Tuesday, April 28, 2009

حج کی منتخب حدیثیں

حج کی منتخب حدیثیں

موٴلف

سید علی قاضی عسکر

مترجم

سید احتشام عباس زیدی

پیش لفظ

حج لغت میں قصد وارادہ اوراصطلاح میں خانہ خداکی طرف سفر کرنے کو کھتے ھیں ۔یہ مسلمانوں کا ایک اھم دستور ھے۔کعبہ کی کشش ھر سال لاکھوں مسلمانوں کو دنیا کے کونے کونے سے اپنی طرف کھینچتی ھے تاکہ وہ ایک تمرینی میدان میں اعمال ومناسک اور کچھ مخصوص قوانین کی رعایت کر کے توحیدی زندگی کو بروئے کار لانے کی کوشش کریں اور دنیا والوں کے سامنے اسلام کی قوت وعظمت کا نظارہ پیش کریں۔

اس عظیم اجتماع میں مسلمان مختلف نسلوں اور رنگوں میں کعبہ کے گرد اکٹھاهوتے ھیں تاکہ ایک دوسرے سے تعارف حاصل کریں اور اس طرح اسلامی معاشروں میں اتحاد وھم بستگی کی فضاقائم کریں ۔

حج،روحانیت ،شوق شعور ،تعبد وبندگی ،جراٴت و ایثار، اتحاد وذکر کی جلوہ گاہ او ر خدا سے ربط و وابستگی کا نام ھے لہٰذا ایسے سفر کی توفیق خداجو افرا د کے لئے بھترین موقع هوتا ھے تاکہ روحی واخلاقی اعتبار سے خود کو پاک وصاف کریں اور ان کی روح وجان میں ساز گار اور مثبت دگرگونی وانقلاب پیداهو۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی دینی تعلیمات میں بھت سے سبق آموز نکتے موجود ھیں جو اس وادی نور کے زائروںکو ان مواقع سے بھتر فائدہ اٹھانے میں مدد دیتے ھیں ۔ان تعلیمات میں حاجیوں سے تاکید کی گئی ھے کہ اس سفر سے پھلے گناہوں سے دوری اختیار کریں اور اپنے باطن کو توبہ کے پانی سے پاک کریں ۔سفر کا خرچ پاک اور حلال مال سے مھیاکریں ۔عزیز واقارب ،دوستوں اور ھمسایوں کو خدا حافظ کھیں اور ان سے قصور بخشوالیں،اور ان کی رضا مندی حاصل کرنے کے بعد اس راہ میں قدم بڑھائیں ۔سفر کا آغاز خدا کے نام اور اس کی یاد سے کریں ،خدا طلبی خدا جوئی کے لئے سفر کریں۔سفر کے دوران گناہ اور خدا کی نافرمانی سے پرھیز کریں اور خود اپنے محافظ رھیں۔

یہ فرامین اور ان پر عمل اس بات کا موجبهوتا ھے کہ حاجی میں ایک نبیادی اور مثبت تبدیلی پیداهو نتیجہ میں وہ اپنے غلط اور بُرے ماضی سے دوری اختیار کر کے خود کو ایک صحیح اسلامی زندگی کے لئے آمادہ کرتے ھیں۔

روایات میں حج کامقصدحاجیوںمیںروحی واخلاقی دگرگونی اور فلاح و کامیابی نیز خدا سے ان کی قربت بیان کیا گیا ھے۔ اگر حج کرنے والے روحی واخلاقی تغیر اور اپنی اصلاح کے ساتھ الٰھی راہ میں قدم بڑھائیں تو اس عظیم جمعیت کو دیکھتےهو ئے جوھر سال عمرہ وحج سے مشرفهوتی ھے بلاشبہ یہ تبد یلیا ں خاندانوں اور معاشروں میں بھی پیداهوںگی۔

جو مسلمان بھی حج کے لئے جاتا ھے اگر یہ فیصلہ کر لے کہ سفر کے دوران اور واپسی میں اسلامی اخلاق کی رعایت کرے گا، حرام کاموں سے پر ھیز کرے گا اور دینی واجبات پر جیسے خدا چاھتا ھے عمل کرے گا اور اسی فکر وخیال کو وہ اپنی اولاد،عزیزوں، دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں میں منتقل کرے تو قطعی طور سے معاشرہ میں بڑا اخلاقی تغیر پیداهو جائے گا اور دشمن اپنے تھذیبی حملوں میں ناکامهو کر رہ جائیں گے ۔

یہ مختصر مجموعہ ان تعلیمات کا ایک حصہ ھے جنھیں معصومین علیھم السلام نے خانہ ٴ خدا کے زائروں اور حاجیوں کی رہنمائی کے لئے بیان فرمایا ھے ۔امید ھے کہ حجاج کرام اس پر عمل کر کے خدا کی بارگاہ سے نزدیک اور الٰھی سفر کی نورانیتوں اور برکتوں سے مالامالهوں گے۔

سید علی قاضی عسکر

معاون آموزش و تحقیقات

بعثہٴ رھبر انقلاب اسلامی

حج کا واجب هونا

قَالَ عَلِی (ع):

”فَرَضَ عَلَیْکُمْ حَجَّ بَیْتِہِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلَہُ قِبْلَةً لِلْاٴَنْامِ “۔[1]

حضرت علی (ع)نے فرمایا:

”خداوند عالم نے اپنے اس محترم گھر کے حج کو تم پر واجب قرار دیا ھے جسے اس نے لوگوں کا قبلہ بنایا ھے“۔

قال علی (ع):

”فَرَضَ حَجَّہُ وَاٴَوْجَبَ حَقَّہُ وَکَتَبَ عَلَیْکُمْ وِفَادَتَہُ فَقَالَ سُبْحَانَہُ <وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطاٰعَ إِلَیْہِ سَبِیلاً وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰالَمِینَ >[2]

حضرت علی (ع)نے فرمایا:

”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو واجب ،اس کے حق کی

(۲)ادائیگی کو لاز م اور اس کی زیارت کو تم پر مقرر کیا ھے پس وہ فرماتا ھے:”لوگوں پر خدا کا حق یہ ھے کہ جو بھی خدا کے گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ھے وہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے جائے اور وہ شخص جو کفر اختیار کرتا ھے (یعنی حج انجام نھیں دیتا )تو خدا عالمین سے بے نیاز ھے “۔

حج کا فلسفہ

قال علی (ع):

”جَعَلَہُ سُبْحَانَہُ عَلاٰمَةً لِتَوَاضُعِھِمْ لِعَظَمَتِہِ و َاِذعانَھُمْ لِعِزَّتِہِ“۔[3]

حضرت علی (ع)نے فرمایا:

”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو علامت قرار دیا ھے تاکہ لوگ اس کی عظمت کے سامنے فروتنی کا اظھار کریں اور پروردگار عالم کے غلبہ نیز اس کی عظمت و بزرگواری کا اعتراف کریں “۔

قال علی (ع):

”جَعَلَہُ سُبْحَانَہُ لِلْإِسْلاٰمِ عَلَماًوَلِلْعَائِذِینَ حَرَماً“۔[4]

حضرت علی (ع)نے فرمایا:

”خدا وند عالم نے حج اور کعبہ کو اسلام کا نشان اور پرچم قرار دیا ھے اور پناہ لینے والے کے لئے اس جگہ کو جائے امن بنایا ھے“۔

دین کی تقویت کا سبب

قال علی (ع):

”۔۔۔وَالْحَجَّ تَقْوِیَةً لِلدِّینِ “[5]

حضرت علی (ع)نے فرمایا:

”۔۔۔اورحج کو دین کی تقویت کا سبب قرار دیاھے“۔

دلوں کا سکون

قال الباقر (ع):

”الحَجُّ تَسْکِین القُلُوبُ“[6]

امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں:

”حج دلوں کی راحت وسکون کا سبب ھے“۔

حج ترک کرنے والا

قال رسول اللہ (ص):

”مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَاءَ یَھُودِیّاً وَإِنْ شَاءَ نَصْرَانِیّاً“۔[7][8]

پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا:

”جو شخص حج انجام دیئے بغیر مر جائے (اس سے کھا جائے گا کہ ) تو چاھے یہودی مرے یا نصرانی “۔

یھی مضمو ن ایک دوسری روایت میں امام جعفر صادق (ع) سے بھی نقلهواھے۔[9]

حج و کامیابی

”لوگوں نے امام محمد باقر (ع)سے دریافت کیا کہ حج کا نام حج کیوں رکھا گیاھے ؟تو آپ نے فرمایا:

”قَالَ حَجَّ فُلاٰنٌ اٴَيْ اٴَفْلَحَ فُلاٰنٌ“۔[10]

” فلاں شخص نے حج کیا یعنی وہ کامیابهوا “۔

حج کی اھمیت

محمد بن مسلم کھتے ھیں کہ :

امام محمد باقر (ع)یا امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:

”وَدَّ مَنْ في الْقُبُورِ لَوْ اٴَنَّ لَہُ حَجَّةً وَاحِدَةً بِالدُّنْیَا وَمَا فِیھَا“۔[11]

”مُردے اپنی قبروں میں یہ آرزو کرتے ھیں کہ اے کاش!وہ دنیا،اور دنیا میں جو کچھ بھی ھے دیدیتے اور اس کے عوض انھیں ایک حج کا ثواب مل جاتا “۔

حج کا حق

قال الإمام زَیْنُ العابِدِین(ع) فِي رسالَةِ الحُقُوق: ”حَقُّ الْحَجِّ اٴَنْ تَعْلَمَ اٴَنَّہُ وِفَادَةٌ إِلَی رَبِّکَ وَفِرَارٌ إِلَیْہِ مِنْ ذُنُوبِکَ وَفِیہِ قَبُولُ تَوْبَتِکَ وَقَضَاءُ الْفَرْضِ الَّذِي اٴَوْجَبَہُ اللّٰہُ تَعَالیَ عَلَیْکَ“۔[12]

امام زین العابدین (ع) اپنے رسالہٴ حقوق میں فرماتے ھیں:

”حج کا حق تم پر یہ ھے کہ جان لو حج اپنے پروردگار کے حضو رمیں تمھاری حاضری ھے اوراپنے گناہوںسے اس کی جانب فرار ھے حج میں تمھاری توبہ قبولهوتی ھے اوریہ ایک ایسا فریضہ ھے جسے خدا وند عالم نے تم پر واجب کیا ھے“۔

خد اجوئی

قال الصادق (ع):

”مَنْ حَجَّ یُرِیدُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لاٰ یُرِیدُ بِہِ رِیَاءً وَلاٰ سُمْعَةً غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ اَلْبَتَّةَ“.[13]

امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:

”جو شخص حج کی انجام دھی میں خدا کا ارادہ رکھتاهواور ریاکاری و شھرت کا خیال نہ رکھتاهو خدا وند عالم یقینا اسے بخش دے گا“۔

حج کا ثواب

قالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):

”لَیْسَ لِلْحِجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوابٌ إِلاَّ الجَنَّةَ “۔[14]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”حج مقبول کا ثواب جنت کے سوا کچھ اور نھیں ھے“۔

حج کی تاثیر

ہشام بن حکم کھتے ھیں :

امام جعفر صادق (ع) نے فر مایا:

”مَامِن سَفَرٍاٴَبْلَغَ فِي لَحْمٍ وَلاٰدَمٍ وَلاٰجِلْدٍ وَلاٰ شَعْرٍ مِنْ سَفَرِ مَکَّةً وَمَا اٴَحَدٌ یَبْلُغُہُ حَتَّی تَنَالَہُ الْمَشَقَّةُ“۔[15]

”مکہ کے سفر کی طرح کوئی سفر بھی انسان کے گوشت، خون، جلد، اور بالوں کوکا متاثر نھیں کرتا اور کوئی شخص سختی اور مشقت کے بغیر وھاں تک نھیں پہنچتا “۔

حج میں نیت کی اھمیت

قال الصادق(ع):

”لَمَّا حَجَّ مُوسَی(ع)نَزَلَ عَلَیْہِ جَبْرَئِیلُ فَقَالَ لَہُ مُوسَی یَا جَبْرَئِیلُ ۔۔۔مٰا لِمَنْ حَجَّ ھَذَا الْبَیْتَ بَنِیَّہٍ صَادِقَةٍ وَنَفَقَةٍ طَیِّبَةٍ؟قَالَ:فَرَجَعَ إِلَی اللّٰہِ

عَزَّ وَجَلَّ،فَاٴَوْحَی اللّٰہُ تَعَالیٰ إِلَیْہِ؛قُلْ لَہُ:اٴَجْعَلُہُ فِي الرَّفِیقِ الْاٴَعْلَی مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّھَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنْ اٴُولَئِکَ رَفِیقاً“۔[16]

”جس وقت جناب موسیٰ نے حج کے اعمال انجام دیئے تو جبرئیل (ع) ان پر نازلهوئے جناب موسیٰ نے ان سے پوچھا:

اے جبرئیل (ع)!

جو شخص اس گھر کا حج سچی نیت اور پاک خرچ سے بجا لائے اس کی جزا کیا مقررهوئی ھے جبرئیل کچھ جواب دیئے بغیر خدا وند عالم کی بارگاہ میں واپس گئے (اور اس کا جواب دریافت کیا)خداوند عالم نے ان پر وحی کی اور فرمایا:موسیٰ سے کہو کہ میں ایسے شخص کو ملکوت اعلیٰ میں پیغمبروں صدیقوں ،شھدااور صالحین کا ھم نشین قرا ر دوں گااور وہ بھترین رفیق اور دوست ھیں“۔

نور میں واردهونا

عبد الرحمان بن سمرة کھتے ھیں:ایک روز میں حضرت پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں تھا کہ آنحضرت(ص)نے فرمایا:

”إِنِّي رَاٴَیْتُ الْبَارِحَةَ عَجَائِبَ“۔

میں نے گذشتہ رات عجائبات کا مشاھدہ کیا ۔

ھم نے عرض کی کہ اے رسو ل خدا (ص)!ھماری جان ھمارا خاندان اور ھماری اولاد آپ(ص)پر فداهوں آپ نے کیا دیکھا ھم سے بھی بیان فرمایئے:

فقال۔۔۔

رَاٴَیْتُ رَجُلاً مِنْ اٴُمَّتِي مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ ظُلُمَةٌ وَمِنْ خَلْفِہِ ظُلْمَةٌ وَعَنْ یَمِینِہِ ظُلَمَةٌ وَعَنْ شِمَالِہِ ظُلْمَةٌ وَمِنْ تَحْتِہِ ظُلْمَةٌ ، مُسْتَنْقِعاً فِي الظُّلْمَةِ فَجَاءَ ہُ حَجُّہُ وَعُمْرَتُہُ فَاٴَخْرَجَاہُ مِنَ الظُّلْمَةِ وَاٴَدْخَلاٰہُ فِي النُّورِ۔۔۔۔[17]

”فرمایا:میں نے اپنی امت میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے سامنے سے، پشت سے ، دائیں اور بائیں سے،اور قدموں کے نیچے سے ، اسے تاریکی نے گھیر رکھا تھا اور وہ ظلمت میں غرق تھا اس کا حج اور اس کا عمرہ اس کے پاس آئے اور انھوں نے اسے تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کردیا “۔

حق کے حضور حاضری

قالَ عَلِیٌّ (ع):

اَلْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُاللّٰہِ،وَحَقٌّ عَلَی اللّٰہِ اٴَنْ یُکْرِمَ وَفْدَہُ وَیَحْبُوَہُ بِالْمَغْفِرَةِ۔[18]

حضرت علی(ع) فرماتے ھیں:

”حج اور عمرہ انجام دینے والا خدا کی بارگا ہ میں حاضرهونے والوں میں سے اور خدا پر ھے کہ اپنی بارگاہ میں آنے والے کا اکرام کرے اور اسے اپنی مغفرت و بخشش میںشامل قرار دے ‘ ‘۔

خدا وند عالم کی میزبانی

قال الصّادق (ع):

إِنَّ ضَیْفَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ رَجُلٌ حَجَّ وَ اعْتَمَرَ فَھُوَ ضَیْفُ اللّٰہِ حَتَّی یَرْجِعَ إِلَی مَنْزِلِہِ۔[19]

امام جعفر صادق نے فرمایا:

”جو شخص حج یا عمرہ بجالائے وہ خدا کا مھمان ھے اور جب تک وہ اپنے گھر واپس نہهو جائے ا س کا مھمان باقی رھتا ھے ‘ ‘ ۔

حج اور جھاد

قال رسول اللہ(ص):

جِھٰادُ الْکَبیرِ وَالصَّغیرِ وَالضَّعیفِ وَالْمَراٴَةِ الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ۔[20]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”عورتوںاور کمزور لوگوں کا حج اور عمرہ بڑا جھاد اور چھوٹا جھاد ھے“۔

حج عمرہ سے بھتر ھے

قال رسول اللہ (ص):

اِعْلَمْ اَنَّ الُعُمْرَةَ ھِیَ الْحَجُّ الاٴصُغَرُ،وَاَنَّ عُمْرَةً خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیٰا وَمٰا فیھٰا وَحَجَّةً خَیْرٌ مِنْ عُمْرَةٍ۔[21]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عثمان بن ابی العاص سے فرمایا:

”جان لو کہ عمرہ حج اصغر ھے اور بلا شہ عمرہ دنیا اور جو کچھ اس کے اندر ھے ان سب سے بھتر ھے ،نیز یہ بھی جان لو کہ حج عمرہ سے بھتر ھے“ ۔

گناہ دُھل جاتے ھیں

قال رسول اللہ (ص):

اَیُّ رَجُلٍ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِہ حٰاجاًاَوْ مُعْتَمِراً، فَکُلَّمٰا رَفَعَ قَدَماًوَ وَضَعَ قَدَماً،تَنٰاثَرَتِ الذُّنُوبُ مِنْ بَدَنِہِ کَمٰایَتَنٰا ثَرُ الْوَرَقُ مِنَ الشَّجَرِ،فَاِذَا وَرَدَ الْمَدِیْنَةَ وَصٰافَحَنی بِالسَّلاٰمِ،صٰافَحَتْہُ الْمَلاٰئِکَةُ بِالسَّلاٰمِ،فَاِذَا وَرَدَ ذَالْحُلَیْفَةَ وَاغْتَسَلَ،طَھَّرَہ اللّٰہُ مِنَ الذُّنُوبِ،وَاِذَا لَبِسَ ثَوْبَیْنِ جَدیدَیْنِ،جَدَّدَ اللّٰہُ لَہُ الْحَسَنٰاتِ و َاِذَا قَالَ:اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، اٴَجٰابَہُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ:”لَبَّیْکَ و َسَعْدَیْکَ،اَسْمَعُ کَلاٰمَکَ وَاَنْظُرُ اِلَیْکَ،فَاِذَا دَخَلَ مَکَّةَ وَ طٰافَ وَسَعٰی بَیْنَ الصَّفٰاوَالْمَرْوَةَ وَصَلَ اللّٰہُ لَہُ الْخَیْراتِ۔۔۔۔[22]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”جو شخص حج وعمرہ کے لئے اپنے گھر سے باھر نکلتا ھے پس جو قدم بھی وہ اٹھاتا اور زمین پر رکھتا ھے اس کے بدن سے گناہ یوں گرتے جاتے ھیں جیسے درختوں سے پتے چھڑتے ھیں،

پس جب وہ شخص مدینہ میں واردهوتا ھے اور سلام کے

ذریعہ مجھ سے مصافحہ کرتا ھے تو فرشتے بھی سلام کے ذریعہ اس سے ھاتھ ملاتے ھیں اور مصافحہ کرتے ھیں اور جب وہ ذولحلیفہ (مسجد شجرہ) میںواردهو کر غسل کرتا ھے تو خدا وند عالم اسے گناہوں سے پاک کردیتا ھے۔ جب وہ احرام کے دو جامہ اپنے تن پر لپٹتا ھے تو خدا وند عالم اسے نئے حسنات اور ثواب عطا کرتا ھے جب وہ ”لبیک اللھم لبیک “کھتا ھے تو خداوند عزوجل اسے جواب دیتےهوئے فرماتا ھے ”لیبک و سعدیک“ میں نے تیرا کلام اور تیری آواز سنی اور (عنایت کی نظر )تجھ پر ڈال رھاهوں اور جب وہ مکہ میں واردهوتاھے اور طواف نیز صفا ومروہ کے درمیان سعی انجام دیتا ھے تو خد اوند عالم ھمیشہ کی نیکیاں اور خیرات اس کے شامل حال کر دیتا ھے“۔

دعا کی قبولیت

قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص):

اَرْبَعَةٌ لا تُرَدُّ لَھُمْ دَعُوَةٌ حَتّٰی تُفْتَحَ لَھُمْ اَبْوٰابُ السَّمٰاءِ وَتَصیرَ إِلَی الْعَرْشِ:

اَلْوٰالِدُ لِوَلَدِہِ،وَالْمَظْلُومُ عَلٰی مَنْ ظَلَمَہُ، وَالْمُعْتَمِرُحَتّی یَرْجِعَ ، والصّٰائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ۔[23]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”چار لوگ ایسے ھیں جن کی دعا رد نھیںهوتی یھاں تک کہ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھو ل دیئے جاتے ھیں اور دعائیں عرش الٰھی تک پہنچ جاتی ھیں :

۱۔باپ کی دعا اولاد کے لئے ،

۲۔مظلوم کی دعا ظالم کے خلاف،

۳۔عمرہ کرنے والے کی دعا جب تک کہ وہ اپنے گھر واپس آجائے ۔

۴۔روزہ دار کی دعا یھاں تک کہ وہ افطار کر لے ۔

دنیا بھی اور آخرت بھی

قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص):

مَنْ اَرَادَا لدُّنْیٰاوَالآخِرَةَ فَلْیَوٴُمَّ ھٰذَاالبَیْتَ،فَمٰا اٴتٰاہُ عَبْدٌ یَسْاٴَلُ اللّٰہَ دُنْیٰا اِلاَّ اٴَعْطٰاہُ اللّٰہُ مِنْھٰا،وَلایَسْاٴَلُہُ آخِرَةً اِلاَّادَّخَرَلَہُ مِنْھٰا۔[24]

رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”جو شخص دنیا اور آخرت کو چاھتا ھے وہ اس گھر کی طرف آنے کا ارادہ کرے بلاشبہ جوبھی اس جگہ پر آیا اور اس نے خدا

سے دنیا مانگی تو خداوند عالم نے اس کی حاجت پوری کردی نیز یہ کہ اگر خدا وند عالم سے اس نے آخرت طلب کی تو خدا وند عالم نے اس کی یہ دعا بھی قبول کی اور اسے اس کے لئے ذخیرہ کردیا“۔

آگاھی کے ساتھ حج

قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص):في خُطْبَتِہِ یَوْمَ الْغَدِیر: مَعٰاشِرَ النّٰاسِ، حُجُّواالْبَیْتَ بِکَمٰالِ الدّینِ وَالتَّفَقُّہ، وَلا تَنْصَرِفُواعَنِ الْمَشٰاھِدِ اِلاَّ بِتَوْبَةٍ واِقْلاٰعٍ۔ [25]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوم غد یر کے خطبہ میں فرمایا:

”اے لوگو! خانہ ٴ خدا کا حج پوری آگاھی اور دینداری سے کرو ، اوران متبرک مقامات سے توبہ اور گناہوں کی بخشش کے بغیر واپس نہ لوٹو “۔

شرط حضور

قَالَ اٴَبُو عَبْدِاللّٰہِ (ع)کاَنَ اٴَبِي یَقُولُ:

مَنْ اٴَمَّ ھَذَاالْبَیْتَ حَاجّاً اٴَوْمُعْتَمِراًمُبَرَّاٴً مِنَ الْکِبْرِ رَجَعَ مِنْ ذُنُوبِہِ کَھَیْئَةِ یَوْمَ وَلَدَتْہُ اٴُمُّہُ۔[26]

امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:

”میرے پدر بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے لئے اس گھر کی طرف روانہهو اور خود کو کبر و خود پسندی سے دور رکھے تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاکهو جاتا ھے جیسے اسے اس کی ماں نے ابھی پیدا کیاهو“۔

حج کی برکتیں

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ (ع):

حَجُّوا وَاعْتَمِرُوا،تَصِحَّ اٴَبْدَانُکُمْ،وَتَتَّسعَ اٴَرْزَاقُکُمْ،وَتُکْفَوْا مَوٴُونٰاتِ عِیَالِکُمْ،وَقَالَ:الْحَاجُّ مَغْفُورٌ لَہُ وَمَوْجُوبٌ لَہُ الْجَنَّةُ،وَمُسْتَاٴْنَفٌ لَہُ الْعَمَلُ،وَمَحْفُوظٌ فِي اٴَھْلِہِ وَمَالِہِ۔[27]

امام جعفر صادق (ع)سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا:

” علی بن الحسین علیھما السلام فرماتے تھے کہ:حج اور عمرہ بجالاوٴتاکہ تمھارے جسم سالم،تمھاری روزیاںزیادہ اور تمھار ے خانوادہ اور زندگی کا خرچ پوراهو آپ مزید فرماتے تھے:حاجی بخش دیا جاتا ھے جنت اس پر واجبهو جاتی ھے ، اس کا نامہٴ

عمل پاک کر کے پھر سے لکھا جاتا ھے اور اس کا مال اور خاندان امان میں رھتے ھیں“۔

جو حج قبول نھیں

عَنْ اٴَبِي جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ(ع)قَالَ:

مَنْ اٴَصَابَ مَالاً مِنْ اٴَرْبَعٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْہِ فِي اٴَرْبَعٍ: مَنْ اٴَصَابَ مَالاً مِنْ غُلُولٍ اٴَوْ رِبًا اٴَوْ خِیَانَةٍاٴَوْ سَرِقَةٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْہُ فِي زَکَاةٍ وَلاٰ صَدَقَةٍ وَلاٰحَجٍّ وَلاٰ عُمْرَةٍ۔[28]

امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں:

”جو شخص چار طریقوں سے مال اور پیسہ حاصل کرے اس کا خرچ کرنا چار چیزوں میں قبول نھیں ھے :

جو شخص آلودگی اور فریب کی راہ سے،سودکے ذریعہ، خیانت کے ذریعہ اور چوری کے ذریعہ پیسہ حاصل کرے تو اس کی زکات ، صدقہ،حج اور عمرہ کرنا قبول نھیں ھے ‘ ‘ ۔

مال حرام کے ذریعہ حج

قال اٴبو جعفر(ع):

لا یَقْبَلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ حَجّاًوَلاٰعُمْرَةً مِنْ مالٍ حَرامٍ۔[29]

امام محمد باقر(ع) فرماتے ھیں:

”خدا وند عالم حرام مال کے ذریعہ کئے جانے والے حج و عمرہ کو قبول نھیں کرتا “۔

حاجی کا اخلاق

عَنْ اٴَبي جَعْفَرٍ(ع) قَالَ:

مَا یُعْباٴُ مَنْ یَسْلُکُ ھَذَا الطَّرِیقَ اِذَا لَمْ یَکُنْ فِیْہِ ثَلاٰثُ خِصَالٍ: وَرَعٌ یَحْجُزُہُ عَنْ مَعَاصِي اللّٰہِ،وَحِلْمٌ یَمْلِکُ بِہِ غَضَبَہُ،وَ حُسْنُ الصُّحْبَةِ لِمَنْ صَحِبَہُ۔[30]

امام محمد باقر (ع)نے فرمایا :

” جو شخص حج کے لئے اس راہ کو طے کرتا ھے اگر اس میں تین خصلتیں نہهوں تو وہ خدا کی توجہ کا مرکز نھیں بنتا :

۱۔تقویٰ وپرھیز گاری جو اسے گناہ سے دور رکھے۔

۲۔صبر وتحمل جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ پر قابو رکھے۔

۳۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھا سلوک ۔

کامیاب حج

قال رسول اللہ (ص):

مَنْ حَجَّ اٴَوْ اعْتَمَرَ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ یَرْجِعُ کَھَیْئَةِ یَومٍ وَلَدَتْہُ اٴُمُّہُ۔[31]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”جس نے حج یا عمرہ کیا اورکوئی فسق وفجور انجام نہ دیا تو وہ اس شخص کی طرح پاک واپسهوتا ھے جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی پیدا کیا ھے“۔

حج کی قسمیں

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

الْحَجُّ حَجَّانِ:حَجُّ اللّٰہِ،وَحَجُّ لِلنَّاسِ،فَمَنْ حَجَّ لِلّٰہِ کَانَ ثَوَابُہُ عَلَی اللّٰہِ الْجَنَّةَ،وَمَنْ حَجَّ لِلنَّاسِ کاَنَ ثَوَابُہُ عَلَی النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔[32]

امام جعفر صادق ٍ(ع)فرماتے ھیں:

حج کی دو قسمیں ھیں:

”خدا کے لئے حج اور لوگوں کے لئے حج،پس جو شخص خدا

کے لئے حج بجالایا اس کی جزا وہ خدا سے جنت کی شکل میں حاصل کرے گا اور جو شخص لوگوں کے دکھانے کے لئے حج کرتا ھے اس کی جزا قیامت کے دن لوگوں کے ذمہ ھے “۔

حاجیوں کی قسمیں

معاویہ ابن عمار کھتے کہ امام صادق (ع)نے فرمایا:

الْحَاجُّ یَصْدُرُونَ عَلَی ثَلاٰثَةِ اٴَصْنَافٍ:فَصِنْفٌ یَعْتِقُونَ مِنَ النَّارِ،وَصِنْفٌ یَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِہِ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ اٴُمُّہُ،وَصِنْفٌ یُحْفَظُ فِي اٴَہْلِہِ وَمَالِہِ،فَذَلِکَ اٴَدْنَی مَا یَرْجِعُ بِہِ الْحَاجُّ۔[33]

” حاجی تین قسم کےهوتے ھیں :

ایک گروہ جہنم کی آگ سے رھائی پاتا ھے ،دوسرا گروہ گناہوں سے اس طرح پاکهوتا ھے جیسے وہ ابھی اپنی ماں کے بطن سے پیداهواهو، اور تیسرا گروہ وہ ھے0 کہ اس کا خاندان اور اس کا مال محفوظهوجاتا ھے اور یہ وہ کمترین جزا ھے جس کے ساتھ حاجی واپسهوتے ھیں“۔

ناکام حاجی

قال رسول اللہ (ص):

یَاٴتي عَلَی النَّاسِ زَمانٌ یَحُجُّ اٴغنِیاءُ اٴمَتِّي لِلنُّزھَةِ،وَاٴَوْساطُھُمْ لِلْتِجارةِ،وَقُرّاوٴُ ھُمْ للریّاءِ وَالسَّمْعَةِ وَفُقَرائُھُم لِلمساٴلةِ۔(۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ میری امت کے دولت مندلوگ سیرو تفریح کے لئے اور درمیانی طبقہ کے لوگ تجارت کے لئے قاری حضرات ریاکاری اور شھرت کے لئے اور فقرا مانگنے کے لئے حج کو جائیں گے “۔

اپنے ھمراھیوں کے ساتھ سلوک

قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ(ع):

وَطِّنْ نَفْسَکَ عَلَی حُسْنِ الصِّحَابَةِ لِمَنْ صَحِبْتَ فِي حُسْنِ خُلْقِکَ،وَکُفَّ لِسَانَکَ،وَاکْظِمْ غَیْظَکَ،وَاٴَقِلَّ لَغْوَکَ،وَتَفْرُشُ عَفْوَکَ، وَتَسْخُو نَفْسَکَ۔[34]

امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:

”خود کو آمادہ کرو تاکہ جس شخص کے بھی ھمراہ سفر کرو اچھے اور خوش اخلاق ساتھی رہو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو ،اپنے غصہ کو پی جاوٴ،بیہودہ وبے فائدہ کام کم کرو ،اپنی بخشش کو دوسروں کے لئے وسیع کرو،اور سخا وت کرنے والے رہو“۔

راہ کی اذیت

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

مَنْ اٴَمَاطَ اٴَذًی عَنْ طَرِیقِ مَکَّةَ کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ حَسَنَةً وَمَنْ کَتَبَ لَہْ حَسَنَةً لَمْ یُعَذِّبْہُ۔[35]

امام جعفر صادق نے فرمایا:

”جو شخص مکہ کی راہ میں اذیت و تکلیف اٹھا ئے خدا وند عالم اس کے لئے نیکی لکھتا ھے اور جس شخص کے لئے خداوند عالم نیکی لکھتا ھے اسے عذاب نھیں دیتا “۔

حج کی راہ میں موت

قال الصادق(ع):

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ(ع)

قَالَ: مَنْ مَاتَ فِي طَرِیقِ مَکَّةَ ذَاھِباًاَّوُ جَائِیاً اٴَمِنَ مِنَ الّفَزَعِ الّاٴَکْبَرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔[36]

عبد اللہ ابن سنان سے روایت ھے کہ امام جعفر صادق ٍ(ع)نے فرمایا:

”جو شخص مکہ کی راہ میں جاتے وقت یا واپسهوتے وقت مرجائے وہ قیامت کے دن کے عظیم خوف ھراس سے امان میں ر ھے گا “۔

حج میں انفاق کرنا

قال الصادق (ع):

”دِرْھَمٌ فِي الْحَجِّ اٴَفْضَلُ مِنْ اٴَلْفِيْ اٴَلْفٍ فِیمَا سِوَی ذَلِکَ مِنْ سَبِیلِ اللّٰہِ “۔[37]

امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں:

”حج کی راہ میں ایک درھم خرچ کرنا حج کے علاوہ کسی اور دینی راہ میں بیس لاکھ درھم خرچ کرنے سے بھتر ھے“۔

احرام کا فلسفہ

عَنِ الرِّضَا(ع):

فَاِنْ قَالَ:فَلِمَ اُمِرُوا بِالإحْرٰامٍ؟قیل:لِاَ ن یَتَخَشَّعُوا قَبْلَ دُخُولِ حَرَمَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاَمْنِہِ وَلِئَلاّٰ یَلْھُوا وَیَشْتَغِلُوا بِشَیْءٍ مِنْ اٴمُرِ الدُّنْیَا وَزِینَتِھَا وَالَذَّاتِھَا وَیَکُونُوا جَادِّینَ فِیمَا ھُمْ فِیہِ قَاصِدِینَ نَحْوَہُ،مُقْبِلِینَ عَلَیْہِ بِکُلِّیِّتِھِمْ،مَعَ مَا فِیہِ مِنَ التَّعْظیمِ لِلّٰہِ تَعٰالی وَلِبَیْتِہِ،وَالتَّذَلُّلِ لِاٴَنْفُسِھِمْ عِنْدَ قَصْدِ ھِمْ إِلَی اللّٰہِ تَعٰالیٰ وَوِفَادَتِھِمْ إِلَیْہِ، رَاجِینَ ثَوَابَہُ،رَاھِبِینَ مِنْ عِقَابِہِ،مَاضِینَ نَحْوَہُ مُقْبِلِینَ إِلَیْہِ بِالذُّلِّ وَالِاسْتِکَانَةِ وَالْخُضُوعِ۔[38]

امام علی رضا (ع)نے فرمایا:

”اگر یہ کھا جائے کہ لوگوں کواحرام پہننے کا حکم کیوں دیا گیا ھے ؟ تو یہ کھا جائے گا کہ :اس لئے کہ لوگ اللہ کے حرم اور امن وامان کی جگہ میں واردهونے سے پھلے خاشع اور منکسر مزاجهوں ، امور دنیا ،اس کی لذتوںاور زینتوں میں سے کسی بھی چیز میں خودکو مشغول نہ کرےں جس کام کے لئے آئے ھیںاور جس کا ارادہ رکھتے ھیں اس پر صابر رھیں اور پورے وجود سے اس پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ احرام میں خدااور اس کے گھر کی تعظیم۔ اپنی فروتنی اور باطنی ذلت وحقارت ، خدا کی طرف قصد

اور اس کے حضور واردهونا ھے،جب کہ وہ اس سے جزا کی امید رکھتے ھیں اس کے عقاب اور سزا سے خوف زدہ ھیں اور انکسار وفروتنی اور ذلت خوا ری کی حالت میں اس کی طرف رخ کئےهوئے ھیں“۔

احرام کا ادب

قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ(ع):

إِذَا اٴَحْرَمْتَ فَعَلَیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ،وَذِکْرِ اللّٰہِ کَثِیراً،وَقِلَّةِ الْکَلاٰمِ إِلاَّ بِخَیْرٍ،فَإِنَّ مِنْ تَمَامٍ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ اٴَنْ یَحْفَظَ الْمَرْءُ لِسَانَہُ إِلاَّ مِنْ خَیْرٍ۔[39]

امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا :

”جب محرمهو جاوٴ تو تم پر لازم ھے کہ باتقویٰ رہو ،خدا کو بھت یاد کرو ،نیکی کے علاوہ کوئی بات نہ کرو کہ بلا شبہ حج اور عمرہ کا کاملهونا یہ ھے کہ انسان اپنی زبان کو نیکی کے علاوہ کسی اور امر میں نہ کھو لے “۔

حقیقی لبیک

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص): مَا مِنْ مُلَبٍّ یُلَبّی اِلاَّ لَبّٰی مَا عَنْ یَمینِہِ وَشِمٰالِہِ

مِنْ حَجَرٍاٴَوْ شَجَرٍاٴَْومَدَرٍحَتّٰی تَنْقَطِعَ الاَرْضُ مِنْ ھٰا ھُنَا وَھٰاھُنَا۔[40]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”کوئی شخ-ص لبیک نھیں کھتا مگر یہ کہ اس کے دائیں بائیں ،پتھر درخت ،ڈھیلے اس کے ساتھ لبیک کھتے ھیں یھاں تک کہ وہ زمین کو یھاں سے وھاں تک طے کر لے “۔

حج کا نعرہ

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص): اٴَتَانِي جَبْرَئِیلُ(ع) فَقَالَ:

اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَاٴْ مُرُکَ اَنْ تَاٴْمُرَ اٴَصْحَابَکَ اٴَنْ یَرْفَعُوا اٴَصْوَاتَھُمْ بِالتَّلْبِیَةِ فَإِنَّھَا شِعَارُ الْحَجِّ۔[41]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”جبرئیل میرے پاس آئے اور کھا کہ خدا وند عالم آپ کو حکم دیتا ھے کہ اپنے ساتھیوں اوراصحاب کو حکم دیں کہ بلند آواز سے لبیک کھیں کیونکہ یہ حج کا نعرہ ھے “۔

معرفت کے ساتھ واردهونا

قَالَ الْبَاقِرُ(ع):

مَنْ دَخَلَ ھَذَا الْبَیْتَ عَارِفاً بِجَمیع ما اٴَوْجَبَہُ اللّٰہ عَلَیْہِ کٰانَ اٴَمِناً فِي الآخِرَةِ مِنَ الْعَذَابِ الدّٰائِمِ۔[42]

امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں :

”جو شخص اس گھر میں اس عرفان کے ساتھ داخلهو کہ جو کچھ خداوند عالم نے اس پر واجب کیا ھے اس سے آگاہ رھے تو قیامت میں دائمی عذاب سے محفوظ رھے گا“۔

خدا کے غضب سے امان

عبد اللہ بن سنان کھتے ھیں کہ میں نے امام جعفر صادق ں سے پوچھا :”کہ خدا وند عالم کا ارشاد ”ومن دخلہ کان آمناً“[43]

”یعنی جو شخص اس میں داخلهو وہ امان میں ھے اس سے مراد گھر ھے یا حرم ؟

قَالَ:مَنْ دَخَلَ الْحَرَمَ مِنَ النَّاسِ مُسْتَجِیراً بِہِ فَھُوَ آمِنٌ مِنْ سَخَطِ اللّٰہِ ۔۔۔ ۔[44]

”امام (ع)نے فرمایا:جو شخص بھی حرم میں داخلهو اور وھاں پناہ حاصل کرے وہ خدا کے غضب سے امان میں رھے گا “۔

مکہ خدا و رسول کا حرم

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

مَکَّةُ حَرَمُ اللّٰہِ وَحَرَمُ رَسُولِہِ وَحَرَمَ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَ (ع)،الصَّلاٰةُ فِیھَابِمِائَةِ اٴَلْفِ صَلاٰةٍ، وَالدِّرْھَمُ فِیھَ ابِمِائَةِ اٴَلْفِ دِرْھَم،وَالْمَدِینَةُ حَرَمُ اللّٰہِ وَحَرَمُ رَسُولِہِ وَحَرَمُ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَ۔ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْھِمَا۔الصَّلاٰةُ فِیھَا بِعَشَرَةِ آلاٰف صَلاٰةٍ وَ الدِّرْھَمُ فِیھَا بِعَشَرَةِ آلاٰفِ دِرْھَمٍ۔[45]

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :

”مکہ خدا وندعالم ،اس کے رسول(ص)(پیغمبر اکرم (ص)) اور امیر المومنین کا حرم ھے اس میں ایک رکعت نماز ادا کرنا ایک لاکھ رکعت کے برابر ھے۔ ایک درھم انفاق کرنا ایک لاکھ درھم

خیرات کرنے کے برابر ھے۔ مدینہ (بھی)اللہ ،اس کے رسول اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع)کا حرم ھے اس میں پڑھی جانے والی نماز دس ہزار نماز کے برابر اور خیرات کیا جانے والا ایک درھم دس ہزار درھم کے برابر ھے “۔

مسجد الحرام میں داخل هونے کے آدا ب

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

إِذَا دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَادْخُلْہُ حَافِیاً عَلَی السَّکِینَة ِوَالوَقَارِ وَالْخُشُوعِ۔۔۔ ۔[46]

امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں :

”جب تم مسجد الحرام میں داخلهوتو پابرہنہ اور سکون ووقار نیز خوف الٰھی کے ساتھ داخلهو “۔

جنت کے محل

قَالَ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَ (ع):

اٴَرْبَعَةٌ مِنْ قُصُورِ الْجَنّةِ فِي الدُّنْیَا:الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ،وَمَسْجِدُ الرَّسُولِ (ص)، وَ مَسْجِدُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، وَمَسْجِدُ الْکُوفَةِ؛[47]

حضرت علی ابن ابی طالب (ع)فرماتے ھیں :

”چار جگھیں دنیا میں جنت کے محل ھیں :

۱۔مسجد الحرام ، ۲۔مسجد النبی(ص) ، ۳۔مسجد الاقصیٰ، ۴۔مسجد کوفہ ،

حرمین میں نماز

عَنْ إِبْرَاھِیمَ بْنِ شَیْبَةَقَالَ:

کَتَبْتُ إِلَی اٴَبِي جَعْفَرٍ(ع) اٴَسْاٴَلُہُ عَنْ إِتْمَامِ الصَّلاٰةِ فِي الْحَرَمَیْنِ،فَکَتَبَ إِلَیَّ:کَانَ رَسُولُ اللّٰہ یُحِبُّ إِکْثَارَالصَّلاٰةِ فِي الْحَرَمَیْنِ فَاٴَکْثِرْفِیھِمَا وَاٴَتِم َّ۔[48]

ابراھیم بن شیبہ کھتے ھیں کہ:

میں نے امام محمد باقر(ع) کو خط لکھا اور اس میں مکہ اور مدینہ میں پوری نماز اداکرنے کے سلسلہ میں دریافت کیا امام (ع)نے جواب میں تحریر فرمایا:

” رسول خدا (ص)ھمیشہ مسجد الحرام اور مسجد النبی میں زیادہ نماز پڑھنا پسند کرتے تھے پس ان دو جگہوں پر نماز یں زیادہ پڑھو اور اپنی نماز بھی پوری ادا کرو“۔

مکہ میں نماز جماعت

عَنْ اٴَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ اٴَبِي نَصْرٍ،عَنْ اٴَبِيالْحَسَنِ (ع)قَالَ:

سَاٴَلْتُہُ عَنِ الرَّجُلِ یُصَلِّي فِي جَمَاعَةٍ فِي مَنْزِلِہِ بِمَکَّةَ اٴَفْضَلُ اٴَوْ وَحْدَہُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ: وَحْدَہُ۔[49]

احمد ابن محمد ابن ابی نصرکھتے ھیں :

”میں نے حضرت علی بن موسیٰ الرضا(ع) سے دریافت کیا اگر کوئی شخص مکہ میں نماز جماعت اپنے گھر میں ادا کرے یہ افضل ھے یا مسجد الحرام میں فرادیٰ نماز اداکرنا افضل ھے فرمایا: فرادیٰ (مسجد الحرام میں)“ ۔

اھل سنت کے ساتھ نماز

عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ،قَالَ:

”قَالَ لِي اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ(ع):یَا إِسْحَاقُ اٴَ تُصَلَّي مَعَھُمْ فِي الْمَسْجِدِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ۔ قَالَ:صَلِّ مَعَھُمْ فَإِنَّ الْمُصَلِّي مَعَھُمْ فِي الصَّفِّ الْاٴَوَّلِ کاَلشَّاھِرِ سَیْفَہُ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ“۔[50]

اسحاق ابن عمار کھتے ھیں :

”امام جعفر صادق (ع)نے مجھ سے فرمایاکہ: اے

اسحاق!کیا تم ان لوگوں (اھل سنت )کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرتےهو؟میں نے عرض کیا ھاں!حضرت (ع)نے فرمایا:ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو بلاشبہ جو شخص ان لوگوں کے ھمراہ پھلی صف میں نماز پڑھے وہ اس مجاھد کے مانند ھے جو خدا کی راہ میں تلوار چلا رھاهواور دشمنان دین کے ساتھ جنگ کررھاہو‘ ‘۔

کعبہ چوکور کیوں ھے؟

رُوِيَ اٴَنَّہُ إِنَّمَا سَمِّیَتْ کَعْبَةً لِاٴَنَّھَا مُرَبَّعَةٌ وَصَارَتْ مُرَبِّعَةً لِاٴَنَّھَا بِحِذَاءِ الْبَیْتِ الْمَعْمُورِ وَھُوَ مَرَبِّعٌ وَصَارَ الْبَیْتُ الْمَعْمُورُ مُرَبِّعاً لِاٴَنَّہُ بِحِذَاءِ الْعَرْشِ وَھُوَمُرَبَّعٌ، وَصَارَالْعَرْشُ مُرَبَّعاً،لِاٴَنَّ الْکَلِمَاتِ الَّتِي بُنِیي عَلَیْھَا الْإِسْلاٰمُ اٴَرْبَعٌ:وَھِیَ :سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلاٰ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَاللّٰہُ اٴَکْبَرُ۔(۱)[51]

شیخ صدوق ۺ فرماتے ھیں:

”ایک روایت میں آیا ھے کہ کعبہ کو کعبہ اس لئے کھا گیا ھے کہ وہ چوکور ھے اور وہ چوکو اس لئے بنا یاگیا ھے کہ اسی کے مقابل (آسمان اول پر) بیت المعمور چوکور بنایا گیا ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ وہ عرش خدا کے مقابل ھے جو چوکور ھے اور عرش خدا بھی اس لئے چوکور ھے کہ اس کی بنیاد اسلام کے چار کلموں پر ھے اور وہ یہ ھیں :”سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلاٰ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ،وَاللّٰہُ اٴَکْبَرُ“۔

کعبہ کی طرف دیکھنا

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

مَنْ نَظَرَإِلَی الْکَعْبَةِ لَمْ یَزَلْ تُکْتَبُ لَہُ حَسَنَةٌ وَتُمْحَی عَنْہُ سَیِّئَةٌ، حَتَّی یَنْصَرِفَ بِبِصَرِہِ عَنْھَا۔[52]

امام جعفر صادق (ع)فرمایا :

”جو شخص کعبہ کی طرف دیکھے ھمیشہ اس کے لئے حسنات لکھے جاتے ھیں اور اس کے گناہ محو کئے جاتے ھیں جب تک وہ اپنی نگاھیں کعبہ سے ہٹا نھیں لیتا “۔

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

النَّظَرُ إِلَی الْکَعْبَةِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْوَالِدَیْنِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْإِمَامِ عِبَادَةٌ۔[53]

امام جعفرصادق (ع)نے فرمایا:

”کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ھے ،ماں باپ کی طرف دیکھنا عبادت ھے،اور امام کی طرف دیکھنا عبادت ھے“۔

الٰھی لمحہ

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

إِنَّ لِلْکَعْبَةِ لَلَحْظَةً فِي کُلِّ یَوْمٍ یُغْفَرُ لِمَنْ طَافَ بِھَا اٴَوْ حَنَّ قَلْبُہُ إِلَیْھَا اٴَوْ حَسَبَہُ عَنْھَا عُذْرٌ۔[54]

امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:

”بلا شبہ کعبہ کے لئے ھر روز ایک لمحہ (ایک وقت )ھے کہ خدا وند عالم اس میں کعبہ کا طواف کرنے والوں اور ان لوگوں کو جن کا دل کعبہ کے عشق سے لبریز ھے نیز ان لوگوں کو جو کعبہ کی زیارت کے مشتاق ھیں لیکن ان کی راہ میں رکاوٹیں ھیں ،بخش دیتا ھے“۔

برکتوں کا نزول

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

إِنَّ لِلّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ حَوْلَ الْکَعْبَةِ عِشْرِینَ وَمِائَةَ رَحْمَةٍ مِنْھَا سِتُّونَ لِلطَّائِفِینَ وَاٴَرْبَعُونَ لِلْمُصَلِّینَ وَعِشْرُونَ لِلنَّاظِرِینَ۔[55]

امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں:

”خدا وند عالم اپنی ایک سو بیس رحمتیں کعبہ کے اوپر نازل کرتا ھے جن میں سے ساٹھ رحمتیں طواف کرنے والوں کے لئے ،چالیس رحمتیں نماز پڑھنے والوں کے لئے اور بیس رحمتیں کعبہ کی طرف دیکھنے والوں کے لئےهوتی ھیں“۔

دین اور کعبہ کا ربط

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

لاٰ یَزَالُ الدِّینُ قَائِماً مَا قَامَتِ الْکَعْبَةُ۔[56]

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ھیں :

”جب تک کعبہ قائم ھے اس وقت تک دین بھی اپنی جگہ بر قرار رھے گا“۔

یہ عمل منع ھے

محمد ابن مسلم کھتے ھیں کہ: میںنے امام صادق ںسے سنا آپ فرما رھے تھے:

قال الصادق (ع):

لاٰ یَنْبَغِي لِاٴَحَدٍ اٴَنْ یَاٴْخُذَ مِنْ تُرْبَةِ مَا حَوْلَ الْکَعْبَةِ وَإِنْ اٴَخَذَ مِنْ ذَلِکَ شَیْئاً رَدَّہُ۔[57]

” کسی شخص کے لئے یہ درست نھیں ھے کہ کعبہ اور اس کے اطراف کی مٹی اٹھائے اور اگر کسی نے اٹھا ئی ھے تواسے واپس کر دے“۔

کعبہ کا پردہ

عَنْ جَعفر،عَنْ اٴَبیہِ علیھما السلام:

اٴَنَّ عَلِیّاً کَانَ یَبْعَثُ بِکِسْوَةِ الْبَیْتِ في کُلِّ سَنَةٍ مِنَ الْعَرٰاقِ۔[58]

امام محمد باقر (ع)نے فرمایا:

”بلا شبہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) ھر سال عراق سے کعبہ کا پردہ بھیجتے تھے “۔

امام زمانہ(ع) کعبہ میں

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ اٴَنَّہُ قَالَ: سَاٴَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ الْعُمْرِیَّ -رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ - فَقُلْتُ لَہُ:رَاٴَیْتَ صَاحِبَ ھَذَا الْاٴَمْرِ؟فَقَالَ:نَعَمْ وَآخِرُ عَھْدِي بِہِ عِنْدَ بَیْتِ اللّٰہِ الْحَرَامِ وَھُوَ یَقُولُ:اللَّھُمَّ اٴَنْجِزْ لِي مَاوَعَدْتَنِي۔[59]

عبد اللہ ابن جعفر حمیری کھتے ھیں:

”میں نے محمد بن عثمان عمری سے پوچھا کیا تم نے امام زمانہ(ع) کو دیکھا ؟انھوں نے جواب دیا ھاں!میںنے آخری بار انھیں کعبہ کے نزدیک دیکھا کہ حضرت (ع)فرمارھے تھے اے میرے اللہ !جس چیز کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ھے اسے پورا فر ما “۔

حجر اسود

قَالَ رَسُولُ اللَّہِ (ص):

اَلْحَجَرُ یَمینُ اللّٰہِ فِي الاٴَرْضِ،فَمَنْ مَسَحَ یَدَہُ عَلَی الْحَجَرِ فَقَدْ بٰایَعَ اللّٰہَ اَنْ لاٰ یَعْصِیَہُ۔[60]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”حجر اسود زمین میں خدا کے داہنے ھاتھ کے مانند ھے پس جو شخص اپنا ھاتھ حجر اسود پر پھیرے اس نے اس بات پر اللہ کی بیعت کی ھے کہ اس کی معصیت ونافرمانی نھیں کرے گا“۔

حجر اسود کو دور سے چومنا

عَنْ سَیْفٍ التَّمَّارِ قَالَ:

قُلْتُ لِاٴَ بِي عَبْدِ اللّٰہِ اٴَتَیْتُ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ فَوَجَدْتُ عَلَیْہِ زِحَاماً فَلَمْ اٴَلْقَ إِلاَّ رَجُلاً مِنْ اٴَصْحَابِنَا فَسَاٴَلْتُہُ فَقَالَ:لاٰبُدَّ مِنِ اسْتِلاٰمِہِ فَقَالَ:إِنْ وَجَدْتَہُ خَالِیاً وَإِلاَّ فَسَلِّمْ مِنْ بَعِیدٍ۔[61]

سیف ابن تمار کھتے ھیں”میں نے امام جعفرصادقں سے عرض کیا :

”میں حجر اسود کے قریب آیا وھاں جمعیت بھت زیادہ تھی میں نے اپنے ساتھیوں میں سے ھر ایک سے پوچھا کیا کروں ؟ سب نے جواب دیا کہ استلا م حجر کرو (حجر اسود کا بوسہ لو)۔میرا فریضہ کیا ھے؟امام نے اس سے فرمایا :اگر حجر اسود کے پاس مجمع نہهو تو اسے استلام کروورنہ اپنے ھاتھ سے دور سے اشارہ کرو “۔

عدل کا ظہور

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

اٴَوَّلُ مَا یُظْھِرُ الْقَائِمُ مِنَ الْعَدْلِ اٴَنْ یُنَادِيَ مُنَادِیہِ اٴَنْ یُسَلِّمَ صَاحِبُ النَّافِلَةِ لِصَاحِبِ الْفَرِیضَةِ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ وَالطَّوَافَ ۔[62]

امام جعفر صاد ق(ع) فرماتے ھیں :

”جو سب سے پھلی چیز امام زمانہ (ع) اپنے عدل سے ظاھر کریں گے یہ ھے کہ ان کا منادی پکار کر کھے گا مستحبی طواف کرنے والے اور حجر اسود کو لمس کرنے والے حجر اسوداور اطواف کی جگہ کو واجبی طواف کرنے والو(ع) کے لئے خالی کردیں “۔

حرم میں ایثار وفدا کاری

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):

اَبْلِغُوا اٴہْلَ مَکَّةَ وَالمُجاوِرینَ اَنْ یُخَلُّوا بَیْنَ الحُجّاجِ وَبَیْنَ الطَّوَافِ وَالْحَجَرِ الْاٴَسْوَدِ وَمَقامِ اِبراھِیمَ وَالصَّفِّ الاٴوَّلِ مِنْ عَشْرٍ تَبْقیٰ مِنْ ذِي القَعْدَةِ اِلی یَوْمِ الصَّدْرِ۔[63]

رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”اھل مکہ اور اس میں رہنے والوں تک یہ بات پہنچادو کہ ذی القعدہ کے آخری دس دن سے حاجیوں کی واپسی کے دن تک طواف کی جگہ ،حجر اسود ،مقام ابراھیم (ع) اور نماز کی پھلی صف کو حاجیوں کے لئے خالی کردیں “۔

جس بات سے روکا گیا ھے

عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ:

کَانَ بِمَکَّةَ رَجُلٌ مَوْلًی لِبَنِي اُمَیَّةَ یُقَالُ لَہُ:ابْنُ اٴَبِي عَوَانَةَ لَہُ عِنَادَةٌ،وَکَانَ إِذَادَخَلَ إِلَی مَکَّةَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ(ع)اٴَوْاٴَحَدٌ مِنْ اٴَشْیَاخِ آلِ مُحَمَّدٍ یَعْبَتُ بِہِ،وَإِنَّہُ اٴَتَی اٴَبَا عَبْدِ اللّٰہِ(ع) وَھُوَ فِي الطَّوَافِ فَقَالَ:یَا اٴَبَا عَبْدِ اللّٰہِ مَا تَقُولُ فِي اسْتِلاٰمِ الْحَجَرِ ؟ فَقَالَ:اسْتَلَمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ (ص)فَقَالَ لَہُ:مَا اٴَرَاکَ اسْتَلَمْتَہُ قَالَ:اٴَکْرَہُ اٴَنْ اٴَوذِيَ ضَعِیفاًاٴَوْ اٴَ تَاٴَذَّی قَالَ فَقَالَ قَدْ زَعَمْتَ اٴَنَّ رَسُولُ اللّٰہِ (ص)اسْتَلَمَہُ قَالَ:نَعَمْ وَلَکِنْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ إِذَا رَاٴَوْہُ عَرَفُوا لَہُ حَقَّہُ وَاٴَنَا فَلاٰ یَعْرِفُونَ لِي حَقِّي۔(۱)

حماد بن عثمان کھتے ھیں:

”مکہ میں بنی امیہ کے دوستداروں میں سے ابن ابی عوانہ نام کا ایک شخص رھتا تھا جو اھل بیت علیھم السلام سے کینہ رکھتا تھا اور جب بھی امام جعفر صادق(ع) یا پیغمبر کی اولاد میں سے کوئی [64] بزرگ مکہ آتا تھا وہ اپنی باتوں سے ان کی تحقیر کرتا تھا اور اذیت پہنچاتا تھا۔

ایک روز وہ طواف کی حالت میں امام جعفرصادق (ع)کی خدمت میں آیا اور آپ (ع) سے پوچھنے لگا کہ حجر اسود پر ھاتھ پھیرنے سے متعلق آپ (ع) کا نظریہ کیا ھے ؟حضرت (ع) نے فرمایا:رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسح واستلام کرتے تھے ، اس شخص نے کھا میں نے آپ (ع) کو استلام حجر کرتےهوئے نھیں دیکھا ،امام(ع) نے جواب دیا :

میں اس بات کو پسند نھیں کرتا کہ کسی کمزور کو اذیت پہنچاوٴں یاخود اذیت میں مبتلاهوں اس شخص نے پھر پوچھا: آپ (ع) نے فرمایا ھے کہ: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کا استلام کرتے تھے ،امام نے فرمایا:ھاں!لیکن جب لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھتے تھے تو ان کے حق کی رعایت کرتے تھے (یعنی انھیںراستہ دے دیا کرتے تھے)لیکن میرے لئے ایسا نھیں کرتے اور میرا حق نھیں پہچانتے “۔

ھاتھ سے اشارہ

محمد بن عبیداللہ کھتے ھیں :

لوگوں نے امام علی رضا (ع) سے پوچھا :اگر حجر اسود کے اطراف جمعیت زیادہهو تو کیا حجر اسودکو ھاتھ سے مسح کرنے کے لئے لوگوں سے زبردستی کرنا یا جھگڑنا چاہئے ؟

قَالَ:”إِذَا کَانَ کَذَلِکَ فَاٴَوْمِ إِلَیْہِ إِیمَاءً بِیَدِکَ“۔[65]

”امام (ع) نے فرمایا :جب بھی ایسی صورتهو ،اپنے ھاتھ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرو (اور گذر جاوٴ)“۔

خواتین کے لئے

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

إِنَّ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَضَعَ عَنِ النِّسَاءِ اٴرْبَعاً: الْإِجْھَارَ بِالتَّلْبِیَةِ ،ۻ وَالسَّعْیي بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ یَعْنِي الْھَرْوَلَةَ وَدُخُولَ الْکَعْبَةِ وَاسْتِلاٰمَ الْحَجَرِ الْاٴَسْوَدِ۔[66]

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:

”بلاشبہ خدا وند عالم نے چار چیزوں کو حج میں عورتوں سے معاف رکھا ھے:

۱۔بلند آوازسے لبیک کہنا،

۲۔صفاو مروہ کے درمیان سعی میں ھرولہ(آہستہ دوڑنا )

۳۔کعبہ کے اندر داخلهونا ،

۴۔حجر اسود کو لمس کرنا “۔

خدا کا فخر

قال رسول اللہ (ص):

ان اللہ یباھی بالطائفین۔[67]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ھیں :

”بلا شبہ خد اوند عالم طواف کرنے والوں پر فخر ومباھات کرتا ھے‘ ‘ ۔

طواف اور رھائی

عَنْ رَسُولُ اللّٰہِ (ص)قَالَ:

۔۔۔فَإِذَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ اٴُسْبُوعاً کَانَ لَکَ بِذَلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ عَھْدٌ وَذِکْرٌ یَسْتَحْیُيمِنْکَ رَبُّکَ اٴَنْ یُعَذِّبَکَ بَعْدَہُ۔۔۔ ۔[68]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”پس جب تم نے اللہ کے گھر کا سات مرتبہ طواف کرلیا تو اس کے ذریعہ خدا وند عالم کے نزدیک تمھارا عھد اور ذکر ھے کہ خداوند عالم اس کے بعد تم پر عذاب کرنے سے شرم کرے گا“۔

زیادہ باتیں نہ کرو

قَال رَسُولُ اللّٰہ (ص):

إِنَّمَا الطَّوَافُ صَلٰوةٌ،فَإِذَا طُفْتُمْ فَاٴَقِلُّوا الْکَلاٰمَ۔[69]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”اللہ کے گھر کا طواف نماز کے مانند ھے پس جب تم طواف کرتےهو تو باتیں کم کرو “۔

طواف کا فلسفہ

قَال رَسُول اللّٰہ (ص):

إِنَّمَاجَعَلَ الطَّوٰافُ بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ وَرَمْیُ الْجِمٰارِ لإِقٰامَةِ ذِکْرِ اللّٰہِ ۔[70]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”اللہ کے گھر کا طواف،صفاو مروہ کے درمیان سعی اور رمی جمرات خدا کے ذکر کو قائم کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ھیں ‘ ‘۔

عمل میں نیت کی تاثیر

عَنْ زیاد القندی،قال:قُلْتُ لاٴبي الحسن (ع):جُعِلْتُ فِداک إنّي اٴَکونُ في الْمَسْجِدِ الْحرامِ، وَاٴنْظُرُ اِلی النّاسِ یَطوفونَ بالبَیْتِ واٴنا قاعِدٌ فاغْتَمُّ لِذلکَ،فقال:

یَازِیَاُد لاٰ عَلَیْکَ فَإِنَّ الْمُوٴْمِنَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ یَوٴُمُّ الْحَجَّ لاٰیَزَالُ فِي طَوَافٍ وَسعْيٍ حَتَّی یَرْجِعَ۔[71]

زیاد قندی (جو ایک مفلوج آدمی تھا)کھتا ھے کہ :

”میں نے امام موسیٰ کاظم (ع)سے عرض کیا آپ (ع) پر قربانهو جاوٴں میں کبھی مسجد الحرام میںهوتاهوں اوردیکھتاهوںکہ لوگ کعبہ کا طواف کررھے ھیں اور میں بیٹھاهوں (طواف نھیں کر سکتا )اس پر میں غم زدہهو جاتاهوں امام (ع)نے

فرمایا:اے زیاد!تم پر کوئی ذمہ داری نھیں ھے (غمگین نہهو) بلاشبہ مومن جس وقت سے حج کے ارادہ سے اپنے گھر سے نکلتا ھے اس وقت سے ھمیشہ طواف اور سعی کی حالت میں ھے یھاں تک کہ اپنے گھر واپس چلاجائے “۔

انسانی تھذیب کی رعایت

عَنْ سَمَاعَة بْنِ مِھْرَانَ عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع):سَاٴلْتَہُ عَنْ رَجُلٍ لي عَلَیْہِ مالٌ فغابَ عَنّي زَماناً فَرَاٴَیْتُہُ یَطوفُ حَولَ الْکَعْبَةَ اٴفاٴتَقاضاہُ مالِي؟قَالَ:لاٰ،لاٰ تُسَلِّمْ عَلَیْہِ وَلاٰ تُرَوِّعْہُ حَتَّی یَخْرُجَ مَنْ الْحَرَمِ۔[72]

سماعة ابن مھران کھتے ھیں کہ:

”میں نے امام جعفرصادق(ع)سے پوچھا :ایک شخص میرا مقروض ھے اور میں نے ایک مدت سے اسے نھیں دیکھا پس اچانک میں اسے کعبہ کے اطراف میں دیکھتاہوں کیا میں اس سے اپنے مال کا تقاضہ کر سکتاهوں؟فرمایانھیں،حتی اسے سلام بھی نہ کرو اور اسے نہ ڈراوٴیھاں تک کہ وہ حرم سے خارجهو جائے “۔

نماز ،مقام ابراھیم (ع) کے نزدیک

عَن رَسُولِ اللّٰہِ قال:

۔۔۔فَإِذَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ اٴُسْبُوعاً لِلزِّیَارَةِ وَ صَلِّیْتَ عِنْدَ الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ ضَرَبَ مَلَکٌ کَرِیمٌ عَلَی کَتِفَیْکَ فَقَالَ اٴَمَّا مَا مَضَی فَقَدْ غُفِرَ لَکَ فَاسْتَاٴْنِفِ الْعَمَلَ فِیمَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ عِشْرِینَ وَمِائَةِ یَوْمٍ۔[73]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”پس جب تم خانہ کعبہ کے گرد زیارت کا طواف کر لیتےهو اور مقام ابراھیم (ع)کے نزدیک نماز طواف ادا کر لیتےهو تو ایک کریم وبزرگوار فرشتہ تمھارے شانوں پر ھاتھ رکھ کر کھتا ھے :جو کچھ گزر گیا اور تم نے جو گناہ پھلے انجام دیئے تھے خدا وند عالم نے وہ سب بخش دیئے پس اس وقت سے ایک سو بیس دن تک (تم پاک وپاکیزہ رہو گے اب )نئے سرے سے اپنے عمل کا آغاز کرو“۔

امام حسین(ع) مقام ابراھیم (ع)کے پاس

رُئِیَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ،ثُمَّ صٰارَ اِلَی الْمَقٰامِ فَصَلّٰی،ثُمَّ وَضَعَ خَدَّہُ عَلَی الْمَقٰامِ فَجَعَلَ یَبْکی وَیَقُولُ: عُبَیْدُکَ بِبٰابِکَ، سَائِلُکَ بِبٰابِکَ، مِسْکینُکَ بِبٰابِکَ، یُرَدِّدُ ذٰلِکَ مِرٰاراً۔[74]

”لوگوں نے امام حسین (ع)کو دیکھا کہ وہ اللہ کے گھر کا طواف کر رھے تھے اس کے بعدانھوں نے مقام ابراھیم کے پاس نماز ادا کی پھر اپنا چھرہ مقام ابراھیم پر رکھا اور روتےهوئے خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پالنے والے ! تیرا حقیر بندہ تیرے دروازہ پر ھے ،تیرا فقیر تیرے دروازہ پر ھے،تیرا مسکین تیرے دروازہ پر ھے،اور آپ (ع) ان جملوں کو باربار دھرا رھے تھے“۔

ھمراھیوں کی مدد

عن اِبراھیم الخثعَمي قال:قُلْتُ لاٴبي عبد اللہ (ع):إِنَّاإِذَا قَدِمْنَا مَکَّةَ ذَھَبَ اٴَصْحَابُنَا یَطُوفُونَ وَیَتْرُکُونِّي اٴَحْفَظُ مَتَاعَھُمْ قَالَ اٴَنْتَ اٴَعْظَمُھُمْ اٴَجْراً۔[75]

اسماعیل خثعمی کھتے ھیںمیں نے امام جعفر صادق(ع) سے عرض کیا :

”ھم جب مکہ میں واردهوئے تو ھمارے ساتھی مجھے اپنے سامان کے پاس چھوڑ کر طواف کے لئے چلے گئے تاکہ میں ان کے سامان کی حفاظت کروں ،امام (ع)نے فرمایا: تمھارا ثواب ان سے زیادہ ھے“۔

آب زمزم ھر درد کی دوا

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):

مَاءُ زَمْزَمَ دَوَاءٌ لِمَا شُرِبَ لَہُ۔[76]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”زمزم کا پانی ھر اس درد کی دوا ھے جس کی نیت سے وہ پیا جائے “ ۔

زمین کا بھترین پانی

قَالَ اٴَمِیرُ الْمُوٴْمِنِینَ (ع):

مَاءُ زَمْزَمَ خَیْرُ مَاءٍ عَلَی وَجْہِ الْاٴَرْضِ۔[77]

حضرت علی (ع)نے فرمایا:

”آب زمزم روئے زمین پر بھترین پانی ھے “۔

حجر اسماعیل

عَنْ اٴبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

الْحِجْرُ بَیْتُ إِسْمَاعِیلَ وَفِیہِ قَبْرُ ھَاجَرَ وَقَبْرُ إِسْمَاعِیلَ۔[78]

امام جعفر صادق نے فرمایا:

”حجر ،جناب اسماعیل (ع) کاگھر ھے اور اس میں آپ (ع) کی اور آپ کی والدہ جناب ھاجرہ (ع)کی قبر ھے “۔

عن اٴبي عبد اللہ (ع)قال:

إن إسماعیل(ع) تُوُفّي وَھُوَ اِبنُ مائَةَ وَثَلاثِینَ سَنَة وَدُفِنَ بِالحِجْر مَعَ اٴُمِّہ۔[79]

امام جعفر صادق نے فرمایا:

”جناب اسماعیل (ع)نے ایک سو تیس سال کے بعد وفات پائی اور اپنی والدہ کے ھمراہ حجر میں دفن کئے گئے “۔

حطیم

معاویہ ابن عمار کھتے ھیں:میں نے حطیم کے بارے میں امام جعفرصادق ںسے دریافت کیا :

فَقَالَ ھُوَ مَا بَیْنَ الْحَجَرِ الْاٴَسْوَدِ وَبَیْنَ الْبَابِ“۔

”آپ (ع) نے فرمایا :یہ حجر اسود اوردر کعبہ کے درمیان ھے“ میں نے سوال کیا کہ اسے حطیم کیوں کھتے ھیں ؟

فَقَالَ لِاٴَ نَّ النَّاسَ یَحْطِمُ بَعْضُھُمْ بِعْضاً ھُنَاکَ۔[80]

”فرمایا :اس لئے کہ لوگ اس جگہ ایک دوسرے کو (کثرت جمعیت کی وجہ سے ) دباتے ھیں “۔

ملتزم

قٰال رَسُول اللّٰہ (ص):

بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقٰامِ مُلْتَزَمٌ مٰایَدْعُوا بِہِ صٰاحِبُ عٰاھَةٍ اِلاّٰ بَرِیٴَ۔(۲)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”رکن حجر اسود اور مقام ابراھیم (ع) کے درمیان ملتزم ھے کوئی بھی بیماری اور مشکل میں مبتلا شخص وھاں دعا نھیں کرتا مگر یہ کہ اس کی حاجت پوریهوتی ھے “۔

مستجار

قَالَ الصَّادِقُ(ع):

بَنیٰ إِبْراہِیمُ الْبَیْتَ۔۔۔وَجَعَلَ لَہُ بَابَیْنِ بَابٌ إِلَی الْمَشْرِقِ وَ بَابٌ إِلَی الْمَغْرِبِ،وَالْبَابُ الَّذِي إِلَی الْمَغْرِبِ یُسَمَّی الْمُسْتَجَارَ۔[81]

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :

”جنا ب ابراھیم خلیل ںنے کعبہ کی تعمیر فرمائی اور اس کے لئے دو دروازے بنائے،ایک در مشرق کی طرف ،اور ایک در مغرب کی طرف،جودر مغرب کی طرف ھے اسے مستجار کھتے ھیں‘ ‘۔

رکن یمانی

رَاٴَیْنٰاکَ تُکْثِرُ اِسْتِلاٰمَ الرُّکْنِ الْمَیٰانیِّ فَقَالَ: مٰا اَتَیْتُ عَلَیْہِ قَطُّ اِلاّٰ وَجَبْرَئیلُ قٰائِمٌ عِنْدَہُ یَسْتَغْفِرُ لِمَنْ اسْتَلَمَہُ۔[82]

عطا کھتے ھیں :

” لوگوں نے حضرت رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کھا ھم بھت دیکھتے ھیں کہ آپ(ص)رکن یمانی کا بوسہ لے رھے ھیں فرمایا:میں ھر گز رکن یمانی کے پاس نھیں آیا مگر یہ کہ میں نے دیکھاکہ جبرئیل (ع)وھاں کھڑے ھیں اور جولوگ اسے چوم رھے ھیں ان کے لئے مغفرت کی دعا کر رھے ھیں “۔

سعی کی جگہ

عَنْ اٴَبِي بَصِیرٍ قَالَ:

سَمِعْتُ اٴَبَا عَبْدِ اللّٰہِ (ع)یَقُولُ:

مَا مِنْ بُقْعَةٍ اٴَحَبَّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمَسْعَیٰ لِاٴَنَّہُ یُذِلُّ فِیھَا کُلَّ جَبَّارٍ۔[83]

امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:”کوئی بھی جگہ خدا وند عالم کے نزدیک سعی کی جگہ سے محبوب اور پسندیدہ نھیں ھے کیونکہ وھاں ھر جبار وستم گر ذلیل خوارهوتا ھے “۔

مقبول شفاعت

قَالَ عَلِيُّبْنُ الْحُسَیْنِ (ع):

السَّاعِي بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ تَشْفَعُ لَہُ

الْمَلاٰئِکَةُ فَتُشَفَّعُ فِیہِ بِالإِیجَابِ۔[84]

امام زین العابدین (ع)فرماتے ھیں :

”فرشتہ صفاو مروہ کے درمیان سعی کرنے والے کی(خدا سے) شفاعت طلب کرتے ھیں اور ان کی دعا قبولهوتی ھے ‘ ‘ ۔

ھرولہ

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ(ع) قَالَ:

صَارَ السَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِاٴَنَّ إِبْرَاہِیمَ عَرَضَ لَہُ إِبْلِیسُ فَاٴَمَرَہُ جَبْرَئِیلُ(ع)، فَشَدَّ عَلَیْہِ فَھَرَبَ مِنْہُ،فَجَرَتْ بِہِ السُّنَّةُ - یعنی بالْھَرْوَلَة -[85]

امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:

”صفاو مروہ کے درمیان سعی میں (ھرولہ)اس لئے ھے کہ ابلیس نے خود کو وھاں جناب ابراھیم (ع) پر ظاھر کیا اس وقت جبرئیل (ع)نے جناب ابراھیم (ع) کو شیطان پر حملہ کا حکم دیا آپ (ع) نے اس پر حملہ کیا تو وہ بھاگااس وجہ سے ھرولہ سنت بن گیا “۔

صفا ومروہ کے درمیان بیٹھنا

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع):

لاٰ یَجْلِسُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ إِلاَّ مَنْ جَھَدَ۔[86]

امام جعفرصادق(ع) نے فرمایا:

”صفاو مروہ کے درمیان نہ بیٹھے مگر وہ شخص جو تھک جائے ‘ ‘ ۔

اھل عرفات پر فخر

قال رسول اللہ (ص):

”إنّ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یُباھي مَلائِکَتَہُ عَشِیَّةَ عَرَفَة بِاَھْلِ عَرَفَةَ فَیَقُولُ:

اُنْظُرُوا اِلی عِبادي اٴتَوْني شُعْثاً غُبْراً“۔[87]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”بلا شبہ خدا وند عالم روز عرفہ کے عصر کے وقت اھل عرفات کے سلسلہ میں فرشوں سے فخر ومباھات کرتا ھے اور فرماتا ھے :میرے بندوں کو دیکھو جو پریشاں حال اور غبار آلود میرے پاس آئے ھیں“۔

مشعر الحرام

قال رسول اللہ(ص): - وَھُوَ بِمنیٰ -:

”لَوْ یَعْلَمُ اَہْلُ الجَمْعَ بِمَنْ حَلُّوا اٴَوْبِمَنْ نَزَلُوا لاَ سْتَبْشَرُوا بالفَضْلِ مِنْ رَبِّھِمْ بَعْدَ المَغْفِرَةِ“۔[88]

رسول خدا (ص)جب منیٰ میںتشریف فرماتھے آپ(ص) نے فرمایا: ”اگر اھل مشعر جان لیتے کہ کس کی بارگاہ میں آئے ھیں اور کس لئے آئے ھیں تو مغفرت اور بخشش کے بعد خدا کے فضل کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو بشارت دیتے “۔

منیٰ

قال الصادق(ع):

”إِذَا اٴَخَذَ النَّاسُ مَوَاطِنَھُمْ بِمِنًی،نَادَی مُنَادٍمِنْ قِبَلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ:إِنْ اٴَرَدْتُمْ اٴَنْ اٴَرْضَی فَقَدْ رَضِیتُ“۔ [89]

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :

”جب لوگ منیٰ میں اپنی جگہ ٹھھر جاتے ھیں تو منادی

خداوند عالم کی جانب سے ندا دیتا ھے اگر تم یہ چاھتے تھے کہ میں تم سے راضیهو جاوٴں تو میں تم سے راضیهو گیا “۔

شیطا ن کو کنکریاں مارنا

قالَ الصَّادِقُ(ع):

”إنَّ عِلَّةَ رَمْيِ الْجَمَراٰتِ اٴَنَّ إِبْراہِیم(ع) تَراء یٰ لَہُ إِبْلِیسُ عِنْدھٰا فَاٴمَرہُ جَبْرائیلُ بِرَمْیِہ بِسَبعِ حَصَیاتٍ وَاٴَنْ یُکَبِّر مَعَ کُلِّ حَصَاةٍ فَفَعَلَ وَجَرَتْ بِذلِکَ السُّنَةِ“۔[90]

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :

”ان جمرات کوکنکریاں مارنے کی وجہ یہ ھے کہ ابلیس وھاں پر حضرت ابراھیم (ع) کے سامنے ظاھرهوا اس وقت جبرئیل (ع) نے جناب ابراھیم (ع) کو حکم دیا کے سات کنکریوں سے شیطا ن کو ماریں اور ھر کنکری پر تکبیر بھی کھیں جناب ابراھیم (ع) نے ایسا ھی کیا اور اس کے بعد سے یہ سنت بن گئی“۔

قربانی

عن اٴبی جعفر (ع)قال: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):

إِنَّمَا جَعَلَ اللّٰہُ ھَذَا الْاٴَضْحَی لِتَشْبَعَ مَسَاکِینُھُمْ مِنَ اللَّحْمِ فَاٴَطْعِمُوھُمْ“۔[91]

امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں :

”کہ رسو ل خدا (ص)نے فرمایا :خدا وند عالم نے اس قربانی کو واجب قرار دیا ھے تاکہ بے نوا اور مسکین لوگ گوشت سے استفادہ کریں اور سیرهوں پس انھیں کھلاوٴ “۔

مغفرت طلب کرنا

قال الصادق(ع):

”اِسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللّٰہِ لِلْمُحَلِّقِینَ ثَلاٰثَ مَرَّاتٍ“۔[92]

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :

”کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منیٰ میں سر مڈانے والوں کے لئے تین مرتبہ استغفار کیا (اور خدا سے ان کے لئے بخشش طلب کی)ھے“۔

حج کے اسرار

عالم جلیل سید عبد اللہ مرحوم محدث جزائری کے پوتوں سے نقل کرتےهوئے کتاب شرح نخبہ میں تحریر کرتے ھیں :

متعدد ما خذ میں جن پر میری تائید ھے بعض بزرگوں کی تحریر میں یہ حدیث مرسل اس طرح نقلهوئی ھے کہ شبلی حج انجام دینے کے بعد امام زین العابدین ںکی زیارت کو آئے تو حضرت (ع) نے ان سے فرمایا:

حَجَجْتَ یَا شَبْلِیُّ؟

قَالَ:نَعَمْ یَا ابْنَ رَسُولِ اللّٰہِ فَقَالَ(ع):اٴَنَزَلْتَ الْمِیقَاتَ وَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ الثِّیَابِ وَاغْتَسَلْتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،

قَالَ:فَحِینَ نَزَلْتَ الْمِیقَاتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ خَلَعْتَ ثَوْبَ الْمَعْصِیَةِ وَلَبِسْتَ ثَوْبَ الطَّاعَةِ؟ قَالَ:لاٰ،

قَالَ:فَحِینَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ ثِیَابِکَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَجَرَّدْتَ مِنَ الرِّیَاءِ وَالنِّفَاقِ وَالدُّخُولِ فِي الشُّبُھَاتِ؟قَالَ:لاٰ،

قَالَ:فَحِینَ اغْتَسَلْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اغْتَسَلْتَ مِنَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوبِ؟قَالَ:لاٰ،

قَالَ:فَمَا نَزَلْتَ الْمِیقَاتَ وَلاٰ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ الثِّیَابِ وَلاٰ اغْتَسَلْتَ،

اے شبلی! کیا تم نے حج کر لیا؟عرض کیا ھاں اے فرزند رسول خدا! فرمایا:کیا تم میقات میں ٹھھرے اور اپنے سلےهوئے لباس کو جسم سے اتار کر غسل کیا؟ شبلی نے جواب دیا، ھاں۔امام نے پوچھا جب تم میقات میںداخلهوئے تو کیا یہ نیت کی کہ میں نے گناہ اور نافرمانی کا لباس اتار دیا ھے اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کا لباس پہن لیا ھے ؟

شبلی: نھیں۔امام نے پوچھا:جب تم نے اپنا سلاهوا لباس اتارا تو کیا یہ نیت کی تھی کہ خود کو ریا ،دوروئی اور شبھات وغیرہ سے دور کر رھےهو ؟شبلی نھیں:

امام (ع): غسل کرتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خود کو خطاوٴں اور گناہوں سے پاک کر رھےهو؟شبلی نھیں :

امام (ع):(پس در حقیقت تم ) نہ میقات میں واردهوئے اور نہ تم نے سلاهوا لباس اتارا اور نہ غسل کیا ھے “۔

ثُمَّ قَالَ:تَنَظَّفْتَ وَاٴَحْرَمْتَ وَعَقَدْتَ بِالْحَجِّ، قَالَ:نعم۔قَالَ: فَحِینَ تَنَظَّفْتَ وَاٴَحْرَمْتَ وَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَنَظَّفْتَ بِنُورَةِ التَّوْبَةِ الْخَالِصَةِ لِلَّہٰ تَعَالیَ؟قَالَ لاٰ،قَالَ:فَحِینَ اٴَحْرَمْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ حَرَّمْتَ عَلَی نَفْسِکَ کُلَّ مُحَرَّمٍ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ؟قَالَ:لاٰ،

قَالَ:فَحِینَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ قَدْ حَلَلْتَ کُلَّ عَقْدٍ لِغَیْرِ اللّٰہِ؟قَالَ:لاٰ،

قَالَ لَہُ(ع):مَا تَنَظَّفْتَ وَلاٰاٴَحْرَمْتَ وَلاٰ عَقَدْتَ الْحَجَّ ،

”اس کے بعد امام(ع) اس سے پوچھتے ھیں، کیا تم نے خودکو پاک صاف کیا اور احرام پہنا اور حج کا عھد وپیمان کیا (یعنی حج کی نیت کی)شبلی: ھاں

امام (ع): کیا تم یہ نیت کی تھی کہ خود کو خالص توبہ کے نور ہ سے پاکیزہ کر رھےهو؟شبلی :نھیں

امام (ع):احرام باندھتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ جو کچھ خدا نے تمھیں کرنے سے روکا ھے اسے اپنے آپ پر حرام سمجھو؟شبلی:نھیں۔ امام: حج کا عھد کرتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم نے ھر غیر الٰھی عھد وپیمان سے خودکو رھا کر لیا ھے؟ شبلی: نھیں۔

امام(ع) :پھرتم نے احرام نھیں باندھا پاکیزہ نھیںهوئے اور حج کی نیت نھیںکی “۔

قَالَ لَہُ: اٴَدَخَلْتَ الْمِیقَاتَ وَصَلَّیْتَ رَکْعَتَيِ الْإِحْرَامِ وَلَبَّیْتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،

قَالَ:فَحِینَ دَخَلْتَ الْمِیقَاتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ بِنِیَّةِ الزِّیَارَةِ؟قَالَ:لاٰ۔

قَالَ:فَحِینَ صَلَّیْتَ الرَّکْعَتَیْنِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَقَرَّبْتَ إِلَی اللّٰہِ بِخَیْرِ الْاٴَعْمَالِ مِنَ الصَّلاٰةِ وَاٴَکْبَرِ حَسَنَاتِ الْعِبَادِ؟ قَالَ:لا،

قَالَ:فَحِینَ لَبَّیْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ نَطَقْتَ لِلّٰہِ سُبْحَانَہُ بِکُلِّ طَاعَةٍ وَصُمْتَ عَنْ کُلِّ مَعْصِیَةٍ؟ قَالَ:لاٰ ،

قَالَ لَہُ(ع): مَا دَخَلْتَ الْمِیقَاتَ وَلاٰ صَلَّیْتَ وَلاٰ لَبَّیْتَ،

”اس کے بعد امام (ع)نے پوچھا :کیا تم میقات میں داخلهوئے اور دو رکعت نماز احرام ادا کی اور لبیک کھی ؟شبلی:ھاں۔

امام (ع):میقات میں داخلهوتے وقت کیا تم نے زیارت کی نیت کی؟ شبلی: نھیں۔

امام (ع):کیا دو رکعت نماز پڑھتے وقت تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم بھترین اعمال اور بندوں کے بھترین حسنات یعنی نماز کے ذریعہ خدا سے قریبهو رھےهو؟شبلی: نھیں۔

امام (ع):پس لبیک کھتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خدا کی خالص فرمانبر داری کی بات کر رھےهواور ھر معصیت سے خاموشی اختیار کر رھےهو؟شبلی: نھیں ۔

امام (ع)نے فرمایا:پھر نہ تم میقات میں داخلهوئے نہ نماز پڑھی اور نہ لبیک کھی “۔

ثُمَّ قَالَ لَہُ:اٴَدَخَلْتَ الْحَرَمَ وَرَاٴَیْتَ الْکَعْبَةَ وَصَلَّیُتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،

قَالَ :فَحِینَ دَخَلْتَ الْحَرَمَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ حَرَّمْتَ عَلَی نَفْسِکَ کُلَّ غَیْبَةٍ تَسْتَغِیبُھَا الْمُسْلِمِینَ مِنْ اٴَہْلِ مِلَّةِ الْإِسْلاٰمِ؟قَالَ:لاٰ۔

قَالَ فَحِینَ وَصَلْتَ مَکَّةَ نَوَیْتَ بِقَلْبِکَ اٴَنَّکَ قَصَدْتَ اللّٰہَ؟ قَالَ:لاٰ۔

قَالَ(ع):فَمَا دَخَلْتَ الْحَرَمَ وَلاٰ رَاٴَیْتَ الْکَعْبَةَوَلاٰ صَلَّیْتَ،

”امام (ع) نے پھر پوچھا :کیا تم حرم میں داخلهوئے، کعبہ کو دیکھا اور نماز ادا کی ؟شبلی :ھاں۔

امام(ع) :حرم میں داخلهوتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ اسلامی معاشرہ کے مسلمانوں کی غیبت کو اپنے اوپر حرام کرتےهو ؟ شبلی: نھیں۔

امام (ع):مکہ پہنچتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی کہ صرف خدا کو چاھتےهو ؟شبلی:نھیں۔

امام (ع):پھر نہ تم حرم میں واردهوئے اور نہ کعبہ کا دیدار کیا اور نہ نماز ادا کی “۔

ثُمَّ قَالَ:طُفْتَ بِالْبَیْتِ وَمَسَسْتَ الْاٴَرْکَانَ وَسَعَیْتَ؟قَالَ:نَعَمْ۔

قَالَ(ع):فَحِینَ سَعَیْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ ھَرَبْتَ إِلَی اللّٰہِ وَعَرَفَ مِنْکَ ذٰلِکَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ؟قَالَ:لاٰ ۔

قَالَ فَمَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ وَلاٰ مَسِسْتَ الْاٴَرْکَانَ وَلاٰ سَعَیْتَ۔

”پھر امام نے پوچھا :کیا تم نے خانہ خدا کا طواف کیا ارکان کو مس کیا اور سعی انجام دی ؟شبلی :ھاں۔

امام (ع):سعی کرتے وقت کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ شیطان اور اپنے نفس سے بھاگ کر خدا کی پناہ حاصل کرتےهواور وہ غیب سے سب سے زیادہ آگاہ ھے وہ اس بات کو جانتا ھے ؟ شبلی:نھیں۔

امام (ع):پھر نہ تم نے خانہ خدا کاطواف کیا نہ ارکان مس کئے اور نہ سعی کی،

ثُمَّ قَالَ لَہُ:صَافَحْتَ الْحَجَرَوَ وَقَفْتَ بِمَقَامِ إِبْرَاہِیمَ(ع) وَصَلَّیْتَ بِہَ رَکْعَتَیْنِ؟قَالَ:نَعَمْ فَصَاحَ (ع)صَیْحَةً کَادَ یُفَارِقُ الدُّنْیَا ثُمَّ قَالَ:آہِ آہِ۔

ثُمَّ قَالَ(ع):مَنْ صَافَحَ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ فَقَدْ صَافَحَ اللّٰہَ تَعَالَی،فَانْظُرْ یَامِسْکِینُ لاٰ تُضَیِّعْ اٴَجْرَ مَا عَظُمَ حُرْمَتُہُ،وَتَنْقُضِ الْمُصَافَحَةَ بِالْمُخَالَفَةِ،وَقَبْضِ الْحَرَامٍ نَظِیرَ اٴَہْلِ الْآثَامِ۔

ثُمَّ قَالَ(ع):نَوَیْتَ حِینَ وَقَفْتَ عِنْدَ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ(ع)اٴَنَّکَ وَقَفْتَ عَلَی کُلِّ طَاعَةٍ وَتَخَلَّفْتَ عَنْ کُلِّ مَعْصِیَةٍ؟قَالَ:لاٰ۔

قَالَ:فَحِینَ صَلَّیْتَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ صَلَّیْتَ بِصَلاٰةِ إِبْرَاہِیمَ(ع)،وَاٴَرْغَمْتَ بِصَلاٰتِکَ اٴَنْفَ الشَّیْطَانِ؟قَالَ:لاٰ۔

قَالَ لَہُ:فَمَا صَافَحْتَ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ وَلاٰ وَقَفْتَ عِنْدَ الْمَقَامِ وَلاٰ صَلَّیْتَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ۔

”امام(ع) نے دریافت فرمایا:کیا تم نے حج اسود سے مصافحہ کیا، مقام ابراھیم (ع) کے نزدیک کھڑےهوئے اوردو رکعت نماز ادا کی ؟شبلی: ھاں،

پس امام (ع):نے فریا د بلند کی ایسا لگتا تھا کہ آپ (ع) دنیا سے ھی کو چ کرجانے والے ھیں اس کے بعد فرمایا :آہ ،آہ۔۔۔۔

پھر فرمایا :جو حجر اسود کو لمس کرے اس نے خدا سے مصافحہ کیا پس اے مسکین !دیکھ اس عظیم حرمت وعزت کو ضائع نہ کر اور مصافحہ کو مخالفت اور گناہکاروں کے مانند حرام کاری کے ذریعہ نہ توڑ اس کے بعد پوچھا : جب تم مقام ابراھیم (ع)کے نزدیک گئے تو کیا تمھاری نیت یہ تھی کہ خدا کے تمام احکام وفرامین کی پابندی اور ھر معصیت ونافرمانی کی مخالفت کرو گے؟شبلی :نھیں

امام (ع):جب تم نے طواف کی دور کعت نماز ادا کی تو کیا یہ نیت تھی کہ تم نے جناب ابراھیم کے ھمراہ نماز پڑھی ھے اور شیطان کی ناک کو خاک پر رگڑدیاھے ؟شبلی:نھیں۔

امام(ع):پھر درحقیقت نہ تم نے حجر اسود کا مصافحہ کیا نہ مقام ابراھیم کے پاس کھڑےهوئے اور نہ وھاں دو رکعت نماز اداکی ۔

ثُمَّ قَالَ(ع):لَہُ اٴَشْرَفْتَ عَلَی بِئْرِ زَمْزَمَ وَ شَرِبْتَ مِنْ مَائِھَا؟ قَالَ:نَعَمْ۔

قَالَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اٴَشْرَفْتَ عَلَی الطَّاعَةِ، وَغَضَضْتَ طَرْفَکَ عَنِ الْمَعْصِیَةِقَالَ:لاٰ۔

قَالَ(ع):فَمَا اٴَشْرَفْتَ عَلَیْھَا وَلاٰ شَرِبْتَ مِنْ مَائِھَا۔

پھرامام(ع) نے پوچھا :کیا تم چاہ زمزم پر گئے اور اس کا پانی پیا؟ شبلی: ھاں

امام (ع)نے فرمایا :کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم نے خدا کی فرماں برداری حاصل کر لی اور اس کے گناہوں اور معصیت سے آنکھیں بند کر لی ھیں؟شبلی:نھیں

امام (ع)نے فرمایا :پھر درحقیقت نہ تم چاہ زمزم پر گئے اور نہ اس کا پانی پیا ھے “۔

ثُمَّ قَالَ لَہُ(ع):اٴَسَعَیْتَ بَیْنَ الصَّفَاوَالْمَرْوَةِ وَمَشَیْتَ وَتَرَدَّدْتَ بَیْنَھُمَا؟قَالَ:نَعَمْ۔

قَالَ لَہُ:نَوَیْتَ اٴَنَّکَ بَیْنَ الرَّجَاءِ وَالْخَوْفِ؟ قَالَ:لاٰ۔

قَالَ:فَمَاسَعَیْتَ وَلاٰمَشَیْتَ وَلاٰتَرَدَّدْتَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ۔ ثُمَّ قَالَ:اٴَخْرَجْتَ إِلٰی مِنیٰ؟ قَالَ: نَعَمْ،قَالَ: نَوَیْتَ اٴَنَّکَ آمَنْتَ النَّاسَ مِنْ لِسَانِکَ وَقَلْبِکَ وَیَدِکَ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا خَرَجْتَ إِلٰی مِنًی۔

ثُمَّ قَالَ:لَہُ اٴَوَقَفْتَ الْوَقْفَةَ بِعَرَفَةَ،وَطَلَعْتَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ، وَعَرَفْتَ وَادِيَ نَمِرَةَ،وَدَعَوْتَ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ عِنْدَالْمِیْلِ وَالْجَمَرَاتِ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:ھَلْ عَرَفْتَ بِمَوْقِفِکَ بِعَرَفَةَمَعْرِفَةَ اللّٰہِ سُبْحَانَہُ اٴَمْرَ الْمَعَارِف وَالْعُلُومِ وَعَرَفْتَ قَبْضَ اللّٰہِ عَلٰی صَحِیفَتِکَ وَ اطِّلاٰعَہُ عَلَی سَرِیرَ تِکَ وَقَلْبِکَ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ نَوَیْتَ بِطُلُوعِکَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ اٴَنَّ اللّٰہَ یَرْحَمُ کُلَّ مُوٴْمِنٍ وَ مُوٴْمِنَةٍ وَیَتَوَلَّی کُلَّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ؟ قَالَ: لاٰ، قَالَ: فَنَوَیْتَ عِنْدَ نَمِرَةَ اٴَنَّکَ لاٰ تَاٴْمُرُ حَتَّی تَاٴْتَمِرَ،وَلاٰ تَزْجُرُ حَتَّی تَنْزَجِرَ؟ قَالَ: لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَمَا وَقَفْتَ عِنْدَ الْعَلَمِ وَالنَّمِرَاتِ، نَوَیْتَ اٴَنَّھَا شَاھِدَةٌ لَکَ عَلَی الطَّاعَاتِ حَافِظَةٌ لَکَ مَعَ الْحَفَظَةِبِاٴَمْرِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا وَقَفْتَ بِعَرَفَةَ،وَلاٰ طَلَعْتَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ،وَلاٰ عَرَفْتَ نَمِرَةَ، وَلاٰدَعَوْتَ، وَلاٰ وَقَفْتَ عِنْدَ النَّمِرَاتِ۔

”پھرامام (ع) نے کیا تم نے دریافت کیا، صفاو مروہ کے درمیان سعی انجام دی اور پید ل ان دو پھاڑوں کے درمیان راہ طے کی ھے ؟ شبلی :ھاں

امام (ع): کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خوف ورجاء کے درمیان راہ طے کر رھےهو؟شبلی:نھیں

امام (ع):پس تم نے صفاو مروہ کے درمیان سعی نھیں کی پھر فرمایا کیا تم منیٰ کی طرف گئے ؟شبلی:ھاں

امام (ع):کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ لوگوں کو اپنی زبان اپنے دل اور اپنے ھاتھوں سے امان میں رکھو؟شبلی :نھیں

امام (ع):پھر تم منیٰ نھیں گئےهو۔ اس کے بعد پوچھا :کیا تم نے عرفات میں وقوف کیا اور جبل رحمت کے اوپر گئے اور وادی نمرہ کو پہچانااور جمرات کے کنارے خدا سے دعاکی ؟شبلی:ھاں

امام (ع)نے فرمایا:آیا عرفات میں وقوف کے وقت تمھیں معارف و علوم کے ذریعہ اللہ کی معرفتهوئی اور کیا تم نے جانا کہ اللہ تمھارے نامہٴ عمل کولے گا اور وہ تمھاری فکر و خیال سے آگاھی رکھتا ھے ؟شبلی:نھیں

امام :کیا جبل رحمت کے اوپر جاتے وقت تمھاری یہ نیت تھی کہ خداوند عالم ھر با ایمان مرد وزن پر رحمت نازل کرتا ھے اور ھر مسلمان مردوزن کی سرپرستی کرتا ھے ؟شبلی:نھیں

امام :آیا وادی نمرہ میں تم نے یہ خیال کیا کہ کوئی حکم نہ دو جب تک خود فرمانبردار نہهوجاوٴاور نھی نہ کرو جب تک خود کو نہ روکو؟ شبلی:نھیں

جب تم نشان اور نمرہ کے نزدیک ٹھھرے تو کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ وہ تمھاری عبادات اور طاعت پر گوا ہهوں اور خداوندعالم کے نگھبانوں کے ھمراہ اس کے حکم سے تیری حفاظت کریں؟ شبلی:نھیں

حضرت نے فرمایا:پھر نہ تم عرفات میں ٹھھرے نہ جبل رحمت کے اوپر گئے نہ نمرہ کو پہچانا نہ دعا کی اور نہ نمرہ کے نزدیک وقوف کیاھے۔

ثُمَّ قَالَ:مَرَرْتَ بَیْنَ الْعَلَمَیْنِ،وَصَلَّیْتَ قَبْلَ مُرُورِکَ رَکْعَتَیْنِ،وَمَشَیْتَ بِمُزْدَلِفَةَ، وَل َقَطْتَ فِیھَا الْحَصَی،وَمَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَحِینَ صَلَّیْتَ رِکْعَتَیْنِ،نَوَیْتَ اٴَنَّھَا صَلاٰةُ شُکْرٍ فِي لَیْلَةِ عَشْرٍ،تَنْفِی کُلَّ عُسْرٍ، وَتُیَسِّرُ کُلَّ یُسْرٍ؟ قَالَ: لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَامَشَیْتَ بَیْنَ الْعَلَمَیْنِ،وَلَمْ تَعْدِلْ عَنْھُمَا یَمِیناً وَشِمَالاً،نَوَیْتَ اٴَنْ لاٰ تَعْدِلَ عَنْ دِینِ الْحَقِّ یَمِیناً وَشِمَالاً،لاٰ بِقَلْبِکَ،وَلاٰ بِلِسَانِکَ،وَلاٰبِجَوَارِحِکَ، قَالَ:لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَ مَا مَشَیْتَ بِمُزْدَلِفَةَ وَلَقَطْتَ مِنْھَا الْحَصَی،نَوَیْتَ اٴَنَّکَ رَفَعْتَ عَنْکَ کُلَّ مَعْصِیَةٍ،وَ جَھْلٍ،وَثَبَّتَّ کُلَّ عِلْمٍ وَعَمَلٍ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا مَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ،نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اٴَشْعَرْتَ قَلْبَکَ إِشْعَارَ اٴَہْلِ التَّقْویٰ وَالْخَوْفَ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ؟ قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا مَرَرْتَ بِالْعَلَمَیْنِ،وَلاٰ صَلَّیْتَ رِکْعَتَیْنِ،وَلاٰ مَشَیْتَ بِالْمُزْدَلِفَةِ،وَلاٰ رَفَعْتَ مِنْھَا الْحَصَی،وَلاٰ مَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۔

پھرامام نے پوچھا کہ کیا تم دونشانوں کے درمیان سے گذرے اور وھاں سے گذرنے سے پھلے دورکعت نماز اداکی اور پیدل مذدلفہ گئے اور وھاں کنکریاں چنیں اور مشعر الحرام سے گذرے؟شبلی:ھاں

امام نے فرمایا:جب دورکعت نماز اداکی تو کیا یہ نیت کی تھی کہ یہ نماز شب دھم کی نماز شکر ھے جو ھر سختی کو دور اور کاموں کو آسان کرتی ھے ؟ شبلی:نھیں

امام :جب تم دو نشانوں کے درمیان سے گذرے اور دائیں اور بائیں منحرف نھیںهوئے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ دین حق سے دائیں اور بائیں نہ دل سے نہ زبان سے اور نہ اپنے اعضاء بدن سے منحرف نھیںهوئےهو؟شبلی:نھیں

امام :جب تم مذدلفہ گئے اور وھاں سنگریزے جمع کئے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ ھر گناہ اور جھالت کو خود سے دور کیاھے اور ھر علم و نیک عمل کو اپنے آپ میں پائےدار کیا ھے؟شبلی:نھیں

امام :جب تم مشعر الحرام سے گذرے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ اپنے دل کو اھل خدا کے تصور اور خدا کے خوف سے آراستہ کرو؟شبلی:نھیں

امام :پھر نہ تم دو پھاڑوں کے درمیان سے گذرےهو، نہ دورکعت نماز ادا کی ھے ،نہ مذدلفہ گئےهو ،نہ سنگریزے چنے ھیںاور نہ مشعر الحرام سے گذرےهو“۔

ثُمَّ قَالَ لَہُ:وَصَلَّتَ مِنٰی،وَرَمَیْتَ الْجَمْرَةَ، وَحَلَقْتَ رَاٴْسَکَ، وَذَبَحْتَ ھَدْیَکَ،وَصَلَّیْتَ فِي مَسْجِدِ الْخَیْفِ،وَرَجَعْتَ إِلَی مَکَّةَ،وَطُفْتَ طَوَافَ الْإِفَاضَةِ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:فَنَوَیْتَ عِنْدَ مَا وصَلْتَ مِنًی وَرَمَیْتَ الْجِمَارَ،اٴَنَّکَ بَلَغْتَ إلَی مَطْلَبِکَ،وَقَدْ قَضَی رَبُّکَ لَکَ کُلَّ حَاجَتِکَ؟قَالَ:لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَ مَا رَمَیْتَ الْجِمَارَنَوَیْتَ اٴَنَّکَ رَمَیْتَ عَدُوَّکَ إِبْلِیسَ وَغَضِبْتَہُ بِتَمَامِ حَجِّکَ النَّفِیسِ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا حَلَقْتَ رَاٴْسَکَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَطَھَّرْتَ مِنَ الْاٴَدْنَاسِ، وَمِنْ تَبِعَةِ بَنْی آدمَ،وَخَرَجْتَ مِنَ الذَّنُوبِ کَمَا وَلَدَتْکَ اٴُمُّکَ؟ قَالَ: لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا صَلِّیْتَ فِي مَسْجِدِ الْخَیْفِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ لاٰ تَخَافُ إِلاَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَذَنْبَکَ،وَلاٰ تَرْجُو إِلاَّ رَحْمَةَ اللّٰہِ تَعَالیَ؟ قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا ذَبَحْتَ ھَدْیَکَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ ذَبَحْتَ حَنْجَرَةَ الطَّمَع بِمَا تَمَسَّکْتَ بِہِ مِنْ حَقِِیقَةِالْوَرَعِ،وَاٴَنَّکَ اتَّبَعْتَ سُنَّةَ إِبرَاہِیمَ بِذَبْحِ وَلَدِہِ،وَثَمَرَةِ فُوٴَادِہِ وَرَیْحَانِ قَلْبِہِ،وَحاَجَّہُ سُنَّتُہُ لِمَنْ بَعْدَہُ، وَقَرَّبَہُ إِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ؟لِمَنْ خَلْفَہُ قَالَ:لاٰ، قَالَ: فَعِنْدَمَا رَجَعْتَ إِلَی مَکَّةَ وَطُفْتَ طَوَافَ الْإِ فَاضَةِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اٴَفِضْتَ مِنْ رَحْمَةِ۱للّٰہِ تَعَالَی،وَرَجَعْتَ إِلَی طَاعَتِہِ وَتَمَسَّکْتَ بِوُدِّہِ وَاٴَدَّیْتَ فَرَائِضہ،وَتَقَرَّبَتَ إِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ: لَہُ زَیْنُ العابدین(ع) فَمَا وَصَلْتَ مِنًی وَلاٰرَمْیَتَ الْجِمَارَ،وَلاٰحَلَقْتَ رَاٴْسَکَ، وَلاٰ اٴَدَّیْتَ نُسُکَکَ،وَلاٰ صَلَّیْتَ فِي مَسْجِدِ الْخَیْفِ، وَلاٰ طُفْتَ طَوَافَ الْإِ فَاضَةِ،وَلاٰ تَقَرَّبْتَ۔اْرجِعْ فَإِنَّکَ لَمْ تَحُجَّ۔

”پھر امام (ع)نے پوچھا کیا تم منیٰ پہنچے اور جمرہ کو کنکریاں ماری ،سر کے بال اتارے،اور اپنی قربانی انجام دی؟ نیز مسجد خیف میں نماز ادا کی ، اور مکہ واپس آکر ”طواف افاضہ انجام دیا “؟شبلی:ھاں

امام (ع)نے فرمایا:جب تم منیٰ پہنچے اور رمی جمرات انجام دی تو کیا یہ محسوس کیا کہ تمھاری تمنا پوریهو گئی اور خدا وند عالم نے تمھاری تمام حاجتیں پوری کردیں ؟شبلی:نھیں

امام (ع):جب جمرات کو کنکریاں ماریں تو کیا یہ نیت تھی کہ اپنے دشمن ابلیس کو کنکری ماررھےهواور اپنے قیمتی حج کو مکمل کرنے کے ساتھ تم نے اسے غضب ناک کر دیا ھے؟شبلی:نھیں

امام(ع):جب تم نے اپنے سر کے بال اتارے توکیایہ نیت کی تھی کہ بنی آدم کے گناہوں اور آلودگیوں سے پاکهو گئے اور اپنے گناہوں سے یوںباھر آگئے جیسے تمھیں تمھاری ماں نے ابھی پیدا کیا ھے؟ شبلی:نھیں

امام (ع):جب تم نے مسجد خیف میں نماز ادا کی تو کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ خدا ئے متعال اور گناہوں کے علاوہ کسی چیز سے نھیں ڈرتے اور خدا کی رحمت کے علاوہ کسی اور سے امیدوار نھیںهو؟شبلی:نھیں

امام(ع):جب تم نے اپنی قربانی کو ذبح کیا تو کیا یہ نیت تھی کہ حقیقی تقویٰ وپرھیز گاری کے ذریعہ تم نے اپنی لالچ کا گلا کاٹ دیا ھے اور جناب ابراھیم (ع)کہ جنھوں نے اپنے میوہٴ دل اور لخت جگر بیٹے کو قربان گاہ میں لا کر خدا سے قرب حاصل کرنے کا ایک وسیلہ اپنے بعد کی نسلوں کے لئے سنت کے طور پر قائم کیا تھا،ان کی پیروی کر رھےهو؟ شبلی: نھیں

امام(ع) :جب تم مکہ واپسهوئے اور ”طواف افاضہ“ انجام دیاتو کیا یہ نیت کی تھی کہ خدا کی رحمت سے کوچ کر کے اس کی اطاعت کی طرف پلٹ رھےهو،اس کی محبت حاصل کر لی ھے الٰھی واجبات ادا کئے ھیں اور خدا سے نزدیکهو گئےهو؟ شبلی: نھیں

امام :پھر نہ تم منیٰ پہنچے ،نہ شیطانوں کوسنگریزے مارے ھیں،نہ اپنے سر کے بال اتارے ھیں،نہ اپنے حج کے اعمال انجام دیئے ھیں،نہ مسجد خیف میںنماز ادا کی ھے،نہ طواف بجا لائےهواور نہ خدا کے قرب میں پہنچےهوواپس جاوٴ کہ تم نے حج انجام نھیں دیا ھے ۔

فَطَفِقَ الشِّبْلِیُّ یَبْکِی عَلَی مَافَرَّطَہُ فِي حَجِّہِ،وَمٰا زَالَ یَتَعَلَّمُ حَتَّی حَجَّ مِنْ قَابِلٍ بِمَعْرِفَةٍ وَیَقینٍ۔[93]

”جنا ب شبلی اس با ت پر بُری طرح رونے لگے کہ جیسا حج کرناچاہئے تھا انجام نھیں دیا اور مناسک حج آگاھی کے ساتھ ادا نھیں کئے آپ اپنی حالت پر شدت سے غم زدہ تھے اور اس کے بعد سے حج کے اسرار ومعارف یاد کرنے میں مشغولهو ئے تاکہ اگلے سال پوری شناخت اور یقین کے ساتھ حج بجالائےں“ ۔

ختم قرآن

قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع):

تَسْبِیحَةٌ بِمَکَّةَ اٴَفْضَلُ مِنْ خَرَاجِ الْعِرَاقَیْنِ یُنْفَقُ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ، وَقَالَ:مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ بِمَکَّةَ لَمْ یَمُتْ حَتَّی یَریٰ رَسُولَ اللّٰہِ وَیَریٰ مَنْزِلَہُ فِي الْجَنَّةِ۔[94]

امام زین العابدین (ع):نے فرمایا:

”مکہ میں سبحان اللہ کہنے کا ثواب عراق اور شام کے مالیات کو خدا کی راہ میں انفاق کرنے سے بھتر ھے، نیز فرمایا:جو شخص مکہ میں ایک قرآن ختم کرے وہ اپنی موت سے پھلے حضرت رسول خدا (ص)کی زیارت کر لیتا ھے اور جنت میں اپنی جگہ کا مشاھدہ کر لیتا ھے “َ

کعبہ سے وداع

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

إِذَا اٴَرَدْتَ اٴَنْ تَخْرُجَ مِنْ مَکَّةَ وَتَاٴْ تِيَ اٴَھْلَکَ فَوَدِّعِ الْبَیْتَ وَطُفْ بِالْبَیْتِ اٴُسْبُوعاً۔[95]

معاویہ ابن عمار کھتے ھیں-کہ امام جعفر صادق ں نے فرمایا:

”جب تم مکہ سے نکل کر اپنے گھر والوں کی طرف واپس آنا چاہوتو کعبہ سے وداع کرو اور سات مرتبہ اس کے گرد طواف کرو“۔

قبولیت کی نشانی

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):

آیَةُ قَبُولِ الْحَجِّ تَرْکُ مَا کَانَ عَلَیْہِ الْعَبْدُ مُقِیماً مِنَ الذُّنُوبِ۔[96]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”حج کے قبولیت کی نشانی یہ ھے کہ جو گناہ بندہ پھلے انجام دیتا تھا اسے ترک کردے “۔

حج کی نورانیت

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ(ع)قَالَ:

الْحَاجُّ لاٰ یَزَالُ عَلَیْہِ نُورُ الْحَجِّ مَا لَمْ یُلِمَّ بِذَنْبٍ۔[97]

امام جعفرصادق (ع)فرمایا:

”حج کرنے والا جب تک اپنے آپ کو گناہ سے آلودہ نہ کرے ، حج کا نورھمیشہ اس کے ساتھ رھتاھے“۔

دوبارہ آنے کی نیت

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):

مَنْ اٴَرَادَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةَ فَلْیَوٴُمَّ ھَذَا الْبَیْتَ،وَ مَنْ رَجَعَ مِنْ مَکَّةَ وَھُوَ یَنْوِي الْحَجَّ مِنْ قَابِلٍ زِیدَ فِي عُمُرِہِ۔[98]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”جو شخص دنیا وآخرت چاھتا ھے وہ اس گھر کی طرف آنے کا قصد کرے اور جو شخص مکہ سے واپسهو اوریہ نیت رکھے کہ اگلے سال بھی حج سے مشرفهوگا تو اس کی عمر میںاضافہهوتا ھے ‘ ‘ ۔

حج کی تکمیل

قالَ الصادِقُ(ع):

”اِذاحَجَّ اَحَدُکُمْ فَلْیَخْتِمْ حَجَّہُ بِزِیارَتِنَا لِاٴَ نَّ ذٰلِکَ مِنْ تَمامِ الحَجِّ“۔[99]

امام جعفر صادق (ع) اسماعیل ابن مھران سے فرماتے ھیں :

”جب بھی تم میں سے کوئی شخص حج انجام دے اسے چاہئے کہ اپنے حج کو ھماری زیارت پر تمام کرے کیونکہ یہ حج کے کاملهونے کی شرطوں میں سے ھے “۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):

مَنْ حَجَّ فَزٰارَ قَبْری بَعْدَ مَوْتی کَانَ کَمَنْ زٰارَنی في حَیٰاتِی۔[100]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”جس نے حج کیا اور میری موت کے بعد میری زیارت کی وہ اس شخص کے مانند ھے جس نے میری زندگی میں میر ی زیارت کی ھے“۔

پیغمبر (ص)کے ساتھ حج

”عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ(ع) قَالَ:

إِنَّ زِیٰارَةَ قَبْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تَعْدِلُ حَجَّةً مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ مَبْرُورَةً۔ [101]

امام محمد باقر(ع) فرماتے ھیں :

”بلا شبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قبر کی زیارت (کاثواب) آنحضرت(ص) کے ساتھ کئے جانے والے ایک مقبول حج کے برابر ھے “۔

عاشقانہ زیارت

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):

مَنْ جٰاءَ نی زٰائِراً لایَعْمَلُہُ حٰاجَةً اِلاّٰ زِیٰارَتی، کَانَ حَقّاً عَلَیَّ اَنْ اَکُونَ لَہُ شَفیعاً یَوْمَ الْقِیٰامَةِ۔ [102]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

”جو شخص میری زیارت کو آئے اور میری زیارت کے علاوہ کوئی اور کا م نہ کرے تو مجھ پر یہ حق ھے کہ میں روز قیامت اس کی شفاعت کروں“ ۔

فرشتو(ع) کی ماموریت

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):

خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالیٰ لَیْ مَلَکَیْنِ یَرُدَّانِ السَّلاٰمَ عَلٰی مَنْ سَلَّمَ عَلَیَّ مِنْ شَرْقِ البِلاٰدِ وَغَرْبِھٰا،اِلاّٰ مَنْ سَلَّمَ :

عَلَیَّ فی دٰاری فَاِنّی اَرُدُّ عَلَیْہِ السَّلاٰمَ بِنَفْسی۔[103]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”خدا وند عالم نے میرے لئے دو فرشتے خلق فرمائے ھیں کہ جو شخص بھی مشرق ومغرب میں مجھے سلام کرتا ھے اور مجھ پر درود بھیجتا ھے وہ اس کا جواب دیتے ھیں مگر جو شخص میرے گھر آتا ھے اور مجھے سلام کرتا ھے تو میں خودا س کے سلام کا جواب دیتاهو ں “۔

مسجد النبی میں نماز

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):

صَلاٰةٌ فِي مَسْجِدِي ھَذَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ عَشَرَةَ آلاٰ فِ صَلاٰةٍ فِيغَیْرِہِ مِنَ الْمَسَاجِدِإِلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَإِنَّ الصَّلاٰةَ فِیہِ تَعْدِلُ مِائَةَ اٴَلْفِ صَلاٰةٍ۔[104]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”میری مسجد میں نماز دوسری مسجدوں میں پڑھی جانے والی دس ہزار نمازوں کے برابر ھے سوائے مسجد الحرام کے کہ

اس میں پڑھی جانے والے نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ھے “۔

جنت کا باغ

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):

مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ،وَمِنْبَرِي عَلَی تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ ۔[105]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ھے اور میرا منبر جنت کے دریچوں میں سے ایک دریچہ کے اوپر ھے “۔

حضرت فاطمہ (ع)پرسلام

یزید ابن عبد الملک نے اپنے باپ سے سنا کہ اس کے دادا کھتے تھے کہ میں حضرت فاطمہ زھرا (ع) کی خدمت میں حاضرهواآپ (ع)نے مجھے سلام کیا اور اس کے بعد دریافت کیاکہ تم کس لئے یھاں آئےهو؟میں نے عرض کی،برکت کی درخواست کرنے ۔

قَالَتْ:اٴَخْبَرَنِي اٴَبِي وَھُوَ ذَا ھُوَ اٴَنَّہُ مَنْ سَلَّمَ عَلَیْہِ وَعَلَيَّ ثَلاٰثَہَ اٴَیَّامٍ اٴَوْجَبَ اللّٰہُ لَہُ الْجَنَّةَ۔

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا:

”میرے بابا نے مجھے خبر دی ھے کہ :جوشخص ان(ص)پر اور مجھ پرتین روز سلام کرے خدا وند عالم اس پر جنت واجب کردیتا ھے “۔

قُلْتُ لَھَا:فِي حَیَاتِہِ وَحَیَاتِکِ قَالَتْ نَعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنَا۔[106]

”میں نے حضرت (ع)سے پوچھا :ان کی اورآپ (ع) کی حیات میں ؟ فرمایا: ھاں اور ھماری موت کے بعد بھی “۔

ائمہ (ع)پر سلام

قََالَ اٴَبُو جَعْفَرٍ(ع)،وَنَظَرَ النَّاسَ فِي الطَّوَافِ قَالَ:

اٴُمِرُوا اٴَنْ یَطُوفُوا بِھَذَا ثُمَّ یَاٴْتُونَافَیُعَرِّفوُنَا مَوَدَّتَھُمْ ثُمَّ یَعْرِضُوا عَلَیْنَا نَصْرَھُمْ“۔[107]

امام محمد باقر (ع) نے،اس وقت جب کہ آپ لوگوں کوطواف کرتےهوئے دیکھ رھے تھے فرمایا:

”ان کو حکم دیا گیا ھے کہ یھاں (کعبہ کے گرد)طواف کریں اور اس کے بعد ھمارے پاس آئیں اور اپنی دوستی اور محبت و نصرت ومدد کا ھم سے اظھارکریں اوراسے ھمارے سامنے پیش کریں “۔

شھیدوں پر سلام

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

إِنَّ فَاطِمَةَ علیھا السلام کَانَتْ تَاٴْتِي قُبُورَ الشُّھَدَاءِ فِي کُلِّ غَدَاةِ سَبْتٍ فَتَاٴْتِي قَبْرَ حَمْزَةَ وَ تَتَرَحَّمُ عَلَیْہِ وَتَسْتَغْفِرُ لَہُ۔[108]

امام جعفرصادق (ع)نے فرمایا:

”حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا:ھر سنیچر کی صبح کوشھیدا کی قبروں پر آتیں پھر جناب حمزہ کی قبر پر آتی تھیں اور ان کے لئے رحمت وبخشش کی دعا کر تی تھیں “ ۔

ائمہ (ع)کی زیارت

قَال الرضا(ع):

إِنَّ لِکُلِّ اِمامٍ عَہْداً في عُنُقِ اَوْلِیائِہِ وَشِیعَتِہِ

وَاِنَّ مِنْ تَمامِ الوَفاءِ بالعَھْدِ وَحُسْنِ الاٴدءِ زِیارَةُ قُبُورِھِمْ فَمَنْ زارَھُم رَغْبَةً في زیارَتِھِمْ وَ تَصْدیقاً بِما رَغبوا فیہِ کانَ ا ٴَئِمَّتُھُم شُفَعائَھُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ۔[109]

امام علی رضا (ع) نے فرمایا:

”ھر امام (ع)کاعھدان کے دوستوں اور چاہنے والوں کی گردن پر ھے کہ اس عھد کی مکمل وفا ان کی قبروں کی زیارت ھے پس جو شخص عشق و محبت کے ساتھ اور اس کی تصدیق کے ساتھ جس کی طرف وہ رغبت کرتے ھیں ان کی قبروں کی زیارت کرے تو ان کے ائمہ (ع)بھی قیامت میں اپنے ان زائروں کی شفاعت کریں گے “۔

مسجد قبا میں نماز

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :

الصَّلاٰةُ فی مَسْجِدِ قُبٰاءَ کَعُمْرَةٍ۔[110]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”مسجد قبامیں نماز پڑھنا ایک عمرہ انجام دینے کے مانند ھے “۔

دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے سلو ک

زَیْدٌ الشَّحَّامُ عَنِ الصَّادِق(ع)،اٴَنَّہُ قَالَ:”یَا زَیْدُ خَالِقُوا النَّاسَ بِاٴَخْلاٰقِھِمْ صَلُّوافِي مَسَاجِدِ ھِمْ وَعُودُوا مَرْضَاھُمْ وَاشْھَدُوا جَنَائِزَ ھُمْ وَإِنْ اسْتَطَعْتُمْ اٴَنْ تَکُونُوا الْاٴَ ئِمَّةَ وَالمُوٴَذِّنِینَ فَافْعَلُوا فَإِنَّکُمْ إِذَا فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا ھَوٴُلاٰءِ الْجَعْفَرِیَّةُ رَحِمَ اللّٰہُ جَعْفَراً مَا کَانَ اٴَحْسَنَ مَا یُوٴَدِّبُ اٴَصْحَابَہُ وَإِذَا تَرَکْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا ھَوٴُلاٰءِ الْجَعْفَرِیَّةُ فَعَلَ اللّٰہُ بِجَعْفَرٍ مَاکاَنَ اٴَسْوَاٴَ مَایُوٴَدِّبُ اٴَصْحَابَہُ۔[111]

”امام جعفر صادق (ع)نے زید شحّام سے فرمایا :اے زید!خود کو لوگوں کے اخلاق سے ھماہنگ کرو ،ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو،ان کی مسجد وں میں نماز اداکرو،ان کے پیماروں کی عیا دت کرو،ان کے جنازوں کی تشییع میں حاضرهو،اور اگربن سکو تو ان کے امام جماعت یا موذن بنو۔ کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ لوگ یہ کھیں گے کہ یہ لوگ جعفری(حضرت جعفر بن محمد علیھما السلام کی پیروی کرنے والے )ھیں خدا وند عالم جعفر (ره) پر رحمت نازل فرمائے اس نے ان لوگوں کی کیا اچھی تربیت کی ھے اور اگر ایسا نہ کروگے تو وہ لوگ کھیں گے کہ یہ جعفری ھیں ،خداوند عالم جعفر (ره)کے ساتھ ایسا ویسا کرے اس نے اپنے ماننے والوں کی کیا بُری تربیت کی ھے!!“۔

حاجیوں کا استقبال

عَنْ اٴبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:

”کَانَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع) یَقُولُ:یَا مَعْشَرَ مَنْ لَمْ یَحُجَّ اسْتَبْشِرُوا بِالْحَاجِّ وَصَافِحُوھُمْ وَ عَظِّمُوھُمْ فَإِنَّ ذَلِکَ یَجِبُ عَلَیْکُمْ تُشَارِکُو ہُمْ فِي الْاٴَجْرِ“۔[112]

امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:

”حضرت علی بن الحسین علیھما السلام ھمیشہ فرماتے تھے اے لوگو!جو حج پر نھیں گئےهو حاجیوں کے استقبال کے لئے جاوٴ، ان سے مصافحہ کرو،اور ان کا حترام کرو کہ یہ تم پر واجب ھے اس طرح تم ان کے ثواب میں شریکهوگے “۔

حاجیوں کے اھل خانہ کی مدد کا ثواب

قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع):مَنْ خَلَفَ حَاجّاً

فِی اٴَھْلِہِ وَمَالِہِ کاَنَ لَہُ کَاٴَجْرِہِ حَتَّی کَاٴَنَّہُ یَسْتَلِمُ الْاٴَحْجَارَ۔[113]

امام زین العابدین (ع) نے فرمایا:

”جو شخص حاجی کی عدم موجودگی میں اس کے اھل خانہ اور اس کے مال کی دیکھ بھال کرے تو اس کا ثواب اسی حاجی کے ثواب کے مانند ھے یھاں تک کہ گویا اس نے کعبہ کے پتھروں کو بوسہ دیا ھے “۔

مبارک هو

عَنْ یَحْیَی بْنَ یَسَارٍ قَالَ:حَجَجْنَا فَمَرَرْنَا بِاٴَبِی عَبْدِ اللّٰہِ(ع) فَقَالَ:

”حَاجُّ بَیْتِ اللّٰہِ وَزُوَّارُ قَبْرِ نَبِیِّةِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وَشِیعَةُ آلِ مُحَمَّدٍ(ع) ھَنِیئاً لَکُمْ۔[114]

یحییٰ بن یسار کھتے ھیں :

”ھم نے حج انجام دینے کے بعد امام جعفر صادق (ع) سے ملاقات کی، حضرت نے فرمایا:اللہ کے گھر کے حاجی قبر پیغمبر (ص) کے زائر اور شیعہٴ آل محمد(ص)(هونا تمھیں )مبارک هو“۔



[1] نھج البلاغہ :خ۱۔

[2] وسائل الشیعہ :۱۱/۱۵۔نھج البلاغہ :خ۱۔

[3] نھج البلاغہ :خ۱

[4] وسائل الشیعہ:۱۱/۱۵۔نھج البلاغہ:خ۱۔

[5] نھج البلاغہ :خ۱۔

[6] بحار الانوار :۷۵/۱۸۳۔

[7]وسائل الشیعہ :۱۱/۱۰۳۔علل الشرایع :۱/۴۱۱۔

[8] وسائل الشیعہ :۱۱/۱۰۹۔ثواب الاعمال:۲/۷۰۔

[9]وسائل الشیعہ :۱۱/۱۰۳۔علل الشرایع :۱/۴۱۱۔

[10] وسائل الشیعہ :۱۱/۱۰۳۔علل الشرایع :۱/۴۱۱۔

[11] وسائل الشیعہ :۱۱/۱۱۰۔تھذیب الاحکام :۵/۲۳۔

[12] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۶۲۰/۳۲۱۴۔

[13] مستدرک الوسائل :۸/۱۸۔،محجة البیضاء:۲/۱۴۵۔

[14] سنن ترمذی:۳/۱۷۵/۸۱۹۰۔ محجة البیضاء:۲/۱۴۵۔

[15] الکافی :۴/۲۶۲/۴۱۔

[16] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۲۳۵/۲۸۷۔

[17] امالی صدوق:۳۰۱/۳۴۲۔مستدرک الوسائل :۸/۳۹۔

[18] وسائل الشیعہ:۴/۱۱۶۔تحف العقول :۱۲۳۔

[19] خصال :۱۲۷/۔وسائل الشیعہ:۱۴/۵۸۶۔

[20] سنن نسائی:۵/۱۱۴۔

[21] معجم الکبیر طبرانی:۹/۴۴/۸۳۳۶۔

[22] الحج العمرة فی القرآن والحدیث :۱۴۸/۳۲۵۔

[23] کافی :۲/۵۱۰/۶

[24] مسند الامام زید:۱۹۷۔

[25] الحج العمرة فی القرآن والحدیث:۲۵۷/۷۱۸۔

[26] کافی:۴/۲۵۲/۲۔

[27] کافی:۴/۲۵۲/۱۔

[28] امالی صدوق:۴۴۲۔وسائل الشیعہ:۱۱/۱۴۵۔

[29] بحار الانوار:۹۳/۱۲۰۔

[30] کافی:۴/۲۸۶/۲۔

[31] سنن دار قطنی:۲/۲۸۴۔

[32] ثواب الاعمال :۷۴/۱۶۔

[33] تھذیب الاحکام :۵/۲۱/۵۹۔

[34] کافی:۴/۲۸۶/۳۔

[35] کافی:۴/۵۴۷/۳۴۔

[36] تھذیب الاحکام :۵/۲۳/۶۸۔

[37] تھذیب الاحکام :۵/۲۲۔

[38] عیون اخبار الرضا:۲/۲۵۸۔وسائل الشیعہ:۲/۳۱۴۔

[39] کافی:۴/۳۳۷/۳۔

[40] سنن ابن ماجہ:۲/۹۷۵/۲۹۲۱۔

[41] مستدرک الوسائل :۹/۱۷۷/۔سنن دارمی :۱/۴۶۲/۱۷۵۵۔

[42] عوالی اللّآلی:۲/۸۴/۲۲۷۔

[43] سورہٴ آل عمران آیت ۹۶۔

[44] کافی:۴/۲۲۶/۱۔

[45] کافی:۴/۵۸۶/۱۔

[46] کافی :۴/۴۰۱۔

[47] امالی طوسی:۳۶۹۔وسائل الشیعہ:۵/۲۸۲۔

[48] کافی :۴/۵۲۴/۱۔

[49] کافی:۴/۵۲۷۔

[50] وافی:۲/۱۸۲

[51] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۱۹۰۔علل الشرائع:۳۹۶و۳۹۸۔

[52] کافی۴/۲۴۰/۴۔

[53] کافی:۴/۲۴۰/۵۰۔

[54] کافی:۴/۲۴۰/۳۔

[55] کافی:۴/۲۴۰/۲۔

[56] کافی:۴/۲۷۱/۴۔

[57] وھی:۲۲۹۔

[58] قر ب الاسناد:۱۳۹/۴۹۶۔

[59] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۵۲۰۔غیبت شیخ طوسی:۳۶۳۔

[60] الحج والعمرة فی القرآن والحدیث:۱۰۲/۱۸۵۔

[61] تھذیب الاحکام :۵/۱۰۳/۳۳۔

[62] کافی:۴/۴۲۷/۱۔

[63] کنز العمال:۵/۵۴/۱۲۰۲۴۔

[64] کافی:۴/۴۰۹/۱۷۔

[65] کافی:۴/۴۰۵/۷۔

[66] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۳۲۶/۲۵۸۰۔

[67] مستدرک الوسائل :۹/۳۷۶۔تاریخ بغداد:۵/۳۶۹۔

[68] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۲۰۲/۲۱۳۸۔

[69] مسند ابن حنبل:۵/۲۵۶/۱۵۴۲۳۔

[70] سنن ابی داوٴد :۲/۱۷۹/۱۸۸۔

[71] کافی:۴,۴۲۸/۸۔

[72] کافی:۴/۲۴۱/۱۔

[73] تھذیب الاحکام :۵/۲۰/۵۷۔من لایحضرہ الفقیہ:۲/۲۰۲۔

[74] تاریخ دمشق:۴۱/۳۸۰۔

[75] کافی:۴/۵۴۵/۲۶۔

[76] محاسن :۲/۳۹۹/۲۳۹۵،کافی:۶/۳۸۷۔

[77] محاسن :۲۳۹۴۔

[78] کافی:۴/۲۱۰/۱۴۔

[79] الحج العمرة فی القرآن والحدیث:۱۰۷/۱۹۹۔

[80] علل الشرائع:۴۰۰۔

[81] مستدرک الوسائل :۹/۳۲۳۔تفسیر قمی:۱/۶۲۔

[82] اخبار مکہ ارزقی:۱/۳۳۸۔

[83] کافی:۴/۴۳۴/۳۔

[84] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۲۰۸/۲۱۶۸۔

[85] علل الشریع:۴۳۲۔وسائل الشیعہ:۱۳/۴۵۰

[86] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۴۱۷/۲۸۵۴۔

[87] مسنداحمد حنبل :۲/۶۹۲/۷۱۱۱۔

[88] معجم الکبیر طبرانی:۱۱/۴۵/۱۱۰۲۱۔

[89] کافی:۴/۲۶۲/۴۲۔

[90] علل الشرایع:۱/۴۳۷۔کنز الفوائد :۲/۸۲۔

[91] وسائل الشیعہ:۱۴/۱۶۶۔

[92] تھذیب الاحکام :۵/۲۴۳/۸۲۳۔

[93] مستدرک الوسائل :۱۰/۱۶۶۔

[94] تھذیب الاحکام:۵/۴۶۸/۱۶۴۰۔

[95] کافی:۴/۵۳۰/۱۔

[96] مستدرک الوسائل:۱۰/۱۶۵۔

[97] کافی:۴/۲۵۵/۱۱۔

[98] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۱۴۱/۶۴۔

[99] علل الشرایع:۱/۴۵۹۔

[100] معجم الاوسط طبرانی:۳/۳۵۱/۳۳۷۶۔

[101] وسائل الشیعہ:۱۴/۳۳۵۔کامل الزیارات:۴۷۔

[102] معجم الکبیر طبرانی:۱۲/۲۲۵/۱۳۱۴۹۔

[103] کنز العمال:۱۲/۲۵۶/۳۴۹۲۹۔

[104] کافی:۴/۵۵۶/۱۱ -،ثواب الاعما-ل۱/۵۰۔

[105] کافی:۴/۵۵۴/۳۔

[106] تھذیب الاحکام:۶/۹/۱۸۔

[107] مستدر ک الوسائل :۱۰/۱۸۹۔

[108] تھذیب الاحکام:۱/۴۶۵/۱۶۸۔

[109] کافی:۴/۵۶۷۔

[110] سنن ترمذی:۲/۴۵ا/۳۲۴۔

[111] وافی:۲/۱۸۲ -، من لایحضرہ الفقیہ:۱/۳۸۳۔

[112] کافی:۴/۲۶۴/۴۸۔

[113] محاسن :۱/۱۴۷/۲۰۶، -وسائل الشیعہ :۱۱/۴۳۰۔

[114] کافی:۴/۵۴۹۔

No comments: