Tuesday, April 28, 2009

شرح چھل حدیث امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

شرح چھل حدیث

امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

تالیف: علی اصغر رضوانی

ترجمہ : اقبال حیدر حیدری

کتابنامہ

نام کتاب : شرح چھل حدیث امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

تالیف: علی اصغر رضوانی

ترجمہ : اقبال حیدر حیدری

ناشر: انتشارات انصاریان

پھلا ایڈیشن: شعبان المعظم ۱۴۲۸ھ

تعداد: ۲۰۰۰

مقدمہٴ مترجم

خداوندعالم نے ھمیشہ نوع بشر کی ھدایت کے لئے کوئی نہ کوئی انتظام کیا ھے، یہ ایک سنت الٰھی ھے اور سنت الٰھی میں کبھی تبدیلی نھیں آسکتی۔ جناب آدم سے لے کر ختمی مرتبت حضرت رسول اکرم (ص)تک تمام انبیاء علیھم السلام انسان کی ھدایت کے لئے اس دنیا میں رنج و الم اور مصائب برداشت کرتے رھے، اور جب یہ نبوت کا سلسلہ ختم ھونے لگا تو رسول اسلام (ص)نے اس ھدایت کے سلسلہ کو امامت کی شکل میں آگے بڑھاتے ھوئے فرمایا:

”اِنِّی تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ کَتَابَ اللهِ وَ عِتْرَتِی؛ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِی اَبَداً ۔۔۔“۔[1]

”بے شک میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رھا ھوں: ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت، جب تک تم ان دونوں سے متمسک رھو گے میرے بعد ھرگز گمراہ نھیں ھوگے“۔

حضرت رسول اکرم (ص)جانتے تھے کہ میرے بعد امت ،گمراھی کا شکار ھوجائے گی لہٰذا اپنی امت کو گمراھی سے بچانے اور اس کی ھدایت کے لئے ایسا نسخہ پیش کیا جو حقیقت میں ھدایت کا ضامن ھے، مسلمانوں نے قرآن کو ظاھری طور پر لے لیا لیکن عترت رسول کو چھوڑ دیا جبکہ حدیث رسول دونوں سے تمسک کا حکم دیتی ھے اور اسی صورت میں ھدایت ممکن ھے۔ حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کی لاکھ ھدایت کرنی چاھی لیکن ان کے دلوں میں بغض و حسد بھرا ھوا تھا، جس کی وجہ سے ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ھوئے تھے۔ آنحضرت (ص)نے اپنے بعد آنے والے ائمہ (علیھم السلام) کا نام بنام تعارف کرایا اور امام کی معرفت کے سلسلہ میں یہ مشھور و معروف حدیث ارشاد فرمائی،جسے شیعہ اور اھل سنت نے آنحضرت (ص)سے نقل کی ھے :

”مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مِیْتَةً جَاہِلِیَةً۔“[2]

”جو شخص اپنے زمانہ کے امام کی معرفت اور انھیں پہچانے بغیر مرجائے تو اس کی موت جاھلیت (کفر) کی موت ھوگی“۔

اس سلسلہ امامت کی آخری کڑی حضرت امام مھدی علیہ السلام ھیں ، جو دنیا کی ھدایت کرتے ھیں، لیکن آج ھمارے امام ھماری نظروں سے غائب ھیں، ھم اسی امام کے ظھور کے منتظر رہتے ھیں اور جمعہ کے دن دعائے ندبہ میں امام علیہ السلام کے فراق میں مزید آنسو بھاتے ھیں۔

لیکن امام علیہ السلام کی صحیح معرفت کے بغیر راہ انتظار کو طے کرنا ممکن نھیں ھے، لہٰذا امام مھدی علیہ السلام کے اسم گرامی اور نسب کی شناخت کے علاوہ ان کی عظمت اور ان کے رتبہ کی کافی مقدار میں شناخت بھی ضروری ھے۔

”ابو نصر“ امام حسن عسکری علیہ السلام کے خادم؛ امام مھدی علیہ السلام کی غیبت سے پھلے امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے، امام مھدی علیہ السلام نے ان سے سوال کیا: کیا مجھے پہچانتے ھو؟ انھوں نے جواب دیا: جی ھاں، آپ میرے مولا و آقا اور میرے مولا و آقا کے فرزند ھیں! امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا مقصد ایسی پہچان نھیں ھے!؟ ابو نصر نے عرض کی: آپ ھی فرمائیں کہ آپ کا مقصد کیا تھا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

”میں پیغمبر اسلام (ص)کا آخری جانشین ھوں، اور خداوندعالم میری (برکت کی) وجہ سے ھمارے خاندان اور ھمارے شیعوں سے بلاؤں کو دور فرماتا ھے“۔[3]

لہٰذا ھماری ذمہ داری ھے کہ اپنے امام کی شخصیت اور صفات کو اچھی طرح پہچانیں تاکہ ھم آپ کے حقیقی انتظار کرنے والوں میں شمار ھوں۔

ممکن ھے بعض لوگوں کے ذھنوں میں یہ سوال پیدا ھوکہ کس طرح ایک انسان کی اتنی طولانی عمر ھوسکتی ھے؟![4]

اس سوال کی وجہ یہ ھے کہ آج کل کے زمانہ میں عام طور پر ۸۰ سے ۱۰۰ سال کی عمر ھوتی ھے، لہٰذا ایسی عمر کو دیکھنے اور سننے کے باوجود اتنی طولانی عمر پر یقین کس طرح کرے، ورنہ تو طولانی عمر کا مسئلہ عقل اور سائنس کے لحاظ سے بھی کوئی ناممکن بات نھیں ھے، دانشوروں نے انسانی بدن کے اعضا کی تحقیقات اور جائزے سے یہ نتیجہ نکالا ھے کہ انسان بہت زیادہ طولانی عمر پاسکتا ھے، یھاں تک کہ اس کو بڑھاپے اور ضعیفی کا احساس تک نہ ھو۔

چنانچہ برنارڈ شو نامی دانشور کا کھنا ھے:

”ماھرین اور دانشوروں کے نزدیک یہ ایک مسلم الثبوت حقیقت ھے کہ انسان کی عمر کے لئے کوئی حد معین نھیں کی جاسکتی، یھاں تک کہ طول عمر کے لئے بھی کوئی حد معین نھیں ھوسکتی“۔[5]

اسی طرح پر وفیسر ”اٹینگر“ کا کھنا ھے:

”ھماری نظر میں عصر حاضر کی ترقی اور ھمارے شروع کئے کام کے پیش نظر اکسویں صدی کے لوگ ہزاروں سال زندگی بسر کرسکتے ھیں“۔[6]

قارئین کرام! مذکورہ دانشوروں کے نظریہ سے یہ بات معلوم ھوجاتی ھے کہ انسان ہزاروں سال زندگی بسر کرسکتا ھے، دوسری طرف ھم اس خدا کو مانتے ھیں جو ھر چیز پر قادر ھے، لہٰذا اس کی قدرت کے پیش نظر تقریبا۱۱ سوسال سے زیادہ عمر گزار لینا کوئی تعجب کی بات نھیں ھے۔

خداوندعالم ھمیں امام زمانہ علیہ السلام کی صحیح معرفت حاصل کرنے اور آپ کی غیبت کے زمانہ میں اپنے فرائض پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)

رَبّنا تَقبّل مِنّا اِنَّکَ اَنتَ السَّمِیْعُ العَلِیْم۔

اقبال حیدر حیدری

حوزہ علمیہ قم۔ ایران

ihh2001@yahoo.com

حدیث نمبر ۱:

اھل بیت علیھم السلام ، مرکز حق ھیں

<الْحَقُ مَعَنٰا فَلَنْ یُوحِشَنٰا مَنْ قَعَدَ عَنّٰا، وَ نَحْنُ صَنٰائِعُ رَبِّنٰا، وَالْخَلْقُ بَعْدُ صَنٰائِعُنٰا>[7]

”حق، ھم اھل بیت (علیھم السلام) کے ساتھ ھے، کچھ لوگوں کا ھم سے جدا ھونا ھمارے لئے وحشت کا سبب نھیں ھے، کیونکہ ھم پروردگار کے تربیت یافتہ ھیں، اور دوسری تمام مخلوق ھماری تربیت یافتہ ھیں“۔

شرح

اس حدیث مبارک کو شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے معتبر سند کے ساتھ ابوعمرو عمری سے امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) سے نقل کیا ھے۔ امام علیہ السلام نے حدیث کے اس فقرہ میں تین نکات کی طرف اشارہ فرمایا ھے:

۱۔ مکمل حق و حقیقت، اھل بیت علیھم السلام کے ساتھ ھے۔

توجہ رھے کہ ”الحقّ معنا“کا جملہ ”اٴھل البیت مع الحق“ کے جملہ سےلگ ھے؛ کیونکہ پھلے جملہ کا مفھوم یہ ھے کہ اھل بیت علیھم السلام حق و باطل کے تشخص کا بنیادی معیار ھیں، اور حق و باطل کی ایک دوسرے سے پہچان کے لئے اھل بیت علیھم السلام کی سیرت و کردار کی طرف رجوع کیا جائے، برخلاف دوسرے جملہ کے، (کیونکہ دوسرے جملہ کے معنی یہ ھیں کہ اھل بیت علیھم السلام حق کے ساتھ ھیں) اور یھی (پھلے) معنی حدیث ”علیّ مع الحقّ والحق مع علیّ“[8] سے بھی حاصل ھوتے ھیں۔

۲۔ جس کے ساتھ حق ھو تو اسے دوسروں کی روگردانی اور اپنی تنھائی سے خوف زدہ نھیں ھونا چاہئے، اور اپنے ساتھیوں کی کم تعداد یا کثیر تعداد پر توجہ نھیں کرنی چاہئے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ھشام سے فرمایا:

”اے ھشام! اگر تمھارے ھاتھ میں اخروٹ ھو اور سب لوگ یہ کھیں کہ تمھارے ھاتھ میں درّ ھے تو اس کا کوئی فائدہ نھیں ھے؛ کیونکہ تم جانتے ھو کہ تمھارے ھاتھ میں اخروٹ ھے، اور اگر تمھارے ھاتھ میں درّ ھو اور لوگ کھیں کہ تمھارے ھاتھ میں اخروٹ ھے تو اس میں تمھارا کوئی نقصان نھیں ھے؛ کیونکہ تم جانتے ھو کہ تمھارے ھاتھ میں درّ ھے“۔[9]

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”راہ (حق و) ھدایت میں لوگوں کی کم تعداد سے نہ گھبراؤ۔“[10]

۳۔ اس حدیث کے تیسرے جملہ میں جو چیز بیان ھوئی ھے اس کی مختلف تفسیریں بیان کی گئی ھیں جن کو یکجا جمع کرنے میں کوئی مضائقہ نھیں ھے، ھم ذیل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

الف۔ بے شک اھل بیت علیھم السلام عقائد اور دینی اعمال میں لوگوں کے محتاج نھیں ھیں، اور جو کچھ خداوندعالم کی طرف سے رسول اکرم (ص) پر نازل ھوا ھے وہ ان حضرات کے لئے کافی ھے، جبکہ امت ان تمام چیزوں میں اھل بیت علیھم السلام کی محتاج ھے، اور صرف قرآن و سنت ان کے لئے کافی نھیں ھے، نیز اھل بیت علیھم السلام کی طرف رجوع کئے بغیر امت گمراہ اور ھلاک ھے۔

ب۔ اھل بیت علیھم السلام پر خدا وندعالم کی نعمتیں براہ راست او ربغیر کسی واسطہ کے نازل ھوتی ھیں، اور جب خداوندعالم دوسرے لوگوں پر اپنی نعمتیں نازل کرتا ھے تو وہ اھل بیت علیھم السلام کے واسطہ کے بغیر نھیں ھوتیں۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر۲ :

امام زمانہ(ع) زمین والوں کے لئے امان ھیں

<اِنّی لَاٴَمٰانُ لِاٴَہْلِ الْاٴَرْضِ کَمٰا اَٴنَّ النُّجُومَ اٴَمٰانُ لِاٴَہْلِ السَّمٰاءِ>[11]

”بے شک میں اھل زمین کے لئے امن و سلامتی ھوں، جیسا کہ ستارے آسمان والوں کے لئے امان کا باعث ھیں“۔

شرح

یہ کلام حضرت امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے اس جواب کا ایک حصہ ھے جس کو امام علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے جواب میں لکھا ھے، اسحاق نے اس خط میں امام علیہ السلام سے غیبت کی وجہ کے بارے میں سوال کیا تھا۔ امام علیہ السلام نے غیبت کی علت بیان کرنے کے بعد اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ غیبت کے زمانہ میں امام کا وجود بے فائدہ نھیں ھے، وجود امام کے فوائد میں سے ایک ادنیٰ فائدہ یہ ھے کہ امام زمین والوں کے لئے باعث امن و امان ھیں، جیسا کہ ستارے آسمان والوں کے لئے امن و سلامتی کا ذریعہ ھوتے ھیں۔ دوسری صحیح روایات میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ھوا ھے۔ جیسا کہ اُن روایات میں بیان ھوا ھے: اگر زمین پر حجت (خدا) نہ ھو تو زمین اور اس پر بسنے والے مضطرب اور تباہ و برباد ھوجائیں۔

امام زمانہ علیہ السلام کو اھل زمین کے لئے امن و امان سے اس طرح تشبیہ دینا جس طرح ستارے اھل آسمان کے لئے امن و امان ھوتے ھیں؛ اس سلسلہ میں شباہت کی چند چیزیں پائی جاتی ھیں جن میں سے دو چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے:

۱۔ جس طرح تخلیقی لحاظ سے ستاروں کا وجود اور ان کو ان کی جگھوں پر رکھنے کی حالت اور کیفیت، تمام کرّات، سیارات اور کھکشاوٴں کے لئے امن و امان اور آرام کا سبب ھے، زمین والوں کے لئے امام زمانہ علیہ السلام کا وجود بھی اسی طرح ھے۔

۲۔ جس طرح ستاروں کے ذریعہ شیاطین آسمانوں سے بھگائے گئے ھیں اور اھل آسمان منجملہ ملائکہ کے امان و آرام کا سامان فراھم ھوا ھے اسی طرح حضرت امام زمانہ علیہ السلام کا وجود، تخلیقی اور تشریعی لحاظ سے اھل زمین سے، مخصوصاً انسانوں سے شیطان کو دور بھگانے کا سبب ھے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر۳ :

فلسفہٴ امامت اور صفات امام

<اٴَحْییٰ بِہِمْ دینَہُ، َواَٴتَمَّ بِہِمْ نُورَہُ، وَجَعَلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ إِخْوٰانِہِمْ وَبَنِي عَمِّہِمْ َوالْاٴَدْنَیْنَ فَالْاٴَدْنَیْنَ مِنْ ذَوي اٴَرْحٰامِہِمْ فُرْقٰاناً بَیِّناً یُعْرَفُ بِہِ الْحُجَّةُ مَنِ الْمَحْجُوجِ، وَالاِْمٰامُ مِنَ الْمَاٴمُومِ، بِاٴَنْ عَصَمَہُمْ مِنَ الذُّنُوبِ، وَ بَرَّاٴَہُمْ مِنَ الْعُیُوبِ، وَ طَہَّرَہُمْ مِنَ الدَّنَسِ، َونَزَّہَہُمْ مِنَ اللَّبْسِ، وَجَعَلَہُمْ خُزّٰانَ عِلْمِہِ، وَ مُسْتَوْدَعَ حِکْمَتِہِ، وَمَوْضِعَ سِرِّہِ، وَ اٴَیَّدَہُمْ بِالدَّلاٰئِلِ، وَلَوْلاٰ ذٰلِکَ لَکٰانَ النّٰاسُ عَلیٰ سَوٰاءٍ، وَ لَاِدَّعیٰ اٴَمْرَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ کُلُّ اٴَحَدٍ، وَ لَمٰا عُرِفَ الْحَقُ مِنَ الْبٰاطِلِ، وَ لاٰ الْعٰالِمُ مِنَ الْجٰاہِلِ۔>[12]

”اوصیائے (الٰھی) وہ افراد ھیں جن کے ذریعہ خداوندعالم اپنے دین کو زندہ رکھتا ھے، ان کے ذریعہ اپنے نور کو مکمل طور پر نشر کرتا ھے، خداوندعالم نے ان کے اور ان کے (حقیقی) بھائیوں، چچا زاد (بھائیوں) اور دیگر رشتہ داروں کے درمیان واضح فرق رکھا ھے کہ جس کے ذریعہ حجت اور غیر حجت نیز امام اور ماموم کے درمیان پہچان ھوجائے۔ اور وہ واضح فرق یہ ھے کہ اوصیائے الٰھی کو خداوندعالم گناھوں سے محفوظ رکھتا ھے اور ان کو ھر عیب سے منزہ، برائیوں سے پاک اور خطاؤں سے دور رکھتا ھے، خداوندعالم نے ان کو علم و حکمت کا خزانہ دار اور اپنے اسرار کا رازدار قرار دیا ھے اور دلیلوں کے ذریعہ ان کی تائید کرتا ھے۔ اگر یہ نہ ھوتے تو پھر تمام لوگ ایک جیسے ھوجاتے، اور کوئی بھی امامت کا دعویٰ کر بیٹھتا، اس صورت میں حق و باطل اور عالم و جاھل میں تمیز نہ ھوپاتی“۔

شرح:

یہ کلمات امام مھدی علیہ السلام نے احمد بن اسحاق کے خط کے جواب میں تحریر کئے ھیں، امام علیہ السلام چند نکات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد امام اور امامت کی حقیقت اور شان کو بیان کرتے ھوئے امام کی چند خصوصیات بیان فرماتے ھیں، تاکہ ان کے ذریعہ حقیقی امام اور امامت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کے درمیان تمیز ھوسکے:

۱۔ امام کے ذریعہ خدا کا دین زندہ ھوتا ھے؛ کیونکہ امام ھی اختلافات، فتنوں اور شبھات کے موقع پر حق کو باطل سے الگ کرتا ھے اور لوگوں کو حقیقی دین کی طرف ھدایت کرتا ھے۔

۲۔ نور خدا جو رسول خدا (ص)سے شروع ھوتا ھے، امام کے ذریعہ تمام اور کامل ھوتا ھے۔

۳۔ خداوندعالم نے پیغمبر اکرم (ص)کی ذرّیت میں امام کی پہچان کے لئے کچھ خاص صفات معین کئے ھیں، تاکہ لوگ امامت کے سلسلہ میں غلط فھمی کا شکار نہ ھوں، مخصوصاً اس موقع پر جب ذرّیت رسول کے بعض افراد امامت کا جھوٹا دعویٰ کریں۔ ان میں سے بعض خصوصیات کچھ اس طرح ھیں: گناھوں کے مقابلہ میں عصمت، عیوب سے پاکیزگی، برائیوں سے مبرّااور خطا و لغزش سے پاکیزگی وغیرہ، اگر یہ خصوصیات نہ ھوتے تو پھر ھرکس و ناکس امامت کا دعویٰ کردیتا، اور پھر حق و باطل میں کوئی فرق نہ ھوتا، جس کے نتیجہ میں دین الٰھی پوری دنیا پر حاکم نہ ھوتا۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۴:

فلسفہٴ امامت

<اٴَوَ مٰا رَاٴَیْتُمْ کَیْفَ جَعَلَ اللهُ لَکُمْ مَعٰاقِلَ تَاٴوُونَ إِلَیْہٰا، وَ اٴَعْلاٰماً تَہْتَدُونَ بِہٰا مِنْ لَدُنْ آدَمَ (علیہ السلام)۔>[13]

”کیا تم نے نھیںدیکھا کہ خداوندعالم نے کس طرح تمھارے لئے پناہ گاھیں قرار دی ھیں تاکہ ان میں پناہ حاصل کرو، اور ایسی نشانیاں قرار دی ھیں جن کے ذریعہ ھدایت حاصل کرو، حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے آج تک“۔

شرح

یہ تحریر اس توقیع [14] کا ایک حصہ ھے جس کو ابن ابی غانم قزوینی اور بعض شیعوں کے درمیان ھونے والے اختلاف کی وجہ سے امام علیہ السلام نے تحریر فرمایا ھے، ابن ابی غانم کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نھیں کیاھے، اور سلسلہٴ امامت آپ ھی پر ختم ھوگیا ھے۔ شیعوں کی ایک جماعت نے حضرت امام مھدی علیہ السلام کو خط لکھا جس میں واقعہ کی تفصیل لکھی، جس کے جواب میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے ایک خط آیا، مذکورہ حدیث اسی خط کا ایک حصہ ھے۔

امام زمانہ علیہ السلام امامت، وصایت اور جانشینی میں شک و تردید سے دوری کرنے کے سلسلہ میں بہت زیادہ سفارش کرنے کے بعد فرماتے ھیں: وصایت کا سلسلہ ھمیشہ تاریخ کے مسلم اصول میں رھا ھے، اور جب تک انسان موجود ھے زمین حجت الٰھی سے خالی نھیں ھوگی، امام علیہ السلام نے مزید فرمایا:

”تاریخ کو دیکھو! کیا تم نے کسی ایسے زمانہ کو دیکھا ھے جو حجت خدا سے خالی ھو، اور اب تم اس سلسلہ میں اختلاف کرتے ھو“؟!

امام علیہ السلام نے حدیث کے اس سلسلہ میں امامت کے دو فائدے شمار کئے ھیں:

۱۔ امام، مشکلات اور پریشانیوں کے عالم میں ملجا و ماویٰ اور پناہ گاہ ھوتا ھے۔

۲۔ امام،لوگوں کو دین خدا کی طرف ھدایت کرتا ھے۔

کیونکہ امام معصوم علیہ السلام نہ صرف یہ کہ لوگوں کو دین اور شریعت الٰھی کی طرف ھدایت کرتے ھیں بلکہ مادّی اور دنیوی مسائل میں ان کی مختلف پریشانیوں کو بھی دور کرتے ھیں۔

حدیث نمبر۵ :

علم امام کی قسمیں

<عِلْمُنٰا عَلیٰ ثَلاٰثَہِ اٴَوْجُہٍ: مٰاضٍ وَغٰابِرٍ وَحٰادِثٍ، اٴَمَّا الْمٰاضِي فَتَفْسیرٌ، وَ اٴَمَّا الْغٰابِرُ فَموْ قُوفٌ، وَ اٴَمَّا الْحٰادِثُفَقَذْفٌ في الْقُلُوبِ، وَ نَقْرُ في الْاٴَسْمٰاعِ، وَہُوَ اٴَفْضَلُ عِلْمِنٰا، وَ لاٰ نَبيَّ بَعْدَ نَبِیِّنٰا>[15]

”ھم (اھل بیت) کے علم کی تین قسمیں ھوتی ھیں: گزشتہ کا علم، آئندہ کا علم اور حادث کا علم۔ گزشتہ کا علم تفسیر ھوتا ھے، آئندہ کا علم موقوف ھوتا ھے اور حادث کا علم دلوں میں بھرا جاتا اور کانوں میں زمزمہ ھوتا ھے۔ علم کا یہ حصہ ھمارا بہترین علم ھے اور ھمارے پیغمبر (ص)کے بعد کوئی دوسرا رسول نھیں آئے گا“۔

شرح

یہ الفاظ امام زمانہ علیہ السلام کے اس جواب کا ایک حصہ ھیں جس میں علی بن محمد سمری (علیہ الرحمہ) نے علم امام کے متعلق سوال کیا تھا۔

علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کتاب ”مرآة العقول“ میں ان تینوں علم کے سلسلہ میں فرماتے ھیں:

”علم ماضی سے وہ علم مراد ھے جس کو پیغمبر اکرم (ص)نے اپنے اھل بیت علیھم السلام سے بیان کیا ھے؛ نیز یہ علم ان علوم پر مشتملھے جو گزشتہ انبیاء علیھم السلام اور گزشتہ امتوں کے واقعات کے بارے میں ھیں اور جو حوادثات ان کے لئے پیش آئے ھیں اور کائنات کی خلقت کی ابتداء اور گزشتہ چیزوں کی شروعات کے بارے میں ھیں۔

علم ”غابر“ سے مراد آئندہ پیش آنے والے واقعات ھیں؛ کیونکہ غابر کے معنی ”باقی“ کے ھیں، غابر سے مراد وہ یقینی خبریں ھیں جو کائنات کے مستقبل سے متعلق ھیں، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے اس کو ”موقوفہ“ کے عنوان سے یاد کیا ھے جو علوم کائنات کے مستقبل سے تعلق رکھتے ھیں وہ اھل بیت علیھم السلام سے مخصوص ھیں، موقوف یعنی ”مخصوص“۔

”علم حادث“ سے مراد وہ علم ھے جو موجودات اور حالات کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ھے، یا مجمل چیزوں کی تفصیل مراد ھے۔۔۔ ”قَذْفُ في الْقُلُوبِ“، سے خداوندعالم کی طرف سے عطا ھونے والا وہ الھام مراد ھے جو کسی فرشتہ کے بغیر حاصل ھوا ھو۔

”نَقْرُ في الْاٴَسْمٰاعِ“، سے وہ الٰھی الھام مراد ھے جو کسی فرشتہ کے ذریعہ حاصل ھوا ھو۔

تیسری قسم کی افضلیت کی دلیل یہ ھے کہ الھام (چاھے بالواسطہ ھو یا بلا واسطہ) اھل بیت علیھم السلام سے مخصوص ھے۔

الٰھی الھام کی دعا کے بعد ممکن ھے کوئی انسان (ائمہ علیھم السلام کے بارے میں) نبی ھونے کا گمان کرے، اسی وجہ سے امام زمانہ علیہ السلام نے آخر میں اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے بعد کوئی پیغمبر نھیں آئے گا“۔[16]

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۶:

امام کا دائمی وجود

<اٴَنَّ الْاٴَرْضَ لاٰ تَخْلُو مِنْ حُجَّةٍ ،إِمّٰا ظٰاہِراً وَ إِمّٰا مَغْمُوراً>[17]

”بے شک زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نھیں رھے گی، چاھے وہ حجت ظاھر ھو یا پردہٴ غیب میں“۔

شرح

یہ حدیث امام مھدی علیہ السلام کی اس توقیع کا ایک حصہ ھے جو آپ نے عثمان بن سعید عمری اور ان کے فرزند محمد کے لئے تحریر فرمائی ھے۔ امام علیہ السلام بہت زیادہ تاکیدوں کے بعد ایک مطلب کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں: روئے زمین پر ھمیشہ حجت خدا کا ھونا ضروری ھے اور کبھی بھی کسی ایسے لمحہ کا تصور نھیں کیا جاسکتا جو امام معصوم کے وجود سے خالی ھو۔

انسان اور دیگر موجودات کے لئے امام کی ضرورت بالکل اسی طرح ھے جیسے پیغمبر اکرم (ص)کی ضرورت ھے۔ معصوم شخصیت کی ضرورت (چاھے پیغمبر ھوں یا امام) مختلف نظریات سے قابل تحقیق ھے۔ ان میں سے ایک یہ ھے کہ خدا کی طرف سے قوانین کا ھونا اور اس کی تفسیر معصوم کے ذریعہ ھونا ضروری ھے۔ علم کلام کی کتابوں میں عقلی دلائل کے ساتھ یہ بات ثابت ھوچکی ھے کہ انسان کو اپنی دنیوی زندگی کی بھلائی اور آخرت میں سعادت و کامیابی حاصل کرنے کے لئے رسول کی ضرورت ھے، انسان کے لئے دین اور اس کی صحیح تفسیر کی ضرورت جاودانی ھے۔ پیغمبر اسلام(ص) دین اسلام کو خدا کے آخری دین کے عنوان سے لے کر آئے اور آپ نے تمام احکام و مسائل کو واضح کیا ۔ پیغمبر اکرم (ص)کی وفات کے بعد کے زمانہ کے لئے بھی انھیں عقلی دلائل کے ذریعہ ایسی شخصیات کا ھونا ضروری ھے جو علم اور عصمت وغیرہ میں پیغمبر اکرم (ص)کے مثل ھوں۔ اور ایسی شخصیتیں ائمہ معصومین علیھم السلام کے علاوہ کوئی نھیں ھیں۔

امام زمانہ علیہ السلام اس اھم نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ اس وجہ سے کہ لوگ حق کو قبول کرنے میں سستی اور کم توجھی کا شکار ھیں، ایسا نھیں ھے کہ تمام ائمہ (علیھم السلام) حکومت تک پھنچ جائیں یا لوگوں کے درمیان حاضر رھیں، جیسا کہ گزشتہ انبیاء اور اوصیائے الٰھی حکومت تک نھیں پھنچ پائے ھیں اور ان میں سے بعض حضرات ایک مدت تک غیبت کی زندگی بسر کرتے رھے ھیں۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۷:

مشیت الٰھی اور رضائے اھل بیت علیھم السلام

<قُلُوبُنٰا اٴَوعِیَةٌ لِمَشِیَّةِ اللهُ، فاِذَا شَاءَ اللهُ شِئنَا، وَاللهُ یَقُولُ: <وَ مٰا تْشٰاوٴُونَ إِلّا اٴَنْ یَشٰاءَ اللهُ>([18]،[19])

”ھمارے دل مشیت الٰھی کے لئے ظرف ھیں، اگر خداوندعالم کسی چیز کا ارادہ کرے اور اس کو چاھے تو ھم بھی اسی چیز کا ارادہ کرتے ھیں اور اسی کو چاہتے ھیں۔ کیونکہ خداوندعالم کا ارشاد ھے: ”تم نھیں چاہتے مگر وھی چیز جس کا خدا ارادہ کرے“۔

شرح

امام زمانہ علیہ السلام اس کلام میں ”مقصِّرہ“[20]و ”مفوِّضہ“ [21]کی تردیدکرتے ھوئے کامل بن ابراھیم سے خطاب فرماتے ھیں:

”وہ لوگ جھوٹ کہتے ھیں، بلکہ ھمارے دل رضائے الٰھی کے ظرف ھیں، جو وہ چاہتا ھے ھم بھی وھی چاہتے ھیں، اور ھم رضائے الٰھی کے مقابل مستقل طور پر کوئی ارادہ نھیں کرتے“۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں بیان فرمایا ھے:

”بے شک خداوندعالم نے ائمہ (علیھم السلام) کے دلوں کو اپنے ارادہ کا راستہ قرار دیا ھے؛ پس جب بھی خداوندعالم کسی چیز کا ارادہ کرے، ائمہ بھی اسی چیز کا ارادہ کرتے ھیں، اور یہ خداوندعالم کا فرمان ھے : ”تم نھیں چاہتے مگر وھی جس کا خداوندعالم ارادہ کرے“۔[22]

امام مھدی علیہ السلام کی اس حدیث سے متعدد نکات معلوم ھوتے ھیں جن میں سے چند نکات کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ھے:

۱۔ دل ، خداوندعالم یا شیطان کے ارادوں کا ظرف ھوتا ھے۔

۲۔ ائمہ علیھم السلام معصوم ھیں؛ کیونکہ ان حضرات کا ارادہ وھی خداوندعالم کا ارادہ ھوتا ھے، اور جن کی ذات ایسی ھو تو ایسی ذات ھی صاحب عصمت ھوتی ھے۔

۳۔ اھل بیت علیھم السلام کا ارادہ خداوندعالم کے ارادہ پر مقدم نھیں ھوتا، نیز خدا کے ارادہ سے موٴخر بھی نھیں ھوتا۔ لہٰذا اھل بیت علیھم السلام کی بنسبت ھمارا رویہ بھی اسی طرح ھونا چاہئے۔

۴۔ جب تک خداوندعالم کسی چیز کا ارادہ نہ کرلے اھل بیت علیھم السلام بھی اس چیز کا ارادہ نھیں کرتے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۸:

نماز کے ذریعہ شیطان سے دوری

<مٰا اٴَرْغَمَ اٴَنْفَ الشَّیْطٰانِ اٴَفْضَلُ مِنَ الصَّلاٰةِ، فَصَلِّہٰا وَاٴَرْغِمْ اٴَنْفَ الشَّیْطٰانِ>[23]

”نماز کی طرح کوئی بھی چیز شیطان کی ناک کو زمین پر نھیں رگڑتی، لہٰذا نماز پڑھو اور شیطان کی ناک زمین پر رگڑ دو“۔

شرح

یہ کلام امام زمانہ علیہ السلام نے ابوالحسن جعفر بن محمد اسدی کے سوالات کے جواب میں ارشاد فرمایا۔ اس حدیث سے معلوم ھوتا ھے کہ زمین پر شیطان کی ناک رگڑنے (یعنی شیطان بر غلبہ حاصل کرنے) کے لئے بہت سے اسباب پائے جاتے ھیں جس میں سب سے اھم سبب نماز ھے؛ کیونکہ نماز مخلوق سے بے توجہ اور خداوندعالم کی طرف مکمل توجہ اور اس کی یاد و ذکر کا نام ھے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

<اٴَقِمْ الصَّلاَةَ لِذِکْرِي>[24]

”میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو“۔

وہ نماز جو ایسی ھو کہ انسان کو فحشاء اور برائیوں سے روکتی ھو، جس کے نتیجہ میں انسان ھوائے نفس اور شیطان پر غالب ھوجاتا ھے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۹:

اول وقت نماز پڑھنا

<مَلْعُونُ مَلْعُونُ مَنْ اٴَخَّرَ الْغَدٰاةَ إِلیٰ اٴَنْ تَنْقَضيِ الْنُجُومْ>[25]

”معلون ھے ملعون ھے وہ شخص جو نماز صبح میں (جان بوجھ کر) اتنی تاخیر کرے جس کی وجہ سے (آسمان کے) ستارے ڈوب جائیں“۔

شرح

یہ حدیث امام مھدی علیہ السلام کی اس توقیع کا ایک حصہ ھے جس کو محمد بن یعقوب کے سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ھے۔ امام زمانہ علیہ السلام نے اس توقیع میں اول وقت نماز پڑھنے پر بہت زیادہ تاکید فرمائی ھے، اور جو لوگ نماز صبح کو اجالا ھونے اور ستاروں کے غروب ھونے تک ٹالتے رہتے ھیں، ان پر امام علیہ السلام نے لعنت کی ھے۔

اس حدیث اور دوسری احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ نماز کے تین وقت ھوتے ھیں:

۱۔ فضیلت کا وقت: فضیلت کا وقت وھی نماز کا اول وقت ھے، جس کو روایات میں ”رضوان اللہ“ (یعنی خوشنودی خدا) سے تعبیر کیا گیا ھے اور یھی نماز کا بہترین وقت ھوتا ھے؛ کیونکہ:

الف) اس وقت میں خداوندعالم کی طرف سے نماز بجالانے کا حکم صادر ھوا ھے اور احکام الٰھی کو جتنی جلدی ممکن ھوسکے انجام دینا مطلوب (اور پسندیدہ) ھے۔

ب) نماز ، در حقیقت ایک محدود موجود اور بالکل محتاج وجود کا لامحدود موجود سے رابطہ اور خدا سے فیضیاب ھونے کا نام ھے، اور یہ انسان کے فائدے کے لئے ھے جس میں جلدی کرنا مطلوب (اور پسندیدہ) ھے۔

ج) امام زمانہ علیہ السلام اول وقت نماز پڑھتے ھیں، اور جو لوگ اس موقع پر نماز پڑھتے ھیں تو خداوندعالم امام زمانہ علیہ السلام کی برکت سے ان کی نماز کو بھی قبول کرلیتا ھے؛ البتہ تمام افق کا اختلاف اس سلسلہ میں اھمیت نھیں رکھتا؛ دوسرے لفظوں میں یہ کھا جائے کہ ایک وقت پر نماز پڑھنا مراد نھیں ھے بلکہ ایک عنوان کے تحت ”یعنی اول وقت نماز ادا کرنا“ مراد ھے، البتہ ھر شخص اپنے افق کے لحاظ سے اول وقت نماز پڑھے۔

۲۔ آخرِ وقت: جس کو روایت میں ”غفران اللہ“ (یعنی خدا کی بخشش) سے تعبیر کیا گیا ھے، نماز کے اول وقت سے آخر وقت تک تاخیر کرنے کے سلسلہ میں مذمت وارد ھوئی ھے؛ لہٰذا امام زمانہ علیہ السلام ایسے شخص پر لعنت کرتے ھیں اور اس کو رحمت خدا سے دور جانتے ھیں۔

ایک دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان ھوا ھے:

”اول وقت پر نماز پڑھنا خوشنودی خدا کا باعث اور آخر وقت میں نماز ادا کرنا ایسا گناہ ھے کہ جسے خداوندعالم معاف کردیتا ھے“۔[26]

۳۔ خارجِ وقت: نماز کا وقت گزرنے کے بعد نماز پڑھنا جس کو اصطلاح میں ”قضا“ کھا جاتا ھے۔ اگر کوئی شخص نماز کو وقت کے اندر نہ پڑھ سکے، تو پھر اس کی قضا بجالانے کا حکم ھوا ھے؛ اور یہ نماز ایک جدید حکم کی بنا پر ھوتی ھے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر آخر وقت تک نماز کو ٹالتا رھے تو اس نے خدا کی معصیت کی ھے، اور اس کو اسے توبہ کرنی چاہئے، ورنہ خداوندعالم کے عذاب کا مستحق قرار پائے گا؛ لیکن اگر بھولے سے نماز نھیں پڑھ سکا اور اس میں اس کی کوئی غلطی بھی نہ ھو تو پھر وہ عذاب الٰھی کا مستحق نھیں ھوگا۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۱۰:

سجدہٴ شکر

<سَجْدَةُ الشُّکْرِ مِنْ اٴَلْزَمِ السُّنَنِ وَ اٴَوْجَبِہٰا۔۔۔ فَإِنَّ فَضْلَ الدُّعٰاءِ وَالتَّسْبِیْحِ بَعْدَ الْفَرٰائِضِ عَلَی الدُّعٰاءِ بِعَقیبِ النَّوٰافِلِ، کَفَضْلِ الْفَرٰائِضِ عَلَی النَّوٰافِلِ، وَ السَّجْدَةُ دُعٰاءُ وَ تَسْبِیحْ>[27]

”سجدہٴ شکر، مستحبات میں بہت ضروری اور مستحب موٴکد ھے۔۔۔ بے شک واجب (نمازوں) کے بعد دعا اور تسبیح کی فضیلت، نافلہ نمازوں کے بعد دعاؤں پر ایسے فضیلت رکھتی ھے جس طرح واجب نمازیں، مستحب نمازوں پر فضیلت رکھتی ھیں، اور خود سجدہ، دعا اور تسبیح ھے“۔

شرح

یہ حدیث مبارک امام زمانہ علیہ السلام کے اس جواب کا ایک حصہ ھے جو محمد بن عبد اللہ حمیری نے آپ سے سوالات دریافت کئے تھے۔ امام زمانہ علیہ السلام اس حدیث میں ایک مستحب یعنی سجدہٴ شکر کی طرف اشارہ فرماتے ھیں، واجب نمازوں کے بعد دعا و تسبیح کی گفتگو کرتے ھوئے اور نافلہ نمازوں کی نسبت واجب نمازوں کی فضیلت کی طرح قرار دیتے ھیں، نیز سجدہ اور خاک پر پیشانی رکھنے کے ثواب کو دعا و تسبیح کے ثواب کے برابر قرار دیتے ھیں۔

قرآنی آیات اور احادیث کی تحقیق کرنے سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ تمام واجبات اور مستحبات برابر نھیں ھیں؛ مثال کے طور پر تمام واجبات میں نماز کی اھمیت سب سے زیادہ ھے؛ کیونکہ دیگر اعمال،نماز کے قبول ھونے پر موقوف ھیں۔ اسی طرح مستحبات کے درمیان (اس حدیث کے مطابق) سجدہٴ شکر کی اھمیت تمام مستحبات سے زیادہ ھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ھو کہ سجدہ شکر، نعمتوں میں اضافہ کی کنجی ھے؛ یعنی جب انسان کسی نعمت کو دیکھنے یا پانے پر خدا کا شکر بجالاتا ھے تو اس کی نعمت باقی رہتی ھے اور دیگر نعمتیں نازل ھوتی ھیں۔ یہ نکتہ قرآن مجید میں صاف صاف بیان ھوا ھے۔

< لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاٴَزِیدَنَّکُمْ>[28]

”اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں (نعمتوں میں) اضافہ کردوں گا“۔

امام مھدی علیہ السلام نے اس حدیث میں چند نکات کی طرف اشارہ فرمایا ھے:

۱۔سجدہٴ شکر کے لئے کوئی خاص زمانہ اور خاص جگہ نھیں ھوتی، لیکن اس حدیث کے پیش نظر واجب اور مستحب نمازوں کے بعد اس کا بہترین موقع ھوتا ھے۔

۲۔ سجدہ، انسان کے کمال اور خداوندعالم کے سامنے نھایت خشوع و خضوع کا نام ھے، اس موقع پر انسان خود کو نھیں دیکھتا، اور تمام عظمت و کبریائی کو خداوندعالم سے مخصوص جانتا ھے؛ لہٰذا انسان کی یہ حالت بہترین حالت ھوتی ھے، مخصوصاً جبکہ انسان زبان و دل سے خداوندعالم کا ذکر اور اس کا شکر ادا کرتا ھوا نظر آتا ھے۔

۳۔ واجب نمازوں کے بعد دعا اور تسبیح کا ثواب مستحب نمازوں کے بعد دعا او رتسبیح کے ثواب سے بہت زیادہ ھے ، جیسا کہ مستحب نمازوں سے کھیں زیادہ فضیلت واجب نمازوں کی ھے۔

۴۔ امام زمانہ علیہ السلام اس فقرہ سے کہ ”سجدہ ، دعا اور تسبیح ھے“، یہ سمجھانا چاہتے ھیں کہ خود سجدہ بھی ایک قسم کی تسبیح اور دعا ھے، جس طرح نماز کے بعد ذکر خدا پسندیدہ عمل اور مستحب ھے اسی طرح سجدہ کرنا بھی مستحب ھے؛ کیونکہ دعا اور تسبیح کا مقصد بھی خداوندعالم کے حضور میں خشوع و خضوع ھے، اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ یہ ھدف سجدہ میں کامل اور مکمل طور پر موجود ھے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۱۱:

تسبیح خاک شفا کی فضیلت

<مِنْ فَضْلِہ، اٴَنَّ الرَّجُلَ یَنْسیٰ التَّسْبیحَ وَیُدِیرُ السُّبْحَةَ فَیُکْتَبُ لَہُ التَّسْبِیحُ>[29]

”(تربت سید الشھداء) کی فضیلت یہ ھے کہ جب خاک شفا کی تسبیح ھاتھ میں لے کر گھمائی جائے تو اس کا ثواب تسبیح و ذکر کا ثواب ھوتا ھے اگرچہ کوئی ذکر و دعا بھی نہ پڑھی جائے“۔

شرح

یہ حدیث ان جوابات میں سے ھے جن کو امام زمانہ علیہ السلام نے محمد بن عبد اللہ حمیری کے سوالوں کے جواب میں ارشاد فرمائی ھے، موصوف نے امام زمانہ علیہ السلام سے سوال کیا تھا کہ کیا امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی سے تسبیح بنانا جائز ھے؟ اور کیا اس میں کوئی فضیلت ھے؟

امام زمانہ علیہ السلام نے سوال کے جواب کے آغاز میں فرمایا:

”تربت قبر حسین علیہ السلام (یعنی خاک شفا) کی تسبیح بنا سکتے ھو، جس سے خداوندعالم کی تسبیح کرو؛ کیونکہ تربت امام حسین علیہ السلام سے بہتر کوئی چیز نھیں ھے، اس کے فضائل میں سے ایک یہ ھے کہ اگر کوئی ذکر بھی نہ کھے اور فقط تسبیح کو گھماتا رھے تو بھی اس کے لئے تسبیح کا ثواب لکھا جاتا ھے“۔

یھاں پر تربت حسینی یا خاک شفا کے بارے میں دو نکتوں کی طرف اشارہ کرنا مناسب ھے:

۱۔ تربت قبر حسین علیہ السلام ان تربتوں میں شمار ھوتی ھے جن کو خداوندعالم نے مبارک قرار دیا ھے؛ کیونکہ یہ اس زمین کا حصہ ھے جس میں حضرت سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کا پاک و مبارک جسم دفن ھے۔ خاک شفا کی تسبیح کے مستحب ھونے کے اغراض و مقاصد میں سے یہ بھی ھے کہ جس وقت انسان خاک شفا کی تسبیح کو ھاتھ میں لیتا ھے، تو خداوندعالم کی بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی فداکاری اور قربانی کو یاد کرتا ھے ، اور یہ کہ انسان عقیدہ اور خدا کی راہ میں کس طرح فداکاری اور ظالموں کا مقابلہ کرسکتا ھے۔ انسان اس حال میں ان پاک و مقدس ارواح کو یاد کرتا ھے جو معشوق حقیقی کی راہ میں اپنی جان قربان کرچکی ھیں اور ملکوت اعلیٰ (بارگاہ رب العزت) کی طرف پرواز کرچکی ھیں۔ اس عالم میں انسان کے اندر خضوع و خشوع پیدا ھوتا ھے ، اور اس کی نظر میں دنیا اور اس کا ساز و سامان حقیر دکھائی دیتا ھے، نیز اس کے نفس میں مخصوص عرفانی اور معنوی حالت پیدا ھوتی ھے اور یہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی تربت کے ارتباط اور توسل کی بنا پر ھے؛ اسی وجہ سے ھم احادیث میں پڑھتے ھیں کہ تربت حسینی پر سجدہ کرنے سے ساتوں پردے ہٹ جاتے ھیں۔

۲۔ تربت حسینی کے منجملہ فوائد اور برکات میں سے ایک فائدہ اور برکت یہ ھے (جس کو اھل بیت علیھم السلام نے ھمیشہ لوگوں کے سامنے بیان کیا ھے) کہ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت لوگوں پر واضح ھوجائے؛ کیونکہ جب نمازی ھر روز نماز کے بعد تسبیح خاک شفا سے فیضیاب ھوتے وقت جب اس کی نظر خاک شفا پر پڑتی ھے تو امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب و اھل حرم کی فداکاریوں کو یاد کرتا ھے، جبکہ یہ بات معلوم ھے کہ ایسے نمونوں کو یاد کرنا (نفسیاتی لحاظ سے) انسان کے نفس میں عجیب و غریب تربیتی اور معنوی اثر پیدا کرتا ھے، اور انسان کو (سچا) حسینی بنا دیتا ھے اور انسانی وجود میں انقلاب حسینی کی روح اور خون کو حرکت میں لاتا ھے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۱۲:

لوگوں کی حاجت روائی کرنا

<مَنْ کٰانَ في حٰاجَةِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ کٰانَ اللهُ فِي حٰاجَتِہِ>[30]

”جو شخص خداوندعالم کی حاجت[31] کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو خداوندعالم بھی اس کی حاجت روائی اور اس کی مرادوں کو پوری کردیتا ھے“۔

شرح

اس حدیث کو شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنے پدر بزگوار سے، انھوں نے سعد بن عبد اللہ سے، انھوں نے ابوالقاسم بن ابو حلیس (حابس) سے انھوں نے حضرت امام مھدی علیہ السلام سے نقل کیا ھے۔ امام علیہ السلام نے حلیسی کے خلوص اور عام طور پر اس اخلاقی نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ھے: جو شخص خداوندعالم کی حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو خداوندعالم بھی اس کی حاجت روائی کرتا ھے اور اس کی مرادوں کو پوری کردیتا ھے۔

اگرچہ خداوندعالم کی حاجت سے مراد اس حدیث کے دوسرے حصہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی خلوص نیت کے ساتھزیارت کرنا ھے، لیکن امام زمانہ علیہ السلام نے اس کو ایک عام قانون کی صورت میں بیان کیا ھے اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو اس کا ایک مصداق قرار دیا ھے، یعنی اگر انسان ان کاموں کو انجام دے جن کا انجام دینا مطلوب اور جن کے سلسلہ میں خدا کا حکم ھو، اس وجہ سے اس کو ”خداوندعالم کی حاجت اور طلب“ کھا جاسکتا ھے، لہٰذا خداوندعالم بھی انسان کے کاموں کی اصلاح کردیتا ھے۔

اس بات کی یاددھانی مناسب ھے کہ خداوندعالم کسی چیز کا محتاج نھیں ھے بلکہ وہ قاضی الحاجات یعنی حاجتوں کا پورا کرنے والا ھے اور تمام مخلوق سراپا اس کی محتاج ھے۔ جیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:

< یَااٴَیُّہَا النَّاسُ اٴَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَی اللهِ وَاللهُ ہُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِیدُ>[32]

”انسانو! تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ھو اور اللہ صاحب دولت اور قابل حمد و ثنا ھے“۔

اس حدیث میں خداوندعالم کی حاجت کی طرف اشارہ ھوا، اس کی وجہ یہ ھے کہ خداوندعالم کی حاجت مخلوق کی حاجت میں ھے، دوسرے لفظوں میں یوں کھا جائے کہ جس شخص نے لوگوں کی حاجت روائی کی گویا اس نے خدا کی حاجت پوری کی ھے۔

اس حدیث میں دوسرا احتمال یہ پایا جاتا ھے کہ ”خدا کی حاجت“ سے مراد خداوندعالم کے احکام مراد ھوں، چاھے وہ امر ھو یا نھی، جن کو خداوندعالم چاہتا ھے، اور اگر کوئی شخص خدا کے احکام کی اطاعت کرے تو خداوندعالم بھی اس کی حاجت پوری کرتا ھے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۱۳:

استغفار، بخشش کا ذریعہ

<إِذٰا اسْتَغْفَرْتَ اللهَ، فَاللهُ یَغْفِرُ لَکَ>[33]

”اگر تم خدا سے استغفار کروگے تو خداوندعالم بھی تم کو معاف کردےگا“۔

شرح

شیخ کلینی علیہ الرحمہ اس حدیث شریف کو امام زمانہ علیہ السلام کی احادیث کے ضمن میں بیان کرتے ھیں۔ حدیث کا خلاصہ یہ ھے کہ یمانی نام کا ایک شخص سامرہ میں آتا ھے۔ امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے اس کے لئے ایک تھیلی پھنچتی ھے جس میں دو دینار اور دو لباس تھے، لیکن وہ ان کو کمترین ھدیوں میں شمار کرتے ھوئے ردّ کردیتا ھے، لیکن کچھ دنوں بعد اپنے اس کام پر شرمندہ ھوتا ھے، اور ایک خط لکھ کر معذرت خواھی کرتا ھے، اور اپنے دل میں توبہ کرتے ھوئے یہ نیت کرتا ھے کہ اگر دوبارہ (امام علیہ السلام کی طرف سے) کوئی ھدیہ ملے گا تو اس کو قبول کرلوں گا۔ چنانچہ کچھ مدت بعد اس کو ایک ھدیہ ملتا ھے، اور امام علیہ السلام یمانی کے لئے اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

”تم نے ھمارا ھدیہ ردّ کرکے غلطی کی ھے، اگر تم خدا سے مغفرت طلب کرو تو خداوندعالم تمھیں معاف کردے گا“۔

اس توقیع مبارک میں د و نکات کی طرف اشارہ ھوا ھے:

۱۔ امام زمانہ علیہ السلام اسرار اور مخفی باتوں کا علم رکھتے ھیں، یھاں تک کہ لوگوں کے دل کی نیت سے بھی آگاہ ھیں؛ لہٰذا حضرت امام صادق علیہ السلام آیہٴ شریفہ <قُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ>[34]کے ذیل میں بیان ھونے والی حدیث میں فرماتے ھیں:

”مومنین سے مراد، ائمہ (معصومین علیھم السلام) ھیں“۔

۲۔ خداوندعالم سے طلب مغفرت کرنا گناھوں کی بخشش کا سبب ھے۔ اور چونکہ طلب ایک امرِ قلبی کا نام ھے اور لفظوں کی صورت میں بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے، اس حدیث سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ صرف طلب مغفرت (شرمندگی اور دوبارہ گناہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ) گناھوں کی بخشش اور توبہ کے لئے کافی ھے۔ البتہ مکمل توبہ کے لئے کچھ خاص شرائط ھیں جن کی طرف حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں اشارہ فرمایا ھے۔[35]

حدیث نمبر ۱۴:

ایک دوسرے کے حق میں استغفار کرنا

<لَوْلاٰ اسْتِغْفٰارُ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ لَہَلَکَ مَنْ عَلَیْہٰا>[36]

”اگر تم میں ایک دوسرے کے لئے طلب مغفرت نہ ھوتی تو زمین پر بسنے والے تمام لوگ ھلاک ھوجاتے “۔

شرح

امام مھدی علیہ السلام ابن مہزیار سے ایک طولانی خطاب میں اپنے شیعوں کو ایک دوسرے کے حق میں استغفار کرنے کی رغبت دلاتے ھیں؛ کیونکہ اس کام کے فوائد اور برکتیں زمین اور اس پر بسنے والوں سے عذاب کا دور رھنا ھے۔

قرآنی آیات سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ اس دنیا میں عذاب الٰھی سے محفوظ رھنے کے لئے دو سبب پائے جاتے ھیں:

۱۔ پیغمبر اکرم (ص)کا وجود مبارک: جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

<مٰا کٰانَ اللهُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاٴَنْتَ فِیْہِمْ>[37]

”حالانکہ جب تک تم ان کے درمیان موجود ھو تو خدا ان پر عذاب نھیں کرےگا“۔

۲۔ استغفار: جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

<مٰا کٰانَ اللهُ لِیُعَذِّبَہُمَْ وہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ>[38]

”اور اللہ ان لوگوں پر جب وہ توبہ و استغفار کرتے رھیں ھرگز عذاب نھیں کرے گا“۔

اس حدیث سے بھی دو نکات معلوم ھوتے ھیں:

الف) گناہ، اسی دنیا میں ھلاکت اور عذاب کا سبب ھوتا ھے۔

ب) استغفار، بخشش کا سبب ھے، خصوصاً اگر ایک دوسرے کے حق میں استغفار کیا جائے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۱۵:

انسان کا امام غائب سے فیض حاصل کرنا

<اٴَمّٰا وَجْہُ الْاِنْتِفٰاعِ بِي فِي غَیْبَتِي فَکَالْاِنْتِفٰاعِ بِالشَّمْسِ إِذٰا غَیَّبَتْہٰا عَنِ الْاٴَبْصٰارِ السَّحٰابُ>[39]

”لیکن میری غیبت میں مجھ سے فیض حاصل کرنا اسی طرح ھے جس طرح بادلوں کے پیچھے چھپے سورج سے فیض حاصل کیا جاتا ھے“۔

شرح

امام زمانہ علیہ السلام کا یہ کلام اس حدیث کا آخری حصہ ھے جس کو آپ نے اسحاق بن یعقوب کے جواب میں تحریر فرمایا ھے، شیخ صدوق اور شیخ طوسی علیھما الرحمہ نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔ اس حدیث مبارک میں امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ کو بادلوں کے پیچھے چھپے سورج سے تشبیہ دی ھے۔

اس تشبیہ میں بہترین نکات پائیں جاتے ھیں، جن میں بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے:

۱۔ امام مھدی علیہ السلام نے اپنے کو سورج کے مشابہ قرار دیا ھے، جس طرح سورج موجودات کے لئے آب حیات اور نور و حرارت وغیرہ کا باعث ھوتا ھے اور اس کے نہ ھونے کی صورت میں تمام موجودات کی زندگی سامان سفر باندھ لیتی ھے، اسی طرح معاشرہ کی معنوی زندگی اور اس کی بقاء بھی امام زمانہ علیہ السلام کے وجود سے وابستہ ھے۔ بعض اسلامی روایات میں بیان ھوا ھے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام خلقت ِمخلوق کا اصلی ترین مقصد ھیں۔

۲۔ جس طرح سورج منجملہ مخلوقات میں سے ایک مخلوق ھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ موجودات کے لئے نور و حرارت سے فیضیاب ھونے میں واسطہ ھے۔ اسی طرح امام علیہ السلام کا وجود بھی مخلوقکے فیض حاصل کرنے میں ایک عظیم واسطہ ھے، اور خداوندعالم کا فیض جیسے نعمت اور ھدایت وغیرہ اسی واسطہ کے ذریعہ مخلوقات تک پھنچتا ھے۔

۳۔ جس طرح لوگ بادلوں کے پیچھے سے سورج کے نکلنے کا انتظار کرتے ھیں تاکہ اس سے مکمل اور کامل طور پر فائدہ اٹھاسکیں، امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں بھی مومنین آپ کے ظھور کا انتظار کرتے ھیں اور ان کے ظھور سے نا امید نھیں ھوتے۔

۴۔ امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کا منکر بالکل اسی طرح ھے جیسے کوئی بادلوں کے پیچھے چھپےسورج کا منکر ھوجائے۔

۵۔ جس طرح بادل سورج کو مکمل طریقہ سے نھیں چھپاتے اور سورج کا نور زمین اور زمین والوں تک پھنچتا رہتا ھے، اسی طرح غیبت بھی امام علیہ السلام کے فیض پھنچانے میں مکمل مانع نھیں ھے، لہٰذا (بہت سے مومنین) آپ کے وجود مبارک سے فیضیاب ھوتے رہتے ھیں، توسل: امام علیہ السلام سے فیضیاب ھونے کے منجملہ راستوں میں سے ایک راستہ ھے۔

۶۔ جس طرح بعض علاقوں میں معمولاً بادل چھائے رہتے ھیں، لیکن کبھی کبھی سورج بادلوں کو چیرتے ھوئے ان کے درمیان سے نمایاں ھوجاتا ھے اور بہت سے لوگ سورج کو دیکھ لیتے ھیں اگرچہ تھوڑی ھی دیر کے لئے ھی کیوں نہ ھو، اسی طرح بعض مومنین امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت مبارک میں حاضر ھوتے ھیں اور آپ کے وجود سے (براہ راست) فیضیاب ھوتے ھیں، چنانچہ اس طرح عام لوگوں کے لئے امام علیہ السلام کا وجود ثابت ھوجاتا ھے۔

۷۔ جس طرح سورج سے دیندار اور بے دین لوگ فائدہ اٹھاتے ھیں اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کی برکتیں پوری دنیا کے شامل حال ھوتی ھیں، اگرچہ لوگ آپ کو نہ پہچانیں اور آپ کی قدر نہ جانیں۔

۸۔ جس طرح سورج کی کرنیں دروازوں اور کھڑکیوں کے اندازہ کے مطابق کمرے میں آتی ھیں اور لوگ اسی مقدار میں اس سے فائدہ اٹھاتے ھیں، اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کی برکتوں سے فیضیاب ھونا بھی انسان کی قابلیت اور صلاحیت کی بنا پر ھوتا ھے۔ انسان جس قدر اپنے سے موانع اور پردوں کو دور کرتا ھے اور اپنے دل (کی آغوش) کو مزیدپھیلاتا ھے اتنا ھی آپ کے وجود کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ھے۔

۹۔ جس طرح بادل سورج کو ختم نھیں کرتے اور صرف سورج کے دیکھنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ھیں، امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت بھی صرف آپ کے دیدار میں مانع ھے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۱۶:

امام علیہ السلام کے ظھور میں تاخیر کی وجہ

<وَلَوْ اٴَنَّ اٴشْیٰاعَنٰا (وَ فَّقَہُمُ اللهُ لِطٰاعَتِہِ) عَلَی اجْتِمٰاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِي الْوَفٰاءِ بِالْعَہْدِ عَلَیْہِمْ لَمٰا تَاٴَخَّرَ عَنْہُمُ الْیُمْنَ بِلِقٰائِنٰا، وَ لَتَعَجَّلَتْ لَہُمُ السَّعٰادَةُ بِمُشٰاہَدَتِنٰا عَلیٰ حَقِّ الْمَعْرِفَةِ وَ صِدْقِہٰا مِنْہُمْ بِنٰا، فَمٰا یَحْبِسُنٰا عَنْہُمْ إِلاّٰ مٰا یَتَّصِلُ بِنٰا مِمّٰا نَکْرَہُہُ وَلاٰ نُوٴْثِرُہُ مِنْہُمْ>[40]

”اگر ھمارے شیعہ (خدا ان کو اطاعت کی توفیق دے) اپنے عھد و پیمان کو پورا کرنے کی کوشش میں ھمدل ھوںتو پھر ھماری ملاقات کی برکت میں تاخیر نھیں ھوتی، اور ھمارے دیدار کی سعادت جلد ھی نصیب ھوجاتی، ایسا دیدار جو حقیقی معرفت اور ھماری نسبت صداقت پر مبنی ھو، ھمارے مخفی رھنے کی وجہ ھم تک پھنچنے والے اعمال کے علاوہ کوئی اور چیز نھیں ھے جبکہ ھمیں ان سے ایسے اعمال کی امید نھیں ھے“۔

شرح

یہ اس خط کے جملے ھیں جس کو امام زمانہ علیہ السلام نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کے لئے بھیجا تھا۔ امام علیہ السلام نے اس خط میں شیخ مفید علیہ الرحمہ کو چند سفارشیں کرنے اور اپنے شیعوں کے لئے کچھ احکام بیان کرنے کے بعد اس اھم چیز کی طرف اشارہ کیا جو غیبت کا سبب ھوئی ھے۔ امام علیہ السلام شیعوں کے درمیان خلوص اور ھمدلی نہ ھونے کو اپنی غیبت کا سبب شمار کرتے ھیں۔

تاریخ کے پیش نظر یہ بات واضح ھے کہ جب تک لوگ نہ چاھیں اور سعی و کوشش نہ کریں تو حق اپنی جگہ قائم نھیں ھوپاتا، اور حکومت اس کے اھل کے ھاتھوں میں نھیں آتی۔ حضرت علی ، امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کی تاریخ اس بات پر بہترین دلیل ھے۔ اگر لوگ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت پر اصرار کرتے تو پھر آج تاریخ کا ایک دوسرا رخ ھوتا، لیکن اس وقت کے لوگوں میں دنیا طلبی اور خوف و وحشت وغیرہ اس بات کا سبب بنی کہ ھمیشہ تک دنیا والوں مخصوصاً شیعوں کو ظلم و ستم کے علاوہ کچھ دیکھنے کو نہ ملا۔ افسوس کہ ھماری کوتاھی اور ھمارے بُرے کام اس بات کا سبب ھوئے کہ وہ محرومیت اب تک چلی آرھی ھے۔

اس حدیث کے مطابق امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کی تعجیل کے سلسلہ میں ھماری ذمہ داری ھے کہ ھم اپنے اور اپنے رشتہ داروں پر امام علیہ السلام کو مقدم کریں، اور اسلامی احکام کو جاری کریں اور اسلام کی تبلیغ کے ذریعہ دنیا والوں کے سامنے امام زمانہ علیہ السلام کا تعارف کرائیں، اور دلوں کو امام کی طرف متوجہ کریں، تاکہ خدا کی مشیت سے بہت جلد ھی لوگوں میں امام زمانہ علیہ السلام کو قبول کرنے کا زمینہ ھموار ھوجائے۔

اس حدیث مبارک سے چند چیزیں معلوم ھوتی ھیں:

۱۔ خداوندعالم نے شیعوں سے عھد و پیمان لیا ھے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام کی پیروی کریں اور یھی پیروی امام زمانہ علیہ السلام کی ملاقات کے شرف کا سبب ھے۔

۲۔ شیعوں کے بُرے اعمال اپنے امام سے دوری کا سبب بنے ھیں؛ لہٰذا ھمارے نیک اعمال امام زمانہ علیہ السلام سے رابطہ میں موٴثر واقع ھوسکتے ھیں۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۱۷:

غیبت، منجملہ تقدیرات الٰھی میں سے ھے

<اٴَقْدٰارُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ لاٰ تُغٰالَبُ وَإِرٰادَتُہُ لاٰ تُرَدُّ وَ تَوْفیقُہُ لاٰ یُسْبَقُ>[41]

”جو چیزیں خداوندعالم نے مقدّر فرمادی ھیں وہ کبھی مغلوب نھیں ھوتیں، اور اس کا ارادہ کبھی ردّ نھیں ھوتا، اور اس کی توفیق پر کوئی چیز سبقت حاصل نھیں کرسکتی“۔

شرح

یہ حدیث امام زمانہ علیہ السلام کے اس کلام کا حصہ ھیں جس کو آپ نے اپنے دو نائبوں عثمان بن سعید اور ان کے فرزند محمد ابن عثمان کے لئے بھیجے گئے خط میں تحریر کیا تھا۔ امام علیہ السلام اس توقیع میں اپنی غیبت کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں: یہ موضوع تقدیر الٰھی ھے اور خدا کا حتمی و یقینی ارادہ اس سے متعلق ھے۔

امام مھدی علیہ السلام نے اس توقیع میں چند نکات کی طرف اشارہ فرمایا ھے:

۱۔ کوئی بھی شخص تقدیر الٰھی کے مقابلہ میں کامیاب نھیں ھوسکتا؛ کیونکہ وہ ”مقدِّر کلّ قَدَر“ ھے اور اس کی قدرت تمام قدرتوں سے بلند و بالا ھے۔

۲۔ اگر خداوندعالم کسی چیز کے بارے میں حتمی ارادہ کرلے تو پھر اس کے ارادہ پر کوئی غالب نھیں آسکتا اور اس کے نافذ کرنے میں مانع نھیں ھوسکتا؛ کیونکہ اس کے ارادہ سے اوپر کسی کا ارادہ نھیں ھوسکتا۔ جیسا کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا میں ھم پڑھتے ھیں:

”پروردگارا! حمد و ثنا تجھ سے مخصوص ھے کیونکہ تو ایسا صاحب قدرت ھے جو کبھی مغلوب نھیں ھوتا“۔[42]

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۱۸:

زمانہٴ غیبت میں فقھا کی طرف رجوع کرنا

<اٴَمَّا الْحَوٰادِثُ الْوٰاقِعَةُ فَارْجِعوُا فیہٰا إِلٰی رُوٰاةِ حَدیثِنٰا، فَإِنَّہُمْ حُجَّتِي عَلَیْکُمْ وَ اٴَنَا حُجَّةُاللهِ عَلَیْہِمْ>[43]

”لیکن ھر زمانہ میں پیش آنے والے حوادث (اور واقعات) میں ھماری احادیث بیان کرنے والے راویوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہ تم پر ھماری حجت ھیں اور میں ان پر خدا کی حجت ھوں“۔

شرح

یہ حدیث ان مطالب کا ایک حصہ ھے جس کو امام زمانہ علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے سوالات کے جواب میں ارشاد فرمایا ھے۔ اس حدیث شریف میں امام علیہ السلام زمانہٴ غیبت میں اپنے شیعوں کو رونما ھونے والے حوادث کے موقع پر ان کی ذمہ داری کی طرف اشارہ فرماتے ھیں۔

امام مھدی علیہ السلام اپنے شیعوں کو شرعی یا معاشرتی مسائل کو سمجھنے کے لئے روایان حدیث (کہ جو فقھائے شیعہ ھیں) کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتے ھیں؛ کیونکہ یھی حضرات حدیث کو اچھی طرح سمجھتے ھیں، اور خاص و عام، محکم و متشابہ اور صحیح و باطل کو پہچانتے ھیں۔

امام زمانہ علیہ السلام کی نظر میں ”راویان حدیث“ وہ لوگ نھیں ھیں جو فقط روایت کو نقل کرتے ھیں بغیر اس کے اس کو صحیح طور پر سمجھے ھوئے ھوں؛ کیونکہ ایسے افراد شرعی و غیر شرعی مشکلات کو حل نھیں کرسکتے۔

عصر غیبت میں فقھا کی طرف رجوع کرنا کوئی مستحب کام نھیں ھے بلکہ ایک واجب شرعی ھے؛ کیونکہ فقھائے کرام امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے اس کام کے لئے مقرر ھوئے ھیں اور امام علیہ السلام کے فرمان کی مخالفت نھیں کی جاسکتی۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۱۹:

زکوٰة، نفس کو پاک کرنے والی ھے

<اٴمّٰا اٴَمْوٰالُکُمْ فَلاٰ نَقْبَلُہٰا إِلّا لِتَطَہَّرُوْا، فَمَنْ شٰاءَ فَلْیَصِلْ وَ مَنْ شٰاءَ فَلْیَقْطَعْ، فَمٰا آتٰانِي اللهُ خَیْرٌ مِمّٰا آتٰاکُمْ>[44]

”لیکن تمھارے مال کو ھم صرف اس وجہ سے قبول کرلیتے ھیں تاکہ تم پاک ھوجاؤ۔ لہٰذا جو چاھے ادا کرے جو چاھے ادا نہ کرے۔ خداوندعالم نے جو چیزیں ھم کو عطا کی ھیں ان چیزوں سے بہتر ھے جو تمھیں عطا کی ھیں“۔

شرح

یہ حدیث ان مطالب کا ایک حصہ ھے جن کو امام زمانہ علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے سوالات کے جواب میں اپنی توقیع میں تحریر فرمایا ھے۔ اسحاق بن یعقوب کہتے ھیں: میں نے کچھ سوالات جمع کئے اور آپ کے دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان عمری کی خدمت میں پیش کئے، اور ان سے گزارش کی کہمیرے ان سوالات کو امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں پھنچا دیجئے اور ان کے جوابات کی بھی درخواست کیجئے۔ امام زمانہ علیہ السلام نے ایک توقیع میں اپنے قلم سے چند چیزوں کی یاد دھانی کے بعد اس طرح فرمایا:

”لیکن تمھارے مال کو ھم صرف اور صرف اس وجہ سے قبول کرلیتے ھیں تاکہ تم پاک ھوجاؤ۔ لہٰذا جو چاھے اپنا مال بھیجے جو چاھے نہ بھیجے ۔ خداوندعالم نے جو چیزیں ھم کو عطا کی ھیں ان چیزوں سے بہتر ھے جو تمھیں عطا کی ھیں“۔

امام زمانہ علیہ السلام اپنے اس کلام مبارک میں اس نکتہ کی طرف اشارہ فرماتے ھیں کہ مالی واجب حقوق کو ادا کرنے کا فائدہ خود انسان تک پھنچتا ھے، اور امام علیہ السلام اس مال کو اس وجہ سے قبول کرتے ھیں تاکہ خود ادا کرنے والا پاک و پاکیزہ ھوجائے، نہ یہ کہ امام خود اس چیز کا محتاج ھوتا ھے۔ قرآن کریم نے زکوٰة سے متعلق، آیت میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ھے:

<خُذْ مِنْ اٴَمْوَالِہِمْ صَدَقَةً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ إِنَّ صَلَاتَکَ سَکَنٌ لَہُمْ>[45]

”(اے پیغمبر!) آپ ان کے اموال میں سے زکوٰة لے لیجئے تاکہ اس کے ذریعہ یہ پاک ھوجائیں اور انھیں دعائیں دیجئے کہ آپ کی دعا ان کے لئے تسکین قلب کا باعث ھوگی“۔

حدیث نمبر ۲۰:

مالی واجبی حقوق کو ادا کرنے کا فائدہ تقویٰ ھے

< اٴَنَّہُ مَنِ اتَّقیٰ رَبَّہُ مِنْ اخْوٰانِکَ فِي الدِّینِ وَ اٴَخْرَجَ مِمّٰا عَلَیْہِ إِلیٰ مُسْتَحِقّیہِ، کٰانَ آمِناً مِنَ الْفِتْنَةِ الْمُبْطِلَةِ، وَ مِحَنِہَا الْمُظْلِمَةِ الْمُظِلَّةِ وَ مَنْ بَخِلَ مِنْہُمْ بِمٰا اٴَعٰارَہُ اللهُ مِنْ نِعْمَةِ عَلیٰ مَنْ اٴَمَرَہُ بِصِلَتِہِ، فَإِنَّہُ یَکُونُ خٰاسِراً بِذٰلِکَ لِاٴُوْلاٰہُُ وَآخِرَتِہِ>[46]

”بے شک کہ جو شخص اپنے دینی بھائی کے حقوق کے سلسلہ میں حکم الٰھی کا احترام کرے اور اپنے ذمہ مالی حقوق کو اس کے مستحق تک پھنچائے تو ایسا شخص باطل راہ کی طرف لے جانے والے فتنوں سے اور خطرناک بلاؤں سے محفوظ رہتا ھے، اور جو شخص بخل سے کام لے اور خداوندعالم

نے جن نعمتوں کو اس کے پاس امانت رکھا ھے ان میں سے مستحق کو نہ دے، تو ایسا شخص دنیا و آخرت میں گھاٹا اٹھانے والا ھوگا“۔

شرح

یہ کلام حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے اس دوسرے خط کا ایک حصہ ھے جس کو آپ نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کے نام لکھا ھے۔ امام علیہ السلام نے خط کے اس حصہ میں واجبی مالی حقوق کو ان کے مستحق تک پھنچانے اور اس کام کی خیر و برکت کی طرف اشارہ کیا ھے۔ امام علیہ السلام ان لوگوں کے لئے جو اھل تقویٰ ھیں اور ان کے ذمہ مالی حقوق ھیں (جیسے خمس اور زکوٰة وغیرہ) اگر وہ ان کو مستحق تک پھنچائیں تو امام علیہ السلام اس بات کی ضمانت لیتے ھیں کہ وہ اس خدا پسند عمل کے نتیجے میں فتنوں اور بلاؤں سے محفوظ رھیں گے، اور جو لوگ مالی حقوق کی ادائیگی میں کوتاھی سے کام لیں اور حقوق شرعیہ ادا کرنے میں کنجوسی کریں تو ان کے نصیب میں دنیا و آخرت کے گھاٹے کے علاوہ کچھ نھیں ھوگا۔حقوق شرعی ادا کرتے وقت شیطان انسان کو بھکاتا ھے اور اس کو فقر و تنگدستی سے ڈراتا ھے۔ امام زمانہ علیہ السلام اپنے اس بیان سے ھمیں یہ سمجھانا چاہتے ھیں کہ واقعیت اور حقیقت یہ ھے کہ خمس و زکوٰة وغیرہ کی ادائیگی نہ کرنا فقر و تنگدستی کا باعث ھے نہ کہ راہ خدا میں خیرات کرنا۔

مالی واجب حقوق کو ادا کرنا بلکہ مستحب حقوق کو ادا کرنے سے نہ صرف یہ کہ انسان کے مال میں برکت ھوتی ھے بلکہ اس کی معنوی روزی میں بھی اضافہ ھوتا ھے، اس طرح اس کو اندھیری راھوں میں چراغ ھدایت مل جاتا ھے تاکہ راستہ کو گڑھے سے تمیز دے سکے۔

حدیث نمبر ۲۱:

تعجیل فرج (ظھور) کے لئے د عا

<اٴَکْثِرُوْا الدُّعٰاءَ بِتَعْجیلِ الْفَرَجِ، فإِنَّ ذٰلِکَ فَرَجُکُمْ>[47]

”میرے ظھورکے لئے کثرت سے دعا کیا کرو، کیونکہ اس میں خود تمھارے لئے آسائش ھے“۔

شرح

یہ کلام منجملہ ان مطالب میں سے ھے جن کو حضرت امام مھدی علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے سوالوں کے جواب میں بیان کیا ھے۔ اس حدیث میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام نے تعجیل فرج کے لئے کثرت سے دعا کرنے کا حکم دیا ھے۔ امام علیہ السلام کا یہ حکم مطلب کی اھمیت کو واضح کرتا ھے؛ کیونکہ شیعوں کا مشکلات اور بلاؤں سے محفوظ رھنا حضرت امام مھدی علیہ السلام کے ظھور کے زیر سایہ ھی ممکن ھے؛ جب تک امام علیہ السلام غیبت کی زندگی بسر کررھے ھیں، شیعہ بھی ظالم و جابر حکّام کے ظلم کا نشانہ بنے ھوئے ھیں۔

اس حدیث مبارک میں موجود چند نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے:

۱۔ شیعوں کے لئے فرج اور آسانیاں ھیں، اور وہ ظلم و ستم اور آزار و اذیت سے ایک دن رھائی حاصل کریں گے۔ وہ سنھرا دن ھوگا جب وہ اپنے مولا و آقا کی حکومت کے زیر سایہ آرام و سکون کے ساتھ روحانی زندگی بسر کریں گے۔

۲۔ امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کے سلسلہ میں ”بداء“ واقع ھوتا ھے؛ دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ آپ کے ظھور میں عجلت یا تاخیر ھوسکتی ھے، آپ کے ظھور میں تعجیل کا ایک سبب آپ کے ظھور کے لئے دعا کرنا ھے۔ اور ھم جانتے ھیں کہ جب تک دل کی گھرائیوں سے دعا نہ کی جائے تو پھر آپ کے ظھور کا راستہ ھموار کرنے میں موٴثر نھیں ھوگی۔ لہٰذا ھمیں چاہئے کہ دل و جان سے امام کے لئے دعا کریں اور ان کو پکاریں، اور میدان عمل میں بھی امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کا زمینہ فراھم کرنے کی کوشش کرتے رھیں۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۲۲:

شیعوں کی رعایت

<إنّٰا غَیْرُ مُہْمِلِیْنَ لِمُرٰاعٰاتِکُمْ، وَ لاٰ نٰاسینَ لِذِکْرِکُمْ، وَ لَوْلاٰ ذٰلِکَ لَنَزَلَ بِکُمُ الَّلاٴْوٰاءُ وَاصْطَلَمَکُمُ الْاٴَعْدٰاءُ>[48]

”ھم تمھاری سرپرستی اور دیکھ بھال میں کوتاھی نھیں کرتے، اور تمھاری یاد کو کبھی نھیں بھلاتے، اگر ھم ایسا نہ کرتے تو تم پر بلائیں اور مصیبتیں نازل ھوجاتیں اور دشمن تم کو بالکل نیست و نابود کردیتے“۔

شرح

امام زمانہ علیہ السلام نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کے لئے دو توقیع بھیجی ھیں پھلی توقیع میں امام علیہ السلام نے اپنے شیعوں کو بشارت دی ھے کہ ھم تم لوگوں پر ھمیشہ توجہ رکھتے ھیں اور تمھاری رعایت کرتے ھیںاور تم کو کبھی نھیں بھلاتے، اسی وجہ سے تم دشمن کے خطروں سے محفوظ ھو، شیعہ ظلم کا مقابلہ کرنے اور ھمیشہ حق و حقیقت کی پیروی کرنے کی وجہ سے ظالم و ستمگر حکّام اور مخالفین کے ظلم کا نشانہ بنے رھے ھیں؛ لہٰذا ان کے لئے ایسی شخصیت کا ھونا ضروری ھے جو سختیوں اور پریشانیوں میں ان کی مدد کرے، اور ان کو نابود ھونے سے نجات دے۔ اس توقیع میں امام زمانہ علیہ السلام اپنے شیعوں کو بشارت دیتے ھیں کہ اگرچہ میں غیبت کی زندگی بسر کر رھا ھوں لیکن پھر بھی تمھاری حمایت کرتا ھوں، اور کبھی بھی دشمن کے نقشوں کو پورا نھیں ھونے دیتا، اور مذھب شیعہ اور شیعوں کو نابودی سے بچا لیتا ھوں۔ تاریخ کے دامن میں (بہت سے) ایسے واقعات موجود ھیں کہ امام علیہ السلام کی امامت کے زمانہ میں جب بھی کوئی مشکل اور پریشانی پیش آئی ھے تو امام زمانہ علیہ السلام نے مدد کی ھے، اور یہ تمام واقعات امام علیہ السلام کے وعدوں کی صداقت کے مکمل نمونے ھیں۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۲۳:

شیعوں سے بلاؤں کا دور کرنا

< اٴَنَا خٰاتَمُ الْاٴَوْصِیٰاءِ، وَ بِي یَدْفَعُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ الْبَلاٰءَ عَنْ اٴَہْلي وَ شیْعَتِي>[49]

”میں خاتم الاوصیاء ھوں اور خداوندعالم میرے سبب اور وسیلہ سے میرے اھل اور میرے شیعوں سے بلاؤں کو دور کرتا ھے“۔

شرح

اس حدیث مبارک کو شیخ صدوق علیہ الرحمہ اور شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے ابو نصر خادم سے نقل کیا ھے۔ ابونصر کہتے ھیں:

”جب میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا تو امام علیہ السلام نے مجھ سے سوال کیا: ”کیا مجھے پہچانتے ھو؟“ میں نے عرض کیا: ”جی ھاں“، پھر دریافت فرمایا: ”میں کون ھوں؟“ میں نے عرض کیا: ”آپ میرے مولا و آقا اور میرے مولا و آقا کے بیٹے ھیں“، امام علیہ السلام نے فرمایا: ”میں نے تم سے یہ سوال نھیں کیا ھے!“، میں نے عرض کیا: ”خداوندعالم مجھے آپ پر قربان کرے! آپ اپنا تعارف خود ھی فرما دیجئے۔“، اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: ”میں خاتم الاوصیاء ھوں اور خداوندعالم میرے سبب سے میرے اھل بیت اور میرے شیعوں سے بلاؤں کو دور کرتا ھے“۔

حدیث کے اس حصہ میں امام علیہ السلام نے دو نکات کی طرف اشارہ فرمایا ھے:

۱۔ امام علیہ السلام خاتم الاوصیاء ھیں اور وصایت و امامت آپ پر ختم ھوگئی ھے، ممکن ھے کہ یھاں پر وصایت سے مراد وہ وصایت ھو جو فرزند جناب آدم علیہ السلام، ھابیل یا شیث سے شروع ھوکر امام زمانہ علیہ السلام پر ختم ھوئی ھو، اور یہ بھی ممکن ھے کہ ”وصایت کے خاتمہ“ سے مراد وہ وصایت ھو جو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے شروع ھوئی ھے۔ بھر حال آپ کے بعد کوئی امام نھیں ھوگا، جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ دعویٰ باطل اور ایسا دعویٰ کرنے والا جھوٹا ھے۔

۲۔ ھمیشہ تاریخ میں امام علیہ السلام کے شیعہ مصائب اور بلاؤں میں مبتلا رھیں گے۔ امام زمانہ علیہ السلام اس حدیث مبارک میں فرماتے ھیں:

”صرف میری وجہ سے خداوندعالم میرے اھل بیت اور میرے شیعوں سے بلاؤں کو دور کرتا ھے“۔

اس کلام میں دو احتمال پائے جاتے ھیں:

الف) اس سے مراد امام علیہ السلام کی غیبت کا زمانہ ھو؛ اس صورت میں مراد یہ ھے کہ شیعہ غیبت کے زمانہ میں امام زمانہ علیہ السلام کے توسل سے بلاؤں اور مشکلات سے نجات پاسکتے ھیں۔

امام زمانہ علیہ السلام اپنی توقیع میں شیخ صدوق علیہ الرحمہ سے فرماتے ھیں:

”ھم تمھاری سرپرستی اور دیکھ بھال میں کوتاھی نھیں کرتے، اور تمھیں کبھی نھیں بھلاتے، اگر ھم ایسا نہ کرتے تو تم پر بلائیں اور مصیبتیں نازل ھوجاتیں اور دشمن تم کو بالکل نیست و نابود کردیتے“۔[50]

ب) اس سے مراد آپ کے ظھور کا زمانہ ھو؛ اس صورت میں مقصود یہ ھے کہ خداوندعالم آپ کے ظھور سے اور تمام ظالموں پر غلبہ کے ذریعہ آپ کے اھل بیت اور شیعوں سے مصائب اور بلاؤں کو دور کرتا ھے۔

(اس کے علاوہ) ان دونوں احتمال کو ایک ساتھ جمع بھی کیا جاسکتا ھے؛ وہ اس طرح کہ امام زمانہ علیہ السلام غیبت اور ظھور کے زمانے میں اپنے شیعوں سے مشکلات اور بلاؤں کو دور کرتے ھیں۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۲۴:

دعا قبول ھونے کی امید

<رَبِّ مَنْ ذَا الَّذي دَعٰاکَ فَلَمْ تُجِبْہُ، وَ مَنْ ذَا الَّذي سَاٴَلَکَ فَلَمْ تُعْطِہِ، وَ مَنْ ذَا الَّذي نٰاجٰاکَ فَخَیَّبْتَہُ، اٴَوْ تَقَرَّبَ إِلَیْکَ فَاٴَبْعَدْتَہُ>[51]

”پروردگارا! کون ھے ایسا شخص جس نے تجھ سے دعائیں مانگی ھوں اور تونے اس کی حاجت روائی نہ کی ھو، اور کون ھے ایسا شخص جس نے تجھ سے درخواست کی ھو لیکن تو نے اس کو عطا نہ کیا ھو، اور کون ھے ایسا شخص جس نے تجھ سے مناجات کی ھو اور تو نے اس کو ناامید کیا ھو، یا خود کو تجھ سے نزدیک کرنے کی کوشش کی ھو اور تو نے اس کو دور کر دیاھو؟!“

شرح

یہ فقرہ مشھور و معروف ”دعائے علوی“ کا ایک حصہ ھے۔ محمد بن علی علوی حسینی مصری ایک مکاشفہ(غیبی اسرار کا ظاھر ھونا) میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ھوئے اور آپ سے یہ دعا حاصل کی جس کو پڑھنے سے انھوں نے اپنی مراد پالی۔

امام علیہ السلام نے اس دعا (جو انسان میں امید کی کرن پیدا کرتی ھے) میںانسان کو یہ سبق دیتے ھیں کہ بارگاہ خداوندی میں حاضر ھونا اور دعا کرنے سے ناامید نہ ھو؛ کیونکہ خداوندعالم کسی کو بھی خالی ھاتھ نھیں لوٹاتا اور کسی بھی دعا کو شر ف قبولیت کے بغیر نھیں چھوڑتا۔

یھاں پر ممکن ھے کہ کوئی یہ سوال کرے: ”(اگر ایسا ھے تو) انسان کی بہت سی دعائیں کیوں قبول نھیں ھوتیں؟ بہت سے انسان مرادیں مانگتے ھیں لیکن وہ پوری نھیں ھوتیں، وغیرہ وغیرہ، لہٰذا اس حدیث کا مقصد کیا ھے؟“

اس سوال کے جواب میں ھم کہتے ھیں:

پھلے یہ کہ انسان بعض اوقات کسی چیز کو پسند نھیں کرتا جبکہ اس میں اس کی بھلائی ھوتی ھے یا کسی چیز کو طلب کرتا ھے جس میںاس کی صلاح نھیں ھوتی؛ لیکن پھر بھی خداوندعالم سے اس چیز کو طلب کرتا ھے۔ ایسی صورت میں خداوندعالم اس کی دعا ظاھری طور پر قبول نھیں کرتا، لیکن اس کے بدلے دوسری نعمتیں عطا کرتا ھے، یا اس کے گناھوں کو بخش دیتا ھے۔

دوسرے یہ کہ مرادوں کا پورا ھونا شرائط کے موجود ھونے اور موانع کے نہ ھونے سے وابستہ ھوتا ھے۔ شرائط نہ ھونے اور موانع ھونے کی صورت میں انسان چاھے جتنی دعا کرے اس کی دعا قبول نھیں ھوتی۔ اسی طرح دعا کے لئے بھی کچھ آداب ھیں جن کی رعایت بہت ضروری ھے، اور ان کی رعایت کئے بغیر دعا قبول نھیں ھوتی۔ جس کی پھلی شرط ”عبدخدا“ ھونا ھے، دوسری شرط یہ ھے کہ انسان نے کسی کا دل نہ دکھایا ھو۔ جو شخص کسی کا دل دکھاتا ھے وہ کس طرح امید رکھتا ھے کہ اس کی دعائیں قبول ھوں؟ دل شکستہ کی بددعا بہت جلد بارگاہ خداوندی میں پھنچتی اور مستجاب ھوتی ھے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۲۵:

دوسروں کے مال کا احترام کرنا

<فَلاٰ یَحِلُّ لِاٴَحِدٍ اٴَنْ یَتَصَرَّفَ مِنْ مٰالِ غَیْرِہِ بِغَیْرِ إذْنِہِ>[52]

”کسی انسان کے لئے یہ جائز نھیں ھے کہ مالک کی اجازت کے بغیر اس کے مال کو استعمال کرے“۔

شرح

یہ حدیث امام زمانہ علیہ السلام کے اس جواب کا ایک حصہ ھے جس کو آپ نے اسدی کے سوالوں کے جواب میں تحریر فرمایا ھے۔

امام علیہ السلام نے اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ھے جس کی طرف درج ذیل آیہ مبارکہ میں اشارہ ھوا ھے، اس آیت میں خداوندعالم نے حکم دیا ھے:

<لاَتَاٴْکُلُوا اٴَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ اٴَنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ >[53]

”(اے ایمان والو! ) آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق طریقہ سے نہ کھایا کرو،مگر یہ کہ باھمی رضامندی سے معاملہ کرلو “۔

مسلمانوں کا مال، ان کی جان اور عزت کی طرح محفوظ رھنا چاہئے، دوسروں کو یہ حق نھیں ھے کہ کسی کے مال کی طرف بری نگاہ سے دیکھے۔ دوسرے کے مال کا مالک بن جانا اگر شرعی اور عرفی اسباب (جیسے تجارت، رضایت، عطا و بخشش، ارث، کرایہ یا شریعت میں بیان شدہ قوانین) کے تحت نہ ھو تو پھر مشکلات کے علاوہ کوئی نتیجہ نھیں ھوگا۔ اس آیہ مبارکہ اور حدیث شریفہ میں یہ حکم دیا گیا ھے کہ دوسروں کے مال کو ان کی اجازت یا ان کی مرضی سے استعمال کرنا چاہئے اور کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ دوسروں کے مال پر قبضہ کرلے اور اس کا مالک بن جائے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۲۶:

حضرت زھرا (ع) امام مھدی علیہ السلام کے لئے نمونہ

<وَ في إِبْنَةِ رَسُولِ اللهِ (ص) لِي اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ>[54]

”بنت پیغمبر اکرم (ص)(جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا) میرے لئے بہترین نمونہ ھیں“۔

شرح

شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”الغیبة“ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی جانشینی کے بارے میں شیعوں کی ایک جماعت کے ساتھ ابن ابی غانم قزوینی کے اختلاف کو بیان کرتے ھیں۔ ابن ابی غانم، امام حسن عسکری علیہ السلام کی جانشینی کا عقیدہ نھیں رکھتا تھا۔ بہت سے شیعوں نے امام زمانہ علیہ السلام کو خط لکھ کر ابن ابی غانم اور شیعوں کے مسئلہ کو بیان کیا۔

امام زمانہ علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے خط لکھا اور اپنے شیعوں کےلئے فتنہ و فساد اور ضلالت سے محفوظ رھنے، روح یقین اور سرانجام بخیر ھونے کی دعا کرتے ھوئے نیز چند چیزوں کی یاد دھانی کے بعد فرماتے ھیں:

”جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا بنت رسول اس مسئلہ میں میرے لئے بہترین نمونہ ھیں“۔

اس سلسلہ میں کہ امام زمانہ علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی کس رفتار یا گفتار کو اپنے لئے سر مشق قرار دیا ھے، چند مختلف احتمالات پائے جاتے ھیں۔ ھم یھاں پر ان میں سے صرف تین احتمال کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

۱۔ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا نے اپنی بابرکت عمر کے آخر ی لمحات تک کسی ظالم کی بیعت نہ کی۔ اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام نے بھی کسی ظالم و ستمگر حاکم کی بیعت نھیں کی ھے۔

۲۔ اس خط کے لکھے جانے کا سبب یہ ھے کہ بعض شیعوں نے آپ کی امامت کو قبول نھیں کیا ھے۔ چنانچہ امام زمانہ علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اگر میں کرسکتا تھا یا مجھے اس چیز کی اجازت ھوتی تو ایسا کام کرتا کہ تم پر حق مکمل طور پر واضح ھوجاتا اور تمھارے لئے ذرا بھی شک باقی نہ رہتا؛ لیکن میرے لئے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نمونہ ھیں۔ آپ نے جب یہ دیکھ لیا کہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کو غصب کرلیا گیا تو بھی آپ نے خلافت کو حاصل کرنے کے لئے غیر معمولی اسباب کا سھارا نھیں لیا۔ میں بھی انھیں کی پیروی کرتا ھوں، اور اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے غیر معمولی راستہ کو طے نھیں کرتا“۔

۳۔ امام زمانہ علیہ السلام نے اپنے جواب میں فرمایا:

”اگر تمھاری ھدایت اور امداد کی نسبت ھمارا شتیاق اور بہت محبت نہ ھوتی تو ھم نے جو ظلم برداشت کئے ھیں تم لوگوں سے منھ موڑ لیتے“۔

امام زمانہ علیہ السلام حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھنا چاہتے ھیں: جیسا کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا پر دشمنوں نے ظلم و ستم کئے اور اس سلسلہ میں مسلمانوں نے بھی خاموشی اختیار کی، لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی سبب نہ بنی کہ آپ نے مسلمانوں کے حق میں دعائے خیر سے ھاتھ کھیچ لیا ھو، بلکہ آپ دوسروں کے لئے پھلے دعائیں کیا کرتی تھیں ۔ اسی طرح میں بھی ان تمام ظلم اور انکار کو برداشت کرتا ھوں، اور تمھارے لئے ھم دردی، رھنمائی اور دعا وغیرہ کو ترک نھیں کرتا۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۲۷:

شک میں ڈالنے کی ممانعت

<لاٰ عُذْرَ لِاٴَحَدٍ مِنْ مَوٰالینٰا فی التَّشْکِیْکِ فیمٰا یُوٴَدِّیہِ عَنّٰا ثِقٰاتُنٰا>[55]

”جو (چیزیں) موثق راوی تمھارے لئے ھم سے روایات نقل کرتے ھیں ان میں شک ڈالنے کے سلسلہ میں ھمارے شیعوں میں سے کسی کا کوئی عذر (قبول) نھیں ھے“۔

شرح

یہ کلام امام زمانہ علیہ السلام کی اس توقیع کاایک حصہ ھے جس کو آپ نے ”احمد بن ھلال عبرتائی“ کے بارے میں اور اس سے دوری کے سلسلہ میں ”قاسم بن علا“ کے لئے تحریر فرمایا ھے۔

فقھائے کرام نے اصول کی استدلالی کتابوں میں ”خبر واحد کی حجیت“ کو ثابت کرنے کے لئے اس روایت سے تمسک کیا ھے؛ کیونکہ حقیقت میں امام علیہ السلام نے اس روایت میں ان لوگوں کی روایت قبول کرنے اور ان کی پیروی کرنے کی تاکید فرمائی جو ثقہ اور مورد اطمینان ھوں اور اھل بیت علیھم السلام کی سنت کو نقل کرتے ھوں۔

مضمون حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ کسی شخص کو یہ حق نھیں ھے کہ جن روایات کو اھل بیت علیھم السلام کے ثقہ راوی بیان کریں ان میں شک کرے اور ان پر عمل نہ کرے، مگر اس صورت میں جب ان کے غلط ھونے کا علم ھوجائے، کیونکہ یہ ثقہ حضرات ان اصحاب میں سے ھیں جو اھل بیت علیھم السلام کی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں واسطہ ھیں، اور ان کی روایات میں شک کرنا اس بات کا سبب بنتا ھے کہ اھل بیت علیھم السلام کی جانب سے کوئی چیز ھم تک نہ پھنچے۔

قابل ذکر ھے کہ وثاقت کے مختلف درجے ھوتے ھیں جن میں سے بعض عدالت کے برابر بلکہ عدالت سے بھی بالاتر ھوتے ھیں۔ جیسا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اھل کوفہ کے نام خط میں حضرت مسلم بن عقیل کے لئے جو الفاظ استعمال کئے ھیں وہ عدالت سے بھی مافوق ھیں؛ چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

”میں تمھاری طرف اپنے بھائی، چچا زاد اور اپنے خاندان کی مورد وثوق شخصیت مسلم بن عقیل کو بھیج رھا ھوں“۔[56]

حدیث نمبر ۲۸:

شک و شبھات میں مبتلا نہ ھونا

<لاٰ تَشُکَّنَّ فَوَدَّ الشَّیْطٰانُ اٴَنَّکَ شَکَکْتَ>[57]

”ھرگز اپنے اندر شک و شبھات پیدا نہ ھونے دو، کیونکہ شیطان تو یھی چاہتا ھے کہ تم شک میں مبتلا ھوجاؤ“۔

شرح

شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ حسن بن نضر سے روایت کرتے ھیں، وہ کہتے ھیں کہ جس وقت میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے بیت الشرف میں داخل ھوا، ایک سانولے رنگ کے شخص کو دیکھا جو وھاں پر کھڑا ھوا تھا۔ اس نے مجھسے کھا: ”کیا تم حسن بن نضر ھو؟“ میں نے کھا: ”ھاں“، اس نے کھا: ”اندر آجاؤ“، چنانچہ میں امام علیہ السلام کے بیت الشرف میں وارد ھوگیا، اس کے بعد میں نے ایک کمرہ پر پردہ لٹکا دیکھا اور کمرے کے اندر سے آوزا آئی:

”اے حسن بن نضر! جو نعمتیں خداوندعالم نے تم کو عطا کی ھیں ان پر شکر گزار رھو، اور اپنے اندر شک و شبھات کو جگہ نہ دو، کیونکہ شیطان یھی چاہتا ھے کہ تمھارے اندر شک پیدا ھو۔۔۔“۔

چونکہ حسن بن نضر اور شیعوں کی ایک جماعت آپ کی وکالت اور دوسرے امور میں شک کرتے تھے۔ (کیونکہ) امامت اور اسلامی معاشرہ کی رھبری (جو اعتقادی مسائل میں سے ھے) میں شک کرنا دین کی تباھی کا سبب ھوتا ھے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے شک و تردید سے ڈرایا ھے۔

اس حدیث مبارک سے چند نکات معلوم ھوتے ھیں:

۱۔ چونکہ امام زمانہ علیہ السلام حسن بن نضر کے دل کی باتوں سے باخبر تھے ، جس سے ھم یہ سمجھتے ھیں کہ امام علیہ السلام علم غیب جانتے ھیں۔

۲۔ امام زمانہ علیہ السلام اگرچہ غیبت کے عالم میں زندگی بسر کررھے ھیں لیکن پھر بھی اپنے شیعوں کی نسبت فکر مند رہتے ھیں، اور شیعوں کو پریشانی، گمراھی اور بلاؤں سے نجات دیتے ھیں۔

۳۔ اعتقادی مسائل میں شک کرنے کے بہت سے نقصانات ھیں؛ کیونکہ یہ کسی چیز پر پابند نہ رھنے اور دینی یقین نہ ھونے کا سبب ھوتا ھے، ھمیں اپنے اور دوسرے لوگوں کے ایمان کو مستحکم کرنا چاہئے اور اگر شک و شبھات پیدا ھوجائیں تو ان کو جوابات دے کر دور کرنا چاہئے۔

۴۔ شیطان کے بھکانے کا ایک راستہ لوگوں کے دینی عقائد کے سلسلہ میں شک و شبھات پیدا کرنا ھے، اس حدیث کے مطابق انسان کی اس حالت کو شیطان بہت پسند کرتا ھے۔

۵۔ انسان کو اپنی ذات اور معاشرہ کے لوگوں سے شک و شبھات کو دور کرنا چاہئے، جیسا کہ امام علیہ السلام نے بھی یھی کوشش کی ھے کہ حسن بن نضر اور شیعوں کے ایک گروہ سے شک و شبھات کو دور فرمائیں۔ قرآن کریم نے ۱۵ مقامات پر شک کی مذمت کی ھے، اور شک کرنے والے کو غور و فکر کی دعوت دی ھے، کیونکہ غور و فکر کے نتیجہ میں انسان سے شک دور ھوجاتا ھے اور وہ یقین کی منزل پر فائز ھوجاتا ھے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۲۹:

امام زمانہ علیہ السلام کا انکار کرنے والوں کا حکم

<لَیْسَ بَیْنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَبَیْنَ اٴَحَدٍ قِرٰابَةٌ، وَمَنْ اٴَنْکَرَنِي فَلَیْسَ مِنِّی، وَسَبِیلُہُ سَبیلُ ابْنِ نُوحٍ>[58]

”خداوندعالم کی کسی سے کوئی رشتہ داری نھیں ھے، جو میرا انکار کرے وہ مجھ سے نھیں ھے اور اس کا راستہ فرزند نوح کے راستہ کی طرح ھے“۔

شرح

یہ کلام امام زمانہ علیہ السلام کے ان جوابات کا ایک حصہ ھے جن کو اسحاق بن یعقوب کے سوالوں کے جواب میں لکھا ھے۔ ان سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اس شخص کا حکم کیا ھے جو اھل بیت علیھم السلام اور پیغمبر اکرم (ص)کی نسل سے ھو نیز اس کا شمار امام زمانہ علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں میں ھوتا ھے لیکن وہ امام زمانہ علیہ السلام کا منکر ھے، موصوف نے سوال کیا: کیا جو شخص آپ کا منکر ھے اور نسل رسول سے ھے کیا وہ گمراہ ھے یا نھیں؟ امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا:

”خداوندعالم کی کسی سے کوئی رشتہ داری نھیں ھے، جس کی وجہ سے وہ کسی کی رعایت کرے؛ لہٰذا اگر کوئی خدا کی نافرمانی کرے (چاھے وہ کوئی بھی ھو) اس کا سر انجام نار جھنم ھے۔

خدا کی نافرمانیوں میں سے ایک یہ ھے کہ اپنے زمانہ کے امام کی امامت اور اس کے وجود کا انکار کرے۔ جو اس راستہ پر چلے اس نے فرزند نوح کا راستہ طے کیا ھے۔ وہ جس کی بھی پناہ حاصل کرے اس کو نجات نھیں مل سکتی؛ جس طرح پھاڑ کی بلند چوٹی فرزند نوح کو نجات نہ دے سکی“۔

اس حدیث کی وہ روایت بھی تائید کرتی ھے جس کو شیعہ و سنی کتب احادیث نے بیان کیا ھے، جس میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

”میرے اھل بیت کی مثال نوح کی کشتی جیسی ھے جو اس میں سوار ھوگیا وہ نجات پاگیا اور جس نے اس سے روگرانی کی وہ غرق ھوگیا“۔[59]

حدیث نمبر ۳۰:

امام زمانہ علیہ السلام کو اذیت پھنچانے والے

<قَدْ آذٰانٰا جُہَلاٰءُ الشِّیْعَةِ وَحُمَقٰاوٴُہُمْ، وَمَنْ دِینُہُ جِنٰاحُ الْبَعُوضَةِ اٴَرْجَحُ مِنْہُ>[60]

”کم عقل اور نادان شیعہ اور جن کی دینداری سے مضبوط مچھر کے بال و پر ھوتے ھیں، ھم کو اذیت اور تکلیف پہچاتے ھیں“۔

شرح

یہ کلام حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی اس توقیع کا ایک حصہ ھے جس کو آپ نے محمد بن علی بن ھلال کرخی کے لئے بھیجا ھے۔ یہ توقیع اس غالی گروہ کی ردّ میں ھے جو ائمہ علیھم السلام کو خداوندعالم کے علم اور اس کی قدرت میں شریک مانتے ھیں!

شیعوں کا ایک فریضہ یہ (بھی) ھے کہ ائمہ علیھم السلام کو اسی طرح مانیں کہ جس طرح سے ھیں، نہ عام لوگوں کی طرح، لہٰذا نہ ان کی عظمت گھٹائیں اور نہ خداوندعالم کی قدرت وغیرہ میں ان کو شریک قرار دیں۔

حضرات ائمہ علیھم السلام کی عظمت متعدد روایات میں بیان ھوئی ھیں، لہٰذا ان کا مطالعہ کریں اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے سلسلہ میں اپنے نظریہ کی اصلاح کریں۔

اھل غلو کی رفتار و گفتار اس بات کا سبب ھوئی ھے کہ مخالفوں نے شیعوں کو کافر کھنا شروع کردیا، اور بعض لوگوں نے شیعوں کے نجس اور واجب القتل ھونے کا فتویٰ دےا۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نهج البلاغہ میں ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ھیں:

”میرے سلسلہ میں دو طرح کے لوگ ھلاک ھوجائیں گے: ایک وہ جو مجھ سے دوستی میں زیادہ روی کرے، دوسرے وہ جو میری دشمنی میں میری عظمت گھٹائے“۔[61]

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۳۱:

تکلف اور زحمت میں ڈالنے سے ممانعت

<لاٰ تَتَکَلَّفُوا عِلْمَ مٰا قَدْ کُفیتُمْ>[62]

”جس چیز کا علم تم سے طلب نھیں کیا گیا ھے اس سلسلہ میں خود کو زحمت و مشقت میں نہ ڈالو“۔

شرح

اس حدیث کو حضرت امام زمانہ علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے سوال کے جواب میں تحریر کیا ھے۔

اس حدیث شریف سے چند نکات معلوم ھوتے ھیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے:

۱۔ تمام لوگ عقل اور فھم و شعور کے لحاظ سے برابر نھیں ھیں، بعض لوگ فلسفی، عقلی اور استدلالی مطالب کو سمجھ سکتے ھیں لیکن بعض میں اتنی قابلیتنھیں ھوتی؛ لہٰذا ھر انسان اپنی استعداد اور فھم و شعور کے لحاظ سے سمجھنے کی کوشش کرے، اور اس سے زیادہ اپنے کو زحمت میں نہ ڈالے؛ کیونکہ نمونہ کے طور پر جو شخص عرفانی مطالب کو سمجھنے کی صلاحیت نھیں رکھتا اگر ان بحثوں میں واردھو گا تو یقینا بہت سی مشکلات سے دوچار ھوگا اور بہت ممکن ھے کہ وہ گمراہ بھی ھوجائے۔

۲۔ شارع مقدس اسلام نے بعض مطالب کو نھیں واضح کرنا چاھا ھے، امام علیہ السلام اس روایت میں فرماتے ھیں:

”اسی مقدار پر قناعت کروجتنا تمھارے لئے واضح ھے اور جو چیزیں تم سے مخفی رکھی گئیں ھیںان کو سمجھنے کے لئے خود کو زحمت میں نہ ڈالو“۔

مثال کے طور پر بہت سے لوگ یہ جاننا چاہتے ھیں کہ امام زمانہ علیہ السلام کھاں رہتے ھیں؟ وغیرہ وغیرہ، ان چیزوں کا علم ھم سے مخفی ھے۔ جو بات ھم پر واضح ھے وہ یہ ھے کہ امام زمانہ علیہ السلام زندہ ھیں۔ ھماری ذمہ داری یہ ھے کہ ھم آپ کے ظھور کے لئے حالات فراھم کریں۔ ھمیں اس طرح کی چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے خود کو زحمت میں نھیں ڈالنا چاہئے، کیونکہ ان چیزوں کا ھمارے لئے کوئی فائدہ نھیں ھے؛ لہٰذا اس کا علم بھی ھمیں نھیں ھے۔

۳۔ اسی طرح مثال کے طور پر اگر کسی کا کپڑا پاک ھے اور یہ شک کرے کہ نجس ھوا ھے یا نھیں؟ تو اس لباس کو پاک سمجھے؛ لیکن بعض لوگ اس پر اکتفا نھیں کرتے اور خود کو زحمت میں ڈالتے ھیں اور احتمالی نجاست کو ڈھونڈنے کے لئے تمام کپڑوں کو دیکھتے ھیں تاکہ علم حاصل ھوجائے! لیکن ھم سے ایسا علم طلب نھیں کیا گیا ھے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۳۲:

توحید کا اقرار اور غلو کی نفی

<إِنَّ اللهَ تَعٰالٰی ہُوَ الَّذی خَلَقَ الْاٴَجْسٰامَ وَقَسَّمَ الْاٴَرْزٰاقَ، لِاٴَنَّہُ لَیْسَ بِجِسْمٍ وَلٰا حٰالٌّ فی جِسْمٍ، لَیْسَ کَمِثْلِہِ شیءٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلیمُ، وَاٴَمَّا الْاٴَئِمَّةُ عَلَیْہِمُ السَّلاٰمْ فَإِنَّہُمْ یَسْاٴَلُوْنَ اللهَ تَعٰالٰی فَیَخْلُقُ، وَیَسْاٴَلوُنَہُ فَیَرْزِقُ، إِیجٰابًا لِمَسْاٴَلَتِہِمْ وَإِعْظٰاماً لِحَقِّہِمْ>[63]

”صرف خداوندعالم نے ھی جسموں کو خلق کیا اور اس نے ان کو روزی تقسیم کی ھے؛ کیونکہ وہ جسم یا جسم میں سمانے والا نھیں ھے، کوئی چیز اس کے مثل نھیں ھے، وہ سننے والا اور عالم ھے، لیکن جب ائمہ معصومین علیھم السلام خداوندعالم سے کسی چیز کی درخواست کرتے ھیں تو خداوندعالم اس کو خلق کرتا ھے۔ وہ جب خدا سے طلب کرتے ھیں تو وہ ان کو عطا کردیتا ھے۔ خدا یہ کام اس لئے کرتا ھے کہ اس نے اپنے لئے ضروری قرار دیا ھے کہ ان حضرات کی دعاؤں کو قبول کرے، اور ان کی شان کو بلند فرمائے“۔

شرح

شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب الغیبة میں نقل کرتے ھیں کہ شیعوں کی ایک جماعت نے اھل بیت علیھم السلام کی عظمت کے سلسلہ میں اختلاف کیا۔ جن میں سے بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ خداوندعالم نے قدرت خلق اور رزق و روزی کو ائمہ معصومین (علیھم السلام) کے حوالہ کردیا ھے۔ ان کے مقابل دوسرے گروہ کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ چیز ائمہ معصومین (علیھم السلام) کے لئے محال ھے، اور خداوندعالم کے لئے یہ جائز نھیں ھے کہ خلقت اور رزق کے مسئلہ کو ائمہ علیھم السلام کے حوالہ کردے؛ کیونکہ صرف خداوندعالم کی ذات ھی جسموں کو خلق کرنے پر قادر ھے۔

اس مسئلہ میں شیعوں کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ھوگیا تھا۔ چنانچہ اس مجمع میں موجود ایک شخص نے کھا : ”تم لوگ ابو جعفر محمد بن عثمان عمری (امام علیہ السلام کے دوسرے نائب خاص) کے پاس کیوں نھیں جاتے، اور اس سلسلہ میں ان سے سوال کیوں نھیں کرلیتے تاکہ تم پر حقیقت واضح ھوجائے۔ وھی ھمارے اور امام زمانہ علیہ السلام کے درمیان واسطہ ھیں“۔

شیعوں کے دونوں گروہ اس بات پر آمادہ ھوگئے، اور ایک خط لکھا جس میں اس اختلاف کے بارے میں سوال کیا۔ امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں تحریر فرمایا:

”خالق کو جسم نھیں ھونا چاہئے اور رازق کو روزی نھیں کھانی چاہئے؛ نتیجہ یہ ھے کہ ھم چونکہ صاحب جسم ھیں، اور روزی کھاتے ھیں، لہٰذا ھم نہ خالق ھیں اور نہ رازق؛ لیکن خداوندعالم نے ھمارے رتبہ کو بلند قرار دیا ھے، وہ ھماری درخواستوں کو قبول کرتا ھے؛ لہٰذا جب ھم کوئی دعا کرتے ھیں تو وہ اس کو قبول کرتا ھے، نہ یہ کہ ھم خداسے درخواست کے بغیر خود اس کام کی قدرت رکھتے ھوں“۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۳۳:

امام زمانہ علیہ السلام کی محبت

<فَلْیَعْمَلْ کُلُّ امْرِءٍ مِنْکُمْ بِمٰا یَقْرُبُ بِہِ مِنْ مَحَبَّتِنٰا، وَیَتَجَنَّبُ مٰا یُدْنِیہِ مِنْ کَرٰاہَتِنٰا وَسَخَطِنٰا>[64]

”لہٰذا تم میں سے ھر شخص کو ایسے کام کرنا چاہئے جو ھماری محبت اور دوستی میں اضافہ کا سبب بنیں، اور جو چیزیں ھمیں ناپسند ھیں، اور جو چیزیں ھماری ناراضگی و کراہت کا سبب بنتی ھیں ان سے پرھیز کرے“۔

شرح

یہ تحریر امام زمانہ علیہ السلام کے خط کا ایک حصہ ھے جس کو آپ نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کے لئے لکھی ھے۔ امام زمانہ علیہ السلام نے موصوف کی تائید اور شیعوں کے لئے بعض سفارش تحریر کرتے ھوئے فرمایا ھے:

”تم شیعوں میں سے ھر شخص کو ایسا کام کرنا چاہئے جس سے ھم اھل بیت (علیھم السلام) کی محبت اور دوستی میں اضافہ ھواور جو چیزیں ھمیں نا پسند ھیں، اور ھماری ناراضگی و کراہت کا سبب بنتی ھیں ان سے پرھیز کریں“۔

یہ بات واضح ھے کہ اھل بیت علیھم السلام کی محبت اور کراہت انفرادی اور ذاتی پھلو نھیں رکھتی، بلکہ اس کا معیار رضائے الٰھی ھے؛ کیونکہ جب اھل بیت علیھم السلام یہ مشاھدہ کرتے ھیں کہ ان کے شیعہ اور ان سے نسبت رکھنے والے ایسے کام کرتے ھیں جن سے خداوندعالم راضی اور خوشنود ھوتا ھے، اور جن کاموں سے خدا غضبناک ھوتا ھے ان سے پرھیز کرتے ھیں تو یہ حضرات خوش ھوتے ھیں اور اس پر فخر کرتے ھیں۔ امام علیہ السلام کے اسی خط میں ھم دیکھتے ھیں کہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کی شان میں کتنے بہترین الفاظ استعمال کئے گئے ھیں:

خدا کے نام سے جو رحمن و رحیم ھے۔ (خدا کی حمد و ثنا کے بعد) سلام ھو تم پر اے ھمارے دوست اور مخلص دیندار! تم ھمارے مقام (اور عظمت) پر یقین رکھتے ھو، بے شک ھم تمھارے وجود کی بنا پر اس خدا کا شکر بجا لاتے ھیں جس کے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے۔ اور اس کی بارگاہ سے اپنے مولا و آقا حضرت محمد مصطفی (ص)اور ان کی آل طاھرین (علیھم السلام) پر درود کی درخواست کرتے ھیں۔ (خداوندعالم اپنی نصرت و مدد کی توفیق جاری رکھے، اور ھماری نسبت سچ باتوں کی وجہ سے خداوندعالم آپ کو عظیم اجر و ثواب عنایت فرمائے) کہ ھمیں اس بات کی اجازت دی گئی ھے کہ آپ کو خط لکھنے کے شرف سے نوازیں“۔[65]

ھمارے لئے ضروری ھے کہ اگر ھم اپنے مولا و آقا حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی محبت کو حاصل کرنا اور آپ کے غضب اور ناراضگی سے دور رھنا چاھیں تو ایسا کوئی کام نہ کریں جس کی بنا پر آپ سے دور ھوجائیں اور آپ کی عنایت اور توجہ سے محروم ھوجائیں؛ دوسری طرف سے ھماری کوشش یہ ھونی چاہئے کہ ھم ایسے اعمال انجام دیں اور ایسا کردار اپنائیں جن کے ذریعہ آپ سے زیادہ نزدیک ھوجائیں۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۳۴:

ھدفِ بعثت

<إِنَّ اللهَ تَعٰالٰی لَمْ یَخْلُقِ الْخَلْقَ عَبَثاً، وَلاٰ اٴَہْمَلَہُمْ سُدیً، بَلْ خَلَقَہُمْ بِقُدْرَتِہِ، وَ جَعَلَ لَہُمْ اٴَسْمٰاعاً وَ اٴَبْصٰاراً وَ قُلُوباً وَ اٴَلْبٰاباً، ثُمَّ بَعَثَ إِلَیْہِمْ النَّبِیِّیْنَ (علیھم السلام) مُبَشَّرینَ وَ مُنْذِرینَ، یَاٴُ مُرُونَہُمْ بِطٰاعَتِہِ وَ یَنْہَوْنَہُمْ عَنْ مَعْصِیَتِہِ، وَ یُعَرِّفُونَہُمْ مٰا جَہَلُوہُ مِنْ اٴَمْرِ خٰالِقِہِمْ وَ دِینِہِمْ، وَ اٴَنْزَلَ عَلَیْہِمْ کِتٰاباً۔۔۔>[66]

”بے شک خداوندعالم نے لوگوں کو بیھودہ خلق نھیں فرمایا ھے، اور بے کار نھیں چھوڑ دیا ھے؛ بلکہ ان کو اپنی قدرت سے خلق فرمایا ھے اور ان کو آنکھ، کان، دل اور عقل دی ھے؛ اس کے بعد ان کی طرف بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء کو بھیجا تاکہ لوگ خدا کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی سے پرھیز کریں، اور اپنے خدا و دین کی نسبت جن چیزوں سے جاھل ھیں ان کو سیکھیں، اور ان کے لئے کتاب نازل کی ھے۔۔۔“۔

شرح

یہ مطالب امام زمانہ علیہ السلام کے اس جواب کا ایک حصہ ھیں جس کو احمد بن اسحاق کے جواب میں تحریر فرمایا ھے۔

احمد بن اسحاق کہتے ھیں:

”بعض شیعہ حضرات میرے پاس آئے اور جعفر بن علی کے ادعا کی خبر دی کہ وہ خود کو امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد امام قرار دیتے ھوئے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتا تھا، وہ دعویٰ کرتا تھا کہ تمام علوم منجملہ حلال و حرام کا علم میرے پاس ھے“۔

احمد بن اسحاق نے ایک خط میں ان تمام چیزوں کو لکھا اور امام زمانہ علیہ السلام کے لئے روانہ کیا۔ امام علیہ السلام نے جواب میں چند چیزوں کی یاددھانی کی جیسے خلقت انسان کا مقصد اور انبیاء علیھم السلام کی رسالت کا ھدف، تاکہ لوگوں کو معلوم ھوجائے کہ ھرکس و ناکس امت کی رھبری اور امامت کا دعویٰ کرنے کا حق نھیں رکھتا ؛ اسی طرح لوگوں کو یہ نکتہ بھی معلوم ھوجائے کہ (ھم) خدا کی طرف سے ھمیشہ امتحان گاہ میں ھیں، اور ان کی تمام رفتار و گفتار اور ان کے عقائد کے بارے میں سوال ھوگا۔ ایسا نھیں ھے کہ انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا ھو تاکہ دوسرے حیوانات کی طرح زندگی گزارے، اور ایک مدت بعد اپنے کو نابود ھوتا دیکھے، بلکہ انسان کو سوچنے سمجھنے کے وسائل (آنکھ، کان، دل و دماغ) عطا کئے گئے ھیں تاکہ ان کی مدد اور انبیاء علیھم السلام کی نصرت سے کائنات کے حقائق کو سمجھ لیں کہ کس طرح ھمیں زندگی بسر کرنا ھے، اور اس دنیا میں سعادت اور کامیابی تک پھنچنے کے لئے کونسا راستہ طے کرنا ھے۔

امام زمانہ علیہ السلام کے خط کے اس حصہ کا مقصد یہ ھے کہ انسان تنھا اپنے راستہ کا انتخاب نھیں کرسکتا، لہٰذا خداوندعالم نے انبیاء علیھم السلام کو مبعوث کیا تاکہ لوگوں کی مدد کریں اور ان کو دائمی سعادت تک پھنچادیں، اور ابدی بدبختی سے نجات دیں۔ خداوندعالم نے بھی قرآن مجید میں اس مقصد کی طرف اشارہ کیا ھے:

<ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْاٴُمِّیِّیْنَ رَسُولًا مِنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِیْنٍ>[67]

”اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سے تھا تاکہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے اور ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی کُھلی ھوئی گمراھی میں مبتلا تھے“۔

آج کی دنیا کے حالات نے اس نکتہ کو بالکل واضح کردیا ھے۔ واقعاً بے ھودہ بھانوں کے ذریعہ کتنے مظلوموں کا خون بھا دیا جاتا ھے اور کتنا مال اور دولت دیوانہ پن میں غارت کردی جاتی ھے۔۔۔!

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۳۵:

درخواست حاجت کی کیفیت

<مَنْ کٰانَتْ لَہُ إِلَی اللهِ حٰاجَةٌ فَلْیَغْتَسِلْ لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ بَعْدَ نِصْفِ اللَّیْلِ وَ یَاٴُ تي مُصَلاّٰہُ>[68]

”جو شخص خداوندعالم کی بارگاہ میں کوئی حاجت رکھتا ھے تو اسے چاہئے کہ شب جمعہ آدھی رات کے بعد غسل کرے، اور خدا سے مناجات کے لئے اپنی جانماز پر گریہ و زاری کرے“۔

شرح

ابو عبد اللہ حسین بن محمد بزروفی کہتے ھیں: امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے ایک توقیع پھنچی جس میں لکھا ھوا تھا:

”جو شخص خداوندعالم کی بارگاہ میں کوئی حاجت رکھتا ھو تو اس کو چاہئے کہ شب جمعہ آدھی رات کے بعد غسل کرے اور اپنی جا نماز پر آئے، دو رکعت نماز پڑھے اور جب < إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ> پر پھنچے تو اس کو سو مرتبہ پڑھے اور پھر سورہ حمد کو تمام کرے، اس کے بعد سورہ توحید کو ایک مرتبہ پڑھے، پھر رکوع و سجدہ بجالائے اور رکوع و سجود کے ذکر کو سات مرتبہ پڑھے۔ اور پھر دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑھے، اور نماز کے بعد (یہ) دعا پڑھے (جس کو کفعمی علیہ الرحمہ نے باب ۳۶ کے شروع میں بیان کیا ھے)اور دعا کے بعد سجدہ میں جائے اور خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرے اور پھر اپنی حاجت طلب کرے۔ کوئی مرد و عورت ایسا عمل انجام دے اور خلوص دل سے دعا کرے تو اس کے لئے باب اجابت کھل جائیں گے اور اس کی حاجت کچھ بھی ھو پوری ھوجائے گی، مگر یہ کہ اس کی حاجت قطع تعلق کے لئے ھو“۔

اس حدیث سے چند نکات معلوم ھوتے ھیں:

۱۔ بغیر مقدمہ کے خدا سے حاجت کی درخواست نھیں کرنی چاہئے؛ کیونکہ ممکن ھے کہ انسان کے اندر کچھ موانع پائے جاتے ھوں جن کی وجہ سے انسان کی دعا باب اجابت سے نہ ٹکرائے، جن میں سے ایک مانع گناہ ھے۔

۲۔ دعا اور مغفرت کے لئے صرف استغفار کافی نھیں ھے، بلکہ توحید کا اقرار اس کے مراتب کے ساتھ ساتھ اور تسبیح و ذکر خدا بھی اس سلسلہ میں موثر ھیں۔

۳۔ دعا کے قبول ھونے کے لئے جگہ اور وقت بھی موٴثر ھیں؛ لہٰذا امام زمانہ علیہ السلام نے حکم دیا ھے کہ حاجت مند شخص شب جمعہ جو پورے ہفتہ میں بہترین شب ھے اور وہ بھی آدھی رات جو شب و روز میں بہترین وقت ھے، ھمیشہ نماز پڑھنے کی جگہ (جا نماز) جو مومن کے لئے بہترین جگہ ھے، قرار پائے اور نماز کے بعد اپنی حاجتوں کو خدا سے طلب کرے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر۳۶:

سر انجام بخیر ھونا

<اٴَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الْعَمیٰ بَعْدَ الْجَلاٰءِ، وَ مِنَ الضَّلاٰلَةِ بَعْدَ الْہُدیٰ، وَ مِنْ مُوبِقٰاتِ الْاٴَعْمٰالِ وَ مُرْدِیٰاتِ الْفِتَنِ>[69]

”بینائی کے بعد نابینائی سے، ھدایت کے بعد گمراھی سے اور خطرناک بلاؤں نیز فتنہ و فساد سے خدا کی پناہ طلب کرتا ھوں“۔

شرح

یہ تحریر ،امام زمانہ علیہ السلام کی اس توقیع کا ایک حصہ ھے جس کو آپ نے اپنے پھلے اور دوسرے نائب عثمان بن سعید عمری اور ان کے فرزند محمد کے لئے تحریر کی ھے۔ امام زمانہ علیہ السلام غیبت کے سلسلہ میں چند چیزوں کی سفارش کرنے کے بعد اور اس سلسلہ میں شیعوں کے دل ثابت قدم رھنے کی تاکید کے بعد چند چیزوں میں خدا کی پناہ طلب کرتے ھیں جن میں سے ھر ایک ھمارے لئے ایک عظیم درس ھے:

۱۔ امام زمانہ علیہ السلام ھدایت کے بعد گمراھی سے خدا کی پناہ مانگتے ھیں؛ کیونکہ اگر کسی شخص کی ھدایت ھوجائے اور وہ حق و حقیقت کو سمجھ لے، لیکن ایک مدت بعد اس سے منحرف ھوجائے تو اس پر حجت تمام ھے، اور ایسا شخص یقینی طور پر تلافی نہ ھونے والے گھاٹے میں مبتلا ھوجائے گا۔ ایسے شخص نے مستحکم سعادت کو معرفت کے بعد چھوڑ دیا ھے اور اپنے لئے ابدی عذاب کو خرید لیا ھے۔

۲۔ اسی طرح امام علیہ السلام ان بُرے اعمال سے پناہ مانگتے ھیں جو انسان کو ھلاکت و نابودی میں مبتلا کردیتے ھیں؛ کیونکہ انسان کے لئے ھمیشہ اپنے ایمان سے ھاتھ دھونے کا خطرہ پایا جاتا ھے۔ ھوا و ھوس اور شیطانی وسوسے انسان کے مرنے تک ساتھ نھیں چھوڑ تے۔ لہٰذا (حدیث کے) اس حصہ سے ایمان کی اھمیت اور مشکلات کو سمجھا جاسکتا ھے۔

۳۔ امام علیہ السلام ان خطرناک اور ھلاک کنندہ فتنوں سے خدا کی پناہ مانگتے ھیں جن سے انسان، عزت کی بلندی سے قعر ذلت میں پھنچ جاتا ھے۔ قرآنی حکم کے مطابق انسان ھمیشہ امتحان کی منزل میں ھے۔ جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

< اٴَحَسِبَ النَّاسُ اٴَنْ یُتْرَکُوا اٴَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لاَیُفْتَنُونَ# وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ۔۔۔>[70]

”کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ھے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ھم ایمان لے آئے اور ان کا امتحان نھیں ھوگا۔ بے شک ھم نے اس سے پھلے والوں کا بھی امتحان لیا ھے۔۔۔“۔

یہ امتحانات مختلف قسم کے ھوتے ھیں اور ان میں سے کوئی ھلکا اور کوئی بھاری قسم کا ھوتا ھے۔ کبھی یہ امتحان انسان کے جان و مال کا ھوتا ھے اور کبھی یہ امتحان دین کے سلسلہ میں ھوتا ھے۔۔۔،لہٰذا ان تمام امتحانات میں چاھے وہ چھوٹے ھوں یا بڑے سب میں خدا پر بھروسہ کرنا چاہئے اور ان امتحانات میں خداوندعالم کی ذات سے کامیابی طلب کرنی چاہئے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر۳۷:

باطل پر حق کی پیروزی

<اٴَبَی اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْحَقِّ إِلاّٰ إِتْمٰاماً، وَلِلْبٰاطِلِ إِلاّٰ زَہُوقاً>[71]

”خداوندعالم کا یقینی ارادہ یہ ھے کہ (عنقریب یا تاخیر سے) حق کا سر انجام کامیابی، اور باطل کا سرانجام نابودی ھو“۔

شرح

یہ تحریر، امام زمانہ علیہ السلام کے اس جواب کا حصہ ھے جس کو آپ نے احمد بن اسحاق اشعری قمّی کے نام لکھی ھے۔ اس خط میں امام علیہ السلام نے (اپنے چچا) جعفر کے دعوے کو ردّ کرتے ھوئے اپنے کو امام حسن عسکری علیہ السلام کا وصی قرار دیا اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد امام کے عنوان سے اپنا تعارف کرایا ھے؛ پھر امام اس نکتہ کی طرف اشارہ فرماتے ھیں کہ سنت الٰھی یہ ھے کہ حق و حقیقت کی مدد کرے اور اس کو بلند و بالا مقام تک پھنچائے، اگرچہ ھمیشہ حق و حقیقت کا مقابلہ ھوتا رھا ھے؛ دوسری طرف سنت الٰھی یہ ھے کہ باطل (اگرچہ ایک طولانی مدت تک اس کا بول بالا ھو لیکن) نابود ھوکر رھے گا، اور صرف اس کے نام کے علاوہ کچھ باقی نہ بچے گا، فرعون وغیرہ جیسے افراد کا اسر انجام اس بات کو بالکل واضح کردیتا ھے؛ لہٰذا ھمیں چاہئے کہ ھمیشہ حق و حقیقت کی تلاش میں رھیں اور اس راہ میں موجود مشکلات اور پریشانیوں سے نہ گھبرائیں، اور کبھی بھی باطل کے فریب دینے والے ظاھر سے دل نہ لگائیں؛ کیونکہ حق ھمیشہ کامیاب ھے اور باطل نابود ھوتا ھے۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۳۸:

سنت پر عمل کرنا مودت کی بنیاد ھے

<إِجْعَلُوا قَصْدَ کُمْ إِلَیْنٰا بِالْمَوَدَّةِ عَلَی السُّنَّةِ الْوٰاضِحَةِ، فَقَدْ نَصَحْتُ لَکُمْ، وَ اللهُ شٰاہِدٌ عَلَيَّ وَ عَلَیْکُمْ>[72]

”ھم (اھل بیت عصمت و طھارت) سے اپنی محبت و دوستی کا مقصد احکام الٰھی کا نفاذ اور سنت پر عمل کی بنیاد قرار دو؛ بے شک ھم نے ضروری سفارشوںاور لازم موعظوں کو انجام دیا ھے، خداوندعالم ھم اور تم سب پر گواہ ھے“۔

شرح

ابن ابی غانم قزوینی اور شیعوں کی ایک جماعت کے درمیان امام حسن عسکری علیہ السلام کی جانشینی پر اختلاف ھوا، ابن ابی غانم کا عقیدہ یہ تھا کہ امام عسکری علیہ السلام نے اپنی وفات تک کسی کو اپنا جانشین معین نھیں کیا، لیکن شیعوں کی جماعت اس کی مخالفت کررھی تھی اور وہ لوگ اس بات کے قائل تھے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنا جانشین معین کیا ھے؛ لہٰذا امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا گیا اور اس موضوع کو آپ کے سامنے پیش کیا۔ امام علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے ایک خط لکھا جس میں مذکورہ حدیث بھی ھے۔

امام زمانہ علیہ السلام نے اس خط میں تقویٰ و پرھیزگاری کا حکم کرنے کےبعد فرمایا:

”ھمارے سامنے تسلیم رھو، اور جس چیز کے بارے میں نھیں جانتے اس کو ھماری طرف پلٹا دو( یا ھم سے سوال کرو) کیونکہ ھم پر حقیقت حال بیان کرنا لازم ھے۔۔۔ دائیں بائیں گمراہ نہ ھو، ھماری نسبت محبت و دوستی اور ھمارے احکام کی اطاعت میں ثابت قدم رھو کہ یھی شریعت محمدی ھے“۔

اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح معلوم ھوجاتی ھے کہ صرف محبت کا دعویٰ کرنا کافی نھیں ھے، بلکہ حقیقی محبت کرنے والا انسان وہ ھے جو اپنے محبوب کے حکم کو عملی جامہ پھنائے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

”مذاھب، تم کو دور نہ کردیں، خدا کی قسم! ھمارا شیعہ وہ ھے جو خداوندعالم کی اطاعت کرے“۔[73]

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”ھمارے شیعہ، اھل تقویٰ، کوشش کرنے والے، اھل وفا اور امانت دار، زاھد، عابد اور دن رات میں ۵۱ رکعت نماز پڑھنے والے ھیں، راتوں کو (عبادت کے لئے) بیدار رہتے ھیں اور دن میں روزہ رکھتے ھیں؛ اپنے مال کی زکوٰة دیتے ھیں، خانہٴ خدا کا حج کرتے ھیں، اور ھر حرام کام سے پرھیز کرتے ھیں“۔[74]

اسی طرح حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

”جو شخص اپنی زبان سے کھے کہ میں شیعہ ھوں، لیکن وہ میدان عمل میں ھماری مخالفت کرتا ھو، تو وہ شخص ھمارا شیعہ نھیں ھے۔ ھمارے شیعہ وہ ھیں جو دل و جان سے ھمارے موافق ھیں اور ھمارے آثار و اعمال کو اپنے لئے نمونہ قرار دیتے ھوئے ھماری پیروی کرتے ھیں“۔[75]

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۳۹:

وقف کا حکم

<وَ اٴَمّٰا مٰا سَاٴَلْتَ عَنْہُ مِنْ اٴَمْرِ الْوَقْفِ عَلیٰ نٰاحِیَتِنٰا وَ مٰا یَجْعَلُ لَنٰا ثُمَّ یَحْتٰاجُ إلَیْہِ صٰاحِبُہُ، فَکُلُّ مٰا لَمْ یُسَلَّمْ فَصٰاحِبُہُ فیہِ بِالْخِیٰارِ، وَ کُلُّ مٰا سُلِّمَ فَلاٰ خِیٰارَ فیہِ لِصٰاحِبِہِ، إِحْتٰاجَ إِلَیْہِ صٰاحِبُہُ اٴَوْ لَمْ یَحْتَجْ>[76]

”تم نے ھم سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے کسی چیز کو ھمارے لئے وقف کردیا ھو لیکن بعد میں وہ خود اس چیز کا محتاج ھوگیا ھو؟ ایسے شخص کا حکم یہھے کہ اگر اس نے جو چیز ھمارے لئے وقف کی ھے لیکن ابھی تک اس کو دیا نھیں ھے، تو وہ مختار ھے اور وقف سے صرف نظر کرسکتا ھے؛ لیکن اگر اس کو دے دیا ھے تو اس کا وقف قطعی ھوچکا ھے، جس کے بعد وہ اس کو واپس نھیں لے سکتا ھے، چاھے وہ اس کا محتاج ھو یا نہ ھو“۔

شرح

یہ کلام امام زمانہ علیہ السلام کی اس توقیع کا ایک حصہ ھے جس کو ابو الحسن محمد بن جعفر اسدی کے سوالوں کے جواب میں رقم کیا ھے۔

وقف کا حکم دیگر معاملات سے مختلف ھے۔ اگر کوئی شخص کسی چیز کو فروخت کردے، اور اس کی قیمت خریدار سے لے لے، لیکن بعد میں پشیمان ھوجائے اور معاملہ نہ کرنا چاھے تو وہ قیمت کو واپس لے کر معاملہ ختم کرسکتا ھے؛ لیکن وقف کا حکم ایسا نھیں ھے۔ جب کوئی چیز وقف ھوجائے اور واقف اس چیز کو موقوف علیہ (یعنی جن لوگوں کے لئے وہ چیز وقف کی گئی ھے) کو نہ دے تو اس وقف سے صرف نظر کرسکتا ھے، اور اپنے مال کو اپنی ملکیت میں واپس لے سکتا ھے، لیکن اگر موقوفہ مال موقوف علیہ کے ھاتھوں میں پھنچ گیا ھے تو وہ وقف یقینی اور نافذ ھوجاتا ھے اور واقف اس مال کو واپس نھیں لے سکتا۔

اس حکم میں کوئی فرق نھیں ھے کہ موقوف علیہ کون ھے؟ امام معصوم ھو یا عام آدمی؛ اسی طرح یہ بھی کوئی فرق نھیں ھے کہ وقف شدہ مال کم ھو یا زیادہ۔

۔۔۔۔۔

حدیث نمبر ۴۰:

حُسن عاقبت

<وَالْعٰاقِبَةُ بِجَمیلِ صُنْعِ اللهِ سُبْحٰانَہُ تَکُونُ حَمِیدَةً لَہُمْ مَا اجْتَنَبُوا الْمَنْہِيَّ عَنْہُ مِنَ الذُّنُوبِ>[77]

” جب تک ھمارے شیعہ گناھوں سے دور رھیںاس وقت تک خداوندعالم کے لطف و کرم سے سرانجام بخیر ھوگا “۔

شرح

یہ حدیث اس خط کا ایک حصہ ھے جس کو امام زمانہ علیہ السلام نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کے نام لکھی تھی۔ امام علیہ السلام نے اس حدیث میں ایک اھم نکتہ کی طرف اشارہ کیا ھے کہ اگر ھمارے شیعہ حُسن عاقبت اور نیک سر انجام چاہتے ھیں تو اس کا سبب خداوندعالم کا خاص لطف اور اس کی توجہ ھے، لہٰذا جن گناھوں کو خداوندعالم نےحرام قرار دیا ھے ان سے پرھیز کیا جائے؛ کیونکہ ھر عمل کی مخصوص تاثیر ھوتی ھے، ھمارا نفس ھمارے کاموں اور ھماری باتوں یھاں تک کہ ھماری سوچ کے مطابق بنتا اور سنورتا ھے۔ جو لوگ گناہ کرنے سے نھیں ڈرتے (چاھے گناہ کم ھوں یا زیادہ، چھوٹا گناہ ھو یا بڑا) تو ان کو معلوم ھونا چاہئے کہ انھوں نے اپنی حقیقت کو سیاہ کرڈالا ھے، اور ان کے لئے نور و پاکیزگی کا کوئی مقام نھیں ھے۔ گناہ ایک ایسی آگ ھے جوتمام نیک کاموں کے ثواب کو ختم کر ڈالتی ھے۔ انسان برسوں کوشش کرتا ھے اور نیک کام انجام دے کر ثواب حاصل کرتا ھے، لیکن ایک گناہ کے ذریعہ اپنی تمام زحمتوں پر پانی پھیر دیتا ھے؛ اسی وجہ سے امام زمانہ علیہ السلام نے اس حدیث میں گناہ کے خطرہ سے آگاہ کیا ھے۔

الحمد لله رب العالمین۔

رَبّنا تَقبّل مِنّا اِنَّکَ اَنتَ السَّمِیْعُ العَلِیْم۔

اقل العباد: اقبال حیدر حیدری

شب ۱۵ شعبان ۱۴۲۷ ھ مطابق ۹ ستمبر ۲۰۰۶ئ

فھرست منابع

۱۔ قرآن مجید

۲۔ اختیار معرفة الرجال، (رجال کشّی) محمد بن حسن طوسی (رہ)، موٴسسة آل البیت (علیھم السلام) لاحیاء التراث، ۱۴۰۴ قمری، قم۔

۳۔ إعلام الوری باٴعلام الھدیٰ، فضل بن حسن طبرسی(رہ)، موٴسسة آل البیت (علیھم السلام) لاحیاء التراث، ۱۴۱۷ قمری، قم۔

۴۔ الاحتجاج؛ احمد بن علی طبرسی (رہ)، دار النعمان۔

۵۔ الارشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد؛ شیخ مفید (رہ)، کنگرہ ٴ شیخ مفید، ۱۴۱۲ قمری، قم۔

۶۔ الاستبصار؛ محمد بن حسن طوسی(رہ)، دار الکتب الاسلامیة، ۱۳۶۳ شمسی، تھران۔

۷۔البرھان فی تفسیر القرآن، سید ھاشم بحرانی(رہ)، بنیاد بعثت، ۱۴۱۵ قمری، تھران۔

۸۔ البلد الاٴمین؛ ابراھیم بن علی کفعمی(رہ)،

۹۔ الخرائج و الجرائح؛ قطب الدین راوندی (رہ)؛ موسسة الامام المھدی (عج)، قم۔

۱۰۔الصحیفة السجادیة؛ امام سجاد علیہ السلام، دفتر نشر الھادی، ۱۳۷۶ شمسی، قم۔

۱۱۔ الغیبة؛ محمد بن حسن طوسی(رہ)، موٴسسة المعارف الاسلامیہ، ۱۴۱۱ قمری، قم۔

۱۲۔المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشاپوری، دار المعرفة، ۱۴۰۶ قمری، بیروت، لبنان۔

۱۳۔ المصباح؛ ابراھیم بن علی کفعمی(رہ)، انتشارات رضی، ۱۴۰۵ قمری ،قم۔

۱۴۔ الھدایة الکبریٰ؛ حسن بن حمدان خصیبی (رہ)، موٴسسة البلاغ، ۱۴۱۱ قمری، بیروت، لبنان۔

۱۵۔ بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی(رہ)، موٴسسة الوفا،۱۴۰۳ قمری، بیروت، لبنان۔

۱۶۔ بصائر الدرجات الکبریٰ؛ محمد بن الحسن الصفار(رہ)، موٴسسہ اعلمی، ۱۳۶۲ شمسی، تھران۔

۱۷۔ تحف العقول عن آل الرسول (ص)؛ ابن شعبہ حرانی، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۴ قمری، قم۔

۱۸۔ تفسیر قمی؛ علی بن ابراھیم قمی(رہ)، موٴسسہ دار الکتاب، ۱۴۰۴ قمری، قم۔

۱۹۔ تفصیل وسائل الشیعة؛ شیخ حرّ عاملی(رہ)، موٴسسة آل البیت علیھم السلام لاحیاء التراث ، ۱۴۱۴ قمری، قم۔

۲۰۔ تہذیب الاحکام؛ محمد بن حسن طوسی(رہ)، دار الکتب الاسلامیة، ۱۳۶۵ شمسی، تھران۔

۲۱۔ دلائل الامامة، محمد جریر طبری(رہ)، موٴسسہ بعثت، ۱۴۱۳ قمری، قم۔

۲۲۔ کافی؛ محمد بن یعقوب کلینی(رہ)، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۸ قمری، تھران۔

۲۳۔ کشف الغمة فی معرفة الاٴئمة؛ علی بن عیسیٰ بن ابی الفتح إربلی(رہ)، دار الاضواء، ۱۴۰۵ قمری، بیروت، لبنان۔

۲۴۔ کمال الدین و تمام النعمة؛ شیخ صدوق(رہ)، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۵ قمری، قم۔

۲۵۔ مدینة المعاجز؛ سید ھاشم بحرانی، موٴسسة المعارف الاسلامیة، ۱۴۱۶ قمری، قم۔

۲۶۔ من لا یحضرة الفقیہ، شیخ صدوق، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۴ قمری، قم۔

۲۷۔ مہج الدعوات؛ سید ابن طاووس(رہ)، انتشارات دار الذخائر، ۱۴۱۱ قمری، قم۔

۲۸۔ نهج البلاغہ سید رضی، تحقیق شیخ محمد عبدہ، دار المعرفة، بیروت، لبنان۔

.................................................................

.........................................

فهرست كتاب

مقدمہٴ مترجم. 2

حدیث نمبر ۱: 4

اھل بیت علیھم السلام ، مرکز حق ھیں. 4

شرح. 4

حدیث نمبر۲ : 5

امام زمانہ(ع) زمین والوں کے لئے امان ھیں. 5

شرح. 5

حدیث نمبر۳ : 6

فلسفہٴ امامت اور صفات امام. 6

حدیث نمبر ۴: 7

فلسفہٴ امامت.. 7

حدیث نمبر۵ : 7

علم امام کی قسمیں. 7

شرح. 8

حدیث نمبر ۶: 8

امام کا دائمی وجود. 8

شرح. 9

حدیث نمبر ۷: 9

مشیت الٰھی اور رضائے اھل بیت علیھم السلام. 9

شرح. 10

حدیث نمبر ۸: 11

نماز کے ذریعہ شیطان سے دوری.. 11

شرح. 11

حدیث نمبر ۹: 11

اول وقت نماز پڑھنا 11

شرح. 11

حدیث نمبر ۱۰: 12

سجدہٴ شکر 12

حدیث نمبر ۱۱: 14

تسبیح خاک شفا کی فضیلت.. 14

شرح. 14

حدیث نمبر ۱۲: 15

لوگوں کی حاجت روائی کرنا 15

حدیث نمبر ۱۳: 16

استغفار، بخشش کا ذریعہ. 16

شرح. 16

حدیث نمبر ۱۴: 16

ایک دوسرے کے حق میں استغفار کرنا 16

حدیث نمبر ۱۵: 17

انسان کا امام غائب سے فیض حاصل کرنا 17

شرح. 17

حدیث نمبر ۱۶: 19

امام علیہ السلام کے ظھور میں تاخیر کی وجہ. 19

شرح. 19

حدیث نمبر ۱۷: 20

غیبت، منجملہ تقدیرات الٰھی میں سے ھے.. 20

شرح. 20

حدیث نمبر ۱۸: 20

زمانہٴ غیبت میں فقھا کی طرف رجوع کرنا 20

شرح. 21

حدیث نمبر ۱۹: 21

زکوٰة، نفس کو پاک کرنے والی ھے.. 21

شرح. 21

حدیث نمبر ۲۰: 22

مالی واجبی حقوق کو ادا کرنے کا فائدہ تقویٰ ھے.. 22

شرح. 22

حدیث نمبر ۲۱: 23

تعجیل فرج (ظھور) کے لئے د عا 23

حدیث نمبر ۲۲: 23

شیعوں کی رعایت.. 23

شرح. 24

حدیث نمبر ۲۳: 24

شیعوں سے بلاؤں کا دور کرنا 24

شرح. 24

حدیث نمبر ۲۴: 25

دعا قبول ھونے کی امید. 25

شرح. 26

حدیث نمبر ۲۵: 26

دوسروں کے مال کا احترام کرنا 26

شرح. 26

حدیث نمبر ۲۶: 27

حضرت زھرا (ع) امام مھدی علیہ السلام کے لئے نمونہ. 27

شرح. 27

حدیث نمبر ۲۷: 28

شک میں ڈالنے کی ممانعت.. 28

شرح. 28

حدیث نمبر ۲۸: 29

شک و شبھات میں مبتلا نہ ھونا 29

شرح. 29

حدیث نمبر ۲۹: 30

امام زمانہ علیہ السلام کا انکار کرنے والوں کا حکم. 30

حدیث نمبر ۳۰: 31

امام زمانہ علیہ السلام کو اذیت پھنچانے والے.. 31

حدیث نمبر ۳۱: 31

تکلف اور زحمت میں ڈالنے سے ممانعت.. 31

شرح. 32

حدیث نمبر ۳۲: 32

توحید کا اقرار اور غلو کی نفی.. 32

شرح. 33

حدیث نمبر ۳۳: 33

امام زمانہ علیہ السلام کی محبت.. 33

شرح. 33

حدیث نمبر ۳۴: 34

ھدفِ بعثت.. 34

شرح. 35

حدیث نمبر ۳۵: 36

درخواست حاجت کی کیفیت.. 36

شرح. 36

حدیث نمبر۳۶: 37

سر انجام بخیر ھونا 37

شرح. 37

حدیث نمبر۳۷: 38

باطل پر حق کی پیروزی.. 38

شرح. 38

حدیث نمبر ۳۸: 38

سنت پر عمل کرنا مودت کی بنیاد ھے.. 38

شرح. 39

حدیث نمبر ۳۹: 39

وقف کا حکم. 39

شرح. 40

حدیث نمبر ۴۰: 40

حُسن عاقبت.. 40

شرح. 40

فھرست منابع. 41



[1] بحار الانوار، ج۲، ص ۱۰۰۔

[2] بحار الانوار، ج ۵۱، ح ۷، ص ۱۶۰۔

[3] کمال الدین، ج۲، باب ۴۳، ح۱۲، ص ۱۷۱۔

[4] اس وقت ۱۴۲۷ ہجری قمری ھے اور چونکہ امام زمانہ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ۲۵۵ ہجری قمری ھے لہٰذا اس وقت آپ کی عمر مبارک ۱۱۷۲ سال ھے۔

[5] راز طول عمر امام زمان علیہ السلام، علی اکبر مھدی پور ص ۱۳۔

[6] مجلہ دانشمند، سال ۶، ش۶، ص ۱۴۷۔

[7] الغیبة، شیخ طوسی، ص۲۸۵، ح۲۴۵؛ احتجاج، ج۲، ص۲۷۸؛ بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۸، ح۹۔

[8] احتجاج، ج ۱، ص۹۷، بحار الانور، ج ۲۹، ص۲۴۳، ح ۱۱۔

[9] تحف العقول، ص۳۸۶؛ بحار الانور، ج۷۵، ص۳۰۰، ح۱۔

[10] نهج البلاغہ، حکمت ۲۰۱ ؛ بحارالانور، ج۶۴، ص۱۵۸، ح ۱ ۔

[11] کمال الدین، ج ۲، ص ۴۸۵، ح ۱۰؛ الغیبة، شیخ طوسی، ص۲۹۲، ح۲۴۷؛ احتجاج، ج۲، ص۲۸۴؛ اعلام الوری، ج۲، ص۲۷۲، کشف الغمة، ج ۳، ص ۳۴۰، الخرائج والجرائح، ج ۳، ص ۱۱۱۵، بحار الانوار، ج ۵۳، ص ۱۸۱، ح ۱۰۔

[12] الغیبة، طوسی، ص ۲۸۸، ح ۲۴۶، احتجاج، ج ۲، ص ۲۸۰، بحار الانوار، ج ۵۳، ص ۱۹۴۔۱۹۵، ح ۲۱۔

[13] الغیبة، شیخ طوسی، ص ۲۸۶، ح ۲۴۵، احتجاج، ج ۲، ص ۲۷۸، بحار الانوار، ج ۵۳، ص ۱۷۹، ح ۹۔

[14] توقیع ، امام زمانہ علیہ السلام کے اس خط کو کھا جاتا ھے جس کو آپ نے کسی کے جواب میں بقلم خود تحریر کیا ھو۔(مترجم)

[15] دلائل الامامة، ص ۵۲۴، ح ۴۹۵، مدینة المعاجز، ج ۸، ص ۱۰۵، ح ۲۷۲۰۔

[16] دیکھئے: مرآة العقول، ج۳، ص ۱۳۶ تا۱۳۷۔

[17] کمال الدین، ج ۲، ص ۵۱۱، ح ۴۲، الخرائج والجرائح،ج ۳، ص ۱۱۱۰، ح۲۶، بحار الانوار، ج ۵۳، ص ۱۹۱، ح ۱۹۔

[18] سورہ تکویر، آیت ۲۹۔

[19] الغیبة، طوسی، ص۲۴۷، ح۲۱۶، الھدایة الکبری، ص۳۵۹، کشف الغمة، ج ۳، ص۳۰۳، الخرائج والجرائح، ج۱، ص ۴۵۹، دلائل الامامة، ص ۵۰۶، بحار الانوار، ج ۲۵، ص ۳۳۷، ح۱۶۔

[20] ”مقصِّرہ“ سے مراد وہ لوگ ھیں جو اھل بیت علیھم السلام کے لئے ولایت الٰھی میں سے کسی شئے کو بالکل نھیں مانتے۔

[21] ”مفوِّضہ“سے مسلمانوں کا وہ گروہ مراد ھے جن کا عقیدہ یہ ھے کہ خداوندعالم نے کائنات کو خلق کرنے کے بعد اپنے ارادہ کو ائمہ کے حوالہ کردیا ھے، ائمہ جس طرح چاھیں اس کائنات میں دخل و تصرف کرسکتے ھیں۔

[22] تفسیر علی بن ابراھیم، ج۲، ص ۴۰۹، بصائر الدرجات، ص۵۳۷، ح۴۷، بحار الانوار، ج۵، ص۱۱۴، ح ۴۴۔

[23] کمال الدین، ج ۲، ص ۵۲۰، ح ۴۹، فقیہ، ج ۱، ص۴۹۸، ح ۱۴۲۷، تہذیب الاحکام، ج ۲، ص ۱۷۵، ح ۱۵۵، الاستبصار، ج ۱، ص ۲۹۱، ح ۱۰، الغیبة، طوسی، ص۲۹۶، ح ۲۵۰، احتجاج، ج۲، ص۲۹۸، بحار الانوار، ج۵۳، ص ۱۸۲، ح ۱۱، وسائل الشیعة، ج ۴، ص ۲۳۶، ح ۵۰۲۳۔

[24] سورہ طہ، آیت ۱۴۔

[25] الغیبة، طوسی، ص ۲۷۱، ح ۲۳۶، احتجاج، ج۲، ص ۲۹۸، بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۶، ح۱۲، وسائل الشیعة، ج ۴، ص۲۰۱، ح ۴۹۱۹۔

[26] من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱، ص ۲۱۷، بحار الانوار، ج۷۹، ص۳۵۱، ح۲۳۔

[27] احتجاج، ج۲، ص ۳۰۸؛ بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۶۱، ح۳؛ وسائل الشیعة، ج ۶، ص۴۹۰، ح ۸۵۱۴۔

[28] سور ہ ابراھیم، آیت۷۔

[29] احتجاج، ج۲، ص ۳۱۲، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۶۵، ح۴۔

[30] کمال الدین، ج ۲، ص ۴۹۳، ح ۱۸، الخرائج والجرائح، ج ۱، ص ۴۴۳، ح۲۴، بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۳۱، ح ۵۶۔

[31] خدا کی حاجت سے کیا مراد ھے؟ اس کی وضاحت چند سطروں کے بعد ملاحظہ فرمائیے۔

[32] سور ہ فاطر، آیت۱۵۔

[33] کافی، ج ۱، ص ۵۲۱، ح ۱۳، کمال الدین، ج ۲، ص ۴۹۰، ح ۱۳، ارشاد، ج ۲، ص ۳۶۱، اعلام الوری، ج۲، ص۲۶۴، کشف الغمة، ج ۳، ص۲۵۱، بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۲۹، ح ۵۲، مدینة المعاجز، ج ۸، ص ۸۵۔

[34] سور ہ توبہ، آیت۱۰۵۔ ترجمہ آیت: ” پیغمبر کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رھو کہ تمھارے عمل کو اللہ ،رسول اور صاحبان ایمان سب دیکھ رھے ھیں۔۔۔“۔

[35] تفسیر برھان، ج۲، ص۸۳۸، ح ۲۔(۳)دیکھئے: نهج البلاغہ، حکمت ۴۱۷، بحار الانوار، ج۶، ص ۳۶ تا ۳۷، ح ۵۹۔

[36] دلائل الامامة، ص۲۹۷۔

[37] سورہ ٴ انفال، آیت ۳۳۔

[38] سورہ ٴ انفال، آیت ۳۳۔

[39] کمال الدین، ج۲، ص۴۸۵، ح۱۰،الغیبة، شیخ طوسی، ص۲۹۲، ح۲۴۷، احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۴،اعلام الوری، ج۲، ص۲۷۲، کشف الغمة، ج۳، ص۳۴۰، الخرائج و الجرائح، ج۳، ص۱۱۱۵، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۸۱، ح۱۰۔

[40] احتجاج، ج۲، ص۳۱۵، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۷، ح۸۔

[41] کمال الدین، ج۲، ص۵۱۱، ح۴۲، الخرائج و الجرائح، ج۳، ۱۱۱۱، بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۹۱، ح۱۹۔

[42] صحیفہٴ سجادیة، دعا ۴۹، شمارہ۱۴، مہج الدعوات، ص۲۲۲، بحار الانوار، ج۹۲، ص۴۲۸، ح۴۳۔

[43] کمال الدین، ج۲، ص۴۸۴، ح۱۰، الغیبة، شیخ طوسی، ص۲۹۱، ح۲۴۷، احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۴،اعلام الوری، ج۲، ص۲۷۱، کشف الغمة، ج۳، ص۳۳۸، الخرائج و الجرائح، ج۳،ص۱۱۱۴، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۸۱، ح۱۰، وسائل الشیعہ، ج۲۷، ص۱۴۰، ح۳۳۴۲۴۔

[44] کمال الدین، ج۲، ص۴۸۴، ح۴، الغیبة، طوسی، ص۲۹۰، ح۲۴۷، احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۳،اعلام الوری، ج۲، ص۲۷۱، کشف الغمة، ج۳، ص۳۳۹، الخرائج و الجرائح، ج۳،ص۱۱۱۴، بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۸۰، ح۱۰۔

[45] سورہ توبہ،آیت۱۰۳۔

[46] احتجاج، ج۲، ص۳۲۵، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۷، ح۸۔

[47] کمال الدین، ج۲، ص۴۸۵، ح۴، الغیبة،طوسی، ص۲۹۳، ح۲۴۷، احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۴، اعلام الوری، ج۲، ص۲۷۲، کشف الغمة، ج۳، ص۳۴۰، الخرائج و الجرائح، ج۳،ص۱۱۱۵، بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۸۱، ح۱۰۔

[48] احتجاج، ج۲، ص۳۲۳، الخرائج الحرائج، ج۲، ص۹۰۳، بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۷۵، ح۷۔

[49] کمال الدین، ج۲، ص۴۴۱، ح۱۲، الغیبة، طوسی، ص۲۴۶، ح۲۱۵، بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۰، ح۲۵۔

[50] احتجاج، ج۲، ص۳۲۳، الخرائج والجرائج، ج۲، ص۹۰۳، بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۷۵، ح۷۔

[51] مہج الدعوات، ص۲۸۱، البلد الاٴمین، ص۳۹۳، بحار الاٴنوار، ج۹۲، ص۲۶۷، ح۳۴۔

[52] کمال الدین، ص۵۲۱، ح۴۹، احتجاج، ج۲، ص۲۹۹، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۸۳، ح۱۱، وسائل الشیعہ، ج۹، ص۵۴۰تا ۵۴۱، ح۱۲۶۷۰۔

[53] سورہ نساء، آیت ۲۹۔

[54] الغیبة، طوسی، ص۲۸۶، ح۲۴۵، احتجاج، ج۲، ص۲۷۹، بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۸۰، ح۹۔

[55] رجال کشّی،ج۲، ص۸۱۶، بحار الانوار ، ج۵۰، ص۳۱۸ تا ۳۱۹، ح۱۵، وسائل الشیعة، ج۱، ص۳۸، ح۶۱۔

[56] الارشاد، شیخ مفید، ج۲، ص۳۹؛ اعلام الوری، ج۱، ۴۳۶؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۳۴۔

[57] کافی، ج۱، ص۵۱۸، ح۴، بحار الاٴنوار، ج۵۱، ص۳۰۹، ح۲۵۔

[58] کمال الدین، ص۴۸۴، ح۳،ا لغیبة، طوسی، ص۲۹۰، ح۲۴۷، احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۳، کشف الغمة، ج۳، ص۳۳۹، اعلام الوری، ج۲، ص۲۷۰، الخرائج والجرائح، ج۳، ص۱۱۱۳، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۸۰، ح۱۰۔

[59] بصائر الدرجات، ص ۳۱۷، ح۴؛ مستدرک حاکم، ج۳، ص ۱۵۱۔

[60] احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۹، بحار الانوار، ج۲۵، ص۲۶۷، ح۹۔

[61] نهج البلاغہ، حکمت ۴۶۹؛ بحار الانوار، ج۳۹، ص ۲۹۵، ح۹۶۔

[62] کمال الدین، ج۲، ص۴۸۵، ح۱۰، احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۴، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۸۱، ح۱۰۔

[63] الغیبة، طوسی، ص۲۹۴، ح۲۴۸، احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۵، بحار الانوار، ج۲۵، ص۳۲۹، ح۴۔

[64] احتجاج، ج۲ ، ص۳۲۳ تا ۳۲۴، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۶، ح۷۔

[65] احتجاج، ج۲ ، ص۳۲۲ ، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۵، ح۷۔

[66] الغیبة، طوسی، ص۲۸۸، ح۲۴۶، احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۰، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۹۴، ح۲۱۔

[67] سورہ جمعہ، آیت ۲۔

[68] مصباح، کفعمی، ص۳۹۶۔

[69] کمال الدین، ج۲، ص۵۱۱، ح۴۲، الخرائج و الجرائج، ج۳، ص۱۱۱۰، بحار النوار، ج۵۳، ص۱۹۰تا۱۹۱، ح۱۹۔

[70] سورہ عنکبوت،آیت ۲ تا ۳۔

[71] الغیبة، طوسی، ص۲۸۷، ح۲۴۶، احتجاج، ج۲، ص۲۷۹، بحار النوار، ج۵۳، ص۱۹۳، ح۲۱۔

[72] الغیبة، طوسی، ص۲۸۶، ح۲۴۵، احتجاج، ج۲ ، ص۲۷۹، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۹، ح۹۔

[73] کافی، ج۲، ص۷۳، ح۱، وسائل الشیعة، ج۱۵، ص۲۳۳، ح۲۰۳۶۰۔

[74] بحار الانوار، ج۶۵، ص۱۶۷، ح۲۳، وسائل الشیعة، ج۴، ص۵۷، ح۴۴۹۸۔

[75] بحار الانوار، ج۶۵، ص۱۶۴، ح۱۳، وسائل الشیعة، ج۱۵، ص۲۴۷، ح۲۰۴۰۹۔

[76] کمال الدین، ج۲، ص۵۲۰، ح۴۹، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۸۲، ح۱۱۔

[77] احتجاج، ج۲، ص۳۲۵، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۷، ح۸۔