ہےاور شیخ صدوق ایسے بلند مرتبہ قدیم محدث نے اس پر اعتماد کیا ہے مگر اکثر علمائےشیعہ اسے تسلیم نہیں کرتے ،یہاں تک کہ ہمارے قریبی دور کے محقق علامہ شیخ محمد جوادبلاغی نے ایک پورا رسالہ اس کے غلط ہونے کے اثبات میں لکھ دیا ہے ،فقہ الرضا، امامرضا علیہ السلام کی طرف منسوب ہے مگر اس کے اعتبار اور عدم اعتبار کی بحث ایک مہتمبالشان علمی مسئلہ بن گئی ہے جس پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں ۔اسی طرح جعفریات اورامام رضا علیہ السلام کا رسالہ ذہبیہ وغیرہ کوئی نقد و بحث سے نہیں بچا ہے اس رویہکے باوجود سید رضی کے بعد سے اس وقت تک کسی دور میں بھی کسی شیعہ عالم کا نہجالبلاغہ کے خلاف آواز بلند نہ کرنا اور اس میں ذرہ بھر بھی شک و شبہ کا اظہار نہکرنا اس کا ثبوت قطعی ہے کہ ان سب کی نظر میں اس کی حیثیت ان تمام مجموعوں سے ممتازاور جدا گانہ ہے ۔

نہج البلاغہ کے ہم پلہ اس حیثیت سے اگر کوئی کتاب ہے تو صرف صحیفہ کاملہ جواسی طرح مسلم طور پر امام زین العابدین علیہ السلام کے کلام کا مجموعہ ہے اورکوئیکتاب اس ذیل میں ان دونوں کے ہم مرتبہ نہیں ہے ۔
مذکورہ بالاوجوہ کا نتیجہ یہ ہےکہ علامہ سید رضی کے بعد تقریباً دوڈھائی سو برس تک نہج البلاغہ کے خلاف کوئی آوازاٹھتے ہوئے معلوم نہیں ہوتی بلکہ متعدد علمائے اہل سنت نے اس کی شرحیں لکھیںجیسے

ابو الحسن ابن ابی القاسم بیہقی متوفی ۵۶۵ ھ۔

ابن ابی الحدید ۶۵۵ ھ

علامہ سعد الدین تفتازانی وغیرہ ۔

غالباً انہیں علمائے اہل سنت کے شروح وغیرہ لکھنے کا یہ نتیجہ تھا کہ عواممیں نہج البلاغہ کا چرچا پھیلا اور اس کے ان مضامین کے بارے میں جو خلفائے ثلاثہ کےبارے میں ہیں اہل سنت میں بے چینی پیدا ہوئی اور اب آپس میں بحثیں شروع ہوگئیں اوراس کی وجہ سے علما کو اپنے اصول عقائد سنبھالنے کے لئے اور عوام کو تسلی دینے کےلئے نہج البلاغہ کے بارے میں شکوک وشبہات اور رفتہ رفتہ انکار ضرورتپڑی چنانچہ سب سے پہلے ابن خلکان متوفی ۶۸۱ ھ نے اس کو مشکوک بنانے کی کوشش کیاور علامہ سید رضی کے حالات میں یہ لکھا کہ:

قد اختلف الناس فی کتاب نہج البلاغہالمجموعة من کلام علی ابن ابی طالب ہل ہوجمع اواخوہ الرضی و قد قبل انہ لیس من کلامعلی ابن ابی طالب و انما الذی جمعہ و نسبہ الیہ ہو الذین وضعہ واللہاعلم۔

لوگوں میں کتاب نہج البلاغہ کے بارے میں جو امیر المومنین علیابن ابی طالبعلیہ السلام کے کلام کا مجموعہ ہے اختلاف ہے کہ وہ انہی (سید مرتضیٰ) کا جمع کردہ ہے یا ان کے بھائی سید رضی کا اور بعض کہتے ہیں کہ یہ جنا ب امیرالمومنین علیہ السلامکا کلام ہی نہیں ہے ،بلکہ جسے جامع سمجھا جاتا ہے، اسی کی یہ تصنیف ہے ۔ واللہ اعلم۔

یہ امر بہت قابل لحاظ ہے کہ نہج البلاغہ کے بارے میں اختلافی آوازڈھائی صدی کے بعد بھی نہج البلاغہ کے تالیف کے مرکز یعنی بغداد یا ملک عراق کے کسیشہر سے بلند نہیں ہوئی، بلکہ مغربی مملکت جہاں بنی امیہ کی سلطنت تھی اور قیروان وقرطبہ میں جس سلطنت کے زیراثر علماء کی پرورش ہور رہی تھی وہاں ابن خلکان مغربی کیزبان سے یہ آواز بلند ہورہی ہے ظاہر ہے کہ یہ لوگ جنہیں اختلف الناس کہا جارہا ہےیہ مسلمان دارالخلافہ کے کوئی ذمہ دار افراد نہیں ہیں ورنہ اختلف العلماء ، اختلفالمحققون،اختلف الادباء ایسے کوئی وقیع الفاظ درج کئے جاتے بلکہ یہ الناس امویسلطنت کے پرودرہ مملکت مغربیہ کے سنی عوام ہیں جنہیں یہ خبر تک نہیں ہے کہ یہ کتابسید رضی کی جمع کردہ ہے یا سیدمرتضیٰ کی اور یہ جناب ابن خلکان کا تقیہ ہے کہ وہخود اپنے اطلاعات کو جو اس کتاب اوراس کے جامع کے بارے میں یقینا ان کو تھے، پیشنہیں کرتے بلکہ عوام کے جذبات کی تسلی کے لئے خود اپنے اطلاعات کوجواس کتاب اور اسکو جامع کے بارے میں یقینا ان کو تھے ، پیش نہیں کرتے بلکہ عوام کے جذبات کی تسلیکے لئے خود انہیں عوام کے اختلافات کی ترجمانی کر دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ بعض لوگاسے سید مرتضیٰ کا جمع کردہ کہتے ہیں اور بعض سید رضی کا اور خود ان کے ضمیر کافیصلہ پہلے آجاتا ہے کہ جمع کرنے والا کوئی بھی ہو،لیکن ہے وہ کلام امیرالمومنینعلیہ السلامہی کا اور پھرعوامی جذبات کو دھچکا پہنچنے کے اندیشے سے وہ بعض ان متعصب مجہول الاسم والرسماشخاص کے اس عذر کو جواس کے مضامین کے تسلیم کرنے سے گریز کے لئے وہ مقام مناظرہمیں پیش کرتے تھے کہ ہم اسے کلامعلیعلیہ السلامیہی تسلیمنہیں کرتے وہ قیل کہہ کے ذکر کر دیتے ہیں کہ بعض ایسا کہتے ہیں کہ یہ امیر المومنینعلیہ السلامکا کلام ہےہی نہیں بلکہ جس نے جمع کیا ہے اسی نے اس کو تصنیف کردیا ہے ۔ یہ خود قیل اس قول کےضعف کے لئے کافی تھا لیکن خود ان کا ضمیر اس قیل سے چونکہ مطمئن نہیں ہے لہذا آخرمیں واللہ اعلم کہہ کے وہ اس میں مزید شک و شبہ کا اظہار کردینا چاہتےہیں

اس سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ ابن خلکان اس بارے میں اپنے فیصلہ کو ماحول کےدباؤ سے ظاہر کرنا نہیں چاہتے اور وہ صرف عوام کی باہمی چہ میگوئیوں کا تذکرہ کرکےاپنا دامن بچالے جانا چاہتے ہیں ظاہر ہے کہ اس قسم کی تشکیک کا علمی دنیا میں کوئیوزن ہی نہیں مانا جاسکتا۔

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بہت ہوتا ہے اگر چہ علامہ ابنخلکان نے اپنے ضمیر کی تحریک سے بہت حد تک اپنے کو نہج البلاغہ کے انکار کی ذمہداری سے بچایا تھا مگر ان کے ان الفاظ نے بعد والے میدان مناظرہ کے پہلوانوں کوآسانی سے یہ داوٴں بتادیا کہ وہ نہج البلاغہ کے کلام امیر المومنین ہونے کا انکارکردیں چنانچہ اس کے ایک صدی کے بعد ذہبی نے جو اپنے دورکے انتہائی متعصب شخص تھے،یہ جراٴت کی کہ وہ اس شک کو یقین کا درجہ دے دیں اورانہوں نے سید مرتضیٰ کے حالاتمیں لکھ دیا کہ:

من طالع کتابہ نہج البلاغہ جزم بانہمکذوب علی امیرالمومنین نفیہ السب الصریح بل حط علی السیدین ابی بکر و عمر۔

جو شخص ان کی کتاب نہج البلاغہ کو دیکھے وہ یقین کر سکتا ہےکہ امیر المومنین حضرت علی کی طرف اس کی نسبت بالکل جھوٹ ہے ۔اس لئے کہ اس میں کھلاہوا سب و شتم اور ہمارے دونوں سرداروں ابوبکر و عمر کی تنقیص ہے۔

اب آپ ذرا اس عجیب رفتار کو دیکھئے کہ تالیف نہج البلاغہ سے دو ڈھائی سو برسبعد یعنی ابن خلکان کے عہد تک توا ختلاف یا شک و شبہ کا بھی نہج البلاغہ کے بار ےمیں یہ پتہ نہیں چلتا ۔اس کے بعد ابن خلکان ملک مغرب میں بیٹھ کر عوام الناس کےاختلاف کا اس بارے میں اظہار کرتے ہیں کہ یہ سید رضی کی جمع کردہ کتاب ہے یا سیدرضی کی اور ایک ضعیف قول اس کا بیان کرتے ہیں کہ اس کی نسبت امیر المومنینعلیہ السلامکی جانب غلطہے اورپھر واللہ اعلم کہہ کر اس تغلیط کو مشکوک کرتے ہیں ۔ یہ اس وقت جبکہ قربعہدکی وجہ سے پھر بھی ذرائع اطلاع زیادہ ہوسکتے تھے اور اس کے ایک صدی کے بعد ذہبیپہلے تو بیک گردش قلم اس اختلاف کو جوجامع کے بارے میں تھا ، ختم کر کے اسے سیدمرتضی کا کارنامہ قرار دے دیتے ہیں اور پھر اس کے شک کو یقین کا درجہ دے کر یہ کہتےہیں کہ جو بھی نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے و ہ ایسا ہی یقین کرے گا، اس کے معنی یہہیںکہ ان کے وقت تک تین سو برس میں گویاکسی نے اس کتاب کا مطالعہ ہی نہ کیا تھا یاانہیں کوئی ا یسی عینک ملی ہے جواس سے پہلے کسی کے پاس نہ تھی اور اب وہ اسی عینکسے اپنے دور کے بعد ہرشخص کونہج البلاغہ کے مطالعہ کی دعوت دے رہے ہیں وہ عینک کیاہے اسے خود اپنے آخر کلام میں درج کردیتے ہیں ۔علمی حیثیت سے اصول روایت کے لحاظ سےتنقیدی قوانین کے پیش نظر انہیں چاہئے تھا کہ اس کی نسبت غلط ہونے کے ثبوت میں امیرالمومنینعلیہ السلامکا وہ مسلّمکلام پیش کرتے جو سید رضی کے علاوہ دوسرے مستند ماخذوں سے ان کے نزدیک مسلم ہوتااوروہ سید رضی کے مندرجہ مضامین سے مختلف ہوتا خود سید رضی کے زمانہ والے مصنفین کےانتقادات کا حوالہ دیتے کہ انہیں نے بھی اسے غلط قرار دیا ہے ۔ اس تین سوبرس کی مدتمیں دوسرے علما و ناقدین نے جو کچھ اس کی ردوقدح کی ہوتی اسے پیش کرتے مگر ان کےجیب و دامن تحقیق میں کوئی ایسی سند موجود نہیں ہے ۔ان کی دلیل اس نسبت کے یقینیطورپر جھوٹ ہونے کی صرف یہ ہے کہ اس میں ان کے دوسرداروں کی تنقیص ہے ۔کیا علمیدنیا میں اس دلیل کی کوئی قیمت ہوسکتی ہے ۔یہ بالکل ایسا ہے جیسے قرآن نازل ہونے کےچند صدی بعد کوئی طبقہ مشرکین کا قرآن کے کلام الٰہی ہونے کاصرف اس لئے انکار کرےکہ اس میں ان کے اللہ کے خلا ف تنقیص ومذمت کی آیتیں ہیں حقیقت یہ ہے کہ حقیقت کواپنے جذبات کا تابع بناکر اگر چانچا جائے ، توکوئی حقیقت باقی ہی نہیں رہ سکتی

"لو اتبع الحق اہوائہم لفسدت السمواتوالارض"

اس دروازہ کے کھل جانے کے بعد تمام اصول رویات ودرایت معطل وبیکار ہوجاتےہیں۔ اس لئے کہ ہر عقیدہ اور خیال کا انسان پھر ہر قوی سے قوی نص کو صرف اس بناپررد کردے گا کہ وہ اس کے عقیدہ اور حیال کے خلاف ہے ،جہاں تک خلفائے ثلاثہ کے مقابلمیں شیعوں کے استدلال کا تعلق ہے وہ احادیث رسول یہاں تک کہ صحاح ستہ میں درجہ شدہاخبار و احادیث سے بھی اس میں تمسک کرتے ہیں اور نہج البلاغہ کے مندرجات سے کچھ وہاحادیث پیغمبر سے فائدہ نہیں اٹھاتےمحتاط اور علمی اصول کے کسی حد تک پابندعلمائےاہل سنت کا یہ طریقہ رہا کہ وہ ان احادیث کے مضامین و مطالب کے تاویلوں سے ہمیشہکام لیتے رہے اور بالکل ان احادیث کے انکار کی جراٴت نہیں کی۔

مناظرانہ ضرورتوں سے انکار نصوص کا یہ رجحان جس کا مظاہرہ ذہبی نے کیا ہے یہبڑھتے بڑھتے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے زمانہ میں یہاں تک آیا کہ شروع شروععیسائی مبلّغین سے مناظرہ میں انہیں وفات مسیح کے خیال کو پیش کرنے کی ضرورت ہوئی۔صرف اس جذبہ کے ما تحت کہ جنا ب عیسیٰعلیہ السلامکی یہ ایکطرح کی فضیلت عیسائی پیش کرتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں ،لہٰذا اس کو ختم کرنا چاہئیں۔انہوں نے اس مناظرانہ ترکیب کو اصل قرار دیا اور پھر جواسلامی نصوص اور منتفق علیہاحادیث اس بارے میں تھے ان کا انکار کردیا او ر آخر میں خود ان کے دعوائے مسیحیت کےلئے ایک راستہ بن گیا،

یہی جذبہ ترقی کرکے اب اہل قرآن کے ہاتھوں ،جن کی نمائندگی کی طلوع اسلاموغیرہ کررہے ہیں ،یہاں تک پہنچاہے کہ وہ یہ دیکھتے ہوئے کہ طبری اوردوسرے مفسریناورمورخین سب کے یہاں کچھ نہ کچھ شیعوں کے موافق باتیں موجود ہیں ،اس لئے کلیةًاحادیث تفاسیر اور تواریخ کے اعتبار پر انہوں نے ضر ب لگادی ہے اور ان سب کے انکارکی یہی بنیاد ہے کہ ان لوگوں نے شیعوں کے موافق چیزیں درج کی ہیں لہٰذا یہ سب جھوٹہے جو عمارت ایک غلط اساس پرقائم کی جاتی ہے ، اس کا آخری انجام یہی ہوتا ہے ،

کاش یہ لوگ حقیقت کو صر ف حقیقت کے اعتبار سے دیکھتے اور پھر اپنے جذبات کوا س کے ماتحت لانے کو کوشش کرتے جو ایک عام مسلمان کا فریضہ ایمانی ہے چہ جائیکہ وہافراد جو اپنے کو علمائے اسلام قراردیتے ہوں یا دنیا میں اس حیثیت سے متعارفہوں۔
اس کے بعد کی صدیوں میں یہ دروازہ پاٹوں پاٹ کھل ہی گیا تھا ،چنانچہ ابمناظرہ کے میدان کا یہ بہت ہی عام ہتھیار بن گیا کہ جب نہج البلاغہ کا کوئی کلامپیش ہو تو اسے غلط کہہ دیا جائے۔ اس کے بعد پھر موجودہ دور میں تو اوربھی بہت سےجذبات کارفرما ہوگئے ہیں مثلاتجدد پسند طبقے کا یہ رجحان کہ عورت ہر بات میں مرد کےبرابر ہے ، جب نہج البلاغہ کے مندرجات سے مجروح ہوتا ہے تو اس جذبہ کے تحفظ کے لئےیہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ حضرت علی کاکلام نہیں ہے اس لئے کہ اس میںعورتوں کی تنقیص ہے اور موجودہ سائنس سے اس کے نظریات کو ٹکراتے ہوئے دیکھا جاتا ہےتو سائنس کو اصل قرار دے کر اس کاانکار کردیا جاتا ہے کہ یہ حضرتعلیعلیہ السلامکا کلام ہو،کبھی اس جذبہ کے ماتحت کہ اس میں ان علوم و فنون کی حقیقتوں کا اظہار ہے جسے بعدوالے اپنے وقت کا کارنامہ سمجھتے ہیں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کلام بعد کی پیداوار ہے۔ اس لئے کہ اس وقت غرب میں یہ علوم وفنون تھے ہی نہیں ۔ یہاں تک کہ کسی ایک لفظمثلاً سلطان بمعنی بادشاہ کو حادث قراردے کر اس لفظ کے استعمال کو نہج البلاغہ میںاس کی دلیل بنایا جاتا ہے کہ یہ جناب امیر کی زبان سے نہیں نکل سکتا حالانکہ یہ سبباتیں صرف اپنی خواہشوں کی تکمیل کا ایک بہانہ ہیں اور اپنے مزعومات کو اصل قراردےکر حقیقتوں کو ان کا تابع بنالینے کا کرشمہ ہے۔

قرآن مجید میں درج شدہ حقائق کب ایسے ہیں جواس وقت کے عربوں کومعلوم ہوں اور احادیث رسولصکے بہت سے معارف کب اس وقت کیدنیا کو معلوم تھے جو با ب مدینة العلم کے اقوال میں کچھ ایسے علوم و فنون کے انکشاف پر تعجب کیا جاتا ہے ظاہر کہ اس شعر سے پہلے اس کے ماخذ کا ہمیں علم نہیںہوتا ورنہ اس شعر کو ہم سند ہی قراردینے کی کیوں زحمت محسوس کرتے ،تو کیا اس تصورکو حقیقت قرار دے کر کہ اس کے پہلے یہ لفظ کہیں نہیں ہے ،ہم اس شعر کا انکار کردیںگے یا صحیح طریقہ یہ ہوگا اور یہی اصول معمول بہ ہے کہ اس شعر میں اس لفظ کے وجودسے خود ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس لفظ کا زبان عرب میں یہ رواج تھا ، اسی طرح ہمآخر لفظ سلطان میں یہ اصول کیوں اختیار کرتے ہیں کہ ہم اپنے اس مزعومہ کو وحی منزلقراردیں کہ یہ لفظ حادث ہے اورکلام عرب میں موجودنہ تھا خودجنابامیرعلیہ السلامکے کلام اسکا وارد ہونا اس کا ثبوت کیوں نہ ہو کہ یہ لفظ چاہے عام اکثریت کی زبان پر جاری نہہو ،لیکن وہ کلیةً مفقود نہیں تھی اوراس کا شاہد یہی کلام امیرالمومنینعلیہ السلامکیوں قرار نہپائے ۔ پھر السلطان کا لفظی طور پر بمعنی ملک قرار دینے کی ضرورت ہے جبکہ وہ بمعنیمصدری یعنی حکومت واقتدار اورغلبہ یقینی موجود تھا اور قرآن مجید میں بھی اس کےنظائر موجود ہیں ذریعہٴ غلبہ ہونے ہی کی بناپر دلیل کو سلطان کہا گیا ہے جس طرح اسیاعتبار سے اس کو حجت کہا جاتا ہے اوریہی معنی مصدری بعد میں اسمی شکل اختیار کر کےبمعنی ملک ہوگئے ہیں تو اس میں کیا دشواری ہے کہ

اذا تغیر السلطان تغیرالزمان

میں ہم السلطان کو حاکم کے معنی میں نہیں (بلکہحکومت واقتداار کے معنی میں لیں

، جو ہماری زبان میں بھی بمعنی حاکم برابر رائج ہے لفظی طورپر یہ معنی نہکہیں کہ جب بادشاہ بدلتا ہے تو زمانہ بدل جاتا ہے ،بلکہ یہ معنی کہیں کہ جب اقتداربدلتا ہے تو زمانہ میں بھی تغیر ہوجاتا ہے ، نتیجہ وہی ایک ہے مگر وہ ہمارا مزعومہبھی اگرہمیں بہت عزیز ہو تو اس صورت میں محفوظ رہتا ہے ۔غرض یہ سب بی بنیاد باتیںہیں ،جوکسی اصول روایت و درایت پر منطبق نہیں ہوتیں،

خلفاء کے بارے میں نہج البلاغہ میں ہر گز کوئی ایسی سخت بات نہیں ہے جودوسریکتابوں میںموجود نہ ہو اور جناب امیرعلیہ السلامکے ان رحجاناتکے مطابق نہ ہو ،جومسلم الثبوت حیثیت سے دوسرے کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں ۔ایسیصورت میں اس قسم کے الفاظ کا حضرت کی زبان پرآنا تو اس کاثبوت ہے کہ وہ آپ کا کلامہے ۔ ہاں اگر آپ کے واقعی رجحانات کے خلاف اس میں الفاظ ملتے تو اس پر تو غور کرنےکی بھی ضرورت ہوتی کہ وہ کس بناپر ہیں یاانہیں کسی مجبوری کا نتیجہ قراردینا پڑتاجیسے بعض علماء کے خیال کے مطابقللہ بلاء فلانوالاخطبہ یہی نوعیت رکھتا ہے مگر وہ کلام جو اپنے متکلم کے خیالات کانمایاں طور پرآئینہ بردار ہو اسے تو کسی حیثیت سے اس متکلم کی طرف نسبت صحیح ماننے میں تامل کاکوئی سبب ہی نہیں ہے

یہی وجہ ہے کہ باوجود ابن خلکان کے اس اظہار تذبذب اور ذہبی کے اس جسارتانکار کے پھر بھی منصف مزاج اور حقیقت پسند علماء و محققین بلا تفریق مذہب و ملتنہج البلاغہ کے مندرجات کو کلام امیر المومنینعلیہ السلاممانتے رہےاوراس کا اظہار کرتے رہے جن میں سے کچھ افراد کا جو سردست پیش ر ہیں ذیل میں تذکرہکیا جاتا ہے ۔

۱۔علامہ شیخ کمال الدین محمدابن طلحہ قریشی شافعی متوفی ۶۵۲ھ اپنی کتاب مطالب السوٴل فی مناقب آل الرسول میںجولکھنو میں بھی طبع ہوچکی ہے ۔ علوم امیر المومنینعلیہ السلامکے بیان میںلکھتے ہیں:

ورابعہا علم البلاغہ و الفصاحة وکان فیہاامام لا یشق غبارہ و مقدما لا تلحق اثارہ ومن وقف عمی کلامہ المرقوم الموسوم بنہجالبلاغة صار الخبر عندہ عن فصاحتہ عیانا والظن بعلم مقامہ فیہ ایقانا۔

چوتھے علم فصاحت و بلاغت آپ اس میں امام کا درجہ رکھتے تھے جن کے گرد قدم تک بھی پہنچناناممکن ہے اور ایسے پیشرد تھے،جن کے نشان قدم کامقابلہ نہیں ہوسکتا اور جوحضر ت کے اس کلام پر مطلع ہو جونہج البلاغہ کے نام سے موجود ہےاس کے لئے آپ کی فصاحت کی سماعی خبرمشاہدہ بن جاتی ہے اور آپ کی بلند ی مرتبہ کا اس باب میں گمان یقین کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔

دوسر ی جگہ لکھتے ہیں :

النوع الخامس فی الخطب والمواعظ ممانقلتہ الرواة وروتہ الثقات عنہ علیہ السلام قد اشتمل کتاب نہج البلاغہ المنسوب الیہعلی انواع من خطبہ ومواعظہ الصادعة باو امر ہا ونواہیہاالمطلة انوار الفصاحةوالبلاغة مشرقة من الفاظہا و معانیہا الجامعة حکم عیون علم المعانی ولابیان علیاختلاف اسالیہا۔

پانچویں قسم ان خطب اورمواعظ کی شکل میں ہے،جس کو راویوں نے بیان کیا ہے اور ثقات نے حضرت سے ان کو نقل کیا ہے اور نہج البلاغہ کتاب جس کی نسبت حضرت یک طرف دی جاتی ہے وہ آپ کے مختلف قسم کے خطبوں اور موعظوں پر مشتمل ہے جو اپنے اوامر و نواہی کو مکمل طورپر ظاہر کرتے اور فصاحت و بلاغت کے انوار کو اپنےالفاظ و معانی سے تابندہ شکل میں نمودار کرتے اور فن معانی و بیان کے اصول اوراسرارکو اپنے مختلف انداز بیان میں ہمہ گیر صورت سے ظاہر کرتےہیں۔

اس میں مندرجات نہج البلاغہ کو معتبر و ثقہ راویوں کے بیانات کا حوالہ دیتےہوئے یقینی طور پر کلام امیر المومنینعلیہ السلامتسلیم کیا ہےایک جگہ جو منسوب کی لفظ ہے ،اس سے کوئی غلط فہمی نہیں ہونا چاہیئے ، وہ بحیثیتمجموعی کتاب بشکل کتاب سے متعلق ہے اوریہ ظاہر ہے کہ یہ کتابامیرالمومنینعلیہ السلامکی جمع کردہنہیں ہے ۔کتاب ،تو حقیقتاً سید رضی ہی کی ہے مگر عوام مجازی طورپر یا ناواقفیت کینباپر یونہی کہتے ہیں کہ یہ امیر المومنین کی کتاب ہے یہ نسبت اس کلام کے لحاظ سےدی جاتی ہے جو اس کتاب میں درج ہے اور اسی لئے اس محل پر علامہ ابن طلحہ نے منسوبکی لفظ صرف کی ہے جو بالکل درست ہے اس سے اصل کلام کے بارے میں ان کے وثوق واطمینان کو کوئی دھچکا نہیں پہنچتا۔
۲۔علامہ ابوحامد عبد لحمید ابن ہبة اللہ المعروف بابنابی الحدید مدائنی بغدادی متوفی ۶۵۵ ھ جنہوں نے اس کتاب کی مبسوط شرح لکھی ہے وہحضرت امیر علیہ السلام کے فضائل ذاتیہ میں فصاحت کے ذیل میں لکھتےہیں:

اما الفصاحة فہو امام الفصحاء و سیدالبلغاء وعن کلامہ قیل دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوقین و منہ تعلم الناسالخطابة والکتابة۔

فصاحت کی آپ کا یہ عالم ہے کہ آپ فصحا کے امام اور اہل بلاغت کے سرگروہ ہیں ،آپ ہی کے کلام کے متعلق یہ مقولہ ہے کہ وہ خالق کے کلام کے نیچے اور تمام مخلوق کے کلام سے بالاتر ہے اور آپ ہی سے دنیا نے خطابت و بلاغت کے فن کوسیکھا۔

اس کے بعد عبد الحمید بن یحییٰ اورا بن نباتہ کے وہ اقوال درج کئے گئے ہیں،جن کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں پھر لکھا ہے :

ولما قال محقن ابن ابی محقن لمعاویة جئتک من عند اعیی الناس قال لم و یحک کیف یکون اعیی الناس فواللہ ماسن الفصاحة لقریشغیرہ و یکفی ہذا الکتاب الذی نحن شارحوہ دلالة علی انہ لا یجاری فی الفصاحة ولا یباری فی البلاغة۔

اورجب محقن بن ابی محقن نے (خاشامد میں )معاویہ سے کہا کہ میںسب سے زیادہ گنگ شخص کے پاس سے آیا ہوں معاویہ نے کہا کہ وائے ہو تم پر وہ گنگکیونکر کہے جاسکتے ہیں حالانکہ خدا کی قسم فصاحت کا راستہ قریش کو سوا ان کے کسیاور نے نہیں دکھایا ہے اور یہی کتاب جس کی ہم شرح لکھ رہے ہیں اس امر کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ حضرت فصاحت میں وہ بلند درجہ رکھتے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ نہیں چل سکتا اور بلاغت میں آپ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔

علامہ مذکور دوسرے موقعہ پر لکھتے ہیں:

ابن کثیرا من فصولہ داخل فی باب المعجزات ا لمحمدیة الاشتمالہا علی الاخبار الغیبیة و خروجہا من وسع الطبیعة البشریة۔

اس کتاب کے اکثر مقامات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کامعجزہ کہے جاسکتے ہیں ۔اس لئے کہ وہ غیبی خبروں پر مشتمل ہیں اور انسانی طاقت کے حدود سے باہر ہیں۔

حالانکہ علامہ ابن ابی الحدید اپنے معتقدات میں جوشیعیت کے خلا ف ہیں پورےراسخ ہیں اور اس لئے نہج البلاغہ میں جہاں جہاں ان کے معتقدات کے خلاف چیزیں ہیں انکو کافی زحمت در پیش ہوئی ہے ،مگر اس کے باوجود کسی ایک مقام پر بھی وہ اس شک وشبہکا اظہارنہیں کرتے کہ یہ شاید امیر المومنینعلیہ السلامکا کلام نہہو، بلکہ خطبہ شقشقیہ تک میں جو سب سے زیادہ ان کے جذبات کے خلاف مضامین پر مشتملہے وہ اس امر کو بقوت تسلیم کرتے ہیں کہیہ ہے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کا کلاماور اس کے خلاف ہر تصور کو دلائل کے ساتھ ردکردیتےہیں

انہوں نے خطبہ ہی میںقدم المفضول علی الفاضلخدا نے (معاذ اللہ) کسی مصلحت سے غیر افضل کو افضل پر مقدم کردیا اور اسی طرح خطبہشقشقیہ وغیرہ کے تشریحات میں انہوں نے اپنے معتقدات کا اظہار کردیا ہے اور امیرالمومنین کے الفاظ کو معاذ اللہ آپ کے بشری جذبات کا تقاضہ قراردیا ہے

یہ امور اس تصور کو ختم کردیتے ہیں کہ انہوں نے اس کتاب میں اسشیعہ رئیس کی خوشامد مدنظر رکھی ہے جس کے نام پر انہوں نے یہ شرح معنون کیتھی۔ابن العلقی شیعہ ضرور تھے،مگر وہ سلطنت بنی عباس کے وزیر تھے اوریہکتاب دولتِ عباسیہ کے سقوط سے پہلے ان کے دور وزارت میں لکھی گئی ہے ۔

اولاگر خوشامد مدنظر ہوتی تو وزیر کے بجائے خودخلیفہ وقت کے جذبات کا لحاظ کرنا زیادہ ضروری ہوتا ۔

دوسرےظاہر ہے کہ سلطنت عباسیہ کے وزیر ہونے کیبناپر خود ابنِ العلقمی بھی کھل کر ایسے شخص کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتے تھے جوحکومت وقت کے مذہب کے موافق کوئی بات کہے نہ وہ خود ہی ایسے جذبات کا علانیہ اظہارکرتے تھے

پھر اگر ان کی خوشامد ہی پیش نظر ہوتی تو ابن ابی الحدید اسی کتاب میں شیعیتکی رد کیوں کرتے اور خلافتِ ثلاثہ کوشروع سے لے کر آخر تک بقدر امکان مضبوط کرنے کیکوشش کس لئے کرتے ۔ان کا یہ نظریہ طرز عمل صاف بتارہا ہے کو انہوں نے کتاب میں اپنےحقیقی خیالات اور جذبات کو برابر پیش نظر رکھا ہے وہ اگر نہج البلاغہ کی صحت میںذراسا شک وشبہ کا بھی اظہار کر دیتے تو وہ اس سے زیادہ ابن العلقمی کے لئے تکلیف دہنہیں ہوسکتا تھا۔ جتنا خدا کی طرف اس غلط کام کو منسوب کرنا کہ وہ مفضول کو فاضل کوترجیح دے دیتا ہے یا امیر المومنینعلیہ السلامکے اقوال کومعاذاللہ نفسانیت پر محمول کرنا جوخطبہ شقشقیہ وغیرہ کی شرح میں انہوں نے لکھ ڈالاہے بلکہ ایک شیعہ کے لئے ان الفاظ کے کلام امیر المومنینعلیہ السلامہونے سے انکارکردینا اتنا صدمہ نہیں پہنچاسکتا اور حضرت علی ابن ابی طالب کی اتنی بڑی توہین نہیںہے جتنا یہ تصور کرنا کہ حضرت نے معا ذاللہ حقیقت کے خلاف صر ف اپنی ذاتی رنجش کےبناپر یہ الفاظ فرمادیئے ہیں۔اس سے صا ف ظاہر ہے کہ ہر گز ابن ابی الحدید کو ابنالعلقمی کی کوئی خاطر داری اظہار خیالات میں پیش نظر نہ تھی ا وراس کتا ب پر ابنالعلقمی نے اگر کوئی انعام دیا ہو تو یہ صرف ان کے وسعت صدر اوروسعت نظر اور تحملکاثبوت ہے کہ انہوں نے ایک مخالف مذہب کے ایک علمی کارنامے کی صرف علمی کارنامہہونے کی بناپر قدر کی جو کہ ان کے خود عقائد و خیالات سے متضاد مضامین پر بھی مشتملتھا۔

میرے خیال میں تو ابن ابی الحدید نے اپنی سنیت کو اس کتاب میںاتنا ضرورت سے زیادہ طشت ازبام کیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی قسم کی رورعایت کا تصور بھی پیدا ہونا غلط ہے ۔

۳۔ابو السعادات مبارک مجد الدین ابناثیر جزری متوفی ۶۰۶ھ نے اپنے مشہور کتاب نہایہ میں جواحادیث و آثار کے لغات کی شرحکے موضوع پر ہے کثیر التعداد مقامات پر نہج البلاغہ کے الفاظ کو حل کیا ہے ۔ابناثیر کی حیثیت فقط ایک عام لغوی کی نہیں ہے بلکہ وہ محدث بھی ہیں اگر صرف ادبیاہمیت کے لحاظ سے ان کوا ن الفاظ کا حل کرنا ہی ضروری تھا تو وہ اس کونہج البلاغہکانام لکھ کر درج کرتے

پھر واقعہ تویہ ہے کہ اگر اس کو وہ کلام امیر المومنینعلیہ السلامسمجھتے ہی نہتو انہیں اس کتاب میں جوصرف احادیث اورآثار کے حل کے لئے لکھی گئی ہے ،ان لغات کوجگہ نہ دینا چاہئے تھی، کیونکہ

(اثر کیتعریف):

(اصطلاحی طور پر اثر صرف صحابہ اورممتاز تابعین کی زبان سے نکلے ہوئے اقوال کو کہتے ہیں )

کسی متاخر عالم کی کتاب کے الفاظ نہ حدیث میں داخل ہیں اور نہاثر میں ۔ان کا ان الفاظ کو جگہ ہی دینا اس کا ثبوت ہے کہ وہ اس کو سید رضی کاکلام نہیں سمجھتے بلکہ کلام امیر المومنینعلیہ السلامقرار دیتےہیں۔ پھر یہ کہ ان لغات کودرج کرنے میں ہر مقام پر تصریحاًحدیث علیکی لفظ کا استعمال کرتے ہیں ،جیسے لغت جوئی میںمنہ حدیثا علییونہی فتق الاجواء وشق الارجاء میں زیادہ تر ان الفاظ کا تذکرہ حدیث علی کی لفظوں کے ساتھ ہے اورکہیں پر خطبة علی ہے ،جیسے لغت لوط میں فی خطبة علیولاطہا بالبلة حتی لزبت ایک جگہ لغت ایم میں یہ الفاظ ہیں :

کلام علی مات قیہا وطالتایمہا۔

اسی طرح لغتاسل میں فی کلام علی کے الفاظ ہیںاور ایسے ہی دوایک جگہ اور باقی تمام مقامات کو استقصا کے ساتھ ہم نے اپنی کتاب ”نہج البلاغہ“ کااستناد“ میں درج کیا ہے جو امامیہ مشن لکھنو سے شائع ہوئی ہے۔

۴۔علامہ سعد الدین تفتازانی متوفی ۷۹۱ئھ شرح مقاصد میں لکھتے ہیں

واذا ہو افصحلہم لسانا علی مایشہد بہکتاب نہج البلاغہ۔

حضرت سب سے زیادہ فصیح اللسان بھی تھے ،جس کی گواہی کتاب نہجالبلاغہ دے رہی ہے ۔

۵۔جمال الدین ابو الفضل محمد بن مکرم بنعلی افریقی مصری متوفی ۷۱۱ھ انہوں نے بھی نہایہ کی طرح اپنی عظیم الشان کتاب لسانالعرب میں مندرجہ الفاظ کو کلام علی کہتے ہوئے حل کیا ہے

۶۔ علامہ علاء الدینقوشجی متوفی ۸۷۵ھ شرح تجرید میں قول محقق طوسی افصحہم لسانا کی شرح میں لکھتے ہیں :

ما یشہد بہ کتاب نہج البلاغہ و قال البلغاء انکلامہ دون کلام الخالق وفوق کلام المخلوق

کی شاہد ہے۔آپ کی کتاب نہج البلاغہ کا قول ہے کہ آپ کا کلام خالق کے نیچے اور تمام مخلوق کے کلام سے بالاتر ہے۔

۷۔محمد بن علی بن طباطبائِی معروف بہابن طقطقی اپنی کتا ب تاریخ الفخری فی الآداب السلطانیہ والدول الاسلامیہ،مطبوعہمصر ۹ میں لکھتے ہیں :

عدل ناس الی نہج البلاغہ من کلام امیرالمومنین علی ابن ابی طالب فانہ الکتاب الذی یتعلم منہ الحکم والمواعظ والخطبوالتوحید والشجاعة والزہد وعلوالہمّة وادنی فوائدہ الفصاحةوالبلاغہ۔

بہت سے لوگوں نے کتاب نہج البلاغہ کی طرف توجہ کی جوامیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا کلام ہے ۔ کیونکہ یہ وہ کتاب ہے کہجسے حکم اورمواعظہ اورتوحید اور زہداو رعلوہمت ،ان تمام باتوں کی تعلیم حاصل ہوتیہے اور اس کا سب سے ادنی فیض فصاحت و بلاغت ہے ۔

۸۔علامہ محدث ملا طاہر فتنی گجراتی،انہوں نے بھی مجمع بحارالانوار،نہایہ کی طرح احادیث و آثار کے لغات ہی کی شرح میںلکھی ہے اور انہوںنے بھی الفاظ نہج البلاغہ کو کلام امیر المومنین تسلیم کرتے ہوئےان کی شرح کی ہے ۔
۹۔علامہ احمد بن منصورکازرونی اپنی کتاب مفتاح الفتوح میں امیر المومنین کے حالا ت میں لکھتے ہیں :

ومن تامل فی کلامہ و کتبہ و خطبہورسالانہ علم ان علمہ لایوازی علم احد و فضائلہ لا تشاکل فضائل احد بعد محمد صلیاللہ علیہ و سلم ومن جملتہا کتاب نہج البلاغہ۔

جو حضرت کے کلام اور خطوط او رخطبوں اور تحریروں پرغور کینگاہ ڈالے اسے معلوم ہوگا کہ حضرت کا علم کسی دوسرے کے علم کی طرح اورحضرت کے فضائلپیغمبر کے بعد کسی دوسرے کے فضائل کے قبیل سے نہیں تھے۔ (یعنی بدر جہازیادہ تھے )اور انہیں میں سے کتاب نہج البلاغہ ہے

(اس کے معنی یہ ہیں کہ مصنف کے پیش نظر یہ حقیقت تھی کہ حضرت کلام کا ذخیرہنہج البلاغہ کے علاوہ بھی کثرت کے ساتھ موجود ہے ا ور یہ صرف اس کا ایک جز ہے )

واللہ لقد وقف دونہ فصاحة الفحا وبلاغةالبلغاء و حکمة الحکاء۔

اور خدا کی قسم آپ کی فصاحت کے سامنے تمام فصحا کی فصاحت اور بلیغوں کی بلاغت اورحکماء روزگار کی حکمت مفلوج ومعطل ہوکر رہ جاتی ہے ۔

۱۰۔علامہ یعقوب لاہوری شرح تہذیب الکلاممیں افصح کی شرح میں لکھتے ہیں:

ومن ازاد مشاہدة بلاغتہٖ ومسامعة فصاحتہٖ فلیظرالی نہج البلاغہ ولا ینبیغی ان ینسب ہذا الکلام البلیغ الی رجلشیعی۔

جو شخص آپ کی فصاحت کو دیکھنااورآپ کی بلاغت کو سننا چاہتاہو،وہ نہج البلاغہ پرنظر کرے اور ایسے فصیح و بلیغ کلام کو کسی شیعہ عالم کی طرفمنسوب کرنا بالکل غلط ہے۔

۱۱۔علامہ شیخ احمد ابن مصطفی معروف بہطاشکیری زادہ اپنی کتاب شقائق نعمانیہ فی علماء دولة عثمانیہ قاضی قوام الدین یوسفکی تصانیف کی فہرست میں لکھتے ہیں:

و شرح نہج البلاغہ اللامام الہامام علیبن ابی طالب کرم اللہ تعالی وجہہ ۔

۱۲۔مفتی دیارمصریہ علامہ شیخ محمد بعدہمتوفی ۱۳۲۳ھ جن کی اس سعی جمیل کے مشکور ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نےمصر اور بیروت وغیرہ اہل سنت کے علمی مرکز وں کو نہج البلاغہ کے فیوض سے بہرہ مندبنانے کا سامان کیا اوروہاں کے باشندوں کو ان کے سبب سے اس جلیل القدر کتاب کاتعارف ہوسکا۔ انہوں نے نہج البلاغہ کو اپنے تفسیری حواشی کے ساتھ مصر میں چھپوایا۔جس کے بہت ایڈیشن اب تک شائع ہوچکے ہیں وہ اپنے اس مقدمہ میں جو شروع کتابت میں درجکیا ہے ،اپنی اس دہشت و حیرت کا اظہار کرتے ہوئے جو نہج البلاغہ کے حقائق آگیںعبارات سے ان پر طاری ہوئی ہے ،تحریر کرتے ہیں:

کان یخیل الی فی کل مقام ان حروباشبت و غارات شنت وان للبلاغة دولة وللفصاحة صولة وان الاوہام عرامة وللریب دعارة و انجحافل الخطابة و کتائب الذرابة فی عقود النظام و صفوف الانتظام تنافح بالصفیح الابلبج والقویم الاملج وتمثلج المہج بروائع الحجج فتفل من دعارة الوساوس وتصیب مقاتلالخوانس فما انا الا ولاحق متنصر والباطل منکسر و مروج الشک فی خمود وہرج الریب فیرکود وان مدبر تلک الدولة و باسل تلک الصولةہوحامل لوائہا الغالب امیر المومنین علیابن ابی طالب بل کنت کلما انتقلت من موضع الی موضع احس بتغیر المشاہد وتحول المعاہدفتا رة کنت اجد نی فی عالم یعمرہ من المعانی ارواح عالیہ فی حلل من العباراتالزاہیة نظرف علی النفوس الزاکیة وقدنومن القلوب اصافیة توحی الیہا رشاردہا وتقوم منہا منادہا و تنفربہا عن مداحض المزال الی جواد الفضل ولکمال وطور اکانت تنکشف لی الجمل عن وجوہ باسرہ وانیاب کاشرح وارواح فی اشباح النمور و مخالب النسور قد نحفزت للوثاب ثم النقضت للاختلاب فخلب القلوب عن ہواہا و اخذت الخواطر دون مرماہاواغتالتفاسد الاہواء وباطل الاراء واحیانا کنت اشہد ان عقلا نورانیا لایشبہ خلقا جسدانیافصل عن الموکب الالٰہی واتصل بالروح الانسانی فخلعہ عن غاشیات الطبیعة و سمابہ الی الملکوت الاعلی ونمابہ الی مشہد النور الاجلی و سکن بہ الی عمار جانب التقدیس بعد استخلاصہ من شوائب التلبیس و انات کانی اسمع خطیب الحکمة ینادی با علیاء الکلمة واولیاء ا مر الامة یعرفہم مواقع الصواب و یبصرہم مواضح الارتیاب و یحذرہم مزلق الاضطراب ویرشدہم الی دقائق السیاسة و یہدیہم طرق الکیاسة ویرتفع یبہم الی مناضاتالریاسة و یصعدہم شرف التدبیر و یشرف بہم علی حسن المصیر۔

"ہر مقام پر( اس کے اثنائے مطالعہ میں ) مجھے ایسا تصور ہورہاتھا کہ جیسے لڑائیاں چھڑی ہوئی ہیں۔ نبرد آزمائیاں ہورہی ہیں ۔بلاغت کا زور ہےاور فصاحت پوری قوت سے حملہ آور ہے ۔ توہمات شکست کھارہے ہیں شکوک و شبہات پیچھے ہٹرہے ہیں خطابت کے لشکر صف بستہ ہیں ۔طلاقت لسان کی فوجیں شمشیر زنی اورنیزہ بازی میں مصروف ہیں ،وسوسوں کا خون بہایا جارہا ہے اور توہمات کی لاشیں گررہی ہیں اورایک دفعہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ بس حق غالب آگیا اور باطل کی شکست ہوگئی او شک و شبہ کی آگ بجھ گئی اور تصورات باطل کازورختم ہوگیا اور اس فتح و نصرت کا سہرا اس کے علمبردار اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب کے سرہے۔ بلکہ اس کتاب کے مطالعہ میں جتنا جتنا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا میں نے مناظرہ کی تبدیلی اورمواقف کےتغیر کو محسوس کیا کبھی میں اپنے کو ایسے عالم میں پاتا تھا جہاں معانی کی بلند روحیں خوشنما عبارتوں کے جامے پہنے ہوئے پاکیزہ نفوس کے گرد چکر لگاتی اور صاف دلوں کو نزدیک آکر انہیں سیدھے راستے پر چلنے کااشارہ کرتی اور نفسانی خواہشوں کا قلع قمع کرتی اور لغزش مقامات متنفر بناکر فضیلت و کمال کے راستوں کا سالک بناتی ہیں اور کبھی ایسے جملے سامنے آجاتے ہیں جو معلوم ہوتا ہے کہ تیوریاں چڑھائے ہوئے اوردانت نکالے ہوئے ہولناک شکلوں میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ایسی روحیں ہیں جو چیتوںکے پیکروں میں اورشکاری پرندوں میں پنجوں کے ساتھ حملہ پرآمادہ ہیں اور ایک دم شکار پر ٹوٹ پڑٹے ہیںاوردلوں کو ان کے ہوا و ہوس کے مرکزوں سے جھپٹ کر لے جاتے ہیں اور ضمیروں کوپست جذبات سے زبر دستی علیحدہ کردیتے اورغلط خواہشوں اورباطل عقیدوں کا قلع قمع کردیتے ہیں اور بعض اوقات میں جیسے مشاہدہ کرتا تھا کہ ایک نورانی عقل جو جسمانی مخلوق سے کسی حیثیت سے بھی مشابہ نہیں ہے خداوندی بارگاہ سے الگ ہوئی اورانسانی روح سے متصل ہوکراسے طبیعت کے پردوں سے اورمادیت کے حجابوں سے نکال لیا اوراسے عالم ملکوت تک پہنچادیا اورتجلیات ربانی کے مرکز تک بلند کردیا اورلے جاکر عالمقدس میں اس کو ساکن بنادیا اور بعض لمحات میں معلوم ہوتا تھا کہ حکمت کاخطیب صاحباناقتدار اورقوم کےا ہل حل وعقد کو للکار رہا ہے ا ورانہیں صحیح راستے پر چلنے دعوتدے رہا ہے اور ان کی غلطیوں پر متنبہ کررہا ہے اور انہیں سیاست کی باریکیاں ا ور تدبر و حکمت کےدقیق نکتے سمجھا رہا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو حکومت کے منصب اور تدبر و سیاست کی اہلیت پیدا کرکے مکمل بنارہا ہے۔"

اس میں علامہ محمد عبدہ نے جس طرح یقینی طور پر اس کو کلام امیرالمومنینعلیہ السلامتسلیم کیا ہےاسی طرح اس کے مضامین کی حقانیت اوراس کے مندرجات کی سچائی کابھی اعتراف کیا ہے وہکہہ رہے ہیں کہ اس کتاب کے مضامین حق کی فتح اورباطل کی شکست اورشکوک واوہام کی فنااور توہمات ووسواس کی بیخ کنی کا سبب ہیں اور وہ شروع سے آخر تک انسانی روح کے لئےروحانیت و طہارت اور جلال و کمال کی تعلیمات کی حامل ہیں۔
علامہ محمد عبدہ کونہج البلاغہ سے اتنی عقیدت تھی کہ وہ اسے قرآن مجید کے بعد ہر کتاب کے مقابلہ میںترجیح کامستحق سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنا یہ اعتقاد بتایا ہے کہ جامعہٴ اسلامیہمیں اس کتاب کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہونا اسلام کی ایک صحیح خدمت ہے اور یہ صرف اسلئے کہ وہ امیر المومنینعلیہ السلامایسے بلندمرتبہ مصلح عالم کاکلام ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

لیس فی اہل ہذہ اللغة الاقائل بان کلام الامام علی بن ابی طالب ہو اشرف الکلام وابلغ۔ بعد کلام اللہ تعالیٰ و کلام نبیة واغزرہ مادةوارفعہ اسلوبا واجمعہ لجلائل المعانی فاجدر بالطالبین لنفائس اللغة والطامعین فی التدرج لمراقیہا ان یجعلوا ہذا الکتاب اہم محفوظہم و افضل ماثور ہم مع تفہم معانیہ فی الاغراض التی جاء ت لاجلہا و تامل الالفاظہ فی المعانی التی صیغت للدلالةعلیہا لیصیبوا بذالک افضل غایة وینتہوا الیخیرنہایة۔

اس عربی زبان والوں میں کوئی ایسا نہیں حو اس کاقائل نہ ہو کہامیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا کلام کلام خدا و کلامِ رسول کے بعد ہر کلام سے بلند تر زیادہ پر معانی اور زیادہ فوائد کاحامل ہے لہٰذا عربی کے نفس ذخیروں کے طلاب کے لئے یہ کتاب سب سے زیادہ مستحق ہے کہ وہ اسے اپنے محفوظات اور منقولات میں اہم درجہ پر رکھیں اور اس کے ساتھ ان معانی و مقاصد کے سمجھنے کی کوشش کریں ،جواس کتاب کے الفاظ میں مضمر ہیں۔

یہ واقعہ ہے کہ علامہ محمد عبدہ کی یہ کوشش پورے طور پر بارآور بھی ہوئی۔ایسے تنگ نظر کے ماحول میں جبکہ علمی دنیا کا یہ افسوسناک رویہ ہے کہ خود اہل سنتکی وہ کتابیں جو اہل بیت معصومین سے یا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے متعلقہیں انہیں زیادہ تر ایران کے شیعی مطبعوںنے شائع کیا ہے مگر مصر و بیروت وغیرہ کےعلمی مرکزوں نے انہیں کبھی قابل اشاعتنہ سمجھا۔مثلا

سبط ابن جوزی کتب سیر میں پوری علمی جلالت سے یاد کئے گئے ہیں مگر ان کیکتاب تذکرہ صرف اس لئے سودِ اعظم کی بارگاہ میں درخور اعتنا نہیں سمجھی گئی کہ اسمیں ا ہل بیت رسولصکے حالات زیادہ ہیں

اسی طرح حافظ نسائی کی خصائص وغیرہ

مگر نہج البلاغہ اپنے تمام مندرجات کے باوجود جن سے سواد اعظم کو اختلافہوسکتا ہے پھر بھی مصر اور بیروت کے علمی حلقوں میں پوری پوری مقبولیت اورمرکزیترکھتی ہے اس کے مسلسل ایڈیشن شائع ہوتے ہیں اورمدارس اور یونیورسٹیوں کے نصابوں میںداخل ہے یہ صرف ہندوستان یا پاکستان کی مناظرانہ ذہنیت اور اس کی مسموم فضا ہے کہیہاں کے مدارس میں اکثر اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جو خالص شیعی کتاب سے ہوناچاہئے علامہ شیخ محمد عبدہ نے نہ صرف اس کتاب پر حواشی لکھ دیئے اور اسے طبعکردیابلکہ وہ اپنی گفتگوؤں میں برابر اس کی تبلیغ کرتے رہتے تھے ۔چنانچہ مجلّةالہلال مصر نے اپنی جلد نمبر ۳۵ کے شمارہٴ اول بابت نومبر ۱۹۲۶ ءء کے صفحہ ۷۸ پرچار سوالات علمی طبقہ کی توجہ کے لئے شائع کئے تھے ۔ جن میں پہلا سوال یہ تھاکہ:

ماہوالکتاب اوالکتب التی طالعتموہا فی شبابکم فافادتکم واکان لہااثر فی حیاتکم

وہ کونسی کتاب یا کتابیں ہیں ،جن کاآپ نے دور شباب میں مطالعہکیاتو انہوں نے آپ کو فائدہ پہنچایا اور ان کی زندگی پر اثرپڑا۔

اس سوال کا جواب استاد شیخ مصطفی عبد الرزاق نے دیا ہے ،وہ شمارہٴ دوم بابتدسمبر ۱۹۲۶ھ کے صفحہ ۱۵۰ پر شائع ہوا ہے ،اس میں وہ لکھتےہیں:

طالعت بارشاد الاستاذ المرحوم الشیخ محمد عبد ہ دیوان الحماسة ونہج البلاغہ

میں نے استاد مرحوم شیخ محمد عبدہ کی ہدایت سے دیوان حماسہاور نہج البلاغہ کا مطالعہ کیا۔

عبد المسیح انطاکی نے ابھی جن کی رائے اس کے بعد آئے گی ،اس کا ذ کر کیا ہےعلامہ محمد عبدہ نے مجھ سے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ انشا پردازی کا درجہ حاصلکرو،توا میر المومنین حضرت علیعلیہ السلامکو اپنا استادبناؤ اور ان کے کلام کو اپنے لئے چراغ ہدایت قرار دو۔

موصوف کا یہ عقیدہ نہجالبلاغہ کے متعلق کہ وہ تمام و کمال امیر المومنینعلیہ السلامکا کلام ہے،اتنا نمایاں تھا کہ ان کے تمام شاکرد جوان کے بعدسے اب تک مصر کے بلند پایہ اساتذہمیں رہے ، اس حقیقت سے واقف تھے ،چنانچہ استاد محمد محی الدین عبد الحمید مدرسکلیہٴ نعمت عربیہ جامعہٴ ازہر جن کے خود خیالات ان کی عبارت میں اس کے بعد پیشہوںگے ،اپنے شائع کردہ ایڈیشن کے مقدمہ میں لکھتےہیں:

عسیت ان تسئال رای الاستاذ الامام الشیخ محمد عبدہ فی ذٰلک ہو الذی بعث الکتاب من مرقدہ ولم یکن احد اوسع منہ اطلاغاً ولا ادق تفکیر ا والجواب علی ہذا تساؤل انا نعتقد انہ رحمہ اللہ کان مقتنعاً بان الکتاب کلہ للامام علی رحمہ اللہ

ممکن ہے تم اس بارے میں استاد امام شیخ محمد عبدہ کی رائے دریافت کرنا چاہتے ہوجنہوں نے اس کتاب کو خوابِ گمنامی سے بیدارکیا اور ان سے بڑھ کرکوئی وسعتِ اطلاع اور باریکیٴ نگاہ میں مانا بھی نہیں جاسکتا تو اس سوال کا جوابیہ ہے کہ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس کتاب کو تمام و کمالامیرالمومنینعلیہ السلامکا کلامسمجھتے تھے۔

علامہ محمد عبدہ کایہ مقدمہ جس کے اقتباسات ہم نے درج کئے ہیں ،خوددنیائےادبیت میں کافی اہمیت رکھتا ہے چنانچہ سید احمد ہاشمی نے اپنی کتاب جواہر الادب حصہاول میں صفحہ ۳۱۷،۳۱۸ پرا سے تمام و کمال درج کردیا ہے اور اس پر عنوان قائم کیا ہےوصف نہج البلاغہ للامام المرحوم الشیخ محمد عبدہ المتوفٰی ۱۳۲۲ ھ۔
۱۳۔ ملک عربکے مشہور مصنف ،خطیب اور انشاء پرداز شیخ مصطفی غلائینی استاذ التفسیر وانفقہ والاداب العربیہ فی الکلیہ الاسلامیہ بیروت، اپنی کتاب اریج الزہر میں زیرعنوان نہجالبلاغة واسالیب الکلام العربی ایک مبسوط مقالہ کے تحت میں تحریر کرتےہیں:

من احسن ما ینبغی مطالعتہ لمن یتطلب الاسلوب العالی کتاب نہج البلاغہ للامام علی رضی اللہ عنہ وہو الکتاب الذی انشات ہدا المقال لاجلہ فان فیہ من بلیغ الکلام ولاسالیب المدہشة والمعانی الرائقة ومناحی الموضوحات الجلیلة ما یجعل مطالعہ اذ ازاولہ مزاولة صحیحة بلیغاً فی کتابتہ و خطابتہ ومعانیہ۔

بہترین چیز جس کا مطالعہ بلند معیار ادبی کے طلب گاروں کولازم ہے،وہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی کتاب نہج البلاغہ ہے اور یہی و ہ کتاب ہے جس کے لئے خاص طور پر یہ مقدمہ لکھا گیا ہے اس کتاب میں بلیغ کلام اور ششدر کردینے والے طرز بیان اور خوش نما مضامین اورمختلف عظیم الشان مطالب ایسے ہیں کہ مطالعہ کرنے والا اگر ان کی صحیح مزاولت کرے تو وہ اپنی انشاپردازی اپنی خطابت اور اپنی گفتگو میں بلاغت کے معیار پر پورا اتر سکتاہے۔

اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس کتاب سے کثیر التعداد افراد بلکہ اقوام نےاستفادہ کیاہے جن میں سے ا یک کاتب الحروف ہے ۔ میں ان تمام افراد کو جوعربی کےبلند اسلوبِ تحریر کے مطالب اورکلام بلیغ کے جویاں ہوں ،اس کتاب کے حاصل کرنے کیدعوت دیتا ہوں۔
۱۴۔استاد محمد کرد علی رئیسمجمع علمی دمشق نے الہلال کے چار سوالات کے جواب میں ،جن میں سے تیسرا سوال یہ تھاکہ

ماہی الکتب تنصحون لشبان لیومبقراٴتہا۔

وہ کونسی کتابیں ہیں جن کے پڑھنے کی موجودہ زمانہ کے نوجوانوںکو آپ ہدایت کرتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں لکھاہے:

اذاطلب البلاغة فی اتم مظاہرہا والفصاحةالتی لم تشبہہا عجمة فعلیک بنہج البلاغہ دیوان خطب امیر المومنین علی بان ابی طالب و رسائلہ الی عمالہ یرجع الی فصل الانشاء والمنشئین فی کتابی ”القدیم والحدیث“ (طبع مصر ۱۹۲۵)

اگر بلاغت کا اس کے مکمل ترین مظاہرات کے ساتھ مشاہدہ مطلوب ہواور اس فصاحت کو جس میں ذرہ بھر بھی زبان کی کوتاہی شامل نہیں ہے دیکھنا ہوتو تمکو نہج البلاغہ کامطالعہ کرنا چاہئے ،جو امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلامکے خطب و مکاتب کامجموعہ ہے تفصیل کے لئے ہماری کتاب ”القدیم و الحدیث“ مطبوعہ مصر ۱۹۲۵ء فصل الانشاء والمنشوٴن دیکھنا چاہئے۔

یہ جواب الہلال کی جلد نمبر پینتیس کے شمارہ نمبر ۵ بابت ماہ مارچ ۱۹۲۷ء میںصفحہ ۵۷۲ پرشائع ہوا ہے ۔

۱۵۔استاد محمد محیالدین المدرس فی کلیة اللغة العربیة بالجامع الازہر جنہوں نے نہج البلاغہ پرتعلیقات تحریر کئے ہیں اورعلامہ شیخ محمد عبدہ کے حواشی برقرار رکھتے ہوئے بہت سےتحقیقات و شرح کااضافہ کیا ہے اور ان حواشی کے ساتھ یہ کتاب مطبع استقامة مصر میںطبع ہوئی ہے انہوں نے اس ایڈیشن کے شروع میں اپنی جانب سے ایک مقدمہ بھی تحریر کیاہے ،جس میں نہج البلاغہ کے استناد و اعتبار پر ایک سیر حاصل بحث کی ہے ۔اس کے ضروریاجزا یہاں درج کئے جاتے ہیں:

"و بعد فہذا کتاب نہج ا لبلاغہ وہو مااختارہ الشریف الرضی ابوا لحسن محمد بن الحسن الموسوی من کلام امیر المومنین علی ابن ابی طالب الذی جمع بین دفیتہ عیون البلاغة وفنونہا و تہیاء ت بہ للناظر فیہ اسباب الفصاحة ودنا منہ قطانہا اذکان من کلام افصح الخلق بعد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم منطقا واشدہم اقتدار اوابرعہم حجة واملکہم لغة یدیر ہا کیف شاء الحکیم الذی تصدر الحکمة عن بیانہ والخطیب الذی یملاء القلب سحر لسانہ العالم الذی تھیالہ من خلاط الرسول و کتابة الوحی ولکفاح عن الدین بسیفہ لسانہ منذحداثتہ ما لم یتہیا لاحد سواہ ہذا کتاب نہج البلاغہ وانا بہ حفی منذ طراء ة السن ومیعة الشباب فلقد کنت اجد والدی کثیر القراء ة فیہ وکنت اجد عمی الاکبر یقضی معہ طویل الساعات یردد عباراتہ ویستخرج معانیہا و یتقبل اسلوبہ وکان لہما من عظیم التاثیر علی نفسی ما جعلنی اقفو اثرہما فاحلہ من قلبی المحل الاول واجعلہ سمیری الذی لا یمل واینسی الذی اخلوالیہاذا عز الانیس۔"

"یہ کتاب نہج ا لبلاغہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہالسلام کے کلام کاوہ انتخاب ہے جو شریف رضی ابو الحسن محمد بن حسن موسوی نے کیا ہےیہ وہ کتاب ہے ،جو اپنے دامن میں بلاغت کے نمایاں جوہر اور فصاحت کے بہترین مرقعےرکھتی ہے اورا یسا ہونا ہی چاہئے کیونکہ وہ ایسے شخص کا کلام ہے ،جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعدتمام خلق میں سب سے زیادہ فصیح البیان سب سے زیادہ قدرتِ کلام کا مالک اور قوت استدلال میںزیادہ اور الفاظ لغت عربی پر سب سے زیادہ قابو رکھنے والا تھا کہ جس صورت سے چاہتا انہیں گردش دے دیتا تھا اوروہ بلند مرتبہ حکیم جس کے بیان سے حکمت کے سوتے پھوٹتے ہیں اور وہ خطی جس کے جادو بیانی دلو ں کو بھردیتی ہے وہ عالم جس کے لئے پیغمبر خدا کے ساتھ انتہائی روابط اوروحی کی کتابت اوردین کی نصرت میں شمشیر و زبان دونوں سے جہاد کے ابتدائی عمرسے وہ مواقع حاصل ہوئے جو کسی دوسرے کو ان کے سوا حاصل نہیں ہوئے یہ ہے کتاب نہج البلاغہ! اور میں اپنے عنفوانِ شباب اور ابتدائے عمر ہی سے اس کا گرویدہ رہا ہوں،کیونکہ میں اپنے والد کودیکھتا تھا کہ وہ اکثر اس کتاب کو پڑھتے تھے اور اپنے بڑے چچا کو بھی دیکھتا کہ وہ گھنٹوں پڑھتے رہتے اس کے معانی کو سمجھتے رہتے اور اور اس کے ا نداز بیان پر غور کرتے رہتے اوران دونوں بزرگواروں کا میرے دل پراتنا بڑا اثر تھا،جس نے مجھے بھی ان کے نقش قدم پرچلنے کے لئے مجبور کردیا اور میں اس کتاب کو اپنے قلب میں سب سے مقدم درجہ دے دیا اسے اپنا مونس تنہائی قرار دیا جوہمیشہ میرے لئے دل بستگی کا باعثہے۔"

اس کے بعد علامہ مذکور نے ان اشخاص کاذکر کیا ہے ،جن کا رجحان یہ ہے کہ وہاسے شریف رضی کا خود کلام قرار دیتے ہیں ان کے خیالات کاجائزہ لیتے ہوئے موصوف رقمطراز ہیں :

کہتے ہیں کہ کہ سب سے اہم اسباب جواس کتاب کے کلام امیرالمومنینعلیہ السلامنہ ہونے سےمتعلق پیش کئے جاتے ہیں،صرف چار ہیں ۔

پہلےیہ کہ اس میں اصحاب رسول کی نسبت ایسےتعریضات ہیں جن کاحضرت علی علیہ السلام سے صادق ہونا تسلیم نہیں کیا جاسکتاہے،خصوصا معاویہ ،طلحہ، زبیر، عمرو بن عاص اوران کے اتباع کے بارے میں سب وشتم تکموجود ہے۔

دوسرےاس میں لفظی آرائش اور عبارت میں صنعت گریاس حد پر ہے جوحضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں مفقود تھی ۔

تیسرےاس میں تشبیہات واستعارات اورواقعات ومناظر کی صورت کشی اتنی مکمل ہے جس کا پتہ صدر اسلام میں اور کہیں نہیں ملتا،اس کےساتھ حکمت و فلسفہ کی اصطلاحیں اور مسائل کے بیان میں اعداد کاپیش کرنایہ باتیں اسزمانہ میں رائج نہ تھیں ۔

چوتھےاس کتاب کی اکثر عبارتوںسے علم غیب کےادعاء کاپتہ چلتا ہے ،جو حضرت علیعلیہ السلامایسے پاکبازانسان کی شان سے بعید ہے ۔

موصوف ان خیالات کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

خداگواہ ہے کہ ہمیں ان اسباب میں سے کسی ایک میں اور ان سب مجموعی طور پر بھی کوئیواقعی دلیل ،بلکہ نماشکل بھی اس دعوے کے ثبوت میں نظر نہیں آتی جو ان لوگوں کا مدعاہے ،بلکہ انہیں تو ایسے شکوک و شبہات کادرجہ بھی نہیں دیا جاسکتا جو کسی حقیقت کےماننے میں تھوڑا سادغدغہ بھی پیدا کرسکتے ہوں اورجن کے رفع کرنے کی ضرورت ہو۔پھرانہوںنے ایک ایک کر کے ہر بات کو رد بھی کیا ہے ۔ پہلی بات کے متعلق جو کچھ انہوںنے کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول کے بعد مسئلہ خلافت میں طرز عمل ہی ایسااختیار کیا گیاجس سے فطرتاًحضرت علیعلیہ السلامکو شکایتہونا ہی چاہئے تھی اور آپ کی خلافت کے دور میں اہل شام نے آپ کے خلاف جو بغاوت کی،اس سے آپ کو تکلیف ہونا ہی چاہئے ہر دور کے متعلق آپ کے جس طرح کے الفاظ ہیں وہبالکل تاریخی حالات کے مطابق ہیں ،اس لئے ا س میں شک و شبہ کیا محل ہے ۔

دوسرےاورتیسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ حضرت علیعلیہ السلامکا سامرتبہفصاحت اور حکمت دونوں میں کسی اور شخص کو حاصل نہیں تھا،تو پھر آپ کے کلام کیخصوصیتیں اس دورمیں کسی اور کے یہاں مل ہی کیونکر سکتی ہیں ،رہ گیا سجع و قافیہکاالتزام اس دور میں عموماً رائج تھا۔

چوتھی دلیل کے جواب میں علامہ مذکور نے جوکہا ہے وہ ہمارے مذہبی عقائد کے بے شک مطابق نہیں ہے مگر وہ خود ان کے نقطہٴ نظرکاحامل ہے وہ کہتے ہیں کہ جسے علم غیب سے تعبیر کیا جاتاہے ، اسے ہم فراست اورزمانہکی نبض شناسی کانتیجہ سمجھتے ہیں جو علیعلیہ السلامایسے حکیمانسان سے بعید نہیں ہے۔

جیسا کہ ہم نے کہا،یہ جواب انہوں نے مادی ذہنیت کے مطابق دیا ہے اور حقیقتیہ ہے کہ اگر خدا کے دیئے ہوئے علم غیب کا مظاہرہ تو اکثر قرآن کی آیات سے نمودارہی ہے۔ پھر قرآن کی آیتوں کابھی انکار کرنا چاہئے اور اگر علم الہی کی بناپر آیاتکو تسلیم کیا جائے تو اس کے عطا کردہ علم سے علیعلیہالسلامایسے عالمربانی کی کلام میں اس طرح کی باتوں کے تذکرہ پر بھی کسی حرف گیر ی کا موقع نہیں ہے۔

۱۶۔استاد شیخ محمد حسن نائل المرصفی نےبھی نہج البلاغہ کی ایک شرح لکھی ہے ،جودارالکتب العربیہ سے شائع ہوئی ہے ،اس کےمقدمہ میںکلمة فی اللغة العربیہکا عنوان قائم کر کےلکھتے ہیں:

ولقد کان المجلّی فی ہذا الحلبةعلی صلوات اللہ علیہ وما حسبنی احتاج فی اثبات ہذا الی دلیل اکثر من نہج البلاغة ذالک الکتاب الذی اقامہ اللہ حجة واضحة علی ان علیا رضی اللہ عنہ قد کان احسن مثال حی لنور القراٰن وحکمتہ وعلمہ وہدایتہ واعجازہ وفصاحتہ اجتمع علی فی ہذا الکتاب مالم یجتمع لکبار الحکماء وافذاذ الفلاسفة نوابغ الربانیین من اٰیات الحکمة السامیة وقواعد السیاسة المستقیمة ومن کل موعظة باہرة وحجة بالغة تشہد لہ بالفضل وحسن الاثر خاض علی فی ہذا الکتاب لجة العلم والسیاسة الدین فکان فی کل ہذہ المسائل نابغة مبرزا۔

اس میدان میں سب سے آگے حضرت علی ابن ابی طالب تھے اور اس دعویٰ کا سب سے بڑا ثبوت نہج البلاغہ ہے جسے اللہ نے ایک واضح حجت اس کی بنایا ہے کہ علی ابن ابی طالب قرآن کے نور اورحکمت اور علم اور ہدایت اور اعجاز اور فصاحت کی بہترین زندہ مثال تھے اس میں حضرت علیعلیہ السلامکی زبان سےاتنی چیزیں یکجا ہیں ،جو بڑے حکماء اوریکتائے زمانہ فلاسفہ اور شہرہٴ آفاق علمائے ربانیین ان سب کی زبانی ملاکر بھی یکجا نہیں ملتیں ۔ حکمت کی بلند نشانیاں اورصحیحسیاست کے قواعد حیرت خیز موعظہ اور موثر استدلال اس کتاب میں علی ابن ابی طالب نےعلم سیاست اور دین کے ہر دریا کی غواصی کی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ان میں سے ہر شعبہ میں یکتائے روزگار تھے۔

۱۷۔استاد محمد الزہری الغمراوی جنہوں نےمرصفی کی مذکور بالا شرح پرایک مقدمہ تحریر کیا ہے اس میں طبقات الفصحاء کے عنوانکے تحت و ہ لکھتے ہیں:

ولم ینقل عن احد من اہل ہذہ الطبقات مانقل عنامیر المومنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ فقد اشتملت مقالاتہ علی المواعظالزہدیة والمناہج السیاسیة والزواجر الدینیة والحکم النفیسہ والاداب الخلقیة والدرر التوحید یة و الاشارات الغیببة والردود علی الخصوم والنصائح علی وجہ العموم واقد احتوی علی غرر کلامہ کر م اللہ وجہہ کتاب نہج البلاغة الذی جمعہ وہذبہ ابوالحسن محمد بن طاہر المشہور بالشریف الرضی رحمہ اللہ واثابہوارضاہ۔

ان تمام طبقات کے لوگوں میں سے کسی ایک سے بھی وہ کارنامہ نقلہوکر ہم تک نہیں پہنچا،امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی زبانی پہنچاہے آپ کے مقالات زاہدانہ مواعظ ،سیاسی مسلک اوردین ہدایات ،نفیس فلسفی بیانات،اخلاقی تعلیمات،توحیدی کے جواہر،غیبی اشارات مخالفین کی رو وقدح اور عمومینصائح پر مشتمل ہے اورآپ کے کلام کے روشن اقتباسات پر مشتمل کتاب نہج البلاغہ ہےجسے ابو الحسن محمدابن طاہر مشہور بہ شریف رضی رحمہ اللہ نے جمع کیا ہے۔

۱۸۔الاستاذ عبد الوہاب حمودہ استاذالادب الحدیث بکلة الاداب جامعہ فواد اول مصر نے اپنے مقالہ الآراء الاجتماعیہ فینہج البلاغة۔ میں جورسالةالاسلام قاہرہ کے جلد ۳،عدد۳ بابت ماہ رمضان ۱۳۷۰ھ مطابقجولائی ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا ہے ،لکھا ہے کہ:

وقد اجتمع لہ رضی اللہ عنہ فی کتا ب نہج البلاغہ ما یجتمع لکبار الحکماء وافذاذالفلاسفة ونوابغ لربانیین من آیات الحکمة السامیة ،قواعد السیاسیة المستقیمة ومن کل موعظة باہرة، وحمة بالغة وآراء اجتماعیة،واسس حربیة ، مما یشہد للامام بالفضل وحسنالاثر۔

حضرت علی ابن ابی طالب کی زبان سے کتاب نہج البلاغہ میں تن تنہا و ہ تمام چیزیں اکٹھا ہوگئی ہیں جو اکابر علماء اور یکتائے روزگار فلاسفہ اور سربرآوردہ علمائے ربانیین سے مجموعی طور پر یکجا کی جاسکتی ہیں بلند حکمت کینشانیاں اورصحیح سیاست کے قواعد اور ہر طرح کا حیرت خیز موعظ اور موثر استدلال اوراجتماعی تصورات یہ سب امیرالمومنین کی فضیلت اوربہترین کار گزاری کا بین گواہ ہیں۔

۱۹۔علامہ ابونصر پروفیسربیروت یونیورسٹی نے اپنی کتاب علی ابن ابی طالب کی فصل ۳۱ میں امیرالمومنین کے آثارعربی میں نہج البلاغہ کا ذکر کیا ہے ا ور اس ذیل میں لکھا ہے کہ یہ کتاب علی ابنابی طالب کی عظیم شخصیت کی مظہر ہے ۔
۲۰۔۔قاضی علی ابن محمد شوکانی صاحب نیل الاوطار نے اپنے کتاب ”اتحافالاکابر باسانیدالدفاتر“ طبع حیدر آباد (باب النون) میں نہج البلاغہ کے لئے اپنیسند متصل درج کرتے ہوئے لکھا ہے:

نہج البلاغہ من کلام علی رضی اللہ عنہ ۔

یہ وہ حقیقت ہے ،جس کا متعددعیسائیمحققیننے بھی اعتراف کیا ہے ۔
۱ عبد المسیح انطاکی صاحب جریدہ ”العمران“ مصر ،جنہوں نے امیرالمومنینعلیہ السلامسیرت میں اپنیمشہور کتاب ”شرح قصیدہ علویہ“ تحریر کی ہے اور وہ مطبع رعمسیس فجالہ مصر میں شائعہوئی ہے وہ اس کے ص۵۳۰، پر تحریر کرتے ہیں :

لاجدال ان سیدنا علیاً امیر المومنین ہو امام الفصحاء واستاذ البلغاء واعظم من خطب و کتب فی حرف اہل ہذہ الصناعة الالباء وہذاکلام قد قیل فیہ بحق انہ فوق کلام الخلق و تحت کلام الخالق قال ہذا کل من عرف فنونالکتابة واشتغل فی صناعة التحبیر والتحریر بل ہو استاذ کتاب العرب ومعلمہم وبلامراء فما من ادیب لبیب حاول اتقان صناعة التحریر االادّبین یدیہ القران و نہجالبلاغہ ذلک کلام الخالق وہذاکلام اشرف المخلوقین و علیہما یعوّل فی التحریروالتحبیر اذا اراد ان یکون فی معاشر الکتبة المجیدین ولعل اضل من خدم لغة قریشالشریف الرضی الذی جمع خطب واقوال و حکم ورسائل سیدنا ا میر المومنین من افواہ الناس وامالیہم واصاب کل الاصابة باطلاقہ علیہ اسم ”نہج البلاغہ“ وما ہذاالکتاب الاصراطہا المستقیم لمن یحاول الوصول الیہا من معاشرالمتادّبین۔

اس میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا کہ سیدنا حضرت علی امیرالمومنین فصیحوں کے امام اور بلیغوں کے استاد اور عربی زبان خطابت اور کتابت کرنےوالوں میں سب سے زیادہ عظیم المرتبت ہیں اور یہ وہ کلام ہے جس کے بارے میں بالکلصحیح کہا گیا ہے کہ یہ کلام خلق سے بالا اور خالقِ کلام سے نیچے ہے یہ ہر اس شخص کا قول ہوگا ،جس کے انشاء پردازی کے فنون سے وافقیت حاصل کی ہو اور تحریر کا مشغلہ رکھا ہو،بلکہ آپ بلاشبہ تمام عرب انشاء پردازوں کے استاد او رمعلم ہیں کوئی ادیب ایسا نہیں ہے جو تحریر کے فن میں کمال حاصل کرنا چاہے، مگر یہ کہ اس کے سامنے قرآن ہوگا۔ اورنہج البلاغہ کہ ایک خالق کا کلام ہے اور دوسرا اشر ف المخلوقین کا اور انہیں پر اعتماد کرے گا ہر وہ شخص جو چاہے گا کہ اچھے لکھنے والوں میںاس کا شمار ہو ، غالباً زبان عربی کی خدمت کرنے والوں میں سب سے بڑا درجہ شریف رضی ۺ کا ہے جنہوںنے امیرالمومنین کے یہ خطبے اور اقوال اور حکیمانہ ارشادات اور خطوط لوگوں کےمحفوظات اور مخطوطات سے یکجا کئے ہیں اور انہوں نے اس کا نام ”نہج البلاغہ“ بھی بہتٹھیک رکھا۔ بلاشبہ یہ بلاغت کاصراط مستقیم ہے ہر اس شخص کے لئے جو اس منزل تکپہنچنا چاہئے۔

اس کے بعد انہوں نے شیخ محمد عبدہ کی رائے بیان کی ہے اور اس کے بعد لکھا ہےکہ ایک مرتبہ شیخ ابراہیم یازجی نے جو اس آخر دور میں متفقہ طور پر عربی کے کاملانشاء پرداز اور امام اساتذہ لغت مانے گئے ہیں ،مجھ سے فرمایا مجھے اس فن میں جومہارت حاصل ہوئی ،وہ صرف قرآن مجید اور نہج البلاغہ کے مطالعہ سے یہ دونوں عربیزبان کے وہ خزانہٴ عامرہ ہیں ،جو کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔

۲)فواد افرام البستانی الآداب العربیہ فی کلیة القدیس یوسف (بیروت)انہوںنے ایک سلسلہ تعلیمی کتابوںکا روائع کے نام سے شروع کیا ہے ،جس میں مختلف جلیلالمرتبہ مصنفین کے آثار قلمی اور تصانیف سے مختصر انتخابات ،مصنف کے حالات،کمالات،کتاب کی تاریخی تحقیقات وغیرہ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مجموعوں کی صورت میں ترتیب دیئےہیں اور وہ کیتھلک عیسائی پریس (بیروت) میں شائع ہوئے ہیں ۔اس سلسلہ میں پہلا مجموعامیرالمومنین اورنہج البلاغہ سے متعلق ہے جس کے بارے میں موٴلف نے اپنے مقدمہ میںتحریر کیا ہے :

اننا نبدا الیوم بنشر منتخبات من نہجالبلاغہ للامام علی ابن ابی طالب اول مفکری الاسلام۔

ہم سب سے پہلے اس سلسلہ کی ابتدا کرتے ہیں کچھ انتخابات کے ساتھ نہج البلاغہ کے جو اسلام کے سب سے پہلے مفکر امام علی ابن ابی طالب کی کتاب ہے۔

اس کے بعد وہ سلسلہ شروع ہوا ہے جوسلسلہٴ روائع پہلی قسط ہے اس کا پہلاعنوان ہے ۔”علی ابن ابی طالب “ جس کے مختلف عناوین کے تحت میں امیر المومنین کیسیرت اورحضرت کے خصوصیات زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے جو ایک عیسائی کی تحریر ہوتےہوئے پورے طورپر شیعی نقطہء نظر کے موافق نہ سہی لیکن پھر بھی حقیقت و انصاف کے بہتسے جوہر اپنے دامن میں رکھتی ہے۔دوسرا عنوان ہے ”نہج البلاغہ‘ اورا س کے ذیلیعناوین میں ایک عنوان ہے ”جمعہ“ دوسرا عنوان ہے ”صحة نسبتہ“ اس کے تحت میں لکھا ہے ”نہج البلاغہ“ کے جمع و تالیف کو بہت زمانہ نہیںگذرا تھا کہ بعض اہل نظر اورمورّخین نے اس کی صحت میں شک کرنا شروع کیا،ان کا پیشرو ابن خلکان ہے ، جس نے اسکتاب کو اس کے جامع کی طرف منسوب کیا ہے او ر پھر صفدی وغیرہ نے اس کی پیروی کی اورپھر شریف رضی ۺ کے بسا اوقات اپنے دادا مرتضیٰ کے لقب سے یا د کئے جانے کی وجہ سےبعض لوگوں کو دھوکا ہوگیااور وہ ان میں اور ان کے بھائی علی بن طاہر معروف بہ سیدمرتضیٰ متولد ۹۶۶ء متوفیٰ ۱۰۴۴ء میں تفرقہ نہ سمجھ سکے اور انہوں نے نہج البلاغہ کےجمع کو ثانی الذکر کی طرف منسوب کردیا جیسا کہ جرجی زیدان نے کیا ہے اور لوگوں نےجیسے مستشرق کلیمان نے یہ طرہ کیا کہ اصل مصنف کتاب کا سید مرتضیٰ ہی کو قرار دےدیا ہم جب اس شک کے وجوہ و اسباب پر غور کرتے ہیں تووہ ہر پھر کے پانچ امر ہوتے ہیں۔

اس کے بعدانہوں نے شک کے وہی اسباب تقریباً تحریر کئے ہیں جو اس کے پہلے محیالدین عبد الحمید شارح نہج البلاغہ کے بیان میں گذر چکے ہیں اور پھر انہوں نے انوجوہ کو ردکیا ہے۔

۳)بیروت کے شہرہٴ آفاقمسیحی ادیب اورشاعر پولس سلامہ اپنی کتاب ”اول ملحمہ عربیہ عید الغدیر“ میں جومطبعة النسر بیروت میں شائع ہوئی ہے ۔ صفحہ ۷۱،۷۲پر لکھتے ہیں:

” نہج البلاغہ“مشہور ترین کتا ب ہے ، جس میں امام علی علیہ السلام کی معرفت حاصل ہوتی ہے اوراسکتاب سے بالاتر سواقرآن کے اور کسی کتاب کی بلاغت نظر نہیں آتی اس کے بعد حسب ذیلاشعار نہج البلاغہ میں کی مدح میں درج کئے گئے ہیں۔


ہذہ الکہف للمعارفباب

مشرع من مدینہ الاسرار

تنثر الدر فی کتاب مبین

سفر نہجالبلاغہ المختار

ہوروض من کل زہر جنی

اطلعتہ السماء فی النوار

فیہ مننضرة الورد العذاری

والخزامی والفدّوالجلنار

فی صفاء الینبوع یجریزلالا

کوثر ارائقابعید القرار

تلمع الشط ولضفاف ولکن

بالعجزالعیون فی الاغوار

یہ معارف و علوم کا مرکز اوراسرار و رموز کاکھلا ہوا دروازہہے۔

یہ نہج البلاغہ کیا ہے، ایک روشن کتاب میں بکھرے ہوئے موتی
یہ چنے ہوئےپھولوں کا ایک باغ ہے ،جس میں پھولوں کی لطافت چشموں کی صفائی اورآبِ کوثر کیشیرینی جس نہر کی وسعت اورکنارے توآنکھوں سے نظر آتے ہیں مگر تہ تک نظر ےں پہنچنےسے قاصر ہیں۔

مذکورہ بالا ادباء محدثین کے کلام سے نہج البلاغہ کے لفظی اورمعنویاہمیت بھی ضمناً ثابت ہوگئی ہے اب اس کے متعلق مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
ابرہ گیا ہمارے فنی اصول سے اس کتاب کا وہ درجہ جس اعتبارسے ہم اس سے استدلال کر سکتےہیں تو مجموعی طورپ ر ہمارے نزدیک اس کتاب کے مندرجات کی نسبت امیر المومنین کیجانب اسی حد تک ثابت ہے جیسے صحیفہ کاملہ کی نسبت امام زین العابدین کی جانب یاکتباربعہ کی نسبت ان کے مصنفین کی طرف یامعلقات اربعہ کی نسبت ان کے نظم کرنے والوں کیجانب رہ گیا، خصوصی عبارات اورالفاظ میں سے ہر ایک کی نسبت اطمینان و ہ اسلوب کلاماور انداز بیان سے وابستہ ہے اور ان مندرجات کی مطابقت کے ا عتبار سے ہے ان ماخذوںکے ساتھ جو صحیح طورپر ہمارے یہاں مسلّم الثبوت ہیں۔اصطلاحی حیثیت سے قدماء کیتعریف کے مطابق جو صحت خبر کے لئے وثوق بالصدور کو کافی سمجھتے ہیں ان شرائط کے بعداس کا ہر جز صحیح کی تعریف میں داخل ہے اور متاخرین کی اصطلاح کی مطابق جوصحت کوباعتبار صفات راوی قراردیتے ہیں۔نہج البلاغہ کے مندرجات کو مرسلات کی حیثیت حاصل ہےمرسلات کی اہمیت ارسال کرنے والے کی شخصیت کے اعتبار سے ہوتی ہے ۔یہیں تک کہ ابنابی عمیر اورجلیل القدر اصحاب کے بارے میں علماء نے یہ رائے قائم کر لی ہے کہ ان تکجب خبر کی صحت ثابت ہوجائے تو پھر ان کے آگے دکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون راوی ہےاس لئے کہ ان کا نقل کرنا خود اس کے اعتبار کی دلیل ہے اور اسی لئے کہا گیا ہے کہمرسلات ابن ابی عمیر حکم مسند میں ہیں۔اس بناپرخود جناب سید رضی اعلی اللہ مقامہ کیجلالت قدر ضرور اسے عام مرسلات سے ممتاز کردیتی ہے ۔پھر بھی مواعظ وتواریخ وغیرہ کاذکر نہیں جس میں عقیدہ و عمل ایسی اہمیت نہیں ہے ۔لےکن مقام اعتقاد و عمل میں ہمنہج البلاغہ کے مندرجات و ا ور ادلہ کے ساتھ جو اس باب میں موجود ہوں۔اصول تعاون وتراجیح کے معیار پرجانچےں گے اور بعض موقعوں پر ممکن ہے جو مسند حدیث اس موضوع میںموجود ہو اس پر نہج البلاغہ کی روایت کوترجیح ہوجائے اور بعض مقاموں پر ممکن ہےتکافوٴ ہوجائے اوربعض جگہ شاید ان دوسرے ادلہ کو ترجیح ہوجائے ،لےکن اس سے نہجالبلاغہ کی مجموعی حیثیت پرکوئی اثر نہیںپڑتااس کاوزن اسی طرح برقرار رہنا ہے جسطرح کافی کی بعض حدیثوں کی کسی وجہ سے نظر انداز کرنے کے بعدبھی کافی کاوزن مسلمہے۔
بہر صورت نہج البلاغہ کی علمی و ادبی و مذہبی اہمیت اور اس کے حقائقآگےںمضامین اور اخلاقی مواعظ کا وزن ناقابل انکار ہے ،مگر ظاہر ہے کہ نہج البلاغہسے صحیح فائدہ وہی افراد اٹھاسکتے ہیں کہ جو عربی زبان میں مہارت رکھتے ہوں۔غیرعربی داں اس حزینہٴ عامرہ سے فیض حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی لئے ایرانی فضلاء وعلماء کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اس فارسی ترجمے شائع کرےں چنانچہ متعددترجمے ایران میں اس کے شائع ہوتے رہے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے اردوزبان میں ابھی تک نہج البلاغہ کا کوئی اطمینان ترجمہ نہیں ہوا ہے ۔بعض ترجمے جو شائع ہوئے ،ان میں سے کسی میں اغلاط بہت زیادہ تھے اور کسی میں عبارت آرائی نے ترجمہ کے حدودکو باقی نہیںرکھا،نیزحواشی میں کبھی خالص مناظرانہ انداز کی بہتات ہوگئی اور کبھیاختصار کی شدت نے ضروری مطالب نظر انداز کردیئے۔ جناب مولانا مفتی جعفر حسین صاحبجو ہندوستان و پاکستان میں کسی تعارف کے محتاج نہیں اور اپنے علمی کمالات کے ساتھبلندی سیرت اورسادگی معاشرت میں جن کی ذات ہندوستان و پاکستان میں ایک مثالی حیثیترکھتی ہے ان کی یہ کوشش نہایت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے مکمل ترجمہاورشارحانہ حواشی کے تحریر کابیڑا اتھایا اورکافی محنت و عرق ریزی سے اس کام کیتکمیل فرمائی ۔بغیر کسی شک و شبہ کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب تک ہماری زبان میں جتنےترجمے اس کتاب کے حواشی شائع ہوئے ہیں، ان سب میں اس ترجمہ مرتبہ اپنی صحت اورسلامت اور حسن اسلوب میں یقینا بلند ہے اور حواشی میں بھی ضرور مطالب کے بیان میںکمی نہیںکی گئی اور زوائد کے درج کرنے سے احتراز کیا ہے ۔بلا شبہ نہج البلاغہ کےضروری مندرجات اور اہم نکات پر مطلع کرنے کے لئے اس تالیف نے ایک اہم ضرورت کو پوراکیا ہے جس میں مصنف ممدوح قابل مبارکباد ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ صاحبان ذوق ہر طبقہکے اس کتاب کاویساہی خیر مقدم کرےں گے جس کی وہ مستحق ہے۔ جزی اللہ مولفہ فیالدارین خیرا۔

علی نقی النقوی
۴جمادی الثانی ۱۳۷۵ ھ

No comments: