خطبہ منیٰ
دوسرا حکم
سلیم بن قیس اپنے بیان میں مزید فرماتے ہیں :جب کچھ مدت بعد خلیفہ ء ثالث کے بارے میں بہت زیادہ احادیث ہوگئیں تو معاویہ نے اپنے حکام کو یوں لکھا: حضرت عثمان کے بارے میں احادیث اب بہت زیادہ ہوگئی ہیں اور کافی حد تک مملکت ِاسلامی کے ہر کونے میں پہنچ گئی ہیں لہذا اس حکم نامے کے پہنچتے ہی لوگوں کو ترغیب دلاؤ کہ اصحاب اور پہلے دو خلفاء کے بار ے میں احادیث بیان کریں اور جو بھی کوئی حدیث یا فضیلت ابوتراب کے لئے منقول ہے اسی کی جیسی دوسرے اصحاب کے بارے میں نقل کریں۔ تمہارا یہ عمل میرے لئے پسندیدہ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہو گا اور ابوتراب اور ان کے حامیوں کو کچل دینے کا موجب ہو گا ۔ یہ خط اجتماعات میں پڑھ کر سنایا گیا اور اس کا مضمون عوام الناس کے درمیان نشر کردیا گیا ۔ فوری طور پر اصحاب کی فضیلت اور منقبت میں لاتعداد ا حادیث بیان کی جانے لگیں، جو سب کی سب جعلی اور گھڑی ہوئی تھیں ، لوگ ان احادیث کو بیان کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، یہاں تک کہ یہی جعلی احادیث ممبروں پر سے اور نمازوں کے خطبوں میں پڑھی جاتی تھیں اور مسلمانوں کو حکم دیا گیاتھا کہ یہی احادیث وہ اپنے بچوں کو بھی یاد کرائیں۔ اور یوں بچوں اور نوجوانوں کو بھی یہی احادیث سکھائی گئیں اور وہ انہیں آیات قرآن کی طرح حفظ کرتے تھے، یہاں تک کہ عورتوں ،بچیوں اور ملازموں تک کو یہ فضائل سکھادیئے گئے اور یہ سلسلہ مدت دراز تک جاری رہا ۔ خطبہ منیٰ
تیسرا اور چوتھا حکم
سلیم بن قیس مزید کہتے ہیں : معاویہ اور اس کے کارندوں کا یہ طریقہ ء کار اسی طرح جاری رہا ،یہاں تک کہ کچھ عرصے کے بعد معاویہ نے اپنے حاکموں اور کارندوں کے لئے تیسرا حکم نامہ ارسال کیا، جس کا مضمون کچھ یوں تھا : پوری کوشش کرو کہ جس کسی پر بھی علی اور آل علی کی دوستی کا الزام ہو اور اس الزام پر کوئی معمولی سی بھی دلیل مل جائے تواس شخص کا نام وظیفہ وانعام لینے والوں کی فہرست میں سے خارج کر دو، اور بیت المال میں سے اسے حصہ دینا بھی بند کردو ۔ اس حکم نامے کے فوراً بعد ایک اور حکم نامہ صادر کیا گیا، جس کا مضمون یہ تھا کہ: جس شخص پر علی کے خاندان کے ساتھ محبت کا الزام ہو، اس کے ساتھ شدید سختی کرو اور اس کا گھر اسی پر گرا دو تا کہ دوسرے اس سے عبرت حاصل کریں ۔ سلیم بن قیس کہتے ہیں کہ اہل عراق خاص کر اہل کوفہ نے اس سے بڑی مصیبت نہ دیکھی تھی ۔کیونکہ اس حکم کے بعد گورنروں اور حاکموں کی سختیوں کے نتیجے میں شیعوں پر غیر معمولی خوف و ہراس طاری ہوگیا ۔یہاں تک کہ بعض اوقات جب شیعیان علی سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے تو صاحب خانہ اپنے غلاموں اور ملازموں کے خوف سے اپنے مہمان سے کوئی بات کرنے پر تیار نہ ہوتا تھا ،مگر یہ کہ پہلے ان ملازموں سے عہد وپیمان لیتے تھے کہ ان کا راز فاش نہیں کریں گے۔ اس طرح علی اور خاندان علی کی مذمت میں جعلی احادیث وجود میں آئیں اور محدثین، قاضی اور حکام انہی جعلی احادیث کی پیروی کرتے تھے۔ اس سلسلے میں بدترین لوگ وہ ریا کار ا ور منافق محدث (راوی) تھے جو بظاہر صاحب ایمان اور عبادت گزار تھے لیکن جاہ ومقام اور دنیاوی مال ومنال حاصل کرنے کے لئے جعلی احادیث گھڑتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جعلی اور من گھڑت جھوٹی احادیث ان دیندار اور پرہیز گار افراد تک بھی پہنچیں جو خود تو جھوٹ اور الزام سے بچنا چاہتے تھے لیکن اپنے حسن ظن اور سادہ لوحی کے نتیجے میں ان جعلی روایات کو قبول کرلیتے تھے اورانہیں دوسروں کے سامنے نقل کرتے تھے، جبکہ اگر وہ ان کے جعلی ہونے سے واقف ہوتے تو ہرگز انہیں نقل نہ کرتے ۔(۱) سلیم بن قیس مزید فرماتے ہیں (معاویہ کے آنے کے بعد سے )یہ ظلم وستم اسی طرح ۱ ۔کتاب سلیم بن قیس (مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ) ص ۲۰۶ ۔ یہی باتیں ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح ۔ ج ۱۱ ۔ ص ۴۶ ۔ ۴۴ میں ابوالحسن مدائنی (وفات ۲۲۵ھ)کی کتاب ((الاحداث ))سے نقل کی ہیں ۔ جاری و ساری رہا لیکن امام حسن کی شہادت کے بعد(۱)ان مصیبتوں اور مشکلات میں مزید سختی آگئی اورمحبانِ اہل بیت مستقل خوف وہراس اور شدید دہشت میں زندگی بسر کرنے لگے۔ کیونکہ یا تو وہ قتل کردیئے جاتے تھے یا زیر زمین اور اپنا گھر بار ترک کر کے دور افتادہ مقامات پر زندگی گزارتے تھے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں دشمنانِ اہل بیت خود کو ہر لحاظ سے برتر اور ظلم وستم اور بدعتوں کے رواج میں آزاد پاتے تھے ۔ خطبہ منیٰ
کن حالات میں خطبہ دیا گیا
سلیم کہتے ہیں :ان حالات میں معاویہ کی موت سے دوسال پہلے(۲) اما م حسین نے حج کاارادہ کیا اور عبدالله ا بن عباس اور عبدالله ابن جعفر کو اپنے ہمسفر کے طور پرمنتخب کیا۔ مکہ مکرمہ میں بنی ہاشم کے مردوں اور عورتوں اور انصار کے ان افراد کو جنھیں خود امام حسین یابنی ہاشم پہچانتے تھے دعوت دی گئی اور ان افراد کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ صحابہء کرام اور تابعین میں سے صالح اور ذمہ دار افراد کو منیٰ میں منعقد ہونے والے اس جلسے کی دعوت دیں۔ اور جب یہ افراد، جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی (۳)منیٰ میں امام حسین علیہ السلام کے خیمے میں جمع ہوگئے تو امام نے خطبے کا آغاز کیا اور خداوند متعال کی حمد وثناء کے بعد فرمایا : آپ لوگ اس ظلم وستم سے بخوبی آگاہ ہیں اور اسکا خود مشاہدہ کر رہے ہیں جو اس ظالم وجابر حکومت نے ہم پر اور ہمارے شیعوں پر روا رکھا ہواہے۔ میں یہاں (اپنے والد کے بارے میں) کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، اگر یہ باتیں صحیح ہوں توآپ میری تصدیق کیجئے ۱۔۵۰ھ میں امام حسن کی شہادت واقع ہوئی ۔ ۲۔ کتاب سلیم کے بعض نسخوں میں سنة (ایک سال)اور بعض میں سنتین(دو سال) لکھا ہے لیکن طبرسی کی احتجاج میں سنتین (دو سال) تحریر ہے ۔ ۳۔ طبرسی نے شرکاء کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بیان کی ہے (اکثر من الف رجل) گا اور اگر غلط ہوں تو قبول نہ کیجئے گا۔ میری باتیں سنئے، انہیں لکھ لیجئے اور جو کچھ عرض کروں اسے ذہنوں میں محفوظ کرلیجئے گا اور جب اپنے اپنے علاقوں کو واپس جائیں تو جو کچھ سنا ہے اسے اپنی قوم وقبیلے کے معتبر افراد اور اپنے قابل اعتماد دوستوں اور جاننے والوں تک پہنچائیے گا۔ کیونکہ مجھے خوف لا حق ہے کہ کہیں یہ حقائق چھپ نہ جائیں اور مذہب حق مٹ نہ جائے والله متم نورہ و لوکرہ الکافرون (اور الله اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے، چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ سورہ صف ۶۱ ۔ آیت ۸) سلیم کہتے ہیں کہ امام نے اپنی گفتگو ختم کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر خدا کی قسم کھا کر تاکید کی کہ اپنے اپنے علاقوں میں واپسی پر اپنے قابل اعتمادافراد تک میری یہ گفتگو پہنچائیے گا ۔ پھر آپ ممبر سے نیچے تشریف لے آئے اور حاضرین بزم امام سے اس پیغام کو پہنچانے کا وعدہ کرکے متفرق ہوگئے ۔ خطبہ منیٰ
خطبہ کے متن کا پہلا حصہ
(امیر المومنین کے فضائل کا بیان) اس کے بعد سلیم بن قیس نے امام علیہ السلام کے خطبے کا پہلا حصہ جو امیرالمومنین اور اہل بیت علیہم السلام کے فضائل پر مشتمل ہے یوں نقل کیا ہے : بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبی طٰالبٍ کٰانَ اَخٰا رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ اَخیٰ بَیْنَ اَصْحٰابِہِ فَاَخیٰ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ نَفْسِہِ وَ قٰالَ : اَنْتَ أَخی وَ اَنٰا اَخُوْکَ فی الدُّنْیٰا وَ اْلآخِرَةِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ ھَلْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللٰہِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اِشْتَریٰ مَوْضِعَ مَسْجِدِہِ وَ مَنٰازِلِہِ فَابْتَنٰاہُ ثَمَّ ابْتَنیٰ فِیہِ عَشَرَةَ مَنٰازِلَ تِسْعَةً لَہُ وَ جَعَلَ عٰاشِرَھٰا فِی وَسَطِھٰا ِلاَبِی ثُمَّ سَدَّ کُلَّ بٰابٍ شٰارِعٍ اِلَی الْمَسْجِدِ غَیْرَ بٰابِہِ فَتَکَلَّمَ فی ذٰلِکَ مَنْ تَکَلَّمَ فَقٰالَ : مٰا اَنٰا سَدَدَْتُ اَبْوٰابَکُمْ وَ فَتَحْتُ بٰابَہُ وَ لَکِنَّ اللهَ اَمَرَنی بِسَدِّ اَبْوابِکُمْ وَ فَتْحِ بٰابِہِ ثُمَّ نَھی النّٰاسَ اَنْ یَنٰاموْا فی الْمسْجِدِ غَیْرَہُ، وَ کٰانَ یُجْنِبُ فی الْمسْجِدِ وَ مَنْزِلہُ فی مَنْزِلِ رَسُوْلِ اللهِ-صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَوُلدَ لِرَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - وَ لَہُ فیْہِ اوْلاٰدٌ ؟ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ فَتَعْلَمُوْنَ اَنّ عُمَرَ بْنَ الْخَطّٰابِ حَرِصَ عَلیٰ کُوَّةٍ قَدْرَ عَیْنِہِ یَدَعُھٰا فی مَنزِلِہِ اِلیٰ الْمَسْجِدِ فَاَبیٰ عَلَیْہِ ثُمَّ خَطَبَ فَقٰالَ : اِنَّ اللٰہَ اَمَرَنِی اَنْ اَبْنِیَ مَسْجِداً طٰاھِراً لاَ یُسْکِنُہُ غَیْری وَ غَیْرُ اَخِیْ وَ بَنِیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - نَصَبَہُ یَوْمَ غَدِیْرِ خُمٍّ فَنٰادیٰ لَہُ بِالْوِلاٰیَةِ وَ قٰالَ : لِیُبَلِّغِ الشّٰاھِدُ الْغٰایِبَ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ لَہُ فی غَزْوَةِ تَبُوْکَ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُوْمِنٍ بَعْدِی قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ دَعٰا النَّصٰارٰی مِنْ اَھْلِ نَجْرٰانَ اِلٰی الْمُبٰاھَلَةِ لَمْ یَأتِ اِلاَّ بِہِ وَ بِصٰاحِبَتِہِ وَ ابْنَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ دَفَعَ اِلَیْہِ اللِّوٰاءَ یَوْمَ خَیْبَرَ ثُمَّ قٰالَ : لأَدْفَعَہُ اِلیٰ رَجُلٍ یُحِبُّہُ اللهُ وَ رَسُوْلُہُ وَ یُحِبُُّ اللهَ وَ رَسُوْلَہُ کَرّٰارٌ غَیْرُ فَرّٰارٍ یَفْتَحُھا اللهُ عَلیٰ یَدَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ بَعَثَہُ بِبَرٰائَةٍ وَ قٰالَ : لاٰ یَبْلُغُ عَنِیّ اِلاّٰ انٰا اَوْ رَجُلٌ مِنِّی قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - لَمْ تَنْزِلْ بِہِ شِدَّةٌ قَطُّ اِلاّٰ قَدَّمَہُ لَھٰا ثِقَةً بِہِ وَ اَنَّہُ لَمْ یَدْعُہُ بِاسْمِہِ قَطُّ اِلاٰ یَقُوْلُ یٰا اَخِیْ وَ ادْعُوْا لِیْ اَخِیْ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قَضٰی بَیْنَہُ وَ بَیْنَ جَعْفَرٍ وَ زَیْدٍ فَقٰالَ : یٰا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْکَ وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِِّ مُوْمِنٍ بَعْدِیْ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ کٰانَتْ لَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - کُلَّ یَوْمٍ خَلْوَةٌ وَ کُلَّ لَیْلَةٍ دَخْلَةٌ اِذا سَئَلَہُ اَعْطٰاہُ وَ اِذٰا سَکَتَ أَبْدٰاہُ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَضَّلَہُ عَلیٰ جَعْفَرٍ وَ حَمْزَةٍ حِیْنَ قٰالَ : لِفٰاطِمَةَ - عَلَیْھٰا السَّلاٰمُ - زَوَّجْتُکِ خَیْرَ اَھْلَ بَیْتِیْ اَقْدَمَھُمْ سِلْماً وَ اَعْظَمُھُمْ حِلْماً وَ اَکْثَرُھُمْ عِلْماً قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ : اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ بَنِیْ آدَمَ وَ اَخِیْ عَلِیٌّ سَیِّدُ الْعَرَبِ وَ فٰاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسآءِ اَھْلِ الْجَنَّةِ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدٰا شَبٰابِ اَھْلِ الْجَنَّةِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللٰہُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اَمَرَہُ بِغُسْلِہِ وَ اَخْبَرَہُ اَنَّ جَبْرَئِیْلَ یُعِیْنُہُ عَلَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ فِیْ آخِرِ خُطْبَةٍ خَطَبَھٰا اِنِّیْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثِّقْلَیْنِ کِتٰابَ اللٰہِ وَ اَھْلَ بَیْتی فَتَمَسَّکُوْا بِھِمٰا لَنْ تَضِلُّوْا قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ ثُمَّ نٰاشَدَھُمْ اَنَّھُمْ قَدْ سَمِعُوْہُ یَقُوْلُ مَنْ زَعَمَ اَنَّہُ یُحِبُّنِیْ وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقَدْ کَذِبَ لَیْسَ یُحِبُّنِی وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقٰالَ لَہُ قٰائِلٌ : یٰا رَسُوْلَ اللهِ وَ کَیْفَ ذٰلِکَ؟ قٰالَ : لاَِنَّہُ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْہُ مَنْ اَحَبَّہُ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ فَقَدْ اَحَبَّ اللهَ وَ مَنْ اَبْغَضَہُ فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضَنِیْ فَقَدْ اَبْغَضَ اللهَ فَقٰالُوْا : اللَّھُمَّ نَعَمْ قَدْ سَمِعْنٰا … اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبی طٰالبٍ کٰانَ اَخٰا رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ اَخیٰ بَیْنَ اَصْحٰابِہِ فَاَخیٰ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ نَفْسِہِ وَ قٰالَ : اَنْتَ أَخی وَ اَنٰا اَخُوْکَ فی الدُّنْیٰا وَ اْلآخِرَةِ (۱) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ (امام حسین نے فرمایا)تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نہیں جانتے ہو ہے کہ جب رسول الله نے اپنے اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا تو اس وقت آنحضرت ۱۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب۔ حدیث نمبر ۳۸۰۴ ، اسدالغابہ ۔ج ۳ ۔ص ۱۶ نے علی ابن ابی طالب کو اپنا بھائی قرار دیاتھااورفرمایا تھا کہ دنیا اور آخرت میں تم میرے اور میں تمہارا بھائی ہوں۔ (سامعین نے)کہا : بارالہا ! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ ھَلْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اِشْتَریٰ مَوْضِعَ مَسْجِدِہِ وَ مَنٰازِلِہِ فَابْتَنٰاہُ ثَمَّ ابْتَنیٰ فِیہِ عَشَرَةَ مَنٰازِلَ تِسْعَةً لَہُ وَ جَعَلَ عٰاشِرَھٰا فِی وَسَطِھٰا ِلاَبِی ثُمَّ سَدَّ کُلَّ بٰابٍ شٰارِعٍ اِلَی الْمَسْجِدِ غَیْرَ بٰابِہِ (۱) فَتَکَلَّمَ فی ذٰلِکَ مَنْ تَکَلَّمَ فَقٰالَ : مٰا اَنٰا سَدَدَْتُ اَبْوٰابَکُمْ وَ فَتَحْتُ بٰابَہُ وَ لَکِنَّ اللهَ اَمَرَنی بِسَدِّ اَبْوابِکُمْ وَ فَتْحِ بٰابِہِ ثُمَّ نَھی النّٰاسَ اَنْ یَنٰاموْا فی الْمسْجِدِ غَیْرَہُ، وَ کٰانَ یُجْنِبُ فی الْمسْجِدِ (۲) وَ مَنْزِلہُ فی مَنْزِلِ رَسُوْلِ اللهِ-صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَوُلدَ لِرَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - وَ لَہُ فیْہِ اوْلاٰدٌ ؟ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کے پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله نے اپنی مسجد اور اپنے گھروں کے لئے جگہ خریدی۔ پھرمسجد تعمیر کی اور اس میں دس گھر بنائے۔ نو گھر اپنے لئے اور دسواں وسط میں میرے والد کے لئے رکھا۔ پھر میرے والد کے دروازے کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دیئے۔ اور جب اعتراض کرنے والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا : میں نے نہیں تمہارے دروازے بند کئے اور علی کا دروازہ کھلارکھا، ۱۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب حدیث نمبر۳۸۱۵، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱ ، ج ۲ ۔ ص ۲۶ ۲ ۔سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۸۱۱، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱ بلکہ الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بند کروں اور ان کادروازہ کھلا رکھوں۔ اس کے بعد نبی اکرم نے علی کے سوا تمام افراد کو مسجد میں سونے سے منع فرمایا۔ چونکہ حضرت علی کا حجرہ مسجد میں رسول الله کے حجرے کے ساتھ ہی تھا (لہذا) علی مسجد میں مجنب ہوتے تھے۱ور اسی حجرے میں نبی اکرم اور علی کے لئے الله تعالی نے اولاد یں عطا کیں؟ (سامعین نے) کہا : بارالہا ! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ فَتَعْلَمُوْنَ اَنّ عُمَرَ بْنَ الْخَطّٰابِ حَرِصَ عَلیٰ کُوَّةٍ قَدْرَ عَیْنِہِ یَدَعُھٰا فی مَنزِلِہِ اِلیٰ الْمَسْجِدِ فَاَبیٰ عَلَیْہِ ثُمَّ خَطَبَ فَقٰالَ : اِنَّ اللٰہَ اَمَرَنِی اَنْ اَبْنِیَ مَسْجِداً طٰاھِراً لاَ یُسْکِنُہُ غَیْری وَ غَیْرُ اَخِیْ وَ بَنِیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ عمر بن خطاب کو بڑی خواہش تھی کہ ان کے گھر کی دیوار میں ایک آنکھ کے برابر سوراخ رہے جو مسجد کی طرف کھلتا ہو لیکن نبی نے انہیں منع کر دیا۔ اور خطبے میں ارشاد فرمایا : الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ پاک و پاکیزہ مسجد بناؤں لہذا میرے ، میرے بھائی (علی) اور ان کی اولاد کے سوا کوئی (اور شخص مسجدمیں) نہیں رہ سکتا۔ (سامعین نے) کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - نَصَبَہُ یَوْمَ غَدِیْرِ خُمٍّ فَنٰادیٰ لَہُ بِالْوِلاٰیَةِ (۱) وَ قٰالَ : لِیُبَلِّغِ الشّٰاھِدُ الْغٰایِبَ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی کو بلند کیا اور انہیں مقام ولایت پر نصب کرنے کا ۱ مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۰۹، ۱۳۴ اعلان فرمایا۔ اور کہا کہ یہاں حاضرلوگ اس واقعے کی اطلاع یہاں غیر موجود لوگوں تک پہنچا دیں؟ (سامعین نے )کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ لَہُ فی غَزْوَةِ تَبُوْکَ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی(۱) وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُوْمِنٍ بَعْدِی (۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہارے علم میں ہے کہ رسول الله نے غزوئہ تبوک کے موقع پر علی سے فرمایا : تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسٰی کے لئے ہارون اور (فرمایا) تم میرے بعد تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہوگے۔ (سامعین نے) کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ دَعٰا النَّصٰارٰی مِنْ اَھْلِ نَجْرٰانَ اِلٰی الْمُبٰاھَلَةِ لَمْ یَأتِ اِلاَّ بِہِ وَ بِصٰاحِبَتِہِ وَ ابْنَیْہِ (۳) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا: تمہیں الله کی قسم دے کر پوچھتاہوں کہ جب رسول الله نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلے کی دعوت دی، تو اپنے ساتھ، سوائے علی، ان کی زوجہ اور ان کے دو بیٹوں کے کسی اور کو نہیں لے کر گئے؟ (سامعین نے )کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ ۱۔ صحیح مسلم ۔ ج ۴ ۔ حدیث نمبر۲۴۰۴، سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۸۰۸ اور ۳۸۱۳، سنن ابن ماجہ ۔ مقدمہ۔ حدیث نمبر ۱۱۵، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۰۹ اور ۱۳۳ ۲۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب ۔ حدیث نمبر ۳۷۹۶، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱ ۳۔ سنن ترمذی۔ ج ۵ ، المناقب۔ حدیث نمبر ۳۸۰۸، مستدرک صحیحین۔ ج ۳ ۔ ص ۱۵۰ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ دَفَعَ اِلَیْہِ اللِّوٰاءَ یَوْمَ خَیْبَرَ ثُمَّ قٰالَ : لأَدْفَعَہُ اِلیٰ رَجُلٍ یُحِبُّہُ اللهُ وَ رَسُوْلُہُ وَ یُحِبُُّ اللهَ وَ رَسُوْلَہُ(۱) کَرّٰارٌ غَیْرُ فَرّٰارٍ یَفْتَحُھا اللهُ عَلیٰ یَدَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله نے جنگ خیبرکے دن (لشکر اسلام کا) پرچم حضرت علی کے سپرد کیا اور فرمایا کہ میں پرچم اس شخص کے سپرد کر رہا ہوں جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور وہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ ایسا حملہ کرنے والا (کرار) ہے کہ کبھی پلٹتا نہیں ہے (غیرفرار) اور خدا قلعہ خیبرکو اس کے ہاتھوں فتح کرائے گا۔(سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ بَعَثَہُ بِبَرٰائَةٍ وَ قٰالَ : لاٰ یَبْلُغُ عَنِیّ اِلاّٰ انٰا اَوْ رَجُلٌ مِنِّی(۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی کو سورئہ برائت دے کر بھیجا اور فرمایا کہ میرا پیغام پہنچانے کا کام خود میرے یا ایسے شخص کے علاوہ جو مجھ سے ہو اور کوئی انجام نہیں دے سکتا۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - لَمْ تَنْزِلْ بِہِ شِدَّةٌ قَطُّ اِلاّٰ قَدَّمَہُ لَھٰا ثِقَةً بِہِ وَ اَنَّہُ لَمْ یَدْعُہُ بِاسْمِہِ قَطُّ ۱۔ سنن ترمذی ۔ حدیث نمبر۲۸۰۸، ۳۸۰۸، ۲۴۰۵، ۲۴۰۶، صحیح مسلم ۔ ج ۴۔ حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ۔ مقدمہ ۔ حدیث نمبر ۱۱۷ ۲۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر ۳۸۰۳ اِلاٰ یَقُوْلُ یٰا اَخِیْ وَ ادْعُوْا لِیْ اَخِیْ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول الله کو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آنحضرت حضرت علی پر اپنے خاص اعتمادکی وجہ سے انہیں آگے بھیجتے تھے اور کبھی انہیں ان کے نام سے نہیں پکارتے تھے ، بلکہ اے میرے بھائی کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔ (سامعین نے) کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قَضٰی بَیْنَہُ وَ بَیْنَ جَعْفَرٍ وَ زَیْدٍ فَقٰالَ : یٰا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْکَ وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِِّ مُوْمِنٍ بَعْدِیْ (۱) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی، جعفر اور زید کے درمیان فیصلہ سناتے وقت فرمایا : اے علی! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور میرے بعد تم تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہو گے۔ (سامعین نے) کہا :بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ کٰانَتْ لَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - کُلَّ یَوْمٍ خَلْوَةٌ وَ کُلَّ لَیْلَةٍ دَخْلَةٌ اِذا سَئَلَہُ اَعْطٰاہُ وَ اِذٰا سَکَتَ أَبْدٰاہُ (۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ (حضرت علی) ہر روز، ہرشب تنہائی میں رسول الله سے ملاقات کرتے تھے۔ اگر علی سوال کرتے تو نبی اکرم اس کا جواب دیتے اور اگر علی خاموش رہتے تو نبی خود سے گفتگو کا آغاز کرتے۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا ۱۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۷۹۶ ۱ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب۔ حدیث نمبر۳۸۰۶ کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَضَّلَہُ عَلیٰ جَعْفَرٍ وَ حَمْزَةٍ حِیْنَ قٰالَ : لِفٰاطِمَةَ - عَلَیْھٰا السَّلاٰمُ - زَوَّجْتُکِ خَیْرَ اَھْلَ بَیْتِیْ اَقْدَمَھُمْ سِلْماً وَ اَعْظَمُھُمْ حِلْماً وَ اَکْثَرُھُمْ عِلْماً (۱) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تمہیں علم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر حضرت علی کو جعفر طیار اور حمزہ (سید الشہدا) پر فضیلت دی ،جب حضرت فاطمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں نے اپنے خاندان کے بہترین شخص سے تمہاری شادی کی ہے ، جو سب سے پہلے اسلام لانے والا، سب سے زیادہ حلیم وبردبار اور سب سے بڑھ کر علم و فضل کا مالک ہے۔(سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ : اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ بَنِیْ آدَمَ وَ اَخِیْ عَلِیٌّ سَیِّدُ الْعَرَبِ(۲) وَ فٰاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسآءِ اَھْلِ الْجَنَّةِ(۳) وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدٰا شَبٰابِ اَھْلِ الْجَنَّةِ (۴) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سیدوسردار ہوں ، میرا بھائی علی عربوں کا سردار ہے، فاطمہ تمام اہل جنت خواتین کی رہبر ہیں اور میرے بیٹے حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔ (سامعین نے) کہا: ۱۔ نظم درر السمطین۔ ص ۱۲۸نقل از احقاق الحق ۔ ج ۴ ۔ ص ۳۵۹ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۔ ج ۹ ۔ ص ۱۷۴ ۲۔ مستدرک صحیحین ۔ ج ۳۔ ص ۱۲۴ ۳۔مستدرک ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۵۱ ۴۔ سنن ابن ماجہ ۔ مقدمہ ۔ حدیث نمبر۱۱۸، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۶۷ بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللٰہُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اَمَرَہُ بِغُسْلِہِ وَ اَخْبَرَہُ اَنَّ جَبْرَئِیْلَ یُعِیْنُہُ عَلَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا :کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے حضرت علی کو حکم دیا کہ وہی ان کے جسد اقدس کو غسل دیں اور فرمایا کہ جبرئیل اس کام میں ان کے معاون و مددگار ہوں گے۔ (سامعین نے )کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ فِیْ آخِرِ خُطْبَةٍ خَطَبَھٰا اِنِّیْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثِّقْلَیْنِ کِتٰابَ اللٰہِ وَ اَھْلَ بَیْتی فَتَمَسَّکُوْا بِھِمٰا لَنْ تَضِلُّوْا (۱) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا : میں تمہارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ الله کی کتاب اور میرے اہل بیت۔ ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہو تاکہ گمراہ نہ ہو جاؤ۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ ثُمَّ نٰاشَدَھُمْ اَنَّھُمْ قَدْ سَمِعُوْہُ یَقُوْلُ مَنْ زَعَمَ اَنَّہُ یُحِبُّنِیْ وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقَدْ کَذِبَ لَیْسَ یُحِبُّنِی وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقٰالَ لَہُ قٰائِلٌ : یٰا رَسُوْلَ اللهِ وَ کَیْفَ ذٰلِکَ؟ قٰالَ : لاَِنَّہُ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْہُ مَنْ اَحَبَّہُ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ فَقَدْ اَحَبَّ اللهَ وَ مَنْ اَبْغَضَہُ فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضَنِیْ فَقَدْ اَبْغَضَ اللهَ (۲) فَقٰالُوْا : اللَّھُمَّ نَعَمْ ۱۔صحیح مسلم ۔ ج ۴ ۔ حدیث نمبر۲۴۰۸، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۴۸، مسند احمد ابن حنبل ۔ ج ۳ ۔ص ۱۴ اور ج ۴۔ ص ۳۶۷ ۲۔ صحیح مسلم ، حدیث نمبر۱۳۱، سنن ابن ماجہ۔ مقدمہ۔ حدیث نمبر۱۱۴ قَدْ سَمِعْنٰا … (اس کے بعد جب امیر المومنین کے فضائل پر مشتمل امام کی گفتگو اختتام کو پہنچنے لگی تو) آپ نے سامعین کو خداکی قسم دے کر کہا کہ کیا انہوں نے رسول الله سے یہ سنا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، جبکہ علی کا بغض اس کے دل میں ہوتو وہ جھوٹا ہے، ایسا شخص جو علی سے بغض رکھتا ہو، مجھ سے محبت نہیں رکھتا۔ (اس موقع پر) کسی کہنے والے نے کہا کہ یا رسول الله یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟رسول الله نے فرمایا : کیونکہ وہ (علی)مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے الله سے محبت کی اور جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے الله سے دشمنی کی ۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ سلیم بن قیس کہتے ہیں : امام حسین نے اس موقع پر مذکورہ بالا فضائل کے علاوہ بھی حضرت علی اور خاندان علی کے بارے میں قرآن میں ذکر ہونے والے یانبی اکرم سے سنے جانے والے متعدد فضائل بیان کئے اور حاضرین میں سے جو لوگ رسول کے صحابی تھے وہ کہتے تھے خدا کی قسم ہم نے خودنبی اکرم سے سنا ہے اور جو تابعین تھے وہ کہتے تھے ہم نے بھی یہ فضیلت فلاں معتبر اور قابل اعتماد صحابی سے سنی ہے۔ امام حسین نے منیٰ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا اور جسے سلیم بن قیس نے نقل کیا ہے، اس کا پہلا حصہ یہاں ختم ہوا اور جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا خطبے کا یہ حصہ حضرت علی کے فضائل پر مشتمل تھا اور ان میں سے ہر ایک فضیلت اہل سنت کی معتبر کتب حدیث میں انہی کے راویوں کے توسط سے رسول الله سے منقول ہے اور ہم نے ان فضائل میں سے اکثرکے حوالہ جات اہل سنت کی معتبر صحاح ستہ ( چھے معتبر کتابوں) اور دیگر مستند کتب سے نقل کر کے حاشیے (Foot Note) میں تحریر کئے ہیں۔ چونکہ اس حصے میں مزید کسی تشریح کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی لہذا اب خطبے کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں۔ خطبہ منیٰ
خطبہ کے دوسرے حصہ کا متن
(امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت) جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا، یہ خطبہ تین علیحدہ علیحدہ حصوں پر مشتمل ہے۔ ترجمے اور اصل عبارت کو ایک دوسرے سے نزدیک رکھنے کی غرض سے، ہم پہلے حصے کی طرح اس حصے اور اگلے حصے کو بھی علیحدہ علیحدہ درج کریں گے، اگرچہ حدیث کی اکثر کتابوں میں یہ دونوں حصے ایک ساتھ ملا کر نقل کئے گئے ہیں۔ امام نے فرمایا : اِعْتَبِرُوْا اَیُّھا النّٰاسُ بِمٰا وَعَظَ اللّٰہُ بِہِ اَوْلِیٰائَہُ مِنْ سُوْءِ ثَنٰائِہِ عَلیٰ الاَحْبٰارِ اِذْ یَقُوْلُ : لَوْلاٰ یَنْھٰاھُمُ الرّّبّٰانِیُّوْنَ وَ الاَحْبٰارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الاِثْمَ وَ قٰالَ : لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِی اِسْرٰائِیْلَ - اِلٰی قَوْلِہِ - لَبِئْسَ مٰا کٰانُوْا یَفْعَلُوْنَ وَ اِنَّمٰا عٰابَ اللهُ ذٰلِکَ عَلَیْھِم لاَنَّھُمْ کٰانُوْا یَرَونَ مِنَ الظَّلَمَةِ الَّذِیْنَ بَیْنَ اَظْھَرِھِمُ الْمُنْکَرَ وَ الْفَسٰادَ فَلاٰ یَنْھَوْنَھُمْ عَنْ ذٰلِکَ رَغْبَةً فیمٰا کٰانُوْا یَنٰالُوْنَ مِنْھُمْ وَ رَھْبَةً مِمّٰا یَحْذَرُوْنَ وَ اللهُ یَقُوْلُ : فَلاَ تَخْشَوُا النّٰاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ قٰالَ : الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیآءُ بَعْضٍ یامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ فَبَدَءَ اللهُ بِاْلأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ فَرِیضَةً مِنْہُ لِعِلْمِہِ بِاَنَّھٰا اِذٰا اُدِّیَتْ وَ اُقیْمَتْ اِسْتَقٰامَتِ الْفَرائِضُ کُلُّھٰا ھَیَّنُھٰا وَ صَعْبُھٰا وَ ذٰلِکَ أَنَّ اْلاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ دُعٰاءٌ اِلیٰ اْلاِسْلاٰمِ مَعَ رَدِّ الْمَظٰالِمِ وَ مُخٰالَفَةِ الظّٰالِمِ وَ قِسْمَةِ الْفَیءِ وَ الْغَنٰائِمِ وَ اَخْذِ الصَّدَقٰاتِ مِنْ مَوٰاضِعِھٰا وَ وَضْعِھٰا فی حَقِّھٰا وضاحت (( تحف العقول)) کے مصنف نے یہ خطبہ نقل کرتے ہوئے کہا ہے : ویروی عن امیر المومنین علیہ السلام۔ یعنی امام حسین علیہ السلام کے خطبے کا یہ حصہ (جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ہے) امیر المومنین حضرت علی سے بھی نقل ہوا ہے۔ جیسا کہ خطبے کے تیسرے اور آخری حصے میں ہم اشارہ کریں گے، اس حصے کے بعض جملات بھی امیر المومنین کے خطبات اور بیانات میں موجود ہیں اور موضوع کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر امام حسین نے اپنے خطبے اور تقریر میں ان سے استفادہ کیا ہے اور(( تحف العقول)) کے مصنف کی بات کی بنیاد پریہ بھی ممکن ہے کہ اس خطبے کا وہ حصہ درحقیقت امیر المومنین ہی کا کلام ہو جس سے ان کے محترم فرزند امام حسین نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور اس کی عظمت کو بیان کرنے کی غرض سے استفادہ کیا ہو۔ لیکن ہم نے خطبے کے اس حصے کے براہ راست امیر المومنین سے استناد کے بارے میں ((تحف العقول)) کے سوا حدیث کی کسی اور معتبر کتاب میں نہیں دیکھا۔ خطبہ منیٰ
مشکل الفاظ کی تشریح
اِعتَبروا اَیُّھا النّاسُ : اس طرح کچھ خاص افراد ، اس محفل میں موجود حاضرین یا حتیٰ صرف اس زمانے کے افراد مخاطب نہیں ہیں بلکہ اس خطاب میں وہ تمام انسان شامل ہیں جو کسی بھی زمانے میں اور دنیا کے کسی بھی گوشے میں اس خطاب کو سنیں۔ یہ بالکل یا ایھا الناس کی مانند ہے، جس کے ذریعے قرآن مجید میں بارہا اور متعدد مقامات پر خطاب کیا گیا ہے۔ اولیاء :یہاں اولیاء سے مراد وہ افراد ہیں جو الله تعالیٰ کی جانب توجہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی معاشرے میں بھی ذمے دار مقام کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ اگر یہ معاشرے میں کسی مقام پرفائز نہ ہوں تو اہم اور مشکل ذمے داریوں کی ادائیگی کی ان سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ احبار : صالح علما۔ ربانی : خدا پرست شخص جو خدا پر اعتقاد رکھنے کے ساتھ ساتھ خداوند متعال کے احکام کا علم بھی رکھتا ہو اور اس کے حلال و حرام کی پابندی کرتا ہو۔ امام حسین علیہ السلام نے جس آیتِ کریمہ کا ذکر کیا ہے، اگرچہ اس میں یہودی علما اورمذہبی رہنماؤں کی سرزنش کی گئی ہے لیکن یہاں باشعور قاری کے لئے اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ یہ مذمت اور سرزنش صرف یہودی علما یا عیسائی رہبروں کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ (اگر یہودی علما کے سے اعمال انجام دیں تب) تمام دینی رہبر اور حتیٰ مسلم علما بھی اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ کسی بھی دین اور مذہب سے تعلق رکھنے والے علما کی اپنے فریضے سے غفلت ، کوتاہی اور بے جا خاموشی عام افراد کے گناہ اور نافرمانی کے مرتکب ہونے کی مانند نہیں ، کیونکہ علما کی خاموشی اور بے عملی کے نتیجے میں دین کی بنیادوں کو نقصان پہنچتا ہے (جبکہ عام افراد کے گناہ فقط خود ان کی اپنی ذات کو نقصان پہنچاتے ہیں)۔ قول اثم :گناہ آلود باتیں۔ جس میں جھوٹ، تہمت ، حقائق کی تحریف وغیرہ سب شامل ہیں۔ اکل سحت : حرام خوری۔ باوجود یہ کہ تمام گناہوں اور منکرات سے روکا گیا ہے لیکن اس آیتِ کریمہ میں قول اثم واکل سحت پر زور دیا گیا ہے، تاکہ یہ بتایا جائے کہ یہ دو گناہ تمام گناہوں سے زیادہ خطرناک ہیں ۔لہذا ہر گناہ سے زیادہ ان کی مخالفت اور ان سے مقابلہ کیا جائے کیونکہ بسا اوقات دشمنوں کی جھوٹی باتیں اور ان کا مذموم پروپیگنڈہ (جو قول اثم کا ایک اہم ترین مصداق ہے) اسلام اور مسلمانوں کے لئے کسی بھی ا ور چیز کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ اکل سحت یا حرام خوری سے بھی اس کا صرف انفرادی اور جزی پہلو مراد نہیں ہے ، بلکہ یہ وسیع پہلوؤں کی حامل ہے جس میں (آج کی دنیا کے لحاظ سے) نقصان دہ برآمدات اور درآمدات، غیر قانونی طریقوں سے ملک کی معیشت پر قابض ہو جانا وغیرہ بھی شامل ہیں اور یقینا اس قسم کی اکل سحتکے نقصانات جوئے اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے جیسی انفرادی حرام خوریوں کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ(۱) اِعْتَبِرُوْا اَیُّھا النّٰاسُ بِمٰا وَعَظَ اللّٰہُ بِہِ اَوْلِیٰائَہُ مِنْ سُوْءِ ثَنٰائِہِ عَلیٰ الاَحْبٰارِ اِذْ یَقُوْلُ : لَوْلاٰ یَنْھٰاھُمُ الرّّبّٰانِیُّوْنَ وَ الاَحْبٰارُ عَنْ قَوْلِھِمُ ۱۔ اس خطبے کے دوسرے اور تیسرے حصے کے ترجمے اور تشریح میں امام خمینی کی کتاب ولایت فقیہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ الاِثْمَ (۱) وَ قٰالَ : لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِی اِسْرٰائِیْلَ - اِلٰی قَوْلِہِ- لَبِئْسَ مٰا کٰانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۲) اے لوگو! الله تعالیٰ نے علمائے یہود کی سرزنش کر کے اپنے اولیاء کو جو نصیحت کی ہے، اس سے عبرت حاصل کرو ۔الله تعالیٰ نے فرمایا :یہودی علما اور دینی رہنما انہیں گناہ آلود باتوں اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے؟ اور فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا، انہیں لعن اور نفرین کی گئی ہے۔ (یہاں تک کہ) فرمایا : وہ ایک دوسرے کو برے اعمال کی انجام دہی سے منع نہیں کرتے تھے اور وہ کتنا برا کام کرتے تھے۔ وَ اِنَّمٰا عٰابَ اللهُ ذٰلِکَ عَلَیْھِم لاَنَّھُمْ کٰانُوْا یَرَونَ مِنَ الظَّلَمَةِ الَّذِیْنَ بَیْنَ اَظْھَرِھِمُ الْمُنْکَرَ وَ الْفَسٰادَ فَلاٰ یَنْھَوْنَھُمْ عَنْ ذٰلِکَ رَغْبَةً فیمٰا کٰانُوْا یَنٰالُوْنَ مِنْھُمْ وَ رَھْبَةً مِمّٰا یَحْذَرُوْنَ وَ اللهُ یَقُوْلُ : فَلاَ تَخْشَوُا النّٰاسَ وَ اخْشَوْنِ (۳) وَ قٰالَ : الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیآءُ بَعْضٍ یامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (۴) درحقیقت الله تعالیٰ نے اس لئے انہیں برا قرار دیا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنے کے باوجود کہ ظالمین کھلم کھلا برائیوں کو پھیلا رہے ہیں ، انہیں (ظالموں کو) اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں،ان ظالموں کی طرف سے ملنے ۱۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۶۳ ۲۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۷۸، ۷۹ ۳۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۴۴ ۴۔ سورہ توبہ ۹۔ آیت ۷۱ والے مال و متاع سے دلچسپی تھی اور ان کی طرف سے (پہنچ سکنے والی) سختیوں سے خوفزدہ تھے۔ جبکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ: لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور پروردگار نے فرمایا ہے: مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے دوست اور سرپرست ہیں، اچھائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔ فَبَدَءَ اللهُ بِاْلأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ فَرِیضَةً مِنْہُ لِعِلْمِہِ بِاَنَّھٰا اِذٰا اُدِّیَتْ وَ اُقیْمَتْ اِسْتَقٰامَتِ الْفَرائِضُ کُلُّھٰا ھَیَّنُھٰا وَ صَعْبُھٰا وَ ذٰلِکَ أَنَّ اْلاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ دُعٰاءٌ اِلیٰ اْلاِسْلاٰمِ مَعَ رَدِّ الْمَظٰالِمِ وَ مُخٰالَفَةِ الظّٰالِمِ وَ قِسْمَةِ الْفَیءِ وَ الْغَنٰائِمِ وَ اَخْذِ الصَّدَقٰاتِ مِنْ مَوٰاضِعِھٰا وَ وَضْعِھٰا فی حَقِّھٰا (اس آیتِ کریمہ میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے )الله تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے آغاز کیا اور اسے اپنی طرف سے واجب قرار دیا کیونکہ پروردگار جانتا ہے کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام پائے اور معاشرے میں برقرار رکھا جائے تو تمام واجبات، خواہ وہ آسان ہوں یا مشکل، خودبخود انجام پائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور ساتھ ہی مظلوموں کو انکے حقوق لوٹائے جائیں، ظالموں کی مخالفت کی جائے ،عوامی دولت اور مال غنیمت عادلانہ نظام کے تحت تقسیم ہو، اور صدقات ( یعنی زکات اور دوسرے واجب اور مستحب مالیات) کو صحیح مقامات سے وصول کر کے حقداروں پر خرچ کیا جائے۔ یہاں پہنچ کر خطبے کا دوسرا حصہ ختم ہوتا ہے اور آئندہ صفحات میں خطبے کے تیسرے حصے کاترجمہ پیش کیا جائے گا۔ خطبہ منیٰ
خطبہ کے تیسرے حصہ کا متن
(علما کی ذمے داریوں کا بیان) امام نے فرمایا: ثُمَّ اَنْتُمْ أیَّتُھا الْعِصٰابَةُ عِصٰابَةٌ بِالْعِلْمِ مَشْھُوْرَةٌ وَ بِالْخَیْرِ مَذْکُوْرَةٌ وَ بِالنَّصِیْحَةِ مَعْرُوْفَةٌ وَ بِاللَّہِ فی اَنْفُسِ النّٰاسِ مَھٰابَةٌ یَھٰابُکُمُ الشَّرِیفُ وَ یُکْرِمُکُمُ الضَّعِیفُ وَ یُؤْثِرُکُمْ مَنْ لاٰ فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْہِ وَ لاٰ یَدَ لَکُمْ عِنْدَہُ تُشَفِّعُوْنَ فی الْحَوٰائجِ اِذٰا امْتُنِعَتْ مِنْ طُلاّٰبِھٰا وَ تَمْشُوْنَ فی الطَّرِیْقِ بِھَیْبَةِ الْمُلُوْکِ وَ کَرٰامَةِ اْلاَ کٰابِرِ ، اَلَیْسَ کُلَّ ذٰلِکَ اِنَّمٰا نِلْتُمُوہُ بِمٰا یُرْجٰی عِنْدَکُمْ مِنَ الْقِیٰامِ بِحَقِّ اللّٰہِ وَ اِنْ کُنْتُمْ عَنْ اَکْثَرِ حَقِّہِ تُقَصِّرُوْنَ فَاسْتَخْفَفْتُمْ بِحَقِّ اْلاَئِمَّةِ فَاَمّٰا حَقَّ الضُّعَفٰاءِ فَضَیَّعْتُمْ وَ اَمّٰا حَقَّکُمْ بِزَعْمِکُمْ فَطَلَبْتُمْ فَلاٰ مٰالاً بَذَلْتُمُوْہُ وَ لاٰ نَفْساً خٰاطَرْتُمْ بِھٰا لِلَّذی خَلَقَھٰا وَ لاٰ عَشِیْرَةً عٰادَیْتُمُوْھٰا فی ذٰاتِ اللّٰہِ اَنْتُمْ تَتَمَنَّوْنَ عَلیَ اللّٰہَ جَنَّتَہُ وَ مُجٰاوَرَةَ رُسُلِہِ وَ اَمٰاناً مَنْ عَذٰابِہِ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلَیْکُمْ اَیُّھا الْمُتَمَنُّوْنَ عَلیَ اللّٰہِ اَنْ تَحِلَّ بِکُمْ نِقْمَةٌ مِنْ نَقِمٰاتِہِ لاَنَّکُمْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرٰامَةِ اللّٰہِ مَنْزِلَةً فُضِّلْتُمْ بِھٰا وَ مَنْ یُعْرَفُ بِاللّٰہِ لاٰ تُکْرِمُوْنَ وَ اَنْتُمْ بِاللّٰہِ فی عِبٰادِہِ تُکْرَمُوْنَ وَ قَد تَرَوْنَ عُھودَ اللّٰہِ مَنْقُوْضَةً فَلاٰ تَفْزَعُوْنَ وَ اَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبٰائِکُمْ تَفْزَعُوْنَ وَ ذِمَةُ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَخْفُوْرَةٌ مَحْقُوْرَةٌ وَ الْعُمْیُ وَ الْبُکْمُ وَ الزَّمْنیٰ فی الْمَدائِنِ مُھْمَلَةٌ لاٰ تُرْحَمُوْنَ وَ لاٰ فی مَنْزِلَتِکُمْ تَعْمَلُوْنَ وَ لاٰ مَنْ عَمِلَ فیھٰا تُعِیْنُوْنَ وَ بالاِدِّھٰانِ وَ الْمُصٰانَعَةِ عِنْدَ الظَّلَمَةِ تٰامَنُوْنَ کُلُّ ذٰلِکَ مِمّٰا اَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہِ مِنَ النَّھْیِ وَ التَّنٰاھی وَ اَنْتُمْ عَنْہُ غٰافِلُوْنَ وَ اَنْتُمْ اَعْظَمُ النّٰاسِ مُصِیْبَةً لِمٰا غُلِبْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ مَنٰازِلِ الْعُلَمٰاءِ لَوْ کُنْتُمْ تَشْعُرُوْنَ ذٰلِکَ بِاَنَّ مَجٰارِیَ اْلاُمُوْرِ وَ اْلاَحْکٰامِ عَلیٰ اَیدي الْعُلَمٰاءِ بِاللّٰہِ اْلاُمَنٰاءِ عَلیٰ حَلاٰلِہِ وَ حَرٰامِہِ فَاَنْتُمُ الْمَسْلُوْبُوْنَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ وَ مٰا سُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَ اخْتِلاٰفِکُمْ فی السُّنَّةِ بَعْدَ الْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ وَ لَوْ صَبَرْتُمْ عَلیٰ الاَذٰی وَ تَحَمَّلْتُمْ الْمَؤُوْنَةَ فی ذٰاتِ اللّٰہِ کٰانَتْ اُمُوْرُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِعُ وَ لَکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ وَ اسْتَسلَمتُم اُمُوْرَ اللّٰہِ فی اَیْدِیْھِمْ یَعْمَلُوْنَ بالشُّبَھٰاتِ وَ یَسِیْرُوْنَ فی الشَّھَوٰاتِ سَلَّطَھُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ فِرٰارُکُمْ مِنَ الْمَوْتِ وَ اِعْجٰابُکُمْ بِالْحَیٰاتِ الَّتی ھِیَ مُفٰارِقَتُکُمْ فاَسْلَمْتُمْ الضُعَفٰاءَ فی اَیْدیھِمْ فَمِنْ بَیْنِ مُسْتَعْبَدٍ مَقْھُوْرٍ وَ بَیْنِ مُسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعِیْشَتِہِ مَغْلُوْبٍ یَتَقَلَّبُوْنَ فی الْمُلْک بِآرٰائِھِمْ وَ یَسْتَشْعِرُوْنَ الْخِزْیَ بِاَھْوٰائِھِمْ اِقْتِدٰاءً بِاْلاَشْرٰارِ وَ جُرْأَةً عَلیٰ الْجَبّٰارِ فی کُلِّ بَلَدٍ مِنْھُمْ عَلیٰ مِنْبَرِہِ خَطِیْبٌ مِصْقَعٌ فَاْلاَرْضُ لَھُمْ شٰاغِرَةٌ وَ اَیدیھِمْ فیھٰا مَبْسُوْطَةٌ وَ النّٰاسُ لَھُمْ خَوَلٌ لاٰیَدْفَعُوْنَ یَدَ لاٰمِسٍ فَمِنْ بَیْنِ جَبّٰارٍ عَنِیْدٍ وَ ذی سَطْوَةٍ عَلیٰ الضَّعْفَةِ شَدِیدٍ مُطٰاعٍ لاٰ یَعْرِفُ الْمُبْدِءُ المُعیدَ فَیٰا عَجَباً وَمٰالی لاأعْجَبُ وَاْلأرضُ مِنْ غٰاشٍّ غَشُومٍ وَِمُتَصِدّقٍ ظلومٍ وعامِلٍ عَلی المُؤمِنینَ بِھِمْ غَیْرُ رَحیمٍ، فَاللهُ الْحٰاکِمُ فیما فیہِ تَنٰازَعْنٰا وَالقٰاضی بِحُکْمِہِ فیما شجَرَ بَیْنَنا۔ اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہُ لَمْ یَکُنْ مٰا کٰانَ مِنّٰا تَنٰافُساً فی سُلْطٰانٍ وَ لاٰالْتِمٰاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطٰامِ و لَکِنْ لِنُرِیَ الْمَعٰالِِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَنُظْھِرَ اْلاصْلاٰحَ فی بِِلاٰدِکَ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبٰادِکَ وَ یُعْمَلَ بِفَرٰائِضِکَ وَ سُنَنِکَ وَ اَحْکٰامِکَ فَاِنَّکُمْ اِنْ لاتَنْصُرُوْنٰا وَ تَنْصِفُوْنٰا قَوِيَ الْظَّلَمَةُ عَلَیْکُمْ وَ عَمِلُوْا فی اِطْفٰاءِ نُوْرِ نَبِیِّکُم وَ حَسْبُنٰا اللَّہُ وَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْنٰا وَ اِلَیْہِ اَنَبْنٰا وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ اہم الفاظ کی تشریح جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ اس خطبے کے اس حصے کے بعض جملات کچھ فرق کے ساتھ امیر المومنین کے خطبوں میں بھی ملتے ہیں۔(۱) ۱ ۔ دیکھئے نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۰۴ اور ۱۲۹۔ فاستخففتم بحق الائمہ : کتاب ((تحف العقول ))اور(( وافی)) کے موجودہ نسخوں میں بحق الائمہ درج ہے۔ اس صورت میں امیر المومنین، امام حسن اور امام حسین کے حقوق کا غصب ہونا مرادہے۔ لیکن ممکن ہے کہ دراصل بحق الامہ ہو اور کتابت میں اضافہ ہو گیا ہو اور بعد میں آنے والا جملہ فاما حق الضعفاء بھی اس امکان کی تائید کرتا ہے۔ ( امام خمینی نے اس جملے کا ترجمہ بحق الامہ کے تحت کیا ہے) ومن یعرف بالله لا تکرمون وانتم بالله فی عبادہ تکرمون :جملے کی ابتداء میں آنے والا یعرف اور آخر میں آنے والا تکرمون دونوں مجہول کے صیغے ہیں جبکہ درمیان میں آنے والا لاتکرمون معلوم کا صیغہ ہے۔ یعنی بندگان خدا ، الله والا ہونے کی بنا پر تمہارا احترام کرتے ہیں لیکن تم ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو الله کی معرفت کے لئے مشہور ہیں۔ العمی و البکم والزمنی : تینوں الفاظ بالترتیب أعمی، ابکم اور زمن کی جمع ہیں۔ لاترحمون اور غلبتم بہ : مجہول کے صیغے ہیں۔ مجاری الا مور والا حکام علی ایدی العلماء بالله الا مناء علی حلا لہ و حرامہ : مجاری، مجری کی جمع مصدر میمی یا پھر اسم مکان ہے۔ یعنی مسلمانوں اور مملکت اسلامی کے مختلف امور و معاملات میں مرکزی مقام علما کو حاصل ہونا چاہئے اور مسلمانوں کے مابین پھوٹ پڑنے والے تنازعات کا حل و فصل ان ربانی علما کے احکام کے مطابق ہونا چاہئے ،جو حلال و حرام الہی کے امین اور آسمانی قوانین کو تحریف و تبدیلی سے محفوظ رکھنے والے ہوں۔ یہ جملہ ولایت فقیہ کوثابت کرنے والے ان بے شمار دلائل میں سے ایک دلیل ہے جنہیں بزرگ شیعہ علما اور فقہا نے ذکر کیا ہے۔ والارض لھم شاغرہ : عرب کہتے ہیں شغرت الارض یعنی اس سرزمین کا کوئی محافظ و نگہبان نہیں ہے۔ خطیب مصقع :( میم پر زیر اور باقی حروف پر زبر)۔ بلند آواز والے خطیب کو کہتے ہیں۔ عصر حاضر میں دشمنوں کے ہاتھوں میں موجود ذرائع ابلاغ جیسے ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ اسکے نمایاں مصداق ہیں۔ اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ ثُمَّ اَنْتُمْ أیَّتُھا الْعِصٰابَةُ عِصٰابَةٌ بِالْعِلْمِ مَشْھُوْرَةٌ وَ بِالْخَیْرِ مَذْکُوْرَةٌ وَ بِالنَّصِیْحَةِ مَعْرُوْفَةٌ وَ بِاللَّہِ فی اَنْفُسِ النّٰاسِ مَھٰابَةٌ یَھٰابُکُمُ الشَّرِیفُ وَ یُکْرِمُکُمُ الضَّعِیفُ وَ یُؤْثِرُکُمْ مَنْ لاٰ فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْہِ وَ لاٰ یَدَ لَکُمْ عِنْدَہُ تُشَفِّعُوْنَ فی الْحَوٰائجِ اِذٰا امْتُنِعَتْ مِنْ طُلاّٰبِھٰا وَ تَمْشُوْنَ فی الطَّرِیْقِ بِھَیْبَةِ الْمُلُوْکِ وَ کَرٰامَةِ اْلاَ کٰابِرِ ، اے وہ گروہ جو علم وفضل کے لئے مشہور ہے، جس کاذکر نیکی اور بھلائی کے ساتھ کیا جاتا ہے ، وعظ و نصیحت کے سلسلے میں آپ کی شہرت ہے اور الله والے ہونے کی بنا پر لوگوں کے دلوں پر آپ کی ہیبت و جلال ہے ،یہاں تک کہ طاقتور آپ سے خائف ہے اور ضعیف و ناتواں آپ کا احترام کرتا ہے، حتیٰ وہ شخص بھی خود پر آپ کو ترجیح دیتا ہے جس کے مقابلے میں آپ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں ۔جب حاجت مندوں کے سوال رد ہو جاتے ہیں تو اس وقت آپ ہی کی سفارش کارآمد ہوتی ہے ( آپ کو وہ عزت و احترام حاصل ہے کہ) گلی کوچوں میں آپ کا گزر بادشاہوں کے سے جاہ و جلال اور اعیان و اشراف کی سی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اَلَیْسَ کُلَّ ذٰلِکَ اِنَّمٰا نِلْتُمُوہُ بِمٰا یُرْجٰی عِنْدَکُمْ مِنَ الْقِیٰامِ بِحَقِّ اللّٰہِ وَ اِنْ کُنْتُمْ عَنْ اَکْثَرِ حَقِّہِ تُقَصِّرُوْنَ فَاسْتَخْفَفْتُمْ بِحَقِّ اْلاَئِمَّةِ فَاَمّٰا حَقَّ الضُّعَفٰاءِ فَضَیَّعْتُمْ وَ اَمّٰا حَقَّکُمْ بِزَعْمِکُمْ فَطَلَبْتُمْ فَلاٰ مٰالاً بَذَلْتُمُوْہُ وَ لاٰ نَفْساً خٰاطَرْتُمْ بِھٰا لِلَّذی خَلَقَھٰا وَ لاٰ عَشِیْرَةً عٰادَیْتُمُوْھٰا فی ذٰاتِ اللّٰہِ یہ سب عزت و احترام صرف اس لئے ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ الہٰی احکام کا اجراء کریں گے ،اگرچہ اس سلسلے میں آپ کی کوتاہیاں بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے امت کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ہے، (معاشرے کے) کمزور اوربے بس افراد کے حق کو ضائع کردیا ہے اور جس چیز کو اپنے خیال خام میں اپنا حق سمجھتے تھے اسے حاصل کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ نہ اس کے لئے کوئی مالی قربانی دی اور نہ اپنے خالق کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی اور نہ الله کی خاطر کسی قوم وقبیلے کا مقابلہ کیا۔ اَنْتُمْ تَتَمَنَّوْنَ عَلیَ اللّٰہَ جَنَّتَہُ وَ مُجٰاوَرَةَ رُسُلِہِ وَ اَمٰاناً مَنْ عَذٰابِہِ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلَیْکُمْ اَیُّھا الْمُتَمَنُّوْنَ عَلیَ اللّٰہِ اَنْ تَحِلَّ بِکُمْ نِقْمَةٌ مِنْ نَقِمٰاتِہِ لاَنَّکُمْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرٰامَةِ اللّٰہِ مَنْزِلَةً فُضِّلْتُمْ بِھٰا وَ مَنْ یُعْرَفُ بِاللّٰہِ لاٰ تُکْرِمُوْنَ وَ اَنْتُمْ بِاللّٰہِ فی عِبٰادِہِ تُکْرَمُوْن (اسکے باوجود ) آپ جنت میں رسول الله کی ہم نشینی اور الله کے عذاب سے امان کے متمنی ہیں، حالانکہ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں الله کا عذاب آپ پر نازل نہ ہو،کیونکہ الله کی عزت و عظمت کے سائے میں آپ اس بلند مقام پر پہنچے ہیں، جبکہ آپ خود ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو معرفت خدا کے لئے مشہور ہیں جبکہ آپ کو الله کے بندوں میں الله کی وجہ سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وَ قَد تَرَوْنَ عُھودَ اللّٰہِ مَنْقُوْضَةً فَلاٰ تَفْزَعُوْنَ وَ اَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبٰائِکُمْ تَفْزَعُوْنَ وَ ذِمَةُ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَخْفُوْرَةٌ مَحْقُوْرَةٌ وَ الْعُمْیُ وَ الْبُکْمُ وَ الزَّمْنیٰ فی الْمَدائِنِ مُھْمَلَةٌ لاٰ تُرْحَمُوْنَ وَ لاٰ فی مَنْزِلَتِکُمْ تَعْمَلُوْنَ وَ لاٰ مَنْ عَمِلَ فیھٰا تُعِیْنُوْنَ وَ بالاِدِّھٰانِ وَ الْمُصٰانَعَةِ عِنْدَ الظَّلَمَةِ تٰامَنُوْنَ کُلُّ ذٰلِکَ مِمّٰا اَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہِ مِنَ النَّھْیِ وَ التَّنٰاھی وَ اَنْتُمْ عَنْہُ غٰافِلُوْن آپ دیکھتے رہتے ہیں کہ الله سے کئے ہوئے عہدو پیمان کو توڑاجا رہا ہے، اسکے باوجود آپ خوفزدہ نہیں ہوتے، اس کے برخلاف اپنے آباؤ اجداد کے بعض عہد و پیمان ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں ، جبکہ رسول الله کے عہد و پیمان(۱) نظر انداز ہو رہے ہیں اور کوئی پروا نہیں کی جا رہی ۔ اندھے ، گونگے اور اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں اور کوئی ان پررحم نہیں کرتا۔ آپ لوگ نہ تو خود اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو کچھ کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے اپنے آپ کو ظالموں کے ظلم سے بچایا ہوا ہے جبکہ خدا نے اس سے منع کیا ہے اور ایک دوسرے کو (بھی)منع کرنے کے لئے کہا ہے ۔اور آپ ان تمام احکام کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ وَ اَنْتُمْ اَعْظَمُ النّٰاسِ مُصِیْبَةً لِمٰا غُلِبْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ مَنٰازِلِ الْعُلَمٰاءِ لَوْ کُنْتُمْ تَشْعُرُوْنَ ذٰلِکَ بِاَنَّ مَجٰارِیَ اْلاُمُوْرِ وَ اْلاَحْکٰامِ عَلیٰ اَیدي الْعُلَمٰاءِ بِاللّٰہِ اْلاُمَنٰاءِ عَلیٰ حَلاٰلِہِ وَ حَرٰامِہِ فَاَنْتُمُ الْمَسْلُوْبُوْنَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ وَ مٰا سُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَ اخْتِلاٰفِکُمْ فی السُّنَّةِ بَعْدَ الْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ آپ پر آنے والی مصیبت دوسرے لوگوں پر آنے والی مصیبت سے کہیں بڑی مصیبت ۱۔ اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہیں جو بیعت کے وقت رسول گرامی, نے لئے تھے۔ اسی طرح ولایت اور جانشینی کے لئے غدیر خم کے موقع پر رسول الله سے جو عہد و پیمان کئے گئے تھے، وہ بھی مراد ہیں۔ ہے ، اس لئے کہ (اگر آپ سمجھیں تو) علما کے اعلیٰ مقام و منزلت سے آپ کومحروم کر دیا گیا ہے ،کیونکہ مملکت کے نظم و نسق کی ذمہ داری علمائے الہٰی کے سپرد ہونی چاہئے، جو الله کے حلال و حرام کے امانت دار ہیں۔ اور اس مقام و منزلت کے چھین لئے جانے کا سبب یہ ہے کہ آپ حق سے دور ہو گئے ہیں اور واضح دلائل کے باوجود سنت کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں۔ وَ لَوْ صَبَرْتُمْ عَلیٰ الاَذٰی وَ تَحَمَّلْتُمْ الْمَؤُوْنَةَ فی ذٰاتِ اللّٰہِ کٰانَتْ اُمُوْرُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِعُ وَ لَکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ وَ اسْتَسلَمتُم اُمُوْرَ اللّٰہِ فی اَیْدِیْھِمْ یَعْمَلُوْنَ بالشُّبَھٰاتِ وَ یَسِیْرُوْنَ فی الشَّھَوٰاتِ اگر آپ اذیت و آزار جھیلنے اور الله کی راہ میں مشکلات برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے تو احکام الہٰی (اجراء کے لئے) آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے، آپ ہی سے صادر ہوتے اور (معاملات میں) آپ ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن آپ نے ظالموں اور جابروں کو یہ موقع دیا کہ وہ آپ سے یہ مقام و منزلت چھین لیں اور الله کے حکم سے چلنے والے امور ( وہ امور جن میں حکم الہٰی کی پابندی ضروری تھی) اپنے کنٹرول میں لے لیں تاکہ اپنے اندازوں اور وہم و خیال کے مطابق فیصلے کریں اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کریں۔ سَلَّطَھُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ فِرٰارُکُمْ مِنَ الْمَوْتِ وَ اِعْجٰابُکُمْ بِالْحَیٰاتِ الَّتی ھِیَ مُفٰارِقَتُکُمْ فاَسْلَمْتُمْ الضُعَفٰاءَ فی اَیْدیھِمْ فَمِنْ بَیْنِ مُسْتَعْبَدٍ مَقْھُوْرٍ وَ بَیْنِ مُسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعِیْشَتِہِ مَغْلُوْبٍ یَتَقَلَّبُوْنَ فی الْمُلْک بِآرٰائِھِمْ وَ یَسْتَشْعِرُوْنَ الْخِزْیَ بِاَھْوٰائِھِمْ اِقْتِدٰاءً بِاْلاَشْرٰارِ وَ جُرْأَةً عَلیٰ الْجَبّٰارِ وہ حکومت پر قبضہ کرنے میں ا س لئے کامیاب ہو گئے کیونکہ آپ موت سے ڈرکر بھاگنے والے تھے اور اس فانی اور عارضی دنیا کی محبت میں گرفتار تھے۔ پھر ( آپ کی یہ کمزوریاں سبب بنیں کہ) ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے اور (نتیجہ یہ ہے کہ) کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیئے گئے اور کچھ مصیبت کے ماروں کی مانند اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔ حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں ذلت وخواری کا سبب بنتے ہیں، بدقماش افراد کی پیروی کرتے ہیں اور پروردگار کے مقابلے میں گستاخی دکھاتے ہیں۔ فی کُلِّ بَلَدٍ مِنْھُمْ عَلیٰ مِنْبَرِہِ خَطِیْبٌ مِصْقَعٌ فَاْلاَرْضُ لَھُمْ شٰاغِرَةٌ وَ اَیدیھِمْ فیھٰا مَبْسُوْطَةٌ وَ النّٰاسُ لَھُمْ خَوَلٌ لاٰیَدْفَعُوْنَ یَدَ لاٰمِسٍ فَمِنْ بَیْنِ جَبّٰارٍ عَنِیْدٍ وَ ذی سَطْوَةٍ عَلیٰ الضَّعْفَةِ شَدِیدٍ مُطٰاعٍ لاٰ یَعْرِفُ الْمُبْدِءُ المُعید ہر شہر میں ان کا یک ماہر خطیب منبر پر بیٹھا ہے ۔ زمین میں ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں (یعنی جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں) عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ حکام میں سے کوئی حاکم تو ظالم، جابر اور دشمنی اور عناد رکھنے والا ہے اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا ،ان ہی کا حکم چلتا ہے جبکہ یہ نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز جزا کو ۔ فَیٰا عَجَباً وَمٰالی لاأعْجَبُ وَاْلأرضُ مِنْ غٰاشٍّ غَشُومٍ وَِمُتَصِدّقٍ ظلومٍ وعامِلٍ عَلی المُؤمِنینَ بِھِمْ غَیْرُ رَحیمٍ، فَاللهُ الْحٰاکِمُ فیما فیہِ تَنٰازَعْنٰا وَالقٰاضی بِحُکْمِہِ فیما شجَرَ بَیْنَنا۔ تعجب ہے اور کیوں تعجب نہ ہو! ملک ایک دھوکے باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مالیاتی عہدیدار ظالم ہیں اور صوبوں میں اسکے (مقرر کردہ) گورنر مومنوں کے لئے سنگ دل اور بے رحم۔ (آخر کار) الله ہی ان امور کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان نزاع ہے اور وہی ہمارے اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلاف پر اپنا حکم صادر کرے گا۔ اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہُ لَمْ یَکُنْ مٰا کٰانَ مِنّٰا تَنٰافُساً فی سُلْطٰانٍ وَ لاٰالْتِمٰاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطٰامِ و لَکِنْ لِنُرِیَ الْمَعٰالِِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَنُظْھِرَ اْلاصْلاٰحَ فی بِِلاٰدِکَ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبٰادِکَ وَ یُعْمَلَ بِفَرٰائِضِکَ وَ سُنَنِکَ وَ اَحْکٰامِکَ فَاِنَّکُمْ اِنْ لاتَنْصُرُوْنٰا وَ تَنْصِفُوْنٰا قَوِيَ الْظَّلَمَةُ عَلَیْکُمْ وَ عَمِلُوْا فی اِطْفٰاءِ نُوْرِ نَبِیِّکُم وَ حَسْبُنٰا اللَّہُ وَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْنٰا وَ اِلَیْہِ اَنَبْنٰا وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ (امام نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر فرمایا) بارالہا! تو جانتا ہے کہ جوکچھ ہماری جانب سے ہوا (بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں) وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اورنہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں ، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات (حاضرین سے خطاب) نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر (اور زیادہ) چھا جائیں گے اور(( نور نبوت)) کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔ یہ وہ خطبہ تھا جو امام حسین علیہ السلام نے منیٰ میں ارشاد فرمایا اور تمام حاضرین کو تاکید ی حکم دیا کہ یہ پیغام دوسروں تک پہنچانے کی حتیٰ الامکان کوشش کریں تاکہ رفتہ رفتہ تمام مسلمان، پیکر اسلام کو پہنچنے والے ان نقصانات سے آگاہ ہو جائیں جن کے نتیجے میں اسلام کی اساس کو خطرہ لاحق ہے۔ خطبہ منیٰ
خطبے کے نتائج
امام حسین علیہ السلام نے اس خطبے میں امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد مختلف معاشرتی اور مذہبی پہلوؤں نیز اسلامی معاشرے پر معاویہ ابن ابی سفیان کے اقتدار کے اسباب اور ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جن کے سبب مسلمانوں کے معاملات معاویہ کے ہاتھوں میں آ گئے۔ اس کے بعدآپ نے اسلام کے مستقبل کے لئے نقصان دہ خطرات کی جانب اشارہ کیا ، اور مسلمانوں کو خبردار کیا کہ اگر اب بھی وہ خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور عمائدین قوم، اور ملت کے باشعور افراد نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور اپنی ذمے داریوں کو ادا نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ نور نبوت ماند پڑ جائے گا بلکہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ مشعل فروزاں، اسلام دشمنوں کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے بجھ ہی نہ جائے۔ فرزند رسول نے اس خطبے کے ذریعے حاضرین کے سامنے قرآن اور عترت کی مظلومیت کوبیان کیا اور یہ ذمے داری ان کے سپرد کی کہ جہاں تک ممکن ہے وہ اس پیغام کو مملکت اسلامی کے تمام باشعور اور دیندار افراد تک پہنچائیں اور انہیں اس خطرے سے آگاہ کریں۔ اگرچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خطبے کی مفصل تشریح کی جائے کیونکہ اس کا ایک ایک جملہ علمی اور تاریخی لحاظ سے تشریح طلب ہے(۱) لیکن فی الحال یہاں نتیجہ گیری کی صورت میں ہم اپنے خیال اور سطح فکر کی حد تک صرف چند نکات قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔ زمانی اور مکانی حالات اس خطبے کے مضامین کی تشریح سے پہلے خطبہ ارشاد فرمانے کے زمان و مکان اور خطبے کے طرز بیان پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس خطبے کے لئے خاص مقام (منیٰ) اور خاص وقت (ایامِ حج) کا انتخاب کیا گیا۔ مملکت اسلامی کی اہم ترین شخصیات بشمول خواتین کو دعوت دی گئی ، بنی ہاشم کے عمائدین اور مہاجر و انصار صحابہء کرام بھی مدعو تھے۔ خاص کر اس اجتماع میں ۲۰۰ ایسے افرادشریک تھے جنہیں رسول گرامی کی صحابیت اور ان سے براہ راست مستفیض ہونے کی سعادت حاصل تھی ۔ان ۲۰۰ کے علاوہ ۸۰۰ سے زائد افراد اصحاب رسولکی اولاد (تابعین) تھے۔ جلسہ گاہ : یہ جلسہ منیٰ میں تشکیل پایا ،جو بیت الله سے نزدیک ، توحید اور وحدانیت کے علمبردار حضرت ابراہیم سے منسوب اور قربانی و ایثار کی مثال حضرت اسماعیل کی قربانگاہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر قسم کے امتیازات سے دستبردار ہو کر خدا کے سوا ہر چیز کو بھلاد یا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان شیطان اور طاغوتوں پر کنکر برسا کے ندائے حق پر لبیک کہتا ہے اور راہ خدا میں قربانی اور ایمان اور اسلام کے راستے میں تن، من، دھن کی بازی لگانے ۱۔ جیسا کہ علما اور فقہا نے اس خطبے کے صرف ایک جملے ذلک بان مجاری الامور والا حکام علی ایدی العلماء پر فقہ کی استدلالی کتب میں تفصیلی بحث کی ہے۔ کے لئے حضرت اسماعیل کے یاابت افعل ماتومر (۱) سے درس لیتا ہے اور ستجدنی انشاء الله من الصابرین(۲) کو نمونہء عمل قرار دے کر الله کی راہ میں سختیوں، مشکلات اور حتیٰ ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے عزم کا اعلان کرتا ہے۔ زمانہ : یہ جلسہ ایام تشریق میں منعقد ہوا۔ یہ وہ وقت ہے جب یہاں پہنچنے والے الله تعالیٰ کی عبادت و ریاضت، خداسے ارتباط اور عمرے کے اعمال انجام دے کر، منزل عرفات سے گزر کر، مشعر کے بیابان میں رات بسر کر کے، اور قربانی انجام دینے کے بعد فرزند رسول کا حیات آفرین پیغام قبول کرنے کے لئے معنویت اور روحانیت کی ایک منزل پر پہنچ چکے ہیں۔ خطبے سے مربوط اہم نکات ۱ - ولایت سے انحراف اس خطبے میں امام حسین نے جس بات کی طرف سب سے پہلے اشارہ کیا وہ (لوگوں کا) حق سے منحرف ہوجانا ، ولایت اورحکومت کو اس کے صحیح راستے سے ہٹا دینا اور اس بنیادی ترین مسئلے کے بارے میں رسول گرامی کی وصیت کو بھلا دینا تھا۔ رسول گرامی صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اعلان نبوت کے ابتدائی ایام سے لے کر اپنی نبوت کی پوری ۲۳ سالہ مدت میں متعدد مرتبہ امامت اور ولایت کے موضوع پر گفتگو کی اور اس سلسلے میں مختلف موقعوں پر، مختلف طریقوں سے لوگوں کے سامنے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا تعارف کرایا۔ انہی مواقع میں سے ایک نمایاں اور محسوس موقع سد ابواب ( گھروں کے دروازے بند کروانے) والا واقعہ ہے۔ مدینہ تشریف لانے کے ۱۔ اے والد گرامی وہ کیجئے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔آیت۱۰۲) ۲۔ الله نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔ آیت ۱۰۲) بعد رسول کریم نے مسجد تعمیر کروائی اور پھر اسکے اطراف مکانات اور حجرے بنوانے کے دوران سدالابواب الاباب علی (۱) کا دو ٹوک حکم صادر فرمایا اور اسکے بعد وضاحت فرمائی : ما انا سددت ابوابکم ولکن الله امرنی بسدابوابکم و فتح بابہ (میں نے اپنی طرف سے دروازے بند نہیں کروائے ہیں بلکہ مجھے الله نے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بندکرا دوں اوران (علی) کا دروازہ کھلا رکھوں۔ یہ تعارف اسکے بعد بھی انت ولی کل مومن بعدی (۲) اور ایسے ہی دوسرے ارشادات کے ذریعے جاری رہا۔ یہاں تک کہ رسول کریم نے اپنی زندگی کے آخری مہینوں اور آخری ایام میں اس حساس اور اہم موضوع کو عوام الناس کے درمیان انتہائی کھلے لفظوں میں ، غدیر خم کے موقع پر اور مسجد ومنبر سے بیان کیا تاکہ پھراسکے بعد کسی کے لئے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے اور کسی کو تاویل وتفسیر کا کوئی راستہ نہ ملے۔ منیٰ کے جلسے میں موجود متعدد افراد خود ان مواقع کے شاہد و ناظر تھے یا انہوں نے قابل اعتماد اصحاب اور عینی شاہدوں سے سنا تھا ۔لہذا امام حسین علیہ السلام کے ہر بیان کے بعد ان کاجواب یہی تھا کہ اللھم نعم۔ بہر صورت وجہ کوئی بھی ہو (رسول اکرم کی تمام تر کوششوں کے باوجود) یہ انحراف وجود میں آیااور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ کیونکہ خلافت کا پہلا مرحلہ (رسول اکرم کی) وصیت کی نفی کر کے اصحاب کے اجماع اور فیصلے کو دلیل بنا کر طے کر لیا گیا جبکہ صرف دو سال بعد دوسرا مرحلہ اجماع کو پس پشت ڈال کے، صاحب نظر افراد کے کسی قسم کے اظہار نظر کے بغیر ،ارباب حل و عقد اور ماہرین کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے ۱۔ علی کے سوا سب کے دروازے بند کر دو۔ ۲۔ (اے علی) آپ میرے بعد تمام مومنوں کے سرپرست ہوں گے۔ وصیت کی بنیاد پر طے کیا گیا، اور اسکے دس سال بعد خلیفہ ء سوم کے انتخاب کے لئے گزشتہ دو خلفاء کے انتخاب کے طریقے کے برخلاف شوریٰ کے نام سے ایک تیسرا راستہ اپنایا گیا ۔ خلیفہ کے انتخاب کے سلسلے میں اختیار کئے جانے والے یہ تین مختلف اورمتضاد راستے اور راہ حق کے مقابلے میں ایجاد ہونے والا یہ انحراف شاید بعض افراد کے نزدیک صرف ماضی کی ایک داستان اور انجام پا چکنے والا عمل ہولیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے جوتلخ نتائج اورنقصانات سامنے آئے ،وہ اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ نہ ہی اجتماعی امور کا کوئی ماہر ان کا مکمل تجزیہ و تحلیل کر سکتا ہے اور نہ ہی حتیٰ کوئی محقق اور مورخ انہیں کماحقہ بیان کر سکتا ہے۔ امیر المومنین کے زمانے کے واقعات انہی کے بیانات کی روشنی میں اس زمانے کی بعض معاشرتی اور مذہبی مشکلات کو امیر المومنین کے درج ذیل کلام میں محسوس کیا جا سکتا ہے اور یوں احساس ہوتا ہے کہ گویا امام حسین کا خطبہ امیر المومنین کے اسی کلام کی تشریح ہو۔ اس کلام میں خلفائے اول اور دوم کے طریقہ ء انتخاب اور اس دوران اپنی صورتحال اور مقام کو بیان کرنے کے بعد، امیر المومنین نے ان واقعات ، غلطیوں ، خامیوں اور مصیبتوں کی طرف اشارہ کیا جو خلیفہ ء ثانی اور ثالث کے زمانے میں پیش آئیں ،جس نے مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ امیر المومنین سے رجوع کریں۔ اسی طرح اس کلام میں ان قبیح اعمال کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے ، جو نفسانی خواہشات ، حب دنیا ، جاہ ومقام اور مال و منال کی خاطر بعض مسلمانوں نے انجام دیئے۔ آپ فرماتے ہیں: (( خدا کی قسم لوگ ان (خلیفہء دوم) کے زمانے میں کج روی، سرکشی ،متلون مزاجی اوربے راہ روی میں مبتلا ہو گئے۔ میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا، یہاں تک کہ انہوں نے بھی اپنی راہ لی اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گئے اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔ لله مجھے اس شوریٰ سے کیا واسطہ ؟ ان میں کے سب سے پہلے ہی کے مقابلے میں میرے استحقاق اور فضیلت میں کب شک و شبہ تھا، جو اب ان لوگوں میں، میں بھی شامل کر لیا گیا ۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہوکے پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتیٰ الامکان کسی نہ کسی صورت میں نباہ کرتا رہوں) ۔ ان (اراکین شوریٰ) میں سے ایک شخص تو کینہ و عناد کی وجہ سے میرا مخالف ہواا وردوسرا دامادی اور بعض ایسی باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا جن کا بیا ن مناسب نہیں ۔ یہاں تک کہ اس قو م کا تیسرا پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اسکے ساتھ ساتھ اس کے بھائی بند بھی اٹھ کھڑے ہوئے ،جو الله کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل بہار کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کی بد اعمالیوں نے اس کا کا م تمام کردیا اور شکم پری نے اسے منھ کے بل گرادیا ۔اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری طرف بجو کے ایال کی طرح ہر طرف سے مسلسل بڑھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ صورت یہ ہوگئی تھی کہ حسن اور حسین کچلے جارہے تھے اور میری چادر کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے۔ وہ سب میرے گرد اس طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے جیسے بکریاں بھیڑئیے کے حملے کی صورت میں اپنے چرواہے کے گرد جمع ہوجاتی ہیں ۔لیکن اس کے باوجود جب میں نے خلافت کی ذمے داریاں سنبھالیں تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کیا ۔گویا ان لوگوں نے الله کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ :یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگو ں کیلئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں، نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گار وں کے لئے ہے ۔ہاں ہاں! خدا کی قسم ان لوگوں نے اس آیت کو سنا تھا اور یاد کیا تھا لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا تھا اور اس کی سج دھج نے انہیں دیوانہ کردیا تھا۔))(۱) امیرالمومنین کے مذکورہ بالا خطبے کے آخری الفاظ میں آپ کا درد دل ملا حظہ کیا جاسکتا ہے ۔لہذا جب آپ نے زمام خلافت کواپنے ہاتھ میں لیا اور اسلام کے صحیح قوانین کا نفاذ اور عدل وانصاف کا بول بالا ہوا اور جب انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ اپنے پروگرام کا اعلان کیاکہ :والله لو وجدتہ قدتزوج بہ النساء وملک بہ الاماء لرددتہ فان فی العدل سعة ومن ضاق علیہ العدل فالجور بہ اضیق ۔۔(خدا کی قسم !اگر مجھے کوئی مال اس حالت میں مل جاتا جسے عورتوں کا مہر بنایا دیا گیا ہے، یا اسے کنیز کی قیمت کے طور پر دیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرادیتا ۔اس لئے کہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اسکے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہوگی۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۵) تو ۲۵ سال کی بے راہ روی، رسول الله کی سیرت سے دوری اور قانون شکنی اور حق تلفی کا عادی ہوجانے کی وجہ سے ،لوگ حق وعدالت کے قیام کے لئے امیر المومنین کی کوششوں کو جرم سمجھنے لگے اور آپ کی مخالفت میں کھڑے ہوگئے اور آپ کے خلاف ایک داخلی جنگ کا آغاز کر دیا۔ کچھ لوگ اگرچہ براہ راست اس جنگ میں شامل نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنی خاموشی کے ذریعے دشمن کو مضبوط کیا۔ اس کے نتیجے میں بجائے یہ کہ امیرالمومنین کی طاقت ۱۔ نہج البلاغہ ۔خطبہ نمبر ۳ عدل وانصاف کے اجراء اور قرآن وسنت کے اہداف ومقاصد کو جامہء عمل پہنانے کے سلسلے میں صرف ہوتی، آپ کی تمام تر تو جہات اسلام کی بنیادوں کے تحفظ اور اسلامی معاشرے کی حفاظت پر مرکوز ہوگئیں۔ حد یہ ہے کہ ان داخلی جنگوں اور اندرونی اختلافات کے نتیجے میں لشکر حق اتنا کمزور اور بے اثر ہوگیا اور اس صورتحال نے امیرالمومنین کو ایسا آزردہ خاطر کیا کہ آپ نے بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہوئے یوں عرض کی : اللھم انی قد مللتہم وملونی وسئمتھم وسئمونی، فابدلنی بہم خیرا منہم، وابدلھم بی شرامنی۔ ((اے پروردگار! میں ان سے تنگ آگیا ہوں اور یہ مجھ سے تنگ آگئے ہیں۔ میں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ مجھ سے اکتاگئے ہیں لہذا مجھے ان سے بہتر قوم عنایت کر دے اور انہیں مجھ سے بد تر حاکم دے دے۔ )) نیز فرمایا : والله لا ظن ان ھولاء القوم سید الون منکم با جتماعھم علی باطلھم ،وتفرقکم عن حقکم وبمعصیتکم اما مکم فی الحق، وطاعتھم امامھم فی الباطل، وبادائھم الامانة الی صاحبھم و خیانتکم ،وبصلاحھم فی بلاد ھم وفساد کم۔ ((اور خدا کی قسم میرا خیال یہ ہے کہ عنقریب یہ لوگ تم سے اقتدار چھین لیں گے ۔اس لئے کہ یہ اپنے باطل پر متحد ہیں اور تم اپنے حق پر متحد نہیں ہو۔ یہ اپنے پیشوا کی باطل میں اطاعت کرتے ہیں اور تم اپنے امام کی حق میں بھی نافرمانی کرتے ہو۔ یہ اپنے مالک کی امانت اس کے حوالے کردیتے ہیں اور تم خیانت کرتے ہو۔ یہ اپنے شہروں میں امن وامان رکھتے ہیں اور تم اپنے شہروں میں بھی فساد کرتے ہو ۔))(نہج البلاغہ ۔ خطبہ نمبر ۲۵) ساتھ ہی پیش گوئی فرمائی کہ پیش آمدہ حالات میں( جبکہ تم اپنے رہبر اور امام کی طرف سے عائد ہونے والے فریضے کی ادائیگی میں سستی کرتے اور نافرمانی برتتے ہو اور دشمن اپنے مکرو فریب میں ہر روز موثر قدم بڑھا رہا ہے) جلد ہی معاویہ اور اس کے طرفدار کامیاب ہو کر تم پر مسلط ہو جائیں گے اور یوں ایک تاریک مستقبل اور ہولناک مقدر تمہارے انتظار میں ہے۔ اما انکم ستلقون بعدی ذلا شاملا و سیفا قاطعا واثرةیتخذھا الظالمون فیکم سنة(۱) ((مگر آگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہر طرف سے چھا جانے والی ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہے اور ظالموں کے اس وتیرے سے سابقہ پڑنا ہے کہ وہ تمہیں محروم کر کے ہر چیز اپنے لئے مخصوص کر لیں ۔ )) اور آخر کار امیرالمومنین کی دعا :فابدلنی خیرا منھم (ان کی بجائے ان سے بہتر افراد مجھے عنایت فرما)پوری ہوئی اور ان افراد کی بجائے جن سے امیرالمومنین رنجیدہ تھے الله تعالیٰ نے انہیں رسول الله، انبیاء اور اولیاء کے ہمراہ اپنے جوار خاص میں مقام عنایت فرمایا اور آپ نے اپنی خون آلود اور مجروح پیشانی کے ساتھ آخری کامیابی کا استقبال کیا اور فزت ورب الکعبہ (۲) کہتے ہوئے اپنے رب سے ملاقات کے لئے روانہ ہوئے۔ امام حسن کا طریقہ ء کار امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند اور نواسہء رسول (امام حسن مجتبیٰ)نے فیصلہ کیاکہ بنی امیہ کے فسادوانحراف اور معاویہ کے ساتھ مقابلے کے سلسلے ۱۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ نمبر ۵۸ ۲۔ عربی لغت نامے اقرب الموارد میں ہے کہ ((فاز بخیر ای ظفربہ ویقال لمن اخذحقہ من غریمة:فاز)) اس طرح کلمہء فوز کے اصلی معنی کامیابی ہیں نہ کہ ہدایت اور اصلاح جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی کسی مقابلے میں جیتنے والے کو فائز کہا جاتا ہے ۔ میں وہ بھی امیرالمومنین ہی کے راستے پر قدم بڑھائیں گے اور ماضی کے کفر اور آج کی منافقت کی مخالفت کو امامت اور رہبری کی بنیادی ذمہ داری قرار دیں گے، کیونکہ وہ بھی برحق امام تھے اور جوانان جنت کے سردار تھے ،ان کا راستہ اور منصوبہ وہی تھا جو امیرالمومنین کا راستہ اور منصوبہ تھا ۔ لہذا آپ نے معاویہ کے خلاف جنگ کا حکم صادر فرمایا اور لشکر کوفہ کو جمع کرتے ہوئے، خود فوج کے سپاہ سالار اورقائد کے طور پر محاذ کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن جنگ کے آغاز ہی میں ایک طرف تو خود اپنے لشکر میں موجود بے وفا افراد کی وجہ سے ،جن کی تن آسانی اور سستی کی امیرالمومنین بھی ہمیشہ مذمت کیا کرتے تھے اور ان کی بے وفائی اور غیر ذمے داری کا درگاہ الہیٰ میں شکوہ کرتے تھے اور دوسری طرف ابوسفیان کے بیٹے کی چالاکی کی وجہ سے امام حسن اپنے قلبی رجحان کے برخلاف جنگ بندی قبول کرنے اور ایسے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور ہوئے جس پر عمل درآمد کی انہیں امیر حمزہ کاجگر چبانے والی ہندہ کے بیٹے معاویہ ا بن ابو سفیان سے کوئی امید نہ تھی ۔ امام حسن بن علی نے اس تاریخی سانحے اور بظاہراپنے نرم رویے کے بنیادی اسباب کا مختلف موقعوں پر ذکر فرمایا ہے اور اپنے زمانے کے لوگوں کے سامنے اس سلسلے میں اپنی اندرونی غم انگیز کیفیت کا متعدد مواقع پر اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے ایک تقریر کے دوران جبکہ معاویہ بھی وہاں موجود تھے یوں ارشاد فرمایا : (( اے لوگو ! معاویہ یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے صلح کی قرارداد قبول کر کے میں نے انہیں مقام خلافت کا مستحق سمجھا ہے ۔ ان کا یہ کہنا درست نہیں کیونکہ الله کی کتاب اور سنت نبی کے مطابق لوگوں کی رہبری اور قیادت ہمارے خاندان کے لئے ہے (یعنی یہ کیسے ممکن ہے کہ میں کتاب و سنت کے برخلاف عمل کروں) اور خدا کی قسم اگر لوگ ہمارے ساتھ کی جانے والی بیعت میں وفادار رہتے اور ہماری اطاعت کرتے اور ہماری مدد کرتے تو خداوند متعال زمین و آسمان کی برکتیں ان پر نازل کرتا۔ (پھر معاویہ سے مخاطب ہو کے فرمایا) اور پھر تم لوگوں پر حکومت اور بالادستی کا خواب نہ دیکھ سکتے۔ اے معاویہ ! تم رسول الله کے اس فرمان سے باخبر ہو کہ جو قوم بھی اپنی حکومت اور سرپرستی آگاہ اور باخبر افراد کے ہوتے ہوئے بے خبر اور بے صلاحیت لوگوں کے سپرد کر دے توتباہی اور بربادی اس قوم کا مقدر ہو جائے گی اور وہ قوم بچھڑوں کی عبادت (یا گوسالہ پرستی) کا شکار ہو جائے گی۔)) پھر فرمایا : ((بنی اسرائیل نے یہ جاننے کے باوجود کہ ہارون، موسیٰ کے جانشین اور خلیفہ ہیں ،انہیں ترک کر دیا اور بچھڑے کی عبادت میں مشغول ہو گئے۔ مسلمانوں کے درمیان بھی ایسا ہی انحراف پیش آیا اور حضرت علی کے بارے میں رسول الله کی اس ہدایت کے ہوتے ہوئے کہ : یا علی ! انت منی بمنزلة ھارون من موسی (اے علی! آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی) مسلمانوں نے علی کو چھوڑ دیا اور اس کے برے نتائج کا شکار ہو گئے۔)) پھر امام حسن نے معاویہ کو مخاطب کر کے فرمایا : ((جس زمانے میں رسول الله لوگوں کو الله اور توحید کی دعوت دے رہے تھے، انہوں نے غار میں پناہ لی تھی اور اگر ان کے انصار و اعوان ہوتے تو وہ ہرگز لوگوں سے دور نہ ہوتے ۔اے معاویہ ! اگر میرے اعوان و انصار ہوتے تو میں بھی کبھی صلح کا معاہدہ قبول نہ کرتا۔)) پھر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ((الله تعالیٰ نے ہارون کا عذر قبول کیا، جب ان کی قوم نے انہیں چھوڑ دیا تھا اور ان کے قتل کے منصوبے بنا رہے تھے۔ اسی طرح الله نے نبی اکرم کے عذر کو بھی قبول کیا جب وہ اپنا کوئی مددگار نہیں پاتے تھے اور اپنی قوم سے دوری اختیار کرتے تھے۔ الله تعالیٰ میرے اور میرے والد علی کے عذر کو بھی قبول کرے گا کیونکہ ہمیں بھی اپنے اردگرد اعوان و انصار نظر نہیں آتے تھے ۔لہذا (ہم نے) دوسروں کے ساتھ گزارہ کیا۔ اور یہ سب تاریخ کے قوانین اور ایک جیسے واقعات ہیں جو ایک کے بعد ایک واقع ہوتے ہیں۔)) امام نے اپنی تقریر کے آخر میں فرمایا : (( لوگو! اگر مشرق و مغرب میں تلاش کرو تب بھی میرے اور میرے بھائی کے علاوہ تمہیں کوئی فرزند نبی نہیں ملے گا۔))(۱) اسی طرح جب امام کے جاننے والوں میں سے کسی نے صلح کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے جواب میں یوں فرمایا: (( خدا کی قسم میں نے یہ صلح اور معاہدہ صرف اس وقت قبول کیا جب دیکھا کہ کوئی ساتھ دینے والا نہیں ہے۔ اور اگر اس مقصد کے لئے میرے پاس طاقت و قوت (انصار و اعوان) ہوتی تو دن رات معاویہ سے جنگ کرتا یہاں تک کہ جو خدا کو منظور ہوتا وہ انجام پاتا : وَالله، ماٰ سَلَّمْتُ اْ لأ مَر الیہِ الاّ اَنی لَم اَجِد اَنْصاراً وَلَوْ وَجدَتُ اَنْصاراً لَقاتَلْتُہُ لَیلی وَنَھٰاری حَتیَّ یَحْکُمَ الله بینی وَبَینَہ۔)) (۲) ۱۔ احتجاج طبرسی ۔ ج ۲۔ ص ۸ ۲۔ احتجاج طبرسی ۔ ج ۲۔ص ۱۲ خلاصہء کلام یہ کہ اگر امیر المومنین علیہ السلام اپنے اہداف و مقاصد کو حاصل نہ کر سکے اور امام حسن، معاویہ کے ساتھ صلح پر مجبور ہوئے اوراگر معاویہ کو اتنی قدرت ملی کہ وہ مسلمانوں پر اپنے اقتدار کے حصول میں کامیاب ہوں اور انہیں ذلت و رسوائی سے دوچار کر دیں، انہیں اسلام و قرآن سے دور کر دیں اور یہاں تک کہ امت اسلامی کی تقدیر یزید جیسے خطرناک شخص کے سپرد کر دیں، تو اس کا ایک اہم ترین سبب یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنے امام اورولی کی اطاعت میں کوتاہی کی اورمعاشرے کے بعض سرکردہ ترین افراد نے اپنے رہبر اور امام کے سلسلے میں اپنی ذمے داریوں پرتوجہ نہیں دی۔یہ افراد نہ صرف یہ کہ امام کے احکام و فرامین کی اطاعت پر تیار نہ تھے اور ان کی معنوی اور روحانی رہبری میں قدم بڑھانے سے گریز کرتے تھے بلکہ اس کے برخلاف ایسے بے جا اعتراضات، بہانے اور چوں و چرا کیاکرتے تھے کہ آخر کار ناقابل تلافی نقصانات اٹھانے پڑے۔ ۲ -امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت امام حسین نے اپنے اس نورانی اور تاریخی خطبے کے دوسرے حصے میں بالعموم تمام مسلمانوں اور بالخصوص مہاجرین اور انصار کو مخاطب کیا ہے اور فریضہ ء امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (جس پر اسلامی معاشرے کی اساس استوار ہے) کی انجامدہی کے سلسلے میں ان کی نوٹ : معاویہ سے جنگ ترک کرنے کے بارے میں امام حسن کے اس واضح بیان کو پیش نظر رکھا جائے تو رسول مقبول سے منسوب کی جانے والی یہ حدیث : اِنَّ ابنی ھًذا سَیدَّ وَلَعَل الله اَنْ یُصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئتَین مِنَ المُسلِمینَ (میرا یہ فرزند (حسن ) سیدو سالار ہے اور امید ہے کہ خداوند عالم اسکے توسط سے مسلمانوں کے دوگروہوں کی اصلاح کرے گا) جو امام حسن کی فضیلت کے عنوان سے صحیح بخاری اور اہل سنت کے دوسرے منابع حدیث میں نقل کی گئی ہے اور شیعہ کتب میں بھی داخل ہوئی ہے، جعلی حدیث محسوس ہوتی ہے، جسے بنی امیہ کے حدیث سازی کے کارخانے میں تیار کیاگیا ہے تاکہ تاریخی حقائق کو الٹ پلٹ دیں اور امام حسن کے مخالف لشکر کو مسلمانوں میں شمار کریں اور ان کا خون بہانے (بقیہ اگلے صفحہ پر) سستی اوربے توجہی کی مذمت اوران کی سرزنش فرمائی ہے، اور معاشرے میں ظلم و ستم پھوٹ پڑنے اور مسلمانوں کے مقدر پر ظالم اور ستمگر افراد کے تسلط (جس کا ذکر آپ نے اپنے اس خطبے کے تیسرے حصے میں کیا ہے ) کا ایک سبب اس اہم فریضے کے سلسلے میں مسلمانوں کی کوتاہی کوقرار دیا ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہم ترین پہلو لیکن امام کے خطاب کے اس حصے میں جو بات انتہائی قابل توجہ اور اہمیت کی حامل ہے، وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے وسیع مفہوم اور اس کے مختلف پہلوؤں کی تشریح اور اس بنیادی مسئلے کے اہم ترین رخ اور عملی پہلو کی جانب اشارہ ہے ۔ کیونکہ امام نے قرآن کریم کی دو آیات کو بطور سند پیش کرتے ہوئے فرمایا : اگر معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر برقرار ہو توچھوٹے بڑے تمام واجبات پرعمل ہو اور تمام مشکلات حل ہو جائیں ۔اس کے بعد نمونے اور مصداق کے طور پر پانچ امور کو نکتہ وار درج ذیل صورت میں بیان کیا : ۱-وذلک ان الامر بالمعروف و النھی عن المنکر دعاء الی الاسلام: امربالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کی طرف دعوت (فکری اور عقیدتی جہاد کے مساوی ) ہے۔ ۲ - مع رد المظالم : مظلوموں کو ان کے حقوق لوٹانا ہے۔ ۳- ومخالفة الظالم : ظالم کے خلاف جد و جہد ہے۔ ۴- وقسمة الفی ء والغنائم : مال غنیمت اور عوامی دولت کی عادلانہ تقسیم ہے۔ (بقیہ پچھلے صفحے کا حاشیہ)کو حرام اور صلح کے مسئلے کو ایک واجب عمل اور امام حسن کی نسبت سے ایک اولی حکم ظاہر کریں۔ لیکن امام حسن کی گفتار سے واضح ہے کہ آپ نے بحالت مجبوری صلح قبول کی تھی اور اگر آپ کو جانثار اصحاب و انصار کی خاطرخواہ تعداد میسر ہوتی اور حالات آپ کے حق میں ساز گار ہوتے تو آپ حتمی کامیابی تک معاویہ کے خلاف جنگ جاری رکھتے اور آپ معاویہ کے پیروکاروں کو فئتین من المسلمین شمار نہیں کرتے تھے۔ ۵- واخذ الصدقات من مواضعھاووضعھافی حقھا : زکات اور دوسرے مالی واجبات کی صحیح جمع آوری اور ٹھیک ٹھیک مقامات پر انہیں خرچ کرنا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وسیع سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا انجام دینا، (جس میں ظالم کا مقابلہ، حقوق کی بازیابی ، ظلم وستم کا جڑ سے خاتمہ اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام شامل ہے) حکومت اسلامی کے قیام اور ان امور کے اجراء کے لئے قوت ہاتھ میں لئے بغیرمحض انفرادی سطح پر تلقین اور زبانی طور پر اچھائیوں کی تاکید سے ممکن نہیں۔ امام حسین علیہ السلام کا یہ بیان درحقیقت ان لوگوں کے لئے واضح جواب ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم اور بنیادی فریضے کو انتہائی محدود پیمانے میں، انفرادی سطح پر اور عمل کی بجائے محض زبانی کلامی تلقین میں منحصر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح یہ خطاب اسلامی حکومت کے قیام کے واجب ہونے اور معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عملی اجراء کے لئے ایک مضبوط دلیل فراہم کرتا ہے۔ اسی بنا پر اور ایسے ہی متعدد دلائل کی روشنی میں بعض بزرگ شیعہ فقہا نے جہاد جیسے فریضے کو اس کی تمام تر عظمت ، وسعت اور احکام کے باوجود امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک شاخ قرار دیا ہے اور اسے ان دو اشد اہم فرائض کا ایک حصہ شمار کرتے ہیں۔ زیارت امام حسین میں درج ہونے والا جملہ: اشھد انک قد اقمت الصلاةوآتیت الزکاة وامرت بالمعروف و نھیت عن المنکر بھی اس حقیقت کا گواہ ہے اور اس مفہوم کی وضاحت کرتا ہے کہ حکومت یزید کی مخالفت میں امام حسین علیہ السلام کا جہاد اور مبارزہ درحقیقت فرائضِ الہیٰ کی ادائیگی ، نماز وزکات کے قیام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی انجام دہی کے لئے تھا۔ مختصر یہ کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا صحیح ، وسیع اور جامع مفہوم معاشرے میں عدل و انصاف کا رواج اور سماج سے ظلم و فساد کا مکمل خاتمہ ہے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہو، اور اگر کسی معاشرے میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا اس کے اس مفہوم میں اجراء نہ ہو اور اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت قائم نہ کی جائے تو پھر قدرتی طور پر یہ ہو گا کہ اسکی جگہ ظالم و ستمگر اور بدقماش افراد معاشرے پر چھا جائیں گے۔ اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امیر المومنین نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا: ولا تترکواالأمربالمعروف و النھی عن المنکر فیولی علیکم اشرار کم فتدعون فلا یستجاب لکم ۔ ((امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو کسی صورت میں ترک نہ کرنا ،ورنہ تمہارے برے تم پر حاکم ہو جائیں گے ،پھر دعائیں بھی مانگو گے تو پوری نہیں ہوں گی۔))(۱ ) ۳ -تاریخ کے پست سرشت افراد امام حسین علیہ السلام کے اس اہم خطبے کے یہ تین حصے ایک اعتبار سے فلسفہ ء تاریخ کے درس اور علم اجتماعیات کے و ہ گہرے نکات ہیں جن میں اسلام کے ابتدائی۵۰ سال کے دوران مسلمانوں کی معاشرتی تبدیلیوں کے اسباب بیان ہوئے ہیں، اسلام کی عظمت کے ابتدائی دور ہی میں ظالموں اور ستمگروں کے قابض ہونے کی وجوہات ذکر ہوئی ہیں، اہل بیت اطہار کی حق تلفی اور معاویہ ابن ابی سفیان کے حاکم ہو جانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور تین مختلف پہلوؤں سے ان مسائل کا جائزہ لیا گیا ۔ اس خطبے میں درحقیقت آیت قرآن :ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا مابانفسھمکی تاریخی شواہد اور انتہائی محسوس دلائل کی روشنی میں انتہائی خوبصورت اور ۔ نہج البلاغہ ۔ مکتوب نمبر ۴۷ دلنشین انداز میں تفسیر کی گئی ہے۔ نیز اسی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے اندرونی رنج و اندوہ اور ان کی تشویش کا اظہار بھی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ خطبہ تاریخ اسلام میں آنے والے تمام مسلمانوں بالخصوص علما کے لئے تنبیہ اور بیداری کا پیغام بھی ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے خطبے کے تیسرے حصے میں اس اہم اور تاریخی اجتماع میں موجود مسلمانوں ، اصحاب رسول اور ان کی اولادوں کو مخاطب قرار دیا۔ یہ لوگ مذہبی اور سماجی مقام کے حامل ایسے سرکردہ افراد تھے جو اپنے کردار کے ذریعے معاشرے میں ایک تحریک ایجاد کرسکتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا قول و عمل، گفتار و کردار حرکت اور سکون افراد ملت کے لئے نمونہ ء عمل اور لائق تقلید تھا۔ انہیں چاہئے تھا کہ اپنی شخصیت کی اہمیت اور اس کے مرتبے کو پہچانتے اور اپنی صحیح حیثیت کا اندازہ لگاتے اور مظلوموں کی نجات اور معاشرے کو حقیقی معنوں میں فلاح و سعادت سے ہمکنار کرنے کے لئے تدبیر کرتے۔ لیکن دنیاوی زندگی کی محبت، مادی لذتوں کی حرص، آسائش طلبی اور سختیوں سے بچنے کی خواہش اور بعض اوقات اپنے جمود اور سادہ لوحی کی وجہ سے ان افراد نے بزدلی کی راہ اختیار کی اور زمین پر ہمیشہ باقی رہنے کی بچکانہ خواہش نے انہیں ان کی ذمے داریوں سے غافل کر دیا۔ ان لوگوں نے خدائی احکامات کی ایسی من مانی تفسیریں کیں جن سے ان کے ذاتی مقاصد حاصل ہو سکیں اور اپنی اس بے راہ روی پر مسلسل گامزن رہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں حق اور فضیلت کا محافظ سمجھا جانے کی وجہ سے معاشرے میں خصوصی عظمت اور مقام حاصل تھا، کمزور اور قدر ت مند، سب کے دلوں میں ان کی ہیبت اور دبدبہ قائم تھا اور ہر ایک انہیں خاص احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی ان سے ساری امیدیں اور توقعات ضائع ہو گئیں۔ ان لوگوں نے دین اور قرآن کی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کیا، کسی مالی نقصان کاسامنا نہیں کیا اور نہ ہی کسی پابندی، قید و بند اور اذیت و آزار کو جھیلا۔ ان کے اقربا اور رشتے دار اسلامی مقدسات کا مذاق اڑاتے رہے اور انہوں نے ان کی کوئی مخالفت نہیں کی اوردین وقرآن کے حامیوں ، اسلام کی راہ میں اذیت و آزار جھیلنے والوں اور اس راہ میں جلا وطنی برداشت کرنے والوں کو کوئی اہمیت نہ دی۔ ان کی موجودگی میں اسلام و قرآن کی حرمت کو پامال کیا گیا اور یہ خاموش رہے بلکہ عملًا اسلام کے دشمنوں کی چاپلوسی اور ان سے ساز باز کی روش اخیتار کی اور یوں ظالموں کی حاکمیت اور مظلوموں کے حقوق کی پامالی کا راستہ ہموار کیا۔ لیکن اگر یہ غورکرتے تو جان لیتے کہ ایسا کر کے انہوں نے درحقیقت اپنے ہی لئے ایک بڑی مصیبت کا سامان کیا ہے، اورخود اپنے ہی ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی کی بنیادیں رکھی ہیں۔ کیونکہ اگر وہ حق کاساتھ نہ چھوڑتے، خط ولایت اور فرمان نبوت کے بارے میں اختلاف کا شکار نہ ہوتے، راہ خدا میں مارے جانے سے نہ کتراتے ، چندروزہ دنیاوی زندگی کی لالچ میں مبتلا نہ ہوتے اورالله کے راستے میں عارضی مصیبت، مشقت اور محرومیت پر صبر کرتے،تو اسلامی معاشرے کی سربراہی اور زمام امور ان ہی کے ہاتھ میں ہوتی اور الله کے احکام اور فرامین ان ہی کے ذریعے جاری ہوتے، مظلوم اورستم رسیدہ افراد ان ہی کے ہاتھوں نجات پاتے، محروموں اور مشکل کے ماروں کی داد رسی ہوتی اور ظالم و جابر ان کے ہاتھوں کچل دیئے جاتے۔ لیکن ان کی سستی اور کوتاہی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا،اسلام سے ان کی دوری نے انہیں ذلیل و خوار کر دیا ،اورقدرت و حاکمیت دشمنوں کے ہاتھوں میں آ گئی، وہ جس طرح چاہتے ہیں مظلوموں کے ساتھ پیش آتے ہیں اور جس طرف ان کی شقی طبیعت کا میلان ہوتا ہے معاشرے کو اسی طرف لے جاتے ہیں، الله کے احکام کی تحقیر کرتے ہیں اور سنت رسول کی اہانت ۔ نابیناؤں، محتاجوں ،فقرا اور مساکین کو بنیادی ترین انسانی حقوق سے محروم کرتے ہیں۔ مملکت اسلامی کے ہر گوشے میں ایک مستبد فرد حاکم ہے اور ہر علاقے پر ایک خود خواہ شخص فرمانروا ہے۔ یہ لوگ اسلام کی قدرت اور مسلمانوں کی عزت و شوکت کو پامال کرنے کے لئے اپنے پاس موجود ہر قسم کے تبلیغاتی حربے استعمال کررہے ہیں، اسلامی دستور میں تحریف اور اسلامی قوانین کو الٹ پلٹ رہے ہیں، حدود کی سزاؤں کو انسانی حقوق کی پامالی ، قصاص کو ظلم اور تعزیرات کو قساوت کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں ۔ یہ وہ خطاب ہے جو حسین ابن علی نے ارشاد فرمایا، حسین جو نواسہ ء رسول ہیں، فرزند امیر المومنین علی ابن ابی طالب ہیں اور فاطمہ زہرا کے لخت جگر ہیں۔ یہ صرف حسین ابن علی ہی کا کلام نہیں ہے بلکہ یہی تمام انبیاء کا کلام اور تمام ائمہ و اولیائے خدا کا درد دل ہے ،حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، اور خاتم الانبیاء کا کلا م ہے ، حضرت علی ، اما م حسن اور بقیہ ائمہ ء اطہار کا کلام ہے۔ خطبے کا عملی جواب جس طرح یہ خطبہ اور یہ کلام انبیاء ، اولیاء اور ائمہء ہدیٰ کا کلام ہے، اسی طرح اس کاعملی جواب بھی سب سے پہلے انبیاء اور ائمہء ہدیٰ نے دیا، ا ور وہی تھے جنہوں نے تاریخ انسانی کے ہر دور میں اس حیات بخش ندا پر لبیک کہا۔ جی ہاں! یہی لوگ منادی بھی تھے اور لبیک کہنے والے بھی، خود ہی خطاب کرنے والے بھی تھے، خود ہی اس خطاب کو سننے والے بھی، خودہی دعوت دینے والے بھی اور خود ہی اس کا جواب دینے والے بھی۔ انہوں نے اس دعوت کے جواب میں ایسی استقامت اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا کہ شوق و اشتیاق کے ساتھ آگ میں کود پڑے، اورآخر کار اپنے زمانے کے سرکش نمرودیوں پر غالب آ ئے، اورتوحید کی بنیادیں قائم کر دیں اور اپنے اہداف و مقاصد کے سلسلے میں ایسی پائیداری دکھائی کہ دشمن کو سمندر کی موجوں میں غرق کر کے اپنی قوم کو ذلت و غلامی سے نجات دلائی ۔یہ لوگ اپنے عہد و پیمان سے اس قدر وفادار تھے کہ جب ان کے کٹے ہوئے سر طشت میں رکھ کر دشمنوں کو پیش کئے گئے تو اس عالم میں بھی انہوں نے شمشیر پر خون کی فتح کا نعرہ بلند کیا۔ اور بالآخر تشیع کو یہ اعزاز اور افتخار حاصل ہوا کہ اس کے ائمہ اور اس کے رہنماؤں نے دینِ اسلام کی سربلندی اور تعلیمات ِقرآنی کے عملی نفاذ کی راہ میں( جس کاایک مظہر عادلانہ اسلامی حکومت کی تشکیل و تاسیس ہے) کبھی پس زنداں اور کبھی جلاوطنی کی زندگی بسر کی اور آخر کار اپنے زمانے کے ظالموں اور طاغوتوں کی حکومتوں کے خاتمے کے لئے جد و جہد کے دوران شہید ہوئے(۱)۔ جہاں تک حالات اور وسائل نے اجازت دی ائمہ نے مسلحانہ جد و جہد کی اور اپنی تلواریں سونت کر دشمنان اسلام کی صفوں پر حملے کئے۔ درحقیقت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کے زمانے کی تین جنگیں اور(معاویہ ابن ابی سفیان اور یزید ابن معاویہ کے مقابلے میں) امام حسن اور امام حسین کی معرکہ آرائی تاریخ انسانیت اور تاریخ اسلام میں ظلم و ناانصافی کے خلاف کی جانے والی جد و جہد کے سنہرے اوراق ہیں۔ اما م حسین اور ان کے اصحاب کا عملی جواب اگرچہ اس خطبے کا مضمون حاضرین اور سامعین کے سامنے امام حسین کے آئندہ اقدامات اور حکمت عملی کا اجمالی خاکہ پیش کر رہا تھا اور امام علیہ السلام کی جانب سے عملی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی خبر دے رہا تھا اور سامعین کو آئندہ کے حالات کے لئے تیار رہنے اور اس قیام سے تعاون کرنے کی دعوت دے رہا تھا لیکن خطبے کے آخری جملات میں یہ حقیقت انتہائی کھلے الفاظ کے ساتھ بیان کر دی گئی اور ایک بھرپور اور تاریخی تحریک کی وضاحت کرتے ہوئے امام نے فرمایا : اللھم انک تعلم انہ لم یکن ماکان منا منافسة فی سلطان۔۔۔ فانکم ان لم تنصروناو تنصفونا قوی الظلمة ۔ امام خمینی کے الہیٰ و سیاسی وصیت نامے سے اقتباس علیکم و عملوا فی اطفاء نور نبیکم۔ (( بارالہاٰ ! تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری جانب سے ہوا (بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں ) وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اور نہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ یہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکارا کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات (حاضرین سے خطاب) نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر اور زیادہ چھا جائیں گے اور (( نور نبوت )) کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے ۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔)) اس خطبے میں امام حسین نے اپنے جس مقصد کو بیان کیا یہ وہی مقصد ہے جس کی جانب آپ نے اس خطاب کے تین سال بعد(۲۸ رجب ۶۰ھ میں) مدینہ سے روانگی کے وقت اپنے تاریخی وصیت نامے میں اشارہ فرمایا تھا۔ وانی لم اخرج اشراً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً وانما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی، اریدان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر۔۔۔ ((میرا مدینہ سے نکلنا خود غرضی کے تحت ہے نہ تفریح کی غرض سے اور نہ ہی میں ظلم و فساد برپا کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ نیکیوں اور بھلائیوں کا حکم دوں اوربرائیوں سے روکوں اور امت کے امور کی اصلاح کروں۔)) اور حقیقت یہ ہے کہ ائمہء اطہار کے پیروکار علما اور فضلا نے ہمیشہ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کے احیاء کے لئے نہ صرف شہید اول ، دوم اور سوم قربان کئے بلکہ شھداء الفضیلہ(۱) کی ایک عظیم الشان صف تشکیل دی۔ تاریخ کے اوراق ایسے ہزاروں شہدا کے ناموں سے سجے ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ ایسے گم نام شہدا بھی ہیں ،جن کے نام کتاب علیین میں دیکھے جاسکتے ہیں اور جو ایسے ہی بیش قیمت الفاظ میں خراج عقیدت کے مستحق ہیں کہ: (( سلام ہو ان زندئہ جاوید جانباز علمائے دین پر جنہوں نے اپنا رسالہء عملیہ و علمیہ دم شہادت اپنے خون کی روشنائی سے تحریر کیا، اور وعظ ونصیحت و خطاب کے منبر پر اپنی شمع حیات سے چراغ روشن کیا۔ حوزئہ علمیہ اور صف علما کے ان شہدا پر آفرین و مرحبا جنہوں نے جنگ و جہاد کا موقع آ پڑنے پر مدرسے اور درس وبحث سے اپنارشتہ منقطع کیا اور حقیقت علم کے پیروں میں پڑی خواہشات ِدنیاوی کی زنجیروں کو کاٹ ڈالا اور سرعت سے پرواز کر کے فرشتوں کے مہمان ہوئے اور ملکویتوں کے اجتماع میں اپنی حاضری کے نغمے بکھیرے۔ درود و سلام ان شہداء پر جو تفقہ کی حقیقت پا لینے کی حد تک آگے بڑھے اور اپنی قوم و ملت کے لئے ایسے مخبر صادق بنے جن کے ہر ہر لفظ کی صداقت کی گواہی ان کے خون کے قطروں اور جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں نے دی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور تشیع کے سچے علماسے اس کے علاوہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ دعوت حق اور اپنی قوم کی خاطر جہاد کی راہ میں ۱۔ شھداء الفضیلہ کتاب ((الغدیر)) کے مصنف علامہ امینی کی ایک مشہور کتاب ہے، جس میں چوتھی صدی ہجری کے بعد کے ایسے ۱۲۰ معروف علمائے کرام کے حالات درج ہیں جنہوں نے اسلام کی راہ میں جام شہادت نوش کیا۔ سب سے پہلی قربانی وہ خود پیش کریں گے اور ان کی کتاب زندگی کااختتام شہادت پر ہو گا۔))(۱) مترجم : جیسا کہ قارئین محترم نے ملاحظہ فرمایا، اس تاریخی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے مخاطب خاص کر وہ افراد ہیں جودینی رہنماؤں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور امام علیہ السلام نے انہی افراد کو معاشرے کے انحراف اور غفلت کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر وہ بنیادی ترین فریضہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کی بقا ہے اور اگر اس پر عمل نہ ہو تو معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں ، عدل و انصاف کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور ظالم و ستمگر زمام امور اپنے ہاتھوں میں لے کر معاشرے کو تباہی اور بربادی سے دوچار کردیتے ہیں اوراسے اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے موقع پر معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے وظیفے اور فریضے کا شعور حاصل کرے اور حتیٰ المقدور اس فریضے کو انجام دے جس کا ترک کرنا ان آفات و بلیات کا باعث بنا۔ آج صدیوں کے بعد دنیا ایک بار پھر اسلام کی نشات ثانیہ کا دور دیکھ رہی ہے اور امام خمینی کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد مسلمانوں میں شعور اور بیداری کی ایک ایسی لہر اٹھی ہے جس کی قدرت نے ایران کی ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کو پاش پاش کر دیا اور اس کے سچے ماننے والوں نے نہتے ہاتھوں اور وسائل کی کمیابی کے باوجود اسرائیل جیسے غاصب اور دشمن دین مبین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ آج ہر صاحب شعور اس اعتراف پر مجبور ہے کہ آئندہ صدی اسلام کی صدی ہو گی اور دنیا کے موجودہ سیاسی اور تمدنی نظاموں کی تباہی اور ان کا کھوکھلا پن ثابت ہونا اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مایوسی نیز تبلیغی ذرائع کی فراوانی اوروسعت اور سب سے بڑھ کر
دوسرا حکم
سلیم بن قیس اپنے بیان میں مزید فرماتے ہیں :جب کچھ مدت بعد خلیفہ ء ثالث کے بارے میں بہت زیادہ احادیث ہوگئیں تو معاویہ نے اپنے حکام کو یوں لکھا: حضرت عثمان کے بارے میں احادیث اب بہت زیادہ ہوگئی ہیں اور کافی حد تک مملکت ِاسلامی کے ہر کونے میں پہنچ گئی ہیں لہذا اس حکم نامے کے پہنچتے ہی لوگوں کو ترغیب دلاؤ کہ اصحاب اور پہلے دو خلفاء کے بار ے میں احادیث بیان کریں اور جو بھی کوئی حدیث یا فضیلت ابوتراب کے لئے منقول ہے اسی کی جیسی دوسرے اصحاب کے بارے میں نقل کریں۔ تمہارا یہ عمل میرے لئے پسندیدہ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہو گا اور ابوتراب اور ان کے حامیوں کو کچل دینے کا موجب ہو گا ۔ یہ خط اجتماعات میں پڑھ کر سنایا گیا اور اس کا مضمون عوام الناس کے درمیان نشر کردیا گیا ۔ فوری طور پر اصحاب کی فضیلت اور منقبت میں لاتعداد ا حادیث بیان کی جانے لگیں، جو سب کی سب جعلی اور گھڑی ہوئی تھیں ، لوگ ان احادیث کو بیان کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، یہاں تک کہ یہی جعلی احادیث ممبروں پر سے اور نمازوں کے خطبوں میں پڑھی جاتی تھیں اور مسلمانوں کو حکم دیا گیاتھا کہ یہی احادیث وہ اپنے بچوں کو بھی یاد کرائیں۔ اور یوں بچوں اور نوجوانوں کو بھی یہی احادیث سکھائی گئیں اور وہ انہیں آیات قرآن کی طرح حفظ کرتے تھے، یہاں تک کہ عورتوں ،بچیوں اور ملازموں تک کو یہ فضائل سکھادیئے گئے اور یہ سلسلہ مدت دراز تک جاری رہا ۔ خطبہ منیٰ
تیسرا اور چوتھا حکم
سلیم بن قیس مزید کہتے ہیں : معاویہ اور اس کے کارندوں کا یہ طریقہ ء کار اسی طرح جاری رہا ،یہاں تک کہ کچھ عرصے کے بعد معاویہ نے اپنے حاکموں اور کارندوں کے لئے تیسرا حکم نامہ ارسال کیا، جس کا مضمون کچھ یوں تھا : پوری کوشش کرو کہ جس کسی پر بھی علی اور آل علی کی دوستی کا الزام ہو اور اس الزام پر کوئی معمولی سی بھی دلیل مل جائے تواس شخص کا نام وظیفہ وانعام لینے والوں کی فہرست میں سے خارج کر دو، اور بیت المال میں سے اسے حصہ دینا بھی بند کردو ۔ اس حکم نامے کے فوراً بعد ایک اور حکم نامہ صادر کیا گیا، جس کا مضمون یہ تھا کہ: جس شخص پر علی کے خاندان کے ساتھ محبت کا الزام ہو، اس کے ساتھ شدید سختی کرو اور اس کا گھر اسی پر گرا دو تا کہ دوسرے اس سے عبرت حاصل کریں ۔ سلیم بن قیس کہتے ہیں کہ اہل عراق خاص کر اہل کوفہ نے اس سے بڑی مصیبت نہ دیکھی تھی ۔کیونکہ اس حکم کے بعد گورنروں اور حاکموں کی سختیوں کے نتیجے میں شیعوں پر غیر معمولی خوف و ہراس طاری ہوگیا ۔یہاں تک کہ بعض اوقات جب شیعیان علی سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے تو صاحب خانہ اپنے غلاموں اور ملازموں کے خوف سے اپنے مہمان سے کوئی بات کرنے پر تیار نہ ہوتا تھا ،مگر یہ کہ پہلے ان ملازموں سے عہد وپیمان لیتے تھے کہ ان کا راز فاش نہیں کریں گے۔ اس طرح علی اور خاندان علی کی مذمت میں جعلی احادیث وجود میں آئیں اور محدثین، قاضی اور حکام انہی جعلی احادیث کی پیروی کرتے تھے۔ اس سلسلے میں بدترین لوگ وہ ریا کار ا ور منافق محدث (راوی) تھے جو بظاہر صاحب ایمان اور عبادت گزار تھے لیکن جاہ ومقام اور دنیاوی مال ومنال حاصل کرنے کے لئے جعلی احادیث گھڑتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جعلی اور من گھڑت جھوٹی احادیث ان دیندار اور پرہیز گار افراد تک بھی پہنچیں جو خود تو جھوٹ اور الزام سے بچنا چاہتے تھے لیکن اپنے حسن ظن اور سادہ لوحی کے نتیجے میں ان جعلی روایات کو قبول کرلیتے تھے اورانہیں دوسروں کے سامنے نقل کرتے تھے، جبکہ اگر وہ ان کے جعلی ہونے سے واقف ہوتے تو ہرگز انہیں نقل نہ کرتے ۔(۱) سلیم بن قیس مزید فرماتے ہیں (معاویہ کے آنے کے بعد سے )یہ ظلم وستم اسی طرح ۱ ۔کتاب سلیم بن قیس (مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ) ص ۲۰۶ ۔ یہی باتیں ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح ۔ ج ۱۱ ۔ ص ۴۶ ۔ ۴۴ میں ابوالحسن مدائنی (وفات ۲۲۵ھ)کی کتاب ((الاحداث ))سے نقل کی ہیں ۔ جاری و ساری رہا لیکن امام حسن کی شہادت کے بعد(۱)ان مصیبتوں اور مشکلات میں مزید سختی آگئی اورمحبانِ اہل بیت مستقل خوف وہراس اور شدید دہشت میں زندگی بسر کرنے لگے۔ کیونکہ یا تو وہ قتل کردیئے جاتے تھے یا زیر زمین اور اپنا گھر بار ترک کر کے دور افتادہ مقامات پر زندگی گزارتے تھے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں دشمنانِ اہل بیت خود کو ہر لحاظ سے برتر اور ظلم وستم اور بدعتوں کے رواج میں آزاد پاتے تھے ۔ خطبہ منیٰ
کن حالات میں خطبہ دیا گیا
سلیم کہتے ہیں :ان حالات میں معاویہ کی موت سے دوسال پہلے(۲) اما م حسین نے حج کاارادہ کیا اور عبدالله ا بن عباس اور عبدالله ابن جعفر کو اپنے ہمسفر کے طور پرمنتخب کیا۔ مکہ مکرمہ میں بنی ہاشم کے مردوں اور عورتوں اور انصار کے ان افراد کو جنھیں خود امام حسین یابنی ہاشم پہچانتے تھے دعوت دی گئی اور ان افراد کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ صحابہء کرام اور تابعین میں سے صالح اور ذمہ دار افراد کو منیٰ میں منعقد ہونے والے اس جلسے کی دعوت دیں۔ اور جب یہ افراد، جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی (۳)منیٰ میں امام حسین علیہ السلام کے خیمے میں جمع ہوگئے تو امام نے خطبے کا آغاز کیا اور خداوند متعال کی حمد وثناء کے بعد فرمایا : آپ لوگ اس ظلم وستم سے بخوبی آگاہ ہیں اور اسکا خود مشاہدہ کر رہے ہیں جو اس ظالم وجابر حکومت نے ہم پر اور ہمارے شیعوں پر روا رکھا ہواہے۔ میں یہاں (اپنے والد کے بارے میں) کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، اگر یہ باتیں صحیح ہوں توآپ میری تصدیق کیجئے ۱۔۵۰ھ میں امام حسن کی شہادت واقع ہوئی ۔ ۲۔ کتاب سلیم کے بعض نسخوں میں سنة (ایک سال)اور بعض میں سنتین(دو سال) لکھا ہے لیکن طبرسی کی احتجاج میں سنتین (دو سال) تحریر ہے ۔ ۳۔ طبرسی نے شرکاء کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بیان کی ہے (اکثر من الف رجل) گا اور اگر غلط ہوں تو قبول نہ کیجئے گا۔ میری باتیں سنئے، انہیں لکھ لیجئے اور جو کچھ عرض کروں اسے ذہنوں میں محفوظ کرلیجئے گا اور جب اپنے اپنے علاقوں کو واپس جائیں تو جو کچھ سنا ہے اسے اپنی قوم وقبیلے کے معتبر افراد اور اپنے قابل اعتماد دوستوں اور جاننے والوں تک پہنچائیے گا۔ کیونکہ مجھے خوف لا حق ہے کہ کہیں یہ حقائق چھپ نہ جائیں اور مذہب حق مٹ نہ جائے والله متم نورہ و لوکرہ الکافرون (اور الله اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے، چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ سورہ صف ۶۱ ۔ آیت ۸) سلیم کہتے ہیں کہ امام نے اپنی گفتگو ختم کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر خدا کی قسم کھا کر تاکید کی کہ اپنے اپنے علاقوں میں واپسی پر اپنے قابل اعتمادافراد تک میری یہ گفتگو پہنچائیے گا ۔ پھر آپ ممبر سے نیچے تشریف لے آئے اور حاضرین بزم امام سے اس پیغام کو پہنچانے کا وعدہ کرکے متفرق ہوگئے ۔ خطبہ منیٰ
خطبہ کے متن کا پہلا حصہ
(امیر المومنین کے فضائل کا بیان) اس کے بعد سلیم بن قیس نے امام علیہ السلام کے خطبے کا پہلا حصہ جو امیرالمومنین اور اہل بیت علیہم السلام کے فضائل پر مشتمل ہے یوں نقل کیا ہے : بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبی طٰالبٍ کٰانَ اَخٰا رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ اَخیٰ بَیْنَ اَصْحٰابِہِ فَاَخیٰ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ نَفْسِہِ وَ قٰالَ : اَنْتَ أَخی وَ اَنٰا اَخُوْکَ فی الدُّنْیٰا وَ اْلآخِرَةِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ ھَلْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللٰہِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اِشْتَریٰ مَوْضِعَ مَسْجِدِہِ وَ مَنٰازِلِہِ فَابْتَنٰاہُ ثَمَّ ابْتَنیٰ فِیہِ عَشَرَةَ مَنٰازِلَ تِسْعَةً لَہُ وَ جَعَلَ عٰاشِرَھٰا فِی وَسَطِھٰا ِلاَبِی ثُمَّ سَدَّ کُلَّ بٰابٍ شٰارِعٍ اِلَی الْمَسْجِدِ غَیْرَ بٰابِہِ فَتَکَلَّمَ فی ذٰلِکَ مَنْ تَکَلَّمَ فَقٰالَ : مٰا اَنٰا سَدَدَْتُ اَبْوٰابَکُمْ وَ فَتَحْتُ بٰابَہُ وَ لَکِنَّ اللهَ اَمَرَنی بِسَدِّ اَبْوابِکُمْ وَ فَتْحِ بٰابِہِ ثُمَّ نَھی النّٰاسَ اَنْ یَنٰاموْا فی الْمسْجِدِ غَیْرَہُ، وَ کٰانَ یُجْنِبُ فی الْمسْجِدِ وَ مَنْزِلہُ فی مَنْزِلِ رَسُوْلِ اللهِ-صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَوُلدَ لِرَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - وَ لَہُ فیْہِ اوْلاٰدٌ ؟ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ فَتَعْلَمُوْنَ اَنّ عُمَرَ بْنَ الْخَطّٰابِ حَرِصَ عَلیٰ کُوَّةٍ قَدْرَ عَیْنِہِ یَدَعُھٰا فی مَنزِلِہِ اِلیٰ الْمَسْجِدِ فَاَبیٰ عَلَیْہِ ثُمَّ خَطَبَ فَقٰالَ : اِنَّ اللٰہَ اَمَرَنِی اَنْ اَبْنِیَ مَسْجِداً طٰاھِراً لاَ یُسْکِنُہُ غَیْری وَ غَیْرُ اَخِیْ وَ بَنِیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - نَصَبَہُ یَوْمَ غَدِیْرِ خُمٍّ فَنٰادیٰ لَہُ بِالْوِلاٰیَةِ وَ قٰالَ : لِیُبَلِّغِ الشّٰاھِدُ الْغٰایِبَ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ لَہُ فی غَزْوَةِ تَبُوْکَ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُوْمِنٍ بَعْدِی قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ دَعٰا النَّصٰارٰی مِنْ اَھْلِ نَجْرٰانَ اِلٰی الْمُبٰاھَلَةِ لَمْ یَأتِ اِلاَّ بِہِ وَ بِصٰاحِبَتِہِ وَ ابْنَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ دَفَعَ اِلَیْہِ اللِّوٰاءَ یَوْمَ خَیْبَرَ ثُمَّ قٰالَ : لأَدْفَعَہُ اِلیٰ رَجُلٍ یُحِبُّہُ اللهُ وَ رَسُوْلُہُ وَ یُحِبُُّ اللهَ وَ رَسُوْلَہُ کَرّٰارٌ غَیْرُ فَرّٰارٍ یَفْتَحُھا اللهُ عَلیٰ یَدَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ بَعَثَہُ بِبَرٰائَةٍ وَ قٰالَ : لاٰ یَبْلُغُ عَنِیّ اِلاّٰ انٰا اَوْ رَجُلٌ مِنِّی قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - لَمْ تَنْزِلْ بِہِ شِدَّةٌ قَطُّ اِلاّٰ قَدَّمَہُ لَھٰا ثِقَةً بِہِ وَ اَنَّہُ لَمْ یَدْعُہُ بِاسْمِہِ قَطُّ اِلاٰ یَقُوْلُ یٰا اَخِیْ وَ ادْعُوْا لِیْ اَخِیْ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قَضٰی بَیْنَہُ وَ بَیْنَ جَعْفَرٍ وَ زَیْدٍ فَقٰالَ : یٰا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْکَ وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِِّ مُوْمِنٍ بَعْدِیْ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ کٰانَتْ لَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - کُلَّ یَوْمٍ خَلْوَةٌ وَ کُلَّ لَیْلَةٍ دَخْلَةٌ اِذا سَئَلَہُ اَعْطٰاہُ وَ اِذٰا سَکَتَ أَبْدٰاہُ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَضَّلَہُ عَلیٰ جَعْفَرٍ وَ حَمْزَةٍ حِیْنَ قٰالَ : لِفٰاطِمَةَ - عَلَیْھٰا السَّلاٰمُ - زَوَّجْتُکِ خَیْرَ اَھْلَ بَیْتِیْ اَقْدَمَھُمْ سِلْماً وَ اَعْظَمُھُمْ حِلْماً وَ اَکْثَرُھُمْ عِلْماً قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ : اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ بَنِیْ آدَمَ وَ اَخِیْ عَلِیٌّ سَیِّدُ الْعَرَبِ وَ فٰاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسآءِ اَھْلِ الْجَنَّةِ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدٰا شَبٰابِ اَھْلِ الْجَنَّةِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللٰہُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اَمَرَہُ بِغُسْلِہِ وَ اَخْبَرَہُ اَنَّ جَبْرَئِیْلَ یُعِیْنُہُ عَلَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ فِیْ آخِرِ خُطْبَةٍ خَطَبَھٰا اِنِّیْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثِّقْلَیْنِ کِتٰابَ اللٰہِ وَ اَھْلَ بَیْتی فَتَمَسَّکُوْا بِھِمٰا لَنْ تَضِلُّوْا قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ ثُمَّ نٰاشَدَھُمْ اَنَّھُمْ قَدْ سَمِعُوْہُ یَقُوْلُ مَنْ زَعَمَ اَنَّہُ یُحِبُّنِیْ وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقَدْ کَذِبَ لَیْسَ یُحِبُّنِی وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقٰالَ لَہُ قٰائِلٌ : یٰا رَسُوْلَ اللهِ وَ کَیْفَ ذٰلِکَ؟ قٰالَ : لاَِنَّہُ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْہُ مَنْ اَحَبَّہُ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ فَقَدْ اَحَبَّ اللهَ وَ مَنْ اَبْغَضَہُ فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضَنِیْ فَقَدْ اَبْغَضَ اللهَ فَقٰالُوْا : اللَّھُمَّ نَعَمْ قَدْ سَمِعْنٰا … اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبی طٰالبٍ کٰانَ اَخٰا رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ اَخیٰ بَیْنَ اَصْحٰابِہِ فَاَخیٰ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ نَفْسِہِ وَ قٰالَ : اَنْتَ أَخی وَ اَنٰا اَخُوْکَ فی الدُّنْیٰا وَ اْلآخِرَةِ (۱) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ (امام حسین نے فرمایا)تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نہیں جانتے ہو ہے کہ جب رسول الله نے اپنے اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا تو اس وقت آنحضرت ۱۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب۔ حدیث نمبر ۳۸۰۴ ، اسدالغابہ ۔ج ۳ ۔ص ۱۶ نے علی ابن ابی طالب کو اپنا بھائی قرار دیاتھااورفرمایا تھا کہ دنیا اور آخرت میں تم میرے اور میں تمہارا بھائی ہوں۔ (سامعین نے)کہا : بارالہا ! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ ھَلْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اِشْتَریٰ مَوْضِعَ مَسْجِدِہِ وَ مَنٰازِلِہِ فَابْتَنٰاہُ ثَمَّ ابْتَنیٰ فِیہِ عَشَرَةَ مَنٰازِلَ تِسْعَةً لَہُ وَ جَعَلَ عٰاشِرَھٰا فِی وَسَطِھٰا ِلاَبِی ثُمَّ سَدَّ کُلَّ بٰابٍ شٰارِعٍ اِلَی الْمَسْجِدِ غَیْرَ بٰابِہِ (۱) فَتَکَلَّمَ فی ذٰلِکَ مَنْ تَکَلَّمَ فَقٰالَ : مٰا اَنٰا سَدَدَْتُ اَبْوٰابَکُمْ وَ فَتَحْتُ بٰابَہُ وَ لَکِنَّ اللهَ اَمَرَنی بِسَدِّ اَبْوابِکُمْ وَ فَتْحِ بٰابِہِ ثُمَّ نَھی النّٰاسَ اَنْ یَنٰاموْا فی الْمسْجِدِ غَیْرَہُ، وَ کٰانَ یُجْنِبُ فی الْمسْجِدِ (۲) وَ مَنْزِلہُ فی مَنْزِلِ رَسُوْلِ اللهِ-صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَوُلدَ لِرَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - وَ لَہُ فیْہِ اوْلاٰدٌ ؟ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کے پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله نے اپنی مسجد اور اپنے گھروں کے لئے جگہ خریدی۔ پھرمسجد تعمیر کی اور اس میں دس گھر بنائے۔ نو گھر اپنے لئے اور دسواں وسط میں میرے والد کے لئے رکھا۔ پھر میرے والد کے دروازے کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دیئے۔ اور جب اعتراض کرنے والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا : میں نے نہیں تمہارے دروازے بند کئے اور علی کا دروازہ کھلارکھا، ۱۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب حدیث نمبر۳۸۱۵، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱ ، ج ۲ ۔ ص ۲۶ ۲ ۔سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۸۱۱، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱ بلکہ الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بند کروں اور ان کادروازہ کھلا رکھوں۔ اس کے بعد نبی اکرم نے علی کے سوا تمام افراد کو مسجد میں سونے سے منع فرمایا۔ چونکہ حضرت علی کا حجرہ مسجد میں رسول الله کے حجرے کے ساتھ ہی تھا (لہذا) علی مسجد میں مجنب ہوتے تھے۱ور اسی حجرے میں نبی اکرم اور علی کے لئے الله تعالی نے اولاد یں عطا کیں؟ (سامعین نے) کہا : بارالہا ! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ فَتَعْلَمُوْنَ اَنّ عُمَرَ بْنَ الْخَطّٰابِ حَرِصَ عَلیٰ کُوَّةٍ قَدْرَ عَیْنِہِ یَدَعُھٰا فی مَنزِلِہِ اِلیٰ الْمَسْجِدِ فَاَبیٰ عَلَیْہِ ثُمَّ خَطَبَ فَقٰالَ : اِنَّ اللٰہَ اَمَرَنِی اَنْ اَبْنِیَ مَسْجِداً طٰاھِراً لاَ یُسْکِنُہُ غَیْری وَ غَیْرُ اَخِیْ وَ بَنِیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ عمر بن خطاب کو بڑی خواہش تھی کہ ان کے گھر کی دیوار میں ایک آنکھ کے برابر سوراخ رہے جو مسجد کی طرف کھلتا ہو لیکن نبی نے انہیں منع کر دیا۔ اور خطبے میں ارشاد فرمایا : الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ پاک و پاکیزہ مسجد بناؤں لہذا میرے ، میرے بھائی (علی) اور ان کی اولاد کے سوا کوئی (اور شخص مسجدمیں) نہیں رہ سکتا۔ (سامعین نے) کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - نَصَبَہُ یَوْمَ غَدِیْرِ خُمٍّ فَنٰادیٰ لَہُ بِالْوِلاٰیَةِ (۱) وَ قٰالَ : لِیُبَلِّغِ الشّٰاھِدُ الْغٰایِبَ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی کو بلند کیا اور انہیں مقام ولایت پر نصب کرنے کا ۱ مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۰۹، ۱۳۴ اعلان فرمایا۔ اور کہا کہ یہاں حاضرلوگ اس واقعے کی اطلاع یہاں غیر موجود لوگوں تک پہنچا دیں؟ (سامعین نے )کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ لَہُ فی غَزْوَةِ تَبُوْکَ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی(۱) وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُوْمِنٍ بَعْدِی (۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہارے علم میں ہے کہ رسول الله نے غزوئہ تبوک کے موقع پر علی سے فرمایا : تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسٰی کے لئے ہارون اور (فرمایا) تم میرے بعد تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہوگے۔ (سامعین نے) کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ دَعٰا النَّصٰارٰی مِنْ اَھْلِ نَجْرٰانَ اِلٰی الْمُبٰاھَلَةِ لَمْ یَأتِ اِلاَّ بِہِ وَ بِصٰاحِبَتِہِ وَ ابْنَیْہِ (۳) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا: تمہیں الله کی قسم دے کر پوچھتاہوں کہ جب رسول الله نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلے کی دعوت دی، تو اپنے ساتھ، سوائے علی، ان کی زوجہ اور ان کے دو بیٹوں کے کسی اور کو نہیں لے کر گئے؟ (سامعین نے )کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ ۱۔ صحیح مسلم ۔ ج ۴ ۔ حدیث نمبر۲۴۰۴، سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۸۰۸ اور ۳۸۱۳، سنن ابن ماجہ ۔ مقدمہ۔ حدیث نمبر ۱۱۵، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۰۹ اور ۱۳۳ ۲۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب ۔ حدیث نمبر ۳۷۹۶، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱ ۳۔ سنن ترمذی۔ ج ۵ ، المناقب۔ حدیث نمبر ۳۸۰۸، مستدرک صحیحین۔ ج ۳ ۔ ص ۱۵۰ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ دَفَعَ اِلَیْہِ اللِّوٰاءَ یَوْمَ خَیْبَرَ ثُمَّ قٰالَ : لأَدْفَعَہُ اِلیٰ رَجُلٍ یُحِبُّہُ اللهُ وَ رَسُوْلُہُ وَ یُحِبُُّ اللهَ وَ رَسُوْلَہُ(۱) کَرّٰارٌ غَیْرُ فَرّٰارٍ یَفْتَحُھا اللهُ عَلیٰ یَدَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله نے جنگ خیبرکے دن (لشکر اسلام کا) پرچم حضرت علی کے سپرد کیا اور فرمایا کہ میں پرچم اس شخص کے سپرد کر رہا ہوں جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور وہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ ایسا حملہ کرنے والا (کرار) ہے کہ کبھی پلٹتا نہیں ہے (غیرفرار) اور خدا قلعہ خیبرکو اس کے ہاتھوں فتح کرائے گا۔(سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ بَعَثَہُ بِبَرٰائَةٍ وَ قٰالَ : لاٰ یَبْلُغُ عَنِیّ اِلاّٰ انٰا اَوْ رَجُلٌ مِنِّی(۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی کو سورئہ برائت دے کر بھیجا اور فرمایا کہ میرا پیغام پہنچانے کا کام خود میرے یا ایسے شخص کے علاوہ جو مجھ سے ہو اور کوئی انجام نہیں دے سکتا۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - لَمْ تَنْزِلْ بِہِ شِدَّةٌ قَطُّ اِلاّٰ قَدَّمَہُ لَھٰا ثِقَةً بِہِ وَ اَنَّہُ لَمْ یَدْعُہُ بِاسْمِہِ قَطُّ ۱۔ سنن ترمذی ۔ حدیث نمبر۲۸۰۸، ۳۸۰۸، ۲۴۰۵، ۲۴۰۶، صحیح مسلم ۔ ج ۴۔ حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ۔ مقدمہ ۔ حدیث نمبر ۱۱۷ ۲۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر ۳۸۰۳ اِلاٰ یَقُوْلُ یٰا اَخِیْ وَ ادْعُوْا لِیْ اَخِیْ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول الله کو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آنحضرت حضرت علی پر اپنے خاص اعتمادکی وجہ سے انہیں آگے بھیجتے تھے اور کبھی انہیں ان کے نام سے نہیں پکارتے تھے ، بلکہ اے میرے بھائی کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔ (سامعین نے) کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قَضٰی بَیْنَہُ وَ بَیْنَ جَعْفَرٍ وَ زَیْدٍ فَقٰالَ : یٰا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْکَ وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِِّ مُوْمِنٍ بَعْدِیْ (۱) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی، جعفر اور زید کے درمیان فیصلہ سناتے وقت فرمایا : اے علی! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور میرے بعد تم تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہو گے۔ (سامعین نے) کہا :بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ کٰانَتْ لَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - کُلَّ یَوْمٍ خَلْوَةٌ وَ کُلَّ لَیْلَةٍ دَخْلَةٌ اِذا سَئَلَہُ اَعْطٰاہُ وَ اِذٰا سَکَتَ أَبْدٰاہُ (۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ (حضرت علی) ہر روز، ہرشب تنہائی میں رسول الله سے ملاقات کرتے تھے۔ اگر علی سوال کرتے تو نبی اکرم اس کا جواب دیتے اور اگر علی خاموش رہتے تو نبی خود سے گفتگو کا آغاز کرتے۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا ۱۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۷۹۶ ۱ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب۔ حدیث نمبر۳۸۰۶ کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَضَّلَہُ عَلیٰ جَعْفَرٍ وَ حَمْزَةٍ حِیْنَ قٰالَ : لِفٰاطِمَةَ - عَلَیْھٰا السَّلاٰمُ - زَوَّجْتُکِ خَیْرَ اَھْلَ بَیْتِیْ اَقْدَمَھُمْ سِلْماً وَ اَعْظَمُھُمْ حِلْماً وَ اَکْثَرُھُمْ عِلْماً (۱) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تمہیں علم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر حضرت علی کو جعفر طیار اور حمزہ (سید الشہدا) پر فضیلت دی ،جب حضرت فاطمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں نے اپنے خاندان کے بہترین شخص سے تمہاری شادی کی ہے ، جو سب سے پہلے اسلام لانے والا، سب سے زیادہ حلیم وبردبار اور سب سے بڑھ کر علم و فضل کا مالک ہے۔(سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ : اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ بَنِیْ آدَمَ وَ اَخِیْ عَلِیٌّ سَیِّدُ الْعَرَبِ(۲) وَ فٰاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسآءِ اَھْلِ الْجَنَّةِ(۳) وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدٰا شَبٰابِ اَھْلِ الْجَنَّةِ (۴) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سیدوسردار ہوں ، میرا بھائی علی عربوں کا سردار ہے، فاطمہ تمام اہل جنت خواتین کی رہبر ہیں اور میرے بیٹے حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔ (سامعین نے) کہا: ۱۔ نظم درر السمطین۔ ص ۱۲۸نقل از احقاق الحق ۔ ج ۴ ۔ ص ۳۵۹ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۔ ج ۹ ۔ ص ۱۷۴ ۲۔ مستدرک صحیحین ۔ ج ۳۔ ص ۱۲۴ ۳۔مستدرک ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۵۱ ۴۔ سنن ابن ماجہ ۔ مقدمہ ۔ حدیث نمبر۱۱۸، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۶۷ بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللٰہُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اَمَرَہُ بِغُسْلِہِ وَ اَخْبَرَہُ اَنَّ جَبْرَئِیْلَ یُعِیْنُہُ عَلَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا :کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے حضرت علی کو حکم دیا کہ وہی ان کے جسد اقدس کو غسل دیں اور فرمایا کہ جبرئیل اس کام میں ان کے معاون و مددگار ہوں گے۔ (سامعین نے )کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ فِیْ آخِرِ خُطْبَةٍ خَطَبَھٰا اِنِّیْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثِّقْلَیْنِ کِتٰابَ اللٰہِ وَ اَھْلَ بَیْتی فَتَمَسَّکُوْا بِھِمٰا لَنْ تَضِلُّوْا (۱) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا : میں تمہارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ الله کی کتاب اور میرے اہل بیت۔ ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہو تاکہ گمراہ نہ ہو جاؤ۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ ثُمَّ نٰاشَدَھُمْ اَنَّھُمْ قَدْ سَمِعُوْہُ یَقُوْلُ مَنْ زَعَمَ اَنَّہُ یُحِبُّنِیْ وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقَدْ کَذِبَ لَیْسَ یُحِبُّنِی وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقٰالَ لَہُ قٰائِلٌ : یٰا رَسُوْلَ اللهِ وَ کَیْفَ ذٰلِکَ؟ قٰالَ : لاَِنَّہُ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْہُ مَنْ اَحَبَّہُ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ فَقَدْ اَحَبَّ اللهَ وَ مَنْ اَبْغَضَہُ فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضَنِیْ فَقَدْ اَبْغَضَ اللهَ (۲) فَقٰالُوْا : اللَّھُمَّ نَعَمْ ۱۔صحیح مسلم ۔ ج ۴ ۔ حدیث نمبر۲۴۰۸، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۴۸، مسند احمد ابن حنبل ۔ ج ۳ ۔ص ۱۴ اور ج ۴۔ ص ۳۶۷ ۲۔ صحیح مسلم ، حدیث نمبر۱۳۱، سنن ابن ماجہ۔ مقدمہ۔ حدیث نمبر۱۱۴ قَدْ سَمِعْنٰا … (اس کے بعد جب امیر المومنین کے فضائل پر مشتمل امام کی گفتگو اختتام کو پہنچنے لگی تو) آپ نے سامعین کو خداکی قسم دے کر کہا کہ کیا انہوں نے رسول الله سے یہ سنا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، جبکہ علی کا بغض اس کے دل میں ہوتو وہ جھوٹا ہے، ایسا شخص جو علی سے بغض رکھتا ہو، مجھ سے محبت نہیں رکھتا۔ (اس موقع پر) کسی کہنے والے نے کہا کہ یا رسول الله یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟رسول الله نے فرمایا : کیونکہ وہ (علی)مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے الله سے محبت کی اور جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے الله سے دشمنی کی ۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ سلیم بن قیس کہتے ہیں : امام حسین نے اس موقع پر مذکورہ بالا فضائل کے علاوہ بھی حضرت علی اور خاندان علی کے بارے میں قرآن میں ذکر ہونے والے یانبی اکرم سے سنے جانے والے متعدد فضائل بیان کئے اور حاضرین میں سے جو لوگ رسول کے صحابی تھے وہ کہتے تھے خدا کی قسم ہم نے خودنبی اکرم سے سنا ہے اور جو تابعین تھے وہ کہتے تھے ہم نے بھی یہ فضیلت فلاں معتبر اور قابل اعتماد صحابی سے سنی ہے۔ امام حسین نے منیٰ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا اور جسے سلیم بن قیس نے نقل کیا ہے، اس کا پہلا حصہ یہاں ختم ہوا اور جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا خطبے کا یہ حصہ حضرت علی کے فضائل پر مشتمل تھا اور ان میں سے ہر ایک فضیلت اہل سنت کی معتبر کتب حدیث میں انہی کے راویوں کے توسط سے رسول الله سے منقول ہے اور ہم نے ان فضائل میں سے اکثرکے حوالہ جات اہل سنت کی معتبر صحاح ستہ ( چھے معتبر کتابوں) اور دیگر مستند کتب سے نقل کر کے حاشیے (Foot Note) میں تحریر کئے ہیں۔ چونکہ اس حصے میں مزید کسی تشریح کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی لہذا اب خطبے کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں۔ خطبہ منیٰ
خطبہ کے دوسرے حصہ کا متن
(امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت) جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا، یہ خطبہ تین علیحدہ علیحدہ حصوں پر مشتمل ہے۔ ترجمے اور اصل عبارت کو ایک دوسرے سے نزدیک رکھنے کی غرض سے، ہم پہلے حصے کی طرح اس حصے اور اگلے حصے کو بھی علیحدہ علیحدہ درج کریں گے، اگرچہ حدیث کی اکثر کتابوں میں یہ دونوں حصے ایک ساتھ ملا کر نقل کئے گئے ہیں۔ امام نے فرمایا : اِعْتَبِرُوْا اَیُّھا النّٰاسُ بِمٰا وَعَظَ اللّٰہُ بِہِ اَوْلِیٰائَہُ مِنْ سُوْءِ ثَنٰائِہِ عَلیٰ الاَحْبٰارِ اِذْ یَقُوْلُ : لَوْلاٰ یَنْھٰاھُمُ الرّّبّٰانِیُّوْنَ وَ الاَحْبٰارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الاِثْمَ وَ قٰالَ : لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِی اِسْرٰائِیْلَ - اِلٰی قَوْلِہِ - لَبِئْسَ مٰا کٰانُوْا یَفْعَلُوْنَ وَ اِنَّمٰا عٰابَ اللهُ ذٰلِکَ عَلَیْھِم لاَنَّھُمْ کٰانُوْا یَرَونَ مِنَ الظَّلَمَةِ الَّذِیْنَ بَیْنَ اَظْھَرِھِمُ الْمُنْکَرَ وَ الْفَسٰادَ فَلاٰ یَنْھَوْنَھُمْ عَنْ ذٰلِکَ رَغْبَةً فیمٰا کٰانُوْا یَنٰالُوْنَ مِنْھُمْ وَ رَھْبَةً مِمّٰا یَحْذَرُوْنَ وَ اللهُ یَقُوْلُ : فَلاَ تَخْشَوُا النّٰاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ قٰالَ : الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیآءُ بَعْضٍ یامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ فَبَدَءَ اللهُ بِاْلأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ فَرِیضَةً مِنْہُ لِعِلْمِہِ بِاَنَّھٰا اِذٰا اُدِّیَتْ وَ اُقیْمَتْ اِسْتَقٰامَتِ الْفَرائِضُ کُلُّھٰا ھَیَّنُھٰا وَ صَعْبُھٰا وَ ذٰلِکَ أَنَّ اْلاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ دُعٰاءٌ اِلیٰ اْلاِسْلاٰمِ مَعَ رَدِّ الْمَظٰالِمِ وَ مُخٰالَفَةِ الظّٰالِمِ وَ قِسْمَةِ الْفَیءِ وَ الْغَنٰائِمِ وَ اَخْذِ الصَّدَقٰاتِ مِنْ مَوٰاضِعِھٰا وَ وَضْعِھٰا فی حَقِّھٰا وضاحت (( تحف العقول)) کے مصنف نے یہ خطبہ نقل کرتے ہوئے کہا ہے : ویروی عن امیر المومنین علیہ السلام۔ یعنی امام حسین علیہ السلام کے خطبے کا یہ حصہ (جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ہے) امیر المومنین حضرت علی سے بھی نقل ہوا ہے۔ جیسا کہ خطبے کے تیسرے اور آخری حصے میں ہم اشارہ کریں گے، اس حصے کے بعض جملات بھی امیر المومنین کے خطبات اور بیانات میں موجود ہیں اور موضوع کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر امام حسین نے اپنے خطبے اور تقریر میں ان سے استفادہ کیا ہے اور(( تحف العقول)) کے مصنف کی بات کی بنیاد پریہ بھی ممکن ہے کہ اس خطبے کا وہ حصہ درحقیقت امیر المومنین ہی کا کلام ہو جس سے ان کے محترم فرزند امام حسین نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور اس کی عظمت کو بیان کرنے کی غرض سے استفادہ کیا ہو۔ لیکن ہم نے خطبے کے اس حصے کے براہ راست امیر المومنین سے استناد کے بارے میں ((تحف العقول)) کے سوا حدیث کی کسی اور معتبر کتاب میں نہیں دیکھا۔ خطبہ منیٰ
مشکل الفاظ کی تشریح
اِعتَبروا اَیُّھا النّاسُ : اس طرح کچھ خاص افراد ، اس محفل میں موجود حاضرین یا حتیٰ صرف اس زمانے کے افراد مخاطب نہیں ہیں بلکہ اس خطاب میں وہ تمام انسان شامل ہیں جو کسی بھی زمانے میں اور دنیا کے کسی بھی گوشے میں اس خطاب کو سنیں۔ یہ بالکل یا ایھا الناس کی مانند ہے، جس کے ذریعے قرآن مجید میں بارہا اور متعدد مقامات پر خطاب کیا گیا ہے۔ اولیاء :یہاں اولیاء سے مراد وہ افراد ہیں جو الله تعالیٰ کی جانب توجہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی معاشرے میں بھی ذمے دار مقام کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ اگر یہ معاشرے میں کسی مقام پرفائز نہ ہوں تو اہم اور مشکل ذمے داریوں کی ادائیگی کی ان سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ احبار : صالح علما۔ ربانی : خدا پرست شخص جو خدا پر اعتقاد رکھنے کے ساتھ ساتھ خداوند متعال کے احکام کا علم بھی رکھتا ہو اور اس کے حلال و حرام کی پابندی کرتا ہو۔ امام حسین علیہ السلام نے جس آیتِ کریمہ کا ذکر کیا ہے، اگرچہ اس میں یہودی علما اورمذہبی رہنماؤں کی سرزنش کی گئی ہے لیکن یہاں باشعور قاری کے لئے اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ یہ مذمت اور سرزنش صرف یہودی علما یا عیسائی رہبروں کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ (اگر یہودی علما کے سے اعمال انجام دیں تب) تمام دینی رہبر اور حتیٰ مسلم علما بھی اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ کسی بھی دین اور مذہب سے تعلق رکھنے والے علما کی اپنے فریضے سے غفلت ، کوتاہی اور بے جا خاموشی عام افراد کے گناہ اور نافرمانی کے مرتکب ہونے کی مانند نہیں ، کیونکہ علما کی خاموشی اور بے عملی کے نتیجے میں دین کی بنیادوں کو نقصان پہنچتا ہے (جبکہ عام افراد کے گناہ فقط خود ان کی اپنی ذات کو نقصان پہنچاتے ہیں)۔ قول اثم :گناہ آلود باتیں۔ جس میں جھوٹ، تہمت ، حقائق کی تحریف وغیرہ سب شامل ہیں۔ اکل سحت : حرام خوری۔ باوجود یہ کہ تمام گناہوں اور منکرات سے روکا گیا ہے لیکن اس آیتِ کریمہ میں قول اثم واکل سحت پر زور دیا گیا ہے، تاکہ یہ بتایا جائے کہ یہ دو گناہ تمام گناہوں سے زیادہ خطرناک ہیں ۔لہذا ہر گناہ سے زیادہ ان کی مخالفت اور ان سے مقابلہ کیا جائے کیونکہ بسا اوقات دشمنوں کی جھوٹی باتیں اور ان کا مذموم پروپیگنڈہ (جو قول اثم کا ایک اہم ترین مصداق ہے) اسلام اور مسلمانوں کے لئے کسی بھی ا ور چیز کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ اکل سحت یا حرام خوری سے بھی اس کا صرف انفرادی اور جزی پہلو مراد نہیں ہے ، بلکہ یہ وسیع پہلوؤں کی حامل ہے جس میں (آج کی دنیا کے لحاظ سے) نقصان دہ برآمدات اور درآمدات، غیر قانونی طریقوں سے ملک کی معیشت پر قابض ہو جانا وغیرہ بھی شامل ہیں اور یقینا اس قسم کی اکل سحتکے نقصانات جوئے اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے جیسی انفرادی حرام خوریوں کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ(۱) اِعْتَبِرُوْا اَیُّھا النّٰاسُ بِمٰا وَعَظَ اللّٰہُ بِہِ اَوْلِیٰائَہُ مِنْ سُوْءِ ثَنٰائِہِ عَلیٰ الاَحْبٰارِ اِذْ یَقُوْلُ : لَوْلاٰ یَنْھٰاھُمُ الرّّبّٰانِیُّوْنَ وَ الاَحْبٰارُ عَنْ قَوْلِھِمُ ۱۔ اس خطبے کے دوسرے اور تیسرے حصے کے ترجمے اور تشریح میں امام خمینی کی کتاب ولایت فقیہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ الاِثْمَ (۱) وَ قٰالَ : لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِی اِسْرٰائِیْلَ - اِلٰی قَوْلِہِ- لَبِئْسَ مٰا کٰانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۲) اے لوگو! الله تعالیٰ نے علمائے یہود کی سرزنش کر کے اپنے اولیاء کو جو نصیحت کی ہے، اس سے عبرت حاصل کرو ۔الله تعالیٰ نے فرمایا :یہودی علما اور دینی رہنما انہیں گناہ آلود باتوں اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے؟ اور فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا، انہیں لعن اور نفرین کی گئی ہے۔ (یہاں تک کہ) فرمایا : وہ ایک دوسرے کو برے اعمال کی انجام دہی سے منع نہیں کرتے تھے اور وہ کتنا برا کام کرتے تھے۔ وَ اِنَّمٰا عٰابَ اللهُ ذٰلِکَ عَلَیْھِم لاَنَّھُمْ کٰانُوْا یَرَونَ مِنَ الظَّلَمَةِ الَّذِیْنَ بَیْنَ اَظْھَرِھِمُ الْمُنْکَرَ وَ الْفَسٰادَ فَلاٰ یَنْھَوْنَھُمْ عَنْ ذٰلِکَ رَغْبَةً فیمٰا کٰانُوْا یَنٰالُوْنَ مِنْھُمْ وَ رَھْبَةً مِمّٰا یَحْذَرُوْنَ وَ اللهُ یَقُوْلُ : فَلاَ تَخْشَوُا النّٰاسَ وَ اخْشَوْنِ (۳) وَ قٰالَ : الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیآءُ بَعْضٍ یامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (۴) درحقیقت الله تعالیٰ نے اس لئے انہیں برا قرار دیا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنے کے باوجود کہ ظالمین کھلم کھلا برائیوں کو پھیلا رہے ہیں ، انہیں (ظالموں کو) اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں،ان ظالموں کی طرف سے ملنے ۱۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۶۳ ۲۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۷۸، ۷۹ ۳۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۴۴ ۴۔ سورہ توبہ ۹۔ آیت ۷۱ والے مال و متاع سے دلچسپی تھی اور ان کی طرف سے (پہنچ سکنے والی) سختیوں سے خوفزدہ تھے۔ جبکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ: لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور پروردگار نے فرمایا ہے: مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے دوست اور سرپرست ہیں، اچھائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔ فَبَدَءَ اللهُ بِاْلأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ فَرِیضَةً مِنْہُ لِعِلْمِہِ بِاَنَّھٰا اِذٰا اُدِّیَتْ وَ اُقیْمَتْ اِسْتَقٰامَتِ الْفَرائِضُ کُلُّھٰا ھَیَّنُھٰا وَ صَعْبُھٰا وَ ذٰلِکَ أَنَّ اْلاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ دُعٰاءٌ اِلیٰ اْلاِسْلاٰمِ مَعَ رَدِّ الْمَظٰالِمِ وَ مُخٰالَفَةِ الظّٰالِمِ وَ قِسْمَةِ الْفَیءِ وَ الْغَنٰائِمِ وَ اَخْذِ الصَّدَقٰاتِ مِنْ مَوٰاضِعِھٰا وَ وَضْعِھٰا فی حَقِّھٰا (اس آیتِ کریمہ میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے )الله تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے آغاز کیا اور اسے اپنی طرف سے واجب قرار دیا کیونکہ پروردگار جانتا ہے کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام پائے اور معاشرے میں برقرار رکھا جائے تو تمام واجبات، خواہ وہ آسان ہوں یا مشکل، خودبخود انجام پائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور ساتھ ہی مظلوموں کو انکے حقوق لوٹائے جائیں، ظالموں کی مخالفت کی جائے ،عوامی دولت اور مال غنیمت عادلانہ نظام کے تحت تقسیم ہو، اور صدقات ( یعنی زکات اور دوسرے واجب اور مستحب مالیات) کو صحیح مقامات سے وصول کر کے حقداروں پر خرچ کیا جائے۔ یہاں پہنچ کر خطبے کا دوسرا حصہ ختم ہوتا ہے اور آئندہ صفحات میں خطبے کے تیسرے حصے کاترجمہ پیش کیا جائے گا۔ خطبہ منیٰ
خطبہ کے تیسرے حصہ کا متن
(علما کی ذمے داریوں کا بیان) امام نے فرمایا: ثُمَّ اَنْتُمْ أیَّتُھا الْعِصٰابَةُ عِصٰابَةٌ بِالْعِلْمِ مَشْھُوْرَةٌ وَ بِالْخَیْرِ مَذْکُوْرَةٌ وَ بِالنَّصِیْحَةِ مَعْرُوْفَةٌ وَ بِاللَّہِ فی اَنْفُسِ النّٰاسِ مَھٰابَةٌ یَھٰابُکُمُ الشَّرِیفُ وَ یُکْرِمُکُمُ الضَّعِیفُ وَ یُؤْثِرُکُمْ مَنْ لاٰ فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْہِ وَ لاٰ یَدَ لَکُمْ عِنْدَہُ تُشَفِّعُوْنَ فی الْحَوٰائجِ اِذٰا امْتُنِعَتْ مِنْ طُلاّٰبِھٰا وَ تَمْشُوْنَ فی الطَّرِیْقِ بِھَیْبَةِ الْمُلُوْکِ وَ کَرٰامَةِ اْلاَ کٰابِرِ ، اَلَیْسَ کُلَّ ذٰلِکَ اِنَّمٰا نِلْتُمُوہُ بِمٰا یُرْجٰی عِنْدَکُمْ مِنَ الْقِیٰامِ بِحَقِّ اللّٰہِ وَ اِنْ کُنْتُمْ عَنْ اَکْثَرِ حَقِّہِ تُقَصِّرُوْنَ فَاسْتَخْفَفْتُمْ بِحَقِّ اْلاَئِمَّةِ فَاَمّٰا حَقَّ الضُّعَفٰاءِ فَضَیَّعْتُمْ وَ اَمّٰا حَقَّکُمْ بِزَعْمِکُمْ فَطَلَبْتُمْ فَلاٰ مٰالاً بَذَلْتُمُوْہُ وَ لاٰ نَفْساً خٰاطَرْتُمْ بِھٰا لِلَّذی خَلَقَھٰا وَ لاٰ عَشِیْرَةً عٰادَیْتُمُوْھٰا فی ذٰاتِ اللّٰہِ اَنْتُمْ تَتَمَنَّوْنَ عَلیَ اللّٰہَ جَنَّتَہُ وَ مُجٰاوَرَةَ رُسُلِہِ وَ اَمٰاناً مَنْ عَذٰابِہِ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلَیْکُمْ اَیُّھا الْمُتَمَنُّوْنَ عَلیَ اللّٰہِ اَنْ تَحِلَّ بِکُمْ نِقْمَةٌ مِنْ نَقِمٰاتِہِ لاَنَّکُمْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرٰامَةِ اللّٰہِ مَنْزِلَةً فُضِّلْتُمْ بِھٰا وَ مَنْ یُعْرَفُ بِاللّٰہِ لاٰ تُکْرِمُوْنَ وَ اَنْتُمْ بِاللّٰہِ فی عِبٰادِہِ تُکْرَمُوْنَ وَ قَد تَرَوْنَ عُھودَ اللّٰہِ مَنْقُوْضَةً فَلاٰ تَفْزَعُوْنَ وَ اَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبٰائِکُمْ تَفْزَعُوْنَ وَ ذِمَةُ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَخْفُوْرَةٌ مَحْقُوْرَةٌ وَ الْعُمْیُ وَ الْبُکْمُ وَ الزَّمْنیٰ فی الْمَدائِنِ مُھْمَلَةٌ لاٰ تُرْحَمُوْنَ وَ لاٰ فی مَنْزِلَتِکُمْ تَعْمَلُوْنَ وَ لاٰ مَنْ عَمِلَ فیھٰا تُعِیْنُوْنَ وَ بالاِدِّھٰانِ وَ الْمُصٰانَعَةِ عِنْدَ الظَّلَمَةِ تٰامَنُوْنَ کُلُّ ذٰلِکَ مِمّٰا اَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہِ مِنَ النَّھْیِ وَ التَّنٰاھی وَ اَنْتُمْ عَنْہُ غٰافِلُوْنَ وَ اَنْتُمْ اَعْظَمُ النّٰاسِ مُصِیْبَةً لِمٰا غُلِبْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ مَنٰازِلِ الْعُلَمٰاءِ لَوْ کُنْتُمْ تَشْعُرُوْنَ ذٰلِکَ بِاَنَّ مَجٰارِیَ اْلاُمُوْرِ وَ اْلاَحْکٰامِ عَلیٰ اَیدي الْعُلَمٰاءِ بِاللّٰہِ اْلاُمَنٰاءِ عَلیٰ حَلاٰلِہِ وَ حَرٰامِہِ فَاَنْتُمُ الْمَسْلُوْبُوْنَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ وَ مٰا سُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَ اخْتِلاٰفِکُمْ فی السُّنَّةِ بَعْدَ الْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ وَ لَوْ صَبَرْتُمْ عَلیٰ الاَذٰی وَ تَحَمَّلْتُمْ الْمَؤُوْنَةَ فی ذٰاتِ اللّٰہِ کٰانَتْ اُمُوْرُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِعُ وَ لَکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ وَ اسْتَسلَمتُم اُمُوْرَ اللّٰہِ فی اَیْدِیْھِمْ یَعْمَلُوْنَ بالشُّبَھٰاتِ وَ یَسِیْرُوْنَ فی الشَّھَوٰاتِ سَلَّطَھُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ فِرٰارُکُمْ مِنَ الْمَوْتِ وَ اِعْجٰابُکُمْ بِالْحَیٰاتِ الَّتی ھِیَ مُفٰارِقَتُکُمْ فاَسْلَمْتُمْ الضُعَفٰاءَ فی اَیْدیھِمْ فَمِنْ بَیْنِ مُسْتَعْبَدٍ مَقْھُوْرٍ وَ بَیْنِ مُسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعِیْشَتِہِ مَغْلُوْبٍ یَتَقَلَّبُوْنَ فی الْمُلْک بِآرٰائِھِمْ وَ یَسْتَشْعِرُوْنَ الْخِزْیَ بِاَھْوٰائِھِمْ اِقْتِدٰاءً بِاْلاَشْرٰارِ وَ جُرْأَةً عَلیٰ الْجَبّٰارِ فی کُلِّ بَلَدٍ مِنْھُمْ عَلیٰ مِنْبَرِہِ خَطِیْبٌ مِصْقَعٌ فَاْلاَرْضُ لَھُمْ شٰاغِرَةٌ وَ اَیدیھِمْ فیھٰا مَبْسُوْطَةٌ وَ النّٰاسُ لَھُمْ خَوَلٌ لاٰیَدْفَعُوْنَ یَدَ لاٰمِسٍ فَمِنْ بَیْنِ جَبّٰارٍ عَنِیْدٍ وَ ذی سَطْوَةٍ عَلیٰ الضَّعْفَةِ شَدِیدٍ مُطٰاعٍ لاٰ یَعْرِفُ الْمُبْدِءُ المُعیدَ فَیٰا عَجَباً وَمٰالی لاأعْجَبُ وَاْلأرضُ مِنْ غٰاشٍّ غَشُومٍ وَِمُتَصِدّقٍ ظلومٍ وعامِلٍ عَلی المُؤمِنینَ بِھِمْ غَیْرُ رَحیمٍ، فَاللهُ الْحٰاکِمُ فیما فیہِ تَنٰازَعْنٰا وَالقٰاضی بِحُکْمِہِ فیما شجَرَ بَیْنَنا۔ اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہُ لَمْ یَکُنْ مٰا کٰانَ مِنّٰا تَنٰافُساً فی سُلْطٰانٍ وَ لاٰالْتِمٰاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطٰامِ و لَکِنْ لِنُرِیَ الْمَعٰالِِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَنُظْھِرَ اْلاصْلاٰحَ فی بِِلاٰدِکَ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبٰادِکَ وَ یُعْمَلَ بِفَرٰائِضِکَ وَ سُنَنِکَ وَ اَحْکٰامِکَ فَاِنَّکُمْ اِنْ لاتَنْصُرُوْنٰا وَ تَنْصِفُوْنٰا قَوِيَ الْظَّلَمَةُ عَلَیْکُمْ وَ عَمِلُوْا فی اِطْفٰاءِ نُوْرِ نَبِیِّکُم وَ حَسْبُنٰا اللَّہُ وَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْنٰا وَ اِلَیْہِ اَنَبْنٰا وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ اہم الفاظ کی تشریح جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ اس خطبے کے اس حصے کے بعض جملات کچھ فرق کے ساتھ امیر المومنین کے خطبوں میں بھی ملتے ہیں۔(۱) ۱ ۔ دیکھئے نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۰۴ اور ۱۲۹۔ فاستخففتم بحق الائمہ : کتاب ((تحف العقول ))اور(( وافی)) کے موجودہ نسخوں میں بحق الائمہ درج ہے۔ اس صورت میں امیر المومنین، امام حسن اور امام حسین کے حقوق کا غصب ہونا مرادہے۔ لیکن ممکن ہے کہ دراصل بحق الامہ ہو اور کتابت میں اضافہ ہو گیا ہو اور بعد میں آنے والا جملہ فاما حق الضعفاء بھی اس امکان کی تائید کرتا ہے۔ ( امام خمینی نے اس جملے کا ترجمہ بحق الامہ کے تحت کیا ہے) ومن یعرف بالله لا تکرمون وانتم بالله فی عبادہ تکرمون :جملے کی ابتداء میں آنے والا یعرف اور آخر میں آنے والا تکرمون دونوں مجہول کے صیغے ہیں جبکہ درمیان میں آنے والا لاتکرمون معلوم کا صیغہ ہے۔ یعنی بندگان خدا ، الله والا ہونے کی بنا پر تمہارا احترام کرتے ہیں لیکن تم ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو الله کی معرفت کے لئے مشہور ہیں۔ العمی و البکم والزمنی : تینوں الفاظ بالترتیب أعمی، ابکم اور زمن کی جمع ہیں۔ لاترحمون اور غلبتم بہ : مجہول کے صیغے ہیں۔ مجاری الا مور والا حکام علی ایدی العلماء بالله الا مناء علی حلا لہ و حرامہ : مجاری، مجری کی جمع مصدر میمی یا پھر اسم مکان ہے۔ یعنی مسلمانوں اور مملکت اسلامی کے مختلف امور و معاملات میں مرکزی مقام علما کو حاصل ہونا چاہئے اور مسلمانوں کے مابین پھوٹ پڑنے والے تنازعات کا حل و فصل ان ربانی علما کے احکام کے مطابق ہونا چاہئے ،جو حلال و حرام الہی کے امین اور آسمانی قوانین کو تحریف و تبدیلی سے محفوظ رکھنے والے ہوں۔ یہ جملہ ولایت فقیہ کوثابت کرنے والے ان بے شمار دلائل میں سے ایک دلیل ہے جنہیں بزرگ شیعہ علما اور فقہا نے ذکر کیا ہے۔ والارض لھم شاغرہ : عرب کہتے ہیں شغرت الارض یعنی اس سرزمین کا کوئی محافظ و نگہبان نہیں ہے۔ خطیب مصقع :( میم پر زیر اور باقی حروف پر زبر)۔ بلند آواز والے خطیب کو کہتے ہیں۔ عصر حاضر میں دشمنوں کے ہاتھوں میں موجود ذرائع ابلاغ جیسے ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ اسکے نمایاں مصداق ہیں۔ اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ ثُمَّ اَنْتُمْ أیَّتُھا الْعِصٰابَةُ عِصٰابَةٌ بِالْعِلْمِ مَشْھُوْرَةٌ وَ بِالْخَیْرِ مَذْکُوْرَةٌ وَ بِالنَّصِیْحَةِ مَعْرُوْفَةٌ وَ بِاللَّہِ فی اَنْفُسِ النّٰاسِ مَھٰابَةٌ یَھٰابُکُمُ الشَّرِیفُ وَ یُکْرِمُکُمُ الضَّعِیفُ وَ یُؤْثِرُکُمْ مَنْ لاٰ فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْہِ وَ لاٰ یَدَ لَکُمْ عِنْدَہُ تُشَفِّعُوْنَ فی الْحَوٰائجِ اِذٰا امْتُنِعَتْ مِنْ طُلاّٰبِھٰا وَ تَمْشُوْنَ فی الطَّرِیْقِ بِھَیْبَةِ الْمُلُوْکِ وَ کَرٰامَةِ اْلاَ کٰابِرِ ، اے وہ گروہ جو علم وفضل کے لئے مشہور ہے، جس کاذکر نیکی اور بھلائی کے ساتھ کیا جاتا ہے ، وعظ و نصیحت کے سلسلے میں آپ کی شہرت ہے اور الله والے ہونے کی بنا پر لوگوں کے دلوں پر آپ کی ہیبت و جلال ہے ،یہاں تک کہ طاقتور آپ سے خائف ہے اور ضعیف و ناتواں آپ کا احترام کرتا ہے، حتیٰ وہ شخص بھی خود پر آپ کو ترجیح دیتا ہے جس کے مقابلے میں آپ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں ۔جب حاجت مندوں کے سوال رد ہو جاتے ہیں تو اس وقت آپ ہی کی سفارش کارآمد ہوتی ہے ( آپ کو وہ عزت و احترام حاصل ہے کہ) گلی کوچوں میں آپ کا گزر بادشاہوں کے سے جاہ و جلال اور اعیان و اشراف کی سی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اَلَیْسَ کُلَّ ذٰلِکَ اِنَّمٰا نِلْتُمُوہُ بِمٰا یُرْجٰی عِنْدَکُمْ مِنَ الْقِیٰامِ بِحَقِّ اللّٰہِ وَ اِنْ کُنْتُمْ عَنْ اَکْثَرِ حَقِّہِ تُقَصِّرُوْنَ فَاسْتَخْفَفْتُمْ بِحَقِّ اْلاَئِمَّةِ فَاَمّٰا حَقَّ الضُّعَفٰاءِ فَضَیَّعْتُمْ وَ اَمّٰا حَقَّکُمْ بِزَعْمِکُمْ فَطَلَبْتُمْ فَلاٰ مٰالاً بَذَلْتُمُوْہُ وَ لاٰ نَفْساً خٰاطَرْتُمْ بِھٰا لِلَّذی خَلَقَھٰا وَ لاٰ عَشِیْرَةً عٰادَیْتُمُوْھٰا فی ذٰاتِ اللّٰہِ یہ سب عزت و احترام صرف اس لئے ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ الہٰی احکام کا اجراء کریں گے ،اگرچہ اس سلسلے میں آپ کی کوتاہیاں بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے امت کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ہے، (معاشرے کے) کمزور اوربے بس افراد کے حق کو ضائع کردیا ہے اور جس چیز کو اپنے خیال خام میں اپنا حق سمجھتے تھے اسے حاصل کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ نہ اس کے لئے کوئی مالی قربانی دی اور نہ اپنے خالق کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی اور نہ الله کی خاطر کسی قوم وقبیلے کا مقابلہ کیا۔ اَنْتُمْ تَتَمَنَّوْنَ عَلیَ اللّٰہَ جَنَّتَہُ وَ مُجٰاوَرَةَ رُسُلِہِ وَ اَمٰاناً مَنْ عَذٰابِہِ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلَیْکُمْ اَیُّھا الْمُتَمَنُّوْنَ عَلیَ اللّٰہِ اَنْ تَحِلَّ بِکُمْ نِقْمَةٌ مِنْ نَقِمٰاتِہِ لاَنَّکُمْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرٰامَةِ اللّٰہِ مَنْزِلَةً فُضِّلْتُمْ بِھٰا وَ مَنْ یُعْرَفُ بِاللّٰہِ لاٰ تُکْرِمُوْنَ وَ اَنْتُمْ بِاللّٰہِ فی عِبٰادِہِ تُکْرَمُوْن (اسکے باوجود ) آپ جنت میں رسول الله کی ہم نشینی اور الله کے عذاب سے امان کے متمنی ہیں، حالانکہ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں الله کا عذاب آپ پر نازل نہ ہو،کیونکہ الله کی عزت و عظمت کے سائے میں آپ اس بلند مقام پر پہنچے ہیں، جبکہ آپ خود ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو معرفت خدا کے لئے مشہور ہیں جبکہ آپ کو الله کے بندوں میں الله کی وجہ سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وَ قَد تَرَوْنَ عُھودَ اللّٰہِ مَنْقُوْضَةً فَلاٰ تَفْزَعُوْنَ وَ اَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبٰائِکُمْ تَفْزَعُوْنَ وَ ذِمَةُ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَخْفُوْرَةٌ مَحْقُوْرَةٌ وَ الْعُمْیُ وَ الْبُکْمُ وَ الزَّمْنیٰ فی الْمَدائِنِ مُھْمَلَةٌ لاٰ تُرْحَمُوْنَ وَ لاٰ فی مَنْزِلَتِکُمْ تَعْمَلُوْنَ وَ لاٰ مَنْ عَمِلَ فیھٰا تُعِیْنُوْنَ وَ بالاِدِّھٰانِ وَ الْمُصٰانَعَةِ عِنْدَ الظَّلَمَةِ تٰامَنُوْنَ کُلُّ ذٰلِکَ مِمّٰا اَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہِ مِنَ النَّھْیِ وَ التَّنٰاھی وَ اَنْتُمْ عَنْہُ غٰافِلُوْن آپ دیکھتے رہتے ہیں کہ الله سے کئے ہوئے عہدو پیمان کو توڑاجا رہا ہے، اسکے باوجود آپ خوفزدہ نہیں ہوتے، اس کے برخلاف اپنے آباؤ اجداد کے بعض عہد و پیمان ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں ، جبکہ رسول الله کے عہد و پیمان(۱) نظر انداز ہو رہے ہیں اور کوئی پروا نہیں کی جا رہی ۔ اندھے ، گونگے اور اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں اور کوئی ان پررحم نہیں کرتا۔ آپ لوگ نہ تو خود اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو کچھ کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے اپنے آپ کو ظالموں کے ظلم سے بچایا ہوا ہے جبکہ خدا نے اس سے منع کیا ہے اور ایک دوسرے کو (بھی)منع کرنے کے لئے کہا ہے ۔اور آپ ان تمام احکام کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ وَ اَنْتُمْ اَعْظَمُ النّٰاسِ مُصِیْبَةً لِمٰا غُلِبْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ مَنٰازِلِ الْعُلَمٰاءِ لَوْ کُنْتُمْ تَشْعُرُوْنَ ذٰلِکَ بِاَنَّ مَجٰارِیَ اْلاُمُوْرِ وَ اْلاَحْکٰامِ عَلیٰ اَیدي الْعُلَمٰاءِ بِاللّٰہِ اْلاُمَنٰاءِ عَلیٰ حَلاٰلِہِ وَ حَرٰامِہِ فَاَنْتُمُ الْمَسْلُوْبُوْنَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ وَ مٰا سُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَ اخْتِلاٰفِکُمْ فی السُّنَّةِ بَعْدَ الْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ آپ پر آنے والی مصیبت دوسرے لوگوں پر آنے والی مصیبت سے کہیں بڑی مصیبت ۱۔ اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہیں جو بیعت کے وقت رسول گرامی, نے لئے تھے۔ اسی طرح ولایت اور جانشینی کے لئے غدیر خم کے موقع پر رسول الله سے جو عہد و پیمان کئے گئے تھے، وہ بھی مراد ہیں۔ ہے ، اس لئے کہ (اگر آپ سمجھیں تو) علما کے اعلیٰ مقام و منزلت سے آپ کومحروم کر دیا گیا ہے ،کیونکہ مملکت کے نظم و نسق کی ذمہ داری علمائے الہٰی کے سپرد ہونی چاہئے، جو الله کے حلال و حرام کے امانت دار ہیں۔ اور اس مقام و منزلت کے چھین لئے جانے کا سبب یہ ہے کہ آپ حق سے دور ہو گئے ہیں اور واضح دلائل کے باوجود سنت کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں۔ وَ لَوْ صَبَرْتُمْ عَلیٰ الاَذٰی وَ تَحَمَّلْتُمْ الْمَؤُوْنَةَ فی ذٰاتِ اللّٰہِ کٰانَتْ اُمُوْرُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِعُ وَ لَکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ وَ اسْتَسلَمتُم اُمُوْرَ اللّٰہِ فی اَیْدِیْھِمْ یَعْمَلُوْنَ بالشُّبَھٰاتِ وَ یَسِیْرُوْنَ فی الشَّھَوٰاتِ اگر آپ اذیت و آزار جھیلنے اور الله کی راہ میں مشکلات برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے تو احکام الہٰی (اجراء کے لئے) آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے، آپ ہی سے صادر ہوتے اور (معاملات میں) آپ ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن آپ نے ظالموں اور جابروں کو یہ موقع دیا کہ وہ آپ سے یہ مقام و منزلت چھین لیں اور الله کے حکم سے چلنے والے امور ( وہ امور جن میں حکم الہٰی کی پابندی ضروری تھی) اپنے کنٹرول میں لے لیں تاکہ اپنے اندازوں اور وہم و خیال کے مطابق فیصلے کریں اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کریں۔ سَلَّطَھُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ فِرٰارُکُمْ مِنَ الْمَوْتِ وَ اِعْجٰابُکُمْ بِالْحَیٰاتِ الَّتی ھِیَ مُفٰارِقَتُکُمْ فاَسْلَمْتُمْ الضُعَفٰاءَ فی اَیْدیھِمْ فَمِنْ بَیْنِ مُسْتَعْبَدٍ مَقْھُوْرٍ وَ بَیْنِ مُسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعِیْشَتِہِ مَغْلُوْبٍ یَتَقَلَّبُوْنَ فی الْمُلْک بِآرٰائِھِمْ وَ یَسْتَشْعِرُوْنَ الْخِزْیَ بِاَھْوٰائِھِمْ اِقْتِدٰاءً بِاْلاَشْرٰارِ وَ جُرْأَةً عَلیٰ الْجَبّٰارِ وہ حکومت پر قبضہ کرنے میں ا س لئے کامیاب ہو گئے کیونکہ آپ موت سے ڈرکر بھاگنے والے تھے اور اس فانی اور عارضی دنیا کی محبت میں گرفتار تھے۔ پھر ( آپ کی یہ کمزوریاں سبب بنیں کہ) ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے اور (نتیجہ یہ ہے کہ) کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیئے گئے اور کچھ مصیبت کے ماروں کی مانند اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔ حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں ذلت وخواری کا سبب بنتے ہیں، بدقماش افراد کی پیروی کرتے ہیں اور پروردگار کے مقابلے میں گستاخی دکھاتے ہیں۔ فی کُلِّ بَلَدٍ مِنْھُمْ عَلیٰ مِنْبَرِہِ خَطِیْبٌ مِصْقَعٌ فَاْلاَرْضُ لَھُمْ شٰاغِرَةٌ وَ اَیدیھِمْ فیھٰا مَبْسُوْطَةٌ وَ النّٰاسُ لَھُمْ خَوَلٌ لاٰیَدْفَعُوْنَ یَدَ لاٰمِسٍ فَمِنْ بَیْنِ جَبّٰارٍ عَنِیْدٍ وَ ذی سَطْوَةٍ عَلیٰ الضَّعْفَةِ شَدِیدٍ مُطٰاعٍ لاٰ یَعْرِفُ الْمُبْدِءُ المُعید ہر شہر میں ان کا یک ماہر خطیب منبر پر بیٹھا ہے ۔ زمین میں ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں (یعنی جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں) عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ حکام میں سے کوئی حاکم تو ظالم، جابر اور دشمنی اور عناد رکھنے والا ہے اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا ،ان ہی کا حکم چلتا ہے جبکہ یہ نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز جزا کو ۔ فَیٰا عَجَباً وَمٰالی لاأعْجَبُ وَاْلأرضُ مِنْ غٰاشٍّ غَشُومٍ وَِمُتَصِدّقٍ ظلومٍ وعامِلٍ عَلی المُؤمِنینَ بِھِمْ غَیْرُ رَحیمٍ، فَاللهُ الْحٰاکِمُ فیما فیہِ تَنٰازَعْنٰا وَالقٰاضی بِحُکْمِہِ فیما شجَرَ بَیْنَنا۔ تعجب ہے اور کیوں تعجب نہ ہو! ملک ایک دھوکے باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مالیاتی عہدیدار ظالم ہیں اور صوبوں میں اسکے (مقرر کردہ) گورنر مومنوں کے لئے سنگ دل اور بے رحم۔ (آخر کار) الله ہی ان امور کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان نزاع ہے اور وہی ہمارے اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلاف پر اپنا حکم صادر کرے گا۔ اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہُ لَمْ یَکُنْ مٰا کٰانَ مِنّٰا تَنٰافُساً فی سُلْطٰانٍ وَ لاٰالْتِمٰاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطٰامِ و لَکِنْ لِنُرِیَ الْمَعٰالِِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَنُظْھِرَ اْلاصْلاٰحَ فی بِِلاٰدِکَ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبٰادِکَ وَ یُعْمَلَ بِفَرٰائِضِکَ وَ سُنَنِکَ وَ اَحْکٰامِکَ فَاِنَّکُمْ اِنْ لاتَنْصُرُوْنٰا وَ تَنْصِفُوْنٰا قَوِيَ الْظَّلَمَةُ عَلَیْکُمْ وَ عَمِلُوْا فی اِطْفٰاءِ نُوْرِ نَبِیِّکُم وَ حَسْبُنٰا اللَّہُ وَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْنٰا وَ اِلَیْہِ اَنَبْنٰا وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ (امام نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر فرمایا) بارالہا! تو جانتا ہے کہ جوکچھ ہماری جانب سے ہوا (بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں) وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اورنہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں ، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات (حاضرین سے خطاب) نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر (اور زیادہ) چھا جائیں گے اور(( نور نبوت)) کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔ یہ وہ خطبہ تھا جو امام حسین علیہ السلام نے منیٰ میں ارشاد فرمایا اور تمام حاضرین کو تاکید ی حکم دیا کہ یہ پیغام دوسروں تک پہنچانے کی حتیٰ الامکان کوشش کریں تاکہ رفتہ رفتہ تمام مسلمان، پیکر اسلام کو پہنچنے والے ان نقصانات سے آگاہ ہو جائیں جن کے نتیجے میں اسلام کی اساس کو خطرہ لاحق ہے۔ خطبہ منیٰ
خطبے کے نتائج
امام حسین علیہ السلام نے اس خطبے میں امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد مختلف معاشرتی اور مذہبی پہلوؤں نیز اسلامی معاشرے پر معاویہ ابن ابی سفیان کے اقتدار کے اسباب اور ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جن کے سبب مسلمانوں کے معاملات معاویہ کے ہاتھوں میں آ گئے۔ اس کے بعدآپ نے اسلام کے مستقبل کے لئے نقصان دہ خطرات کی جانب اشارہ کیا ، اور مسلمانوں کو خبردار کیا کہ اگر اب بھی وہ خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور عمائدین قوم، اور ملت کے باشعور افراد نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور اپنی ذمے داریوں کو ادا نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ نور نبوت ماند پڑ جائے گا بلکہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ مشعل فروزاں، اسلام دشمنوں کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے بجھ ہی نہ جائے۔ فرزند رسول نے اس خطبے کے ذریعے حاضرین کے سامنے قرآن اور عترت کی مظلومیت کوبیان کیا اور یہ ذمے داری ان کے سپرد کی کہ جہاں تک ممکن ہے وہ اس پیغام کو مملکت اسلامی کے تمام باشعور اور دیندار افراد تک پہنچائیں اور انہیں اس خطرے سے آگاہ کریں۔ اگرچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خطبے کی مفصل تشریح کی جائے کیونکہ اس کا ایک ایک جملہ علمی اور تاریخی لحاظ سے تشریح طلب ہے(۱) لیکن فی الحال یہاں نتیجہ گیری کی صورت میں ہم اپنے خیال اور سطح فکر کی حد تک صرف چند نکات قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔ زمانی اور مکانی حالات اس خطبے کے مضامین کی تشریح سے پہلے خطبہ ارشاد فرمانے کے زمان و مکان اور خطبے کے طرز بیان پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس خطبے کے لئے خاص مقام (منیٰ) اور خاص وقت (ایامِ حج) کا انتخاب کیا گیا۔ مملکت اسلامی کی اہم ترین شخصیات بشمول خواتین کو دعوت دی گئی ، بنی ہاشم کے عمائدین اور مہاجر و انصار صحابہء کرام بھی مدعو تھے۔ خاص کر اس اجتماع میں ۲۰۰ ایسے افرادشریک تھے جنہیں رسول گرامی کی صحابیت اور ان سے براہ راست مستفیض ہونے کی سعادت حاصل تھی ۔ان ۲۰۰ کے علاوہ ۸۰۰ سے زائد افراد اصحاب رسولکی اولاد (تابعین) تھے۔ جلسہ گاہ : یہ جلسہ منیٰ میں تشکیل پایا ،جو بیت الله سے نزدیک ، توحید اور وحدانیت کے علمبردار حضرت ابراہیم سے منسوب اور قربانی و ایثار کی مثال حضرت اسماعیل کی قربانگاہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر قسم کے امتیازات سے دستبردار ہو کر خدا کے سوا ہر چیز کو بھلاد یا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان شیطان اور طاغوتوں پر کنکر برسا کے ندائے حق پر لبیک کہتا ہے اور راہ خدا میں قربانی اور ایمان اور اسلام کے راستے میں تن، من، دھن کی بازی لگانے ۱۔ جیسا کہ علما اور فقہا نے اس خطبے کے صرف ایک جملے ذلک بان مجاری الامور والا حکام علی ایدی العلماء پر فقہ کی استدلالی کتب میں تفصیلی بحث کی ہے۔ کے لئے حضرت اسماعیل کے یاابت افعل ماتومر (۱) سے درس لیتا ہے اور ستجدنی انشاء الله من الصابرین(۲) کو نمونہء عمل قرار دے کر الله کی راہ میں سختیوں، مشکلات اور حتیٰ ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے عزم کا اعلان کرتا ہے۔ زمانہ : یہ جلسہ ایام تشریق میں منعقد ہوا۔ یہ وہ وقت ہے جب یہاں پہنچنے والے الله تعالیٰ کی عبادت و ریاضت، خداسے ارتباط اور عمرے کے اعمال انجام دے کر، منزل عرفات سے گزر کر، مشعر کے بیابان میں رات بسر کر کے، اور قربانی انجام دینے کے بعد فرزند رسول کا حیات آفرین پیغام قبول کرنے کے لئے معنویت اور روحانیت کی ایک منزل پر پہنچ چکے ہیں۔ خطبے سے مربوط اہم نکات ۱ - ولایت سے انحراف اس خطبے میں امام حسین نے جس بات کی طرف سب سے پہلے اشارہ کیا وہ (لوگوں کا) حق سے منحرف ہوجانا ، ولایت اورحکومت کو اس کے صحیح راستے سے ہٹا دینا اور اس بنیادی ترین مسئلے کے بارے میں رسول گرامی کی وصیت کو بھلا دینا تھا۔ رسول گرامی صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اعلان نبوت کے ابتدائی ایام سے لے کر اپنی نبوت کی پوری ۲۳ سالہ مدت میں متعدد مرتبہ امامت اور ولایت کے موضوع پر گفتگو کی اور اس سلسلے میں مختلف موقعوں پر، مختلف طریقوں سے لوگوں کے سامنے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا تعارف کرایا۔ انہی مواقع میں سے ایک نمایاں اور محسوس موقع سد ابواب ( گھروں کے دروازے بند کروانے) والا واقعہ ہے۔ مدینہ تشریف لانے کے ۱۔ اے والد گرامی وہ کیجئے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔آیت۱۰۲) ۲۔ الله نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔ آیت ۱۰۲) بعد رسول کریم نے مسجد تعمیر کروائی اور پھر اسکے اطراف مکانات اور حجرے بنوانے کے دوران سدالابواب الاباب علی (۱) کا دو ٹوک حکم صادر فرمایا اور اسکے بعد وضاحت فرمائی : ما انا سددت ابوابکم ولکن الله امرنی بسدابوابکم و فتح بابہ (میں نے اپنی طرف سے دروازے بند نہیں کروائے ہیں بلکہ مجھے الله نے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بندکرا دوں اوران (علی) کا دروازہ کھلا رکھوں۔ یہ تعارف اسکے بعد بھی انت ولی کل مومن بعدی (۲) اور ایسے ہی دوسرے ارشادات کے ذریعے جاری رہا۔ یہاں تک کہ رسول کریم نے اپنی زندگی کے آخری مہینوں اور آخری ایام میں اس حساس اور اہم موضوع کو عوام الناس کے درمیان انتہائی کھلے لفظوں میں ، غدیر خم کے موقع پر اور مسجد ومنبر سے بیان کیا تاکہ پھراسکے بعد کسی کے لئے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے اور کسی کو تاویل وتفسیر کا کوئی راستہ نہ ملے۔ منیٰ کے جلسے میں موجود متعدد افراد خود ان مواقع کے شاہد و ناظر تھے یا انہوں نے قابل اعتماد اصحاب اور عینی شاہدوں سے سنا تھا ۔لہذا امام حسین علیہ السلام کے ہر بیان کے بعد ان کاجواب یہی تھا کہ اللھم نعم۔ بہر صورت وجہ کوئی بھی ہو (رسول اکرم کی تمام تر کوششوں کے باوجود) یہ انحراف وجود میں آیااور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ کیونکہ خلافت کا پہلا مرحلہ (رسول اکرم کی) وصیت کی نفی کر کے اصحاب کے اجماع اور فیصلے کو دلیل بنا کر طے کر لیا گیا جبکہ صرف دو سال بعد دوسرا مرحلہ اجماع کو پس پشت ڈال کے، صاحب نظر افراد کے کسی قسم کے اظہار نظر کے بغیر ،ارباب حل و عقد اور ماہرین کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے ۱۔ علی کے سوا سب کے دروازے بند کر دو۔ ۲۔ (اے علی) آپ میرے بعد تمام مومنوں کے سرپرست ہوں گے۔ وصیت کی بنیاد پر طے کیا گیا، اور اسکے دس سال بعد خلیفہ ء سوم کے انتخاب کے لئے گزشتہ دو خلفاء کے انتخاب کے طریقے کے برخلاف شوریٰ کے نام سے ایک تیسرا راستہ اپنایا گیا ۔ خلیفہ کے انتخاب کے سلسلے میں اختیار کئے جانے والے یہ تین مختلف اورمتضاد راستے اور راہ حق کے مقابلے میں ایجاد ہونے والا یہ انحراف شاید بعض افراد کے نزدیک صرف ماضی کی ایک داستان اور انجام پا چکنے والا عمل ہولیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے جوتلخ نتائج اورنقصانات سامنے آئے ،وہ اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ نہ ہی اجتماعی امور کا کوئی ماہر ان کا مکمل تجزیہ و تحلیل کر سکتا ہے اور نہ ہی حتیٰ کوئی محقق اور مورخ انہیں کماحقہ بیان کر سکتا ہے۔ امیر المومنین کے زمانے کے واقعات انہی کے بیانات کی روشنی میں اس زمانے کی بعض معاشرتی اور مذہبی مشکلات کو امیر المومنین کے درج ذیل کلام میں محسوس کیا جا سکتا ہے اور یوں احساس ہوتا ہے کہ گویا امام حسین کا خطبہ امیر المومنین کے اسی کلام کی تشریح ہو۔ اس کلام میں خلفائے اول اور دوم کے طریقہ ء انتخاب اور اس دوران اپنی صورتحال اور مقام کو بیان کرنے کے بعد، امیر المومنین نے ان واقعات ، غلطیوں ، خامیوں اور مصیبتوں کی طرف اشارہ کیا جو خلیفہ ء ثانی اور ثالث کے زمانے میں پیش آئیں ،جس نے مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ امیر المومنین سے رجوع کریں۔ اسی طرح اس کلام میں ان قبیح اعمال کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے ، جو نفسانی خواہشات ، حب دنیا ، جاہ ومقام اور مال و منال کی خاطر بعض مسلمانوں نے انجام دیئے۔ آپ فرماتے ہیں: (( خدا کی قسم لوگ ان (خلیفہء دوم) کے زمانے میں کج روی، سرکشی ،متلون مزاجی اوربے راہ روی میں مبتلا ہو گئے۔ میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا، یہاں تک کہ انہوں نے بھی اپنی راہ لی اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گئے اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔ لله مجھے اس شوریٰ سے کیا واسطہ ؟ ان میں کے سب سے پہلے ہی کے مقابلے میں میرے استحقاق اور فضیلت میں کب شک و شبہ تھا، جو اب ان لوگوں میں، میں بھی شامل کر لیا گیا ۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہوکے پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتیٰ الامکان کسی نہ کسی صورت میں نباہ کرتا رہوں) ۔ ان (اراکین شوریٰ) میں سے ایک شخص تو کینہ و عناد کی وجہ سے میرا مخالف ہواا وردوسرا دامادی اور بعض ایسی باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا جن کا بیا ن مناسب نہیں ۔ یہاں تک کہ اس قو م کا تیسرا پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اسکے ساتھ ساتھ اس کے بھائی بند بھی اٹھ کھڑے ہوئے ،جو الله کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل بہار کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کی بد اعمالیوں نے اس کا کا م تمام کردیا اور شکم پری نے اسے منھ کے بل گرادیا ۔اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری طرف بجو کے ایال کی طرح ہر طرف سے مسلسل بڑھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ صورت یہ ہوگئی تھی کہ حسن اور حسین کچلے جارہے تھے اور میری چادر کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے۔ وہ سب میرے گرد اس طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے جیسے بکریاں بھیڑئیے کے حملے کی صورت میں اپنے چرواہے کے گرد جمع ہوجاتی ہیں ۔لیکن اس کے باوجود جب میں نے خلافت کی ذمے داریاں سنبھالیں تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کیا ۔گویا ان لوگوں نے الله کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ :یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگو ں کیلئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں، نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گار وں کے لئے ہے ۔ہاں ہاں! خدا کی قسم ان لوگوں نے اس آیت کو سنا تھا اور یاد کیا تھا لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا تھا اور اس کی سج دھج نے انہیں دیوانہ کردیا تھا۔))(۱) امیرالمومنین کے مذکورہ بالا خطبے کے آخری الفاظ میں آپ کا درد دل ملا حظہ کیا جاسکتا ہے ۔لہذا جب آپ نے زمام خلافت کواپنے ہاتھ میں لیا اور اسلام کے صحیح قوانین کا نفاذ اور عدل وانصاف کا بول بالا ہوا اور جب انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ اپنے پروگرام کا اعلان کیاکہ :والله لو وجدتہ قدتزوج بہ النساء وملک بہ الاماء لرددتہ فان فی العدل سعة ومن ضاق علیہ العدل فالجور بہ اضیق ۔۔(خدا کی قسم !اگر مجھے کوئی مال اس حالت میں مل جاتا جسے عورتوں کا مہر بنایا دیا گیا ہے، یا اسے کنیز کی قیمت کے طور پر دیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرادیتا ۔اس لئے کہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اسکے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہوگی۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۵) تو ۲۵ سال کی بے راہ روی، رسول الله کی سیرت سے دوری اور قانون شکنی اور حق تلفی کا عادی ہوجانے کی وجہ سے ،لوگ حق وعدالت کے قیام کے لئے امیر المومنین کی کوششوں کو جرم سمجھنے لگے اور آپ کی مخالفت میں کھڑے ہوگئے اور آپ کے خلاف ایک داخلی جنگ کا آغاز کر دیا۔ کچھ لوگ اگرچہ براہ راست اس جنگ میں شامل نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنی خاموشی کے ذریعے دشمن کو مضبوط کیا۔ اس کے نتیجے میں بجائے یہ کہ امیرالمومنین کی طاقت ۱۔ نہج البلاغہ ۔خطبہ نمبر ۳ عدل وانصاف کے اجراء اور قرآن وسنت کے اہداف ومقاصد کو جامہء عمل پہنانے کے سلسلے میں صرف ہوتی، آپ کی تمام تر تو جہات اسلام کی بنیادوں کے تحفظ اور اسلامی معاشرے کی حفاظت پر مرکوز ہوگئیں۔ حد یہ ہے کہ ان داخلی جنگوں اور اندرونی اختلافات کے نتیجے میں لشکر حق اتنا کمزور اور بے اثر ہوگیا اور اس صورتحال نے امیرالمومنین کو ایسا آزردہ خاطر کیا کہ آپ نے بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہوئے یوں عرض کی : اللھم انی قد مللتہم وملونی وسئمتھم وسئمونی، فابدلنی بہم خیرا منہم، وابدلھم بی شرامنی۔ ((اے پروردگار! میں ان سے تنگ آگیا ہوں اور یہ مجھ سے تنگ آگئے ہیں۔ میں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ مجھ سے اکتاگئے ہیں لہذا مجھے ان سے بہتر قوم عنایت کر دے اور انہیں مجھ سے بد تر حاکم دے دے۔ )) نیز فرمایا : والله لا ظن ان ھولاء القوم سید الون منکم با جتماعھم علی باطلھم ،وتفرقکم عن حقکم وبمعصیتکم اما مکم فی الحق، وطاعتھم امامھم فی الباطل، وبادائھم الامانة الی صاحبھم و خیانتکم ،وبصلاحھم فی بلاد ھم وفساد کم۔ ((اور خدا کی قسم میرا خیال یہ ہے کہ عنقریب یہ لوگ تم سے اقتدار چھین لیں گے ۔اس لئے کہ یہ اپنے باطل پر متحد ہیں اور تم اپنے حق پر متحد نہیں ہو۔ یہ اپنے پیشوا کی باطل میں اطاعت کرتے ہیں اور تم اپنے امام کی حق میں بھی نافرمانی کرتے ہو۔ یہ اپنے مالک کی امانت اس کے حوالے کردیتے ہیں اور تم خیانت کرتے ہو۔ یہ اپنے شہروں میں امن وامان رکھتے ہیں اور تم اپنے شہروں میں بھی فساد کرتے ہو ۔))(نہج البلاغہ ۔ خطبہ نمبر ۲۵) ساتھ ہی پیش گوئی فرمائی کہ پیش آمدہ حالات میں( جبکہ تم اپنے رہبر اور امام کی طرف سے عائد ہونے والے فریضے کی ادائیگی میں سستی کرتے اور نافرمانی برتتے ہو اور دشمن اپنے مکرو فریب میں ہر روز موثر قدم بڑھا رہا ہے) جلد ہی معاویہ اور اس کے طرفدار کامیاب ہو کر تم پر مسلط ہو جائیں گے اور یوں ایک تاریک مستقبل اور ہولناک مقدر تمہارے انتظار میں ہے۔ اما انکم ستلقون بعدی ذلا شاملا و سیفا قاطعا واثرةیتخذھا الظالمون فیکم سنة(۱) ((مگر آگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہر طرف سے چھا جانے والی ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہے اور ظالموں کے اس وتیرے سے سابقہ پڑنا ہے کہ وہ تمہیں محروم کر کے ہر چیز اپنے لئے مخصوص کر لیں ۔ )) اور آخر کار امیرالمومنین کی دعا :فابدلنی خیرا منھم (ان کی بجائے ان سے بہتر افراد مجھے عنایت فرما)پوری ہوئی اور ان افراد کی بجائے جن سے امیرالمومنین رنجیدہ تھے الله تعالیٰ نے انہیں رسول الله، انبیاء اور اولیاء کے ہمراہ اپنے جوار خاص میں مقام عنایت فرمایا اور آپ نے اپنی خون آلود اور مجروح پیشانی کے ساتھ آخری کامیابی کا استقبال کیا اور فزت ورب الکعبہ (۲) کہتے ہوئے اپنے رب سے ملاقات کے لئے روانہ ہوئے۔ امام حسن کا طریقہ ء کار امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند اور نواسہء رسول (امام حسن مجتبیٰ)نے فیصلہ کیاکہ بنی امیہ کے فسادوانحراف اور معاویہ کے ساتھ مقابلے کے سلسلے ۱۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ نمبر ۵۸ ۲۔ عربی لغت نامے اقرب الموارد میں ہے کہ ((فاز بخیر ای ظفربہ ویقال لمن اخذحقہ من غریمة:فاز)) اس طرح کلمہء فوز کے اصلی معنی کامیابی ہیں نہ کہ ہدایت اور اصلاح جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی کسی مقابلے میں جیتنے والے کو فائز کہا جاتا ہے ۔ میں وہ بھی امیرالمومنین ہی کے راستے پر قدم بڑھائیں گے اور ماضی کے کفر اور آج کی منافقت کی مخالفت کو امامت اور رہبری کی بنیادی ذمہ داری قرار دیں گے، کیونکہ وہ بھی برحق امام تھے اور جوانان جنت کے سردار تھے ،ان کا راستہ اور منصوبہ وہی تھا جو امیرالمومنین کا راستہ اور منصوبہ تھا ۔ لہذا آپ نے معاویہ کے خلاف جنگ کا حکم صادر فرمایا اور لشکر کوفہ کو جمع کرتے ہوئے، خود فوج کے سپاہ سالار اورقائد کے طور پر محاذ کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن جنگ کے آغاز ہی میں ایک طرف تو خود اپنے لشکر میں موجود بے وفا افراد کی وجہ سے ،جن کی تن آسانی اور سستی کی امیرالمومنین بھی ہمیشہ مذمت کیا کرتے تھے اور ان کی بے وفائی اور غیر ذمے داری کا درگاہ الہیٰ میں شکوہ کرتے تھے اور دوسری طرف ابوسفیان کے بیٹے کی چالاکی کی وجہ سے امام حسن اپنے قلبی رجحان کے برخلاف جنگ بندی قبول کرنے اور ایسے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور ہوئے جس پر عمل درآمد کی انہیں امیر حمزہ کاجگر چبانے والی ہندہ کے بیٹے معاویہ ا بن ابو سفیان سے کوئی امید نہ تھی ۔ امام حسن بن علی نے اس تاریخی سانحے اور بظاہراپنے نرم رویے کے بنیادی اسباب کا مختلف موقعوں پر ذکر فرمایا ہے اور اپنے زمانے کے لوگوں کے سامنے اس سلسلے میں اپنی اندرونی غم انگیز کیفیت کا متعدد مواقع پر اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے ایک تقریر کے دوران جبکہ معاویہ بھی وہاں موجود تھے یوں ارشاد فرمایا : (( اے لوگو ! معاویہ یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے صلح کی قرارداد قبول کر کے میں نے انہیں مقام خلافت کا مستحق سمجھا ہے ۔ ان کا یہ کہنا درست نہیں کیونکہ الله کی کتاب اور سنت نبی کے مطابق لوگوں کی رہبری اور قیادت ہمارے خاندان کے لئے ہے (یعنی یہ کیسے ممکن ہے کہ میں کتاب و سنت کے برخلاف عمل کروں) اور خدا کی قسم اگر لوگ ہمارے ساتھ کی جانے والی بیعت میں وفادار رہتے اور ہماری اطاعت کرتے اور ہماری مدد کرتے تو خداوند متعال زمین و آسمان کی برکتیں ان پر نازل کرتا۔ (پھر معاویہ سے مخاطب ہو کے فرمایا) اور پھر تم لوگوں پر حکومت اور بالادستی کا خواب نہ دیکھ سکتے۔ اے معاویہ ! تم رسول الله کے اس فرمان سے باخبر ہو کہ جو قوم بھی اپنی حکومت اور سرپرستی آگاہ اور باخبر افراد کے ہوتے ہوئے بے خبر اور بے صلاحیت لوگوں کے سپرد کر دے توتباہی اور بربادی اس قوم کا مقدر ہو جائے گی اور وہ قوم بچھڑوں کی عبادت (یا گوسالہ پرستی) کا شکار ہو جائے گی۔)) پھر فرمایا : ((بنی اسرائیل نے یہ جاننے کے باوجود کہ ہارون، موسیٰ کے جانشین اور خلیفہ ہیں ،انہیں ترک کر دیا اور بچھڑے کی عبادت میں مشغول ہو گئے۔ مسلمانوں کے درمیان بھی ایسا ہی انحراف پیش آیا اور حضرت علی کے بارے میں رسول الله کی اس ہدایت کے ہوتے ہوئے کہ : یا علی ! انت منی بمنزلة ھارون من موسی (اے علی! آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی) مسلمانوں نے علی کو چھوڑ دیا اور اس کے برے نتائج کا شکار ہو گئے۔)) پھر امام حسن نے معاویہ کو مخاطب کر کے فرمایا : ((جس زمانے میں رسول الله لوگوں کو الله اور توحید کی دعوت دے رہے تھے، انہوں نے غار میں پناہ لی تھی اور اگر ان کے انصار و اعوان ہوتے تو وہ ہرگز لوگوں سے دور نہ ہوتے ۔اے معاویہ ! اگر میرے اعوان و انصار ہوتے تو میں بھی کبھی صلح کا معاہدہ قبول نہ کرتا۔)) پھر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ((الله تعالیٰ نے ہارون کا عذر قبول کیا، جب ان کی قوم نے انہیں چھوڑ دیا تھا اور ان کے قتل کے منصوبے بنا رہے تھے۔ اسی طرح الله نے نبی اکرم کے عذر کو بھی قبول کیا جب وہ اپنا کوئی مددگار نہیں پاتے تھے اور اپنی قوم سے دوری اختیار کرتے تھے۔ الله تعالیٰ میرے اور میرے والد علی کے عذر کو بھی قبول کرے گا کیونکہ ہمیں بھی اپنے اردگرد اعوان و انصار نظر نہیں آتے تھے ۔لہذا (ہم نے) دوسروں کے ساتھ گزارہ کیا۔ اور یہ سب تاریخ کے قوانین اور ایک جیسے واقعات ہیں جو ایک کے بعد ایک واقع ہوتے ہیں۔)) امام نے اپنی تقریر کے آخر میں فرمایا : (( لوگو! اگر مشرق و مغرب میں تلاش کرو تب بھی میرے اور میرے بھائی کے علاوہ تمہیں کوئی فرزند نبی نہیں ملے گا۔))(۱) اسی طرح جب امام کے جاننے والوں میں سے کسی نے صلح کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے جواب میں یوں فرمایا: (( خدا کی قسم میں نے یہ صلح اور معاہدہ صرف اس وقت قبول کیا جب دیکھا کہ کوئی ساتھ دینے والا نہیں ہے۔ اور اگر اس مقصد کے لئے میرے پاس طاقت و قوت (انصار و اعوان) ہوتی تو دن رات معاویہ سے جنگ کرتا یہاں تک کہ جو خدا کو منظور ہوتا وہ انجام پاتا : وَالله، ماٰ سَلَّمْتُ اْ لأ مَر الیہِ الاّ اَنی لَم اَجِد اَنْصاراً وَلَوْ وَجدَتُ اَنْصاراً لَقاتَلْتُہُ لَیلی وَنَھٰاری حَتیَّ یَحْکُمَ الله بینی وَبَینَہ۔)) (۲) ۱۔ احتجاج طبرسی ۔ ج ۲۔ ص ۸ ۲۔ احتجاج طبرسی ۔ ج ۲۔ص ۱۲ خلاصہء کلام یہ کہ اگر امیر المومنین علیہ السلام اپنے اہداف و مقاصد کو حاصل نہ کر سکے اور امام حسن، معاویہ کے ساتھ صلح پر مجبور ہوئے اوراگر معاویہ کو اتنی قدرت ملی کہ وہ مسلمانوں پر اپنے اقتدار کے حصول میں کامیاب ہوں اور انہیں ذلت و رسوائی سے دوچار کر دیں، انہیں اسلام و قرآن سے دور کر دیں اور یہاں تک کہ امت اسلامی کی تقدیر یزید جیسے خطرناک شخص کے سپرد کر دیں، تو اس کا ایک اہم ترین سبب یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنے امام اورولی کی اطاعت میں کوتاہی کی اورمعاشرے کے بعض سرکردہ ترین افراد نے اپنے رہبر اور امام کے سلسلے میں اپنی ذمے داریوں پرتوجہ نہیں دی۔یہ افراد نہ صرف یہ کہ امام کے احکام و فرامین کی اطاعت پر تیار نہ تھے اور ان کی معنوی اور روحانی رہبری میں قدم بڑھانے سے گریز کرتے تھے بلکہ اس کے برخلاف ایسے بے جا اعتراضات، بہانے اور چوں و چرا کیاکرتے تھے کہ آخر کار ناقابل تلافی نقصانات اٹھانے پڑے۔ ۲ -امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت امام حسین نے اپنے اس نورانی اور تاریخی خطبے کے دوسرے حصے میں بالعموم تمام مسلمانوں اور بالخصوص مہاجرین اور انصار کو مخاطب کیا ہے اور فریضہ ء امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (جس پر اسلامی معاشرے کی اساس استوار ہے) کی انجامدہی کے سلسلے میں ان کی نوٹ : معاویہ سے جنگ ترک کرنے کے بارے میں امام حسن کے اس واضح بیان کو پیش نظر رکھا جائے تو رسول مقبول سے منسوب کی جانے والی یہ حدیث : اِنَّ ابنی ھًذا سَیدَّ وَلَعَل الله اَنْ یُصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئتَین مِنَ المُسلِمینَ (میرا یہ فرزند (حسن ) سیدو سالار ہے اور امید ہے کہ خداوند عالم اسکے توسط سے مسلمانوں کے دوگروہوں کی اصلاح کرے گا) جو امام حسن کی فضیلت کے عنوان سے صحیح بخاری اور اہل سنت کے دوسرے منابع حدیث میں نقل کی گئی ہے اور شیعہ کتب میں بھی داخل ہوئی ہے، جعلی حدیث محسوس ہوتی ہے، جسے بنی امیہ کے حدیث سازی کے کارخانے میں تیار کیاگیا ہے تاکہ تاریخی حقائق کو الٹ پلٹ دیں اور امام حسن کے مخالف لشکر کو مسلمانوں میں شمار کریں اور ان کا خون بہانے (بقیہ اگلے صفحہ پر) سستی اوربے توجہی کی مذمت اوران کی سرزنش فرمائی ہے، اور معاشرے میں ظلم و ستم پھوٹ پڑنے اور مسلمانوں کے مقدر پر ظالم اور ستمگر افراد کے تسلط (جس کا ذکر آپ نے اپنے اس خطبے کے تیسرے حصے میں کیا ہے ) کا ایک سبب اس اہم فریضے کے سلسلے میں مسلمانوں کی کوتاہی کوقرار دیا ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہم ترین پہلو لیکن امام کے خطاب کے اس حصے میں جو بات انتہائی قابل توجہ اور اہمیت کی حامل ہے، وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے وسیع مفہوم اور اس کے مختلف پہلوؤں کی تشریح اور اس بنیادی مسئلے کے اہم ترین رخ اور عملی پہلو کی جانب اشارہ ہے ۔ کیونکہ امام نے قرآن کریم کی دو آیات کو بطور سند پیش کرتے ہوئے فرمایا : اگر معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر برقرار ہو توچھوٹے بڑے تمام واجبات پرعمل ہو اور تمام مشکلات حل ہو جائیں ۔اس کے بعد نمونے اور مصداق کے طور پر پانچ امور کو نکتہ وار درج ذیل صورت میں بیان کیا : ۱-وذلک ان الامر بالمعروف و النھی عن المنکر دعاء الی الاسلام: امربالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کی طرف دعوت (فکری اور عقیدتی جہاد کے مساوی ) ہے۔ ۲ - مع رد المظالم : مظلوموں کو ان کے حقوق لوٹانا ہے۔ ۳- ومخالفة الظالم : ظالم کے خلاف جد و جہد ہے۔ ۴- وقسمة الفی ء والغنائم : مال غنیمت اور عوامی دولت کی عادلانہ تقسیم ہے۔ (بقیہ پچھلے صفحے کا حاشیہ)کو حرام اور صلح کے مسئلے کو ایک واجب عمل اور امام حسن کی نسبت سے ایک اولی حکم ظاہر کریں۔ لیکن امام حسن کی گفتار سے واضح ہے کہ آپ نے بحالت مجبوری صلح قبول کی تھی اور اگر آپ کو جانثار اصحاب و انصار کی خاطرخواہ تعداد میسر ہوتی اور حالات آپ کے حق میں ساز گار ہوتے تو آپ حتمی کامیابی تک معاویہ کے خلاف جنگ جاری رکھتے اور آپ معاویہ کے پیروکاروں کو فئتین من المسلمین شمار نہیں کرتے تھے۔ ۵- واخذ الصدقات من مواضعھاووضعھافی حقھا : زکات اور دوسرے مالی واجبات کی صحیح جمع آوری اور ٹھیک ٹھیک مقامات پر انہیں خرچ کرنا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وسیع سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا انجام دینا، (جس میں ظالم کا مقابلہ، حقوق کی بازیابی ، ظلم وستم کا جڑ سے خاتمہ اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام شامل ہے) حکومت اسلامی کے قیام اور ان امور کے اجراء کے لئے قوت ہاتھ میں لئے بغیرمحض انفرادی سطح پر تلقین اور زبانی طور پر اچھائیوں کی تاکید سے ممکن نہیں۔ امام حسین علیہ السلام کا یہ بیان درحقیقت ان لوگوں کے لئے واضح جواب ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم اور بنیادی فریضے کو انتہائی محدود پیمانے میں، انفرادی سطح پر اور عمل کی بجائے محض زبانی کلامی تلقین میں منحصر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح یہ خطاب اسلامی حکومت کے قیام کے واجب ہونے اور معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عملی اجراء کے لئے ایک مضبوط دلیل فراہم کرتا ہے۔ اسی بنا پر اور ایسے ہی متعدد دلائل کی روشنی میں بعض بزرگ شیعہ فقہا نے جہاد جیسے فریضے کو اس کی تمام تر عظمت ، وسعت اور احکام کے باوجود امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک شاخ قرار دیا ہے اور اسے ان دو اشد اہم فرائض کا ایک حصہ شمار کرتے ہیں۔ زیارت امام حسین میں درج ہونے والا جملہ: اشھد انک قد اقمت الصلاةوآتیت الزکاة وامرت بالمعروف و نھیت عن المنکر بھی اس حقیقت کا گواہ ہے اور اس مفہوم کی وضاحت کرتا ہے کہ حکومت یزید کی مخالفت میں امام حسین علیہ السلام کا جہاد اور مبارزہ درحقیقت فرائضِ الہیٰ کی ادائیگی ، نماز وزکات کے قیام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی انجام دہی کے لئے تھا۔ مختصر یہ کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا صحیح ، وسیع اور جامع مفہوم معاشرے میں عدل و انصاف کا رواج اور سماج سے ظلم و فساد کا مکمل خاتمہ ہے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہو، اور اگر کسی معاشرے میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا اس کے اس مفہوم میں اجراء نہ ہو اور اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت قائم نہ کی جائے تو پھر قدرتی طور پر یہ ہو گا کہ اسکی جگہ ظالم و ستمگر اور بدقماش افراد معاشرے پر چھا جائیں گے۔ اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امیر المومنین نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا: ولا تترکواالأمربالمعروف و النھی عن المنکر فیولی علیکم اشرار کم فتدعون فلا یستجاب لکم ۔ ((امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو کسی صورت میں ترک نہ کرنا ،ورنہ تمہارے برے تم پر حاکم ہو جائیں گے ،پھر دعائیں بھی مانگو گے تو پوری نہیں ہوں گی۔))(۱ ) ۳ -تاریخ کے پست سرشت افراد امام حسین علیہ السلام کے اس اہم خطبے کے یہ تین حصے ایک اعتبار سے فلسفہ ء تاریخ کے درس اور علم اجتماعیات کے و ہ گہرے نکات ہیں جن میں اسلام کے ابتدائی۵۰ سال کے دوران مسلمانوں کی معاشرتی تبدیلیوں کے اسباب بیان ہوئے ہیں، اسلام کی عظمت کے ابتدائی دور ہی میں ظالموں اور ستمگروں کے قابض ہونے کی وجوہات ذکر ہوئی ہیں، اہل بیت اطہار کی حق تلفی اور معاویہ ابن ابی سفیان کے حاکم ہو جانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور تین مختلف پہلوؤں سے ان مسائل کا جائزہ لیا گیا ۔ اس خطبے میں درحقیقت آیت قرآن :ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا مابانفسھمکی تاریخی شواہد اور انتہائی محسوس دلائل کی روشنی میں انتہائی خوبصورت اور ۔ نہج البلاغہ ۔ مکتوب نمبر ۴۷ دلنشین انداز میں تفسیر کی گئی ہے۔ نیز اسی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے اندرونی رنج و اندوہ اور ان کی تشویش کا اظہار بھی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ خطبہ تاریخ اسلام میں آنے والے تمام مسلمانوں بالخصوص علما کے لئے تنبیہ اور بیداری کا پیغام بھی ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے خطبے کے تیسرے حصے میں اس اہم اور تاریخی اجتماع میں موجود مسلمانوں ، اصحاب رسول اور ان کی اولادوں کو مخاطب قرار دیا۔ یہ لوگ مذہبی اور سماجی مقام کے حامل ایسے سرکردہ افراد تھے جو اپنے کردار کے ذریعے معاشرے میں ایک تحریک ایجاد کرسکتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا قول و عمل، گفتار و کردار حرکت اور سکون افراد ملت کے لئے نمونہ ء عمل اور لائق تقلید تھا۔ انہیں چاہئے تھا کہ اپنی شخصیت کی اہمیت اور اس کے مرتبے کو پہچانتے اور اپنی صحیح حیثیت کا اندازہ لگاتے اور مظلوموں کی نجات اور معاشرے کو حقیقی معنوں میں فلاح و سعادت سے ہمکنار کرنے کے لئے تدبیر کرتے۔ لیکن دنیاوی زندگی کی محبت، مادی لذتوں کی حرص، آسائش طلبی اور سختیوں سے بچنے کی خواہش اور بعض اوقات اپنے جمود اور سادہ لوحی کی وجہ سے ان افراد نے بزدلی کی راہ اختیار کی اور زمین پر ہمیشہ باقی رہنے کی بچکانہ خواہش نے انہیں ان کی ذمے داریوں سے غافل کر دیا۔ ان لوگوں نے خدائی احکامات کی ایسی من مانی تفسیریں کیں جن سے ان کے ذاتی مقاصد حاصل ہو سکیں اور اپنی اس بے راہ روی پر مسلسل گامزن رہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں حق اور فضیلت کا محافظ سمجھا جانے کی وجہ سے معاشرے میں خصوصی عظمت اور مقام حاصل تھا، کمزور اور قدر ت مند، سب کے دلوں میں ان کی ہیبت اور دبدبہ قائم تھا اور ہر ایک انہیں خاص احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی ان سے ساری امیدیں اور توقعات ضائع ہو گئیں۔ ان لوگوں نے دین اور قرآن کی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کیا، کسی مالی نقصان کاسامنا نہیں کیا اور نہ ہی کسی پابندی، قید و بند اور اذیت و آزار کو جھیلا۔ ان کے اقربا اور رشتے دار اسلامی مقدسات کا مذاق اڑاتے رہے اور انہوں نے ان کی کوئی مخالفت نہیں کی اوردین وقرآن کے حامیوں ، اسلام کی راہ میں اذیت و آزار جھیلنے والوں اور اس راہ میں جلا وطنی برداشت کرنے والوں کو کوئی اہمیت نہ دی۔ ان کی موجودگی میں اسلام و قرآن کی حرمت کو پامال کیا گیا اور یہ خاموش رہے بلکہ عملًا اسلام کے دشمنوں کی چاپلوسی اور ان سے ساز باز کی روش اخیتار کی اور یوں ظالموں کی حاکمیت اور مظلوموں کے حقوق کی پامالی کا راستہ ہموار کیا۔ لیکن اگر یہ غورکرتے تو جان لیتے کہ ایسا کر کے انہوں نے درحقیقت اپنے ہی لئے ایک بڑی مصیبت کا سامان کیا ہے، اورخود اپنے ہی ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی کی بنیادیں رکھی ہیں۔ کیونکہ اگر وہ حق کاساتھ نہ چھوڑتے، خط ولایت اور فرمان نبوت کے بارے میں اختلاف کا شکار نہ ہوتے، راہ خدا میں مارے جانے سے نہ کتراتے ، چندروزہ دنیاوی زندگی کی لالچ میں مبتلا نہ ہوتے اورالله کے راستے میں عارضی مصیبت، مشقت اور محرومیت پر صبر کرتے،تو اسلامی معاشرے کی سربراہی اور زمام امور ان ہی کے ہاتھ میں ہوتی اور الله کے احکام اور فرامین ان ہی کے ذریعے جاری ہوتے، مظلوم اورستم رسیدہ افراد ان ہی کے ہاتھوں نجات پاتے، محروموں اور مشکل کے ماروں کی داد رسی ہوتی اور ظالم و جابر ان کے ہاتھوں کچل دیئے جاتے۔ لیکن ان کی سستی اور کوتاہی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا،اسلام سے ان کی دوری نے انہیں ذلیل و خوار کر دیا ،اورقدرت و حاکمیت دشمنوں کے ہاتھوں میں آ گئی، وہ جس طرح چاہتے ہیں مظلوموں کے ساتھ پیش آتے ہیں اور جس طرف ان کی شقی طبیعت کا میلان ہوتا ہے معاشرے کو اسی طرف لے جاتے ہیں، الله کے احکام کی تحقیر کرتے ہیں اور سنت رسول کی اہانت ۔ نابیناؤں، محتاجوں ،فقرا اور مساکین کو بنیادی ترین انسانی حقوق سے محروم کرتے ہیں۔ مملکت اسلامی کے ہر گوشے میں ایک مستبد فرد حاکم ہے اور ہر علاقے پر ایک خود خواہ شخص فرمانروا ہے۔ یہ لوگ اسلام کی قدرت اور مسلمانوں کی عزت و شوکت کو پامال کرنے کے لئے اپنے پاس موجود ہر قسم کے تبلیغاتی حربے استعمال کررہے ہیں، اسلامی دستور میں تحریف اور اسلامی قوانین کو الٹ پلٹ رہے ہیں، حدود کی سزاؤں کو انسانی حقوق کی پامالی ، قصاص کو ظلم اور تعزیرات کو قساوت کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں ۔ یہ وہ خطاب ہے جو حسین ابن علی نے ارشاد فرمایا، حسین جو نواسہ ء رسول ہیں، فرزند امیر المومنین علی ابن ابی طالب ہیں اور فاطمہ زہرا کے لخت جگر ہیں۔ یہ صرف حسین ابن علی ہی کا کلام نہیں ہے بلکہ یہی تمام انبیاء کا کلام اور تمام ائمہ و اولیائے خدا کا درد دل ہے ،حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، اور خاتم الانبیاء کا کلا م ہے ، حضرت علی ، اما م حسن اور بقیہ ائمہ ء اطہار کا کلام ہے۔ خطبے کا عملی جواب جس طرح یہ خطبہ اور یہ کلام انبیاء ، اولیاء اور ائمہء ہدیٰ کا کلام ہے، اسی طرح اس کاعملی جواب بھی سب سے پہلے انبیاء اور ائمہء ہدیٰ نے دیا، ا ور وہی تھے جنہوں نے تاریخ انسانی کے ہر دور میں اس حیات بخش ندا پر لبیک کہا۔ جی ہاں! یہی لوگ منادی بھی تھے اور لبیک کہنے والے بھی، خود ہی خطاب کرنے والے بھی تھے، خود ہی اس خطاب کو سننے والے بھی، خودہی دعوت دینے والے بھی اور خود ہی اس کا جواب دینے والے بھی۔ انہوں نے اس دعوت کے جواب میں ایسی استقامت اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا کہ شوق و اشتیاق کے ساتھ آگ میں کود پڑے، اورآخر کار اپنے زمانے کے سرکش نمرودیوں پر غالب آ ئے، اورتوحید کی بنیادیں قائم کر دیں اور اپنے اہداف و مقاصد کے سلسلے میں ایسی پائیداری دکھائی کہ دشمن کو سمندر کی موجوں میں غرق کر کے اپنی قوم کو ذلت و غلامی سے نجات دلائی ۔یہ لوگ اپنے عہد و پیمان سے اس قدر وفادار تھے کہ جب ان کے کٹے ہوئے سر طشت میں رکھ کر دشمنوں کو پیش کئے گئے تو اس عالم میں بھی انہوں نے شمشیر پر خون کی فتح کا نعرہ بلند کیا۔ اور بالآخر تشیع کو یہ اعزاز اور افتخار حاصل ہوا کہ اس کے ائمہ اور اس کے رہنماؤں نے دینِ اسلام کی سربلندی اور تعلیمات ِقرآنی کے عملی نفاذ کی راہ میں( جس کاایک مظہر عادلانہ اسلامی حکومت کی تشکیل و تاسیس ہے) کبھی پس زنداں اور کبھی جلاوطنی کی زندگی بسر کی اور آخر کار اپنے زمانے کے ظالموں اور طاغوتوں کی حکومتوں کے خاتمے کے لئے جد و جہد کے دوران شہید ہوئے(۱)۔ جہاں تک حالات اور وسائل نے اجازت دی ائمہ نے مسلحانہ جد و جہد کی اور اپنی تلواریں سونت کر دشمنان اسلام کی صفوں پر حملے کئے۔ درحقیقت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کے زمانے کی تین جنگیں اور(معاویہ ابن ابی سفیان اور یزید ابن معاویہ کے مقابلے میں) امام حسن اور امام حسین کی معرکہ آرائی تاریخ انسانیت اور تاریخ اسلام میں ظلم و ناانصافی کے خلاف کی جانے والی جد و جہد کے سنہرے اوراق ہیں۔ اما م حسین اور ان کے اصحاب کا عملی جواب اگرچہ اس خطبے کا مضمون حاضرین اور سامعین کے سامنے امام حسین کے آئندہ اقدامات اور حکمت عملی کا اجمالی خاکہ پیش کر رہا تھا اور امام علیہ السلام کی جانب سے عملی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی خبر دے رہا تھا اور سامعین کو آئندہ کے حالات کے لئے تیار رہنے اور اس قیام سے تعاون کرنے کی دعوت دے رہا تھا لیکن خطبے کے آخری جملات میں یہ حقیقت انتہائی کھلے الفاظ کے ساتھ بیان کر دی گئی اور ایک بھرپور اور تاریخی تحریک کی وضاحت کرتے ہوئے امام نے فرمایا : اللھم انک تعلم انہ لم یکن ماکان منا منافسة فی سلطان۔۔۔ فانکم ان لم تنصروناو تنصفونا قوی الظلمة ۔ امام خمینی کے الہیٰ و سیاسی وصیت نامے سے اقتباس علیکم و عملوا فی اطفاء نور نبیکم۔ (( بارالہاٰ ! تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری جانب سے ہوا (بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں ) وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اور نہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ یہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکارا کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات (حاضرین سے خطاب) نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر اور زیادہ چھا جائیں گے اور (( نور نبوت )) کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے ۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔)) اس خطبے میں امام حسین نے اپنے جس مقصد کو بیان کیا یہ وہی مقصد ہے جس کی جانب آپ نے اس خطاب کے تین سال بعد(۲۸ رجب ۶۰ھ میں) مدینہ سے روانگی کے وقت اپنے تاریخی وصیت نامے میں اشارہ فرمایا تھا۔ وانی لم اخرج اشراً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً وانما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی، اریدان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر۔۔۔ ((میرا مدینہ سے نکلنا خود غرضی کے تحت ہے نہ تفریح کی غرض سے اور نہ ہی میں ظلم و فساد برپا کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ نیکیوں اور بھلائیوں کا حکم دوں اوربرائیوں سے روکوں اور امت کے امور کی اصلاح کروں۔)) اور حقیقت یہ ہے کہ ائمہء اطہار کے پیروکار علما اور فضلا نے ہمیشہ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کے احیاء کے لئے نہ صرف شہید اول ، دوم اور سوم قربان کئے بلکہ شھداء الفضیلہ(۱) کی ایک عظیم الشان صف تشکیل دی۔ تاریخ کے اوراق ایسے ہزاروں شہدا کے ناموں سے سجے ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ ایسے گم نام شہدا بھی ہیں ،جن کے نام کتاب علیین میں دیکھے جاسکتے ہیں اور جو ایسے ہی بیش قیمت الفاظ میں خراج عقیدت کے مستحق ہیں کہ: (( سلام ہو ان زندئہ جاوید جانباز علمائے دین پر جنہوں نے اپنا رسالہء عملیہ و علمیہ دم شہادت اپنے خون کی روشنائی سے تحریر کیا، اور وعظ ونصیحت و خطاب کے منبر پر اپنی شمع حیات سے چراغ روشن کیا۔ حوزئہ علمیہ اور صف علما کے ان شہدا پر آفرین و مرحبا جنہوں نے جنگ و جہاد کا موقع آ پڑنے پر مدرسے اور درس وبحث سے اپنارشتہ منقطع کیا اور حقیقت علم کے پیروں میں پڑی خواہشات ِدنیاوی کی زنجیروں کو کاٹ ڈالا اور سرعت سے پرواز کر کے فرشتوں کے مہمان ہوئے اور ملکویتوں کے اجتماع میں اپنی حاضری کے نغمے بکھیرے۔ درود و سلام ان شہداء پر جو تفقہ کی حقیقت پا لینے کی حد تک آگے بڑھے اور اپنی قوم و ملت کے لئے ایسے مخبر صادق بنے جن کے ہر ہر لفظ کی صداقت کی گواہی ان کے خون کے قطروں اور جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں نے دی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور تشیع کے سچے علماسے اس کے علاوہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ دعوت حق اور اپنی قوم کی خاطر جہاد کی راہ میں ۱۔ شھداء الفضیلہ کتاب ((الغدیر)) کے مصنف علامہ امینی کی ایک مشہور کتاب ہے، جس میں چوتھی صدی ہجری کے بعد کے ایسے ۱۲۰ معروف علمائے کرام کے حالات درج ہیں جنہوں نے اسلام کی راہ میں جام شہادت نوش کیا۔ سب سے پہلی قربانی وہ خود پیش کریں گے اور ان کی کتاب زندگی کااختتام شہادت پر ہو گا۔))(۱) مترجم : جیسا کہ قارئین محترم نے ملاحظہ فرمایا، اس تاریخی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے مخاطب خاص کر وہ افراد ہیں جودینی رہنماؤں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور امام علیہ السلام نے انہی افراد کو معاشرے کے انحراف اور غفلت کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر وہ بنیادی ترین فریضہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کی بقا ہے اور اگر اس پر عمل نہ ہو تو معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں ، عدل و انصاف کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور ظالم و ستمگر زمام امور اپنے ہاتھوں میں لے کر معاشرے کو تباہی اور بربادی سے دوچار کردیتے ہیں اوراسے اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے موقع پر معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے وظیفے اور فریضے کا شعور حاصل کرے اور حتیٰ المقدور اس فریضے کو انجام دے جس کا ترک کرنا ان آفات و بلیات کا باعث بنا۔ آج صدیوں کے بعد دنیا ایک بار پھر اسلام کی نشات ثانیہ کا دور دیکھ رہی ہے اور امام خمینی کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد مسلمانوں میں شعور اور بیداری کی ایک ایسی لہر اٹھی ہے جس کی قدرت نے ایران کی ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کو پاش پاش کر دیا اور اس کے سچے ماننے والوں نے نہتے ہاتھوں اور وسائل کی کمیابی کے باوجود اسرائیل جیسے غاصب اور دشمن دین مبین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ آج ہر صاحب شعور اس اعتراف پر مجبور ہے کہ آئندہ صدی اسلام کی صدی ہو گی اور دنیا کے موجودہ سیاسی اور تمدنی نظاموں کی تباہی اور ان کا کھوکھلا پن ثابت ہونا اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مایوسی نیز تبلیغی ذرائع کی فراوانی اوروسعت اور سب سے بڑھ کر