دعا عدیلہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ
خدا کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
شَھِدَ اللهُ أَنَّہُ لاَ إِلہَ إِلاَّ ھُوَ وَالْمَلائِکَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَائِماً بِالْقِسْطِ لاَإِلہَ إِلاَّ ھُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ
خدا گواہ ہے کہ سوائے اسکے کوئی معبود نہیں نیز ملائکہ اور با انصاف صاحبان علم بھی اس پر گواہی دے رہے ہیں کہ سوائے اسکے کوئی معبود نہیں
إِنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلامُ، وَأَ نَا الْعَبْدُ الضَّعِیفُ الْمُذْنِبُ الْعاصِی الْمُحْتاجُ الْحَقِیرُ، أَشْھَدُ
جو صاحب عزت حکمت والا ہے یقینا خدا کاپسندیدہ دین اسلام ہی ہے اور میں جو ایک ناتواں گنہگار خطاکار
لِمُنْعِمِی وَخالِقِی وَرازِقِی وَمُکْرِمِی کَما شَھِدَ لِذاتِہِ، وَشَھِدَتْ لَہُ الْمَلائِکَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ مِنْ
حاجت مند اور بے مایہ بندہ ہوں میں اپنے منعم ، خالق ، رازق اور اپنے کرم فرما خدا کی گواہی دیتا ہوں، جیسے اس نے اپنی ذات کی گواہی دی ہے
عِبادِھِ، بِأَنَّہُ لاَ إِلہَ إِلاَّ ھُوَ ذُو النِّعَمِ وَالْاِحْسانِ،وَالْکَرَمِ وَالْاِمْتِنانِ، قادِرٌ أَزَلِیٌّ، عالِمٌ أَبَدِیٌّ، حَیٌّ
نیز ملائکہ اور صاحب علم بندوں نے بھی اسکی گواہی دی ہے کہ سوائے اسکے کوئی معبود نہیں جو نعمت، احسان و کرم اور
أَحَدِیٌّ، مَوْجُودٌ سَرْمَدِیٌّ، سَمِیعٌ بَصِیرٌ مُرِیدٌ کارِہٌ، مُدْرِکٌ صَمَدِیٌّ، یَسْتَحِقُّ ھَذِھِ الصِّفاتِ
عطا کا مالک ہے اور وہ ہمیشہ سے صاحب قدرت اور دائمی صاحب علم ،زندہ ،یکتا اور ہمیشگی والاموجود ہے سننے والا دیکھنے والا ارادے والا ناپسند کرنے
وَھُوَ عَلَی ما ھُوَ عَلَیْہِ فِی عِزِّ صِفاتِہِ،کَانَ قَوِیّاً قَبْلَ وُجُودِ الْقُدْرَةِ وَالْقُوَّةِ، وَکانَ عَلِیماً قَبْلَ
والا پا لینے والا بے نیاز ہے وہ ان صفات کا صحیح حقدار ہے اور وہ دیگر صفات کا بھی مالک ہے جو بہت بڑی صفات ہیں کہ قدرت اور قوت کے وجود میں
إِیجادِ الْعِلْمِ وَالْعِلَّةِ، لَمْ یَزَلْ سُلْطاناً إِذْ لاَ مَمْلَکَةَ وَلاَ مالَ،وَلَمْ یَزَلْ سُبْحَاناً عَلی جَمِیعِ الْاَحْوالِ،
آنے سے قبل وہ صاحب قوت تھا اور وہ صاحب علم تھا علم اور دلیل کی ایجاد سے پہلے وہ مستقل سلطان تھا جب نہ کوئی ملک تھا اور نہ مال ، وہ لا زوال پاکیزہ
وُجُودُھُ قَبْلَ الْقَبْلِ فِی أَزَلِ الْاَزالِ،وَبَقاؤُھُ بَعْدَ الْبَعْدِ مِنْ غَیْرِ انْتِقالٍ وَلاَ زَوالٍ،غَنِیٌّ فِی الْاَوَّلِ
تھا ہر ہر حال میں کہ اس کا وجود قبل سے قبل اور ازلوں کے ازل سے ہے اور اس کی بقا بعد سے بعد ہے کہ جسمیں نہ تبدیلی ہے نہ زوال وہ اول و آخر سے
وَالْاَخِرِ، مُسْتَغْنٍ فِی الْباطِنِ وَالظَّاھِرِ، لاَ جَوْرَ فِی قَضِیَّتِہِ، ولاَ مَیْلَ فِی مَشِیئَتِہِ، وَلاَ ظُلْمَ
بے نیاز اور ظاہر و باطن میں بے پرواہ ہے اسکے فیصلے میں ظلم نہیں اور اسکی مرضی میں طرفداری نہیں ہے اسکی تقدیر میں
فِی تَقْدِیرِھِ وَلاَ مَھْرَبَ مِنْ حُکُومَتِہِ وَلاَ مَلْجَأَ مِنْ سَطَواتِہِ وَلاَ مَنْجیً مِنْ نَقِماتِہِ، سَبَقَتْ
ستم نہیں اور اسکی حکومت سے فرار ممکن نہیں اسکا قہر آئے تو کوئی پناہ نہیں اور وہ عذاب کرے تو نجات نہیں اسکی
رَحْمَتُہُ غَضَبَہُ وَلاَ یَفُوتُہُ أَحَدٌ إِذا طَلَبَہُ، أَزاحَ الْعِلَلَ فِی التَّکْلِیفِ، وَسَوَّی التَّوْفِیقَ بَیْنَ الضَّعِیفِ
رحمت ،غضب سے پہلے ہے جسے وہ طلب کرے وہ فرار نہیں کرسکتا اس نے فریضوں میں اضداد دور کر دیں اور توفیق دینے میں
وَالشَّرِیفِ، مَکَّنَ أَداءَ الْمَأْمُورِ، وَسَہَّلَ سَبِیلَ اجْتِنابِ الْمَحْظُورِ، لَمْ یُکَلِّفِ الطَّاعَةَ إِلاَّ دُونَ
ادنیٰ و اعلیٰ میں برابری رکھی ہے حکم کردہ باتوں پر عمل کو ممکن اور گناہ سے بچنے کا راستہ آسان کردیا ہے اس نے وسعت
الْوُسْعِ وَالطَّاقَةِ سُبْحانَہُ مَا أَبْیَنَ کَرَمَہُ وَأَعْلَی شَأْنَہُ سُبْحانَہُ مَا أَجَلَّ نَیْلَہُ وَأَعْظَمَ إِحْسانَہُ بَعَثَ
و طاقت سے کمتر فریضے عائد کیئے ہیں پاک ہے وہ جسکا کرم کتنا واضح اور شان کتنی بلند ہے پاک ہے وہ کہ جسکا نام کتنا عمدہ
الْاَنْبِیاءَ لِیُبَیِّنَ عَدْلَہُ، وَنَصَبَ الْاَوْصِیاءَ لِیُظْھِرَ طَوْلَہُ وَفَضْلَہُ، وَجَعَلَنا مِنْ أُمَّةِ سَیِّدِ الْاَنْبِیاءِ وَخَیْرِ
اور احسان کتنا بڑا ہے اس نے اپنے عدل کی تشریح کیلئے انبیاء(ع) بھیجے اور اپنے فضل و کرم کے اظہار کی خاطر اوصیاء کو مامور فرمایا
الْاَوْ لِیاءِ وَأَفْضَلِ الْاَصْفِیاءِ وَأَعْلَی الْاَزْکِیاءِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ وَسَلَّمَ، آمَنَّا بِہِ وَبِما
اور ہمیں نبیوں کے سردار ولیوں میں بہتر برگزیدوں میں سب سے افضل اور پاکبازوں میں سب سے بلند حضرت محمد کی امت میں قرار
دَعانا إِلَیْہِ، وَبِالْقُرْآنِ الَّذِی أَنْزَلَہُ عَلَیْہِ وَبِوَصِیِّہِ الَّذِی نَصَبَہُ یَوْمَ الْغَدِیرِ وَأَشارَ بِقَوْلِہِ ہذا عَلِیٌّ إِلَیْہِ،
دیا ہم ان پر ایمان لائے اور انکے پیغام پر اور قرآن پر جو ان پر نازل ہوا اور انکے جانشین پر جسے انہوں نے یوم غدیر مقرر کیا اور اپنی زبان سے فرمایا کہ یہ
وَأَشْھَدُ أَنَّ الْاَئِمَّةَ الْاَ بْرارَ وَالْخُلَفاءَ الْاَخْیارَ بَعْدَ الرَّسُولِ الْمُخْتارِ عَلِیٌّ قامِعُ الْکُفّارِ وَمِنْ بَعْدِھِ
ہے علی(ع) جو میرا وصی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت رسول کے بعد نیکوکار امام(ع) اور بہترین جانشین ہیں جن میں علی(ع) ہی کافروں کو ختم کرنے والے ہیں
سَیِّدُ أَوْلادِھِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ ثُمَّ أَخُوھُ السِّبْطُ التَّابِعُ لِمَرْضاةِ اللهِ الْحُسَیْنُ ثُمَّ الْعابِدُ عَلِیٌّ ثُمَّ
اور انکے بعد انکی اولاد کے سردار حسن(ع) بن علی(ع) پھر انکے بھائی نواسہ رسول، اللہ کی رضاؤں کے طلبگار حسین(ع) ہیں پھر علی(ع) بن الحسین(ع)
الْباقِرُ مُحَمَّدٌ ثُمَّ الصّادِقُ جَعْفَرٌ، ثُمَّ الْکَاظِمُ مُوسی، ثُمَّ الرِّضا عَلِیٌّ، ثُمَّ التَّقِیُّ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ النَّقِیُّ
پھر محمد باقر(ع)پھر جعفر صادق(ع) پھر موسیٰ کاظم(ع) پھر علی رضا(ع) پھر محمد تقی(ع) ہیں انکے بعد علی نقی(ع) ہیں
عَلِیٌّ، ثُمَّ الزَّکِیُّ الْعَسْکَرِیُّ الْحَسَنُ، ثُمَّ الْحُجَّةُ الْخَلَفُ الْقائِمُ الْمُنْتَظَرُ الْمَھْدِیُّ الْمُرْجَی الَّذِی
پھر حسن عسکری زکی(ع) ہیں پھر حضرت حجت خلف قائم المنتظر مہدی(ع) امیدگاہ خلق ہیں
بِبَقائِہِ بَقِیَتِ الدُّنْیا، وَبِیُمْنِہِ رُزِقَ الْوَری، وَبِوُجُودِھِ ثَبَتَتِ الْاَرْضُ وَالسَّماءُ، وَبِہِ یَمْلاُء اللهُ
جنکی بقاء سے دنیا قائم ہے اور انکی برکت سے مخلوق کو روزی ملتی ہے اور انکے وجود سے زمین و آسمان کھڑے ہیں اور انکے ذریعے الله تعالیٰ
الْاَرْضَ قِسْطاً وَعَدْلاً بَعْدَما مُلِئَتْ ظُلْماً وَجَوْراً وَأَشْھَدُ أَنَّ أَقْوالَھُمْ حُجَّةٌ وَامْتِثالَھُمْ فَرِیضَةٌ
زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیگا جب کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی میں گواہی دیتا ہوں کہ ان آئمہ کے اقوال حجت، ان پر عمل کرنا
وَطاعَتَھُمْ مَفْرُوضَةٌ وَمَوَدَّتَھُمْ لازِمَةٌ مَقْضِیَّةٌ وَالْاِقْتِداءَ بِھِمْ مُنْجِیَةٌ وَمُخالَفَتَھُمْ مُرْدِیَةٌ، وَھُمْ
واجب اور انکی پیروی فرض ہے اور ان سے محبت رکھنا ضروری و لازم ہے انکی اطاعت باعث نجات اور ان سے مخالفت
سَاداتُ أَھْلِ الْجَنَّةِ أَجْمَعِینَ، وَشُفَعاءُ یَوْمِ الدِّینِ، وَأَئِمَّةُ أَھْلِ الْاَرْضِ عَلَی الْیَقِینِ وَأَ فْضَلُ
وجہ تباہی ہے اور وہ سب کے سب اہل جنت کے سردار ہیں قیامت میں شفاعت کرنے والے اور یقینی طور پر اہل زمین کے امام(ع)
الْاَوْصِیاءِ الْمَرْضِیِّینَ وَأَشْھَدُ أَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَمُسائَلَةَ الْقَبْرِ حَقٌّ وَالْبَعْثَ حَقٌّ، وَالنُّشُورَ حَقٌّ،
ہیں وہ پسندیدہ اوصیاء میں سے افضل ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ موت حق ہے قبر میں سوال و جواب حق ہیں دوبارہ اٹھنا
وَالصِّراطَ حَقٌّ،وَالْمِیزانَ حَقٌّ،وَالْحِسابَ حَقٌّ، وَالْکِتابَ حَقٌّ،وَالْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ،وَأَنَّ
حق ہے قیامت میں حاضری حق ہے صراط سے گزرنا حق ہے میزان عمل حق ہے حساب حق ہے اور کتاب حق ہے
السَّاعَةَ آتِیَةٌ لاَ رَیْبَ فِیہا، وَأَنَّ اللهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ اَللّٰھُمَّ فَضْلُکَ رَجَائِی، وَکَرَمُکَ
اسی طرح جنت حق ہے اور جہنم حق ہے نیز قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اللہ انہیں ضرور اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں اے معبود!
وَرَحْمَتُکَ أَمَلِی، لاَ عَمَلَ لِی أَسْتَحِقُّ بِہِ الْجَنَّةَ، وَلاَ طاعَةَ لِی أَسْتَوْجِبُ بِھَا الرِّضْوانَ إِلاَّ أَنِّی
تیرا فضل میرا سہارا اور تیری رحمت و بخشش میری امید ہے میرا کوئی ایسا عمل نہیں جس سے میں جنت کا حقدا ر بنوں اور نہ عبادت ہے کہ جو تیری خوشنودی
اعْتَقَدْتُ تَوْحِیدَکَ وَعَدْلَکَ، وَارْتَجَیْتُ إِحْسانَکَ وَفَضْلَکَ وَتَشَفَّعْتُ إِلَیْکَ بِالنَّبِیِّ
کا باعث ہو سوائے اسکے کہ میں تیری توحید و عدل پر اعتقاد رکھتا ہوں اور تیرے فضل و احسان کی امید رکھتا ہوں اور تیرے حضور تیرے نبی اور انکی
وَآلِہِ مِنْ أَحِبَّتِکَ وَأَنْتَ أَکْرَمُ الاَْکْرَمِینَ وَأَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ، وَصَلَّی اللهُ عَلی نَبِیِّنا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ
آل(ع) کی شفاعت لایا ہوں جو تیرے محبوب ہیں اور تو سب سے زیادہ کرم کرنے والااور سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اور ہمارے نبی محمد پر اور انکی ساری
أَجْمَعِینَ الطَّیِّبِینَ الطَّاھِرِینَ وَسَلَّمَ تَسْلِیماً کَثِیراً کَثِیراً، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ
آل(ع) پر خدا کی رحمت ہو جو پاک و پاکیزہ ہیں اور ان پر سلام ہو سلام ِخاص زیادہ بہت زیادہ اور نہیں کوئی طاقت و قوت مگر وہ جو بلند وبرتر خدا سے ملتی ہے اے
اَللّٰھُمَّ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ إِنِّی أَوْدَعْتُکَ یَقِینِی ہذَا وَثَباتَ دِینِی وَأَ نْتَ خَیْرُ مُسْتَوْدَعٍ،وَقَدْ
معبود اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے بے شک میں اپنا یہ عقیدہ اوردین میں ثابت قدمی تیرے سپرد کرتا ہوں اور تو بہترین امانتدار ہے اور تو نے ہمیں
أَمَرْتَنا بِحِفْظِ الْوَدائِعِ فَرُدَّھُ عَلَیَّ وَقْتَ حُضُورِ مَوْتِی بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
امانتوں کی حفاظت کا حکم دیا ہیپس اپنی رحمت سے میرا یہ عقیدہ بوقت مرگ مجھے یاد دلادینا واسطہ تجھے تیری رحمت کا اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے
موٴلف کہتے ہیں
اسکے ساتھ معصومین(ع)سے یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
اَلَّھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَدِیْلَةِ عِنْدَ الْمَوْتِ
اے معبود وقت مرگ اس عقیدے سے پلٹنے سے، میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں
عدیلہ موت سے مراد موت کے وقت حق سے باطل کیطرف پھر جانا ہے، یعنی جان کنی کے وقت شیطان شک میں ڈال کر گمراہ کردیتا ہے اور یوں انسان ایمان چھوڑ بیٹھتا ہے یہی وجہ ہے کہ دعاوٴں میں ایسی صورت حال سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ فخر المحققین نے فرمایا ہے کہ جوموت کے وقت اس خطرے سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اسے ایمان اور اصول دین کی دلیلیں ذہن نشین کیے رکھنا چاہئیں اور پھر انکو بطور امانت خدا کی بارگاہ میں پیش کردینا چاہیئے تاکہ موت کی گھڑی میں یہ امانت اسے واپس مل جائے۔ اسکا طریقہ یہ ہے کہ عقائد حقّہ کو دہرانے کے بعد کہیں:
اَللّٰھُمَّ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ، إِنِّی قَدْ أَوْدَعْتُکَ یَقِینِی ہذَا وَثَباتَ دِینِی وَأَ نْتَ خَیْرُ مُسْتَوْدَعٍ،
اے معبوداے سب سے زیادہ رحم کرنے والے بے شک میں اپنا یہ عقیدہ اور دین میں اپنی ثابت قدمی تیرے سپرد کرتا ہوں اور تو بہترین امانتدار ہے
وَقَدْ أَمَرْتَنا بِحِفْظِ الْوَدائِعِ، فَرُدَّھُ عَلَیَّ وَقْتَ حُضُورِ مَوْتِی ۔
اور تو نے ہمیں امانتوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے پس اپنی رحمت سے میرا یہ عقیدہ وقت مرگ مجھے یاد دلادینا۔
پس ان بزرگوار کے فرمان کے مطابق اس دعا عدیلہ کا پڑھنا اور اسکے مطالب کو وقتِ مرگ دل میں رکھنا، حق سے پھرجانے کے خطرے کو روکنا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ آیا یہ دعا منقول ہے یا خود علمائے کرام نے اسے مرتب کیا ہے؟ اس بارے میں عرض ہے کہ علم حدیث کے ماہر اور اخبار ائمہ(ع)کے جمع کرنے والے اجل عالم، محدث ناقد و بابصیرت اور ہمارے استاد محدث اعظم الحاج مولانا میرزا حسین نوری (ہ خدا انکے مرقد کو روشن کرے۔) کا فرمان ہے کہ معروف دعاء عدیلہ بعض علماء کی وضع کردہ ہے، یہ کسی امام (ع) سے نقل نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ حدیث کی کتابوں میں پائی جائی ہے۔ لیکن واضح رہے کہ شیخ طوسی(علیہ الرحمہ) نے محمد بن سلیمان دیلمی سے روایت کی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع)کی خدمت میں عرض کیا کہ بعض شیعہ بھائیوں کا کہنا ہے کہ ایمان کی دو قسمیں ہیں، یعنی ایک محکم و ثابت اور دوسرا عارضی و امانتی جو زائل ہوسکتا ہے۔ پس آپ مجھے کوئی ایسی دعا تعلیم فرمائیں کہ جسکے پڑھنے سے میرا ایمان قائم و ثابت رہے اور زائل نہ ہونے پائے۔ اس پر آپ (ع)نے فرمایا کہ ہر واجب نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرو۔
رَضِیتُ بِاللهِ رَبّاً وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ نَبِیّاً وَبِالْاِسْلامِ دِیناً، وَبِالْقُرْآنِ کِتاباً
میں راضی ہوں اس پر کہ الله میرا رب اور حضرت محمد میرے نبی ہیں اسلام میرادین ہے قرآن میری کتاب ہے
وَبِالْکَعْبَةِ قِبْلَةً وَبِعَلِیٍّ وَ لِیّاً وَ إِماماً وَبِالْحَسَنِ والحسین و علی ابن الحسین و محمد بن ِ
کعبہ میرا قبلہ ہے اور اضی ہوں اس پر کہ علی (ع) میرے مولا اور امام ہیں نیز حسن (ع) و حسین (ع)، علی (ع) ابن حسین (ع) ، محمد(ع) ابن
علی و جعفر ابن محمد وَمُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ وَعَلِیِّ بْنِ مُوسی وَمُحَمَّدبْنِ عَلِیٍّ وَعلی بن
علی (ع)، جعفر (ع) ابن محمد(ع) ، موسیٰ (ع) ابن جعفر(ع) ، علی (ع) ابن موسیٰ (ع)، محمد (ع) ابن علی(ع) ، علی (ع) ابن محمد(ع) ، حسن (ع) ابن علی (ع)،
مُحَمَّدِ وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَالْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُ اللهِ عَلَیْھِمْ أَئِمَّةً اَللّٰھُمَّ إِنِّی
اور حجت(ع) بن حسن(ع) کہ ان پر اللہ کی رحمتیں ہوں میرے امام ہیں اے معبود میں راضی ہوں
رَضِیتُ بِھِمْ أَئِمَّةً فَارْضَنِی لَھُمْ إِنَّکَ عَلی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ۔
کہ وہ میرے امام (ع) ہیں پس انہیں مجھ سے راضی فرمادے بے شک توہر چیز پرقادر ہے
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ
خدا کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
شَھِدَ اللهُ أَنَّہُ لاَ إِلہَ إِلاَّ ھُوَ وَالْمَلائِکَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَائِماً بِالْقِسْطِ لاَإِلہَ إِلاَّ ھُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ
خدا گواہ ہے کہ سوائے اسکے کوئی معبود نہیں نیز ملائکہ اور با انصاف صاحبان علم بھی اس پر گواہی دے رہے ہیں کہ سوائے اسکے کوئی معبود نہیں
إِنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلامُ، وَأَ نَا الْعَبْدُ الضَّعِیفُ الْمُذْنِبُ الْعاصِی الْمُحْتاجُ الْحَقِیرُ، أَشْھَدُ
جو صاحب عزت حکمت والا ہے یقینا خدا کاپسندیدہ دین اسلام ہی ہے اور میں جو ایک ناتواں گنہگار خطاکار
لِمُنْعِمِی وَخالِقِی وَرازِقِی وَمُکْرِمِی کَما شَھِدَ لِذاتِہِ، وَشَھِدَتْ لَہُ الْمَلائِکَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ مِنْ
حاجت مند اور بے مایہ بندہ ہوں میں اپنے منعم ، خالق ، رازق اور اپنے کرم فرما خدا کی گواہی دیتا ہوں، جیسے اس نے اپنی ذات کی گواہی دی ہے
عِبادِھِ، بِأَنَّہُ لاَ إِلہَ إِلاَّ ھُوَ ذُو النِّعَمِ وَالْاِحْسانِ،وَالْکَرَمِ وَالْاِمْتِنانِ، قادِرٌ أَزَلِیٌّ، عالِمٌ أَبَدِیٌّ، حَیٌّ
نیز ملائکہ اور صاحب علم بندوں نے بھی اسکی گواہی دی ہے کہ سوائے اسکے کوئی معبود نہیں جو نعمت، احسان و کرم اور
أَحَدِیٌّ، مَوْجُودٌ سَرْمَدِیٌّ، سَمِیعٌ بَصِیرٌ مُرِیدٌ کارِہٌ، مُدْرِکٌ صَمَدِیٌّ، یَسْتَحِقُّ ھَذِھِ الصِّفاتِ
عطا کا مالک ہے اور وہ ہمیشہ سے صاحب قدرت اور دائمی صاحب علم ،زندہ ،یکتا اور ہمیشگی والاموجود ہے سننے والا دیکھنے والا ارادے والا ناپسند کرنے
وَھُوَ عَلَی ما ھُوَ عَلَیْہِ فِی عِزِّ صِفاتِہِ،کَانَ قَوِیّاً قَبْلَ وُجُودِ الْقُدْرَةِ وَالْقُوَّةِ، وَکانَ عَلِیماً قَبْلَ
والا پا لینے والا بے نیاز ہے وہ ان صفات کا صحیح حقدار ہے اور وہ دیگر صفات کا بھی مالک ہے جو بہت بڑی صفات ہیں کہ قدرت اور قوت کے وجود میں
إِیجادِ الْعِلْمِ وَالْعِلَّةِ، لَمْ یَزَلْ سُلْطاناً إِذْ لاَ مَمْلَکَةَ وَلاَ مالَ،وَلَمْ یَزَلْ سُبْحَاناً عَلی جَمِیعِ الْاَحْوالِ،
آنے سے قبل وہ صاحب قوت تھا اور وہ صاحب علم تھا علم اور دلیل کی ایجاد سے پہلے وہ مستقل سلطان تھا جب نہ کوئی ملک تھا اور نہ مال ، وہ لا زوال پاکیزہ
وُجُودُھُ قَبْلَ الْقَبْلِ فِی أَزَلِ الْاَزالِ،وَبَقاؤُھُ بَعْدَ الْبَعْدِ مِنْ غَیْرِ انْتِقالٍ وَلاَ زَوالٍ،غَنِیٌّ فِی الْاَوَّلِ
تھا ہر ہر حال میں کہ اس کا وجود قبل سے قبل اور ازلوں کے ازل سے ہے اور اس کی بقا بعد سے بعد ہے کہ جسمیں نہ تبدیلی ہے نہ زوال وہ اول و آخر سے
وَالْاَخِرِ، مُسْتَغْنٍ فِی الْباطِنِ وَالظَّاھِرِ، لاَ جَوْرَ فِی قَضِیَّتِہِ، ولاَ مَیْلَ فِی مَشِیئَتِہِ، وَلاَ ظُلْمَ
بے نیاز اور ظاہر و باطن میں بے پرواہ ہے اسکے فیصلے میں ظلم نہیں اور اسکی مرضی میں طرفداری نہیں ہے اسکی تقدیر میں
فِی تَقْدِیرِھِ وَلاَ مَھْرَبَ مِنْ حُکُومَتِہِ وَلاَ مَلْجَأَ مِنْ سَطَواتِہِ وَلاَ مَنْجیً مِنْ نَقِماتِہِ، سَبَقَتْ
ستم نہیں اور اسکی حکومت سے فرار ممکن نہیں اسکا قہر آئے تو کوئی پناہ نہیں اور وہ عذاب کرے تو نجات نہیں اسکی
رَحْمَتُہُ غَضَبَہُ وَلاَ یَفُوتُہُ أَحَدٌ إِذا طَلَبَہُ، أَزاحَ الْعِلَلَ فِی التَّکْلِیفِ، وَسَوَّی التَّوْفِیقَ بَیْنَ الضَّعِیفِ
رحمت ،غضب سے پہلے ہے جسے وہ طلب کرے وہ فرار نہیں کرسکتا اس نے فریضوں میں اضداد دور کر دیں اور توفیق دینے میں
وَالشَّرِیفِ، مَکَّنَ أَداءَ الْمَأْمُورِ، وَسَہَّلَ سَبِیلَ اجْتِنابِ الْمَحْظُورِ، لَمْ یُکَلِّفِ الطَّاعَةَ إِلاَّ دُونَ
ادنیٰ و اعلیٰ میں برابری رکھی ہے حکم کردہ باتوں پر عمل کو ممکن اور گناہ سے بچنے کا راستہ آسان کردیا ہے اس نے وسعت
الْوُسْعِ وَالطَّاقَةِ سُبْحانَہُ مَا أَبْیَنَ کَرَمَہُ وَأَعْلَی شَأْنَہُ سُبْحانَہُ مَا أَجَلَّ نَیْلَہُ وَأَعْظَمَ إِحْسانَہُ بَعَثَ
و طاقت سے کمتر فریضے عائد کیئے ہیں پاک ہے وہ جسکا کرم کتنا واضح اور شان کتنی بلند ہے پاک ہے وہ کہ جسکا نام کتنا عمدہ
الْاَنْبِیاءَ لِیُبَیِّنَ عَدْلَہُ، وَنَصَبَ الْاَوْصِیاءَ لِیُظْھِرَ طَوْلَہُ وَفَضْلَہُ، وَجَعَلَنا مِنْ أُمَّةِ سَیِّدِ الْاَنْبِیاءِ وَخَیْرِ
اور احسان کتنا بڑا ہے اس نے اپنے عدل کی تشریح کیلئے انبیاء(ع) بھیجے اور اپنے فضل و کرم کے اظہار کی خاطر اوصیاء کو مامور فرمایا
الْاَوْ لِیاءِ وَأَفْضَلِ الْاَصْفِیاءِ وَأَعْلَی الْاَزْکِیاءِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ وَسَلَّمَ، آمَنَّا بِہِ وَبِما
اور ہمیں نبیوں کے سردار ولیوں میں بہتر برگزیدوں میں سب سے افضل اور پاکبازوں میں سب سے بلند حضرت محمد کی امت میں قرار
دَعانا إِلَیْہِ، وَبِالْقُرْآنِ الَّذِی أَنْزَلَہُ عَلَیْہِ وَبِوَصِیِّہِ الَّذِی نَصَبَہُ یَوْمَ الْغَدِیرِ وَأَشارَ بِقَوْلِہِ ہذا عَلِیٌّ إِلَیْہِ،
دیا ہم ان پر ایمان لائے اور انکے پیغام پر اور قرآن پر جو ان پر نازل ہوا اور انکے جانشین پر جسے انہوں نے یوم غدیر مقرر کیا اور اپنی زبان سے فرمایا کہ یہ
وَأَشْھَدُ أَنَّ الْاَئِمَّةَ الْاَ بْرارَ وَالْخُلَفاءَ الْاَخْیارَ بَعْدَ الرَّسُولِ الْمُخْتارِ عَلِیٌّ قامِعُ الْکُفّارِ وَمِنْ بَعْدِھِ
ہے علی(ع) جو میرا وصی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت رسول کے بعد نیکوکار امام(ع) اور بہترین جانشین ہیں جن میں علی(ع) ہی کافروں کو ختم کرنے والے ہیں
سَیِّدُ أَوْلادِھِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ ثُمَّ أَخُوھُ السِّبْطُ التَّابِعُ لِمَرْضاةِ اللهِ الْحُسَیْنُ ثُمَّ الْعابِدُ عَلِیٌّ ثُمَّ
اور انکے بعد انکی اولاد کے سردار حسن(ع) بن علی(ع) پھر انکے بھائی نواسہ رسول، اللہ کی رضاؤں کے طلبگار حسین(ع) ہیں پھر علی(ع) بن الحسین(ع)
الْباقِرُ مُحَمَّدٌ ثُمَّ الصّادِقُ جَعْفَرٌ، ثُمَّ الْکَاظِمُ مُوسی، ثُمَّ الرِّضا عَلِیٌّ، ثُمَّ التَّقِیُّ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ النَّقِیُّ
پھر محمد باقر(ع)پھر جعفر صادق(ع) پھر موسیٰ کاظم(ع) پھر علی رضا(ع) پھر محمد تقی(ع) ہیں انکے بعد علی نقی(ع) ہیں
عَلِیٌّ، ثُمَّ الزَّکِیُّ الْعَسْکَرِیُّ الْحَسَنُ، ثُمَّ الْحُجَّةُ الْخَلَفُ الْقائِمُ الْمُنْتَظَرُ الْمَھْدِیُّ الْمُرْجَی الَّذِی
پھر حسن عسکری زکی(ع) ہیں پھر حضرت حجت خلف قائم المنتظر مہدی(ع) امیدگاہ خلق ہیں
بِبَقائِہِ بَقِیَتِ الدُّنْیا، وَبِیُمْنِہِ رُزِقَ الْوَری، وَبِوُجُودِھِ ثَبَتَتِ الْاَرْضُ وَالسَّماءُ، وَبِہِ یَمْلاُء اللهُ
جنکی بقاء سے دنیا قائم ہے اور انکی برکت سے مخلوق کو روزی ملتی ہے اور انکے وجود سے زمین و آسمان کھڑے ہیں اور انکے ذریعے الله تعالیٰ
الْاَرْضَ قِسْطاً وَعَدْلاً بَعْدَما مُلِئَتْ ظُلْماً وَجَوْراً وَأَشْھَدُ أَنَّ أَقْوالَھُمْ حُجَّةٌ وَامْتِثالَھُمْ فَرِیضَةٌ
زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیگا جب کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی میں گواہی دیتا ہوں کہ ان آئمہ کے اقوال حجت، ان پر عمل کرنا
وَطاعَتَھُمْ مَفْرُوضَةٌ وَمَوَدَّتَھُمْ لازِمَةٌ مَقْضِیَّةٌ وَالْاِقْتِداءَ بِھِمْ مُنْجِیَةٌ وَمُخالَفَتَھُمْ مُرْدِیَةٌ، وَھُمْ
واجب اور انکی پیروی فرض ہے اور ان سے محبت رکھنا ضروری و لازم ہے انکی اطاعت باعث نجات اور ان سے مخالفت
سَاداتُ أَھْلِ الْجَنَّةِ أَجْمَعِینَ، وَشُفَعاءُ یَوْمِ الدِّینِ، وَأَئِمَّةُ أَھْلِ الْاَرْضِ عَلَی الْیَقِینِ وَأَ فْضَلُ
وجہ تباہی ہے اور وہ سب کے سب اہل جنت کے سردار ہیں قیامت میں شفاعت کرنے والے اور یقینی طور پر اہل زمین کے امام(ع)
الْاَوْصِیاءِ الْمَرْضِیِّینَ وَأَشْھَدُ أَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَمُسائَلَةَ الْقَبْرِ حَقٌّ وَالْبَعْثَ حَقٌّ، وَالنُّشُورَ حَقٌّ،
ہیں وہ پسندیدہ اوصیاء میں سے افضل ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ موت حق ہے قبر میں سوال و جواب حق ہیں دوبارہ اٹھنا
وَالصِّراطَ حَقٌّ،وَالْمِیزانَ حَقٌّ،وَالْحِسابَ حَقٌّ، وَالْکِتابَ حَقٌّ،وَالْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ،وَأَنَّ
حق ہے قیامت میں حاضری حق ہے صراط سے گزرنا حق ہے میزان عمل حق ہے حساب حق ہے اور کتاب حق ہے
السَّاعَةَ آتِیَةٌ لاَ رَیْبَ فِیہا، وَأَنَّ اللهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ اَللّٰھُمَّ فَضْلُکَ رَجَائِی، وَکَرَمُکَ
اسی طرح جنت حق ہے اور جہنم حق ہے نیز قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اللہ انہیں ضرور اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں اے معبود!
وَرَحْمَتُکَ أَمَلِی، لاَ عَمَلَ لِی أَسْتَحِقُّ بِہِ الْجَنَّةَ، وَلاَ طاعَةَ لِی أَسْتَوْجِبُ بِھَا الرِّضْوانَ إِلاَّ أَنِّی
تیرا فضل میرا سہارا اور تیری رحمت و بخشش میری امید ہے میرا کوئی ایسا عمل نہیں جس سے میں جنت کا حقدا ر بنوں اور نہ عبادت ہے کہ جو تیری خوشنودی
اعْتَقَدْتُ تَوْحِیدَکَ وَعَدْلَکَ، وَارْتَجَیْتُ إِحْسانَکَ وَفَضْلَکَ وَتَشَفَّعْتُ إِلَیْکَ بِالنَّبِیِّ
کا باعث ہو سوائے اسکے کہ میں تیری توحید و عدل پر اعتقاد رکھتا ہوں اور تیرے فضل و احسان کی امید رکھتا ہوں اور تیرے حضور تیرے نبی اور انکی
وَآلِہِ مِنْ أَحِبَّتِکَ وَأَنْتَ أَکْرَمُ الاَْکْرَمِینَ وَأَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ، وَصَلَّی اللهُ عَلی نَبِیِّنا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ
آل(ع) کی شفاعت لایا ہوں جو تیرے محبوب ہیں اور تو سب سے زیادہ کرم کرنے والااور سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اور ہمارے نبی محمد پر اور انکی ساری
أَجْمَعِینَ الطَّیِّبِینَ الطَّاھِرِینَ وَسَلَّمَ تَسْلِیماً کَثِیراً کَثِیراً، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ
آل(ع) پر خدا کی رحمت ہو جو پاک و پاکیزہ ہیں اور ان پر سلام ہو سلام ِخاص زیادہ بہت زیادہ اور نہیں کوئی طاقت و قوت مگر وہ جو بلند وبرتر خدا سے ملتی ہے اے
اَللّٰھُمَّ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ إِنِّی أَوْدَعْتُکَ یَقِینِی ہذَا وَثَباتَ دِینِی وَأَ نْتَ خَیْرُ مُسْتَوْدَعٍ،وَقَدْ
معبود اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے بے شک میں اپنا یہ عقیدہ اوردین میں ثابت قدمی تیرے سپرد کرتا ہوں اور تو بہترین امانتدار ہے اور تو نے ہمیں
أَمَرْتَنا بِحِفْظِ الْوَدائِعِ فَرُدَّھُ عَلَیَّ وَقْتَ حُضُورِ مَوْتِی بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
امانتوں کی حفاظت کا حکم دیا ہیپس اپنی رحمت سے میرا یہ عقیدہ بوقت مرگ مجھے یاد دلادینا واسطہ تجھے تیری رحمت کا اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے
موٴلف کہتے ہیں
اسکے ساتھ معصومین(ع)سے یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
اَلَّھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَدِیْلَةِ عِنْدَ الْمَوْتِ
اے معبود وقت مرگ اس عقیدے سے پلٹنے سے، میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں
عدیلہ موت سے مراد موت کے وقت حق سے باطل کیطرف پھر جانا ہے، یعنی جان کنی کے وقت شیطان شک میں ڈال کر گمراہ کردیتا ہے اور یوں انسان ایمان چھوڑ بیٹھتا ہے یہی وجہ ہے کہ دعاوٴں میں ایسی صورت حال سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ فخر المحققین نے فرمایا ہے کہ جوموت کے وقت اس خطرے سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اسے ایمان اور اصول دین کی دلیلیں ذہن نشین کیے رکھنا چاہئیں اور پھر انکو بطور امانت خدا کی بارگاہ میں پیش کردینا چاہیئے تاکہ موت کی گھڑی میں یہ امانت اسے واپس مل جائے۔ اسکا طریقہ یہ ہے کہ عقائد حقّہ کو دہرانے کے بعد کہیں:
اَللّٰھُمَّ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ، إِنِّی قَدْ أَوْدَعْتُکَ یَقِینِی ہذَا وَثَباتَ دِینِی وَأَ نْتَ خَیْرُ مُسْتَوْدَعٍ،
اے معبوداے سب سے زیادہ رحم کرنے والے بے شک میں اپنا یہ عقیدہ اور دین میں اپنی ثابت قدمی تیرے سپرد کرتا ہوں اور تو بہترین امانتدار ہے
وَقَدْ أَمَرْتَنا بِحِفْظِ الْوَدائِعِ، فَرُدَّھُ عَلَیَّ وَقْتَ حُضُورِ مَوْتِی ۔
اور تو نے ہمیں امانتوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے پس اپنی رحمت سے میرا یہ عقیدہ وقت مرگ مجھے یاد دلادینا۔
پس ان بزرگوار کے فرمان کے مطابق اس دعا عدیلہ کا پڑھنا اور اسکے مطالب کو وقتِ مرگ دل میں رکھنا، حق سے پھرجانے کے خطرے کو روکنا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ آیا یہ دعا منقول ہے یا خود علمائے کرام نے اسے مرتب کیا ہے؟ اس بارے میں عرض ہے کہ علم حدیث کے ماہر اور اخبار ائمہ(ع)کے جمع کرنے والے اجل عالم، محدث ناقد و بابصیرت اور ہمارے استاد محدث اعظم الحاج مولانا میرزا حسین نوری (ہ خدا انکے مرقد کو روشن کرے۔) کا فرمان ہے کہ معروف دعاء عدیلہ بعض علماء کی وضع کردہ ہے، یہ کسی امام (ع) سے نقل نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ حدیث کی کتابوں میں پائی جائی ہے۔ لیکن واضح رہے کہ شیخ طوسی(علیہ الرحمہ) نے محمد بن سلیمان دیلمی سے روایت کی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع)کی خدمت میں عرض کیا کہ بعض شیعہ بھائیوں کا کہنا ہے کہ ایمان کی دو قسمیں ہیں، یعنی ایک محکم و ثابت اور دوسرا عارضی و امانتی جو زائل ہوسکتا ہے۔ پس آپ مجھے کوئی ایسی دعا تعلیم فرمائیں کہ جسکے پڑھنے سے میرا ایمان قائم و ثابت رہے اور زائل نہ ہونے پائے۔ اس پر آپ (ع)نے فرمایا کہ ہر واجب نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرو۔
رَضِیتُ بِاللهِ رَبّاً وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ نَبِیّاً وَبِالْاِسْلامِ دِیناً، وَبِالْقُرْآنِ کِتاباً
میں راضی ہوں اس پر کہ الله میرا رب اور حضرت محمد میرے نبی ہیں اسلام میرادین ہے قرآن میری کتاب ہے
وَبِالْکَعْبَةِ قِبْلَةً وَبِعَلِیٍّ وَ لِیّاً وَ إِماماً وَبِالْحَسَنِ والحسین و علی ابن الحسین و محمد بن ِ
کعبہ میرا قبلہ ہے اور اضی ہوں اس پر کہ علی (ع) میرے مولا اور امام ہیں نیز حسن (ع) و حسین (ع)، علی (ع) ابن حسین (ع) ، محمد(ع) ابن
علی و جعفر ابن محمد وَمُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ وَعَلِیِّ بْنِ مُوسی وَمُحَمَّدبْنِ عَلِیٍّ وَعلی بن
علی (ع)، جعفر (ع) ابن محمد(ع) ، موسیٰ (ع) ابن جعفر(ع) ، علی (ع) ابن موسیٰ (ع)، محمد (ع) ابن علی(ع) ، علی (ع) ابن محمد(ع) ، حسن (ع) ابن علی (ع)،
مُحَمَّدِ وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَالْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُ اللهِ عَلَیْھِمْ أَئِمَّةً اَللّٰھُمَّ إِنِّی
اور حجت(ع) بن حسن(ع) کہ ان پر اللہ کی رحمتیں ہوں میرے امام ہیں اے معبود میں راضی ہوں
رَضِیتُ بِھِمْ أَئِمَّةً فَارْضَنِی لَھُمْ إِنَّکَ عَلی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ۔
کہ وہ میرے امام (ع) ہیں پس انہیں مجھ سے راضی فرمادے بے شک توہر چیز پرقادر ہے
No comments:
Post a Comment