اقوال حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
(۱)
قال الامام زین العابدین علیہ السلام:
اَلا و انّ ابغض الناس الی اللہ مَن یقتدی بسنّة امام ولا یقتدی باعمالھ“(۱)
ترجمہ:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں: ”آگاہ ھو جاؤ کہ خدا کے نزدیک منفور ترین شخص وہ ھے جو شیوھٴ امام (ع) کامعتقد تو ھو لیکن عملی سیرت کی پیروی نہ کرے “ ۔
(۲)
قال الامام زین العابدین علیہ السلام:
اناّ اھل بیت نطیع اللہ فیما نحب و نحمدہ فیما نکرہ “( ۲)
ترجمہ:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:
” ھم اھل بیت (ع) وہ ھیں جو ھر حال میں خدا سے راضی ھیں ،خوشگوار حالات میںاس کی اطاعت کرتے ھیں اور ناگوار حالت میں اسکی حمدو ثنا کرتے ھیں “ ۔
(۳)
قال الامام زین العابدین علیہ السلام:
و عمّرنی ما کان عمری بذلة فی طاعتک فاذا کان عمری مرتعا للشیطان
فاقبضنی الیک سریعاً“ (۳ )
ترجمہ:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:
” خدا یا میری عمر میں اضافہ کر تاکہ میری زندگی تیری اطاعت میں بسر ھو ۔اور جب بھی میری زندگی شیطان کی چرا گاہ بن جائے تو مجھے فوراً
ھی اپنے پاس بلا لے “ ۔
(۴)
قال الامام زین العابدین علیہ السلام:
و ایاک و مصاحبة القاطع لرحمہ فانہ وجدتہ ملعونا
فی کتاب اللہ عزوجلفی ثلاثة مواضع ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ (۴)
ترجمہ:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:
” جو شخص قطع رحم کرتا ھے اس کے پاس بیٹھنے سے پرھیز کرو اسلئے کہ قرآن مجید میں تین مقامات پر اس پر لعنت کی گئی ھے “ ۔
(۵)
قال الامام زین العابدین علیہ السلام:
” لا یقل عمل مع تقویٰ و کیف یقل ما یتقبل “ ( ۵)
ترجمہ:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”وہ کام جو خلوص کے ساتھ انجام دیا جائے بظاھر وہ کتنا ھی کم کیوں نہ ھو ، لیکن وہ کم نھیں ھے ، یہ کیسے ممکن ھے کہ جو عمل مقبول بارگاہ خدا ھو، وہ کم ھو “ ۔
(۶)
قال الامام زین العابدین علیہ السلام:
طلب الحوائج الی الناس مذلة للحیاة و مذھبة للحیاء
و استخفاف بالوقار وھو الفقر الحاضر “ (۶)
ترجمہ:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”لوگوں کے سامنے اپنی حاجت بیان کرنے سے ، زندگی ذلیل ، حیا ختم اور شخصیت سبک ھو جاتی ھے ، اور یہ ایک ایسا فقر ھے جسے انسان اپنے ھاتھوں سے فراھم کرتا ھے“۔
۷
(۷)
قال الامام زین العابدین علیہ السلام:
من عمل بما افترض اللہ علیہ فھو من اعبد الناس “ (۷)
ترجمہ:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”جو بھی اپنے فرائض کو انجام دے گا اسکا شمار عابد ترین لوگوں میں ھوگا “ ۔
(۸)
قال الامام زین العابدین علیہ السلام:
الرضی بمکروہ ا لقضا ارفع درجات الیقین “ (۸)
ترجمہ:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”قضائے نا خوشگوار پر راضی ھونا بالاترین مراتب یقین میں سے ھے “ ۔
(۹)
قال الامام زین العابدین علیہ السلام:
من کرمت علیہ نفسہ ھانت علیہ الدنیا “ ( ۹)
ترجمہ:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”جس نے اپنے نفس کو با کرامت بنا لیا دنیا اسکے نزدیک کچھ بھی نھیں ھے ۔
(۱۰)
قال الامام زین العابدین علیہ السلام:
من قنع بما قسم اللہ لہ ، فھو من اغنی الناس “ (۱۰)
ترجمہ:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:
” عطائے پروردگار پر جس نے قناعت کر لی اسکا شمار غنی ترین لوگوں میں ھے “ ۔
حوالہ
۱۔ الکافی ج۸ ص ۲۳۶،ح۳۱۲
۲۔کشف الغمہ ۲ ۱۰۳۰
۳۔ صحیفہ ٴ سجادیہ ص ۸۲۔الدعاء ۔۲۰
۴۔ اصول کافی ج ۲ ص ۳۷۷
۵۔سورہ محمد آیت ۲۲۔ سورہ رعد آیت ۲۴ ، سورہ بقرہ آیت ۲۷
۶۔ تحف العقول ص ۲۰۱
۷۔ وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۲۰۶
۸۔ تحف العقول ص ۴۸۸
۹۔تحف العقول ص ۴۸۸
۱۰۔ تحف العقول ص۴۸۸
امام زین العابدین (ع) کی وصیت
امام زین العابدین (ع)! میں تمہیں آخرت کی وصیت کررہا ہوں دنیا کی نہیں ، اس لئے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے، اس کی حرص تم خود ہی رکھتے ہو اور اس سے تم خود ہی وابستہ ہو۔
یہ دنیا گذرگاہ ہے اور آخرت قرار کی منزل ہے لہذا اس گذرگاہ سے وہاں کے لئے فراہم کرلو، اپنے پردہٴ حیا کو اس کے سامنے چاک نہ کرو جو تمھارے اسرار سے بھی باخبر ہے، اس دنیا سے اپنے دلوں کو نکال لو قبل اس کے کہ تمھارے جسموں کو نکالا جائے
( امالی صدوق (ر) روایت طاؤس یمانی)
۔
امام زین العابدین (ع) کے اخلاق وکمالات
مشاغل زندگی
واقعہ کربلا کے بعد 43برس امام العابدین علیہ السّلام نے انتھائی ناگوار حالات میں بڑے صبروضبط اور استقلال سے گزارے۔ اس تمام مدت میں آپ دنیا کے شور وشر سے علٰیحدہ صرف دومشغلوں میں رات دن بسر کرتے تھے . ایک عبادت خدا دوسرے اپنے باپ پر گریہ , یھی آپ کی مجلسیں تھیں جو زندگی بھر جاری رھیں . آپ جتنا اپنے والد بزرگوار کے مصائب کو یاد کرکے روئے ھیں دنیا میں اتنا کسی نے گریہ نھیں کیا , ھر ھر وقت پر آپ کو حسین علیہ السّلام کی مصیبتیں یاد آتی تھیں . جب کھانا سامنے آتا تھا تب روتے تھے . جب پانی سامنے آتا تھا تب روتے تھے , حسین علیہ السّلام کی بھوک وپیاس یاد آجاتی تھی تو اکثر اس شدت سے گریہ وزاری فرماتے تھے اور اتنی دیر تک رونے میں مصروف رھتے تھے کہ گھر کے دوسرے لوگ گھبراجاتے تھے . اور انھیں آپ کی زندگی کے لئے خطرہ محسوس ھونے لگتا تھا .ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ آخر کب تک رویئے گا تو آپ نے فرمایا کہ یعقوب نبی کے بارہ بیٹے تھے . ا یک فرزند غائب ھوگیا تو وہ اس قدر روئے کہ آنکھیں جاتی رھیں . میرے سامنے تو اٹھارہ عزیزواقارب جن کے مثل ونظیر دنیا میں موجود نھیں، قتل ھوگئے ھیں . میں کیسے نہ روؤں
یوں تو یہ رونا بالکل فطری تاثرات کی تحریک سے تھا مگر اس کے ضمن میں نھایت پر امن طریقہ سے حسین علیہ السّلام کی مظلومیت اور شھادت کاتذکرہ زندہ رھا اور امام زین العابدین علیہ السّلام کے غیر معمولی گریہ کے چرچے کے ساتھ شھادت حسین علیہ السّلام کے واقعات کاتذکرہ فطری طور سے لوگوں کی زبانوں پر آتا رھا جو دوسری صورت میں اس وقت حکومت ُ وقت کے مصالح کے خلاف ھونے کی بنا پر ممنوع قرار پاجاتا
اخلاق وکمالات
پیغمبر خدا ص کی مبارک نسل کی یہ خصوصیت تھی کہ بارہ افرد لگاتار ایک ھی طرح کے انسانی کمالات اور بھترین اخلاق واوصاف کے حامل ھوتے رھے جن میں سے ھر ایک اپنے وقت میں نوعِ انسانی کے لئے بھتر ین نمونہ تھا، چنانچہ اس سلسلہ کی چوتھی کڑی سیّد سجاد علیہ السّلام تھے جو اخلاق واوصاف میں اپنے بزرگوں کی یاد گار تھے . اگر ایک طرف صبر وبرداشت کا جو ھر وہ تھا جو کربلا کے آئینہ میں نظر ایا تو دوسری طرف حلم اور عفو کی صفت آپ کی انتھا درجہ پر تھی . آپ نے ان موقعوں پر اپنے خلاف سخت کلامی کرنے والوں سے جس طرح گفتگو فرمائی ھے اس سے صاف ظاھر ھے کہ آپ کاحلم اس طرح نہ تھا جیسے کوئی کمزور نفس والا انسان ڈر کر اپنے کو مجبور سمجھ کر تحمل سے کام لے بلکہ آپ عفو اور درگزر کی فضیلت پر زور دیتے ھوئے اپنے عمل سے اس کی مثال پیش کرتے تھے
ایک شخص نے بڑی سخت کلامی کی اور بھت سے غلط الفاظ آپ کے لیئے استعمال کیے . حضرت علیہ السّلام نے فرمایا , جو کچہ تم نے کھا اگر وہ صحیح ھے تو خدا مجھے معاف کرے اور اگر غلط ھے تو خدا تمھیں معاف کر دے . اس بلند اخلاقی کے مظاھرے کاایسا اثر پڑا کہ مخالف نے سر جھکا دیا اور کھا حقیقت یہ ھے کہ جو کچہ میں نے کھا وہ غلط ھی تھا۔
ایسے ھی دوسرے موقع پرا یک شخص نے آپ کی شان میں بھت ھی نازیبا لفظ استعمال کیا . حضرت نے اس طرح بے توجھی فرمائی کہ جیسے سنا ھی نھیں، اس نے پکار کے کھا کہ میں آپ کو کھہ رھا ھوں . یہ اشارہ تھا اس حکم قران کی طرف کہ خذالعفووامربالمعروف واعرض عن الجاھلین یعنی عفو کو اختیار کرو اچھے کاموں کی ھدایت کرو اور جاھلوں سے بے توجھی اختیار کرو .
آپ کی فیاضی اور خدمت خلق کاجذبہ ایسا تھا کہ راتوں کو غلہ اور روٹیاں اپنی پشت پر رکہ کر غریبوں کے گھروں پر لے جاتے تھے اور تقسیم کرتے تھے . بھت سے لوگوں کو خبر بھی نہ ھوتی کہ وہ کھاں سے پاتے ھیں اور کون ان تک پھنچاتا ھے جب حضرت کی وفات ھوئی اس وقت انھیں پتہ چلا کہ یہ امام زین العابدین علیہ السّلام تھے . عمل کی ان خوبیوں کے ساتھ علمی کمال بھی آپ کاایسا تھا جو دشمنوں کو بھی سرجھکانے پر مجبور کرتا تھا اور ان کو اقرار تھا کہ آپ کے زمانے میں فقہ اور علم دین کا کوئی عالم آپ سے بڑھ کر نھیں . ان تمام ذاتی بلندیوں کے ساتھ آپ دنیا کو یہ سبق بھی دیتے تھے کہ بلند خاندان سے ھونے پر ناز نھیں کرنا چاھیے
No comments:
Post a Comment